• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابوبکر البغدادی کی اتحادی حملے میں زخمی ہونے کی اطلاع

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نہیں میں نے تا حال بیعت نہیں کی کیونکہ ابھی تک میرے علاقے میں ان کا والی نہیں آیا ھان میں بیعت کیلئے تیار ہوں جیسے ہی موقعہ ملے گا ان کی سلطنت ھم تک پہچے گی یا اللہ ھمیں وھاں لے جائے باقی میں ان کو ہی مسلمانوں کا حاکم مانتا ہوں مرتد اور کافر مسلمان کے حاکم نہیں ہو سکتے جو کچھ بھی ہو جائے ویسے بھی ہر ایک شخص کا بیعت کرنا ضروری نہیں
بھائی آپ اس لیکچر کو ضرور سنیں شیخ ابو ذید ضمیر حفظہ اللہ نے بہت پیارا بیان کیا ہے خاص طور پر آج کے پر فتن دور میں



 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نہیں میں نے تا حال بیعت نہیں کی کیونکہ ابھی تک میرے علاقے میں ان کا والی نہیں آیا ھان میں بیعت کیلئے تیار ہوں جیسے ہی موقعہ ملے گا ان کی سلطنت ھم تک پہچے گی یا اللہ ھمیں وھاں لے جائے باقی میں ان کو ہی مسلمانوں کا حاکم مانتا ہوں مرتد اور کافر مسلمان کے حاکم نہیں ہو سکتے جو کچھ بھی ہو جائے ویسے بھی ہر ایک شخص کا بیعت کرنا ضروری نہیں
کیا تمام مسلمانوں ملکوں کے حکمران کافر ہے ؟؟؟؟؟؟؟

@ابوالحسن علوی
@انس

آپ کی توجہ چاھیے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
پرفتن دور میں مسلمانوں کا منہج !!!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ إمام الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین ‏ومن تبعھم إلی یوم الدین
امابعد

دنیا اپنے خاتمے کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے اور اس کا ہر آنے والا زمانہ، گزرے ہوئے زمانے کی نسبت زیادہ مصیبتوں ، مشکلات اور آزمائشوں کا ہوگا۔ اسلام ایک کامل دین ہے اور اپنے ماننے والوں کو ہر دور میں مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اور جو جو قیامت قریب آتی جائے گی، آزمائشیں ، مشکلات خرابیاں بڑی تیزی کے ساتھ پھیلیں گی۔ اور اس بارے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو پہلے سے ہی خبردار کردیا ہے۔

قرب قیامت آنے والے فتنے اتنے شدید اور خوشنماء ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا کہ "جو بھی ان فتنوں میں جھانکے گا یہ اس کو اپنے اندر کھینچ لیں گے"۔ صحیح مسلم

یعنی ایک طرف کسی فتنے میں ارادے سے شامل ہونے والے لوگ تو دوسری جانب ایسے بھی ہوں گے جو محض فتنوں کی خوشنمائی کی وجہ سے اور شور و غوغا سن کر محض تجس سے اسکی طرف متوجہ ہوں گے، وہ بھی اس میں گر جائے گے۔
لا الہ الا اللہ۔

اور جو بھی شخص فتنوں کی تاب نہ لاسکا اور اسکا شکار ہوگیا تو یقینا وہ ان فتنوں کے ہاتھوں اپنی دنیا و آخرت کی تباہی کا سامان کر چکا۔ فتنے اتنے شدید ہوں یا شدید سے شدید تر ہوتے جائے گے کہ ان میں غیر جانبدار رہنا یا بچ جانے کا کوئی راستہ انسان کو نہیں سمجھ آئے گا۔

ایک طرف جان کا فتنہ حرج ، باہمی قتل و غارت اور بغاوتوں کی شکل میں تو دوسری جانب مال کا فتنہ غصب، حوس چھینا جھپٹی کی صورت میں ۔ ایک جانب بے حیائی کے فتنے کی تبا کاریاں تو جانب سود کے دھوئیں سے متاثرہ معاشرے وغیرہ وغیرہ۔۔ فتنے تو اتنے زیادہ ہیں کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہزاروں نئے سے نئے جنم لے رہے ہیں کہ جن احاطہ ممکن نہیں۔

مگر کیا اسلام ہمیں فتنوں کے دور میں ان خطرناک فتنوں سے بچنے ، اجتناب کرنے اور اپنی دنیا و آخرت کو محفوظ بنانے کے بارے آگاہی دیتا ہے، رہنمائی کرتا ہے؟

جی ہاں اسلام کا یہ وصف ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی مکمل زندگی میں ایک رہنماء کی حیثیت رکھتا ہے۔آیئے اب ہم یہاں صرف چند ایسے کاموں اور امور کا جائزہ لیتے ہیں کہ جن کا فتنوں کے دور میں اسلام ایک مسلمان سے تقاضہ کرتا ہے۔ اور جن پر عمل پیرا ہو کر ہی مسلمان فتنوں سے اور دنیاو آخرت کی تباہی سے بچ سکتا ہے


پُر فتن دور میں کرنے کے کام

آئیے پُر فتن دور میں کرنے کے چند کاموں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کی پابندی ایک عام مسلمان کے لئے ازحد ضروری ہے تا کہ وہ قُرب قیامت فتنوں سے محفوظ رہ سکے۔


دانائی سے کام لیں:

