• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتباع کسے کہتے ہیں؟

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
محترم جمشید بھائی! آپ بات کو مسالک کی طرف لے گئے، کہ ہم مسلکوں کو کچھ نہیں کہا جاتا اور مخالفین کو تنبیہ کی جاتی ہے۔ شائد محدث فورم واحد ایسا فورم ہو، جس میں ہم مسلکوں کو بھی سخت تنبیہ کی جاتی ہے، اور ان کی غیر مناسب پوسٹس کو نامنظور کر دیا جاتا ہے، جس کی شکایات ہمیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ مجھے حوالہ دینے کی ضرورت نہیں، آپ خود انصاف کے ساتھ محدث فورم کا جائزہ لیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ مجھے نہیں علم کہ ابھی تک آپ کی کسی پوسٹ کو نا منظور کیا گیا ہو؟!
جہاں تک ابن داؤد بھائی کے متعلّق آپ نے رائے دی ہے، وہ آپ کی ذاتی رائے ہے، جس سے میں متفق نہیں۔ بہرحال اگر آپ کو شکایت ہے تو انہیں بھی اپنا انداز شائستہ بنانا چاہئے اور دوٹوک موضوع پر بات کرنی چاہئے۔
البتہ آپ مجھ سے اپنے طرزِ تکلّم پر خود ہی غور کر لیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں! آمین یا رب العٰلمین!
آپ نے پورامضمون ہی الٹاکردیاہے ۔ مجھے ابن دائود اوران کی قماش کے لوگوں سے کوئی مطلب نہیں ہے وہ جیسالہجہ چاہیں اختیار کریں۔ مجھے صرف اس شق پر اعتراض ہے کہ جب آپ دوسرے کو مدلل گفتگو کرنے کی تاکید کرتے ہیں توکیایہ تاکید صرف ایک جگہ کیلئے ہے یا پھر ہرجگہ کیلئے ہے۔
میں نے صرف اس کی گزارش کی تھی کہ جولوگ خواہ ابن دائود ہوں یادوسرے صرف اپنی ہانکتے چلے جاتے ہیں اور کسی حوالہ اور دلیل کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ان کوپابند کیاجائے کہ دلیل کے ساتھ گفتگو کریں اوریوں ہی "مستند ہے میرافرمایاہوا"کااظہار نہ کریں۔
اس سے غالبا آپ کوبھی اتفاق ہوگاکہ جوبات ہوحوالہ اوردلیل کے ساتھ ہو اوریوں ہی "ہانکنے" اورایسے لطیفوں
اتباع جب تک اتباع ہےوہ اتباع ہے
سے پرہیز کیاجائے۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اہل حدیث حضرات اورائمہ اربعہ کی فقہی ارشادات پر عمل کرنے والوں کے درمیان ایک بڑااختلاف تقلید کابھی رہاہے۔ اہل حدیث حضرت تقلید کو حرام سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں تقلید جائز نہیں ہے۔ اتباع کرناچاہئے۔
تقلید کا اختلاف اہل الحدیث اور ائمہ اربعہ کی فقہی ارشادات پر عمل کرنے والوں کے درمیان نہیں! بلکہ اہل السنت والجماعت اہل الحدیث اورمقلدین کے درمیان رہا ہے!!
یاد رہے یہ آپ کا سوال نہیں آپ کا قول ہے۔ ہم آپ کے اس قول سے متفق نہیں۔ اور ہم نے اپنا مؤقف بھی بیان کر دیا ہے۔ اب آپ "البینة علی المدعي" کے مطابق پہلے اپنے قول پر دلیل پیش کر دیں۔ اور پھر ہم آپ کی دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
اتباع کی حدود کیاہیں۔
اتباع کی کوئی حد نہیں۔ اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے۔ اب کوئی ایسا عمل جو اتباع ہی نہ ہو تو وہ اتباع ہی نہیں۔ اور یاد رہے کہ ہم اصطلاح معنی میں اتباع پر گفتگو کر رہے ہیں!!!
جب آپ کو یہ عبارت سمجھ نہ آئی تو مزید تفصیل بیان کر دی گئی:
تو میاں جی! مقلدین تقلید کو بھی اتباع باور کرانا چاہتے ہیں، لہذا ہر صورت میں جسے اتباع کہا جائے وہ اتباع نہیں ہوا کرتا بلکہ اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے!!!
ایک بات اور بیان کر دوں:
اتباع لغوی معنی میں شیطان کی پیروری کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ وہ اتباع اصطلاحی اتباع نہیں!!
یاد رہے کہ آپ نے سوال حدود کے تعین کے حوالے سے کیا ہے، اور ہم سرے سے اتباع کی حدود کے قائل ہی نہیں۔ اب پہلے تو آپ"البینة علی المدعي" کے مطابق اپنے اس مؤقف پر دلیل پیش کریں کہ اتباع کی حدود ہوتی ہیں۔ پھر ہم آپ کے دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
اجتہاد اورتقلید کے درمیان اتباع کی کیاحیثیت ہے۔
اجتہاد کرنا اتباع کا ایک جز ہے ، یعنی اجتہاد اتباع میں شامل ہے۔یعنی کہ اتباع کے عموم میں اجتہاد بھی شامل ہے۔ جبکہ تقلید اتباع میں شامل نہیں، بلکہ تقلید اتباع کے منافی ہے!!!
آپ تقلید کو اجتہاد اور اتباع کے درمیان مانتے ہو۔ جبکہ ہم اجتہاد کو اتباع میں شامل مانتے ہیں۔ اور تقلید کو اتباع کے منافی۔ اب آپ پہلے "البینة علی المدعي" کے مطابق اپنے اس مؤقف پر دلیل پیش کریں، پھر ہم آپ کے دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
اتباع کرنے کے مکلف کون لوگ ہیں۔
تمام انسان اتباع کے مکلف ہیں!! جبکہ مسلمان خود کو اتباع کا مکلف ہونا قبول کرتے ہیں اور غیر مسلم خود کو اتباع کا مکلف ہونا قبول نہیں کرتے!!!
یہ آپ کا خالص سوال ہے۔ اس میں آپ نے اپنا مؤقف بیان نہیں کیا! تو جناب اگر آپ کو ہمارے جواب پر دلیل درکار ہے۔ گو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ اسلام قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا تمام انسانوں کو لازم ہے۔ یعنی کہ قرآن و حدیث پر ایمان لانا تمام انسانوں کو لازم ہے، یعنی کہ قرآن و حدیث کی اتباع کرنا تمام انسانوں کو لازم ہے۔ لیکن علمی لحاظ سے دلیل کا مطالبہ درست ہے!
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (الأنعام 153)
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الأعراف3)

