مون لائیٹ آفریدی
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 30، 2011
- پیغامات
- 640
- ری ایکشن اسکور
- 409
- پوائنٹ
- 127
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مشہور واقعہ ہے ۔
"مدینہ سے جلا وطن ہوجانے والے بنو قینقاع اور بنو نضیر اب خیبر میں آباد تھے۔ ان کا ایک سردار ابورافع سلام بن ابی الحقیق مشرکین کو مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دینے میں پیش پیش تھا۔ اس کے علاوہ وہ مسلمان خواتین کے بارے میں فحش شاعری بھی کیا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک مہم خیبر کی طرف روانہ کی اور انہیں تاکید کی کہ وہ خواتین اور بچوں کو قتل نہ کریں۔ اس ٹیم نے ابو رافع کا کام تمام کر دیا۔
1۔۔سریہ البحر ۔۔ اس سریہ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ اس میں جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی۔
2. سریہ رابغ: اس سریہ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ اس میں معمولی تیر اندازی ہوئی لیکن باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
3. سریہ خرار: یہ مہم بھی معلومات اکٹھی کرنے کے لئے کی گئی۔ اس میں بھی کسی جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
4۔ غزوہ ابوا: یہ غزوہ قریش کے تجارتی قافلے کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔ اس میں میں جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی بلکہ ابوا کے علاقے کے رہنے والے بنو ضمرہ سے صلح کا معاہدہ طے پایا۔ وغیرہ وغیرہ ۔
غالباً جنگ احد کے واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسم مع اصحاب کرام رض ، ایک دفعہ ایک نابینا شخص(کافر) کے باغ میں سے ہوتے ہوئے گزررہے تھے کہ اس شخص نے برابھلا کہا، صحابہ کرام رض نے اجازت طلب کی اس کا سرقلم کیا جائے لیکن آپ ص نے اجازت نہیں دی اور اس کو چھوڑ دیا حکمت کے طور پر(کہ یہ کفارکہیں گے کہ آپ ص ایسے معذور لوگوں کو بھی معاف نہیں کرتے) ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اسلام پر آنچ گنوارا نہیں تھی ،
اور کئ جنگوں میں ایسے چند قیدیوں کو معاف کرکے چھوڑدیا تھا احساناً۔ اور کبھی کبھارکسی اجرت یا کام کے عوض ۔
ایک جنگ میں ایسے ایک قیدی بھی ماراگیا تھا جس کے ساتھ اسلحہ تھا ۔
الحاصل کلام ۔۔۔
عوام الناس کی اکثریت کو چھوڑکر ان کے بڑے سردار ہٹ لسٹ ہوں گے ۔فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۔۔۔۔
بعض عوام بھی اگر ان کفارکے فرنٹ لائن اتحادی کے ساتھ بامصلحہ ہوں کرمجاہدین کے خلاف کاروائی کریں تو یہ بھی ان کے ساتھ شامل ہے ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۔۔
عوام کالانعام جو کہ لاعلمی میں یاپھر مجبوراًِ جہاد اور مجاہدین کے خلاف ہے ، وہ ان باطل اور طاغوتی میڈیا سے ماخوذومرعوب ہے ۔ ان کو حتی الوسع سمجھا جائے گا ، پہلی فرصت میں حکمت عملی پھر اس کے بعد بھی اگر اپنی جہاد مخالف سوچ وعمل سے رجوع نہ کرے تو پھر ان پر حجت قائم ہے ۔
ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ دین اسلام کے بڑے فائدے کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹا فائدہ قربان کیا جائے گا ۔ یا پھر بڑے فائدے کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹا نقصان کیا جاسکتا ہے ۔
مثلاً ایک جنگ (غالباً جنگ احزاب کی ابتدا) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اکیلے صحابی رض کو بھیجا جہاں پر مشرکین کے مختلف قبیلے جمع ہورہے تھے ۔ وہاں پر پہنچنے تو اس نے چلتے چلتے نماز عصر اشارۃً پڑھی ،نزدیک ہوتے ہی مشرکین کے کمانڈرنے پوچھا ، کون ؟ اس نے تعارف کروانے کے بعد کہا کہ محمد(ص) آپ کا بھی دشمن اور میرا بھی دشمن ۔۔۔۔ الاخیر ۔
موقع پاتے ہی اس کا سر قلم کیا، اور کسی بوری وغیرہ میں بند کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لاکر پھینک دیا ۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اس نے وہ قصہ بھی سنایا کہ میں نے کچھ مصلحت کے پیش نظر اس طرح کی باتیں بھی کی تھی ۔ جس پر آپ ص خاموش ہوگئے ۔حالانکہ آپ ص کو دشمن کہنا خطرے سے خالی نہیں اور نقصان کی بات ہے۔
الغرض ان کفارپر ایک لرزہ طاری اور خوف چھا گیا کہ مدینہ سے محمد(ص) کے آدمی آکر ہمارے اتنے بہادر سردار(جیسا کہ اوباما اور اس کے اتحادی ممالک کے سربراہان)کو مارا اور ہم کو پتہ بھی نہیں چلا ۔یہ تو بہت بہادر لوگ ہیں ۔ اسی طرح ان سے بہت سارے قبیلے واپس ہوگئے ۔