جب فتنے ظاہر ہونے لگیں یا حالات بدلنے لگیں تو ایسے نازک حالات میں نرمی و بردباری اور دانائی سے کام لیں اور جلد بازی نہ کریں۔ نرمی اس بنیاد پر کہ نرمی ایسی چیز ہے جس میں پائی جائے اس کو عمدہ بناڈالتی ہے اور جس چیز سے نکال لی جاتی ہے اس کو عیب دار بنادیتی ہے۔ سارے کاموں میں نرمی کا خیال رکھیں، رحم دلی سے پیش آئیں، غصہ والے نہ بنیں۔

دانائی اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ عبدالقیس کے اشجع نامی آدمی سے کہا تھا:

’’تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں، بردباری اور دانشمندی‘‘ دانشمندی و دانائی عمدہ خصلت ہے ۔

فتنے کے لمحات اور بدلتے حالات کے وقت بردباری قابل ستائش ہے کیونکہ بردباری کے ذریعے ہر چیز کی اصلیت و حقیقت تک پہنچا جاسکتا ہے۔


غوروفکر کے بعد ہی حکم لگائیں:

فتنہ کے ظہور اور حالات کے بدلتے وقت بغیر سوچے سمجھے آپ کسی چیز کے بارے میں حکم نہ لگائیں اس قاعدہ پر عمل کرتے ہوئے کہ ’’کسی چیز پر حکم لگانا اس پر غوروفکر کرنے کے بعد ہوا کرتا ہے‘‘


اللہ تعالی کا فرمان ہے :

( ولاتقف مالیس لک بہ علم﴾ (سورہ اسراء: 63)

’’جس بات کی تجھے خبر ہی نہیں اس کے پیچھے مت پڑ‘‘


یعنی ایسا معاملہ جس کو آپ نہیں جانتے ، اس کا پاس وخیال نہ ہو اور نہ ہی آپ کے پاس اس بارے میں کوئی ثبوت ہو تو اس سلسلے میں بات کرنے سے بچیں، چاہے آپ اس میں لیڈر بنیں ۔


عدل وانصاف کوملحوظ رکھیں:

تمام کاموں میں عدل وانصاف کو لازم پکڑیں۔


اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿واذ قلتم فاعد لو اولوکان ذاقربیٰ﴾ (الانعام)

’’اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو،گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو۔‘‘

اور فرمان الہی ہے:

﴿ولا یجر منکم شنأن قوم علی ان لا تعد لوا اعدلو اھو اقراب للتقوی ﴾

’’کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کردے،عدل کیا کروجو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (المائدۃ)


اس کا معنی یہ ہے کہ آپ جس سے محبت کرتے ہیں اور جس سے محبت نہیں کرتے دونوں کو ایک میزان وکسوٹی پر رکھ کر پرکھیں اور اس کے بعد حکم لگائیں۔


جماعت کولازم پکڑیں:

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

(وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران : 103)

’’اوراللہ تعالی کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ۔‘‘


اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[ علیکم بالجماعہ وایاکم والفرقۃ ]

’’جماعت کو لازم پکڑو اوراختلاف سے بچو۔‘‘

( ابو داؤد ، الترمذی ، کتاب الفتن ، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ)
حضرت عثمان رضى الله عنه منیٰ میں اتمام کرتے تھے جبکہ سنت یہ ہے کہ نمازی منیٰ میں ہر چار رکعت والی نماز کو دو دو رکعت پڑھے، حضرت عثمان رضى الله عنہ شرعی تاویل کی بناءپر چار رکعت ہی پڑھتے رہے ،اس کے باوجود حضرت

عبداللہ بن مسعود رضى الله عنه کہا کرتے تھے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے کہ ہرچار رکعت والی نماز دورکعت ہی پڑھی جائے۔
ان سے پوچھا گیا :
آپ یہ کہتے ہیں اور حضرت عثمان رضى الله عنه کے ساتھ چار رکعت پڑھتے ہیں آخرکیوں؟
تو انہوں نے فرمایا:”اختلاف بری بات ہے۔
(سنن ابوداود)

اور ایسا ان کے شرعی قاعدہ کو سمجھنے کی وجہ سے ہوا کیونکہ جو اس کےبرخلاف کرے گا اسکے اور دوسروں کے فتنہ میں پڑنے سے مامون نہیں رہا جاسکتا۔


شرعی میزان پر پرکھیں:

وہ جھنڈے جو فتنہ میں اٹھائے جاتے ہیں خواہ وہ دعاةکے ہوں یاملکوں کے، ضروری ہے کہ مسلمان ان کو صحیح کسوٹی پر وزن کریں۔

آپ دیکھیں کہ اس میں خالص اللہ تعالی کی عبادت وبندگی ہے یا نہیں ؟ رسالت محمدی کی گواہی پوری کی جاتی ہے یانہیں؟اوراس گواہی کا تقاضا ہے کہ شریعت مصطفوی کے مطابق فیصلہ کیا جائے ۔ کسوٹی پر پرکھنے کے بعد آپ پر لازم ہے کہ آپ کی محبت اس میزان کے لیے ہو جو صحیح طور پر اسلام کو بلندو بالا کرتا ہے ، پھرآپ ایسے لوگوں کو مخلصانہ نصیحت کریں۔

جب یہ میزان مشتبہ ہوجائے تو اس سلسلے میں مرجع علماء ہوں گے کیونکہ وہی لوگ صحیح شرعی حکم جانتے ہیں۔

فضیل بن عیاض رحمه الله اپنے وقت میں حکمران کے لیے بہت دعا کرتے تھے، ان سے کہا گیا کہ آپ ان کے لیے اپنے سے زیادہ دعا کرتے ہیں؟ فرمایا :ہاں کیونکہ اگر میں درست رہا تو میری درستگی اپنے لیے اور اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے ہوگی ، رہی سلطان کی درستگی تو وہ عام لوگوں کے لیے ہوگی۔


