حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَصْمَعِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ سُئِلَ عَنْ مُحْرِم لَمْ يَجِدْ إِزَارًا، فَلَبِسَ سَرَاوِيلَ، فَقَالَ: عَلَيْهِ الْفِدْيَةُ.
فَقُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْمحرم: "إِذَا لَمْ يَجِدْ إِزَارًا لَبِسَ سَرَاوِيلَ، وَإِذَا لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ لَبِسَ خُفَّيْنِ".
فَقَالَ: دَعْنَا مِنْ هَذَا، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ: عَلَيْهِ الْكَفَّارَةُ.
اس کے بعد ابن دائود نے اسی روایت کو بیان کیا جس میں حجاج بن ارطاۃ کا اضافہ ہے،کہ حجاج بن ارطاۃ سے حماد بن زید کی ملاقات ہوئی توانہوں نے اس مسئلہ کے متعلق پوچھاتوانہوں نے وہی جواب دیا جو حماد بن زید کا بھی موقف تھا، اس کو سن کر انہوں نے پوچھاکہ پھر آپ کے ساتھی ایساکیوں نہیں کہتے ہیں ،اس کو سن کر حجاج بن ارطاۃ نے کہاکہ اس مسئلہ کے خلاف کہنے والا چاہے جوبھی ہو،وہ قابل تعریف نہیں بلکہ برا ہے۔
حجاج بن ارطاۃ کی سند میں ایک راوی ابوموسی عیسی بن عامر ہے، ذرا اس کے بارے میں بتادیجئے کہ موصوف کاحدود اربعہ کیاہے؟مجھے تونہیں ملا،التنکیل میں بھی معلمی نے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایاہے۔
ابن داؤد امام ابوحنیفہ کے بارے میں یہ دونوں واقعات نقل کرکے لکھتے ہیں:
یہاں حماد بن زید نے امام ابو حنیفہ پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے رغبتی، اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیر سمجھنے کی جراح کی ہے!اور اہل الرائے اور امام ابو حنیفہ کے اس طرز پر کہ وہ حدیث کے مقابلہ میں اپنے اصحاب کے قول کو اختیار کرتے ہیں، ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے، پھر اس الحجاج بن ارطاۃ کے قول سے امام ابو حنیفہ پر جرح ثابت کی ہے!حماد بن زید کا امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت کو مذموم سمجھنا اور قرار دینا تو ثابت ہے!
اسی کو ہم الٹی سمجھ سے تعبیر کرتے ہیں،اول الذکر واقعہ میں تو امام ابوحنیفہ کے یہ کہنے کے بعد کہ وہ اس مسئلہ میں ابراہیم نخعی کی پیروی کرتے ہیں ،حماد بن زید خاموش ہوگئے،لیکن اس خاموشی سے بھی ابن دائود نے جرح اورناراضگی کشید کرلیاہے؟ثانی الذکر واقعہ میں جہاں اس کا اضافہ ہے کہ محرم کیلئے سراویل کے مسئلہ پر امام ابوحنیفہ سے ان کی بحث کےبعد ان کی ملاقات حجاج بن ارطاۃ سے ہوئی اورانہوں نے امام ابوحنیفہ سے زیر بحث مسئلہ پر ہوئی بات چیت سناکر ان کا موقف جانناچاہاتواس پر حجاج ارطاۃ نے کہاکہ میری بھی رائے اس مسئلہ پر وہی ہے جو آپ کی ہے اوراس کے خلاف جو کوئی بھی جوکچھ کہتاہے وہ براکرتاہے،اس سے حجاج بن ارطاۃ کی ناراضگی تو سمجھ میں آتی ہے اور وہ بھی قول کی حد تک ،نہ کہ قائل کی حد تک ،لیکن حماد بن زید کی نہ کوئی ناراضگی ظاہر ہوتی ہے اورنہ کوئی جرح ؛لیکن ابن داؤد نے دماغ نہایت ’’رسا‘‘پایاہے ،اس لئے وہ ایسامطلب بھی کشید کرنے میں مہارت رکھتے ہیں جو قائل کے حاشیۂ خیال سے بھی باہر ہو۔
ہمیں تو دونوں واقعہ میں حماد بن زید کی نہ کوئی ناراضگی ملی ہے ،نہ جرح اورنہ ہی بقول ابن داؤد ’’امام ابوحنیفہ کی فقہ وفقاہت کو مذموم ‘‘سمجھے جیسی کوئی بات ۔
جیسے ان کا ماقبل میں کیا گیا دعویٰ اب تک بے دلیل ہے کہ ایوب سختیانی کی ناراضگی کا مشارالیہ امام ابوحنیفہ کی فقاہت تھی،ویسے ہی اب پھر انہوں نے ایک دعویٰ بلادلیل کردیاہے ۔
