السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
آپ پہلے یہ کہہ دیں کہ آئمہ اربعہ کے پیروکاروں اورغیرمقلدین میں تقلید ایک بڑاوجہ اختلاف نہیں ہے۔
یہاں آپ نے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا ہے کہ ائمہ اربعہ کے پیروکار مقلد ہوا کرتے ہیں۔ یہ آپ کا دھوکہ ہے ، حقیقت نہیں!!
ہم امام مالک ، امام شافعی امام احمد بن حنبل کے بھی پیروکار ہیں مگر مقلد نہیں!!!!! ہاں جب اہل الحدیث کے تقابل میں استعمال ہو تو ان پیروکار سے مقلدین مراد ہوا کرتا ہے!!
اور اس جملہ میں ائمہ اربعہ کے پیروکار کو "غیر مقلدین" جو حقیقت میں اہل الحدیث اہل السنت والجماعت ہیں اور بدعتی مقلدین انہیں "غیر مقلد " کہا کرتے ہیں۔ (اور ہم جانتے ہیں کہ جمشید میاں بدعتی مقلد ہیں لہذا ہم سمجھ گئے ہیں کہ "غیر مقلد سے جمشید میاں کی مراد اہل الحدیث ہیں) کے تقابل میں ذکر کیا گیا ہے،
آپ کی اس بات سے مدرجہ بالا وضاحت کے ساتھ ہم متفق ہیں۔
دیکھیں جمشید میاں! آپ نے اب اپنی عبارت بھی تبدیل کر دی ہے۔
جزاک اللہ ! جمشید میاں! آپ نے اپنی پہلی عبارت کو غلط تسلیم کر لیا!!!
اس سے قبل آپ نے مندرجہ ذیل بات لکھی تھی:
اہل حدیث حضرات اورائمہ اربعہ کی فقہی ارشادات پر عمل کرنے والوں کے درمیان ایک بڑااختلاف تقلید کابھی رہاہے۔
اور یاد رہے دونوں عبارتوں میں معنی و مفہوم کافرق ہے!!! اب آگے آپ ایک بات ایک جملہ سے دوسری بات دوسرے جملہ سے لے کر" ''کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا'' " والا معاملہ نہیں کیجئے گا!!!!
اور اس کے جواب میں ہم نے آپ کو کہا تھا:
تقلید کا اختلاف اہل الحدیث اور ائمہ اربعہ کی فقہی ارشادات پر عمل کرنے والوں کے درمیان نہیں! بلکہ اہل السنت والجماعت اہل الحدیث اورمقلدین کے درمیان رہا ہے!!
اب ہم آپ کو مزید تفصیل بتلا دیتے ہیں۔ کہ ان ائمہ اربعہ میں جو معروف ہیں، تین تو خود اہل الحدیث ہیں، اور ان کے فقہی ارشادات پر عمل کرنے والے بھی اہل الحدیث ہیں۔ باقی رہے امام ابو حنیفہ تو وہ اہل الرائے کے امام تھے۔ اہل الرائے کے امام کے ارشادات پر عمل کرنے والوں سے بھی بڑا اختلاف تقلید کا نہیں!!!
تقلید کا اختلاف تو اہل الحدیث جن میں ائمہ ثلاثہ کے فقہی ارشادات پر عمل کرنے والے بھی شامل ہیں اور مقلدین کے درمیان ہے!!!!!
ہاں یانہ میں جواب دیں پھر آپ ہی کے علماء کی کتابوں کے حوالہ سے جواب دیاجائے گااورہوسکے
جمشید میاں! آپ کو تفصیلا بتلا دیا ہے ۔ آپ کا سوال ہی ناقص ہے اور ناقص سوال کا جواب ہاں یا نہ میں نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ سوال کا نقص واضح کیا جاتا ہے اور صحیح بات بتلائی جاتی ہے۔ اور اس کا جواب اوپر دیا جا چکا!
