• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابوحنیفه نعمان بن ثابت, امام ایوب سختیانی کی نظر میں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام احمد بن حنبل پر ظلم کرنے والے معتزلی حنفیوں سے دیوبندی ماتریدی حنفیوں کا کتنا اختلاف ہے، یہ بھی دیکھ لیں، کہ خاص اسی ''خلق قرآن'' کے مسئلہ میں دیوبندی ماتریدی حنفی بھی اس منزل من اللہ عربی قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتے! اور خود معتزلی عقیدہ کے حامل ہیں؛
اہل الکلام کا منز ل من اللہ عربی قرآن کو کلام اللہ اور غیر مخلوق ماننے سے انکار:

پہلے تو قرآن کی آیت دیکھ لیں:
الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿1﴾ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿2﴾ ﴿سورة يوسف﴾
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں ﴿﴾ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں تمہارے سمجھنے کے لیے نازل کیا ﴿﴾ ﴿ترجمہ احمد علی لاہوری
اب ذرا اہل الکلام کا علم الکلام کی بنیاد پر ان کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں:
(قوله الأصل السادس والسابع أنه متكلم بكلام قديم) زاد غيره باق أبدي (قائم بذاته) زاد غيره لا يفارق ذاته ولا يزايله (ليس بحرف ولا صوت) زاد غيره ليس بعبري ولا سوري ولا عربي وانما العربي والسوري والعبري مما هو دلالات علی كلام الله تعالیٰ وانه واحد غیر متجزئ والا متبعض (هو به طالب) أي آمرناه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 – 75 جلد 01 مفصولة بجدول (حاشية على المسامرة في شرح المسايرة في علم الكلام) - زين الدين قاسم بن قطلوبغا (المتوفى: 878هـ) – المكتبة الأزهرية للتراث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 69 – 70 مفصولة بجدول (حاشية على المسامرة في شرح المسايرة في علم الكلام) - زين الدين قاسم بن قطلوبغا (المتوفى: 878هـ) – المطبعة الكبری الاميرية


والكلام وهي صفة أزلية عبر عنها المسمی بالقرآن المركب من الحروف؛ وذلك لأن كل من يأمر وينهی ويخبر يجد في نفسه معنی، ثم يدل عليه بالعبارة أو الكتابة أو الإشارة،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور (آٹھویں صفت) کلام ہے اور ازلی صفت ہے جسے نظم (متلوّ) سے تعبیر کیا جاتاہے جو قرآن کے نام سے موسوم ہے جو حروف سے مرکب ہے۔ اور یہ اس لئے کہ ہر شخص جو حکم کرتا ہے اور منع کرتا ہے اور خبر دیتا ہے وہ اپنے جی میں ایک معنی پاتا ہے پھر اس (معنی) پر عبارت (الفاظ) یا کتابت یا اشارہ کے ذریعے دلالات کرتا ہے (یعنی بتلاتا ہے)۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 225 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور (آٹھویں صفت) کلام ہے اور وہ ایک ایسی صفت ازلی ہے جس کو اس قرآن نامی نظم کے ذریعہ تعبیر کیا جاتا ہے جو حروف سے مرکب ہے اور یہ اس لئے کہ ہر شخص جو امرو نہی کرتا ہے اور خبر دیتا ہے وہ اپنے دل میں ایک بات محسوس کرتا ہے پھر اس کو لفظ کے ذریعہ یا کتابت کے ذریعہ یا اشارہ کے ذریعہ بتلاتا ہے
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 234حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور کلام ہے اور یہ ایسی صفت ازلیہ ہے جس کو اس نظم سے تعبیر کیا جاتا ہے جو قرآن کے نام سے موسوم ہے جو حروف سے مرکب ہے اور یہ اس لئے کہ ہر وہ شخص جو حکم کرتا ہے اور منع کرتا ہے اور خبر دیتا ہے وہ اپنے نفس میں ایک معنیٰ پاتا ہے پھر اس معنیٰ کے اوپر عبارت یا کتابت یا اشارہ کے ذریعہ دلالت کرتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 263 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور (آٹھویں صفت) کلام ہے اور وہ ایک ایسی ازلی صفت ہے جو کو اس قرآن نامی نظم کے ذریعہ تعبیر کیا جاتا ہے جو حروف سے مرکب ہے اور یہ اس لئے کہ ہر شخص جو امر ونہی کرتا ہے اور خبر دیتا ہے وہ اپنے دل میں ایک بات محسوس کرتا ہے پھر اس کو لفظ کے ذریعے یا کتابت کے ذریعہ یا اشارہ کے ذریعے بتلاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

والدليل علی ثبوت صفة الكلام: إجماع الأمة وتواتر النقل عن الأنبياء عليهم السلام، انه تعالیٰ متكلم، مع القطع باستحالة التكلم من غير ثبوت صفة الكلام، فثبت أن لله تعالیٰ صفات ثمانية، هي والقدرة والحياة والسمع والبصر والإرادة والتكوين والكلام.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 154 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور صفت کلام کے ثبوت پر دلیل امت کا اجماع ہے اور انبیاء علیہم السلام سے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہیں اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ صفت کلام کے ثبوت کے بغیر متکلم ہونا محال ہے پس ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آٹھی صفات ہیں، وہ علم اور قدرت اور حیات اور سمع اور بصر اور ارادہ اور تکوین اور کلام ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 226 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور صفتِ کلام کے ثبوت پر دلیل امت کا اجماع اور انبیاء علیہم السلام سے تواتر کے ساتھ یہ منقول ہونا ہے، کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ بغیر صفت کلام کے ثبوت کے متکلم ہونا محال ہے پس ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیئے آٹھ صفات ہیں اور وہ علم، قدرت، حیات، سمع بصر، ارادہ، تکوین اور کلام ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 234 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور صفت کلام کے ثبوت پر اجماع امت اور نقل کا متواتر ہوا ہے انبیاء علیہم السلام سے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے، متکلم کے استحالہ کے یقینی ہونے کے باوجود صفت کلام کے ثبوت کے بغیر، تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے لئت آٹھ صفات ہیں جو کہ علم اور قدرت اور حیٰوۃ اور سمع اور بصر اور ارادہ اور تکوین اور کلام ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 266 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور صفت ِ کلام کے ثبوت پر دلیل امت کا اجماع اور انبیاء علیہ السلام سے تواتر کے ساتھ یہ منقول ہونا ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ بغیر صفت کلام کے متکلم ہونا محال ہے پس ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آٹھ صفات ہیں اور وہ علم، قدرت، حیات، سمع، بصر، ارادہ، تکوین اور کلام ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

وهو أي الله تعالیٰ متكلم بكلام هو صفة له، ضرورة امتناع إثبات المشتق للشيء، من غير قيام مأخذ الاشتقاق به. وفي هذا رد علی المعتزلة، حيث ذهبوا إلی أنه متكلم بكلام هو قائم بغيره ليس صفة له أزلية ضرورة امتناع قيام الحوادث بذاته تعالیٰ، ليس من جنس الحروف والأصوات، ضرورة أنها أعرض حادثة، مشروط حدوث بعضها بانقضاء البعض؛ لأن امتناع التكلم بالحرف الثاني بدون انقضاء الحروف الأول بديهي. وفي هذا رد علی الحنابلة والكرامية القائلين بأن كلامه عرض، من ضنس الأصوات والحروف، ومع ذلك فهو قديم.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 155 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
پس (ماتن رحمہ اللہ ) کہا اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسی کلام کے ساتھ جو صفت ہے، کسی شئی کے لئے مشتق کے اثبات کے امتناع کی ضرورت کی وجہ سے ماخذ اشتقاق کے قیام کے بغیر اور اس (عبارت) میں معتزلہ پر رد ہے کہ وہ اس بات کی طرف چلے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسی کلام کے ساتھ جو اس کے غیر کے ساتھ قائم ہے اس (اللہ تعالیٰ) کی صفت نہیں ہے (ماتن رحمہ اللہ نے کہا کہ وہ صفت کلام) ازلی ہے حوادث کے قیام کا ذات باری کے ساتھ محال کے ضروری ہونے کی وجہ سے (وہ صفتِ کلام) حروف اور اصوات کی جنس ميں بھی نہیں اس بات کی ضرورت کی وجہ سے، کہ (حروف و اصوات) ایسے اعراض ہیں جو حادث ہیں بعض کا حادث ہونا دوسرے بعض کے ختم ہونے کے ساتھ مشروط ہے اس لئے کہ حرف قول کے (تلفظ) ختم ہونے کے بغیر حرف ثانی کے تلفظ کا محال ہونا بدیہی ہے اور اس (عبارت) میں حنابلہ اور کرامیہ پر رد ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ (اللہ تعالیٰ کی) کلام عرض ہے اصوات اور حروف کی جنس میں سے ہے اور اس کے باوجود وہ قدیم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 228 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسے کلام کے سبب جو ان کی صفت ہے۔ شی کئ لئے اسم مشتق کا اثبات اس کے ساتھ ماخذِ اشتاق کے قائم ہوئے بغیر محال ہونے کی وجہ سے، اور اس میں معتزلہ کی تردید ہے۔ اس لئے کہ ان کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسے کلام کی وجہ سے جو اس کے علاوہ کے ساتھ قائم ہے ان کی صفت نہیں ہے۔ وہ صفت ازلی ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام محال ہونے کی وجہ سے، حروف اور اصوات کی جنس سے نہیں ہے کیونکہ حروف واصوات ایسے اعراض ہیں جو حادث ہیں۔ بعض کا حادث ہونا دوسرے بعض کے ختم کے ساتھ مشروط ہے کیونکہ حرف اول کے ختم ہوئے بغیر حرف ثانی کے تلفظ کا محال ہونا بدیہی ہے اور اس میں حنابلہ اور کرامیہ کی تردید ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام عرض ہے۔ اصوات اور حروف کی جنس سے ہے اور اس کے باوجود وہ قدیم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 237 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہے ایسے کلام کے ساتھ جو اس کی صفت ہےکسی شئ کے لئے اثبات مشتق کے امتناع کی ضرورت کی وجہ سے اس کے ساتھ ماخذ اشتقاق کے قائم ہوئے بغیر، اور اس کے اندر رد ہے معتزلہ پر جو گئے ہیں اس بات کی جانب کہ وہ متکلم ہے ایسے کلام کے ساتھ جو اس کے غیر کے ساتھ قائم ہے اس کی صفت نہیں ہے (وہ صفت) ازلی ہے قیامِ حوادث کے امتناع کے ضروری ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ (وکلام) حروف اور اصوات کی جنس سے نہیں ہے اس بات کی ضرورت کی وجہ سے یہ (حروف و اصوات) اعراض حادثہ ہیں ان میں بعض حدوث مشروط ہے بعض کے ختم ہونے کے ساتھ، اس لئے کہ حرف ثانی کے تکلم کا ممتنع ہونا حرف اول کے ختم ہوئے بغیر بدیہی ہے اور اس کے اندر رد ہے حنابلہ اور کرامیہ پر جو اس بات کے قائل ہیں کہ اس کا کلام عرض ہے جو اصوات اور حروف کی جنس سے ہے اور اس کے باوجود قدیم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 267 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور وہ متکلم یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسے کلام کے ساتھ جو ان کی صفت ہے شئی کے لئے اسم مشتق کا اثبات اس کے ساتھ ماخذِ اشتقاق کے قائم ہوئے بغیر محال ہونے کی وجہ سے، اور اس میں معتزلہ کی تردید ہے اس لئے کہ ان کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہیں ایسے کلام کی وجہ سے جو اس کے علاوہ کے ساتھ قائم ہے ان کی صفت نہیں ہے۔ وہ صفت ازلی ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام محال ہونے کی وجہ سے، حروف اور اصوات کی جنس سے نہیں ہے کیونکہ حروف واصوات ایسے اعراض ہیں جو حادث ہیں۔ بعض کا حادث ہونا دوسرے بعض کے ختم کے ساتھ مشروط ہے کیونکہ حرف اول کے ختم ہوئے بغیر حرف چانی کے تلفظ کا محال ہونا بدیہی ہے اور اس میں حنابلہ اور کرامیہ کی تردید ہے جو اس بات کے قائل ہین کہ اللہ تعالیٰ کا کلام عرض ہے۔ اصوات اور حروف کی جنس سے ہے اور اس کے باوجود قدیم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

ولما صرح بأزلية الكلام حاول التنبيه علی القرآن أيضاً قد يطلق علی هذا الكلام النفسي القديم، كما يطلق علی النظم المتلوّ الحادث، فقال: والقرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق، وعقب القرآن بكلام الله تعالیٰ؛ لما ذكر مشائخ من أنه يقال القرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق، ولا يقال: القرآن غير مخلوق؛ لئلا يسبق إلی الفهم أن المؤلف من الأصوات والحروف قديم، كما ذهب إليه الحنابلة جهلاً أو عناداً، وأقام غير المخلوق مقام غير الحادث تنبيهاً علی اتحاهما، وقصداً ألی جري الكلام علی وفق الحديث، حيث قال عليه السلام: ''القرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق، ومن قال: إنه مخلوق فهو كافر بالله العظيم''، وتنصيصاً علی محل الخلاف بالعبارة المشهورة فيما بين الفريقين، وهو أن القرآن مخلوق أو غير مخلوق؛ ولهذا تترجم هذه المسألة بمسألة خلق القرآن،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 159 - 161 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور جب (ماتن رحمہ اللہ نے) کلام کے ازلی ہونے کی تصریح فرمائی ہے (تو اب) اس بات پر تنبیہ کرنے کا ارادہ فرمایا ہے کہ قرآن جس طرح اس کلام نفسی قدیم پر بولا جاتا ہے اسی طرح نظم متلوّ (جس کی تلاوت کی جاتی ہے) حادث پر بھی بولا جاتا ہے۔ پس (ماتن رحمہ اللہ نے) کہا۔ اور قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے اور (لفظ) قرآن کے بعد کلام اللہ لائے، اس لئے کہ مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ یوں کہا جائے '' القرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق'' اور (یوں نہ کہا جائے '' القرآن غير مخلوق'' تاکہ ذہن کی طرف یہ بات سبقت نہ کرے کہ (قرآن) حروف اور اصوات سے مرکب ہے، قدیم ہے جیسا کہ اس کی طرف حنابلہ جہالت یا عناد کی وجہ سے گئے ہیں اور ماتن رحمہ اللہ نے '' غیر مخلوق '' کو '' غير حادث '' کی جگہ پر رکھا ہے، دونوں (مخلوق و حادث) کے متحد ہونے پر، تنبیہ کرتے ہوئے اور حدیث کے موافق کلام کو جاری کرنے کے ارادے سے، اس لئے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا '' القرآن كلام الله تعالیٰ غير مخلوق ومن قال انه مخلوق فهو كافر بالله العظيم '' (قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے اور جس نے اس کو مخلوق کہا اس نے اللہ العظیم کے ساتھ کفر کیا ہے) اور فریقین کے درمیان مشہور عبارت کے ذریعے محل اختلاف پر تصریح کرتے ہوئے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق۔ اور اسی وجہ سے اس مسئلہ کا عنوان مسئلہ خلق قرآن رکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 235 – 236 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور جب مصنف رحمہ اللہ کلام کے ازلی ہونے کی صراحت کر چکے تو اس بات سے آگاہ کرنے کا ارادہ کیا کہ لفظ قرآن اس کلام نفسی پر بھی بولا جاتا ہے جس طرح نظم متلو حادث پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا اورقرآن اللہ کا کام غیر مخلوق ہے اور لفظ قرآن کے بعد کلام کا لفظ لائے۔ کیونکہ مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق کہا جائے۔ القرآن غیر مخلوق نہ کہا جائے تاکہ ذہن کی طرف یہ بات سبقت نہ کرے کہ وہ کلام جو حروف واصوات سے مرکب ہے وہ قدیم ہے جیسا کہ جہالت یا عناد کی وجہ سے حنابلہ اس طرف گئے ہیں اور غیر حادث کے بجائے غیر مخلوق کا لفظ لائے دونوں کے اتحاد پر متنبہ کرنے اور کلام کو حدیث کے موافق جاری کرنے کے ارادہ سے۔ اس لئے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا۔ القرآن كلام الله غير مخلوق ومن قال انه مخلوق فهو كافر بالله العظيم، اور فریقین کے درمیان مشہور عبارت کے ذریعے محل خلاف کی صراحت کرنے کے لئے۔ اور وہ یہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق ہے۔ اسی وجہ سے اس مسئلہ کا مسئلہ خلق قرآن عنوان رکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 245 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور جب مصنف نے کلام کے ازلی ہونے کی صراحت فرمائی ہے تو انہوں نے ارادہ کیا اس بات پر متنبہ کرنے کا کہ قرآن کا اطلاق کبھی کلام نفسی پر کردیا جاتا ہے جو قدیم ہے جیسا کہ اطلاق کیا جاتا ہے کہ اس نظم پر جس کی تلاوت کی جاتی ہے جو کہ حادث ہے تو فرمایا مصنف علیہ الرحمہ نے۔ اور قرآن جو اللہ کا کلام ہے غیر مخلوق ہے۔ اور مصنف رحمہ اللہ پیچھے لائے قرآن کے کلام اللہ تعالیٰ کو بوجہ اس کے کہ مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ القرآن کلام اللہ تعالیٰ غیر مخلوق بولا جاتا ہے اور القرآن غیر مخلوق نہیں بولا جاتا۔ تاکہ فہم کی جانب یہ بات سبقت نہ کرے کہ جو اصوات وحروف سے مرکب ہے وہ قدیم ہے جیسا کہ جہالت یا عناد کی وجہ سے حنابلہ اس کی طرف گئے ہیں۔ اور رکھا مصنف رحمہ اللہ غیر مخلوق کو غیر حادث کی جگہ تنبیہ کرتے ہوئے ان دونوں کے اتحاد پر اور ارادہ کرتے ہوئے کلام کو جاری کرنے کا حدیث کے موافق اس حیثیت سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن جو اللہ کا کلام ہے وہ غیر مخلوق ہے اور جس نے کہا کہ مخلوق ہے اس نے اللہ عظیم کے ساتھ کفر کیا، اور تصریح کرتے ہوئے محل اختلاف پر اس عبارت کے ذریعہ جو فریقین کے درمیان مشہور ہے اور وہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق اور اسی وجہ سے اس مسئلہ کو عنوان دیا جاتا ہے مسئلہ خلق قرآن کے ساتھ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 276 – 279 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور جب مصنف رحمہ اللہ کلام کے ازلی ہونے کی صراحت کرچکے تو اب اس بات سے آگاہ کرنے کا ارادہ کیا کہ لفظ قرآن اس کلام نفسی قدیم پر بھی بولا جاتا ہے جس طرح نظم متلو حادث پر بولا جاتا ہے چنانچہ فرمایا اور قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق ہے اور لفظ قرآن کے بعد کلام اللہ لا لفظ لائے کیونکہ مشایخ نے ذکر کیا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق کہا جائے القرآن غیر مخلوق نہ کہا جائے تاکہ ذہن کی طرف یہ بات سبقت نہ کرے کہ وہ کلام جو حروف او اصوات سے مرکب ہے وہ قدیم ہے جیسا کہ جہالت یا عناد کی وجہ سے حنابلہ اس طرف گئے ہیں اور غیر حادث کی بجائے غیر مخلوق کا لفظ لائے دونوں کے اتحاد پر متنبہ کرنے اور کلام کو حدیث کے موافق جاری کرنے کے ارادہ سے اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' القرآن كلام الله غير مخلوق ومن قال انه مخلوق فهو كافر بالله العظيم'' اور فریقین کے درمیان مشہور عبارت کے ذریعے محل خلاف کی صراحت کرنے کے لئے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق ہے اسی وجہ سے اس مسئلہ کا مسئلۂ خلقِ قرآن عنوان رکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 289 - 290 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی


وأما استدلالهم: أن القرآن متصف بما هو من صفات المخلوق وسمات الحدوث، من التأليف والتنظيم والإنزال والتنزيل، وكونه عربيا مسموعاً فصيحا معجزا إلی غير ذلك، فإنما يقوم حجة علی الحنابلة لا علينا؛ لأنا قائلون بحدوث النظم، وإنما الكلام في المعنی القديم،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 161 - 162 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور بہر حال ان (معتزلہ کا یہ استدلال کہ قرآن ایسی چیزوں کے ساتھ متصف ہے جو مخلوق کی صفات میں سے اور حدوث کی علامات میں سے ہیں یعنی تالیف (مرکب ہونا) اور تنظیم (مرتب ہونا) اور انزال اور تنزیل اور اس (قرآن کا) عربی، مسموع، فصیح، معجز ہونا وغیرہ (تو یہ استدلال) حنابلہ کے خلاف حجت ہو سکتا ہے نہ کہ ہمارے کلاف، اس لئے کہ ہم حدوث نظم (الفاظ) کے قائل ہین اور کلام تو صرف معنی قدیم میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 238 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
رہا (کلام نفسی قدیم کی نفی اور قرآن کے حادث ہونے پر) معتزلہ کا یہ استدلال کہ قرآن ایسی چیزوں کے ساتھ متصف ہے جو مخلوق کی صفات اور حدوث کی علامات میں سے ہیں، مثلاً مؤلف ہونا، منظم ہونا نازل کیا جانا عربی میں ہونا، اس کا سنا جانا، فصيح ہونا، معجزہ ہونا وغیر، تو یہ استدلال حنابلہ کے خلاف حجت بنے گا نہ کہ ہمارے خلاف کیونکہ نظم اور الفاظ کے حدوث کے تو ہم بھی قائل ہیں اور ہماری بات (غیر مخلوق ہونے کی) صرف معنیٰ قدیم یعنی کلام نفسی کے بارے میں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 247 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور بہر حال معتزلہ کا استدال اس طریقہ پر کہ قرآن اُن اوصاف کے ساتھ متصف ہے جو مخلوق کی صفات اور حدوث کی علامات میں سے ہیں یعنی تالیف اور تنظیم اور انزال اور تنزیل اور اس کا عربی مسموع، فصيح، معجز وغیرہ ہونا (تو یہ استدلال) حنابلہ کے خلاف حجت ہو سکتا ہے، ہم پر نہیں اس لئے کہ ہم تو حدوث نظم کے قائل ہیں اور گفتگو معنیٰ قدیم میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 281 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
رہا (کلام نفسی قدیم کی نفی اور قرآن کے حادث ہونے پر) معتزلہ کا یہ استدلال کہ قرآن ایسی چیزوں کے ساتھ متسف ہے جو مخلوق کی صفات اور حدوث کی علامات میں سے ہیں۔ مثلاً مؤلف ہونا، متکلم ہونا، منظّم ہونا، نازل کیا جانا عربی ہونا، اس کا سنا جانا، فصیح ہونا، معجزہ ہونا وغیرہ تو یہ استدلال حنابلہ کے خلاف حجت بنے گا۔ نہ کہ ہمارے خلاف کیونکہ نظم اور الفاظ کی حدوث کے ہم بھی قائل ہیں اور ہماری بات (غیر مخلوق ہونے کی صرف قدیم یعنی کلام نفسی کے بارے میں ہے)۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

ومن أقوی شبه المعتزلة: أنكم متفقن علی أن القرآن اسم لما نقل إلينا بين دفتي المصاحف تواتراً، وهذا يستلزم كونه مكتوباً في المصاحف مقروّا بالألسن، مسموعاً بالآذان، وكل ذلك من سمات الحدوث بالضرورة، فأشار إلی الجواب بقوله: وهو أي القرآن الذي كلام الله تعالی، مكتوب في مصاحفنا، أي بأشكال الكتابة وصور الحروف الدالة عليه، محفوظ في قلوبنا، أي بألفاظ مخيلة، مقرو بألسنتنا بحروفه الملفوظة المسموعة، مسموع بآذاننا بتلك أيضاً، غير حال فيها، أي مع ذلك ليس حالاًّ في المصاحف، ولا في القلوب ولا في الأالسنة والا في الآذان، بل هو معنی قديم قائم بذات الله تعالی، يلفظ ويسمع بالنظم الدال عليه، ويحفظ بالنظم المخيل، ويكتب بنقوش وأشكال موضوعة للحروف الدالة عليه،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 163 - 164 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور معتزلہ کے قوی شبہوں میں سے (یہ شبہ) ہے کہ بے شک تم (اے اشاعرہ) اس بات پر متفق ہو کہ قرآن اس چیز کا نام ہے جو ہماری طرف منقول ہوا ہے مصاحف کے دونوں دفتوں کے درمیان ہو کر تواتر کے طریقے سے اور یہ (مذکورہ تعریف) مستلزم ہے، مکتوب فی المصاحف (مصحف میں لکھا ہوا) مقروّ بالْاَلْسُنْ (جس کو زبان سے پڑھا جائے) مسموع بالاذان (جس کو کانوں سے سنا جائے) ہونے کو ہر ایک یہ (مکتوب، مقروّ، مسموع) حدوث کے علامات میں سے ہیں بداہیۃً (مصنف نے) جواب کی طرف اشارہ کیا اپنے اس قول سے اور وہ یعنی قرآن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مکتوب فی المصاحف ہے (ہمارے مصاحف میں لکھا ہوا ہے) یعنی کتابت کی شکلوں اور ھروف کی سورتوں کے ساتھ جو اس (کلام اللہ) پر دال ہیں جو محفوظ ہیں ہمارے قلوب میں یعنی الفاظ مخیّلہ کے ساتھ جو ہمارے زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اس کے ان حروف کے ساتھ کہ جن کو بولو جاتا ہے سنا جاتا ہے جو ہمارے کانوں سے سنا جاتا ہے انہی (الفاظ) کے ساتھ ان میں حلول کئے ہوئے نہیں ہے یعنی اس کے باوجود مصاحف میں اور قلوب میں اور زبانوں میں اور کانوں میں (كلام اللہ) حلول کئے ہوئے نہیں ہے بلکہ وہ (کلام) ایک معنی قدیم ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے جو بولا جاتا ہے اور سنا جاتا ہے ان الفاظ کے ساتھ جو اس (کلام) پر دال ہیں۔ اور یاد کیا جاتا ہے ان الفاظ مخیّلہ کے ذریعے اور لکھا جاتا ہے نقوش واشکال کے ذریعے جو وضع کئے گئے ہیں ان حروف کے لئے جو اس (کلام) پر دال ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 241 - 242 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور معتزلہ کے قوی تر دلائل میں سے یہ ہے کہ تم (اشاعرہ) اس بات پر متفق ہو کہ قرآن اس کلام کا نام ہے جو ہم تک تواتر کے ساتھ مصاحف کے دفتین کے درمیان ہو کر پہونچا ہے اور یہ مستلزم ہے اس کے مصاحف میں مکتوب ہونے زبانوں سے پڑھے جانے اور کانوں سے سنے جانے کو۔ اور یہ سب حادث کی علامات میں سے ہیں یقینی طور پر۔ تو مصنف رحمہ اللہ نے اپنے اس قول سے جواب کی طرف اشارہ کیا اور وہ یعنی قرآن جو اللہ کا کلام ہے۔ ہمارے مصاحف میں مکتوب ہے یعنی کلام الہٰی پر دلالت کرنے والے حروف کی سورتوں اور کتابت کی شکلوں کے واسطے سے۔ ہمارے دلوں میں محفوظ ہے۔ خزانۂ خیال میں جمع شدہ الفاظ کے واسطے سے، ہماری زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اس کے قابل تلفظ اور قابل سماع حروف کے واسطے سے۔ ہمارے کانوں سے سُنا جاتا ہے۔ ان ہی (قابل تلفظ اور قابل سماع حروف) کے واسطے سے، ان میں حلول کرنے والا نہیں یعنی ان سب باتوں کے باوجود نہ تو وہ مصاحف میں حلول کئے ہوئے ہے اور نہ قلوب میں اور نہ زبانوں میں اور نہ کانوں میں۔ بلکہ وہ ایک قدیم معنیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اس کا تلفظ ہوتا ہے اس کو حفظ کیا جاتا ہے۔ اس پر دلالت کرنے والے حروف کے لئے وضع کردہ اشکال ونقوش کے واسطے سے اس کو لکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 250 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور معتزلہ کے قوی شبہہ میں سے یہ شبہہ ہے کہ تم (اے اشاعرہ) اس بات پر متفق ہو کہ قرآن اس کا نام ہے جو ہماری جانب بطریق تواتر مصاحف کی دونوں دفيتوں کے درمیان منقول ہوا ہے اور یہ (تعریف مذکور) اس کے مکتوب فی المصاحف (مصاحف میں لکھا ہوا) مقروٌ باالسن (جو زبان سے پڑھا جائے) مَسْموعٌ باٰذانٍ (جس کو کانوں سے سنا جائے) ہونے کو مستلزم ہے اور یہ سب کی سب حدوث کی علامات ہیں۔ تو مصنف رحمہ اللہ نے اپنے قول سے اس کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور وہ یعنی وہ قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ہمارے مصاحف میں لکھا ہوا ہے کتابت کی شکلوں اور ان حروف کی صورتوں کے ساتھ جو اس پر دال ہیں (یعنی کلام اللہ پر) ہمارے قلوب میں محفوظ ہے الفاظِ مخیّلہ کے ساتھ، ہماری زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اس کے ان حروف کے ساتھ جن کو بولا جاتا ہے سنا جاتا ہے ہمارے کانوں سے سنا جاتا ہے انہیں الفاظ کے ساتھ حلول کئے ہوئے نہیں ہے ان میں یعنی اس کے باوجود کلام اللہ مصاحف اور قلوب اور زبانوں اور کانو ں میں حلول کئے ہوئے نہیں ہے بلکہ وہ ایسے معنیٰ قدیم ہیں جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں، بولا اور سنا جاتا ہے اس نظم کے ذریعہ جو اس پر دال ہے اور یاد کیا جاتا ہے نظمِ مخیّل کے ذریعہ اور لکھا جاتا ہے ان نقوش اور اشکال کے ساتھ جو موضوع ہیں ان حروف کے لئے جو اس پر دال ہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 283 – 285 جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور معتزلہ کے قوی تر دلائل میں سے یہ ہے کہ تم (اشاعرہ) اس بات پر متفق ہو کہ قرآن اس کلام کا نام ہے جو ہم تک تواتر کے ساتھ مصاحف کے دفتین کے درمیان ہو کر پہنچا ہے اور یہ مستلزم ہے اس کے مصاحف میں مکتوب ہونے، زبانوں سے پڑھے جانے اور کانوں سے سنے جانے کو اور یہ سب حدوث کی علامات میں سے ہیں یقینی طور پر تو مصنف نے اپنے قول سے جواب کی طرف اشارہ کیا اور وہ یعنی قرآن جو اللہ کا کلام ہے ہمارے مصاحف میں مکتوب ہے کلام الہٰی پر دلالت کرنے والے ھروف کی صورتوں اور کتابت کی شکلوں کے واسطہ سے ہمارے دلوں میں محفوظ ہے خزانہ خیال میں جمع شدہ الفاظ کے واسطے سے، ہماری زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اس کے قابل تلفظ اور قابل سماع حروف کے واسطہ سے، ہمارے کانوں سے سنا جاتا ہے انہی (قابل تلفظ اور قابل سماع حروف) کے واسطہ سے ان میں حلول کرنے والا نہیں یعنی ان سب باتوں کے باوجود نہ تو وہ مصاحف میں حلول کئے ہوئے ہیں اور نہ قلوب میں اور نہ زبانوں میں اور نہ کانوں میں بلکہ وہ ایک قدیم معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے اس کا تلفظ ہوتا ہے اس پر دلالت کرنے والے نظم کے روسط سے، اس کو سنا جاتا ہے خیال میں جمع شدہ نظم کے توسط سے اس کو حفظ کیا جاتا ہے، اس پر دلالت کرنے والے حروف کے لئے وضع کردہ اشکال ونقوش کے واسطہ سے اس کو لکھا جاتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 296 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

ولما كان دليل الأحكام الشرعية هو اللفظ دون المعنی القديم – عرفه أئمة الأصول بالمكتوب في المصاحف المنقول بالتواتر، وجعلوا اسما للنظم والمعنی جميعا، أي للنظم من حيث الدلالة علی المعنی، لا لمجرد المعنی. وأما الكلام القديم الذي هو صفة الله تعالیٰ، فذهب الأشعري إلی أنه يجوز أن يسمعه، ومنعه الأستاذ أبو إسحاق الأسفرائيني، وهو اختيار الشيخ أبي منصور الماتريدي. فمعني قوله ﴿حَتَّی يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ﴾: ما يدل عليه، كما يقال: سمعت علم فلان. فموسی عليه السلام سمع صوتاً دالاً علی كلام الله تعالیٰ، لكن لما كان بلا واسطة الكتاب والملك خصّ باسم الكليم.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 165 - 167 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
اور جب احکام شرعیہ کی دلیل وہ لفظ ہے نہ کہ معنی قدیم۔ ائمہ اسول نے اس (قرآن) کی تعریف کی ہے '' المكتوب في المصاحف المنقول بالتواتر '' کے ساتھ اور ان (ائمہ اصول) نےاس (قرآن) کو نظم اور معنی دونوں کا نام قرار دیا ہے، یعنی نظم کا معنی پر دلالت کرنے کی حیثیت سے نہ کہ محض معنی کی وجہ سے۔ اور بہر حال کلام قدیم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ پس اشعری اس بات کی طرف گئے ہیں اس (کلام نفسی) کا سننا ممکن ہے اور اس کا أستاذ ابو اسحٰق اسفرائنی نے انکار کیا ہے اور یہی شیخ أبو منصور ماتریدی رحمہ اللہ کا پسندیدہ ﴿یعنی اختیار کردہ﴾(مذہب) ہے پس باری تعالیٰ کے قول '' حَتّٰی يَسْمَعَ كَلَام اللهِ''کا معنی یہ ہے کہ وہ الفاظ سن لئے جو اس (کلام نفسی) پر دلالت کرنے والے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے '' سَمِعْتُ عِلْمَ فُلَانٍ '' ( کہ میں نے فلاں کے علم کو سنا) تو موسی علیہ السلام نے ایک آواز سنی تھی جو کلام اللہ پر دال تھی لیکن جب وہ کتاب اور فرشتے کے واسطے کے بغیر تھی تو کلیم اللہ کے نام سے خاص کردیئے گئے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 244 – 245 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
اور جبکہ احکام شرعیہ کی دلیل صرف لفظ ہے نہ کہ معنیٰ قدیم، تو ائمہ أصول نے ''مكتوب في المصاحف المنقول بالتواتر'' کے لفظ سے اس کی تعریف کی۔ اور اس نظم اور معنیٰ دونوں کا نام قرار دیا یعنی نظم کا (نام قرار دیا) معنیٰ پر دلالت کرنے کی حیثیت سے نہ کہ صرف معنیٰ کا۔ رہا کلامِ قدیم جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے تو اشعری کا مذہب یہ ہے کہ اس کو سننا ممکن ہے اور استاد أبو اسحٰق نے اس کا انکار کیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد
حتی یسمع كلام الله کے معنیٰ ہیں کہ وہ الفاظ سن لئے جو کلام اللہ پر دلالت کرنے والے والے ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے فلاں کا علم سُنا تو موسیٰ علیہ السلام نے وہ آواز سنی جو اللہ تعالیٰ کے کلام پر دلالت کرنے والی تھی۔ لیکن چونکہ یہ سننا کتاب اور فرشتہ کے واسطہ کے بغیر تھا، اس لئے کلیم کا نام ان ہی کے ساتھ مخصوص ہوا۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 253 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
اور جبکہ احکامِ شرعیہ کی دلیل سرف لفظ ہے نہ کہ معنیٰ قدیم تو متعرف کی قرآن کی ائمہ اسول نے مکتوب فی المصاحف منقول بالتواتر کے ساتھ اور انہوں نے اس کو (قرآن) نظم اور معنی دونوں کا نام قرار دیا، یعنی نظم کا دلالت کرنے کی حثیت سے معنیٰ پر نہ محض معنیٰ کا، اور بہر حال کلام قدیم جو اللہ تعالیٰ کی سفت ہے تو گئے ہیں اشعری اس بات کی جانب کہ جائز ہے اس کو سن لیا جائے اور أستاذ أبو اسحٰق اسفرائنی نے اس کا انکار کیا ہے اور یہی شیخ أبو منصور ماتریدی رحمہ اللہ کا مختار ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرمان '' حتیٰ يسمع کلام اللہ'' کے معنی ''يسمع ما يدلُّ عليہ'' ہیں (یعنی ایسی آواز سننا جو کلام اللہ پر دال ہو) جیسے کہا جاتا ہے میں نے فلاں کے علم کو سنا، تو موسیٰ علیہ السلام نے ایک آواز سنی تھی جو اللہ کے کلام پر دال تھی لیکن جبکہ وہ کتاب اور فرشتہ کے واسطہ کے بغیر تھی تو ان کو کلیم اللہ کے نام سے خاص کردیا گیا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 288 - جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
اور جب احکام شرعیہ کی دلیل صرف لفظ ہے نہ کی معنی قدیم، تو ائمہ اصول نے ''المكتوب فی المصاحف المنقول بالتواتر'' کے لفظ سے اس کی تعریف کی اور اس کو نظم اور معنی دونوں کا نام قرار دیا یعنی نظم کا (نام قرار دیا) معنی پر دلالت کرنے کی حیثیت سے نہ کہ صرف معنی کا۔ رہا کلام قدیم جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے تو اشعری کا مذہب یہ ہے کہ اس کو سننا ممکن ہے اور أستاذ أبو اسحٰق نے اس کا انکار کیا ہے۔ اور یہ ابو منصور کا مختار مذہب ہے۔ پس اللہ تعالی کے ارشاد '' حتیٰ يسمع كلام الله'' کے معنی ہیں کہ وہ الفاظ سن لئے جو کلام اللہ پر دلالت کرنے والے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے فلاں کا علم سُنا تو موسیٰ علیہ السلام نے وہ آواز سنی جو اللہ تعالیٰ کے کلام پر دلالت کرنے والی تھی لیکن چونکہ یہ سننا کتاب اور فرشتہ کے واسطے کے بغیر تھا اس لئے کلیم کا نام ان ہی کے ساتھ مخصوص ہوا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 298 - 299 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

