مسلمان کی تکفیر کرنا کس کا حق ہے ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد۔
کسی پر کفر کا یا فسق کا حکم لگانا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے، کیونکہ کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا احکام شرعیہ میں سے ہے، جس کا مرجع قرآن و سنت ہے، لہذ اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے- کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر کسی کو کافر یا فاسق نہیں کہا جاسکتا-
جو مسلمان ظاہری طور پر عادل ہو، اس کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اسے اس وقت تک عادل اور مسلمان ہی سمجھا جائے گا، جب تک کسی شرعی دلیل سے اس کے اسلام اور عدالت کی نفی ثابت نہ ہو جائے- جب نفی ثابت ہوجائے گی تو پھر اسے کافر اور فاسق قرار دینے میں چشم پوشی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس سے دو ممنوع کام لازم آتے ہیں-
ایسے شخص پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے ،جس کے بارے میں یہ حکم کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اللہ تعالی کے ذمہ جھوٹ لازم آئے گا، اور اس شخص پر بھی جھوٹ لازم آئے گا جس پر یہ حکم لگایا گیا ہے، وہ اس حکم کا مستحق نہیں، تو لگانے والا خود اس میں واقع ہوجائے گا-
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" اذا کفر الرجل اخاہ فقد باء بھا احدھما"
جب ایک آدمی دوسرے کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے ایک کافر ہوجاتاہے-
صحیح بخاری 6104و مسلم 111
مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں:
ان کان کما قال والا رجعت علیہ"
جس پر حکم لگایا گیا ہے، اگر وہ اس کا مستحق ہے ، تو ٹھیک ہے ورنہ حکم لگانے والا خود کافر ہوجائے گا-
صحیح مسلم میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
ومن دعا رجلا بالکفر او قال عدواللہ ولیس کذلک الاحار علیہ"
جس نے کسی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہ کر بلایا، مگر وہ ایسا نہیں ہے تو یہ حکم لگانے والے پر لوٹ جائے گا-
(صحیح مسلم 112)
یہاں ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہےکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام میں تکفیر بالکل ممنوع یا حرام ہے ۔
کیونکہ شریعت کی رو سے بہت سے ایسے اقوال و اعمال ہیں جن کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔
مسئلہ تکفیر پر ہماری گفتگو کا اصل منشاء و سبب یہ ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ ظلمِ عظیم بپا ہو چکاہے کہ بعض جاہل ،مبادیات دین سے نا بلد ،گلی ، بازاروں میں کفرو شرک کے فتوے لگا کر مسلمانوں کی عزت و آبرو اورجان و مال کو حلال قرار دے رہے ہیں، دراصل ایسے لوگوں کو متنبہ کرنا مقصودہے ۔ یہ ان کا منصب نہیں اور نہ وہ اس کے اہل ہیں ۔اس قضیہ کو اس طرح سمجھ لیں کہ مثلا ایک گھر میں بجلی کی وائرنگ ہو ئی جس کے نتیجہ میں مختلف الیکٹرونک اشیاء اپنا کام کرتی ہیں لیکن اچانک سرکٹ شارٹ ہو جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ اب یہ دیکھنا کہ یہ سرکٹ کی خرابی کے سبب کیا سارے گھر کی وائرنگ تباہ ہو گئی یا کچھ باقی یا ساری محفوظ ،یہ فیصلہ کس نے کرنا ہے اور کس کی بات معتبر ہو گی ؟