تورفیق طاہر کی طرح تک بندی بھی کرلیں گے احدکماکاذب
جمشید میاں! اب اگر آپ نے اس طرح کے جملہ لکھنے ہی ہیں تو آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ:
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
اس بار تو درگذر کر رہا ہوں، آئندہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
آج پہلی بار پتہ چلاکہ کوئی چیز ایسی بھی ہوتی ہے اللہ کی ذات کے سوا جس کی کوئی حدونہایت نہیں ہوتی۔
اللہ غارت کرے ان مشبہ کو کے جو اپنی قیاس آرائی اور عقل کے اٹکل پچھو لاگا کر ہمیشہ مخلوق اور خالق کو باہم قیاس کرنے لگ جاتے ہیں!!!!
اوراس غیرمقلدانہ علم سے بھرے جملے نے کیاکہئے کیسااثرکیاہے۔
یوں کہئے کہ ان خالق و مخلوق کو باہم قیاس کرنے والے مشبہ کو کیا کہئے!!!
ہم سرے سے اتباع کے حدود کے قائل ہی نہیں۔یعنی اتباع کی حدود بالکل لفظ ہندو کی طرح کسی حدود وقیود سے خارج ہے جیساکہ ڈاکٹر رادھاکرشنن نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ" ہروہ شخص ہندوہے جو خود کو ہندوکہتاہے"۔جورام کو مانتاہے وہ بھی ہندو، جورام کو نہیں مانتا وہ بھی ہندو، جو راون کو پوجتاہے وہ بھی ہندو، جوسرے سے بھگوانوں کونہیں مانتاوہ بھی ہندو اورجو مورتیوں کی پوجاکرتاہے وہ بھی ہندواورجومورتیوں کی پوجاکوغلط بتاتاہے وہ بھی ہندو۔ شاید کچھ یہی حال ابن داؤد کی اتباع کاہے جس کے کوئی حدود نہیں ۔
ارے میاں! یہ معاملہ دراصل ان لوگوں کا ہے کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا دعوی تو کرتے ہیں مگر اپنے امام اعظم ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں، اور اسے اتباع باور کروانے چاہتے ہیں۔ جبکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں! جیسے کہ ہندو کی مثال آپ نے دی ہے!!!! ہم نے یہ نہیں کہا کہ جو بھی کسی عمل و فکر کو اتباع کہہ دے وہ اتباع ہی ہے۔ اور وہی جملہ آپ کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے!!!
بخداایسااتباع پہلی مرتبہ دیکھنے سننے میں آیاہے۔
آپ نے اپنی زندگی اب تک مقلدین حنفیہ کے دروس میں برباد کی ہے، مقلدین حنفیہ کو کیا معلوم کہ اتباع کیا ہے!! آپ ہمارے درمیان رہیں ابھی آپ کو بہت کچھ سیکھنا ہے ان شاءاللہ!!
جب اتباع کی کوئی حدونہایت نہیں توہرچیز اتباع میں داخل ہے چاہے اس کاتعلق نواقض اسلام سے ہو، محرمات شرعیہ سے ہو،حدود وتعزیرات سے ہو کسی سے بھی ہو جب کوئی حدودنہایت ہی نہیں توکسی بھی چیز سے کیافرق پڑتاہے۔
جمشید میاں بلکل ! انسان کی زندگی میں آنے والے تمام معاملات میں اتباع لازم ہے اس کی زندگی کا کوئی پہلو اتباع قرآن و حدیث سے مبرا نہیں!! اور ہر معاملہ میں لازم ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی اتباع کرے۔ میاں جمشید ! آپ ہر عمل کو اتباع سمجھ رہے کو خواہ وہ قرآن و حدیث کے مواقف ہو یا نہ ہو!! میاں جی اعمال و افکار پرقید ہے کہ وہ اتباع میں داخل ہوں!!!
تعجب تویہ ہے کہ اسلام اورایمان کی حدودنہایت ہے لیکن حدونہایت نہیں ہے توصرف "اتباع"کیلئے۔ مزید تعجب ہے کہ سلفی جماعت کی ترجمانی کیلئے اب صرف ابن داؤد جیسے اشخاص باقی رہ گئے ہیں۔
جمشید میاں! کیا کہہ رہے ہو؟ انسان کو کب اسلام و ایمان کو ترک کرنے کی چٹھی حاصل ہے!!