فإن قيل: لو كان كلام الله تعالیٰ حقيقة في المعني القديم، مجازاً في النظم المؤلف يصح نفيه عنه، بأن يقال: ليس النظم امنزل امعجز المفصل ألی السور والآيات كلام الله تعالی، والإجماع علی خلافه.
وأيضاً المعجز المتحدي به هو كلام الله تعالیٰ حقيقة، مع القطع بأن ذلك إنما يتصور في النظم المؤلف المفصل إلی السور؛ إذ لا معني لمعارضة الصفة القديمة، قلنا: التحقيق أن كلام الله تعالیٰ اسم مشترك بين الكلام النفسي القديم، ومعنی الإضافة: كونه صفة له تعالیٰ، وبين اللفظي الحادث لمؤلف من السور والآيات، ومعنی الإضافة: أنه مخلوق الله تعالیٰ ليس من تأليفات المخلوقين، فلا يصح النفي أصلاً، ولا يكون الإعجاز والتحدي إلا في كلام الله تعالیٰ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 168 - 169 شرح العقائد النسفية – سعد الدين التفتازاني (المتوفى: 729هـ) – مكتبة البشری، كراتشي
پس اگر کہا جائے کہ کلام اللہ معنی قدیم میں حقیقت ہے نظم مؤلف میں مجاز ہے تو کلام کی نفی اس (نظم مؤلف) سے صحیح ہوتی بایں طور پر کہا جائے کہ نازل شدہ الفاظ جو معجزہ ہیں سورتوں اور آیات کی طرف تقسیم کئے گئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے ہیں حالانکہ اجماع اس کے خلاف ہے۔ اور نیز معجز اور متحدّی بہ (جس کے ساتھ چیلنج کیا گیا ہے) وہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس بات کے یقینی ہونے کے باوجود یہ (چیلنج) متصور ہو سکتا ہے اس نظم مؤلف ميں جو سورتوں کی طرف تقسیم کیا گیا ہے اس لئے کہ صفت قدیمہ کے ساتھ معارضہ کا کوئی معنی نہیں، تو ہم جواب دیں گے کہ (لفظ) کلام اللہ ایسا اسم مشترک ہے جو کلام نفسی کے درمیان اور (اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی کلام کی) اضافت کا معنی اس کا (کلام کا) اللہ تعالیٰ کی صفت ہونا ہے اور اس کلام لفظی حادث کے درمیان جو سورتوں اور آیات سے مرکب ہے اور (اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف کلام کی) اضافت کا معنی یہ ہے کہ یہ کلام (کلام) اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، مخلوق بندوں کی تالیف میں سے نہیں ہے پس بالکل نفی کرنا صحیح نہ ہو گی اور اعجاز اور چیلنج نہیں ہوگا مگر اللہ تعالی کی کلام میں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 247 توضیح العقائد فی حلّ شرح العقائد – اکرام الحق (مدرس جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان) – جامعہ عمر بن الخطاب، ملتان
پھر اگر اعتراض کیا جائے کہ اگر لفظِ کلام اللہ معنی قدیم یعنی کلام ِ نفسی کے معنی میں حقیقت اور نظم مؤلف کے معنی میں مجاز ہوتا تو اس سے یعنی نظم مؤلف سے کلام اللہ کی نفی صحیح ہوتی، بایں طور پر کہا جاتا کہ یہ نازل شدہ نظم وعبارت جو معجزہ ہے اور آیات اور سورتوں میں بٹی ہوئی ہے کلام اللہ نہیں ہے۔ حالانکہ اجماع اس کے برخلاف پر ہے۔ نیز معجزہ اور متحدّیٰ بہ حقیقی کلام اللہ ہے۔ اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ یہ (اعجاز اور تحدّی) اسی نظم مؤلف ہی میں متصور ہے، جو سورتوں پر تقسیم ہے کیونکہ صفت قدیمہ سے معارضہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔ ہم جواب دیں گے کہ (لفظ) کلام اللہ ایسا اسم ہے جو مشترک ہے کلام نفسی قدیم کے درمیان، اور (اس صورت میں اللہ کی طرف کلام کی) اضافت کا معنیٰ کلام کا اللہ کی صفت ہونا ہے۔ اور اس کلامِ لفظی حادث کے درمیان جو سورتوں اور آیتوں سے مرکب ہے۔ اور (اِس صورت میں اللہ کی طرف کلام کی) اضافت کا معنی یہ ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے مخلوق بندوں کی تالیف میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا نفی ہر گز صحیح نہ ہوگی۔ اور اعجاز وتحدّی صرف کلام اللہ میں ہوگی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 255 – 256 حصہ اول - بیان الفوائد فی حل شرح العقائد – مجیب اللہ گونڈوی (استاذ دار العلوم دیوبند) – مکتبہ سید احمد شہید، اکوڑہ خٹک
پس اگر اعتراض کیا جائے کہ کلام اللہ معنی قدیم میں حقیقت ہے، نظم مؤلف میں مجاز تو صحیح ہوجائے گی کلام کی نفی اس سے (یعنی نظم مولف سے) اس طرح کہ کہا جائے کہ وہ نظم منزل جو معجز ہے سورتو ں اور آیات کی جانب جس کی تفصیل کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے حالانکہ اجماع اس کے خلاف ہے اور نیز جو متحدی یہ ہے وہ حقیقۃً اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس بات کے یقینی ہونے کے باوجود کہ یہ (تحدی وچیلنج) متسور ہو سکتا ہے نظم مؤلف میں جس کی تفصیل سورتوں کی جانب کی گئی ہے اس لئے کہ صفت قدیمہ کے ساتھ معارضہ کے کوئی معنیٰ نہیں۔ ہم جواب یہ دینگے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اسم مشترک ہے کلام نفسی قدیم کے درمیان۔ اور اضافت کے معنیٰ اس کا اللہ کی صفت ہونا ہے اور لفظی حادث کے درمیان جو مرکب ہے سورتوں اور آیات سے اور اضافت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے مخلوقین کی تالیف میں سے نہیں ہے تو بالکلیہ نہیں صحیح ہوگی نفی اور اعجاز وتحدی نہ ہوگی مگر اللہ تعالیٰ کے کلام میں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 291 – 292 جواھر الفرائد شرح اردو شرحُ العقائد – محمد یوسف تاؤلی (استاذ دار العلوم دیوبند) – المصباح، لاھور
پھر اگر اعتراض کیا جائے کہ اگر لفظ کلام اللہ معنی قدیم یعنی کلام نفسی کے معنی میں حقیقت اور نظم مولف کے معنی میں مجاز ہوتا تو اس سے (یعنی نظم مولف سے) کلام اللہ کی نفی صحیح ہوتی بایں طور پر کہ کہا جاتا ہے کہ یہ نازل شدہ نظم وعبارت جو معجزہ ہے اور آیات اور سورتوں میں بٹی ہوئی ہے کلام اللہ نہیں ہے حالانکہ اجماع اس کے خلاف پر ہے، نیز معجزہ اور متحدّی بہ حقیقی کلام اللہ ہے اس بات کا یقین کرنے کے ساتھ کہ یہ (اعجاز اور تحدّی) اس نظم مؤلف ہی میں متصور ہے جو سورتوں پر تقسیم ہے کیونکہ صفتِ قدیمہ سے معارضہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہم جواب دیں گے کہ (لفظ کلام اللہ ایسا اسم ہے جو مشترک ہے کلام نفسی قدیم کے درمیان اور (اس صورت مین اللہ کی طرف کلام کی ) اضافت کا معنی کلام اللہ کا صفت ہونا ہے اور اس کلام لفظی حادث کے درمیان جو سورتوں اور آیتوں سے مرکب ہے اور (اس صورت مین اللہ کی طرف کلام کی) اضافت کا معنی یہ ہے کہ یہ کلام، اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے مخلوق بندوں کی تالیفات مین سے نہیں ہے لہٰذا نفی ہر گز نہ ہوفی اور اعجاز و تحدی صرف کلام اللہ میں ہوی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 278 اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد – فدا محمد (دار لعلوم رحمانیہ مینی صوابی) – مدنی کتب خانہ، صوابی

جیسے محدثین کے گروہ میں بہت سارے قدری خارجی اور نواصب ہوتے ہیں لیکن ان کو اہل حدیث کہاجاتاہے ،خود ابن حبان نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے’’المجروحین من المحدثین‘‘،اب محدث سے اہل حدیث مراد لینے والے جوسمجھتے ہیں وہ یہاں بھی سمجھ جائیں،جیسے خارجی اور قدری محدثین یااہل حدیث کو اہل حدیث کا نمائندہ تسلیم نہیں کیاجاتا،ویسے ہی معتزلہ کو احناف کا نمائندہ مت بنائیں۔
معلوم ہوتا ہے صاحب نے مغالطہ دینے کو خود پر لازم کیا ہوا ہے!
امام ابن حبان کی کتاب
''المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين'' میں محدثین بمعنی راوة حدیث ہیں، نہ کہ اہل الحدیث بمقابہ اہل الرائی! کیونکہ اس کتاب میں صرف اہل الحدیث راوة نہیں بلکہ اہل الرائی راوة بھی ہیں، اور خیر سے اس کتاب میں بھی اہل الرائی کے امام اعظم، امام ابو حنیفہ کو بھی ضعیف و مجروح بتلایا گیا ہے!
اور محدث سے ہمیشہ اہل الحدیث مراد نہیں ہوتے، ورنہ محدثین میں شمار تو قاضی ابو یوسف کا بھی ہوتا ہے اور محمد بن الحسن الشیبانی کا بھی! لیکن یہ اہل الحدیث نہیں اہل الرائی شمار کئے جاتے ہیں!
اسی طرح قدریہ، خارجی اور نواصف بلحاظ راوی محدثین شمار کیئے جاتے ہیں، نہ کہ اہل الحدیث منہج وجماعت کے لحاظ سے! اس توضیح کے ساتھ کہ ممکن ہے کہ کوئی کسی مسئلہ میں بدعت کا مرتکب یا مسئلہ عقیدہ میں کسی بدعتی فکر کا حامل ہو، یا اس کے کچھ اثرات کا حامل ہو، اس مسئلہ میں اس کے شذوذ کے ساتھ اہل حدیث جماعت میں شمارہو سکتا ہے۔ اپنے اس شذوذ کے علاوہ وہ اہل الحدیث کا نمائندہ ہو سکتا ہے! فرق یہ ہے کہ اہل الحدیث اس کی غلطی کوغلطی کہتے ہیں اور اسے اپنے گلے کا طوق نہیں بناتے، اور لوگوں کو اس کی غلطی سے متنبہ کرتے ہیں!
بلکل جناب! ہم معتزلہ کو جو حنفی نہیں، انہیں حنفیوں کا نمائندہ نہیں سمجھتے، ان کا شمار اہل الرائی میں پھر بھی ہوتاہے، کہ اہل الرائی صرف حنفی نہیں، لیکن جن معتزلہ کو حنفی خود اپنا نمائندہ کہیں، اسے تو حنفیوں کا نمائندہ ماننا پڑے گا!

امام ذہبی رحمہ اللہ ابو الحسن الکرخی کا ذکر یوں کرتے ہیں؛
الكَرْخِيّ:
الشَّيْخُ الإِمَامُ الزَّاهِدُ, مُفْتِي العِرَاق, شَيْخُ الخنفيَّة, أَبُو الحَسَنِ عُبَيْدُ اللهِ بنُ الحُسَيْنِ بنِ دَلَّال البَغْدَادِيُّ الكَرْخِيّ, الفَقِيْهُ.

اور پھر آگے یہ بھی بتلا دیتے ہیں کہ یہ امام ، زاہد، مفتی ، فقیہ، علامہ صاحب معتزلہ کے سردار تھے؛
وَكَانَ رَأْساً في الاعتزال -الله يسامحه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 426 - 427 جلد 15 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2614 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) – بيت الأفكار الدولية

تو اب آپ کیا کہیں گے؟ کہ کیا ابو الحسن الکرخی کو حنفیوں کا نمائندہ نہ مانا جائے؟

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام بخاری پر ذہلی نے جوکچھ کیااس کو توابن دائود حرف شیریں سمجھ کر چباکر بیٹھ گئے اوررٹالگاناشروع کردیاکہ اہل الرائی نے ظلم کیاہے،تاریخ کی کتابیں کھول کردیکھ لیں ،
امام بخاری پر امام ذہلی نے کیا کچھ کیا ہے؟ اگر آپ یہاں پیش کریں گے، تو ہم اس کا جواب بھی دیں گے!
اور ہماری جانب سے امام ذہبی و امام ابن حجر اس کا کافی و شافی جواب دے چکے ہیں!
جب وہ یہاں پیش ہی نہیں کیاگیا، تو پھر یہ کوسنے دینا چہ معنی دارد!
تاریخ کی کتابیں کھول کردیکھ لیں ،امام بخاری کے سلسلے میں بخاریٰ والوں کوخط ذہلی نے لکھا،
تو اس خط کے احوال واسباب بھی بتلا دیتے!
چلیں، کوئی بات نہیں ہم بتلا دیتے ہیں؛
یہ ایک معدوم الوجود جھوٹا خط ہے کہ جسے ''بعض الناس'' نے امام بخاری پر تہمت دھرنے کے لئے گڑھا ہے؛ دیکھیں! امام ذہبی کیا فرماتے ہیں:

ذِكْرُ مِحْنَتِهِ مَعَ أَمِيْرِ بُخَارَى
رَوَى أَحْمَدُ بنُ مَنْصُوْرٍ الشِّيرَازيُّ قَالَ: سَمِعْتُ بَعْضَ أَصْحَابِنَا يَقُوْلُ: لَمَّا قَدِمَ أَبُو عَبْدِ اللهِ بُخَارَى نُصِبَ لَهُ القبَابُ عَلَى فرسخٍ مِنَ البلدِ، وَاسْتقبلَهُ عَامَّةُ أَهْلِ البلدِ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مَذْكُوْرٌ إِلاَّ اسْتَقبَلَهُ، وَنُثِرَ عَلَيْهِ الدَّنَانِيْرُ وَالِدَرَاهِمُ وَالسُّكَّرُ الكَثِيْرُ، فَبقيَ أَيَّاماً.
قَالَ: فَكَتَبَ بَعْدَ ذَلِكَ مُحَمَّدُ بنُ يَحْيَى الذُّهْلِيُّ إِلَى خَالِدِ بنِ أَحْمَدَ أَمِيْرِ بُخَارَى: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَظهرَ خِلاَفَ السُّنَّةِ.
فَقَرَأَ كِتَابَهُ عَلَى أَهْلِ بُخَارَى، فَقَالُوا: لاَ نُفَارِقُهُ، فَأَمرَهُ الأَمِيْرُ بِالخُرُوجِ مِنَ البلدِ، فَخَرَجَ.
قَالَ أَحْمَدُ بنُ مَنْصُوْرٍ: فحَكَى لِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بنِ مَعْقِلٍ النَّسفيِّ قَالَ: رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بنَ إِسْمَاعِيْلَ فِي اليَوْمِ الَّذِي أُخرِجَ فِيْهِ مِنْ بُخَارَى، فَتقدَّمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ، كَيْفَ تَرَى هَذَا اليَوْمَ مِنَ اليَوْمِ الَّذِي نُثِرَ عَلَيْكَ فِيْهِ مَا نُثِرَ؟
فَقَالَ: لاَ أُبَالِي إِذَا سَلِمَ دينِي.
قَالَ: فَخَرَجَ إِلَى بِيْكَنْد، فَسَارَ النَّاسُ مَعَهُ حزبينِ: حزبٌ مَعَهُ، وَحزبٌ عَلَيْهِ،
إِلَى أَنْ كتبَ إِلَيْهِ أَهْلُ سَمَرْقَنْدَ، فَسَأَلُوْهُ أَنْ يَقْدَمَ عَلَيْهِم، فَقَدِمَ إِلَى أَنْ وَصلَ بَعْضَ قُرَى سَمَرْقَنْدَ، فَوَقَعَ بَيْنَ أَهْلِ سَمَرْقَنْدَ فِتْنَةٌ مِنْ سَبَبِهِ، قَوْمٌ يُرِيْدُوْنَ إِدخَالَهُ البلَدَ، وَقَوْمٌ لاَ يُرِيْدُوْنَ ذَلِكَ، إِلَى أَنِ اتَّفقُوا عَلَى أَنْ يَدْخُلَ إِلَيْهِم، فَاتَّصلَ بِهِ الخَبَرُ وَمَا وَقَعَ بَيْنَهُم بِسَبِبِهِ، فَخَرَجَ يُرِيْدُ أَنْ يَرْكَبَ.
فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى دَابَّتِهِ، قَالَ: اللَّهُمَّ خِرْ لِي، ثَلاَثاً، فَسقَطَ مَيْتاً، فَاتَّصل بِأَهْلِ سَمَرْقَنْدَ، فَحضروهُ بِأَجمعهِم.

هَذِهِ حِكَايَةٌ شَاذَّةٌ مُنْقَطِعَةٌ، وَالصَّحِيْحُ مَا يَأْتِي خِلاَفهَا.
قَالَ غُنْجَارٌ فِي (تَارِيْخِهِ): سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو أَحْمَدَ بنَ مُحَمَّدٍ المُقْرِئَ، سَمِعْتُ بَكْرَ بنَ مُنِيْرِ بنِ خُليدِ بنِ عَسْكَرٍ يَقُوْلُ: بعثَ الأَمِيْرُ خَالِدُ بنُ أَحْمَدَ الذُّهْلِيُّ وَالِي بُخَارَى إِلَى مُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ أَنِ احملْ إِلَيَّ كِتَابَ (الجَامِعِ) وَ (التَّارِيْخِ) وَغَيْرِهِمَا لأَسْمَعَ مِنْكَ.
فَقَالَ لِرَسُوْلِهِ: أَنَا لاَ أُذِلُّ العِلْمَ، وَلاَ أَحْمِلُهُ إِلَى أَبْوَابِ النَّاسِ، فَإِنْ كَانَتْ لَكَ إِلَى شَيْءٍ مِنْهُ حَاجَةٌ، فَاحضُرْ فِي مَسْجِدِي، أَوْ فِي دَارِي، وَإِنْ لَمْ يُعجبْكَ هَذَا فَإِنَّكَ سُلْطَانٌ، فَامنعنِي مِنَ المَجْلِسِ، ليَكُوْنَ لِي عذرٌ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ القِيَامَةِ، لأَنِّي لاَ أَكتُمُ العِلْمَ لقولِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: (مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أُلْجِمَ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ) فَكَانَ سَبَبُ الوحشَةِ بَيْنَهُمَا هَذَا.
وَقَالَ الحَاكِمُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بنَ العَبَّاسِ الضَّبِّيَّ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ أَبَا
بَكْرٍ بنَ أَبِي عَمْرٍو الحَافِظَ البُخَارِيَّ يَقُوْلُ: كَانَ سَبَبُ مُنَافرَةِ أَبِي عَبْدِ اللهِ أَنَّ خَالِدَ بنَ أَحْمَدَ الذُّهْلِيَّ الأَمِيْرَ خَلِيْفَةَ الطَّاهريَّةِ بِبُخَارَى سَأَلَ أَنْ يَحْضُرَ مَنْزِلَهُ، فيقرأَ (الجَامِعَ) وَ (التَّارِيْخَ) عَلَى أَوْلاَدِهِ، فَامْتَنَعَ عَنِ الحُضُوْرِ عِنْدَهُ، فرَاسلَهُ بِأَنْ يعقِدَ مَجْلِساً لأَوْلاَدِهِ، لاَ يَحْضُرُهُ غَيْرهُم، فَامْتَنَعَ، وَقَالَ: لاَ أَخُصُّ أَحَداً.
فَاسْتعَانَ الأَمِيْرُ بحريثِ بنِ أَبِي الوَرْقَاءِ وَغَيْرِهِ، حَتَّى تَكَلَّمُوا فِي مَذْهَبِهِ، وَنَفَاهُ عَنِ البلدِ، فَدَعَا عَلَيْهِم، فَلَمْ يَأْتِ إِلاَّ شَهْرٌ حَتَّى وَرَدَ أَمْرُ الطَّاهريَّةِ، بِأَنْ يُنَادَى عَلَى خَالِدٍ فِي البلدِ، فَنُوْدِيَ عَلَيْهِ عَلَى أَتَانٍ.
وَأَمَّا حُريثٌ، فَإِنَّهُ ابْتُلِيَ بِأَهْلِهِ، فَرَأَى فِيْهَا مَا يَجِلُّ عَنِ الوَصْفِ.
وَأَمَّا فُلاَن، فَابْتُلِيَ بِأَوْلاَدِهِ، وَأَرَاهُ اللهُ فِيْهِمُ البلاَيَا.
وَقَالَ الحَاكِمُ: حَدَّثَنَا خَلَفٌ بنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بنُ شَاذَوْيه قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بنُ إِسْمَاعِيْلَ يَسْكُنُ سِكَّةَ الدَّهْقَانِ، وَكَانَ جَمَاعَةٌ يَخْتَلِفونَ إِلَيْهِ، يُظْهِرُونَ شِعَارَ أَهْلِ الحَدِيْثِ مِنْ إِفرَادِ الإِقَامَةِ، وَرَفْعِ الأَيدِي فِي الصَّلاَةِ وَغَيْرِ ذَلِكَ.
فَقَالَ حُريثُ بنُ أَبِي الوَرْقَاءِ وَغَيْرُهُ: هَذَا رَجُلٌ مُشغِبٌ، وَهُوَ يُفْسِدُ عَلَيْنَا هَذِهِ المَدِيْنَةَ، وَقَدْ أَخْرَجَهُ مُحَمَّدُ بنُ يَحْيَى مِنْ نَيْسَابُوْرَ، وَهُوَ إِمَامُ أَهْلِ الحَدِيْثِ، فَاحتَّجُوا عَلَيْهِ بِابْنِ يَحْيَى، وَاسْتعَانُوا عَلَيْهِ بِالسُّلْطَانِ فِي نَفْيِهِ مِنَ البلدِ، فَأُخْرَجَ.