اتباع اورتقلید میں جوہری فرق کیاہے۔یعنی
وہ کون سا جوہری فرق اوردائرہ ہے کہ اس کے پار جایاجائے تو وہ تقلید ہوجائے گی اوراس کے اندر رہاجائے تو وہ اتباع میں شمار ہوگا۔
فرق یہ ہے کہ جب اللہ کے نازل کی ہوئی وحی کے منافی ہو جانے پر دلیل بھی سامنے آجائے پھر بھی اسی پر قائم رہے تو وہ تقلید ہو جاتی ہے!! اور جب اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹانے کی بجائے کسی امتی کی طرف لوٹایا جائے تو وہ تقلید ہو جائے گی!!
اگر اتباع کے بارے میں یہ کہاجائے کہ کسی مسئلہ کے ساتھ دلیل بھی بیان کی جائے تو کیاجولوگ صرف کسی مفتی اورمجتہد سے پوچھ کر عمل کرلیتے ہیں دلیل طلب نہیں کرتے ان کا یہ فعل تقلیدمیں شمارکیاجائے گایااتباع میں؟
یہ مسئلہ ہی آپ کا اس " اگر" کی بنیاد پر ہے!! یہ آپ کا علم الکلام میں جھک مارنا ہے اور کچھ نہیں!! نہیں اہل السنۃ والجماعت اہل الحدیث مفتی اور مجتہد سے پوچھ کر عمل کر لینا اور دلیل کا طلب نہ کرنا تقلید نہیں!! ہاں مقلد مفتیان سے سوال کرنا ، جب کہ اس بات کا علم ہو کہ وہ مقلد ہے، اول تو یہ جائز ہی نہیں، اور ان مقلد مفتیان کے فتاوی پر عمل کرنا تقلید ہے!!!
یہ اگر مگر کی بحث کو رہنے دیں۔ آپ کا مفروضہ ہی غلط ہے۔ آپ اپنے مفروضہ کے قائل ہیں تو پہلے "البینة علی المدعي" کے مطابق اپنے اس مؤقف پر دلیل پیش کریں، پھر ہم آپ کے دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ میں ہزاروں مثالیں ایسی ہیں کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام نے مسءلہ بیان کیاہے اس کی دلیل بیان نہیں کی ہے تواس پر عمل کرنا تقلید میں شمار ہوگا یااتباع ہوگا۔
صحابہ کرام کے ان فتاوی پر عمل کرنا تقلید شمار نہیں ہو گا۔
یہ معاملہ بھی آپ کے سابقہ مفروضہ سے متعلقہ ہے ، اس معاملہ کے حل ہونے پر یہ بھی ساتھ ہی حل ہو جائے گا!!
پھر کیاصرف دلیل کا سننا اوربیان کرنا کافی ہے یاسامنے والے کیلئے اس کا سمجھنابھی ضروری ہے؟
ہر ایک کی سمجھ کا درجہ مختلف ہوا کرتا ہے۔ جامع بات یہ ہے کہ جس مؤقف پر عمل کیا جائے اس کا قائل ہونا لازم ہے۔ اب انسان عمل وہ کرے جس کا خود قائل نہ ہو اور کسی کی تقلید میں کرے ، وہ بھی تقلید کی قبیل سے ہے!!
جب آپ کو یہ بات سمجھ نہ آئی تو مزید وضاحت کی گئی کہ:
دلائل کو سمجھنے میں ہر انسان کی فہم کا درجہ مختلف ہے۔ اب وہ کسی کے بیان کردہ دلائل کو کس حد تک سمجھا ہے، کوئی کم یا کوئی زیادہ، مگر جتنا بھی سمجھا ہو اس کا عمل اسے کے مطابق ہو کہ جو اس نے سمجھا ہے، یعنی کہ جس کا قائل ہے!!!!!!
اس کی ایک تفصیل اور بیان کر دیتے ہیں:
ہر شخص نے اپنی فہم کے درجہ کہ مطابق سمجھنا ہے۔ کوئی شخص اگر بلکل پاگل ہی ہو تو وہ تو عذر رکھتا ہے، وہ مکلف ہی نہیں ٹہرا!!
لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔

 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
میرے پچھلے مراسلہ میں 2 الفاظ پر نشان لگا ئے گئے ہیں ، شاید انتظامیہ ان الفاظ کو نا مناسب سمجھ رہی ہے۔ میں ان الفاظ کے معنی اور اور مفہوم بیان کر دیتا ہوں:
اس کے بہت سے معنی ہیں میں وہ معنی بیان کر دیتا ہوں جو یہاں ممکن ہو سکتے ہیں کیونکہ بعض تو عورتوں کے لئے خاص ہیں ۔میری مراد کو تو تذکرہ بھی نہیں کرتے!!
میاں
١:آقا، مالک، حاکم، سردار، بزرگ، والی وارث۔
2: کلمۂ محبت و شفقت برائے اطفال، صاحبزادے، ننھے، مُنا، پیارے، بیٹا، جانی؛ جیسے میاں آوے دوروں سے گھوڑے باندھ کھجوروں سے۔
3: صاحب، جناب کی جگہ؛ ایک کلمہ ہے جس سے برابر والوں یا اپنے سے کم مرتبہ شخص کو خطاب کرتے ہیں۔
4: شاعروں کے تخلص تعظیم کے لیے بڑھاتے ہیں؛ جیسے: میاں ناسخ، میاں مصحفی، میاں جرات، میاں عشق۔
5: ؎ فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے،
میاں جی: مکتب میں پڑھانے والا، استاد، مُعلّم، مُدرِّس، (عموماً) قرآن شریف پڑھانے والا، مُلا۔
"ادھر انہوں نے کوئی غلط لفظ پڑھا میاں نے ٹوکا"
ویسے نواز شرف کو بھی میاں جی کہا جاتا ہے۔ کسی کو میاں جی کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں!
جھک : بے ہودہ اور بے معنی گفتگو، واہی تباہی باتیں، بکواس، بک بک۔
اب ایک غلط مفروضہ پر علم الکلام کی بحث کی جائے تو اسے جھک نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟؟


ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


یاد رہے یہ آپ کا سوال نہیں آپ کا قول ہے۔ ہم آپ کے اس قول سے متفق نہیں۔ اور ہم نے اپنا مؤقف بھی بیان کر دیا ہے۔ اب آپ "البینة علی المدعي" کے مطابق پہلے اپنے قول پر دلیل پیش کر دیں۔ اور پھر ہم آپ کی دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
آپ پہلے یہ کہہ دیں کہ آئمہ اربعہ کے پیروکاروں اورغیرمقلدین میں تقلید ایک بڑاوجہ اختلاف نہیں ہے۔ہاں یانہ میں جواب دیں پھر آپ ہی کے علماء کی کتابوں کے حوالہ سے جواب دیاجائے گااورہوسکے تورفیق طاہر کی طرح تک بندی بھی کرلیں گے احدکماکاذب

یاد رہے کہ آپ نے سوال حدود کے تعین کے حوالے سے کیا ہے، اور ہم سرے سے اتباع کی حدود کے قائل ہی نہیں۔
آج پہلی بار پتہ چلاکہ کوئی چیز ایسی بھی ہوتی ہے اللہ کی ذات کے سوا جس کی کوئی حدونہایت نہیں ہوتی۔ اوراس غیرمقلدانہ علم سے بھرے جملے نے کیاکہئے کیسااثرکیاہے۔ ہم سرے سے اتباع کے حدود کے قائل ہی نہیں۔یعنی اتباع کی حدود بالکل لفظ ہندو کی طرح کسی حدود وقیود سے خارج ہے جیساکہ ڈاکٹر رادھاکرشنن نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ" ہروہ شخص ہندوہے جو خود کو ہندوکہتاہے"۔جورام کو مانتاہے وہ بھی ہندو، جورام کو نہیں مانتا وہ بھی ہندو، جو راون کو پوجتاہے وہ بھی ہندو، جوسرے سے بھگوانوں کونہیں مانتاوہ بھی ہندو اورجو مورتیوں کی پوجاکرتاہے وہ بھی ہندواورجومورتیوں کی پوجاکوغلط بتاتاہے وہ بھی ہندو۔ شاید کچھ یہی حال ابن داؤد کی اتباع کاہے جس کے کوئی حدود نہیں ۔ بخداایسااتباع پہلی مرتبہ دیکھنے سننے میں آیاہے۔
جب اتباع کی کوئی حدونہایت نہیں توہرچیز اتباع میں داخل ہے چاہے اس کاتعلق نواقض اسلام سے ہو، محرمات شرعیہ سے ہو،حدود وتعزیرات سے ہو کسی سے بھی ہو جب کوئی حدودنہایت ہی نہیں توکسی بھی چیز سے کیافرق پڑتاہے۔
تعجب تویہ ہے کہ اسلام اورایمان کی حدودنہایت ہے لیکن حدونہایت نہیں ہے توصرف "اتباع"کیلئے۔ مزید تعجب ہے کہ سلفی جماعت کی ترجمانی کیلئے اب صرف ابن داؤد جیسے اشخاص باقی رہ گئے ہیں۔

اب پہلے تو "[/ARB] کے مطابق اپنے اس مؤقف پر دلیل پیش کریں کہ اتباع کی حدود ہوتی ہیں۔ پھر ہم آپ کے دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
آپ پہلے صاف سیدھے الفاظ میں اقرارکرلیں کہ اتباع کی کوئی حدونہایت نہیں ہوتی ۔ اورہوسکے تواس کو اپنی جماعت کابھی موقف قراردیں کیونکہ آپ کی جماعت کایہ وطیرہ عام ہے کہ جہاں کہیں پھنستی ہے توفوراکہہ دیتی ہے کہ ہم اسکو نہیں مانتے۔