قول وعمل میں چوکس رہیں:

فتنے کے وقت گفتاروکردارکے کچھ الگ ہی ضابطے ہوتے ہیں چنانچہ ہروہ بات جو آپ کو اچھی لگے، اسے کہہ ڈالنا یا ہر
وہ کام جو اچھا لگے، اسے کر گزرنا مناسب نہیں، کیونکہ فتنے کی گھڑیوں میں ایسا کرنے سے متعدد مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه فرماتے ہیں :

’’میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے دو بھرے برتن کے مانند حدیثیں یاد کیں (یعنی دوقسم کا علم سیکھا) جن میں سے ایک کو میں نے عام کردیا اور اگر دوسرے کوعام کرتا تو میری گردن کاٹ دی جاتی۔‘‘ (صحیح بخاری)

علماءکا کہنا ہے کہ اس سے مراد ایسی حدیثیں ہیں جو فتنے اور بنو امیہ وغیرہ سے تعلق رکھتی تھیں،شرعی احکام سے متعلق نہ تھیں ۔اورحضرت ابوہریرہ رضى الله عنه نے یہ بات حضرت معاویہ رضى الله عنه کے زمانے میں کہی جبکہ لوگ گھمسان کی لڑائی اورجنگ وجدال کے بعد ان کے سایہ تلے اکٹھے ہوچکے تھے، انہوں نے انہیں اس لیے چھپا لیا تاکہ لوگ جدائی کے بعد حضرت معاویہ رضى الله عنه پر جو یکجا ہوچکے تھے پھر لڑنے بھڑنے نہ لگیں۔

اسی لیے حضرت ابن مسعود رضى الله عنه فرماتے ہیں:

’’آپ لوگوں سے کوئی ایسی بات نہ کریں جو ان کی سمجھ سے باہر ہو کیونکہ وہ ان کے لیے فتنہ کا سبب ہو گی‘‘

فتنےکی گھڑیوں میں لوگ بات کواچھی طرح سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں،لہذا ہر وہ بات جو معلوم ہے‘ نہیں کہنی چاہیے ، زبان پر لگام لگانا ضروری ہے، کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کی بات پر کیسے اثرات مرتب ہونگے؟آپ کی رائے کیا رنگ لائے گی؟ سلف صالحین رحمہم اللہ اپنے دین کی سلامتی کے پیش نظر ،فتنوں کے وقت بہت سارے مسائل میں خاموش رہے تاکہ اللہ سے امن وسلامتی کے ساتھ ملیں۔

صحیح بخاری کی روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:

’’اگر تمہاری قوم کے لوگ کفر سے قریب نہ ہوتے(یعنی نئے نئے مسلمان) تو کعبہ کو ڈھاکراس کو قواعد ِابراہیمی پربناڈالتا اور اس میں دو دروازے لگا دیتا۔‘‘

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کفارِقریش جو نئے نئے اسلام لائے ہیں کعبہ کو توڑکر اسکو قواعدِابراہیمی پر بنانے اور اس میں دو دروازے لگانے (ایک سے داخل ہواجائے اور دوسرے سے نکلا جائے)سے ایسا نہ ہو کہ لوگ غلط سمجھ لیں یا یہ سمجھ لیں کہ آپ فخر کرنا چاہتے ہیں یا آپ دینِ ابراہیمی کی بے حرمتی کرنا چاہتے ہیں یا کچھ اور خیال کربیٹھیں اس لیے آپ نے اسکو چھوڑدیا۔

نیک اعمال کا التزام و اہتما م :

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔

’’بادروا بالاعمال فتنا کقطع الیل المظلم ۔۔۔۔الخ‘‘
(رواہ مسلم)

’’لوگو! سخت سیا ہ رات کی طرح گھنے فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو ( کیونکہ وہ فتنے اتنے خطر ناک ہوں گے کہ ) صبح کے وقت بندہ مؤمن ہو گا تو شام تک کافر ہو جائے گا اگر شام کو مؤمن ہو گا تو صبح تک کافر ہو جائے گاآدمی دنیا کے معمولی مفاد کے عوض اپنا دین بیچ دے گا ۔ ‘‘


کثرت سے اللہ کی عبادت کا اہتمام :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’العبادۃ فی الھرج کا لھجرۃ الی۔۔۔۔‘‘

’’قتل و غار ت کے دور میں عبادت کرنا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرنے کے مترادف ہے ۔ ‘‘
( صحیح مسلم رقم 2948) ( الشریعہ لآجری ص49 رقم 82)


فتنوں کے ایام میں مسلمان کے خلاف زبان اور ہاتھ کو روک لینا :

سیدنا علی اور امیر معاویہ کے درمیان ہونے والی جنگوں کے موقع پر سیدناعلی ایک صحابی (احبان بن صیفی الغفاری)کے پاس آئے اور کہا کہ میرے ساتھ میدان جنگ میں چلو۔
اس صحابی نے کہا:
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فتنوں کے دور میں تم لکڑی کی تلوار بنا لینا ( اور اب جبکہ دو مسلمان گروہ باہم برسرپیکار ہیں ) اور میرے پاس لکڑی کی تلوار ہی ہے، اگراسی طرح پسند کرتے ہیں تو چل پڑتا ہو ں۔
سیدنا علی اس کو چھوڑ کر چلے گئے ۔
(الجامع الصحیح سنن ترمذی ، باب ماجاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنۃ عن عدیشۃ بنت اھبان بن صیفی الغفاری)


کسی مسلمان شخص یا جماعت یا ادارہ کی تکفیر سے اجتناب کرنا:

اگر آپ کو کسی شخص کے بارے میں کسی بات یا عمل کا علم ہوتا ہے تو آپ اس شخص یا ادارہ یا جماعت پر کفر کا حکم لگانے کی بجائے اس کے کفر یہ قول یا فعل پر حکم رکھیں ۔کہ اس کا فلاں کام یا بات کفر یہ یاشرکیہ ہے یعنی حکم عمل پر رکھیں، افراد پر نہیں! یہ سب سے محتاط انداز ہے اور اس معیّن شخص وغیرہ کی تکفیر سے اجتناب کریں ۔کیونکہ یہ آپکے ذمے نہیں !


فتنہ پرور لوگوں کی محافل سے کلی اجتناب:

کم علم تکفیری اورگمراہ کن نظریا ت کے حامل لوگوں کی مجالس اور ان کے ساتھ بحث سے اجتناب کرنا جیسا کہ سابقہ تحریر میں امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے حوالہ سے گزر چکا ہے ۔

آخر میں ہم دعا گوہیں کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس تباہ کن فتنوں سے محفوظ فرمائے اور اگر کسی مسئلہ کی سمجھ میں دشواری ہو تو اسے علماء سے رجوع کرتے ہوئے سلف صالحین کے فہم پر موقوف کریں تا کہ معاملے کی اصلیت کو پہچان سکیں اور سیدھی راہ پر چلتے رہیں ۔


اللہ ہمیں زندہ اسلام پر رکھے اور کفار کے خلاف لڑتے ہوئے شہادت کی موت نصیب فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نہیں میں نے تا حال بیعت نہیں کی کیونکہ ابھی تک میرے علاقے میں ان کا والی نہیں آیا ھان میں بیعت کیلئے تیار ہوں جیسے ہی موقعہ ملے گا ان کی سلطنت ھم تک پہچے گی یا اللہ ھمیں وھاں لے جائے باقی میں ان کو ہی مسلمانوں کا حاکم مانتا ہوں مرتد اور کافر مسلمان کے حاکم نہیں ہو سکتے جو کچھ بھی ہو جائے ویسے بھی ہر ایک شخص کا بیعت کرنا ضروری نہیں

تکفیر کے اصول و ضوابط (حصہ اول- تمہید)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين أما بعد!

فأعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه

مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [النحل : 106]

آج کل ہمارے ایک فتنہ بہت زیادہ سر اُٹھائے ہوئے ہے جسے ہم فتنہ تکفیر کا نام دیتے ہیں۔اور اس میں ملوث جو لوگ ہیں وہ ان تمام تر لوگوں کی معینا تکفیر کرتے ہیں جن پر مطلقاتکفیر کا شائبہ پایا جاتا ہے یا حکم پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی آدمی نے کلمہ کفر کہہ دیا تو فوراً اس کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ یا کوئی آدمی ایسے گروہ کے ساتھ شامل ہوگیا کہ جس گروہ پر عمومی طور پہ کفر کا حکم لگایا جاتا ہے ، مثال کے طور پر کافروں کی اعانت، کا فروں کی مدد کرنے میں کوئی آدمی ملوث ہے تو یہ لوگ اس گروہ اور اس جماعت کے ایک ایک فرد پر تکفیر کا حکم لگا دیتے ہیں، اس کے مال کو حلال سمجھتے ہیں، اس کے خون اور عزت کو حلال سمجھتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے نماز ادا کرنے کےلیے تیار نہیں ہوتے بلکہ اس کو خارج از ملت اسلام قرار دے دیا جاتا ہے۔

حالانکہ کسی آدمی کو کافر قراردینا یا کسی آدمی کو مسلمان قرار دینا ، یہ حقیقتاًبہت بڑی ذمہ داری ہے، اور کسی آدمی کو کافر قرار دینے کا معنی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اس آدمی کی عزت ، مال، جان کو ہمارے لیے مباح اور حلال کردیا ہے، اور اس کے خلاف قتل وقتال کرنا جائز ہوگیا ہے۔ اور اگر وہ بندہ واقعتاً ہی ایسی تکفیر کا مستحق ہو تو اس کو کافر قرار دینے والا حق پر ہے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں ہے کہ اُس ایک فرد معین کو کافر قرار دیا جاسکے، پھر بھی اگر اس کو کوئی کافر قرار دیتا ہے تو کافر قرار دینے والا خود کافر ہوجاتا ہے۔( دلائل ہم آگے ذکر کریں گے، ان شاء اللہ۔)کیونکہ اس بندے نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حق میں مداخلت کی ہے، اس بندے کا حق نہیں تھا کہ کسی کو کافر قرار دیتا ، کسی کو حلال الدم قرارد یتا ، کسی کے مال کو مسلمانوں کےلیے حلال قرار دیتا، یہ حلال قراردے دیتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کو حلال نہیں کیا، یہ اس کو حلال قرار دے رہا ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایک مسلمان کی عزت، اس کی جان ، اس کے مال کو حرام و محترم قرار دیا ہے ، اور یہ کہہ رہا ہے کہ نہیں اس آدمی کی جان ومال حلال ہے۔