امیر بخاریٰ اور امام بخاری کی آزمائش وامتحان
احمد بن منصور شیرازی نے کہا کہ انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے سنا کہ کہ جب ابو عبد اللہ جب امام بخاری ،بخاریٰ تشریف لائے ، تو شہر سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر ان کے استقبال کیلئے خیمے نصب کیئے گئے ، تو شہر کے لوگوں نے امام بخاری کا پرتپاک استقبال کیا، حتی کہ کوئی بھی شخص باقی نہ رہا، جس نے امام بخاری کا استقبال نہ کیا ہو، اور امام بخاری پر درھم و دینار نچھاور کئے گئے، اور بہت سی شیرنی دی گئی، وہ کچھ دن ٹھہرے ،
تو اس کے بعد محمد بن یحیی الذہلی نے امیر بخارا ، خالد بن احمد کو لکھا کہ اس شخص یعنی امام بخاری نے سنت کی مخالفت کی ہے۔
تو امیر بخارا، خالد بن احمد نے امام الذہلی کا خط اہل بخارا کے سامنے پڑھا، تو لوگوں نے کہا کہ ہم امام بخاری کو چھوڑنے والے نہیں، پھر امیر بخارا، خالد بن احمد نے امام بخاری کو شہر سے نکل جانے کا حکم دیا اور امام بخاری بخارا سے چلے گئے۔
احمد بن منصور شیرازی نے کہا کہ انہیں ان کے بعض اصحاب نے ابراھیم بن معقل سے حکایت نقل کی کہ انہوں نے کہا:''میں نے محمد بن اسماعیل کو اس دن دیکھا جب وہ بخارا سے جارہے تھے، تو میں ان کے پاس آیا اور کہا: اے ابو عبد اللہ! اس دن کو کیسا پاتے ہو استقبالیہ دن کے تناظر میں کہ جس دن آپ پر نچھاور کیا گیا، وہ کچھ جو نچھاور کیا گیا تھا (یعنی درھم ودینار)؟
تو امام بخاری نے کہا: مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں، کہ جب میرا دین سلامت رہے۔''
(ابراھیم بن معقل النفسی نے) کہا: تو امام بخاری بیکند کی طرف چلے گئے، امام بخاری کے ساتھ لوگوں کے دو گروہ تھے، ایک امام بخاری کے ساتھی، اور ایک امام بخاری کے مخالف۔
اہل سمرقند نے امام بخاری کو لکھا اور امام بخاری کو اپے پاس آنے کی دعوت دی، تو امام بخاری سمرقند کی ایک بستی پہنچے تھے کہ اہل سمرقند میں اس سبب سے فتنہ پیدا ہو گیا، اہل سمرقند کا ایک گروہ چاہتا تھا کہ امام بخاری ان کے شہر میں آئیں، اور گروہ یہ نہیں چاہتا تھا، بالآخر ان کا اس پر اتفاق ہو گیا کہ امام بخاری سمرقند آئیں۔ امام بخاری کو اس کی خبر ملی کہ ان کے سبب اہل سمرقند کے مابین کیا معاملہ ہوا، پھر امام بخاری سوار ہونے کے لئے تیار ہوئے، جب وہ سواری پر سوار ہوئے تو تین بار کہا: ''اے پروردگار! اے اللہ! میرے لیے بہتر کا انتخاب فرما، یہ دعاء کرتے ہی جان جان آفرین کے سپرد کرکے گر گئے ۔ اہل سمرقند کو خبر ہوئی، تو سارا شہر امڈ پڑا۔''

یہ حکایت شاذ ہے منقطع ہے اور صحیح وہ ہے جو اس کے خلاف آئی ہے۔
محمد بن احمد غنجار نے اپنی تاریخ میں کہا کہ انہوں نے احمد بن محمد المقری کو کہتے سنا، کہ انہو ں نے بکر بن منیر بن خلید بن عسکر کو کہتے سنا کہا امیر بخارا، خالد بن احمد الذہلی نے محمد بن اسماعیل (امام بخاری) کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی جامع (یعنی صحیح بخاری) اور تاریخ اس کے پاس لے کر آئیں کہ وہ امام بخاری سے ان کا سماع کرے۔
تو امام بخاری نے قاصد سے کہا کہ میں علم کو ذلیل نہیں کروں گا، اور نہ ہی اسے اٹھا کر لوگوں کے دروازوں پر لے جاؤں گا، اگر آپ کو اس علم سے کسی چیز کی حاجت ہے، تو میری مسجد یا گھر آجائے، اگر آپ کو یہ بات پسند نہ آئے، تو آپ حاکم ہیں مجھے مجلس کرنے سے (یعنی درس دینے سے) رکوادیں۔ تا کہ قیامت کے دن میرئ لئے عذر ہو، کیونکہ میں کتمان علم نہیں کرسکتا (علم چھپا نہیں سکتا) ۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے، ''جس سے علم کی کوئی بات دریافت کی گئی، پھر اس نے اسے چھپایا، اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔''
پس یہ امام بخاری اور حاکم بخارا کے درمیان وحشت (منافرت) کا سبب بنا۔
اور امام حاکم نے کہا کہ میں نے محمد بن عباس الضبی کو کہتے سنا، کہ انہوں نے حافظ ابو بکر بن ابی عمرو بخاری کو کہتے سنا کہ ابو محمد عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری اور سلطنت طاہریہ کے (بخاریٰ میں ) امیر خالد بن احمد کے درمیان منافرت کا سبب یہ بنا کہ خالد بن احمد نے امام بخاری سے چاہا کہ وہ اس کے گھر تشریف لائیں، اور اس کی اولاد کو جامع (یعنی صحیح بخاری) اور تاریخ پڑھائیں، لیکن امام بخاری نے اس کے پاس آنے سے انکار کردیا، تو امیر بخارا، خالد بن احمد نے کہلا بھیجا کہ وہ خاص اس کی اولاد کے لئے درس کی مجلس منعقد کریں، جس میں دوسرے لوگ شریک نہ ہوں، امام بخاری نے اس سے بھی انکار کردیا، اور کہا کہ ''میں کسی کے لئے بھی مجلس درس خاص نہیں کروں گا''۔
پھر امیر بخارا نے خالد بن احمد نے حریث بن ابی الورقاء وغیرہ کو اپنے ساتھ ملا لیا، حتی کہ انہوں نے امام بخاری کے مذہب پر کلام کرنا شروع کردیا (الزامات وبہتان طرازی شروع کردی)، اور امام بخاری کو بخارا سے نکال دیا۔تو امام بخاری نے ان کے لئے بددعا کی، پس ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ طاہریہ کی طرف سے اس کے لئے حکم نامہ آیا، اور خالد بن احمد کو گدھی پر بٹھا کر شہر بھر میں اس کی تشہیر وتذلیل کی گئی۔
رہی بات حریث کی، تو اسے اس کے گھر والوں میں ذلت اٹھانی پڑی، جو قابل بیان نہیں۔
اور فلاں کو (کسی کو) اپنی اولاد میں مصائب ومشکلات میں مبتلا کیا گیا، اور اللہ نے اسے اولاد واہل کے معاملہ میں برے دن دکھائے۔
امام حاکم نے کہا کہ ہمیں خلف بن محمد نے بیان کیا، کہ سھل بن شاذویہ نے کہا کہ امام بخاری گاؤں کے رئیس کے باغ میں رہائش پذیر تھے، اورکچھ لوگ ان کے وقتاً فوقتا ً آتے تھے، جو اہل حدیث کی علامت اعمال پر کاربند تھےکہ جس میں اکہری اقامت، نماز میں رفع الیدین وغیرہ شامل ہیں،
تو حریث بن ابی الورقاء وغیرہ نے کہا: کہ یہ (امام بخاریؒ) ایک شورش پسندشخص ہے، جو ہمارے شہر کو بھی فساد زدہ کردے گا، اسی سبب اسے محمد بن یحیی نے نیشاپور نے نکال دیا ہے، جو اہل الحدیث کے امام ہیں، پس انہوں نے محمد بن یحیی سے امام بخاری کے خلاف دلیل پکڑی، اور سلطان (امیر بخارا خالد بن احمد) کی مدد سے شہر سے نکال دیا، اور امام بخاری وہاں سے چلے گئے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 3341 - 3342 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - بيت الافكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 463 - 466 جلد 12 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مؤسسة الرسالة

اسی بات کو امام ذہبی نے اپنی دوسری کتاب میں بھی ذکر کیا ہے؛
وقال أَحْمَد بْن منصور الشّيرازيّ الحافظ: سمعتُ بعض أصحابنا يَقُولُ: لمّا قدم الْبُخَارِيّ بُخَاري نُصب لَهُ القباب عَلَى فرَسْخ مِنَ البلد، واستقبله عامّة أهل البلد ونُثِر عَلَيْهِ الدّنانير والدَّراهم والسُّكَّر الكثير، فبقي أيامًا، فكتب محمد بْن يحيى الذُّهْليّ إلى أمير بُخَاري خَالِد بْن أَحْمَد: إن هذا الرجل قد أظهر خلَاف السنة. فقرأ كتابه عَلَى أهل بُخاري، فقالوا: لَا نفارقه. فأمره الأمير بالخروج مِنَ البلد، فخرج.
قَالَ أَحْمَد بْن منصور: فحدثني بعض أصحابنا عَنْ إِبْرَاهِيم بْن معقل النَّسَفيّ قَالَ: رَأَيْت محمد بْن إِسْمَاعِيل فِي اليوم الَّذِي أُخرج فِيهِ مِن بُخَارى، فقلت: يا أَبَا عَبْد الله كيف ترى هذا اليوم من يوم دخولك؟ فقال: لَا أبالي إذا سلم ديني. فخرج إلى بِيكْند، فسار الناس معه حزْبين: حزبٌ لَهُ وحزبٌ عَلَيْهِ، إلى أن كتب إِلَيْهِ أهل سَمَرْقند، فسألوه أنْ يقدم عليهم، فقدِم إلى أن وصل بعض قري سَمَرْقند، فوقع بين أهل سَمَرْقند فتنةٌ بسببه. قومٌ يريدون إدخالَه البلد، وقومٌ يأبون، إلى أن اتفقوا عَلَى دخوله. فاتصل بِهِ ما وقع بينهم، فخرج يريد أنْ يركب، فلمّا استوى على دابته، قال: اللهم خر لي، ثلَاثًا، فسقط ميتًا. وحضره أهل سَمَرْقند بأجمعهم.
هذه حكاية منقطعة شاذة.
وقال بَكْر بْن منير بْن خُلَيْد الْبُخَارِيّ: بعث الأمير خَالِد بْن أَحْمَد الذُّهْليّ متولّي بُخَارى إلى محمد بْن إِسْمَاعِيل أن أحمل إلى كتاب " الجامع "، و" التاريخ "، وغيرهما لأسمع منك. فقال لرسوله: أَنَا لَا أُذلُّ العِلْم، ولا أحمله إلى أبواب النّاس، فإنْ كانت لَهُ إلى شيءٍ منه حاجة فليحضر في مسجدي أو في داري. وإن لم يُعْجِبْه هذا فإنّه سلطان، فلْيمنعني مِن الجلوس ليكون لي عذر عند اللَّه يوم القيامة، لأنيّ لَا أكتم العِلم. فكان هذا سبب الوحشة بينهما.
وقال أَبُو بَكْر بْن أَبِي عَمْرو الْبُخَارِيّ: كَانَ سبب منافرة البخاري أن خالد ابن أحمد خليفة الطاهرية ببُخارى سأله أنْ يحضر منزله فيقرأ " الجامع "، و" التاريخ " عَلَى أولَاده، فامتنع، فراسله بأن يعقد مجلسًا خاصًا لهم، فامتنع، وقال: لَا أخصّ أحدًا. فاستعان عَلَيْهِ بحريث بْن أَبِي الورقاء وغيره، حتى تكلموا في مذهبه ونفاه عن البلد، فدعا عليهم. فلم يأت إلَا شهر حتى ورد أمر الطاهرية بأن يُنادي عَلَى خَالدٍ فِي البلد. فنوديَ عَلَيْهِ عَلَى أتان، وأمّا حريث فابتُلي بأهله، ورأى فيها ما يجلّ عَنِ الوصفْ، وأمّا فلَان فابتلي بأولَاده.
رَوَاها الحاكم عَنْ محمد بْن الْعَبَّاس الضّبيّ عَنْ أَبِي بَكْر هذا. قُلْتُ:
كَانَ حريث من كبار فُقَهاء الرأي ببُخارى.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 270 - 272 جلد 19 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 162 - 163 جلد 06 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي

یہاں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ حریث بن ابی الورقاء اہل الرائی کے کبار فقہاء میں سے تھا!

اور امام ابن حجر العسقلانی نے بھی فتح الباري میں یہی بیان کیا ہے؛

ذكر رجوعه إلی بخاری، وما وقع بينه وبين أميرها، وما اتصل بذلك من وفاته
قال أحمد بن منصور الشيرازي: لما رجع أبو عبد الله البخاري ألی بخاری نصبت له القباب علی فرسخ من البلد، واستقبله عامة أهل البلد حتی لم يبق مذكور، ونثر عليه الدراهيم والدنانير فبقي مدة، ثم وقع بينه وبين الأمير، فأمره بالخروج من بخاری، فخرج إلی بيكند.
وقال غنجار في تاريخه: سمت أحمد بن محمد بن عمر يقول: سمعت بكر بن منير يقول: بعث الأمير خالد بن أحمد الذهلي والي بخاری إلی محمد بن إسماعيل، أن أحمل إليّ كتاب الجامع والتاريخ لأسمع منك. فقال محمد بن إسماعيل لرسوله: قل له إني لا أذل العلم ولا أحمله إلی أبواب السلاطين، فإن كانت حاجة إلی شيء منه، فليحضرني في مسجدي أو في داري، فإن لم يعجبك هذا فأنت سلطان، فامنعني من المجلس ليكون لي عذر عند الله يوم القيامة أني لا أكتم العلم. قال: فكان سبب الوحشة بينهما.
وقال الحاكم: سمعت محمد بن العباس الضبي يقول: سمعت أبا بكر بن أبي عمرو يقول: كان سبب مفارقة أبي عبد الله البخاري البلد أن خالد بن أحمد خلیفة ابن طاهر سأله أن يحضر منزله، فيقرأ التاريخ، والجامع علی أولاده فامتنع من ذلك، وقال لا يسعني أن أخص بالسماع قوماً دون قوم آخرين. فاستعان خالد بحريث بن أبي الورقاء وغيره من أهل بخاری حتی تكلموا في مذهبه، فنفاه عن البلد قال: فدعا عليهم. فقال اللهم أرهم ما قصدوني به في أنفسهم وأولادهم وأهاليهم.
قال: فأما خالد، فلم يأت عليه إلا أقل من شهر حتی ورد أمر الظاهرية بأن ينادي عليه، فنودي عليه، وهو علی أتان وأشخص علی أكاف، ثم صار عاقبة أمره إلی الذل والحبس.
وأما حريث بن أبي الورقاء، فإنه ابتلي في أهله، فرای فيها ما يجل عن الوصف.
وأما فلان، فإنه ابتلي في أولاده، فأراه الله فيهم البلايا.
وقال ابن عدي: سمعت عبد القدوس بن عبد الجبار يقول: خرج البخاري إلی خرتنك قرية من قری سمرقند، وكان له بها أقرباء، فنزل عندهم. قال: فسمعته ليلة من الليالي، وقد فرغ من صلاة الليل يقول في دعائه: اللٮم قد ضاقت عليّ الأرض بما رحبت، فاقبضني إليك.
قال: فماتم الشهر حتی قبضه الله.
وقال محمد بن أبي حاتم الوراق: سمعت غالب بن جبريل، وهو الذي عليه البخاري بخرتنك يقول: إنه أقام أياماً، فمرض حتی وجه إليه رسول من أهل سمرقند يلتسمون منه الخروج إلیهم، فأجاب، وتهيأ للركوب، ولبس خفيه، وتعمم، فلما مشی قدر عشرين خطوة، أو نحوها إلی الدابة ليركبها، وأنا آخذ بعضده قال: أرسلوني، فقد ضعفت. فأرسلناه فدعا بدعوات ثم اضطجع فقضی. ثم سال منه عرق كثير، وكان قد قال لنا: كفنوني ثلاثة أثواب ليس فيها قميص ولا عمامة. قال: ففعلنا، فلما أدرجناه في أكفانه وصلينا عليه، ووضعناه في حفرته، فاح من تراب قبره رائحة طيبة كالمسك، ودامت أياماً، وجعل الناس يختلفون ألیالقبر أياماً، يأخذون من ترابه إلی أن جعلنا عليه خشباً مشبكاً.
وقال الخطيب: أخبرنا علي بن أبي حامد في كتابه، أخبرنا محمد بن محمد بن مكي، سمعت عبد الواحد بن آدم الطوايسي يقول: رأيت النبي صلی الله عليه وسلم في النوم ومعه جماعة من أصحابه، وهو واقف في موضع، فسلمت عليه فرد عليّ السلام، فقلت: ما وقوفك هنا يا رسول الله؟ قال: أنتظر محمد بن إسماعيل. قال فلما كان بعد أيام كان بعد أيام بلغني موته، فنطرت فإذا ھو قد مات في الساعة التي رأيت فیها النبي صلی الله عليه وسلم.
وقال مهيب بن سليم: كان ذلك ليلة السبت ليلة عيد الفطر سنة ست وخمسين ومائتين، وكذلك قال حسن بن الحسين البزار في تاريخ وفاته، وفيها أرخه أبو الحسن بن قانع، وأبو الحسين بن المنادي، وأبو سليمان بن زبر وآخرون.
قال الحسن: وكانت مدة عمره اثنتين وستين سنة إلا ثلاثة عشر يوماً، تعمده الله برحمته آمين.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1317 - 1318 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الطيبة للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 517 - 518 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 517 - 518 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 493 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة السلفية
حاکم بخاری نے اپنی بات نہ ماننے پر امام بخاری کو جلاوطن کیا،
جی! حاکم بخارا نے نے امام بخاری کو بخارا سے جلا وطن کرنے کے لئے اہل الرائے حنفیوں کا سہارا لیا، اور انہوں نے اس معاملہ میں برضا ورغبت امام بخاری پر کے خلاف مہم جوئی کی! اور اہل بخارا کو امام بخاری کے خلاف اکسایا!
امام بخاری کے خلاف حاکم بخارا کے دست راست کا تعارف بھی پیش پیش خدمت ہے؛

