- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کے ساتھ لفظ "امام " لگانا
ـــــــــــــــــ
علامہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
ـــــــــــــــــ
علامہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
سوال نمبر 6: ایک طرف لفظ امام اسے انکار اور صرف حضرت حسین پر اصرار اور دوسری طرف ابن تیمیہ کو نہ صرف امام بلکہ "شیخ الاسلام ابن تیمیہ” تحریر کرنا ابن تیمیہ کی "امام” حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کون سی فوقیت اور دلیل شرعی پر مبنی ہے ؟”
جواب نمبر6: افسوس ہے کہ اس سلسلے میں مدیر موصوف نے ہماری گزارشات کو غور سے نہیں پڑھا، اگر وہ ایسا کر لیتے تو ان کے قلم سے اس سطحیت کا اظہار نہ ہوتا جو ان کے سوال سے عیاں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے ہم اپنی وہ وضاحت نقل کر دیں جس پر یہ سوال وارد کیا گیا ہے ہم نے لکھا تھا۔
” اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا سوچے سمجھے "امام حسین علیہ السلام” بولتی ہے حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام” کا لفظ بولنا اور اسی طرح "رضی اللہ عنہ” کے بجائے "علیہ السلام” کہنا بھی شیعیت ہے۔ ہم تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عزت و احترام کے لیے "حضرت” کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہم۔ ہم کبھی "امام ابو بکر صدیق، امام عمر” نہیں بولتے۔ اسی طرح ہم صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے بعد "رضی اللہ عنہ” لکھتے اور بولتے ہیں۔ اور کبھی "ابو بکر صدیق علیہ السلام یا حضرت عمر علیہ السلام” نہیں بولتے، لیکن حضرت حسین کے ساتھ "رضی اللہ عنہ” کے بجائے ” علیہ السلام” بولتے ہیں۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے ؟ دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے اس لیے یاد رکھیے کہ چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ "امامت” کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزد اور معصوم ہوتا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں، اس لیے ان کے لیے "امام” کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے "علیہ السلام” لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک صحابی ٔ رسول ہیں "امام معصوم” نہیں، نہ ہم شیعوں کی امامت معصومہ کے قائل ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابۂ کرام کی طرح "حضرت حسین رضی اللہ عنہ ” لکھنا اور بولنا چاہیے۔ "امام حسین علیہ السلام” نہیں۔ کیونکہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔”
(الاعتصام ۱۱ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ)
اتنی صراحت و وضاحت کے بعد بھی مدیر موصوف کا عدم اطمینان ناقابل فہم ہے اگر وہ اس فرق کی کچھ توضیح کر دیتے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام” نہ لکھنے سے تو ان کی توہین نہیں ہوتی لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام” نہ لکھنے سے ان کی توہین ہو جاتی ہے۔ تو ہم اپنے موقف پر نظر ثانی کر لیتے۔ یہ عجیب انداز ہے کہ ہمارے دلائل کا کوئی جواب بھی نہیں اور اسی طرح اپنے دلائل کا اظہار بھی نہیں لیکن پھر بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کا بچکانہ اعتراض۔ ع
تمہی کہو یہ انداز "تحقیق” کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخوذ از کتاب "رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا"
جواب نمبر6: افسوس ہے کہ اس سلسلے میں مدیر موصوف نے ہماری گزارشات کو غور سے نہیں پڑھا، اگر وہ ایسا کر لیتے تو ان کے قلم سے اس سطحیت کا اظہار نہ ہوتا جو ان کے سوال سے عیاں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے ہم اپنی وہ وضاحت نقل کر دیں جس پر یہ سوال وارد کیا گیا ہے ہم نے لکھا تھا۔
” اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا سوچے سمجھے "امام حسین علیہ السلام” بولتی ہے حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام” کا لفظ بولنا اور اسی طرح "رضی اللہ عنہ” کے بجائے "علیہ السلام” کہنا بھی شیعیت ہے۔ ہم تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عزت و احترام کے لیے "حضرت” کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہم۔ ہم کبھی "امام ابو بکر صدیق، امام عمر” نہیں بولتے۔ اسی طرح ہم صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے بعد "رضی اللہ عنہ” لکھتے اور بولتے ہیں۔ اور کبھی "ابو بکر صدیق علیہ السلام یا حضرت عمر علیہ السلام” نہیں بولتے، لیکن حضرت حسین کے ساتھ "رضی اللہ عنہ” کے بجائے ” علیہ السلام” بولتے ہیں۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے ؟ دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہو گیا ہے اس لیے یاد رکھیے کہ چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ "امامت” کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزد اور معصوم ہوتا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں، اس لیے ان کے لیے "امام” کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے "علیہ السلام” لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک صحابی ٔ رسول ہیں "امام معصوم” نہیں، نہ ہم شیعوں کی امامت معصومہ کے قائل ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابۂ کرام کی طرح "حضرت حسین رضی اللہ عنہ ” لکھنا اور بولنا چاہیے۔ "امام حسین علیہ السلام” نہیں۔ کیونکہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔”
(الاعتصام ۱۱ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ)
اتنی صراحت و وضاحت کے بعد بھی مدیر موصوف کا عدم اطمینان ناقابل فہم ہے اگر وہ اس فرق کی کچھ توضیح کر دیتے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام” نہ لکھنے سے تو ان کی توہین نہیں ہوتی لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام” نہ لکھنے سے ان کی توہین ہو جاتی ہے۔ تو ہم اپنے موقف پر نظر ثانی کر لیتے۔ یہ عجیب انداز ہے کہ ہمارے دلائل کا کوئی جواب بھی نہیں اور اسی طرح اپنے دلائل کا اظہار بھی نہیں لیکن پھر بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کا بچکانہ اعتراض۔ ع
تمہی کہو یہ انداز "تحقیق” کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخوذ از کتاب "رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا"