• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابوحنیفه نعمان بن ثابت, امام ایوب سختیانی کی نظر میں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آخری مراسلہ میں آپ نے بتلایا نہیں کہ جواب جاری ہے یا مکمل ہوا!
یہ بتلا دیجیئے!
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ماشاء اللہ! یہ تو ایسے کہا جا رہا ہے کہ جیسے ارجاء کا تعلق فقہ وفقاہت سے ہے ہی نہیں! اور ارجاء عبارت النص سے ثابت ہوتا ہے!
حالانکہ امام ابو حنیفہ سے منسوب کتاب
''الفقه الاكبر'' میں بھی امام ابو حنیفہ کا ارجاء کا مؤقف ذکر ہے، اور کتاب کا نام ہے ''الفقه الاكبر''!
اور امام ابو حنیفہ کا یا دیگر مرجیہ کا عمل کا ایمان میں شامل نہ ہونا اپنی فقاہت سے ہی ثابت کرتے ہيں! گو یہ یہ فہم و فقاہت مردود ہے!
اب اس فہم وفراست پرہم حیران ہیں کہ دل کو پیٹیں یاجگر کو روئیں اوراتنی مقدور تونہیں ہے کہ نوحہ گرکو ساتھ رکھیں،اورہوتی بھی تونہ رکھتے کہ شریعت میں نوحہ سے منع کیاگیاہے،یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘‘۔عقائد کو ’’فقہ اکبر‘‘سے تعبیر کیاجاتاہے،اس سے ابن دائود کا استدلال ہے کہ ارجاءکا تعلق فقہ اصغر یعنی فروعی فقہ سے بھی ہے،اور ایوب سختیانی کی تنقید ان کی فقاہت یعنی فروعاتی فقہ کوبھی شامل ہے، اس قسم کا استدلال ابن دائود کو مبارک ہو،ان کے ہمنوائوں کو مبارک ہو،ان کے قبلہ اورقبیلہ والوں کومبارک ہو، مگر ہم ایسے ہرقسم کے مزاحیہ اورمضحکہ خیز استدلال کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں جس کی بنیاد علم ،عقل اوردلیل پر نہ ہوکر محض ذہنی اٹکل پچو پر ہو اورمیراخیال ہے کہ ان کے قبیلہ اورقبیل کے بھی عقل وفہم والے لوگ اس قسم کے استدلال کو قطعاپسند نہیں کرتے ہوں گے ؛لیکن یہ ہماراصرف حسن ظن ہے۔باقی اللہ کے حوالے ہے۔
امام ایوب سختیانی کا امام ابو حنیفہ کی مذمت کرنا امام ابو حنیفہ کے کسی ایک ہی مؤقف کی وجہ سے ہونا لازم نہیں! کہ یا تو امام ابو حنیفہ کے ارجاء کے مؤقف کے سبب امام ایوب سختیانی امام ابو حنیفہ پر تنقید کریں، یا پھر امام ابو حنیفہ کے اہل الرائے ہونے کی بناء پر امام ابو حنیفہ پر تنقید کریں! یہ لازم نہیں، بلکہ ان دونوں وجوہات کی بنا پر امام ایوب سختیانی کی تنقید کا ہونا درست معلوم ہوتا ہے، کیونکہ امام ایوب سختیانی نے ان دونوں امور پر تنقید کی ہے؛

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، قَالَ: ثَنَا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَيُّوبَ، وَقِيلَ لَهُ: "مَا لَكَ لَا تَنْظُرُ فِي هَذَا - يَعْنِي الرَّأْيَ - فَقَالَ أَيُّوبُ: قِيلَ لِلْحِمَارِ أَلَا تَجْتَرُّ، فَقَالَ: أَكْرَهُ مَضْغُ الْبَاطِلِ"