یہ بات یاد رہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں اور امام الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ ﷺ نے مطلقاًتکفیر کے احکامات جاری کیے ہیں۔ مثال کے طور پر الله تعالى نے آیت اللہ کا مذاق اڑانے والوں کو کافر قرار دیا ہے کہ ایسا شخص کافر ہوگیا، دائرہ اسلام سے نکل گیا۔ لیکن ایک معین آدمی کا نام لے کر کافر قرار دینا، یہ بہت سارے اصولوں اور قاعدوں کا محتاج ہے۔اس کےلیے بہت سارے اصول اور ضوابط ہیں، ان کو دیکھنا پڑے گا۔ اور ان کو ملحوظ رکھ کر کسی ایک معین آدمی کو کافر قرار دیا جائے گا، اگر وہ اس پر فٹ آتے ہیں، تکفیر کی شرطیں پوری ہوتی ہوں، موانع ختم ہوجائیں، پھر ہم اس کو کافر قرار دیں گے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات بابرکات کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ میں نہیں مانتا، مثلاً ایک آدمی نے کہہ دیا کہ میں اللہ کو نہیں مانتا، تو کیا وہ آدمی کافر ہوگیا ہے ، یہ کہنے سے؟ ظاہراًالفاظ میں تو اس نے انکار کیا ہے، ہم مطلقاًکہیں گے کہ جس آدمی نے کلمہ کفر کہا، وہ کافر ہوگیا، لیکن ایک آدمی مثال کے طور پر عبدالرشید نامی آدمی نے یہ کہہ دیا کہ میں اللہ کو نہیں مانتا ، وہ مسلمان تھا، مؤمن تھا، ایمان اور توحید اس کے اندر متحقق تھے، اب یہ کلمہ کہنے کے بعد وہ کافر ہوا ہے یا نہیں ہوا؟

اس کےلیے ہمیں کچھ اصولوں اور ضابطوں کی ضرورت ہے، جن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں اور امام الانبیاء جناب محمد مصطفی ٰﷺ نے اپنے فرامین مبارکہ میں بیان کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مثلاً امام احمد بن حنبل ہی کو دیکھ لیجئے،

انہوں نے ایک وقت جہمیوں کے ساتھ گزارا، جن جہمیوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو خلق قرآن کے کفریہ عقیدہ کی دعوت دی اور اس کو عوام پر قوت حکمرانی سے نافذ کرتے تھے، اور صفات کی وہ نفی کرتے تھے۔اور امام احمد بن حنبل اور ان کے وقت کے جتنے بھی علماء اہل السنۃ والجماعۃ تھے، ان کو انہوں نے مشقتوں اور فتنوں میں ڈالے رکھا، اور اہل ایمان کو بھی انہوں نے پریشان کیے رکھا، مؤمن مردوں اور عورتوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا اور قتل کیا، اور اسی طرح انہیں عہدوں سے معزول کردیا گیا، اور ستم کے پہاڑ ان پر توڑے گئے۔لیکن اس سب کے باوجود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس خلیفہ کےلیے بھی دعا کی اور ان لوگوں کےلیے بھی دعا کی ، جنہوں نے انہیں مارا تھا، اور قید کیا تھا، ان کےلیے استغفار بھی کی۔ حالانکہ کافر آدمی کےلیے استغفار کرنا جائز نہیں ہے۔ یعنی انہوں نے جہمیوں کے معین افراد کو کافر قرار نہیں دیا ہے۔ یعنی جب کسی معین آدمی کو کافر قرار دیا جائے گا تو وہ اس وقت ہوگا جب اس آدمی کے اندر شروط تکفیر پائی جائیں اور جو موانع ہیں، وہ ختم ہوجائیں۔

اور جو عمومی تکفیر ہے وہ ایک وعید کی طرح ہے۔

جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :

"وَمَن يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً "[الجن : 23]

یعنی جو آدمی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ ابدی جہنمی ہے۔

اب جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کی معصیت ہے یا نہیں ؟ کیا جھوٹ بولنے والا ابدی جہنمی ہوجائے گا؟

خارجیوں کےسوا کوئی بھی جھوٹ بولنے والوں کو ابدی جہنمی نہیں کہتا ۔ خارجی کبیرہ گناہ کے مرتکب کو ابدی جہنمی کہتے ہیں۔ اور کافر ومرتد کہتےہیں ۔

بلکہ اگر اس فکر کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان:

وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً [الجن : 23]

تو صغیرہ گناہوں کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے تو صغیرہ گناہ کا مرتکب بھی ابدی جہنمی ٹھہرتا ہے ۔ لیکن کوئی بھی اسے ابدی جہنمی قرار نہیں دیتا۔ کیوں؟ ماذا جوابکم فہو جوابنا....۔

اس بات کا جو جواب دماغ میں سوجھے گا وہی تکفیر معین اور تکفیر مطلق کے درمیان فرق کے طور پر سمجھ لیجئے گا۔

یعنی مطلقاً یہاں پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو بندہ بھی کوئی معصیت کرے، وہ ابدی ابدی جہنمی ہے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نافرمان ہو، ابدی ابدی جہنمی ہے۔ خالدین بھی کہا اور ابدابھی کہا ہے....!

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے قتل میں کچھ لوگ شریک ہوگئے ہیں، لہٰذا وہ ابدی جہنمی ہوگئے ۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

"وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ [النساء : 93]"

تویہاں پرصرف لفظ "خالدا" بولا ہے۔ او ر معصیت کے زمرے میں "خالدین" بھی بولا ہے اور "ابدا" بھی بولا ہے۔ تاکید کے دو لفظ بولے ہیں، ابد الآباد ہمیشہ ہمیشہ کا جہنمی ہے۔ تو جو جواب مطلق معصیت والے مسئلہ کا سوجھتے ہیں، وہ یہاں بھی لگا لیں۔

بہرحال، مطلق تکفیر کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یا نبی کریمﷺ نے اپنے فرامین میں جو احکامات جاری کیے ہیں وہ ایک وعید کا درجہ رکھتے ہیں۔ جیسے کوئی بھی صغیرہ گناہ ہو یا کبیرہ گناہ، اس کو کہا گیا ہے کہ خالدین فیہا ابدا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا، یہ صرف اس کےلیے وعید ہے ۔