ایک ماہر الیکٹریشن کی یا ہر نتھو پھتّو کی ۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی آدمی کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے تو اس کو تنبیہ و اصلاح تو ہماری ذمہ داری ہے اس کے کا فر یا غیر کافر ہونے کا فیصلہ ہمار ا کام نہیں ،لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں استخراجی منطق سے کام لیا جاتا ہے جو یونانیوں کا طریقہ تھا۔ مثال کے طور پر انہوں ( یونانیوں ) نے ایک کالے رنگ کی بھینس دیکھی تو یہ دعوی کر دیا کہ دنیا کی سب بھینسیں کالے رنگ کی ہوتی ہیں یہی استخراجی رویہ آج شرعی رویہ کی جگہ پر لیا جاتا ہے حکمرانوں اور عوام کے بارے میں حالا نکہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ دنیا میں کوئی بھینس کالے رنگ کی نہ ہو یعنی بھورے رنگ کی بھی ہو سکتی ہے ۔
ہمارے ہاں عام طور پر معاشرے میں اسی منطق سے کام لے کر مسلمانوں کی تکفیر کی جاتی ہے جبکہ یہ کام عوام اور عام مبتدی اہل علم کا نہیں کیونکہ یہ اجتہادی کا م ہے جس میں اقوال اور اعمال کی شرعی حیثیت کو پرکھنا اور پھر قائل اور فاعل میں اس کا ثبوت ، پھر ان تمام شروط و موانع کا جائزہ لینا جو کہ باوجود کسی کفریہ قول یا فعل کے مسلمان پر سے حکمِ کفر کو ساقط کر دیں گے اور ظاہر ہے یہ کام درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء اور قاضیوں کی ایک جماعت ہی کر سکتی ہے ہر ایرے غیرے ،علم و حکمت سے عاری شخص کو اس کی اجازت نہیں ، اسی لئے اہل علم کا یہ کہنا ہے :
جو حضرات مستند اہل علم میں سے نہ ہو ں اور پھر بھی تکفیر کرتے ہوں تو عوام الناس کے لئے ایسے تکفیری حضرات کے ساتھ بیٹھنا بھی حرام ہے ۔
جیسا کہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن جبرین فرماتے ہیں :
[کما انہ یجب علی مسلم ان یجتنب مجالسۃ الذین یتکلمون فی مسئلۃ التکفیر و ھم ممن یحرم علیھم ذالک لقلۃ علمھم]
’’اسی طرح ایک مسلمان پر واجب ہےوہ ان لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھے جو تکفیر ی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں حالانکہ ان کے کم علم ہونے کی وجہ سے ان کیلئے اس موضو ع پر بحث کرنا حرام ہے ۔‘‘
فتنہ باز لوگوں کی مجالس سے اجتناب :
اسماء بن عبیدہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
گمراہ کن نظریات کے حامل دو شخص امام ابن سیر ین رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے ان میں سے ایک آدمی نے کہا :
اے ابو بکر (ابن سیرین ) میں تجھے ایک حدیث سناؤں ؟
امام ابن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: نہیں!
پھر ان دونوں نے کہا :
ہم آپ کو قرآن کی ایک آیت پڑھ کر سنائیں؟
امام ابن سیرین ؒنے پھر فرمایا :نہیں!
اس کے بعد امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا :
تم دونوںمیرے پاس سے اٹھ جا ؤ یا پھر میں چلاجاتاہوں۔ پس دونوں آدمی چلے گئے۔
کچھ لوگوں نے ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا:
اے ابو بکر! و ہ قرآن کی آیت ہی پڑھ کر سنانا چاہتے تھے ۔ اور اس میں کوئی حرج کی بات تو نہ تھی۔
امام ابوبکر ابن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’مجھے خطرہ تھا کہ وہ قرآن مجید کی آیت پڑھ کر اس کی غلط تفسیر کریں گے اور وہ ( کہیں ) میرے دل میں ( نہ )بیٹھ جائے‘‘ ۔
( سنن دارمی رقم 411، الشریعہ للآجری ص62 ابن الوضاح فی البدع رقم 150( اسنادہ صحیح ) )
اللہ تعالی کسی انسان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ،
اسی طرح قیامت والے دن ہم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے کتنے مسلمانوں کی تکفیر یا نہیں ، کیونکہ ہمیں دنیا میں اس کام کا مکلف ہی نہیں بنایا گیا۔اللہ ہمیں دین مبین کہپ جس کی راتیں دن کی طرح روشن ہیں کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے اور فتنہ تکفیر و تفجیر سے محفوظ فرمائے۔ آمین