السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اتباع کے بارے میں کچھ وضاحت طلب باتیں
اللہ خیر کرے! ہمارے طحاوی دوراں پر اب تک اتباع واضح نہیں!!
اہل حدیث حضرات اورائمہ اربعہ کی فقہی ارشادات پر عمل کرنے والوں کے درمیان ایک بڑااختلاف تقلید کابھی رہاہے۔
جمشید میاں!
دجل نا کن کہ فردا روز محشر
میان مومناں شرمندہ باشی
تقلید کا اختلاف اہل الحدیث اور ائمہ اربعہ کی فقہی ارشادات پر عمل کرنے والوں کے درمیان نہیں! بلکہ اہل السنت والجماعت اہل الحدیث اورمقلدین کے درمیان رہا ہے!!
اہل حدیث حضرت تقلید کو حرام سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں تقلید جائز نہیں ہے۔ اتباع کرناچاہئے۔
جمشید میاں! بلکل اہل السنت و الجماعت اہل الحدیث تقلید کو حرام سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں تقلید جائز نہیں ہے۔ اور اتباع کرنے کا حکم قرآن و حدیث میں ہے!!
سوال یہ ہے کہ
اتباع کی حدود کیاہیں۔
اتباع کی حدود؟ ارے میاں میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ آپ اپنے سوالات پر نظر ثانی کرلیں ، مگر آپ نے ہمارے مشورے پر التفات نہیں کیا!! ارے میاں آپ کا یہ سوال ناقص ہے۔ اتباع کی کوئی حد نہیں۔ اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے۔ اب کوئی ایسا عمل جو اتباع ہی نہ ہو تو وہ اتباع ہی نہیں۔ اور یاد رہے کہ ہم اصطلاح معنی میں اتباع پر گفتگو کر رہے ہیں!!!
اجتہاد اورتقلید کے درمیان اتباع کی کیاحیثیت ہے۔
ارے میاں! ایک بار پھر وہ ہی نصحیت آپ کے لئے جو اس سے قبل کی:
دجل نا کن کہ فردا روز محشر
میان مومناں شرمندہ باشی
آپ نے اتباع کو اجتہاد و تقلید کے درمیان کہاں لا کر کھڑا کر دیا؟ ارے میاں بات تو یہ ہے کہ اجتہاد کرنا اتباع کا ایک جز ہے ، یعنی اجتہاد اتباع میں شامل ہے۔یعنی کہ اتباع کے عموم میں اجتہاد بھی شامل ہے۔ جبکہ تقلید اتباع میں شامل نہیں، بلکہ تقلید اتباع کے منافی ہے!!!
اتباع کرنے کے مکلف کون لوگ ہیں۔
تمام انسان اتباع کے مکلف ہیں!! جبکہ مسلمان خود کو اتباع کا مکلف ہونا قبول کرتے ہیں اور غیر مسلم خود کو اتباع کا مکلف ہونا قبول نہیں کرتے!!!
اتباع اورتقلید میں جوہری فرق کیاہے۔یعنی
وہ کون سا جوہری فرق اوردائرہ ہے کہ اس کے پار جایاجائے تو وہ تقلید ہوجائے گی اوراس کے اندر رہاجائے تو وہ اتباع میں شمار ہوگا۔
اس کا جواب اس سے قبل بھی دے دیا گیا ہے، ہاں کہ تقلید اتباع کے منافی ہے!! اور وہ فرق یہ ہے کہ جب اللہ کے نازل کی ہوئی وحی کے منافی ہو جانے پر دلیل بھی سامنے آجائے پھر بھی اسی پر قائم رہے تو وہ تقلید ہو جاتی ہے!! اور جب اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹانے کی بجائے کسی امتی کی طرف لوٹایا جائے تو وہ تقلید ہو جائے گی!!
اگر اتباع کے بارے میں یہ کہاجائے کہ کسی مسئلہ کے ساتھ دلیل بھی بیان کی جائے
ارے میاں جمشید ایک بار پھر آپ کو وہی نصحیت!
دجل نا کن کہ فردا روز محشر
میان مومناں شرمندہ باشی
جمشید میاں! یہ " اگر " چہ معنی دارد! اگر یہ کہا جائے اگر وہ کہا جائے ! یہ فقہ حنفی نہیں کہ تخیلاتی کلام کر کے علم الکلام میں جھک ماری جائے!! لہذا اس اگر مگر کی بحث میں لوگوں کو الجھا کر قرآن و حدیث میں شبہات پیدا کرنے کو کوشش نہ کریں!!!
تو کیاجولوگ صرف کسی مفتی اورمجتہد سے پوچھ کر عمل کرلیتے ہیں دلیل طلب نہیں کرتے ان کا یہ فعل تقلیدمیں شمارکیاجائے گایااتباع میں؟
یہ مسئلہ ہی آپ کا اس " اگر" کی بنیاد پر ہے!! یہ آپ کا علم الکلام میں جھک مارنا ہے اور کچھ نہیں!! نہیں اہل السنۃ والجماعت اہل الحدیث مفتی اور مجتہد سے پوچھ کر عمل کر لینا اور دلیل کا طلب نہ کرنا تقلید نہیں!! ہاں مقلد مفتیان سے سوال کرنا ، جب کہ اس بات کا علم ہو کہ وہ مقلد ہے، اول تو یہ جائز ہی نہیں، اور ان مقلد مفتیان کے فتاوی پر عمل کرنا تقلید ہے!!!
مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ میں ہزاروں مثالیں ایسی ہیں کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام نے مسءلہ بیان کیاہے اس کی دلیل بیان نہیں کی ہے تواس پر عمل کرنا تقلید میں شمار ہوگا یااتباع ہوگا۔
صحابہ کرام کے ان فتاوی پر عمل کرنا تقلید شمار نہیں ہو گا۔
پھر کیاصرف دلیل کا سننا اوربیان کرنا کافی ہے یاسامنے والے کیلئے اس کا سمجھنابھی ضروری ہے؟
ہر ایک کی سمجھ کا درجہ مختلف ہوا کرتا ہے۔ جامع بات یہ ہے کہ جس مؤقف پر عمل کیا جائے اس کا قائل ہونا لازم ہے۔ اب انسان عمل وہ کرے جس کا خود قائل نہ ہو اور کسی کی تقلید میں کرے ، وہ بھی تقلید کی قبیل سے ہے!!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