حماد بن زید نے بیان کیا کہ میں نے ایوب سختیانی کو یہ کہتے ہوئے سنا جبکہ آپ سے کہا گیا تھا کہ کیا بات ہے آپ رائے میں غور کیوں نہیں کرتے ہیں، تو اس پر آپ نے جواب دیا تھا کہ گدھے سے کہا گیا کہ تم جگالی کیوں نہیں کرتے تو اس نے جواب دیا میں خراب چیز کو پسند نہیں کرتا۔
یہ بھی استدلال کی وہی قسم ہے ’’جو مارے گھٹنہ پھوٹے سر‘‘کہلاتی ہے،یعنی ایوب سختیانی نے رائے کی مذمت کی توسیدھے پہنچے اہل الرائے پر اوراہل الرائے سے سیدھے پہنچے احناف وامام ابوحنیفہ پر،اگر بن دائود جواب لکھنے کےشوق سے ہٹ کر کچھ وقت ایوب سختیانی کی سیرت اورسوانح کے مطالعہ میں صرف کرتے توپاتے کہ معتزلہ کے بانی عمروبن عبید کے ہم عصر تھے،اور کئی مرتبہ ان سے اصرار کیاگیاکہ وہ معتزلہ کے افکار ونظریات کا رد کریں لیکن انہوں نے ہمیشہ شاید یہ سوچ کر انکار کیا کہ اس سے معتزلہ کے افکارکو بڑھاواملے گا،عمروبن عبید نے انکو سلام کیاتوان کا جواب نہیں دیا، اسی دور میں معتزلہ کے ساتھ جہمیہ،مرجیہ اوردیگر فرقے بھی ابھر رہے تھے،تورائے اوراہل الرائے سے یہ سبھی مراد ہوتے ہیں،بغیر کسی دلیل کے حسب معمول یہاں بھی ابن دائود نے رائے دیکھ کر اہل الرائے سے احناف کو مراد لیاہے،اب اگران سے دلیل پوچھو کہ یہاں پر اہل الرائے سے احناف پر کیسے مراد ہیں،تووہ فورا ایک الٹی دلیل دیں گے کہ فلاں فلاں نے احناف کو اہل الرائے کہاہے ،حالانکہ بات ایوب سختیانی کی ہےاوراس دور میں دیگر فرقے بھی ابھررہے تھے اوراحناف کاتوگویاآغاز ہی تھا،ایوب سختیانی کا انتقال 131ہجری میں امام ابوحنیفہ کے انتقال سے 19سال قبل ہواہے،ایسے میں رائے سے احناف کو مراد لیناکس طرح درست ہوسکتاہے؟یہ توبعد میں احناف کے ’’ہمدردوں ‘‘نے ان کو اہل الرائے سے مشہورکیاہے،حالانکہ اس لقب سے ہمیں کوئی نفرت نہیں ہے، اگرکوئی ہمیں صاحب عقل وفہم سمجھتاہے اورخود کواس زمرہ سے باہر رکھناچاہتاہے توہمیں کیااعتراض ہوسکتاہے؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایوب سختیانی کے کلام میں رائے سے مراد امام ابوحنیفہ کی فقاہت کوہی مراد لینا جہالت اورسفاہت دونوں ہی ہے، جہالت اس لئے کہ ہے کہ اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اورسفاہت اس لئے ہے کہ بغیر دلیل کے ایک رائے قائم کرلیناہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دو شخص جب آپس میں گفتگو کر رہے ہیں تو ساتھ دوسروں کو رگیدنے کا فائدہ ؟
پھر کوئی مداخلت کرے گا ، تو کہا جائے گا ، کہ میری بحث فلاں کے ساتھ ہے ۔
فریقین سے التماس ہے کہ بات آپس تک ہی رکھیں ، سارے کنبہ قبیلہ کو معاف کریں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@رحمانی صاحب! آپ سے التماس ہے کہ اپنے جواب کے مکمل ہونے تک مراسلہ کے آخر میں ﴿جاری ہے﴾ لکھ دیا کریں!
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
محمد بن سعدان نام کے کئی راوی ہیں ،جن میں سے ایک مشہور ابوجعفر الضریر نحوی ہیں، جن کو خطیب نے ثقہ کہاہے،ان کے انتقال کے بارے میں دوقول ہیں ایک ۲۳۱کاہے اوردوسرا ۲۴۰کاہے،اگردوسو چالیس کو تسلیم کیاجائے تو ابوبشردولابی جن کی ولادت 224ہجری میں ہے، وہ ان کے انتقال کے وقت ۱۶کے ہوں گے اور سولہ سال کی عمر میں ان سے روایت کوئی مستبعد اورمحال نہیں ہے ،بالخصوص جب کہ یہ بات بھی ہے کہ ابوبشر دولابی حنفی تھے اور یہابوجعفر محمد بن سعدان الضریر بھی حنفی تھے ،کتب تراجم کی تصریح کے مطابق اہل کوفہ کے مذہب پر تھے اورآدمی ابتدامیں اپنے مسلک والوں کی شاگردی اختیار کرتاہے اوربعد میں جب اس کا علم وفہم وسیع ہوتاہے تو وہ ہرچہار جانب سے علم اخذ کرتاہے۔

ایک دوسرے راوی محمد بن سعدان البزار ہیں، جن کا انتقال 277ہجری میں ہواہے، انہوں نے تقریباپانچ سومشائخ سے روایت کی ہے،اور ان سے بھی بہت سارے لوگوں نے روایت کی ہے،لیکن انہوں نے حدیثیں بہت کم روایت کی ہیں، شاید اس فن سے ان کازیادہ اشتغال نہ ہو، بالخصوص جب کہ وہ کپڑے کے کاروبار سے بھی منسلک تھے،ان پر جرح کوئی نہیں ہے لیکن ان کی تعدیل بھی نہیں ہوئی ہے ،لیکن ائمہ فن کی ایک بڑی تعداد ایسے راویوں کی روایت کو جب ثقہ روات کے خلاف نہ ہو ،قابل عمل تسلیم کرتی ہے۔ابن خزیمہ اور ابن حبان تو اوپر نیچے ثقہ راویوں کی موجودگی میں ایسے روات کی روایت کو صحیح یاحسن تسلیم کرتے ہیں۔

جہاں تک ابوبشردولابی پر تعصب کی جرح کا سوال ہے تو یہ خود ابن عدی کا تعصب ہے،جوانہوں نے تعصب کی بنیاد پر یہ جرح کیاہے، ان پر تعصب کیلئے ابن عدی نے جس چیز کو بنیاد بنایاہے وہ میرے خیال میں تو قطعاقابل اعتماد نہیں ہے،ایک تو انہوں نے کسی راوی کو جو جہنی تھااس کو انصاری کہہ دیا اور دوسرے ابونعیم کو امام ابوحنیفہ کے خلاف جھوٹے طعن گھڑنے والا کہا۔

حقیقت یہ ہے کہ خود الکامل میں ائمہ احناف کے مثالب کی روایتیں ابن عدی نے ابوبشردولابی سے روایت کی ہیں، اس کے باوجود وہ متعصب ہیں لیکن ابن عدی جو ائمہ احناف کی نیت پر سوال اٹھاتے ہیں کہ فلاں نے اس لئے ایساکیا فلاں نےا س لئے ایساکیا،وہ تعصب سے بالکل بری ہیں،اسی طرح امام شافعی کے ایک شیخ جن کو تقریباًتمام ائمہ فن نے مجروح گرداناہے،ان کو ابن عدی درست راوی مانتے ہیں کیا ہم اس کو تعصب نہ مانیں،اگرایک دومثال ابن عدی کے نزدیک اس بات کیلئے کافی ہے کہ ابوبشردولابی متعصب ہیں توایک دومثال ہمارے لئے بھی کافی ہونی چاہئے کہ ابن عدی خود ہی متعصب ہیں۔

رہ گئی نعیم بن حماد کی بات تو ابوبشردولابی کی بات یہ ہے:
ثُمَّ قَالَ ابْنُ حَمَّادٍ: وَقَالَ غَيْرُهُ:كَانَ يَضَعُ الحَدِيْثَ فِي تَقْوِيَةِ السُّنَّةِ، وَحِكَايَاتٍ عَنِ العُلَمَاءِ فِي ثَلْبِ أَبِي فُلاَنٍ كَذَبَ.سیر اعلام النبلاء میں ابی فلاں ہی ہے لیکن الکامل میں ابوحنیفہ ہے۔
اس سے دوباتیں معلوم پڑتی ہین ایک تو وضع کے الزام میں ابوبشردولابی منفرد نہیں ہیں، ان کے ساتھ دوسرے بھی ہیں، بالخصوص ابوالفتح ازدی ،ابوالفتح ازدی پر اگرچہ کلام ہے اوران کو ضعیف بھی قراردیاگیاہےلیکن اسی کے ساتھ ان کی تمام جرح مردود نہیں ہے۔
دوسرے خود دیکھ لیں کہ حافظ ذہبی نعیم بن حماد کو کیاکہتے ہیں:

قُلْتُ: لاَ يَجُوْزُ لأَحَدٍ أَنْ يَحْتَجَّ بِهِ، وَقَدْ صَنَّفَ كِتَابَ (الفِتَنِ) ، فَأَتَى فِيْهِ بِعَجَائِبَ وَمَنَاكِيْرَ.( سير أعلام النبلاء ط الرسالة (10/ 609)

نعیم بن حماد پر بحث مقصود نہیں ،کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ابونعیم کوئی بہت پاک وصاف اورنہایت اعلیٰ درجہ کے راوی نہیں ہیں، جن پر کلام کرنے سے آفت مچ جائے،خود ابودائود کہتے ہیں کہ نعیم کے پاس بیس حدیثیں ایسی ہیں جس کی کوئی اصل نہیں، رائے والی حدیث پر بہت سے علماء فن نے ان پر طعن کیاہے،وغیرذلک۔

اگر معیار یہی ہو تعصب کا کہ کسی راوی کو دوسرے لوگ ضعیف کہیں لیکن اگرکوئی وضاع کہ دے تو وضاع کہنے والا متعصب قرارپائے تو بہت سارے ائمہ فن اس تعصب کے الزام کا شکار ہوں گے۔

این گناہے است کہ درشہر شما نیز کنند
جاری ہے
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَصْمَعِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ سُئِلَ عَنْ مُحْرِم لَمْ يَجِدْ إِزَارًا، فَلَبِسَ سَرَاوِيلَ، فَقَالَ: عَلَيْهِ الْفِدْيَةُ.
فَقُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْمحرم: "إِذَا لَمْ يَجِدْ إِزَارًا لَبِسَ سَرَاوِيلَ، وَإِذَا لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ لَبِسَ خُفَّيْنِ".
فَقَالَ: دَعْنَا مِنْ هَذَا، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ: عَلَيْهِ الْكَفَّارَةُ.
اس کے بعد ابن دائود نے اسی روایت کو بیان کیا جس میں حجاج بن ارطاۃ کا اضافہ ہے،کہ حجاج بن ارطاۃ سے حماد بن زید کی ملاقات ہوئی توانہوں نے اس مسئلہ کے متعلق پوچھاتوانہوں نے وہی جواب دیا جو حماد بن زید کا بھی موقف تھا، اس کو سن کر انہوں نے پوچھاکہ پھر آپ کے ساتھی ایساکیوں نہیں کہتے ہیں ،اس کو سن کر حجاج بن ارطاۃ نے کہاکہ اس مسئلہ کے خلاف کہنے والا چاہے جوبھی ہو،وہ قابل تعریف نہیں بلکہ برا ہے۔
حجاج بن ارطاۃ کی سند میں ایک راوی ابوموسی عیسی بن عامر ہے، ذرا اس کے بارے میں بتادیجئے کہ موصوف کاحدود اربعہ کیاہے؟مجھے تونہیں ملا،التنکیل میں بھی معلمی نے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایاہے۔
ابن داؤد امام ابوحنیفہ کے بارے میں یہ دونوں واقعات نقل کرکے لکھتے ہیں:

یہاں حماد بن زید نے امام ابو حنیفہ پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے رغبتی، اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیر سمجھنے کی جراح کی ہے!اور اہل الرائے اور امام ابو حنیفہ کے اس طرز پر کہ وہ حدیث کے مقابلہ میں اپنے اصحاب کے قول کو اختیار کرتے ہیں، ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے، پھر اس الحجاج بن ارطاۃ کے قول سے امام ابو حنیفہ پر جرح ثابت کی ہے!حماد بن زید کا امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت کو مذموم سمجھنا اور قرار دینا تو ثابت ہے!
اسی کو ہم الٹی سمجھ سے تعبیر کرتے ہیں،اول الذکر واقعہ میں تو امام ابوحنیفہ کے یہ کہنے کے بعد کہ وہ اس مسئلہ میں ابراہیم نخعی کی پیروی کرتے ہیں ،حماد بن زید خاموش ہوگئے،لیکن اس خاموشی سے بھی ابن دائود نے جرح اورناراضگی کشید کرلیاہے؟ثانی الذکر واقعہ میں جہاں اس کا اضافہ ہے کہ محرم کیلئے سراویل کے مسئلہ پر امام ابوحنیفہ سے ان کی بحث کےبعد ان کی ملاقات حجاج بن ارطاۃ سے ہوئی اورانہوں نے امام ابوحنیفہ سے زیر بحث مسئلہ پر ہوئی بات چیت سناکر ان کا موقف جانناچاہاتواس پر حجاج ارطاۃ نے کہاکہ میری بھی رائے اس مسئلہ پر وہی ہے جو آپ کی ہے اوراس کے خلاف جو کوئی بھی جوکچھ کہتاہے وہ براکرتاہے،اس سے حجاج بن ارطاۃ کی ناراضگی تو سمجھ میں آتی ہے اور وہ بھی قول کی حد تک ،نہ کہ قائل کی حد تک ،لیکن حماد بن زید کی نہ کوئی ناراضگی ظاہر ہوتی ہے اورنہ کوئی جرح ؛لیکن ابن داؤد نے دماغ نہایت ’’رسا‘‘پایاہے ،اس لئے وہ ایسامطلب بھی کشید کرنے میں مہارت رکھتے ہیں جو قائل کے حاشیۂ خیال سے بھی باہر ہو۔
ہمیں تو دونوں واقعہ میں حماد بن زید کی نہ کوئی ناراضگی ملی ہے ،نہ جرح اورنہ ہی بقول ابن داؤد ’’امام ابوحنیفہ کی فقہ وفقاہت کو مذموم ‘‘سمجھے جیسی کوئی بات ۔
جیسے ان کا ماقبل میں کیا گیا دعویٰ اب تک بے دلیل ہے کہ ایوب سختیانی کی ناراضگی کا مشارالیہ امام ابوحنیفہ کی فقاہت تھی،ویسے ہی اب پھر انہوں نے ایک دعویٰ بلادلیل کردیاہے ۔
رہ گئی حجاج بن ارطاۃ کی بات توحجاج بن ارطاۃ کوخود ابن داؤد ایساراوی مانتے ہیں جن پر محدثین نے کلام کیاہے،علاوہ ازیں ان کے شخصیت کے کچھ اورگوشے بھی ہیں ذراان کو بھی بے نقاب کرتے چلیں:
حافظ ذہبی حجاج کے بارے میں لکھتے ہیں:
وقال محمد بن عبد الله بن عبد الحكم: سمعت الشافعي يقول: قال حجاج بن أرطاة: لا تتم مروءة الرجل حتى يترك الصلاة في الجماعة.قلت: لعن الله هذه المروءة ما هي إلا الحمق، والكبر كيلا يزاحمه السوقة، وكذلك تجد رؤساء، وعلماء يصلون في جماعة في غير صف أو تبسط له سجادة كبيرة حتى لا يلتصق به مسلم. فإنا لله.قال الأصمعي: أول من ارتشي بالبصرة من القضاة: حجاج بن أرطاة.( سير أعلام النبلاء ط الحديث (6/ 518)