لیکن کوئی خاص فرد معین کسی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوجائے وہ ہمیشہ اس کے اندر رہے گا یا نہیں؟ ہم اس کے اندر وہ ساری شروط دیکھیں گے کہ خلود في النار والی شروط اس میں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ پھر ہم فیصلہ کریں گے۔

بعینہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ہے کہ جس نے فرضی نماز کو جان بوجھ کر چھوڑدیا ، اس نے کفر کیا ۔

اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ

"فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ [التوبة : 11]"

اگر وہ نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں اور اللہ کی توحید پر ایمان لا کر شرک سے توبہ کریں پھر یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔

اب اگر کوئی آدمی نماز کا انکار کرتا ہے یا نماز ادا نہیں کرتا، زکاۃ کا انکار کرتا ہے یا زکاۃ ادا نہیں کرتاتو فی الفور اس کے کفر کا فتویٰ نہیں لگے گا۔ جب تک شروط مکمل نہ پائی جائیں ،اور موانع ختم نہ ہوجائیں۔ اور شروط اور موانع کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قرآن مجید فرقان حمید اور امام الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کے فرامین میں موجود ہے۔

اسی طرح آپ دیکھیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متفق علیہ روایت ہے :

ایک آدمی کی کہ اس نے اپنی اولاد کو حکم دیا کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے وہ جلادیں اور سمندر میں میری خاک کو بہا دیا جائے تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو کھڑا نہ کرسکے، عذاب نہ دے سکے۔ اس نے یہ کام کیوں کیا؟ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے۔ یعنی کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن کھڑے ہوکر حساب کتاب دینے پر اسے یقین تھا کہ اللہ نے مجھے پوچھنا ہے,اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا تھا۔ لیکن اس کے دماغ نے اتنا کام نہیں کیا کہ جو اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد میری لاش کو اُٹھا سکتا ہے ، وہ ان ذروں کو بھی اکٹھا کرسکتا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کا اس نے انکار کردیا کہ اللہ تعالیٰ ان ذروں کو اکٹھا کرکے مجھے دوبارہ کھڑا نہیں کرسکتا۔تو اللہ کی صفت کا منکر ہوا! اور اللہ کی صفات کےمنکر کے بارے میں ہم علی الاطلاق کہتےہیں کہ جو بندہ بھی اللہ کی صفات کا منکر ہے وہ کافر ہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہ حدیث میں واضح ہے۔

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کردیا ۔پوچھا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا؟ اس نے کہا : اللہ! تجھ سے ڈرتے ہوئے کیا۔ اللہ نے اس کو معاف کردیا۔

یعنی کہ اسے آپ اس کی جہالت کہہ لیں کہ اس نے جہالت کی وجہ سے یہ کام کیا تھا، اللہ کی ایک صفت کا فعلاً ، اعتقاداً منکر ہوا ہے لیکن جہالت کی وجہ سےوہ اللہ کی صفت کا ادراک نہیں کرسکا۔

اب ایسے ہی کوئی آدمی کفریہ کام کرلیتا ہے اور اسے اس کی سمجھ نہیں آتی۔جہالت کی وجہ سے کفریہ کام کر بیٹھتا ہے یا اجتہادی خطا کی وجہ سے غلطی کربیٹھے تو بندے کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اس کی تکفیر معین کرنا جائز نہیں ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تو الٹی گنگا بہنا شروع ہے۔انشاء اللہ ہم آئندہ اقساط میں ان اصول و ضوابط کو تفصیلا دیکھیں گے کہ جو کسی مسلمان کی تکفیر معین کے لئے لازم و ضروری ہیں اور انکے التزام کے بغیر مسئلہ تکفیر کی حیثیت فتنہ تکفیر کی بن جاتی ہے اور یہی سے خارجیت کا خوفناک راستہ نکلتا ہے۔۔۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مسلمان کی تکفیر کرنا کس کا حق ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد۔

کسی پر کفر کا یا فسق کا حکم لگانا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے، کیونکہ کسی کو کافر یا فاسق قرار دینا احکام شرعیہ میں سے ہے، جس کا مرجع قرآن و سنت ہے، لہذ اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے- کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر کسی کو کافر یا فاسق نہیں کہا جاسکتا-

جو مسلمان ظاہری طور پر عادل ہو، اس کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اسے اس وقت تک عادل اور مسلمان ہی سمجھا جائے گا، جب تک کسی شرعی دلیل سے اس کے اسلام اور عدالت کی نفی ثابت نہ ہو جائے- جب نفی ثابت ہوجائے گی تو پھر اسے کافر اور فاسق قرار دینے میں چشم پوشی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس سے دو ممنوع کام لازم آتے ہیں-

ایسے شخص پر کفر یا فسق کا حکم لگانے سے ،جس کے بارے میں یہ حکم کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اللہ تعالی کے ذمہ جھوٹ لازم آئے گا، اور اس شخص پر بھی جھوٹ لازم آئے گا جس پر یہ حکم لگایا گیا ہے، وہ اس حکم کا مستحق نہیں، تو لگانے والا خود اس میں واقع ہوجائے گا-

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

" اذا کفر الرجل اخاہ فقد باء بھا احدھما"

جب ایک آدمی دوسرے کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے ایک کافر ہوجاتاہے-

صحیح بخاری 6104و مسلم 111

مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں:

ان کان کما قال والا رجعت علیہ"