رہ گئی حجاج بن ارطاۃ کی بات توحجاج بن ارطاۃ کوخود ابن داؤد ایساراوی مانتے ہیں جن پر محدثین نے کلام کیاہے،علاوہ ازیں ان کے شخصیت کے کچھ اورگوشے بھی ہیں ذراان کو بھی بے نقاب کرتے چلیں:
حافظ ذہبی حجاج کے بارے میں لکھتے ہیں:
وقال محمد بن عبد الله بن عبد الحكم: سمعت الشافعي يقول: قال حجاج بن أرطاة: لا تتم مروءة الرجل حتى يترك الصلاة في الجماعة.قلت: لعن الله هذه المروءة ما هي إلا الحمق، والكبر كيلا يزاحمه السوقة، وكذلك تجد رؤساء، وعلماء يصلون في جماعة في غير صف أو تبسط له سجادة كبيرة حتى لا يلتصق به مسلم. فإنا لله.قال الأصمعي: أول من ارتشي بالبصرة من القضاة: حجاج بن أرطاة.( سير أعلام النبلاء ط الحديث (6/ 518)
نماز باجماعت کی فضیلت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو یاد کیجئے اورحجاج بن ارطاۃ کے قول کو دیکھئے توپتہ چلے کہ اصل میں حدیث کا مخالف کون ہے،لیکن ہمارے دور کے اہل حدیث کومخالف حدیث یاد آتی ہے تو صرف اورصرف امام ابوحنیفہ کی،حجاج بن ارطاۃ کی زندگی کا یہ گوشہ بھی ضرور ہی ہمارے مہربانوں کی نگاہ میں ہوگا لیکن کیامجال ہے کہ کبھی کسی نے ان بزرگ کو بھی مخالف حدیث ٹھہرایاہو۔
اب جو بزرگ اپنارعب وداب اورنام نہاد شرافت برقراررکھنے کیلئے کھلے عام نماز باجماعت ترک کرنے کا فرمان عالیشان سناتے ہوں اور معاشرہ کے کمزور طبقہ کیلئے جن کےدل میں اتنی حقارت ہو،ان کے کلام سے امام ابوحنیفہ کو مطعون کرنا بس ابن داؤد کا ہی حصہ بلکہ جثہ ہے۔
ماقبل میں میرے مضمون میں مخالفت حدیث پر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے کلام کا اقتباس دیاجاچکاہے،اورابن عبدالبر کا کلام بھی پیش کیاجاچکاہے،اس سے یہ بات واضح ہے کہ کسی کو حدیث کا مخالف کہنا بالخصوص ائمہ مجتہدین کو آسان کام نہیں،لیکن جولوگ نہ اپنی اوقات جانیں اورنہ ائمہ مجتہدین کے مدارک اجتہاد کی بلندیوں سے واقف ہوں توان سے اس طرح کی باتیں قطعا غیرمتوقع نہیں،الناس اعدا ماجھلوا کا محاورہ یوں ہی وجود میں نہیں آگیا، اس میں صدیوں کے تجربات کی آمیزش ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگرامام ابوحنیفہ کی رائے میں کسی وجہ سے وہ حدیث قابل عمل نہیں ہے،اور اس کے برخلاف ابراہیم نخعی کی بیان کردہ رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے توکیا یہ حدیث کی مخالفت ہے، سیر اعلام النبلاء میں حافظ ذہبی نے اعمش کے ترجمہ میں نقل کیاہے کہ وہ حدیث سن کر آتے تھے تو ابراہیم نخعی اسے بتاتے تھے کہ کون سی حدیثیں قابل عمل ہیں اورکون سی قابل ترک ہیں،حالانکہ سند بالکل صحیح ہواکرتی تھی،اسی طرح کا واقعہ مشہور حنفی امام زفرؒ کے حالات میں بھی ملتاہے کہ مشہور محدث ابونعیم فضل بن دکین جن کو امیرالمومنین فی الحدیث بھی کہاگیاہے وہ بھی حدیث کی تحصیل کے بعد آکر امام زفر کو حدیث سناتے اورپھر امام زفر ان کیلئے احادیث میں انتخاب کرکے بتاتے کہ فلاں حدیث قابل عمل اورفلاں قابل ترک ہے،یہی بات ابن وہب نے امام مالک اور لیث بن سعد کیلئے بھی کہی ہے کہ احادیث کی کثرت نے ان کو حیران کردیاتھااور وہ گمراہی کے قریب تھے کہ امام مالک اورلیث بن سعد کی شاگردی کی سعادت مل گئی اورانہوں نے ان کو اس گمراہی سے بچالیا یہ بتاکر کہ کون سی حدیثیں قابل عمل اورکون سی قابل ترک ہیں، امام مالک کی موطا میں جو اسانید ہیں، ان کی صحت پر کس کو شبہ ہوسکتاہے ؟مگر بقول لیث بن سعد اور ابن حزم خود موطاامام مالک کی سترحدیثیں ایسی ہیں جن پر انہوں نے عمل نہیں کیا؟