نماز باجماعت کی فضیلت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو یاد کیجئے اورحجاج بن ارطاۃ کے قول کو دیکھئے توپتہ چلے کہ اصل میں حدیث کا مخالف کون ہے،لیکن ہمارے دور کے اہل حدیث کومخالف حدیث یاد آتی ہے تو صرف اورصرف امام ابوحنیفہ کی،حجاج بن ارطاۃ کی زندگی کا یہ گوشہ بھی ضرور ہی ہمارے مہربانوں کی نگاہ میں ہوگا لیکن کیامجال ہے کہ کبھی کسی نے ان بزرگ کو بھی مخالف حدیث ٹھہرایاہو۔

اب جو بزرگ اپنارعب وداب اورنام نہاد شرافت برقراررکھنے کیلئے کھلے عام نماز باجماعت ترک کرنے کا فرمان عالیشان سناتے ہوں اور معاشرہ کے کمزور طبقہ کیلئے جن کےدل میں اتنی حقارت ہو،ان کے کلام سے امام ابوحنیفہ کو مطعون کرنا بس ابن داؤد کا ہی حصہ بلکہ جثہ ہے۔

ماقبل میں میرے مضمون میں مخالفت حدیث پر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے کلام کا اقتباس دیاجاچکاہے،اورابن عبدالبر کا کلام بھی پیش کیاجاچکاہے،اس سے یہ بات واضح ہے کہ کسی کو حدیث کا مخالف کہنا بالخصوص ائمہ مجتہدین کو آسان کام نہیں،لیکن جولوگ نہ اپنی اوقات جانیں اورنہ ائمہ مجتہدین کے مدارک اجتہاد کی بلندیوں سے واقف ہوں توان سے اس طرح کی باتیں قطعا غیرمتوقع نہیں،الناس اعدا ماجھلوا کا محاورہ یوں ہی وجود میں نہیں آگیا، اس میں صدیوں کے تجربات کی آمیزش ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگرامام ابوحنیفہ کی رائے میں کسی وجہ سے وہ حدیث قابل عمل نہیں ہے،اور اس کے برخلاف ابراہیم نخعی کی بیان کردہ رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے توکیا یہ حدیث کی مخالفت ہے، سیر اعلام النبلاء میں حافظ ذہبی نے اعمش کے ترجمہ میں نقل کیاہے کہ وہ حدیث سن کر آتے تھے تو ابراہیم نخعی اسے بتاتے تھے کہ کون سی حدیثیں قابل عمل ہیں اورکون سی قابل ترک ہیں،حالانکہ سند بالکل صحیح ہواکرتی تھی،اسی طرح کا واقعہ مشہور حنفی امام زفرؒ کے حالات میں بھی ملتاہے کہ مشہور محدث ابونعیم فضل بن دکین جن کو امیرالمومنین فی الحدیث بھی کہاگیاہے وہ بھی حدیث کی تحصیل کے بعد آکر امام زفر کو حدیث سناتے اورپھر امام زفر ان کیلئے احادیث میں انتخاب کرکے بتاتے کہ فلاں حدیث قابل عمل اورفلاں قابل ترک ہے،یہی بات ابن وہب نے امام مالک اور لیث بن سعد کیلئے بھی کہی ہے کہ احادیث کی کثرت نے ان کو حیران کردیاتھااور وہ گمراہی کے قریب تھے کہ امام مالک اورلیث بن سعد کی شاگردی کی سعادت مل گئی اورانہوں نے ان کو اس گمراہی سے بچالیا یہ بتاکر کہ کون سی حدیثیں قابل عمل اورکون سی قابل ترک ہیں، امام مالک کی موطا میں جو اسانید ہیں، ان کی صحت پر کس کو شبہ ہوسکتاہے ؟مگر بقول لیث بن سعد اور ابن حزم خود موطاامام مالک کی سترحدیثیں ایسی ہیں جن پر انہوں نے عمل نہیں کیا؟

کمال یہ ہے کہ زیر بحث موضوع میں مدعی سست اوگواہ کافی چست دکھائی دے رہاہے، جب حضرت حماد بن زید کو امام ابوحنیفہ نے ابراہیم نخعی کی زیر بحث مسئلہ میں رائے سے یااجتہاد سے آگاہ کیا تووہ خاموش ہوگئے ،یہ نہیں کہا کہ یہ حدیث کی مخالفت ہے،یہ نہیں کہاکہ حدیث کے مقابلے میں تابعی کی رائے پیش کرتے ہو؟وغیرذلک،جوان کو کہنے کا حق بھی بنتاتھا،مگر ابن داؤد صاحب چست گواہی کا فریضہ انجام دینے پر تلے بیٹھے ہیں ،اسے’’ دیگ سے زیادہ چمچہ گرم‘‘ بھی کہاجاتاہے۔

لہٰذا حماد بن زید کا امام ابو حنیفہ سے محبت کے بیان کو یوں سمجھا جائے گا کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے، کہ ان کی امام ابو حنیفہ سے محبت کی وجہ امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت نہیں، بلکہ امام ابو حنیفہ کی امام ایوب سختیانی سے محبت ہے! اور حماد بن زید کے اس قول سے حماد بن زید کی امام ابوحنیفہ کی فقہ وفقاہت کی مداح کشید کرنا باطل ہے!