حُرَيْث بِضَم الْحَاء والثاء الْمُثَلَّثَة ابْن أبي الْوَفَاء البُخَارِيّ أحد الْأَئِمَّة الْكِبَار من فُقَهَاء أَصْحَاب أبي حنيفَة رَحمَه الله تَعَالَى ببخارى كَانَ كَبِيرا مشار إِلَيْهِ فى زمن البُخَارِيّ صَاحب الصَّحِيح وَله ذكر فى سَبَب إِخْرَاجه من بُخَارى مَعَ أبي حَفْص الْكَبِير
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 35 جلد 02 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار هجر،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 185 جلد 01 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار المعارف النظامية، حيدر آباد، دكن

حريث - بضم الحاء والثاء المثلثة - ابن أبي الوفاء البخاري
أحد الأئمة الكبار من فقهاء الحنفية ببخارى، وكان في زمن البخاري صاحب " الصحيح "، وله ذكر في سبب إخراجه من بخارى مع أبي حفص الكبير، وكان في زمنه ممن يشار إليه، وتعقد الخناصر عليه، رحمه الله تعالى.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 32 جلد 03 الطبقات السنية في تراجم الحنفية - تقي الدين بن عبد القادر التميمي الداري الغزي (المتوفى: 1010هـ) - دار الرفاعي، الرياض

معلوم ہوا کہ امام بخاری کے خلاف اہل بخارا کو اکسانے میں اہل الرائی حنفی حریث بن ابی الورقاء کا اہم کردار تھا۔
رہاابوحفص صغیر کا بخاری کی سرحد تک ان کو چھوڑنے جاناتواگر عقل میں کجی نہیں ہے تواس کا ایک صاف اورواضح محمل بھی ہے کہ یہ ابوحفص کبیر امام بخاری کے طلب علم کے عہد میں رفیق تھے،جب امام بخاری کے خلاف شہر میں ذہلی کے خط کی وجہ سے شوروغوغاہوا اور رائے عامہ ان کے خلاف ہوگئی اورحاکم نےا نکو جلاوطن کرنے کا حکم صادر کردیاتوپھر یہ ایک رفیق کی طرح سرحد تک چھوڑنے گئے تاکہ ان کے اثرورسوخ کی وجہ سے عوام الناس امام بخاری کے ساتھ کوئی بے ادبی اوربراسلوک نہ کربیٹھیں بالخصوص ایسے حالات میں عوام لناس اوراہل شہر ان کے خلاف ہوں اور حاکم وقت ان سے ناراض ہو،
بالکل جناب یہ ممکن ہے، کہ ابو حفص صغیر اسی مقصد سے امام بخاری کو بخارا کی سرحد تک چھوڑنے آئے ہوں، مگر معاملہ ابو حفص صغیر کا نہیں، اہل الرائے حنفیوں کے فقیہ الکبیر حریث بن ابی الورقاء وغیرہ کا ہے! جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔
ابو حفص صغیر کا امام بخاری کے ساتھ بخارا کی سرحد تک جانے کا واقعہ فقیر محمد جہلمی حنفی نے یوں بیان کیا ہے؛

احمد بن سلمہ سے منقول ہے کہ جب امام بخاری سے قرآن کے معاملہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا وہ خدا کا کلام ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ کسی طرح اس میں تصرف بھی ہوسکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ زبانوں کے ساتھ متصرف ہو سکتا ہے۔ جب اس بات کی خبر محمد بن یحییٰ ذہلی کو جو نیشاپور میں بڑے محدّث ثقہ حافظ جلیل تھے، ہوئی تو انہوں نے نہایت خفا ہو کر حکم دیا کہ جو شخص امام بخاری کی مجلس میں جائے وہ ہمارے پاس ہر گز نہ آئے، پس امام بخاری نا چار ہو کر بخارا چلے گئے۔ اس پر ذہلی نے امیر بخارا اور وہاں کے شیوخ کو امام بخاری کی نسبت تحریر کیا جس پر امیر بخارا نے امام بخاری کی تکلیف دہی کا قصد کیا یہاں تک کہ ان کو آپ یعنی ابو حفص صغیر نے بعض سرحدات بخارا کی طرف نکال دیا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 182 حدائقِ الحنفیہ – فقیر محمد جہلمی (المتوفی: 1334ھ) – مکتبہ ربیعہ، کراچی

تو بالکل یہ ممکن ہے کہ ابو حفص صغیر امام بخاری کو اسی مقصد سے چھوڑنے آئے ہوں کہ حریث بن ابی الورقاء ودیگر اہل الرائے حنفیوں کے ذریعے بہکائے اور اکسائے ہوئے عوام امام بخاری کے ساتھ کوئی بے ادبی وبرا سلوک نہ کر بیٹھیں!
اوراگریہ مانناہی ہے کہ احناف نے ان کو بخاری سے جلاوطن کردیاہے توپھر یہ بھی مانناپڑے گاکہ بکری کی دودھ سے رضاعت کے مسئلہ کاانتساب بھی امام بخاری کی جانب درست ہے،
کیوں جناب! کیوں ماننا پڑے گا! عقل کہیں بیچ تو نہیں کھائی!
امام بخاری کے بخارا سے جلا وطن کرنے ميں اہل الرائے حنفیوں کا کردار امام الذہبی اور امام ابن حجر العسقلانی سے بحوالہ پیش کیا ہے، اور وہاں بکری کے دودھ سے رضاعت کا مسئلہ کا وجود ہی نہیں!
تو پھر اس مسئلہ کا انتساب امام بخاری کی جانب درست ماننا کیونکر لازم آیا!
اب ذرا اس مسئلہ کی حقیقت بھی جان لیں؛ کہ امام بخاری پر اہل الرائے حنفیوں کی طرف سے ایک اور جھوٹا الزام تہمت وظلم ہے؛
امام بخاری پر یہ جھوٹ سب حنفی اہل الرئی کے شمس الأئمہ سرخسی نے نقل کیا ہے، اور اس کے بعد انہیں کے حوالہ سے بعد میں نقل کیا گیا!

وَلَوْ أَنَّ صَبِيَّيْنِ شَرِبَا مِنْ لَبَنِ شَاةٍ أَوْ بَقَرَةٍ لَمْ تَثْبُتْ بِهِ حُرْمَةُ الرَّضَاعِ؛ لِأَنَّ الرَّضَاعَ مُعْتَبَرٌ بِالنَّسَبِ، وَكَمَا لَا يَتَحَقَّقُ النَّسَبُ بَيْنَ آدَمِيٍّ وَبَيْنَ الْبَهَائِمِ فَكَذَلِكَ لَا تَثْبُتُ حُرْمَةُ الرَّضَاعِ بِشُرْبِ لَبَنِ الْبَهَائِمِ وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ إسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ صَاحِبُ التَّارِيخِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - يَقُولُ تَثْبُتُ الْحُرْمَةُ وَهَذِهِ الْمَسْأَلَةُ كَانَتْ سَبَبَ إخْرَاجِهِ مِنْ بُخَارَى، فَإِنَّهُ قَدِمَ بُخَارَى فِي زَمَنِ أَبِي حَفْصٍ الْكَبِيرِ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَجَعَلَ يُفْتِي فَنَهَاهُ أَبُو حَفْصٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَقَالَ لَسْت بِأَهْلٍ لَهُ فَلَمْ يَنْتَهِ حَتَّى سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ فَأَفْتَى بِالْحُرْمَةِ فَاجْتَمَعَ النَّاسُ وَأَخْرَجُوه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 297 جلد 30 المبسوط - محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ) - دار المعرفة، بيروت

یہ بات ابو حفص الکبیر کے حوالہ سے ہی ہے، اس کی صراحت کے لئے دیکھیں؛

أَحْمد بن حَفْص الْمَعْرُوف بِأبي حَفْص الْكَبِير البُخَارِيّ الإِمَام الْمَشْهُور أَخذ الْعلم عَن مُحَمَّد بن الْحسن وَله أَصْحَاب لَا يُحصونَ ذكر السَّمْعَانِيّ أَن يخيزاخز قريب من بُخَارى مِنْهَا جمَاعَة من الْفُقَهَاء من أَصْحَاب أَبى حَفْص الْكَبِير قَالَ شمس الْأَئِمَّة قدم مُحَمَّد بن إِسْمَعِيل البُخَارِيّ ببخارى فى زمن أبي حَفْص الْكَبِير وَجعل يُفْتِي فَنَهَاهُ أَبُو حَفْص وَقَالَ لست بِأَهْل لَهُ فَلم ينْتَه حَتَّى سُئِلَ عَن صبيين شربا من لبن شَاة أَو بقرة فَأفْتى بِثُبُوت الْحُرْمَة فَاجْتمع النَّاس عَلَيْهِ وأخرجوه من بُخَارى وَالْمذهب أَنه لَا رضَاع بَينهمَا لِأَن الرَّضَاع يعْتَبر بِالنّسَبِ وكما لَا يتَحَقَّق النّسَب بَين بني آدم والبهائم فَكَذَلِك لَا يثبت حُرْمَة الرَّضَاع بِشرب لبن البهايم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 - 167 جلد 01 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار هجر،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 67 جلد 01 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار المعارف النظامية، حيدر آباد، دكن

أحمد بن حفص المعروف بأبي حفص الكبير
الإمام المشهور، والعلم المنشور، الذي ظنت حصاته في الآفاق، وشاع ذكره بين أهل الخلاف والاتفاق.
أخذ العلم عن محمد بن الحسن، وله أصحابٌ لا يحصون.
قال شمس الأئمة: قدم محمد بن إسماعيل البخاري بخارى، في زمن أبي حفص الكبير، وجعل يُفتي فيها، فنهاه أبو حفص، وقال: لست بأهل لها. فلم ينته، حتى سئل عن صبيين شربا من لبن شاة أو بقرة، فأفتى بثبوت الحرمة. فاجتمع الناس، وأخرجوه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 395 جلد 01 الطبقات السنية في تراجم الحنفية - تقي الدين بن عبد القادر التميمي الداري الغزي (المتوفى: 1010هـ) - المجلس الأعلى للشئون الإسلامي، القاهرة

اسے اردو زبان میں فقیر محمد جہلمی حنفی نے اپنی کتاب حدائق الحنفیہ میں ابو حفص الکبیر کے باب میں ہی یوں بیان کیا ہے:
کفایہ وعنایہ شروحِ ہدایہ وغیرہ میں لکھا ہے کہ امام شمس الأمہ فرماتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں امام بخاری صاحبِ صحیح بخارا میں تشریف لائے اور فتوےٰ دینا شروع کیا۔ جب آپ کو اس حال سے خبر ہوئی تو آپ نے اس سے منع کرکے فرمایا کہ آپ فتوےٰ دینے کے لائق نہیں ہیں مگر امام بخاری باز نہ آئے، آخر الامر ایک دن لوگوں نے ان سے پوچھا کہ اگر دو لڑکوں نے ایک بکری یا گائے کا دودھ پیا ہو تو ان کا کیا حکم ہے؟ امام بخاری نے کہا کہ ان میں حرمت رضاع کی ثابت ہو جاتی ہے! جب لوگوں نے ان کی فقاہت کہ یہ لیاقت دیکھی تو ہجوم کرکے ان کو بخارا سے نکال دیا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 170 حدائقِ الحنفیہ – فقیر محمد جہلمی (المتوفی: 1334ھ) – مکتبہ ربیعہ، کراچی

چہ پدی چہ پدی کا شوربہ!
ابو حفص الکبیر کی کیا اوقات کہ وہ امام بخاری کو یہ کہے کہ امام بخاری فتوی دینے کے اہل نہیں! اور امام بخاری تو ان اہل الرائے حنفیوں کی حیلہ ساز فقہ کو مردود قرار دیتے ہوئے، ''بعض الناس'' کی فقہ وفقاہت کی لیاقت ووقعت خوب واضح کر چکے تھے۔ تو یہ ابو حفص الکبیر کیا شے ہے!
اور ویسے بھی یہ کہانی تو کسی کذاب ودجال اہل الرائی کی خانہ ساز ہے! یا کسی شیطان کی!
یہ بات تو درست ہے کہ امام بخاری کو بخارا سے نکالا گیا! اوراس کی وجہ بھی اوپر بیان کی جاچکی!
لیکن یہاں اہل الرائی حنفیوں کی بیان کردہ وجہ امام بخاری پر جھوٹ اور تہمت ہے!
اب رحمانی صاحب کہتے ہیں کہ کسی واقعہ کی ایک بات مانتے ہو، تو اس واقعہ میں بیان کردہ دوسری باتیں بھی ماننا لازم ہو جاتا ہے، مگر رحمانی صاحب یہ بھول گئے دجالوں کا یہ وصف ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ کے ساتھ خلط کرکے پیش کرتے ہیں! اور یہاں ہی کیا گیا ہے، کہ امام بخاری کو بخارا سے نکالا جانا تو سچ ہے، مگر اس سچ کے ساتھ اہل الرئے کے کسی دجال نے اس کی وجہ میں جھوٹ وفریب ومکاری سے کام لیا، اور امام بخاری پر جھوٹا الزام و تہمت لگا دی۔
مگر اہل الرائے کی اس کذاب کی مت بھی ماری گئی تھی کہ امام بخاری کو بخارا سے نکالے جانے سے کئی سال قبل ابو حفص الکبیر کی وفات ہو چکی تھی!
ان سرخسی کی وفات 283 ہجری کی ہے جب کہ امام بخاری کی وفات 256 ہجری کی ہے، اسی طرح ابو حفص کبیر کی وفات 217 ہجری کی ہے۔
امام بخاری کو آخری ایام میں بخارا سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا، جب کہ ابو حفص کبیر اس سے کئی سال پیشتر محرم 217 ہجری کو وفات پا چکے تھے (جو اس من گھڑت قصے کے مرکزی کردار بیان کیے جاتے ہیں) اور ان کی وفات کے وقت امام بخاری کی عمر 23 سال تھی۔ (سیر أعلام النبلاء 157 جلد 10) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امام بخاری پر صریح بہتان ہے اور اسے گڑھنے والا علم وعقل دونوں سے کورا تھا! علاوہ ازیں یہ قصہ بے سند بھی ہے، جسے امام بخاری رحمہ اللہ سے صدیوں بعد سرخسی اور عبد القادر قرشی وغیرہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردیا۔
لہٰذا عین ممکن ہے کسی کذاب سے سنی ہو، یا پھر کسی کذاب نے کسی کو بتلائی اور پھر اس سے سرخسی نے سنا!
اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی شیطان سے سنی ہو، یا کسی شیطان سے سن کر کسی شخص نے سرخسی کو بتلا دی ہو!
جیسا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:


وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللهِ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ لِيَتَمَثَّلُ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ، فَيُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مِنَ الْكَذِبِ، فَيَتَفَرَّقُونَ، فَيَقُولُ الرَّجُلُ مِنْهُمْ: سَمِعْتُ رَجُلًا أَعْرِفُ وَجْهَهُ، وَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ يُحَدِّثُ

ابو سعید اشج، وکیع، اعمش، مسیب بن رافع، عامر بن عبدہ سے روایت ہے، کہا: حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ نے فرمایا: بلاشبہ شیطان کسی آدمی کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر لوگوں کے پاس آتا ہے اور انہیں جھوٹ (پر مبنی) کوئی حدیث سناتا ہے، پھر وہ بکھر جاتے ہیں، ان میں سے کوئی آدمی کہتا ہے: میں نے ایک آدمی سے (حدیث) سنی ہے، میں اس کا چہرہ تو پہنچانتا ہوں پر اس کا نام نہیں جانتا، وہ حدیث سنا رہا تھا۔
صحيح مسلم: مُقَدِّمَةُ الکِتَابِ لِلإِمَامِ مُسلِمِ رَحِمَهُ الله (بَابُ النَّهْيِ عَنْ الرِّوَايَةِ عَنْ الضُّعَفَاءِ وَالِاحْتِيَاطِ فِي تَحَمُّلِهَا)
صحیح مسلم: مقدمہ صحیح مسلم (باب: ضعیف راویوں سے روایت کی ممانعت اور روایت کی (حفاظت اور بیان کی) ذمہ داری اٹھاتے ہوئے احتیاط)
ایساتونہیں ہوسکتاہے کہ واقعہ کے ایک جزء پر ایمان لے آئیں اور دوسرے جزء کو کلمہ کفر بنادیں۔ تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى
جو دجالوں اور شیطان کے بیان کردہ واقعہ پر ایمان لانا چاہتا ہو، وہ ان کی مکمل بات مان لیں!
ہم تو وہی مانیں گے قابل اعتماد لوگوں نے بتلائی ہو، اور ثابت شدہ بات کے خلاف نہ ہو!
رحمانی صاحب کی عقل شریف کے مطابق تو اہل الرائی حنفی یہ بری تقسیم کرنے والے ہیں، اور وہ بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بیان کردہ امور میں؛

الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاظَبَ عَلَى رَفْعِ يَدَيْهِ عِنْدَ تَكْبِيرَةِ الِافْتِتَاحِ، قُلْت: هَذَا مَعْرُوفٌ فِي أَحَادِيثِ صِفَةِ صَلَاتِهِ عليه السلام: مِنْهَا حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ، أَخْرَجَهُ الْأَئِمَّةُ السِّتَّةُ فِي كُتُبِهِمْ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَأَيْت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أن يركع، وبعد ما يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، انْتَهَى.
وَحَدِيثُ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا قَامَ إلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ وَسَيَأْتِي قَرِيبًا بِتَمَامِهِ، أَخْرَجَهُ الْجَمَاعَةُ، إلَّا مُسْلِمًا.
حَدِيثٌ آخَرُ أَخْرَجَهُ الطَّحَاوِيُّ فِي شَرْحِ الْآثَارِ مِنْ طَرِيقِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إذَا قَامَ إلَى الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، انْتَهَى. وَقَالَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ فِي الْإِمَامِ: قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: لَمْ يَخْتَلِفْ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يرفع يديه إذا افتح الصَّلَاةَ، انْتَهَى.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 308 - 309 جلد 01 نصب الراية لأحاديث الهداية مع حاشيته بغية الألمعي في تخريج الزيلعي - جمال الدين أبو محمد عبد الله بن يوسف بن محمد الزيلعي (المتوفى: 762هـ) - مؤسسة الريان للطباعة والنشر، بيروت - دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 308 - 309 جلد 01 نصب الراية لأحاديث الهداية مع حاشيته بغية الألمعي في تخريج الزيلعي - جمال الدين أبو محمد عبد الله بن يوسف بن محمد الزيلعي (المتوفى: 762هـ) - وزارة الأوقاف السعودية

زیلعی حنفی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت میں تو تکبیر تحریمہ اور رکوع دونوں کے رفع الیدین کے الفاظ نقل کر دیئے ہیں، اور ابو حمید ساعدی اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی مذکورہ روایت میں بھی رکوع جاتے اور اٹھتے رفع الیدین موجود ہے!
اب ہمارے اہل الرائے حنفی حضرات ان احادیث سے تکبیر تحریمہ کی رفع الیدین پر ہمیشگی ودوام کی دلیل تو بناتے ہیں، مگر ان ہی روایات میں مذکور رکوع جاتے اور اٹھتے رفع الیدین پر ہمیشگی اور دوام کو نہیں مانتے!
تو کیا کہیں گے رحمانی صاحب، اپنی منطق کے مطابق کہ
تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى!