کمال یہ ہے کہ زیر بحث موضوع میں مدعی سست اوگواہ کافی چست دکھائی دے رہاہے، جب حضرت حماد بن زید کو امام ابوحنیفہ نے ابراہیم نخعی کی زیر بحث مسئلہ میں رائے سے یااجتہاد سے آگاہ کیا تووہ خاموش ہوگئے ،یہ نہیں کہا کہ یہ حدیث کی مخالفت ہے،یہ نہیں کہاکہ حدیث کے مقابلے میں تابعی کی رائے پیش کرتے ہو؟وغیرذلک،جوان کو کہنے کا حق بھی بنتاتھا،مگر ابن داؤد صاحب چست گواہی کا فریضہ انجام دینے پر تلے بیٹھے ہیں ،اسے’’ دیگ سے زیادہ چمچہ گرم‘‘ بھی کہاجاتاہے۔
لہٰذا حماد بن زید کا امام ابو حنیفہ سے محبت کے بیان کو یوں سمجھا جائے گا کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے، کہ ان کی امام ابو حنیفہ سے محبت کی وجہ امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت نہیں، بلکہ امام ابو حنیفہ کی امام ایوب سختیانی سے محبت ہے! اور حماد بن زید کے اس قول سے حماد بن زید کی امام ابوحنیفہ کی فقہ وفقاہت کی مداح کشید کرنا باطل ہے!
اوراگرابن داؤد ذرا اس بارے میں مذاہب فقہاء کو جاننے کی کوشش کرتے توان کو معلوم ہوتے کہ اس بارے میں امام مالک بھی امام ابوحنیفہ کے ہمنوا ہیں، توگویاحماد بن زید یاجولوگ اس مسئلہ سے امام ابوحنیفہ کی فقاہت پر معترض ہیں، وہ امام مالک کی فقاہت بھی پر معترض ہیں؟ابن داؤد کواس مسئلہ میں موقف واضح کرناچاہئے اوربتاناچاہئے کہ امام مالک فقیہ ہیں یانہیں ہیں؟
ویسے ان حضرات کے پاس جو عدم ازار کی صورت میں بھی سراویل پہننے پر فدیہ کے قائل ہیں، امام مالک اورامام ابوحنیفہ ،ان کے پاس حضرت ابن عمرؓ کی صریح حدیث ہے، اب یہی توایک مجتہد کا وظیفہ ہوتاہے کہ وہ کئی مختلف احادیث میں غوروفکر کرکے کسی ایک جانب کو راجح اوردوسرے کو مرجوح قراردیتاہے ،لیکن یار لوگوں نے اسی کو مخالفت حدیث کہنا شروع کردیاہے یعنی ’’ہنر بھی ان کی نگاہوں میں عیب ‘‘ہے۔
میں نے کہاتھاکہ ابن تیمیہ نے کہاہے کہ ایمان کےباب میں حنفیہ اور دیگر میں اختلاف لفظی ہے،اس پر ابن دائود نے ابن تیمیہ کی عبارت تو پیش کی ؛لیکن اس کو سمجھنے سے قاصر رہے،اسی کو عقلمند کہہ گئے ہیں کہ ایک من علم کیلئے دس من عقل چاہئے اورچونکہ حماد بن زید کانام بھی اس تھریڈ میں بار بار آیاہے تواس سلسلے میں بھی ایک لطیفہ عرض ہے۔حماد بن زید کے سوانح میں مذکور ہے کہ حماد بن زید کا علم دودانق کاتھالیکن ادب چار دانق کا تھا،اورحماد بن سلمہ کا علم چاردانق تھالیکن ادب دودانق تھا ،مظروف کی مناسب سے ظرف بھی ضروری ہوتاہے ،ورنہ تاریخ میں یہی لکھ کر آتاہے کہ فلاں علمہ اکثر او اکبر من عقلہ ۔
وَأَنْكَرَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَمَنْ اتَّبَعَهُ تَفَاضُلَ الْإِيمَانِ وَدُخُولَ الْأَعْمَالِ فِيهِ وَالِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ؛ وَهَؤُلَاءِ مِنْ مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ وَأَمَّا إبْرَاهِيمُ النَّخَعِي - إمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ شَيْخُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ - وَأَمْثَالُهُ؛ وَمَنْ قَبْلَهُ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ: كعلقمة وَالْأَسْوَدِ؛ فَكَانُوا مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ مُخَالَفَةً لِلْمُرْجِئَةِ وَكَانُوا يَسْتَثْنُونَ فِي الْإِيمَانِ؛ لَكِنَّ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ خَالَفَ سَلَفَهُ؛ وَاتَّبَعَهُ مَنْ اتَّبَعَهُ وَدَخَلَ فِي هَذَا طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. ثُمَّ إنَّ " السَّلَفَ وَالْأَئِمَّةَ " اشْتَدَّ إنْكَارُهُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ وَتَبْدِيعُهُمْ وَتَغْلِيظُ الْقَوْلِ فِيهِمْ؛ وَلَمْ أَعْلَمِ أَحَدًا مِنْهُمْ نَطَقَ بِتَكْفِيرِهِمْ؛ بل هُمْ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُمْ لَا يُكَفَّرُونَ فِي ذَلِكَ؛ وَقَدْ نَصَّ أَحْمَد وَغَيْرُهُ مِنْ الْأَئِمَّةِ: عَلَى عَدَمِ تَكْفِيرِ هَؤُلَاءِ الْمُرْجِئَةِ.
اس عبارت میں قابل اعتراض بات کوئی نہیں ہے ،صرف اتنی سی بات ہے کہ حماد بن سلیمان نے ارجاء کا نقطہ نظراپنایا ،اوران کی اہل کوفہ ودیگر حضرات نے اس بارے میں پیروی کی اور اوربقول ابن تیمیہ سلف اورائمہ نے "اس کا شدت سے انکار کیا ،ان کو بدعتی قراردیا اور ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے "یہ بڑے کام کی بات ہے کہ حماد بن سلیمان اوراس معاملہ میں ان کی پیروی کرنے والوں پر ائمہ وسلف کی جرح کی بنیاد یہی ارجاکا مسئلہ ہے، اوراسی کی بنیاد پر ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔
یہی بات ہم بھی ماقبل میں ابن داؤد کو سمجھاتے آئے ہیں کہ امام ابوحنیفہ پر ایوب سختیانی کی جرح کی وجہ ارجاء کامسئلہ ہوسکتاہے ،نہ کہ ان کی فقاہت ،اوریہی بات بانداز دیگر ابن تیمیہ بھی کہہ رہے ہیں، ہم نے جوکہا،اس کی تائید توابن تیمیہ سےبھی ہوگئی،خود ایوب سختیانی کی سیرت وسوانح سےبھی ہوتی ہے کہ وہ جس کو غلط نقطہ نظرکا حامل سمجھتے تھے،اس کے سلام کا جواب تک دینے کے روادار نہیں ہوتے تھے،پھر اگر انہوں نے ارجاء کو غلط سمجھ کر اپنے شاگردوں کو امام ابوحنیفہ کی صحبت سے باز ررہنے کی تاکید کی تواس کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے ؛لیکن ابن داؤ د نے اس میں نیا شوشہ شامل کردیاہے کہ ایوب سختیانی کی امام ابوحنیفہ سے ناراضگی کی وجہ ان کی فقاہت تھی اوراس دعویٰ کی ان کے پاس اگرچہ کوئی دلیل نہیں ہے لیکن بقول شاعر وہ اس پر قائم رہیں گے کیونکہ
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
وَلِهَذَا لَمْ يُكَفِّرْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَحَدًا مِنْ " مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ " بَلْ جَعَلُوا هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ؛ لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ النِّزَاعِ فِيهَا لَفْظِيٌّ لَكِنَّ اللَّفْظَ الْمُطَابِقَ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ هُوَ الصَّوَابُ
یہ اقتباس نقل کرنے کے بعد ابن داؤ د کہتے ہیں:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ''مرجئة الفقهاء '' کو سلف کے خلاف قرار دیا، انہیں اعمال واقوال میں بدعت کا مرتکب قرار دیا، اور اکثر نزاع کو نزاع لفظی قرار دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ صواب یہی ہے کہ الفاظ کی کتاب وسنت سے موافقت ہی درست ہے۔ہاں اتنا بیان کیا ہے کہ ان ''مرجئة الفقهاء'' کی سلف نے تکفیر نہیں کی!! فتدبر!!