جس پر حکم لگایا گیا ہے، اگر وہ اس کا مستحق ہے ، تو ٹھیک ہے ورنہ حکم لگانے والا خود کافر ہوجائے گا-

صحیح مسلم میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:

ومن دعا رجلا بالکفر او قال عدواللہ ولیس کذلک الاحار علیہ"

جس نے کسی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہ کر بلایا، مگر وہ ایسا نہیں ہے تو یہ حکم لگانے والے پر لوٹ جائے گا-

(صحیح مسلم 112)


یہاں ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہےکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسلام میں تکفیر بالکل ممنوع یا حرام ہے ۔

کیونکہ شریعت کی رو سے بہت سے ایسے اقوال و اعمال ہیں جن کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔

مسئلہ تکفیر پر ہماری گفتگو کا اصل منشاء و سبب یہ ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ ظلمِ عظیم بپا ہو چکاہے کہ بعض جاہل ،مبادیات دین سے نا بلد ،گلی ، بازاروں میں کفرو شرک کے فتوے لگا کر مسلمانوں کی عزت و آبرو اورجان و مال کو حلال قرار دے رہے ہیں، دراصل ایسے لوگوں کو متنبہ کرنا مقصودہے ۔ یہ ان کا منصب نہیں اور نہ وہ اس کے اہل ہیں ۔اس قضیہ کو اس طرح سمجھ لیں کہ مثلا ایک گھر میں بجلی کی وائرنگ ہو ئی جس کے نتیجہ میں مختلف الیکٹرونک اشیاء اپنا کام کرتی ہیں لیکن اچانک سرکٹ شارٹ ہو جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ اب یہ دیکھنا کہ یہ سرکٹ کی خرابی کے سبب کیا سارے گھر کی وائرنگ تباہ ہو گئی یا کچھ باقی یا ساری محفوظ ،یہ فیصلہ کس نے کرنا ہے اور کس کی بات معتبر ہو گی ؟

ایک ماہر الیکٹریشن کی یا ہر نتھو پھتّو کی ۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی آدمی کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے تو اس کو تنبیہ و اصلاح تو ہماری ذمہ داری ہے اس کے کا فر یا غیر کافر ہونے کا فیصلہ ہمار ا کام نہیں ،لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں استخراجی منطق سے کام لیا جاتا ہے جو یونانیوں کا طریقہ تھا۔ مثال کے طور پر انہوں ( یونانیوں ) نے ایک کالے رنگ کی بھینس دیکھی تو یہ دعوی کر دیا کہ دنیا کی سب بھینسیں کالے رنگ کی ہوتی ہیں یہی استخراجی رویہ آج شرعی رویہ کی جگہ پر لیا جاتا ہے حکمرانوں اور عوام کے بارے میں حالا نکہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ دنیا میں کوئی بھینس کالے رنگ کی نہ ہو یعنی بھورے رنگ کی بھی ہو سکتی ہے ۔

ہمارے ہاں عام طور پر معاشرے میں اسی منطق سے کام لے کر مسلمانوں کی تکفیر کی جاتی ہے جبکہ یہ کام عوام اور عام مبتدی اہل علم کا نہیں کیونکہ یہ اجتہادی کا م ہے جس میں اقوال اور اعمال کی شرعی حیثیت کو پرکھنا اور پھر قائل اور فاعل میں اس کا ثبوت ، پھر ان تمام شروط و موانع کا جائزہ لینا جو کہ باوجود کسی کفریہ قول یا فعل کے مسلمان پر سے حکمِ کفر کو ساقط کر دیں گے اور ظاہر ہے یہ کام درجہ اجتہاد پر فائز مستند علماء اور قاضیوں کی ایک جماعت ہی کر سکتی ہے ہر ایرے غیرے ،علم و حکمت سے عاری شخص کو اس کی اجازت نہیں ، اسی لئے اہل علم کا یہ کہنا ہے :

جو حضرات مستند اہل علم میں سے نہ ہو ں اور پھر بھی تکفیر کرتے ہوں تو عوام الناس کے لئے ایسے تکفیری حضرات کے ساتھ بیٹھنا بھی حرام ہے ۔

جیسا کہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن جبرین فرماتے ہیں :

[کما انہ یجب علی مسلم ان یجتنب مجالسۃ الذین یتکلمون فی مسئلۃ التکفیر و ھم ممن یحرم علیھم ذالک لقلۃ علمھم]

’’اسی طرح ایک مسلمان پر واجب ہےوہ ان لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھے جو تکفیر ی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں حالانکہ ان کے کم علم ہونے کی وجہ سے ان کیلئے اس موضو ع پر بحث کرنا حرام ہے ۔‘‘

فتنہ باز لوگوں کی مجالس سے اجتناب :

اسماء بن عبیدہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:

گمراہ کن نظریات کے حامل دو شخص امام ابن سیر ین رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے ان میں سے ایک آدمی نے کہا :

اے ابو بکر (ابن سیرین ) میں تجھے ایک حدیث سناؤں ؟
امام ابن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: نہیں!
پھر ان دونوں نے کہا :
ہم آپ کو قرآن کی ایک آیت پڑھ کر سنائیں؟
امام ابن سیرین ؒنے پھر فرمایا :نہیں!
اس کے بعد امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نےفرمایا :
تم دونوںمیرے پاس سے اٹھ جا ؤ یا پھر میں چلاجاتاہوں۔ پس دونوں آدمی چلے گئے۔
کچھ لوگوں نے ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا:
اے ابو بکر! و ہ قرآن کی آیت ہی پڑھ کر سنانا چاہتے تھے ۔ اور اس میں کوئی حرج کی بات تو نہ تھی۔