جمشید میاں!
آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگرعرض کریں گے توشکائت ہوگی
آپ پہلے صاف سیدھے الفاظ میں اقرارکرلیں کہ اتباع کی کوئی حدونہایت نہیں ہوتی ۔ اورہوسکے تواس کو اپنی جماعت کابھی موقف قراردیں کیونکہ آپ کی جماعت کایہ وطیرہ عام ہے کہ جہاں کہیں پھنستی ہے توفوراکہہ دیتی ہے کہ ہم اسکو نہیں مانتے۔
ہم اس بات کو صراحتا بیان کر آئیں ہیں! اور حدود کے قائل آپ ہیں کہ اتباع کی حدود ہیں۔ تو آپ پہلے "البینة علی المدعي" مطابق دلیل پیش کریں کر دیں کہ انسان اتباع قرآن و حدیث سے آزاد ہو جایا کرتا ہے!!! اور پھر اس پر اتباع قرآن و حدیث لازم نہیں ہوا کرتی!! اور سوال آپ سے پہلے بھی کیا گیا ہے! جس سے آپ کنی کترا رہے ہیں اور ہندوں کی کتابوں کے بے محل حوالے پیش کرنا شروع کر دیئے ہیں!!! میاں جی دلیل پیش کریں!! یہی سوال پہلے ان الفاظ میں کیا گیا تھا:
یاد رہے کہ آپ نے سوال حدود کے تعین کے حوالے سے کیا ہے، اور ہم سرے سے اتباع کی حدود کے قائل ہی نہیں۔ اب پہلے تو آپ "البینة علی المدعي "کے مطابق اپنے اس مؤقف پر دلیل پیش کریں کہ اتباع کی حدود ہوتی ہیں۔ پھر ہم آپ کے دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
دکھیں جمشید میاں! ہم اہل سنت والجماعت ہیں، ہمارا منہج آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے مقلد نہیں دلیل کی بنیاد پر کسی کا قول قبول کرتے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر رد! اور یہ اہل الحدیث اہل السنت والجماعت کے حوالے سے " کہیں پھنستی" کا فتور تو آپ اپنے دماغ سے نکال ہی دیں !! کیونکہ پھنستی تو ہمیشہ مقلدین کی ہی ہے!!
اب کتنی بار دوہراؤں یہ "ہم ہم "کا قول کسی ایسے عالم کیلئے توزیباہےجس کے علم وعمل کے لوگ قائل ہوں لیکن جسے علم وعمل سے کوئی واسطہ نہ ہو اس کو چاہئے کہ ہم ہم کرنے کے بجائے علماء کے اقوال پیش کرے ۔ کیونکہ ہم ہم کرنے سے کوئی جاہل عالم نہیں بن جاتا۔
آپ کی علمی حدود اربعہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں کوئی ناواقف ہوتواسے اس طرح کے الفاظ سے دھوکہ دیجئے لہذا جولکھنا ہے حوالہ اوردلیل کے ساتھ لکھیں۔ اوراگرحوالہ اوردلیل کے ساتھ لکھنا مشکل ہورہاہو توکسی دوسرے کو موقع دیں شاید وہ بہتر وضاحت کرسکے۔
جمشید میاں! آپ ہمارے علمی حدود اربعہ کو رہنے دیں!! آپ اس کا جواب دیں جو آپ سے مطلوب ہے!! مجھے برا بھلا کہیں جتنا کوسنا چاہو سو کوس لیں مگر جواب سے فرار اختیار نہ کریں!! اس کا جواب ضرور دیں جمشید میاں!!
آپ تقلید کو اجتہاد اور اتباع کے درمیان مانتے ہو۔ جبکہ ہم اجتہاد کو اتباع میں شامل مانتے ہیں۔ اور تقلید کو اتباع کے منافی۔ اب آپ پہلے "البینة علی المدعي" کے مطابق اپنے اس مؤقف پر دلیل پیش کریں، پھر ہم آپ کے دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