اس میں ابن داؤد نے حسب معمول" لامن بدع العقائد"کااہم بیان حذ ف کردیا،یعنی اردو میں اسے تحریر میں لانے سے باز رہے،ابن تیمہ کے کہنے کا جومنشاہے وہ تو ابن داؤد سمجھ نہیں سکے، ہم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں خدا کرے سمجھ میں آجائے:
ابن تیمیہ نے اس عبار ت میں دو باتیں کہی ہیں :
اولاً:هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَال
ثانیاً: لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ
سوال یہ ہے کہ ارجاءکا مسئلہ تو عقیدہ کا مسئلہ ہے، اگر یہ مسئلہ عقیدہ کے اعتبار سے بدعت نہیں ہے توپھر کیاہے، ابن تیمیہ نے ایک جانب صراحت کے ساتھ اس کی نفی کردی ہے کہ فقہاء کا جوارجاء ہے، وہ قطعاًعقیدہ میں بدعت نہیں ہے، دوسری جانب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ قول وفعل کے لحاظ سے بدعت ہے:
ابن تیمیہ کے کہنے کا منشایہ ہے کہ فقہاء کا ارجاء حقیقت کے اعتبار سے اور عقیدہ کے اعتبار سے تو اہل سنت والجماعت کاہی عقیدہ ہے،حقیقی اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اعمال پر ثواب وعقاب مرتب ہوگا، دونوں یہ بھی مانتے ہیں کہ مرتکب کبیرہ خلودفی النار کا مرتکب نہیں ہوگا، دونوں یہ بھی مانتے ہیں کہ اعمال کو ترک کرنے والا اللہ کی مشیت کے تحت ہے، چاہے اسے بخش دے ،چاہے سزادے۔
سوال یہ ہے کہ پھر دونوں میں یعنی ارجاء الفقہاء اورمحدثین کے عقیدہ میں اس باب میں کیا فرق ہوا، جواب ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں ،حقیقی اعتبار سے دونوں میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں ہے، فرق صرف تعبیر اوراظہار بیان میں ہے اوراسی تعبیر واظہار بیان کے فرق کو ابن تیمیہ نے" بدع الاقوال والافعال لامن بدع العقائد" سے تعبیر کیاہے،اگر حقیقت ایک ہو اوراس کی تعبیر مختلف انداز سے کی جائے تواس سے حقیقت نہیں بدلتی ہے ،ہاں اظہار بیان کا پیرایہ ضرور بدل جاتاہے۔
عباراتنا شتیٰ وحسنک واحد
وکل الی ذاک الجمال یشیر
ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ چونکہ سلف سے اس باب میں ایک خاص عبارت منقول تھی،الایمان قول وعمل ،اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس عبارت کو چھوڑکر اسی حقیقت کیلئے دوسری تعبیراختیارکرنا یادوسری عبارت لانا قول وفعلی بدعت ہے۔امید ہے کہ ابن تیمیہ کی عبارت سمجھ میں آگئی ہوگی ۔
جہاں تک کثیر وغیرہ کا تعلق ہے تو واضح رہناچاہئے کہ ہرجگہ مفہوم مخالف مراد نہیں ہوتایعنی ابن تیمیہ نے کثیر کااستعمال کیاہے تواس کا مفہوم مخالف یہ ہواکہ تھوڑا اساقلیل اختلاف ایسابھی ہے جو لفظی نہیں ہے ،ابن تیمیہ نے اسے واضح کردیاہے کہ عقیدہ کے اعتبار سے،حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے دونوں موقف میں ہے،جوفرق ہے وہ تعبیر اوراظہار بیان میں ہے اوراسی کو انہوں نے قول وفعل کے اعتبار سے بدعت کہاہے اورچاہیں توآپ اسی قلیل من النزاع غیر لفظی سے تعبیر کرلیں۔
جاری ہے....................