تمام قارئین کو میری جانب سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
درمیان میں تھوڑا تعطل اس لئے ہوگیاکہ اسی درمیان عمرہ کا مبارک سفر ہوا، جس میں حرمین شریفین مین حاضری کی سعادت نصیب ہوئی،اب آتے ہیں پھر سے موضوع کی جانب ،
امام ابوداؤد فرماتے ہیں :
رَحِمَ اللَّهُ مَالِكًا كَانَ إِمَامًا رَحِمَ اللَّهُ الشَّافِعِيَّ كَانَ إِمَامًا رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ كَانَ إِمَامًا
اورابن داؤد کی مضحکہ خیز تاویل دیکھئے:
بات صرف اتنی ہے کہ اہل الرائے کی تکفیر نہیں کی جاتی، اور اہل الرائے کے کا شمار بھی مسلمین میں ہوتا ہے، اور ان کے امام بھی مسلمین کے ''امام'' شمار ہوتے ہیں! اور ان کے لئے ''رحمه الله'' کہا جاتا ہے!
اب اس پر کوئی سرکو پیٹے یاجگر کو روئے
مزید گلفشانی ملاحظہ ہو:
اگر کوئی اس بات پر مصر ہو کہ یہاں امام امالک اور امام شافعی اور امام ابو حنیفہ تینوں کے ساتھ ایک ہی الفاظ ادا کیئے ہیں، تو تینوں کی امامت بالکل ایک جیسی ہے، تو پھر امام ابو حنیفہ کو بھی امام مالک اور امام شافعی کی طرح فقہ اہل الحدیث کا امام قرار دینا پڑے گا، اور یہ خلاف حقیقت ہے، یا امام مالک اور امام شافعی کو بھی فقہ اہل الرائے کا امام قرار دینا پڑے گا، اور یہ بھی خلاف حقیقت ہے!
یہی ہے اہل حدیثانہ مغالطہ !
ہم کہہ رہے ہیں کہ ان حضرات کی طرح امام ابوحنیفہ بھی حدیث اورفقہ کے امام تھے اور ابن داؤد ہمیں باور کراناچاہ رہے ہیں کہ فقہ اہل الحدیث کےا مام تھے،ویسے ابن داؤد اوران کے قبیل کے لوگ جب امام شافعی اورامام مالک کو فقہ اہل الحدیث قراردیتے ہیں توپھر نہ جانے وہ اپناشمار کس گنتی میں کرتے ہیں؟اگرشوافع حنابلہ اورمالکیہ اہل حدیث ہیں تویہ پانچویں سوار کون ہیں اور اگریہ حضرات اہل حدیث نہیں ہیں ،جیساکہ پوری دنیا میں سلفیوں نے مسالک اربعہ کے خلاف محاذ کھول رکھاہے توپھریہاں پر اس دروغ بے فروغ کا منشاکیاہے?
دوسری بات یہ ہے کہ فقہ الحدیث سے مراد کیاہے، امام مالک کا شمار بہت سارے حضرات نے فقہاء اہل الرائے میں کیاہے؟فقہ کو شروع سے رائے سے تعبیر کیاگیاہے، اگرکبھی فرصت ملے توکچھ کتابیں بھی دیکھ لیاکریں، اسکین بازی سے ہٹ کر کچھ مطالعہ کیلئے بھی وقت نکال لیاکریں۔
ایک بنیادی سوال :
صرف ابن دائود سے نہیں بلکہ ان کے تمام ہم مسلک اورہم قبیلہ وقبیل کے لوگوں سے ،جس کا جواب باوجود متعدد بار سوال کے آج تک نہیں ملا کہ اہل الرائے اوراہل الحدیث میں بنیادی فرق کیاہے ،جس کی وجہ سے ایک فرد اہل الرائے کہلائے اور دوسرا اہل حدیث کہلائے،وہ کون سا جوہری اوراصل مابہ الامتیاز ہے جس کی وجہ سے ہم کسی کو اہل الرائے کے خانے میں رکھتے ہیں اورکسی کو اہل حدیث کے، اگر ابن داؤد اوران کے ہم مسلک حضرات کے پاس اس کاکوئی معقول جواب نہ ہو توآئندہ یہ بحث ہی نہ چھیڑیں کہ فلاں اہل الرائے اورفلاں اہل الحدیث ہے،کسی کا خود کا نام اہل الحدیث رکھ لینا اس کا ضامن نہیں کہ وہ واقعتا اہل حدیث بھی ہے، معتزلہ خود کو اہل العدل والتوحید کہاکرتے تھے ،لیکن کیاوہ موحد تھے؟خوارج کا نعرہ ان الحکم الاللہ کا ہواکرتاتھا،کیاوہ اپنے نعرہ میں سچے تھے؟اہل حدیث حضرات خودبھی ان مثالوں میں غورکریں ،ہوسکتاہے کہ کچھ سمجھ میں آجائے۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجاسراغ زندگی
تواگرمیرانہیں بنتانہ بن اپناتوبن
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