؛؛
"مدینہ سے جلا وطن ہوجانے والے بنو قینقاع اور بنو نضیر اب خیبر میں آباد تھے۔ ان کا ایک سردار ابورافع سلام بن ابی الحقیق مشرکین کو مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دینے میں پیش پیش تھا۔ اس کے علاوہ وہ مسلمان خواتین کے بارے میں فحش شاعری بھی کیا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک مہم خیبر کی طرف روانہ کی اور انہیں تاکید کی کہ وہ خواتین اور بچوں کو قتل نہ کریں۔ اس ٹیم نے ابو رافع کا کام تمام کر دیا۔
1۔۔سریہ البحر ۔۔ اس سریہ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ اس میں جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی۔
2. سریہ رابغ: اس سریہ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ اس میں معمولی تیر اندازی ہوئی لیکن باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
3. سریہ خرار: یہ مہم بھی معلومات اکٹھی کرنے کے لئے کی گئی۔ اس میں بھی کسی جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
4۔ غزوہ ابوا: یہ غزوہ قریش کے تجارتی قافلے کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔ اس میں میں جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی بلکہ ابوا کے علاقے کے رہنے والے بنو ضمرہ سے صلح کا معاہدہ طے پایا۔ وغیرہ وغیرہ ۔
غالباً جنگ احد کے واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسم مع اصحاب کرام رض ، ایک دفعہ ایک نابینا شخص(کافر) کے باغ میں سے ہوتے ہوئے گزررہے تھے کہ اس شخص نے برابھلا کہا، صحابہ کرام رض نے اجازت طلب کی اس کا سرقلم کیا جائے لیکن آپ ص نے اجازت نہیں دی اور اس کو چھوڑ دیا حکمت کے طور پر(کہ یہ کفارکہیں گے کہ آپ ص ایسے معذور لوگوں کو بھی معاف نہیں کرتے) ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اسلام پر آنچ گنوارا نہیں تھی ،
اور کئ جنگوں میں ایسے چند قیدیوں کو معاف کرکے چھوڑدیا تھا احساناً۔ اور کبھی کبھارکسی اجرت یا کام کے عوض ۔
ایک جنگ میں ایسے ایک قیدی بھی ماراگیا تھا جس کے ساتھ اسلحہ تھا ۔
الحاصل کلام ۔۔۔
عوام الناس کی اکثریت کو چھوڑکر ان کے بڑے سردار ہٹ لسٹ ہوں گے ۔فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۔۔۔۔
بعض عوام بھی اگر ان کفارکے فرنٹ لائن اتحادی کے ساتھ بامصلحہ ہوں کرمجاہدین کے خلاف کاروائی کریں تو یہ بھی ان کے ساتھ شامل ہے ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۔۔
عوام کالانعام جو کہ لاعلمی میں یاپھر مجبوراًِ جہاد اور مجاہدین کے خلاف ہے ، وہ ان باطل اور طاغوتی میڈیا سے ماخوذومرعوب ہے ۔ ان کو حتی الوسع سمجھا جائے گا ، پہلی فرصت میں حکمت عملی پھر اس کے بعد بھی اگر اپنی جہاد مخالف سوچ وعمل سے رجوع نہ کرے تو پھر ان پر حجت قائم ہے ۔
ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ دین اسلام کے بڑے فائدے کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹا فائدہ قربان کیا جائے گا ۔ یا پھر بڑے فائدے کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹا نقصان کیا جاسکتا ہے ۔
مثلاً ایک جنگ (غالباً جنگ احزاب کی ابتدا) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اکیلے صحابی رض کو بھیجا جہاں پر مشرکین کے مختلف قبیلے جمع ہورہے تھے ۔ وہاں پر پہنچنے تو اس نے چلتے چلتے نماز عصر اشارۃً پڑھی ،نزدیک ہوتے ہی مشرکین کے کمانڈرنے پوچھا ، کون ؟ اس نے تعارف کروانے کے بعد کہا کہ محمد(ص) آپ کا بھی دشمن اور میرا بھی دشمن ۔۔۔۔ الاخیر ۔
موقع پاتے ہی اس کا سر قلم کیا، اور کسی بوری وغیرہ میں بند کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لاکر پھینک دیا ۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اس نے وہ قصہ بھی سنایا کہ میں نے کچھ مصلحت کے پیش نظر اس طرح کی باتیں بھی کی تھی ۔ جس پر آپ ص خاموش ہوگئے ۔حالانکہ آپ ص کو دشمن کہنا خطرے سے خالی نہیں اور نقصان کی بات ہے۔
الغرض ان کفارپر ایک لرزہ طاری اور خوف چھا گیا کہ مدینہ سے محمد(ص) کے آدمی آکر ہمارے اتنے بہادر سردار(جیسا کہ اوباما اور اس کے اتحادی ممالک کے سربراہان)کو مارا اور ہم کو پتہ بھی نہیں چلا ۔یہ تو بہت بہادر لوگ ہیں ۔ اسی طرح ان سے بہت سارے قبیلے واپس ہوگئے ۔
؛؛