اوراگرابن داؤد ذرا اس بارے میں مذاہب فقہاء کو جاننے کی کوشش کرتے توان کو معلوم ہوتے کہ اس بارے میں امام مالک بھی امام ابوحنیفہ کے ہمنوا ہیں، توگویاحماد بن زید یاجولوگ اس مسئلہ سے امام ابوحنیفہ کی فقاہت پر معترض ہیں، وہ امام مالک کی فقاہت بھی پر معترض ہیں؟ابن داؤد کواس مسئلہ میں موقف واضح کرناچاہئے اوربتاناچاہئے کہ امام مالک فقیہ ہیں یانہیں ہیں؟

ویسے ان حضرات کے پاس جو عدم ازار کی صورت میں بھی سراویل پہننے پر فدیہ کے قائل ہیں، امام مالک اورامام ابوحنیفہ ،ان کے پاس حضرت ابن عمرؓ کی صریح حدیث ہے، اب یہی توایک مجتہد کا وظیفہ ہوتاہے کہ وہ کئی مختلف احادیث میں غوروفکر کرکے کسی ایک جانب کو راجح اوردوسرے کو مرجوح قراردیتاہے ،لیکن یار لوگوں نے اسی کو مخالفت حدیث کہنا شروع کردیاہے یعنی ’’ہنر بھی ان کی نگاہوں میں عیب ‘‘ہے۔

میں نے کہاتھاکہ ابن تیمیہ نے کہاہے کہ ایمان کےباب میں حنفیہ اور دیگر میں اختلاف لفظی ہے،اس پر ابن دائود نے ابن تیمیہ کی عبارت تو پیش کی ؛لیکن اس کو سمجھنے سے قاصر رہے،اسی کو عقلمند کہہ گئے ہیں کہ ایک من علم کیلئے دس من عقل چاہئے اورچونکہ حماد بن زید کانام بھی اس تھریڈ میں بار بار آیاہے تواس سلسلے میں بھی ایک لطیفہ عرض ہے۔حماد بن زید کے سوانح میں مذکور ہے کہ حماد بن زید کا علم دودانق کاتھالیکن ادب چار دانق کا تھا،اورحماد بن سلمہ کا علم چاردانق تھالیکن ادب دودانق تھا ،مظروف کی مناسب سے ظرف بھی ضروری ہوتاہے ،ورنہ تاریخ میں یہی لکھ کر آتاہے کہ فلاں علمہ اکثر او اکبر من عقلہ ۔

وَأَنْكَرَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَمَنْ اتَّبَعَهُ تَفَاضُلَ الْإِيمَانِ وَدُخُولَ الْأَعْمَالِ فِيهِ وَالِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ؛ وَهَؤُلَاءِ مِنْ مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ وَأَمَّا إبْرَاهِيمُ النَّخَعِي - إمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ شَيْخُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ - وَأَمْثَالُهُ؛ وَمَنْ قَبْلَهُ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ: كعلقمة وَالْأَسْوَدِ؛ فَكَانُوا مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ مُخَالَفَةً لِلْمُرْجِئَةِ وَكَانُوا يَسْتَثْنُونَ فِي الْإِيمَانِ؛ لَكِنَّ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ خَالَفَ سَلَفَهُ؛ وَاتَّبَعَهُ مَنْ اتَّبَعَهُ وَدَخَلَ فِي هَذَا طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. ثُمَّ إنَّ " السَّلَفَ وَالْأَئِمَّةَ " اشْتَدَّ إنْكَارُهُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ وَتَبْدِيعُهُمْ وَتَغْلِيظُ الْقَوْلِ فِيهِمْ؛ وَلَمْ أَعْلَمِ أَحَدًا مِنْهُمْ نَطَقَ بِتَكْفِيرِهِمْ؛ بل هُمْ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُمْ لَا يُكَفَّرُونَ فِي ذَلِكَ؛ وَقَدْ نَصَّ أَحْمَد وَغَيْرُهُ مِنْ الْأَئِمَّةِ: عَلَى عَدَمِ تَكْفِيرِ هَؤُلَاءِ الْمُرْجِئَةِ.
اس عبارت میں قابل اعتراض بات کوئی نہیں ہے ،صرف اتنی سی بات ہے کہ حماد بن سلیمان نے ارجاء کا نقطہ نظراپنایا ،اوران کی اہل کوفہ ودیگر حضرات نے اس بارے میں پیروی کی اور اوربقول ابن تیمیہ سلف اورائمہ نے "اس کا شدت سے انکار کیا ،ان کو بدعتی قراردیا اور ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے "یہ بڑے کام کی بات ہے کہ حماد بن سلیمان اوراس معاملہ میں ان کی پیروی کرنے والوں پر ائمہ وسلف کی جرح کی بنیاد یہی ارجاکا مسئلہ ہے، اوراسی کی بنیاد پر ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔

یہی بات ہم بھی ماقبل میں ابن داؤد کو سمجھاتے آئے ہیں کہ امام ابوحنیفہ پر ایوب سختیانی کی جرح کی وجہ ارجاء کامسئلہ ہوسکتاہے ،نہ کہ ان کی فقاہت ،اوریہی بات بانداز دیگر ابن تیمیہ بھی کہہ رہے ہیں، ہم نے جوکہا،اس کی تائید توابن تیمیہ سےبھی ہوگئی،خود ایوب سختیانی کی سیرت وسوانح سےبھی ہوتی ہے کہ وہ جس کو غلط نقطہ نظرکا حامل سمجھتے تھے،اس کے سلام کا جواب تک دینے کے روادار نہیں ہوتے تھے،پھر اگر انہوں نے ارجاء کو غلط سمجھ کر اپنے شاگردوں کو امام ابوحنیفہ کی صحبت سے باز ررہنے کی تاکید کی تواس کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے ؛لیکن ابن داؤ د نے اس میں نیا شوشہ شامل کردیاہے کہ ایوب سختیانی کی امام ابوحنیفہ سے ناراضگی کی وجہ ان کی فقاہت تھی اوراس دعویٰ کی ان کے پاس اگرچہ کوئی دلیل نہیں ہے لیکن بقول شاعر وہ اس پر قائم رہیں گے کیونکہ