(جاری ہے)
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام بخاری کے خلاف حاکم بخارا کے دست راست کا تعارف بھی پیش پیش خدمت ہے؛
حُرَيْث بِضَم الْحَاء والثاء الْمُثَلَّثَة ابْن أبي الْوَفَاء البُخَارِيّ أحد الْأَئِمَّة الْكِبَار من فُقَهَاء أَصْحَاب أبي حنيفَة
اس عربی عبارت کا اردو ترجمہ پیش ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــ
امام بخاری کے خلاف حاکم بخارا کے منظور نظر مولوی حریث بن ابی الورقاء کا تعارف بھی پیش خدمت ہے؛
حُرَيْث بِضَم الْحَاء والثاء الْمُثَلَّثَة ابْن أبي الْوَفَاء البُخَارِيّ أحد الْأَئِمَّة الْكِبَار من فُقَهَاء أَصْحَاب أبي حنيفَة رَحمَه الله تَعَالَى ببخارى كَانَ كَبِيرا مشار إِلَيْهِ فى زمن البُخَارِيّ صَاحب الصَّحِيح وَله ذكر فى سَبَب إِخْرَاجه من بُخَارى مَعَ أبي حَفْص الْكَبِير"
حُرَيْث حاء کی پیش کے ساتھ ،بخارا میں حنفیہ کے بڑے علماء میں سے ایک تھے ،امام بخاری رحمہ اللہ کے زمانے میں یہ حُرَیث مشہور و معروف عالم تھا ،امام بخاریؒ کو بخارا سے نکوانے کی سازش میں ابو حفص کبیر کے ساتھ اس حریث کا ذکر بھی ہے ۔ ،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 35 جلد 02 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار هجر،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 185 جلد 01 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار المعارف النظامية، حيدر آباد، دكن
ــــــــــــــــــــــــــ

حريث - بضم الحاء والثاء المثلثة - ابن أبي الوفاء البخاري
أحد الأئمة الكبار من فقهاء الحنفية ببخارى، وكان في زمن البخاري صاحب " الصحيح "، وله ذكر في سبب إخراجه من بخارى مع أبي حفص الكبير، وكان في زمنه ممن يشار إليه، وتعقد الخناصر عليه، رحمه الله تعالى

بخارا میں حنفیہ کے بڑے علماء میں سے ایک تھے ،اپنے زمانے میں حنفیہ کے مشار الیہ گنے چنے علماء میں اس کا شمار تھا ،امام بخاریؒ کو بخارا سے اخراج کی سازش میں ابو حفص کبیر کے ساتھ اس حریث کا ذکر بھی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 32 جلد 03 الطبقات السنية في تراجم الحنفية - تقي الدين بن عبد القادر التميمي الداري الغزي (المتوفى: 1010هـ) - دار الرفاعي، الرياض
پی ڈی ایف سکین کیلئے دیکھئے :
https://archive.org/stream/AlTabaqatussaniyah03/al-tabaqatussaniyah03#page/n25/mode/2up
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن دائود کی لن ترانیوں کیلئے توکئی مجلدات کی کتاب بھی چھوٹی پرجائے گی،اب ذیل کی لن ترانی دیکھئے:
اس لیئے کہ امام ابو حنیفہ اور اہل الرائے کی فقہ گمراہی ہے اور گمراہ کن ہے!
کس طرح ایک ہی جھٹکے میں امت کے دوتہائی علماء،فقہاء کی صدیوں کی محنت پر پانی پھیراگیاہے،
اول تو یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ مذکورہ کلام کا سیاق کیا ہے؛ اس کا سیاق یہ ہے کہ اہل الرائی نے اہل الحدیث پر تہمت باندھی کہ:
اہل حدیث ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر طعن کیوں کرتے ہیں؟
وجہ یہی ہے کہ یہ کسی فقیہ کے معتقد نہیں اور جن کے معتقد ہیں ان کی ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں۔
تو اہل الحدیث پر اس تہمت کا جواب دیتے ہوئے، اہل الحدیث کی طرف سے امام ابو حنیفہ اور اہل الرائی پر طعن کی اصل وجہ بیان کی گئی تھی۔
اور اہل الحدیث کی امام ابو حنیفہ پر طعن کی یہ وجہ تو امام عبد البر نے امام اسی کتاب
الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى میں امام ابو حنیفہ کے ترجمہ میں ہی بیان کیا ہے، جہاں سے آپ نے ایک قطع وبرید شدہ عبارت پیش کی تھی؛ اس کی تفصیل پیش کی جا چکی ہے۔
اور یہ دو تہائی ہوں یا تین چوتھائی! اہل الحدیث کے مؤقف یہی ہے کہ اہل الرائی گمراہ ہیں، اور اہل الرائی کے گمراہی کی بنیاد ان کا اپنے اصول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آحاد احادیث کا انکار ورد کرنا ہے۔
اورمحدثین کے اس مؤقف کو تو ابن عبد البر نے بھی بیان کیا ہے۔
ہماری اس بات کو ''لن ترانی'' قرار دینا، اس کی اپنی جہالت وہفوات ہے، کہ جواہل الحدیث کے مؤقف سے جاہل ہو، اور اپنے تئیں اہل الرائی کے متعلق اہل الحدیث کا مؤقف کچھ اور گمان کیئے بیٹھا ہو!
یہ کوئی شیعہ کرتاتوقابل تعجب نہ تھا لیکن کچھ لوگ اہل حدیث کا لبادہ اوڑھ کر شیعوں سے بھی دوہاتھ آگے ہوجاتے ہیں اوراس لبادہ کو اوڑھ کر جس شخصیت پر چاہے طعن کردو کوئی کچھ نہیں کرسکتا،
یہ بھی عجیب کہی! شیعہ تو خود اہل الرائی ہیں! معلوم ہونا چاہیئے کہ فقہ جعفریہ بھی اہل الرائی ہیں!
جناب من، اہل الحدیث کے پاس علم الرجال ہے، اور اس علم الرجال میں جس کے بارے میں جو بات ثابت ہو گی، اہل الحدیث وہ بیان کرے گا، اور اس میں مجروحین ومتروکین پر طعن آئے گا، اور اس پر علمی میدان میں کوئی کچھ نہیں کرسکتا!
ہاں تہمتیں دھر سکتا ہے، خواہ مخواہ کوسنے دے سکتا ہے!
کیونکہ اگرکسی نے کچھ کہاتوفوراکچھ امتیوں کے اقوال پیش کردیئے جائیں گے کہ اہل حدیث کے خلاف بولنا ان سے بغض رکھناہے اوراہل حدیث سے بغض رکھنے والازندیق ہے، واضح رہے کہ یہ امتیوں کےا قوال ہیں لیکن اس موقع پر ان کی حیثیت قول رسول جیسی دلیل کی ہوجاتي هے۔
کچھ کہا! کیا مطلب؟
وہ جو اہل الرائے کے زاہد الکوثری نے اہل الحدیث کو کہا؟
یا کچھ اور؟
آپ کی بات کافی مبہم ہے،
میں آپ کی طرح اپنے تئیں اعتراض کشید نہیں کروں گا!
آپ بتلا دیں، کیا کہنے پر؟
ارادہ توتھاکہ اس پر تفصیل سے بات کی جاتی ،لیکن زیادہ تفصیل بے کار لوگوں کی بات کو زیادہ اہمیت دینے کے متراد ف ہے،
جی! یہ بات آپ کی بلکل درست ہے، اسی کے پیش نظر امام بخاری ''بعض الناس'' کہا اور ''بے کار لوگوں '' کو زیادہ اہمیت نہیں دی!
لہذا ہم اس موقع پر محض ابن تیمیہ کاہی کلام پیش کردیتے ہیں ،ابن تیمیہ کہتے ہیں:
:ومن ظن بابی حنیفۃاوغیرہ من أئمۃالمسلمین أنھم یتعمدون مخالفۃ الحدیث الصحیح لقیاس أو غیرہ ،فقد أخطا علیھم ،وتکلم إما بظن وإما بھوی۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۳۰۴)
وَمَنْ ظَنَّ بِأَبِي حَنِيفَةَ أَوْ غَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ أَنَّهُمْ يَتَعَمَّدُونَ مُخَالَفَةَ الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ لِقِيَاسِ أَوْ غَيْرِهِ فَقَدْ أَخْطَأَ عَلَيْهِمْ وَتَكَلَّمَ إمَّا بِظَنِّ وَإِمَّا بِهَوَى
اورجس نے ابو حنیفہ یا ان کے علاوه دیگر ائمہ مسلمین کے متعلق یہ گمان کیا کہ وہ جان بوجھ کر وه قياس یا اس کے علاوہ کسی وجہ سے حديث صحيح کی مخالفت کرتے ہیں تو اس نے ان کے متعلق غلطی کی، اور محض اپنے گمان یا خواہش نفسی سے بات کی،
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 304 جلد 20 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 168 جلد 20 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء

آپ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے یہ کہا ہے کہ امام ابو حنیفہ فی جان بوجھ کر حدیث کی مخالفت کرنے والے نہ تھے!
ہم بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے لئے اسی حسن ظن کو بہتر جانتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ جان بوجھ کر صحیح احادیث کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ امام ابو حنیفہ قلیل الحدیث، یتیم ومسکین فی الحدیث، اور علم حدیث سے بہت کم واقفیت اور دیگر وجوہات کی بناء پر صحیح حدیث کی مخالفت ورد وانکار کے مرتکب ہو ئے ہیں! اسی طرح دیگر اہل الرائے احناف بھی!
اور یہ وجوہات امام ابو حنیفہ اور دیگر اہل الرائی احناف کے لئے بھی!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی صحیح احادیث کی مخالفت میں انہیں عذر کا ذکر کیا ہے! اور اسی جگہ اس بات کو مزید اپنی ایک کتاب
''رَفْعِ الْمَلَامِ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَعْلَامِ'' کا حوالی دیتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ انہوں نے دس عذر اس کتاب میں بیان کیئے ہیں، اور یہاں بھی کچھ کا ذکر کیا ہے۔
فَهَذَا أَبُو حَنِيفَةَ يَعْمَلُ بِحَدِيثِ التوضي بِالنَّبِيذِ فِي السَّفَرِ مُخَالَفَةً لِلْقِيَاسِ وَبِحَدِيثِ الْقَهْقَهَةِ فِي الصَّلَاةِ مَعَ مُخَالَفَتِهِ لِلْقِيَاسِ؛ لِاعْتِقَادِهِ صِحَّتَهُمَا وَإِنْ كَانَ أَئِمَّةُ الْحَدِيثِ لَمْ يُصَحِّحُوهُمَا. وَقَدْ بَيَّنَّا هَذَا فِي رِسَالَةِ " رَفْعِ الْمَلَامِ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَعْلَامِ " وَبَيَّنَّا أَنَّ أَحَدًا مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ لَا يُخَالِفُ حَدِيثًا صَحِيحًا بِغَيْرِ عُذْرٍ بَلْ لَهُمْ نَحْوٌ مِنْ عِشْرِينَ عُذْرًا مِثْلَ أَنْ يَكُونَ أَحَدُهُمْ لَمْ يَبْلُغْهُ الْحَدِيثُ؛ أَوْ بَلَغَهُ مِنْ وَجْهٍ لَمْ يَثِقْ بِهِ أَوْ لَمْ يَعْتَقِدْ دَلَالَتَهُ عَلَى الْحُكْمِ؛ أَوْ اعْتَقَدَ أَنَّ ذَلِكَ الدَّلِيلَ قَدْ عَارَضَهُ مَا هُوَ أَقْوَى مِنْهُ كَالنَّاسِخِ؛ أَوْ مَا يَدُلُّ عَلَى النَّاسِخِ وَأَمْثَالُ ذَلِكَ. وَالْأَعْذَارُ يَكُونُ الْعَالِمُ فِي بَعْضِهَا مُصِيبًا فَيَكُونُ لَهُ أَجْرَانِ وَيَكُونُ فِي بَعْضِهَا مُخْطِئًا بَعْدَ اجْتِهَادِهِ فَيُثَابُ عَلَى اجْتِهَادِهِ وَخَطَؤُهُ مَغْفُورٌ لَهُ؛: لِقَوْلِهِ تَعَالَى {رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا} وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ أَنَّ اللَّهَ اسْتَجَابَ هَذَا الدُّعَاءَ وَقَالَ: قَدْ فَعَلْت} وَلِأَنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ.
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 304 - 305 جلد 20 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 168 - 169 جلد 20 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
اب دیکھیں کہ ابن دائود کیاکہتے ہیں، کوئی ٹودی پوائنٹ بات تونہیں ہوگی
دیکھ لیجئے! ہم نے تو بحوالہ بات کہی ہے!
یہ آپ کا گمان باطل ہے،
الحمد للہ! اللہ کی توفیق سے آپ کی ہر بات پر ''ٹو دی پوائنٹ'' بات کی ہے، اور بحوالہ بمع ثبوت کی ہے!
اور بتلائیے گا کہ ہمارے جواب میں کون سی بات کیونکر ''ٹو دی پوائنٹ'' نہیں!
بس وہی رفتاربے ڈھنگی جوان کی شروع سے قائم ہے وہ یہاں بھی برقرار رہے گی کیونکہ طبیعت اورفطرت انسانی کابدلنا بہت مشکل ہے،جبل گردد جبلت نہ گردد
اس بات کو میں در گذر کردیتا ہوں، یہ تو میری ذات کے متعلق آپ کا مؤقف ہے، تو ٹھیک ہے!
میں اپنی ذات کے حوالہ سے اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا!
لیکن اہل الحدیث پر اہل الرائی کی تہمتوں کا جواب دینا، اور ان کا مکروہ چہرا بے نقاب کرنا، میرا حدف ہے!

اورجب موقع ہے ،رسم دنیا ہے اور دستور بھی ہے توابن عبدالبر کا بھی کلام پیش کردیتے ہیں، دیکھیں اس تعلق سے ابن دائود کون سا علم کلام پیش کرتے ہیں:
هَذَا تَحَامُلٌ وَجَهْلٌ وَاغْتِيَابٌ وَأَذًي لِلْعُلَمَاءِ؛ لِأَنَّهُ إِذَا كَانَ لَهُ فِي النَّازِلَةِ كِتَابٌ مَنْصُوصٌ وَأَثَرٌ ثَابِتٌ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ بِغَيْرِ ذَلِكَ فَيُخَالِفُ النَّصَ وَالنَّصُّ مَالَا يَحْتَمِلُهُ التَّأْوِيلُ وَمَا احْتَمِلَهُ التَّأْوِيلُ عَلَى الْأُصُولِ وَاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ كَانَ صَاحِبُهُ مَعْذُورًا((جامع بیان العلم وفضلہ،۲/895)
یہ سب جہالت، شخصیت پر حملہ ،غیبت اورعلماء کو تکلیف پہنچاناہے،کیونکہ کسی بھی مسئلہ میں جب قرآن پاک یاحدیث رسول میں کوئی حکم موجود ہوتوکوئی بھی اس حکم کی مخالف نہیں کرتا اورنص اس کو کہتے ہیں جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو اور جس میں تاویل کی اصول فقہ ،عربی زبان کے قواعد کے مطابق گنجائش ہو تو پھر ایساتاویل کرنے والا(اگرچہ غلطی پر ہو )معذور ہوگا۔
رحمانی صاحب! یہ بغیر سیاق قطع وبرید شدہ عبارت پیش کرنے کو کیا کار ثواب سمجھا ہوا ہے؟
اس عبارت کا آغاز ہوتا ہے '
'هذا'' سے ، اب کم از کم آپ کو تو یہ بتلانے کی ضرورت نہیں کہ ''هذا'' سے کلام میں کیا تعلق پیدا ہوتا ہے!
اس '
'هذا'' کو بیان کیئے بغیر اس ''هذا'' پر کلام کو پیش کر کے کلام کا اطلاق کسی اور پر کرنے کو کیا کہیں؟
اگر آپ سے یہ فعل غلطی سے سرزد ہوا ہے، تو ایسا کیجیئے کہ ابن عبد البر کا یہ کلام پورے سیاق کے ساتھ پیش کیجئے، اور اسی طرح ترجمہ کے ساتھ!
اور یہ بھی بتلا دیجیئے کہ کیا ابن عبد البر نے یہ کلام، امام ایوب سختیانی، کے کلام پر کیا ہے؟ یا آپ کے اس عبارت کو پیش کرنے کا بعد کلام ہم نے حماد بن زید، الحجاج بن ارطاۃ، سلیمان بن حرب کا کلام پیش کیا ہے، کیا ان کے کلام پر کیا ہے؟
یا ابن عبد البر کے کلام کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے؟
آپ اس کی وضاحت کر دیجیئے، تاکہ ہم اس تناظر میں جواب دیں!
والسلام علی من اتبع الہدیٰ
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
ہم تو آپ کو وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہتے ہیں!
(الحمدللہ! اللہ کی توفیق سے جواب مکمل ہوا!)
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ابن داؤد کاعلم کلام تین نکات پر مشتمل ہے:
اولا:کسی بات کو تسلیم نہ کرو
ثانیا:تسلیم کرناہی پڑجائے تو دوراز کار تاویلات سے کام لو
ثالثا:اگر تاویلات سے کام نہ چلے تو بحث کو اتناالجھادو کہ اصل مدعا ہی گم ہوجائے۔
آپ فورم پر ابن دائود کے موضوعات اورمراسلات بالخصوص نزاعی بحثوں کاجائزہ لیجئے،انہی تین نکات کے ارد گرد ان کا پورا علم کلام گردش کرتاہوامل جائے گا،شرط انصاف اورغیرجانبداری ہے ،خود زیر بحث موضوع میں بھی اپنے علم کلام کے انہی تین دائروں سے کام لیاہے ،ہرایک کا ذکر اپنے وقت پر آئے گا۔
اصل مدعا ذہن میں تازہ رہے ،وہ یہ ہے کہ ایوب سختیانی نے خارش سے مراد امام ابوحنیفہ کی فقاہت کولیاہے،انہوں نے تاحال اپنے موقف پر کوئی واضح دلیل پیش نہیں کی ہے اور جوکچھ پیش بھی کیاہے تو وہ بھان متی کا کنبہ ہے کہ یہاں وہاں سے اینٹ روڑا لاکر جوڑدیا اور دعویٰ کردیاکہ ہم نے اپنی بات ثابت کردی ہے۔
ابن عبدالبر کے ایک اقتباس پر ابن داؤد لکھتے ہیں:
میں آپ کے مؤقف کو درست تسلیم کر ہی لیتا، اور اپنے مؤقف سے رجوع کرہی لیتا!
مگر قرآن کی ایک آیت اس میں حائل ہو گئی:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (سورة الحجرات 06)
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو (ترجمہ احمد علی لاہوری)
اب جب ایک حنفی مقلد، اور وہ بھی دیوبندی، اور نہ صرف دیوبندی بلکہ دیوبندی عالم کوئی خبر دے، تو اس کی تحقیق ضرور کرنا چاہیئے!
ابن داؤد نے گمراہی کے جو مدارج طے کئے ہیں، وہ کمال کے ہیں اوران کی ذہانت کا آئینہ ہے :
پہلا درجہ :حنفی مقلد
دوسرا درجہ:دیوبندی
تیسرا درجہ :دیوبندی عالم
اب اس پر توہم بحث نہیں کرتے کہ ان کے قائم کردہ یہ درجات ان کے علم ،عقل اوراستدلال کی میزان پر کتنے پورے اترتے ہیں کیونکہ ذہین افراد کیلئے ان کا سمجھنامشکل نہیں اور غبیوں کو سمجھانے کیلئے وقت نہیں۔
میں نے ابن عبدالبر کی ایک عبارت پیش کی تھی،جس کا مفاد یہ تھاکہ امام ابوحنیفہ پر محدثین کی جروحات کی جانب فقہاء توجہ نہیں دیتے اوراسے قابل اعتناء خیال نہیں کرتے۔
ابن داؤد نے سارازور اس پر صرف کیاکہ یہ عبارت ابن عبدالبر کی نہیں بلکہ ابن معین کی ہے،پہلاسوال یہ ہے کہ اگر یہ عبارت ابن عبدالبر کی نہیں ؛بلکہ ابن معین کی ہے تو فرق کیاپڑا،ابن عبدالبر سے زیادہ بڑی حیثیت اور شخصیت ابن معین کی ہے،علم حدیث کے باب میں ابن عبدالبر ابن معین کے مقابلے کم تر حیثیت کے ہیں، ایسے میں اگریہ قول ابن داؤد کی نگاہ میں ابن معین کا ہو توبات کا وزن تو نہ صرف اپنی جگہ رہا ؛بلکہ اوربڑھ گیا ،نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑگئے ،کی مثال ایسے ہی مواقع پر صادق آتی ہے۔

ابن داؤد نے پوری عبارت نقل کی :
أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي الفقيه صاحب الرأي قيل: أنه رأی أنس بن مالك وسمع من عبد الله بن الحارث بن جزء الزبيدي، فیعد بذلك في التابعين، وكان خزازا بالكوفة. وكان أبوه مولی لبني تيم الله بن ثعلبة.
كان في الفقه إماماً حسن الرأی والقياس، لطيف الاستخراج جيد الذهن حاضر الفهم، ذكياً ورعاً عاقلاً إلا أنه كان مذهبه في أخبار الآحاد العدول أن لايقبل منها ما خالف الأصول المجتمع عليها، فأنكر عليه أهل الحديث ذلك وذمّوه فأفرطوا، وحسده من أهل وقته من بغی عليه استحل الغيبة فيه.وعظمه آخرون روفعوا من ذكره، واتخذوه إماماً، وأفرطوا أيضاً في مدحه، وألف الناس في فضائله وفي مثالبه، والطعن عليه وأكثر أهل الحديث يذمونه. وعامة الحنبلية اليوم علی ذمه، وكان أحمد رحمه الله ممن يسیء القول فيه وفي أصحابه.
قال يحيي بن معين: أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأهل الفقه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه. روی عن جعفر بن محمد وحماد بن أبي سليمان، وعطاء ونافع، وسماك.
روی عنه وكيع وابن المبارك، وعبد الرزاق، وأبو نعيم وأبو يوسف، وزفر بن الهذيل، ومحمد بن الحسن وجماعة يطول ذكرهم قد جمعتهم غير واحد.