امام ابوبکر ابن سیرین رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’مجھے خطرہ تھا کہ وہ قرآن مجید کی آیت پڑھ کر اس کی غلط تفسیر کریں گے اور وہ ( کہیں ) میرے دل میں ( نہ )بیٹھ جائے‘‘ ۔

( سنن دارمی رقم 411، الشریعہ للآجری ص62 ابن الوضاح فی البدع رقم 150( اسنادہ صحیح ) )

اللہ تعالی کسی انسان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ،
اسی طرح قیامت والے دن ہم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے کتنے مسلمانوں کی تکفیر یا نہیں ، کیونکہ ہمیں دنیا میں اس کام کا مکلف ہی نہیں بنایا گیا۔اللہ ہمیں دین مبین کہپ جس کی راتیں دن کی طرح روشن ہیں کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے اور فتنہ تکفیر و تفجیر سے محفوظ فرمائے۔ آمین
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
عامر بھائی یہاں اس پوسٹ کا مقصد سمجھ نہیں آیا؟؟؟
فقد باء بھا احدھما سے مراد محدثین نے کفر اکبر نہیں لیا اور متاول پر یہ حکم بھی نہیں لگتا
الدولۃ الاسلامیۃ کا عقیدہ آڈیو اور تحریری صورت میں موجود ہے دولۃ پر اعتراض سے قبل اس کو ضرور دیکھ لیجیئے گا
اور غیر مقدور پر موانع التکفیر لاگو نہیں ہوتے
دوسری بات یہ کہ بھلا خلیجی ممالک کے علاوہ بھی آپ کسی نام نھاد اسلامی ملک کے حاکم کو مسلمان سمجھتے ہیں ؟؟؟
اگر لے دے کے سعودیہ کویت کے حکام مسلمان نظر آئیں تو ضرور بات کیجئے الحمدللہ حالیہ نئی صلیبی جنگ نے ان سب کے چہرے سے وہ پردہ اتار دیا ہے جس کی بناء پر آج سے پہلے میں بھی خاموشی ہی کو ترجیح دیتا تھا لیکن اب دل بالکل صاف ہے کہ یہ شریف مکہ ہی کے بھائی ہیں
ان تجد عیبا فسد الخللا جل من لا عیب فیہ و علا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عامر بھائی یہاں اس پوسٹ کا مقصد سمجھ نہیں آیا؟؟؟
فقد باء بھا احدھما سے مراد محدثین نے کفر اکبر نہیں لیا اور متاول پر یہ حکم بھی نہیں لگتا
الدولۃ الاسلامیۃ کا عقیدہ آڈیو اور تحریری صورت میں موجود ہے دولۃ پر اعتراض سے قبل اس کو ضرور دیکھ لیجیئے گا
اور غیر مقدور پر موانع التکفیر لاگو نہیں ہوتے
دوسری بات یہ کہ بھلا خلیجی ممالک کے علاوہ بھی آپ کسی نام نھاد اسلامی ملک کے حاکم کو مسلمان سمجھتے ہیں ؟؟؟
اگر لے دے کے سعودیہ کویت کے حکام مسلمان نظر آئیں تو ضرور بات کیجئے الحمدللہ حالیہ نئی صلیبی جنگ نے ان سب کے چہرے سے وہ پردہ اتار دیا ہے جس کی بناء پر آج سے پہلے میں بھی خاموشی ہی کو ترجیح دیتا تھا لیکن اب دل بالکل صاف ہے کہ یہ شریف مکہ ہی کے بھائی ہیں
ان تجد عیبا فسد الخللا جل من لا عیب فیہ و علا
میرے بھائی میں ایک معمولی سا طالب علم ہو آپ نے جو کہا تھا اس کے جواب میں یہ تحریر پوسٹ کی ہے میرے بھائی تکفیر کا معاملہ بہت حساس ہے اس میں احتیاط سے کام لے اور اہل حق علماء کے رہبری میں اس مسلے میں رہنمائی لینی چاھئے

شیخ @کفایت اللہ بھائی آپ کیا نصیحت کریں گے مسلمان حکمران کے تکفیر کے بارے میں
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
کسی بھی ملک کے کلمہ گو حکمرانوں کی تکفیر کے بارے اس فورم کے منتظمین کا وہی موقف ہے جو پاکستان کے کبار اہل حدیث علماء کا ہے کہ وہ ان کی تکفیر کو جائز نہیں سمجھتے اور اسے امت مسلمہ میں پیدا ہونے والا ایک فتنہ قرار دیتے ہیں۔ باقی تکفیر کرنے والوں کے اپنے فورم انٹر نیٹ پر موجود ہیں، جہاں ایسے شوق پورے کیے جا سکتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کسی بھی ملک کے کلمہ گو حکمرانوں کی تکفیر کے بارے اس فورم کے منتظمین کا وہی موقف ہے جو پاکستان کے کبار اہل حدیث علماء کا ہے کہ وہ ان کی تکفیر کو جائز نہیں سمجھتے اور اسے امت مسلمہ میں پیدا ہونے والا ایک فتنہ قرار دیتے ہیں۔ باقی تکفیر کرنے والوں کے اپنے فورم انٹر نیٹ پر موجود ہیں، جہاں ایسے شوق پورے کیے جا سکتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا - شیخ
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
ابو الحسن بھائی یعنی کہ جس نے بھی کلمہ پڑھا اور وہ حاکم بن گیا اب اس کی تکفیر ممکن نہیں ؟؟؟
یا للعجب یا کہ حکمران بن جانا موانع التکفیر میں سے ہے ؟؟؟
 
Top