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
وَلِهَذَا لَمْ يُكَفِّرْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَحَدًا مِنْ " مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ " بَلْ جَعَلُوا هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ؛ لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ النِّزَاعِ فِيهَا لَفْظِيٌّ لَكِنَّ اللَّفْظَ الْمُطَابِقَ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ هُوَ الصَّوَابُ
یہ اقتباس نقل کرنے کے بعد ابن داؤ د کہتے ہیں:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ''مرجئة الفقهاء '' کو سلف کے خلاف قرار دیا، انہیں اعمال واقوال میں بدعت کا مرتکب قرار دیا، اور اکثر نزاع کو نزاع لفظی قرار دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ صواب یہی ہے کہ الفاظ کی کتاب وسنت سے موافقت ہی درست ہے۔ہاں اتنا بیان کیا ہے کہ ان ''مرجئة الفقهاء'' کی سلف نے تکفیر نہیں کی!! فتدبر!!
اس میں ابن داؤد نے حسب معمول" لامن بدع العقائد"کااہم بیان حذ ف کردیا،یعنی اردو میں اسے تحریر میں لانے سے باز رہے،ابن تیمہ کے کہنے کا جومنشاہے وہ تو ابن داؤد سمجھ نہیں سکے، ہم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں خدا کرے سمجھ میں آجائے:
ابن تیمیہ نے اس عبار ت میں دو باتیں کہی ہیں :

اولاً:هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَال
ثانیاً: لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ

سوال یہ ہے کہ ارجاءکا مسئلہ تو عقیدہ کا مسئلہ ہے، اگر یہ مسئلہ عقیدہ کے اعتبار سے بدعت نہیں ہے توپھر کیاہے، ابن تیمیہ نے ایک جانب صراحت کے ساتھ اس کی نفی کردی ہے کہ فقہاء کا جوارجاء ہے، وہ قطعاًعقیدہ میں بدعت نہیں ہے، دوسری جانب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ قول وفعل کے لحاظ سے بدعت ہے:

ابن تیمیہ کے کہنے کا منشایہ ہے کہ فقہاء کا ارجاء حقیقت کے اعتبار سے اور عقیدہ کے اعتبار سے تو اہل سنت والجماعت کاہی عقیدہ ہے،حقیقی اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اعمال پر ثواب وعقاب مرتب ہوگا، دونوں یہ بھی مانتے ہیں کہ مرتکب کبیرہ خلودفی النار کا مرتکب نہیں ہوگا، دونوں یہ بھی مانتے ہیں کہ اعمال کو ترک کرنے والا اللہ کی مشیت کے تحت ہے، چاہے اسے بخش دے ،چاہے سزادے۔

سوال یہ ہے کہ پھر دونوں میں یعنی ارجاء الفقہاء اورمحدثین کے عقیدہ میں اس باب میں کیا فرق ہوا، جواب ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں ،حقیقی اعتبار سے دونوں میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں ہے، فرق صرف تعبیر اوراظہار بیان میں ہے اوراسی تعبیر واظہار بیان کے فرق کو ابن تیمیہ نے" بدع الاقوال والافعال لامن بدع العقائد" سے تعبیر کیاہے،اگر حقیقت ایک ہو اوراس کی تعبیر مختلف انداز سے کی جائے تواس سے حقیقت نہیں بدلتی ہے ،ہاں اظہار بیان کا پیرایہ ضرور بدل جاتاہے۔

عباراتنا شتیٰ وحسنک واحد
وکل الی ذاک الجمال یشیر
ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ چونکہ سلف سے اس باب میں ایک خاص عبارت منقول تھی،الایمان قول وعمل ،اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس عبارت کو چھوڑکر اسی حقیقت کیلئے دوسری تعبیراختیارکرنا یادوسری عبارت لانا قول وفعلی بدعت ہے۔امید ہے کہ ابن تیمیہ کی عبارت سمجھ میں آگئی ہوگی ۔

جہاں تک کثیر وغیرہ کا تعلق ہے تو واضح رہناچاہئے کہ ہرجگہ مفہوم مخالف مراد نہیں ہوتایعنی ابن تیمیہ نے کثیر کااستعمال کیاہے تواس کا مفہوم مخالف یہ ہواکہ تھوڑا اساقلیل اختلاف ایسابھی ہے جو لفظی نہیں ہے ،ابن تیمیہ نے اسے واضح کردیاہے کہ عقیدہ کے اعتبار سے،حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے دونوں موقف میں ہے،جوفرق ہے وہ تعبیر اوراظہار بیان میں ہے اوراسی کو انہوں نے قول وفعل کے اعتبار سے بدعت کہاہے اورچاہیں توآپ اسی قلیل من النزاع غیر لفظی سے تعبیر کرلیں۔
جاری ہے....................
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ویسے ایمان میں کمی وزیارتی اور محدثین واحناف کے مسلک میں اختلاف کی حقیقت پرعلامہ انورشاہ کشمیری نے قل ودل کے مصداق بہترین کلام کیاہے،ذیل میں ان کی عبارت پیش کی جاتی ہے:
قول وعمل
وفي عامة نسخ البخاري: قول وفعل، ولا أعلم وجهه. ولفظ السلف: الإيمان: اسم للاعتقاد والقول والعمل، فلا أدري ما وجه تغييره عنوان السلف، ووضع الفعل بدل العمل، مع أن الأظهر هو العمل. ولما أراد البخاري من القول ما يوافق الباطن اندرج الاعتقاد تحته. ولذا حذفه من مقولتهم. فالإيمان عند السلف عبارة عن ثلاثة أشياء: اعتقاد، وقول، وعمل. وقد مر الكلام على الأولين: أي التصديق، والإقرار، بقي العمل، هل هو جزء للإيمان أم لا؟ فالمذاهب فيه أربعة:
قال الخوارج والمعتزلة: إن الأعمال أجزاء للإيمان، فالتارك للعمل خارج عن الإيمان عندهما. ثم اختلفوا، فالخوارج أخرجوه عن الإيمان، وأدخلوه في الكفر، والمعتزلة لم يدخلوه في الكفر. بل قالوا بالمنزلة بين المنزلتين.
والثالث: مذهب المرجئة فقالوا: لا حاجة إلى العمل، ومدار النجاة هو التصديق فقط. فصار الأولون والمرجئة على طرفي نقيض.
والرابع: مذهب أهل السنة والجماعة وهم بين بين، فقالوا: إن الأعمال أيضا لا بد منها، لكن تاركها مفسق لا مكفر. فلم يشددوا فيها كالخوارج، والمعتزلة، ولم يهونوا أمرها كالمرجئة. ثم هؤلاء افترقوا فرقتين، فأكثر المحدثين إلى أن الإيمان مركب من الأعمال. وإمامنا الأعظم رحمه الله تعالى وأكثر الفقهاء والمتكلمين إلى أن الأعمال غير داخل في الإيمان، مع اتفاقهم على أن فاقد التصديق كافر، وفاقد العمل فاسق، فلم يبق الخلاف إلا في التعبير. فإن السلف وإن جعلوا الأعمال أجزاء، لكن لا بحيث ينعدم الكل بانعدامها، بل يبقى الإيمان مع انتفائها.
وإمامنا وإن لم يجعل الأعمال جزءا، لكنه اهتم بها وحرض عليها، وجعلها أسبابا سارية في نماء الإيمان، فلم يهدرها هدر المرجئة، إلا أن تعبير المحدثين القائلين بجزئية الأعمال، لما كان أبعد من المرجئة المنكرين جزئية الأعمال، بخلاف تعبير إمامنا الأعظم رحمه الله تعالى، فإنه كان أقرب إليهم من حيث نفي جزئية الأعمال، رمي الحنفية بالإرجاء. وهذا كما ترى جور علينا فالله المستعان. ولو كان الاشتراك بوجه من الوجوه التعبيرية كافيا لنسبة الإرجاء إلينا، لزم نسبة الاعتزال إليهم، فإنهم قائلون: بجزئية الأعمال أيضا كالمحدثين، ولكن حاشاهم والاعتزال، وعفا الله عمن تعصب ونسب إلينا الإرجاء، فإن الدين نصح كله، لا مراماة ومنابذة بالألقاب. ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم.(
فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 128)