پھراس کا ترجمہ یا خلاصۃ ابن دائود بیان کرتے ہیں:
امام ابن عبد البر نے امام ابو حنفیہ کو اہل الرائے ، اور فقیہ کہا، امام عبد البر نے صیغہ تمریض سے ذکر کیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا، اور عبد الله بن الحارث بن جزء الزبیدی سے سماع ہے، ا س بنا پر امام ابو حنیفہ کو تایعین میں شمار کیا گیا ہے،پھر امام ابو حنفیہ کی فہم و فقہ میں تعریف کی اور مختلف اوصاف بیان کیئے، اور ان اوصاف کے بیان کے بعد ''الا'' کہہ کر امام ابو حنیفہ کی فقہ میں ایک اصولی و بنیادی نقص بیان کیا!( کوئی یہ کہے کہ امام ابن عبد البر نے تو اسے نقص نہیں کہا، تو وہ اس کی غلط فہمی ہے، کہ امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ کی تعریف کے بعد ''الا''کہنا ہی اس بات کو واضح کرتا ہےکہ یہاں امام عبد البر اسے قدح کے طور پر بیان کر رہے ہیں!) اور وہ یہ ہے کہ،امام ابو حنیفہ مجتمع علیہ اصول کے خلاف صحیح اخبار الآحاد کو قبول نہیں کرتے تھے، یعنی کہ صحیح احادیث کو رد کر دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اہل الحدیث نے ابو حنفیہ کا رد اور انکار کیا اور ان کی مذمت کی، اور اس مذمت میں افراط سے کام لیا، امام ابو حنیفہ کی غیبت کو بھی حلال قرار دیا۔ دوسروں نے امام ابو حنیفہ کی تعظیم کی اور امام ابو حنیفہ کے ذکر کو بڑھایا، اور امام بنایا اور انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ کی مدح میں افراط سے کام لیا! لوگوں نے امام ابو حنیفہ کی مدح پر بھی لکھا، اور امام ابو حنیفہ کے مثالیب اور ان پر طعن پر بھی لکھا۔ اکثر اہل الحدیث امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں، اورآج عام حنابلہ امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں۔ امام احمد بن حنبل ان میں ہیں جن کے امام ابو حنیفہ کے متعلق بُرائی کے اقوال یعنی کہ جرح کے اقوال ہیں۔
ابن داؤد اس ترجمانی میں بھی
،وحسده من أهل وقته کا ترجمہ یاترجمانی گول کرگئے کہ امام ابوحنیفہ کے معاصرین میں سے بعض ان سے حسد میں بھی مبتلاتھے،واضح رہے کہ ابن عبدالبر نے متعدد مقامات پر محدثین کے امام ابوحنیفہ سے حسد کا ذکر کیاہے:
، وَكَانَ أَيْضًا مَعَ هَذَا يُحْسَدُ وَيُنْسَبُ إِلَيْهِ مَا لَيْسَ فِيهِ وَيُخْتَلَقُ عَلَيْهِ مَا لَا يَلِيقُ بِهِ(جامع بيان العلم وفضله (2/ 1081)
وَكَانَ مَعَ ذَلِكَ مَحْسُودًا لِفَهْمِهِ وَفِطْنَتِهِ(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 149)

ابن داؤد نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ الا سے کسی نقص اورعیب کا اظہار ہورہاہے ،جب کہ یہ تحقیق کے مدعی اور تقلید سے نفرت کا زبانی پرچار کرنے والے ابن عبدالبر کی الانتقاء کا جائزہ لے لیتے توانہیں معلوم ہوتاکہ یہ نقص اورعیب کے طورپر نہیں بلکہ سبب اوروجہ کے طورپر بیان کیاگیاہے،ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو عُمَرَ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ اسْتَجَازُوا الطَّعْنَ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ لِرَدِّهِ كَثِيرًا مِنْ أَخْبَارِ الآحَادِ الْعُدُولِ لأَنَّهُ كَانَ يَذْهَبُ فِي ذَلِكَ إِلَى عَرْضِهَا عَلَى مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ مِنَ الأَحَادِيثِ وَمَعَانِي الْقُرْآنِ فَمَا شَذَّ عَنْ ذَلِكَ رَدَّهُ وَسَمَّاهُ شَاذًّا وَكَانَ مَعَ ذَلِكَ أَيْضًا يَقُولُ الطَّاعَاتُ مِنَ الصَّلاةِ وَغَيْرِهَا لَا تُسَمَّى إِيمَانًا وَكُلُّ مَنْ قَالَ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ الإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ يُنْكِرُونَ قَوْلَهُ وَيُبَدِّعُونَهُ بِذَلِكَ(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 149)

یہاں پر واضح ہے کہ ابن عبدالبر نے’’ الا‘‘کی جگہ ’’لانہ‘‘کااستعمال کیاہے،لہذا الاکی بنیاد پر تعمیر کی جانے والی پوری خیالی عمارت کہ امام ابوحنیفہ کا یہ موقف نقص اورعیب ہے، دھرام سے زمین پر گرگئی ؛اسی کو کہتے ہیں :
جوشاخ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدارہوگا​
دوسری بات یہ ہے کہ فقہی اجتہاد میں کسی اصول یاموقف کو اپناناکوئی عیب نہیں ہوتا،دلیل کی بنیاد پر ہم کسی موقف کوراجح مرجوح یا صحیح غلط کہہ سکتے ہیں ؛لیکن وہ عیب اورنقص نہیں ہوتا،امام مالک عمل اہل مدینہ کے بالمقابل احادیث رد کردیاکرتے تھے ،قرآن کی آیت کے عموم کے پیش نظربھی وہ احادیث رد کردیاکرتے تھے توکیااسے عیب قراردیاجائے گا،جواب یہی ہوگاکہ ہرگزنہیں، اسی طرح امام ابوحنیفہ کا ایک موقف ہے جس پر ہم اس لحاظ سے توبحث کرسکتے ہیں کہ وہ درست ہے یاغلط ہے ،لیکن وہ کوئی عیب اور نقص نہیں ہے۔
امام ابوحنیفہ کا یہ موقف کہ وہ احادیث آحاد کو اصول مجتمع پر پیش کرتے تھے،اس کی بہترین توضیح حضرت شاہ عبدالعزیز نے کی ہے،چنانچہ انہی کے الفاظ میں اس موقف کو پڑھئے:
اورامام اعظم نے اورآپ کے تابعین نے جو امر اختیار کیاہے وہ نہایت صاف ظاہر ہے اوربیان اس امر کا یہ ہے کہ جب ہم نے تحقیق کی توشریعت میں دوقسم کے احکام پائے ،ایک قسم قواعد کلیہ ہے اور وہ جامع ومانع ہے مثلاہمارا یہ قول ہے کہ’ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے گناہ میں ماخوذ نہ ہوگا‘اوریہ قول ہے کہ’ غنم بسبب غرم کے ہیں‘ اوریہ قول ہے کہ ’خراج بسبب ضمان کے ہے ‘اوریہ قول ہے کہ ’عتاق یعنی آزاد کرنا فسخ نہیں ہوسکتا‘ اوریہ قول ہے کہ ’بیع کامل ہوتاہے ایجاب وقبول سے‘ اوریہ قول ہے کہ’ گواہ مدعی کیلئے ہے اورقسم منکر پر ہوتی ہے‘ اورایسے ہی اوربھی بے شمار اقوال ہیں۔
اورایک قسم احکام کی وہ جو حوادث جزئیہ اوراسباب مختصہ میں وارد ہوا،گویا اس قسم کا حکم بمنزلہ استثناکے ہے، ان کلیات سے جو احکام کی قسم اول ہے اورجس کا ذکر ابھی اوپر ہواہے تومجتہد پر واجب ہے کہ ان کلیات کو محفوظ رکھے اورجو امور ان کلیات کے خلاف ہوں، ان کو ترک کرے،اس واسطے کے شریعت حقیقت میں عبارت اسی کلیات سے ہے اورجواحکام اس کلیات کے خلاف ہیں کہ اس کے اسباب اورمختصات ہمارے نزدیک یقینی طورپر ثابت نہیں ،وہ قابل اعتبار نہیں اورمثال اس کی یہ ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب بیع میں کوئی شرط فاسد ہوتو وہ بیع باطل ہوجاتی ہے اورحضرت جابرؓ کے حال میں جو وارد ہواہے کہ انہوں نے اونٹ فروخت کیا اور شرط کرلی کہ یہ اونٹ ہمارے مصر ف میں مدینہ منورہ تک رہے گا تویہ قصہ شخصیہ جزئیہ معارض واسطے قاعدہ کلیہ مذکورہ کے نہ ہوگا اورایساہی حدیث’ مصراۃ‘ اس قاعدہ کلیہ کے معارض نہ ہوگی جوقاعدہ کلیہ قطعی طورپر شروع میں ثابت ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ غنم بسب غرم کے ہے ،اورایسے ہی اوربھی مسائل ہیں اوراس سے لازم آتاہے کہ بہت سے ایسی احادیث پر عمل نہیں ہوتا جن میں ایسے امور جزئیہ کا ذکر ہے جو حنفی مذہب کے کسی قاعدہ کلیہ کے خلاف ہیں؛ لیکن علماء حنفیہ اس کا خیال نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اوریہی کوشش رہتی ہے کہ تاامکان جزئیات ان کلیات میں مندرج رہیں۔(فتاوی عزیزی ، صفحہ ۴۳۰،مطبع:سعید ایچ ایم کمپنی،پاکستان،سنہ اشاعت:۱۴۰۸ھ)
ابن داؤد لکھتے ہیں: جناب جب ہم نے آپ کی دی ہوئی اس خبر کی، یعنی عبارت کی تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ آپ نے جو عبارت اور اس عبارت پر جو مدعا کھڑا کیا ہے، وہ تو نرا دھوکہ وفریب اور دجل وفنکاری ہے!نہ یہ کلام ابن عبد البر کا ہے، بلکہ ابن عبد البر تو اس کے ناقل ہیں، اور آپ نے یہاں وہ عبارت بھی قطع وبرید کر کے پیش کی، کہ کسی طرح آپ کا مدعا ثابت ہو سکے۔
ہماری خوشی مزید بڑھ جاتی،اگریہ قول ابن معین کا ہوتا،لیکن حق اورانصاف کا تقاضایہ ہے کہ جس کا قول ہو،اسی کی جانب منسوب کیاجائے،ابن داؤد نے یہ دعویٰ توکردیاکہ یہ قول ابن معین کا ہے لیکن کس بنیاد پر یہ قول ابن معین کا ہے،اس کو ثابت نہیں کیا،یہ محض ان کی سمجھ ہے کہ چونکہ شروع میں ابن معین کا نام آیاہے ،لہذا آخر تک ان ہی کاقول ہے،یہ محض اپنی سمجھ تو ہوسکتی ہے ،دلیل نہیں ہوسکتی۔
اہل حدیث حضرات کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تقلید کا انکار توکرتے ہیں ،لیکن تحقیق سے کوسوں دور رہتے ہیں، اس قول کی ہی مثال لیجئے،ابن داؤد نے سارازورتولگایا،لیکن اس قول کی تحقیق کرنے کی ان کو توفیق نہ ہوسکی۔
قال يحيي بن معين: أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأهل الفقه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه. روی عن جعفر بن محمد وحماد بن أبي سليمان، وعطاء ونافع، وسماك.روی عنه وكيع وابن المبارك، وعبد الرزاق، وأبو نعيم وأبو يوسف، وزفر بن الهذيل، ومحمد بن الحسن وجماعة يطول ذكرهم قد جمعتهم غير واحد.
حقیقت یہ ہے کہ ابن معین کا قول صرف یفرطون فی ابی حنیفۃ تک ہی ثابت ہے، اس سے آگے کا قول ابن عبدالبر کا اپناقول ہے،اگرابن دائود چاہتے تو ابن عبدالبر کی جامع بیان العلم میں ہی اس کی تحقیق کرسکتے تھے کہ ابن معین کا قول کہاں تک ہے،لیکن تحقیق تو صرف نعرہ ہے ،تقلید پر گزاراہے،جیسی روش کے لوگوں سے تحقیق کہاں ممکن !
یہ قول ابن عبدالبر کا ہے،اس کے چند دلائل پیش خدمت ہیں
اولا:آخر میں ہے، وجماعة يطول ذكرهم قد جمعتهم غير واحد.توسوال یہ ہے کہ یہ آخر الذکر بات کس کی ہے،ابن معین تویہ نہیں کہہ سکتے کہ ان سے روایت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے جس کا ذکر طوالت سے خالی نہیں اور کئی لوگوں نے ان سے روایت کرنے والوں کو اکٹھاکیاہے(یعنی اس پر تصنیف وتالیف کی ہے)یہ اگرابن عبدالبر کاہی کلام ہے ،جیساکہ شواہد حال سے واضح ہے توپھر اس سے پہلے کاکلام بھی ان کاہی ہے۔
ثانیا:امام ابن معین سے صرف اصحابنایفرطون فی ابی حنیفہ ہی منقول ہے،اس سے آگے کاجملہ کہیں بھی منقول نہیں ہے:وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنُ بْنُ يَحْيَى، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا أَبُو سَعِيدِ بْنُ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: «أَصْحَابُنَا يُفْرِطُونَ فِي أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ» فَقِيلَ لَهُ: أَكَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَكْذِبُ؟ فَقَالَ: «كَانَ أَنْبَلَ مِنْ ذَلِكَ»( جامع بيان العلم وفضله (2/ 1081)
اس دلیل سے یہ بات دواوردو چار کی طرح واضح ہوگئی کہ ابن معین کا کلام صرف فی ابی حنیفۃ تک ہی محدود ہے اوراس کے آگے کاکلام حافظ ابن عبدالبر کاہے۔
ثالثا:اس کی سب سے مضبوط دلیل یہ کہ یہ کلام ابن عبدالبر کا ہی ہے،عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان کے مصنف محمد بن یوسف بن علی بن یوسف ،دمشقی،صالحی شافعی جو علم حدیث اورفقہ میں اپنے دور کے منتخب علماء میں شمار ہوتے تھے، انہوں نے بھی اس قول کو ابن عبدالبر کی ہی جانب منسوب کیاہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
قال ابوعمر:واہل الفقہ لایلتفتون الی من طعن علیہ ولایصدقون بشی من ا لسوء ینسب الیہ(عقود الجمان ص:213)

رابعا:یہ کلام ابن عبدالبر کاہے،اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے حالات میں دہلی کے ممتاز عالم مولانا شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی نے ’’سوانح امام اعظم ابوحنیفہ‘‘کے نام سے کتاب لکھی تھی،اس میں بھی واہل الفقہ لایلتفتون کو ابن عبدالبر کی ہی جانب منسوب کیاگیاہے۔(دیکھئے مذکورہ کتاب ،ص:193)
جاری ہے
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
قال يحيي بن معين: أصحابنا يفطرون في أبي حنيفة وأهل الفقيه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه.
یحیی بن معین نے کہا:ہمارے اصحاب ابو حنیفہ کے معاملہ میں افراط سے کام لیتے، اور اہل فقہ امام ابو حنیفہ پر طعن کرنے والے طرف اتفات ہی نہیں کرتے، اور امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کسی برائی وخامی کی تصدیق نہیں کرتے۔
اب آپ دیکھیں کہ یہاں يحیی بن معین کوئی قاعدہ و اصول اور فقہاء کا اچھا کام نہیں بتلا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اپنے اصحاب اور ان فقہاء (فقہائے اہل الرائے) دونوں پر نقد کر رہے ہیں کہ ہمارے اصحاب امام ابو حنیفہ پر مذمت میں افراط کام لیتے ہیں، اور وہ فقہاء (فقہائے اہل الرائے) امام ابو حنیفہ پر کسی جرح کی طرف التفات ہی نہیں کرتے!
ماقبل میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ یہ کلام ابن عبدالبر کا ہے ،نہ کہ ابن معین کا،اوراس کلام کو ابن عبدالبر کا کلام قراردینے کیلئے بے چارے کے پاس اس کے سوا اورکوئی دلیل نہیں ہے کہ پیراگراف کے شروع میں ابن معین کا نام ہے،جس کتاب سے یہ تحقیق نقل کی گئی ہے، چونکہ اس میں رموز تحریر کاچنداں اہتمام نہیں ہے کہ جہاں جملہ ختم ہوگیایاکسی کی بات ختم ہوگئی وہاں رموز تحریرلگایاجائے،اسی بناء پر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ کلام ابن عبدالبر کانہیں ابن معین کاہے،جب کہ اس کلام کی داخلی شہادتیں،اور دیگر علماء کے اقتباسات سے میں نے واضح کردیاہے کہ یہ کلام ابن عبدالبر کا ہی ہے۔

اس کلام کی ابن دائود نے جو تاویل کی ہے،اسے دیکھ کر زبیر علی زئی کے بے تکے ترجمے اور من گڑھت تاویلات یاد آگئیں، کیاپتہ ابن دائود کو شرف تلمذ ہو اور تاویلات کے باب میں ان کے خاص شاگرد ہوں،ابن عبدالبر تو یہ کہناچاہ رہے ہیں کہ محدثین نے امام ابوحنیفہ پر جرح وتعدیل کے باب میں زیادتی کی ہے اوراسی بناء پر فقہاء ان محدثین کی جروحات کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے، یہ دونوں جملے ایک دوسرے سے پیوست ہیں، ابن معین جرح وتعدیل میں اپنی مثال آپ ہیں، ان کا کلام پیش کرکے ابن عبدالبر نے بتایاکہ محدثین امام ابوحنیفہ پر جرح کے باب میں زیادتی کرجاتے ہیں اوراسی کا نتیجہ ہے کہ فقہاء محدثین کے کلام کی جانب التفات نہیں کرتے،لیکن ابن دائود نے اس کلام کی ایسی تاویل فرمائی ہے کہ جسے دیکھ کر زبیر علی زئی کی روح بھی قبر مین وجد میں آگئی ہو کہ کیا ہونہار شاگرد ملاہے،جس نے میرا نام روشن کردیاہے۔