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ وَسُئِلَ عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ: فَرِيضَةٌ. قُلْتُ: كَمِ الصَّلَوَاتُ؟ قَالَ: خَمْسٌ.قُلْتُ: فَالْوِتْرُ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا میں نے ابو حنیفہ کو پایا، اور ان سے وتر کے متعلق سوال کیا، تو ابو حنیفہ نے جواب دیا کہ فرض ہے۔ میں نے کہا کتنی نمازیں ہیں؟ تو ابو حنیفہ نے جواب دیا پانچ (5) ۔ میں نے کہا پھر وتر؟ تو ابو حنیفہ نے جواب دیاکہ فرض ہے۔
یہ بھی بات کو نہ سمجھنے کا شاخسانہ ہے،امام ابوحنیفہ ؒ فرض اورسنت کے درمیان ایک مزید درجہ کے قائل ہیں، جسے واجب سے تعبیر کیاجاتاہے،دیگر حضرات اس درجہ کےقائل نہیں ،لیکن مانتے ہیں کہ بعض بعض سے زیادہ موکد ہیں۔
امام ابوحنیفہ نے وتر کو فریضہ مانالیکن جب ان سے دن رات میں فرض نمازوں کے بارے میں سوال کیاگیاتوانہوں نے بتایاکہ فرض نمازیں توپانچ ہی ہیں ؛لیکن وتر بھی سنت سے زیادہ موکد اور فرض کے زیادہ قریب ہے جسے انہوں نے فریضہ سے تعبیر کیاہے،یہ اصطلاح کا اختلاف ہے اورویسےبھی کہاجاتاہے، لامشاحۃ فی الاصطلاح۔
ابن داؤد لکھتے ہیں:

مزید دیکھیں؛ حماد بن زید نے امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت پر خود امام ابو حنیفہ کو لا جواب کر دیا تھا،
یہ بھی بات کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے،خاموش کون ہوا؟حماد بن زید یاامام ابوحنیفہ؟امام ابوحنیفہ نے تو وتر کو فریض کہا،اور پھر جب سوال کیاگیاکہ کتنی نمازیں فرض ہیں تو بتایاکہ پانچ ہیں ،پھر جب وتر کے بارے میں پوچھاگیاتو فرمایاکہ یہ فریضہ ہے،اس سوال کے بعد تو خاموش حماد بن زید ہی ہوئے، ورنہ حماد بن زید مزید سوال پوچھتے اوراپنی تسلی وتشفی کرتے۔
دوسری بات ہے کہ کہ کسی فقیہ کے کسی اجتہاد پر اعتراض کرنا کیااس کو فقاہت سے خارج کردیناہے؟یہ الٹی سمجھ ہے، ہم مانتے ہیں کہ ائمہ مجتہدین ایک دوسرے مسائل اوراجتہاد کے باب میں سخت تنقید کرتے آئے ہیں؛لیکن وہ اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے مداح بھی تھے، امام شافعی جہاں ایک جانب امام ابوحنیفہ کےا جتہادات پر اعتراض کرتے ہیں ،دوسری دوسری سانس میں فقہاء کوامام ابوحنیفہ کا خوشہ چیں بھی قراردیتے ہیں، امام لیث بن سعد امام مالک پر اعتراض کرتے ہیں ،خط لکھ کر اپنےا عتراض واضح کرتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ان کی فقاہت اور ان کے علومرتبت کا اعتراف کرتے ہیں، یہ تنگ نظری اورکم ظرفی تودورحاضر کی پیداوار ہے جہاں کسی ایک امام کے امام ابوحنیفہ پراعتراض کو دکھاکر سمجھا اورسمجھایاجاتاہے کہ یہ امام توامام ابوحنیفہ سے بالکل ہی برگشتہ خاطرتھے ،ابن داؤد اوران کے ہمنوایقین رکھیں کہ ائمہ اسلاف ہماری طرح تنگ نظر اور کم ظرف نہیں تھے، ان کا ظرف اعلیٰ تھا، وہ تنقید کرتے تھے ،اسی کے ساتھ اپنے مخالف کے علم وفضل کے مداح بھی ہوتے تھے،دورحاضر میں جویہ رسم چل پڑی ہے کہ مخالف خواہ کتناہی متدین اور علم وفضل والا کیوں نہ ہو ؛غیرمعتبر ہے،قرون ماضیہ میں اس کا تصورنہیں تھا۔