ابن عبدالبر انتقاء میں ہی امام ابوحنیفہ پر جرح پر قائم کردہ باب میں کہتے ہیں کہ امام مالک سے امام ابوحنیفہ کے حق میں منسوب تمام مثالب کے راوی امام مالک کے محدثین شاگرد ہیں، ان کے فقیہ شاگرد اس قسم کی کوئی بات نقل نہیں کرتے۔
وروى ذَلِكَ كُلَّهُ عَنْ مَالِكٍ أَهْلُ الْحَدِيثِ وَأَمَّا اصحاب مَالك من أهل الرأى فَلَا يروون من ذَلِك شَيْئا عَنْ مَالِكٍ
(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 150)

کچھ سمجھ شریف میں آیایانہیں آیا؟
جاری ہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
یہ بات واضح ہے کہ امام شافعی ؒ اورامام ابویوسف کی ملاقات نہیں ہوئی ہے،جیساکہ ابن کثیر ،ابن حجر اوردیگر مورخین نے بھی واضح کیاہے اورجوایک کذاب راوی نے اس سلسلے میں امام شافعی کا من گڑھت سفر نامہ تیار کیاہے جو رحلۃالشافعی کے نام سے مشہو رہے، وہ جھوٹ کا پلندہ ہے،دیکھئے (البداية : 10 / 182، ميزان الاعتدال : 2 / 491،لسان المیزان : 3 / 338،" توانی التاسیس لابن حجر :ص 71،مفتاح دارالسعادۃ لابن القیم (ج 2 / ص 220)

اس خبر میں اولاًتو سند کا انقطاع ہے، یہ معلوم نہیں کہ امام شافعی نے یہ بات کس سے نقل کی،اوران تک یہ بات کس ذریعہ سے پہنچی،امام شافعی مرسل احادیث کو اسی لئے رد کردیتے ہیں کہ ان کے نزدیک تابعی نے اپناواسطہ ظاہر نہیں کیا وہ صحابی بھی ہوسکتاہے اورغیرصحابی بھی ،امام شافعی کے پیش کردہ اصول کی روشنی میں ہی یہ روایت رد کردینے کے لائق ہے۔

ثانیا:اس خبر میں کئی چیزیں ایسی ہیں جو اسے مشتبہ بنادیتی ہیں، فقہاء مجتہدین باوجود کہ معصوم نہیں تھے ،لیکن ان کے اندر اس طرح کی بھی نفسانیت نہیں تھی کہ وہ کہتے :
قَالَ أَبُو يُوسُفَ لأَرُوحَنَّ اللَّيْلَةَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي الرَّشِيدَ بِقَاصِمَةِ الظَّهْرِ عَلَى الْمَدَنِيِّينَ

اس طرح کی بات وہ شخص توکہہ سکتاہے جس کو خوف خدا نہ ہو اورپورا دنیادارہو،اورجسے صحیح غلط سے کوئی مطلب نہ ہو ،صرف اپنی جیت کاخواہاں ہو، ہم ائمہ مجتہدین کو اس طرح کی نفسانیت سے بری اورپاک سمجھتے ہیں اورہمارے لئے یہ تصوربھی محال ہے کہ اولاً امام ابویوسف مدنی فقہاء کا احترام کرتے تھے، بسااوقات ان کی رائے پر عمل کرتے تھے،خود امام مالک کی باتیں سن کر اپنے بعض اجتہادات سے رجوع کیاہے،لہذا اس طرح کی بات کرنا کہ وہ مدنی حضرات کی کمرتوڑدوں گا، ان کی شان سے بعید ہے،دوسرے ہارون رشید کوئی جاہل بادشاہ نہیں تھا، انتہائی بیدار مغز اورپڑھالکھابادشاہ تھا اورقرآن وحدیث میں بھی اسے خاصا درک حاصل تھا،اس سے بھی یہ بات بعید نہیں ہوسکتی کہ وہ ایک طرفہ کسی کی بات سن کر فیصلہ کرےاوراس مسئلہ میں اگرمان لیں کہ مدنی حضرات کی رائے غلط ہے تواس سے کون سی آفت آجانی تھی؟کہ اس کیلئے قاصمۃ الظہر کا استعمال کیاجائے۔
سوم جب شخص مجہول سے مناظرہ کے بعد امام ابویوسف پر اپنی غلطی واضح ہوگئی تب بھی وہ رکے نہیں،حالانکہ ایک اوسط درجہ کے متدین شخص کے بارے میں بھی ہم نہیں سوچتے کہ وہ اس طرح کی حرکت کرتاہوگا،اوروں کو چھوڑدیجئے کیا ابن دائود اپنے اساتذہ کے بارے میں ہی ایساگمان رکھتے ہیں کہ وہ حق واضح ہوجانے کے بعد غلطی پر ڈتے رہتے ہوں گے،توامام ابویوسف ان کے اساتذہ سے بدرجہا دین وامانت میں فائق ہیں،ان کے بارے میں ایساگمان کیسے کیاجاسکتاہے؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اس کے بعد ابن داؤد نے حسب معمول حوالہ جات کاانبار اس بات پر پیش کیاہے کہ ایوب سختیانی فقیہ تھے،ایوب سختیانی کی فقاہت سے انکار کس نے کیاہے، جس بات پر ہمارا اعتراض نہ ہو،اس بات پر دلائل کے ڈھیر لگانا کار عقلمنداں قطعاًنہیں ہے اورجس بات پر ہمارااختلاف ہے،اس پر انہوں نے ابھی تک کوئی دلیل صریح پیش نہیں کی ہے کہ ایوب سختیانی نے امام ابوحنیفہ کی فقاہت کو ہی خارش سے تعبیر کیاہے؟
ابن داؤد مزید کہتے ہیں کہ ایوب سختیانی خود فقیہ تھے اوریہ ان کی جرح موجود ہے،لہذا فقہاءمحدثین کی جرحوں پرتوجہ نہیں دیتے کی بات درست نہیں ہے:

ایوب سختیانی کے امام ابو حنیفہ سے متعلق زیر بحث مؤقف کے حوالہ سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ رحمانی صاحب نے عبد البر کے حوالہ سے جو بات بیان کی، بالفرض محال اسے درست مان بھی لیا جائے، تب بھی امام سختیانی تو خود فقیہ ہیں، لہٰذا امام ایوب سختیانی کی جرح کسی غیر فقیہ کی جرح نہیں، بلکہ ایک فقیہ کی جرح ہے؛
اب اس پر آدمی ہنسے یاروئے،جب انسان کویہ بھی معلوم نہ ہو کہ دعویٰ کیاہے اور کہناکیاہے اور یوں بے سروپیر کی ہانکنا شروع کردے ،ابن عبدالبر مالکی کادعویٰ یہ نہیں ہے کہ فقیہوں نے جرح نہیں کی، ابن عبدالبر کاکہنا یہ ہے کہ فقہاءمحدثین کی جرحوں کوخاطرمیں نہیں لاتے،ان دونوں میں بہت فرق ہے،بشرطیکہ آدمی میں عقل ہو اورسمجھنے کی کوشش بھی کرے۔
ابن عبدالبر نے الانتقاء اورجامع بیان العلم میں کئی افراد سے امام ابوحنیفہ پر جرح نقل کی ہے اوران میں سے متعدد کو وہ فقیہ بھی مانتے ہوں گے،ان کی مراد اس عبارت سے یہ ہے کہ ایک تو کسی شخص کا کوئی بات کہنا یاکسی پر کچھ نقل کردیناہے ،دوسرا ہے بعد والوں کواس قول کوماننا اورتسلیم کرنا،امام ابوحنیفہ پرجرح کرنے والوں میں سے کئی فقہاءبھی ہیں، لیکن ان کی یہ جرح تسلیم نہیں کی گئی ،جیسے امام بخاری پر ابوزرعہ رازی اورابوحاتم رازی نے جرح کیا،لیکن محدثین نے ان جرحوں کو تسلیم نہیں کیا، اب یہ کہنا تودرست نہیں ہوگاکہ امام بخاری پر جرح نہیں ہوئی،ہاں یہ کہنا درست ہوگاکہ محدثین نے ان جرحوں کو تسلیم نہیں کیا۔امید ہے کہ بات عقل شریف میں آگئی ہو گی۔
ایوب سختیانی کی فقاہت ثابت شدہ بات ہے،ان کی مذکورہ جرح بھی ثابت ہے؛لیکن کیا بعد کے لوگوں نے اس جرح کو تسلیم کیا؟یہ ہے اصل پوائنٹ ،جس پر بات نہیں کرتے،بحث کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کیا ایوب سختیانی کی جرح کا مشارالیہ امام ابوحنیفہ کی فقاہت ہے یاکچھ اور،اگرفقاہت ہے تواس کی دلیل کیاہے؟اس پر بھی ابن دائود تاحال اپنےعلم کلام کی بھول بھلیوں میں الجھنے اورالجھانے کے سواکوئی کام کی بات نہیں کرسکے ہیں۔
میں نے یہ بات کہی تھی :

اس تھریڈ پر کئی اشکال ہیں، اولاًتویہ کہ ایوب سختیانی کتنے بھی ذی علم ہوں، ہیں بہرحال ایک امتی ہی، ان کاقول ان کا اپنا تاثر توبتاسکتاہے لیکن قول دلیل نہیں بن سکتا،آپ حضرات یوں تو ہرموقعہ اورمحل سے یہ رٹ لگاتے پھرتے ہیں کہ امتی کا قول دلیل نہیں بن سکتا،لیکن ائمہ احناف کے خلاف ہرامتی کا قول دلیل بن جاتاہے۔
اس پر ابن دائود حسب معمول بغیر سوچے سمجھے اورغوروفکر کئے ارشاد فرمانے لگے:

یتیم ومسکین فی الحدیث کے مقلدین سے علم جرح وتعدیل میں ایسی جاہلانہ بات کا کیا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں!
یہاں کسی شرعی حکم کا اثبات نہیں، بلکہ کسی شخص کے احوال کے بارے میں جاننا ہے، اور قرآن وحدیث میں تمام تمام واقعات اور انسانوں کے احوال کا بیان نہیں، واقعات اور انسانوں کے احوال انسانوں کے واسطے ہی معلوم ہوتے ہیں، اور ان واقعات اور احوال کی بناء پر قرآن وحدیث کی دلیل سے حکم صادر کیا جاتا ہے۔
میرے کلام کا مطلب یہ تھاکہ ایک ہے کسی شخص کا کوئی بات کہنا اوردوسراہے،اس قول کا درست ہونا، دونوں لازم ملزوم نہیں ہیں، بسااوقات یہ غلط بھی ثابت ہوتاہے، جیساکہ خود جرح وتعدیل کی کتابوں میں ہم آئے دن دیکھتے رہتے ہیں اور ابھی تک موقع نہ ملاہو توحافظ ذہبی کی کتاب’’من تکلم فیہ وھو موثق ‘‘کا مطالعہ کرلیجئے،یااگریہ مشکل ہو تو شاملہ پر جاکر تلاش کے پہلے خانہ میں ’’تکلم‘‘اوردوسرے خانہ میں ’’بلاحجۃ‘‘لکھ کر اور تراجم کے زمرہ کو ٹیگ کرکے سرچ کریں، بہت ساری مثالیں مل جائیں گی۔اسی طرح ایوب سختیانی نے بھی ایک بات کہی ہے، وہ ان کا اپنا ایک تاثر ہوسکتاہے ،لیکن اس تاثر کا نفس واقعہ ہونا اوردرست ہوناالگ بات ہے،اس کیلئے علیحدہ دلائل کی ضرورت پڑے گی،اسی کو میں نے کہاتھاکہ امام ابوحنیفہ کے خلاف بس کوئی قول ہوناچاہئے، صحیح یاغلط سے اہل حدیث حضرات کو کم ہی مطلب رہتاہے۔
دفاع میں ابن دائود نے جوکچھ کہاہے وہ ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘کے مصداق ہے،یعنی جرح وتعدیل کوئی شرعی امر نہیں ہے، یوں ہی کسی کی خبرخیریت معلوم کرنے جیساہے،سبحان اللہ ،کیاارشاد فرمایاہے، دل ماروشن وچشم ماشاد،ایک شعر تھوڑے سے ترمیم کے ساتھ عرض ہے

جزاک اللہ چشمم شاد کردی
اگر اجازت ہو توعرض کروں کہ جرح وتعدیل کی اجازت شریعت کی بقاکیلئے ہی دی گئی ہے اوراسی کے شرعی ہونے کا انکار کرنانہایت نامناسب بات ہے،اوراگرجرح وتعدیل کا تعلق شریعت سے نہیں ہے توپھر کس سے ہے؟
علم حدیث کا مبتدی طالب علم بھی جانتاہے کہ جرح وتعدیل کی اجازت اسی لئے دی گئی ہے کہ روات کی پہچان ہو اوراس کی بنیادپرحدیث کی تمیز اور تصحیح ہوسکے ،اگریہ مقصد نہ ہو تو اوراس کے بغیر کوئی کسی پر جرح کرتاہے تو یہ غیبت ہے،جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ،لہذا جرح وتعدیل کے شرعی ہونے کا انکار کرنا بالبداہت غلط بات ہے۔
ابن دائود کہتے ہیں:

اور قرآن وحدیث میں تمام تمام واقعات اور انسانوں کے احوال کا بیان نہیں، واقعات اور انسانوں کے احوال انسانوں کے واسطے ہی معلوم ہوتے ہیں، اور ان واقعات اور احوال کی بناء پر قرآن وحدیث کی دلیل سے حکم صادر کیا جاتا ہے
اورپھر ایک حدیث پیش کی ہے،حدیث کا مفاد صرف اس قدر ہے کہ کوئی چرب زبان شخص قاضی کو متاثر کرکےا پنے حق میں فیصلہ کراسکتاہے لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ جرح وتعدیل کا علم غیر شرعی ہے یاپھر گواہوں کی گواہی اورشہادت کا پورا نظام غیرشرعی ہے۔
گواہی کیاہوتی ہے،یہی ناکہ کسی حادثہ اورواقعہ کی تائید ایک دوسرا شخص کرتاہے،کیایہ شریعت کے دائرہ سے باہر ہے،جرح وتعدیل اورشہادت میں کچھ چیزیں متفق اورکچھ مختلف ہیں لیکن بنیادی طورپر دونوں کا مقصد دعویٰ کی تصحیح ہی ہوتی ہے ،ایک شخص کوئی دعویٰ کرتاہے اور دوسرا اس کی تائید یاتکذیب کرتاہے،اسی طرح ایک شخص روایت بیان کرتاہے اورکچھ لوگ اس کے حال احوال کی گواہی دے کر یہ بتاتے ہیں کہ یہ اس لائق ہے یانہیں کہ اس کی روایت قبول کی جائے یانہیں۔
خلاصہ کلام جرح وتعدیل ہو،یاپھر شہادت اورگواہی کا نظام جس میں ایک انسان کے احوال اور واقعات سے بحث ہوتی ہے، یہ غیر شرعی نہیں ہے، شریعت کے دائرہ اورحد کے اندر ہی ہے۔اس سے باہر نہیں ہے۔
جاری ہے
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
عقل سلیم اور انصاف کا تقاضا تو یہ ہے علماء کے مؤقف کے مقابلہ میں ''غیر عالم '' امت کو کھڑا نہ کیا جائے!
یہ کہنا کہ ایوب سختیانی اور ان کی طرح کے کچھ افراد ہیں اور دوسری جانب پوری امت! یہ تاثر دینا کہ ایوب سختیانی اور کچھ افراد پوری امت کے اجماع کے خلاف ہے، یہ درست نہیں!
یہاں معاملہ علم الحدیث اور علم الفقہ کا ہے، لہذا یہاں علماء کے مؤقف کا ہی تقابل کیا جائے گا!
اور پھر آپ نے ابن عبد البر کی جس کتاب سے قطع وبرید شدہ عبارت پیش کی تھی، اسی کتاب میں ابن عبد البر نے کہا ہے کہ اکثر اہل الحدیث اہل الرائے کی فقہی بنیاد کے سبب بھی امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں، اور عام حنابلہ بھی امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں، باقی رہے علمائے اہل الرائے، تو وہ تو خود اس مسئلہ میں مدعی علیہ ہیں!
اسے کہتے الٹی سمجھ
یعنی میں نے پوری امت کہی تواس سے مراد کندہ ناتراش اور ناخواندہ قسم کےا فراد تھے اوردوسری جانب ایوب سختیانی تھے،ذراآنکھیں کھولیں اور دیکھیں، دوسری جانب بھی علماء اورفقہاء ہی ہیں،مالکی ہوں، شافعی ہوں یاحنبلی ہوں،سبھی امام ابوحنیفہ کی فقاہت کے معترف ہیں، اسی ابن عبدالبر کی مذکورہ کتاب جس سے بحث شروع ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ ابن حنبل امام ابوحنیفہ کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے، وہ ان کا اپنامسئلہ ہے،بعینہ ویسے جیسے ابوعبید اور ابن معین امام شافعی کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے،وہ ان کا اپنامسئلہ تھا، کسی کے بھی ذاتی تاثر کو اہمیت حاصل نہیں ہے، اہمیت اس کو حاصل ہےجو دلیل پر پورااترے،میں پھر اسی بات کو دوہرائوں گاکہ غیرمقلدین دلیل کا نام رٹتے ضرور ہیں لیکن دلیل ان کے گلے سے نیچے نہیں اترتی،دوسروں کو تقلید کا طعنہ ضرور دیتے ہیں لیکن خود ہمہ تن تقلید میں غرق رہتے ہیں۔
امام احمد باوجودیکہ امام صاحب سے کبیدہ خاطر ہیں لیکن ابودائود علیہ الرحمہ جوشاید ان کے شاگردوں میں سب سےزیادہ عظیم المرتبت ہیں، وہ امام ابوحنیفہ کو شافعی اورمالک کی طرح امام مانتے ہیں،المغنی کے مصنف ابن قدامہ کی جلالت قدر سے کون ناواقف ہوگا،وہ اس میں امام ابوحنیفہ کا فقہاء کے درمیان اورفقیہ کی حیثیت سے ذکر کرتے ہیں توکیا ابن قدامہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ امام احمد کا موقف کیاہے؛لیکن چونکہ امام احمد کا یہ موقف دلیل سے عاری تھا،اس لئے ابن قدامہ اوربعد کے حنابلہ نے بھی اسے ترک کردیا۔
پوری دنیائے اسلام کے ننانوے فیصد فقہاء علماء اورمحدثین امام ابوحنیفہ کو فقیہ تسلیم کرتے ہیں اب اگر ایک فیصد بلکہ ایک فیصد سے بھی کم کچھ لوگ نہیں مانتے ہیں توان کا کیا اعتبار!ذہبی نے بہت صحیح کہاہے:
ولیس یصح فی الاذہان شی
اذااحتاج النہارالی دلیل
کیا نصف النہار میں بھی سورج کے طلوع پر دلیل کی ضرورت ہوگی اور جونصف النہار میں بھی سورج کے چمکنے پر دلیل طلب کرتے ہیں ان کو معلوم ہوناچاہئے
فھب لی قلت ھذا الصبح لیل
ایعمی العالمون عن الضیاء
ایسے گروہ شرذمہ قلیلہ کو نہ امت میں پہلے کوئی اعتبار حاصل تھا ،نہ اب ہے اورنہ انشاء اللہ مستقبل میں ہوگا۔
 
Top