جاری ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمت الله -

گفتگو میں مداخلت کی پیشگی معذرت-

یہاں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ آپ (رحمانی صاحب) کے امام ابوحنیفہ ؒ کی علمی قابلیت، فقہا کی ان پر جرح و تنقید اور تعریف و مداح اور ان کے عالمانہ فقہی ارشادات سے متعلق تجزیے سے قطع نظر، امام صاحب کی شخصیت کو متنازع بنانے میں جو کردار خود احناف نے ادا کیا ہے وہ شاید کسی اور مذہب میں آپ کو ملے- دور حاضر میں تقلیدی ذہن رکھنے والے علماء و مشائخ اور عام عوام نے امام صاحب کا جو دیو ملائی تصور پیش کیا (روافض کی ڈگر پر) اس نے مذہبی و غیر مذہبی حلقوں میں امام صاحب کی اچھی بھلی علمی شخصیت کا عجیب و غریب نقشہ کھینچ دیا- اور انھیں "امام معصوم" کی صف میں لا کھڑا کیا-رحمانی صاحب فرماتے ہیں کہ" آئمہ و مجتہدین ایک دوسرے مسائل اوراجتہاد کے باب میں سخت تنقید کرتے آئے ہیں لیکن وہ اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے مداح بھی تھے، امام شافعی جہاں ایک جانب امام ابوحنیفہ کےا جتہادات پر اعتراض کرتے ہیں دوسری سانس میں فقہاء کوامام ابوحنیفہ کا خوشہ چیں بھی قراردیتے ہیں"- تو محترم سے عرض ہے کہ (چند ایک مذہبی جذباتی نفوس کو چھوڑ کر) امام صاحب کی فقاہت و فصاحت کا کس نے انکار کیا- لیکن وہ بہر حال ایک انسان تھے نبی نہیں تھے کہ جو ان سے غلطی ممکن ہی نہیں اور ان کی ہر بات کو حرف آخر سمجھا جائے اور اپنے اوپر ان کی تقلد کو واجب قرار دیا جائے-

محدثین و مجتہدین کا منہج تو یہ رہا ہے کہ ایک دوسرے کی مداح کے ساتھ ساتھ تنقید بھی ہونی چاہیے تا کہ ایک امام و مجتہد کو عام انسان ہی سمجھا جائے امام معصوم نہ سمجھا جائے- لیکن نام نہاد احناف کو امام صاحب کی ہر چیز گوارہ ہے لیکن ان پر جرح و تنقید گوارہ نہیں- اور پھر جب رد عمل کے طور پر علماء اسلاف امام ابو حنیفہ کو اپنی جرح و تنقید کا موضوع بناتے ہیں - تو احناف کے قلم کی ساری سیاہی پھر امام صاحب کی بے گناہی میں صرف ہونا شروع ہو جاتی ہے- کاش احناف ابو حنیفہ رحم الله کی تقلید سے باہر آکر ان کی شخصیت کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تا کہ زمانہ ان کی علمی کاوشوں کا دل سے معترف ہو-
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
السلام علیکم و رحمت الله -

گفتگو میں مداخلت کی پیشگی معذرت-

یہاں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ آپ (رحمانی صاحب) کے امام ابوحنیفہ ؒ کی علمی قابلیت، فقہا کی ان پر جرح و تنقید اور تعریف و مداح اور ان کے عالمانہ فقہی ارشادات سے متعلق تجزیے سے قطع نظر، امام صاحب کی شخصیت کو متنازع بنانے میں جو کردار خود احناف نے ادا کیا ہے وہ شاید کسی اور مذہب میں آپ کو ملے- دور حاضر میں تقلیدی ذہن رکھنے والے علماء و مشائخ اور عام عوام نے امام صاحب کا جو دیو ملائی تصور پیش کیا (روافض کی ڈگر پر) اس نے مذہبی و غیر مذہبی حلقوں میں امام صاحب کی اچھی بھلی علمی شخصیت کا عجیب و غریب نقشہ کھینچ دیا- اور انھیں "امام معصوم" کی صف میں لا کھڑا کیا-رحمانی صاحب فرماتے ہیں کہ" آئمہ و مجتہدین ایک دوسرے مسائل اوراجتہاد کے باب میں سخت تنقید کرتے آئے ہیں لیکن وہ اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے مداح بھی تھے، امام شافعی جہاں ایک جانب امام ابوحنیفہ کےا جتہادات پر اعتراض کرتے ہیں دوسری سانس میں فقہاء کوامام ابوحنیفہ کا خوشہ چیں بھی قراردیتے ہیں"- تو محترم سے عرض ہے کہ (چند ایک مذہبی جذباتی نفوس کو چھوڑ کر) امام صاحب کی فقاہت و فصاحت کا کس نے انکار کیا- لیکن وہ بہر حال ایک انسان تھے نبی نہیں تھے کہ جو ان سے غلطی ممکن ہی نہیں اور ان کی ہر بات کو حرف آخر سمجھا جائے اور اپنے اوپر ان کی تقلد کو واجب قرار دیا جائے-

محدثین و مجتہدین کا منہج تو یہ رہا ہے کہ ایک دوسرے کی مداح کے ساتھ ساتھ تنقید بھی ہونی چاہیے تا کہ ایک امام و مجتہد کو عام انسان ہی سمجھا جائے امام معصوم نہ سمجھا جائے- لیکن نام نہاد احناف کو امام صاحب کی ہر چیز گوارہ ہے لیکن ان پر جرح و تنقید گوارہ نہیں- اور پھر جب رد عمل کے طور پر علماء اسلاف امام ابو حنیفہ کو اپنی جرح و تنقید کا موضوع بناتے ہیں - تو احناف کے قلم کی ساری سیاہی پھر امام صاحب کی بے گناہی میں صرف ہونا شروع ہو جاتی ہے- کاش احناف ابو حنیفہ رحم الله کی تقلید سے باہر آکر ان کی شخصیت کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تا کہ زمانہ ان کی علمی کاوشوں کا دل سے معترف ہو-
بارک اللہ فیک ۔
 
Top