آپ تقلید کو اجتہاد اور اتباع کے درمیان مانتے ہو۔ جبکہ ہم اجتہاد کو اتباع میں شامل مانتے ہیں۔
اب کتنی بار دوہراؤں یہ "ہم ہم "کا قول کسی ایسے عالم کیلئے توزیباہےجس کے علم وعمل کے لوگ قائل ہوں لیکن جسے علم وعمل سے کوئی واسطہ نہ ہو اس کو چاہئے کہ ہم ہم کرنے کے بجائے علماء کے اقوال پیش کرے ۔ کیونکہ ہم ہم کرنے سے کوئی جاہل عالم نہیں بن جاتا۔
آپ کی علمی حدود اربعہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں کوئی ناواقف ہوتواسے اس طرح کے الفاظ سے دھوکہ دیجئے لہذا جولکھنا ہے حوالہ اوردلیل کے ساتھ لکھیں۔ اوراگرحوالہ اوردلیل کے ساتھ لکھنا مشکل ہورہاہو توکسی دوسرے کو موقع دیں شاید وہ بہتر وضاحت کرسکے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
آپ پہلے یہ کہہ دیں کہ آئمہ اربعہ کے پیروکاروں اورغیرمقلدین میں تقلید ایک بڑاوجہ اختلاف نہیں ہے۔
یہاں آپ نے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا ہے کہ ائمہ اربعہ کے پیروکار مقلد ہوا کرتے ہیں۔ یہ آپ کا دھوکہ ہے ، حقیقت نہیں!!
ہم امام مالک ، امام شافعی امام احمد بن حنبل کے بھی پیروکار ہیں مگر مقلد نہیں!!!!! ہاں جب اہل الحدیث کے تقابل میں استعمال ہو تو ان پیروکار سے مقلدین مراد ہوا کرتا ہے!!
اور اس جملہ میں ائمہ اربعہ کے پیروکار کو "غیر مقلدین" جو حقیقت میں اہل الحدیث اہل السنت والجماعت ہیں اور بدعتی مقلدین انہیں "غیر مقلد " کہا کرتے ہیں۔ (اور ہم جانتے ہیں کہ جمشید میاں بدعتی مقلد ہیں لہذا ہم سمجھ گئے ہیں کہ "غیر مقلد سے جمشید میاں کی مراد اہل الحدیث ہیں) کے تقابل میں ذکر کیا گیا ہے،
آپ کی اس بات سے مدرجہ بالا وضاحت کے ساتھ ہم متفق ہیں۔
دیکھیں جمشید میاں! آپ نے اب اپنی عبارت بھی تبدیل کر دی ہے۔
جزاک اللہ ! جمشید میاں! آپ نے اپنی پہلی عبارت کو غلط تسلیم کر لیا!!!
اس سے قبل آپ نے مندرجہ ذیل بات لکھی تھی:
اہل حدیث حضرات اورائمہ اربعہ کی فقہی ارشادات پر عمل کرنے والوں کے درمیان ایک بڑااختلاف تقلید کابھی رہاہے۔
اور یاد رہے دونوں عبارتوں میں معنی و مفہوم کافرق ہے!!! اب آگے آپ ایک بات ایک جملہ سے دوسری بات دوسرے جملہ سے لے کر" ''کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا'' " والا معاملہ نہیں کیجئے گا!!!!
اور اس کے جواب میں ہم نے آپ کو کہا تھا:
تقلید کا اختلاف اہل الحدیث اور ائمہ اربعہ کی فقہی ارشادات پر عمل کرنے والوں کے درمیان نہیں! بلکہ اہل السنت والجماعت اہل الحدیث اورمقلدین کے درمیان رہا ہے!!
اب ہم آپ کو مزید تفصیل بتلا دیتے ہیں۔ کہ ان ائمہ اربعہ میں جو معروف ہیں، تین تو خود اہل الحدیث ہیں، اور ان کے فقہی ارشادات پر عمل کرنے والے بھی اہل الحدیث ہیں۔ باقی رہے امام ابو حنیفہ تو وہ اہل الرائے کے امام تھے۔ اہل الرائے کے امام کے ارشادات پر عمل کرنے والوں سے بھی بڑا اختلاف تقلید کا نہیں!!!
تقلید کا اختلاف تو اہل الحدیث جن میں ائمہ ثلاثہ کے فقہی ارشادات پر عمل کرنے والے بھی شامل ہیں اور مقلدین کے درمیان ہے!!!!!
ہاں یانہ میں جواب دیں پھر آپ ہی کے علماء کی کتابوں کے حوالہ سے جواب دیاجائے گااورہوسکے
جمشید میاں! آپ کو تفصیلا بتلا دیا ہے ۔ آپ کا سوال ہی ناقص ہے اور ناقص سوال کا جواب ہاں یا نہ میں نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ سوال کا نقص واضح کیا جاتا ہے اور صحیح بات بتلائی جاتی ہے۔ اور اس کا جواب اوپر دیا جا چکا!
تورفیق طاہر کی طرح تک بندی بھی کرلیں گے احدکماکاذب
جمشید میاں! اب اگر آپ نے اس طرح کے جملہ لکھنے ہی ہیں تو آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ:
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے

اس بار تو درگذر کر رہا ہوں، آئندہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
آج پہلی بار پتہ چلاکہ کوئی چیز ایسی بھی ہوتی ہے اللہ کی ذات کے سوا جس کی کوئی حدونہایت نہیں ہوتی۔
اللہ غارت کرے ان مشبہ کو کے جو اپنی قیاس آرائی اور عقل کے اٹکل پچھو لاگا کر ہمیشہ مخلوق اور خالق کو باہم قیاس کرنے لگ جاتے ہیں!!!!
اوراس غیرمقلدانہ علم سے بھرے جملے نے کیاکہئے کیسااثرکیاہے۔
یوں کہئے کہ ان خالق و مخلوق کو باہم قیاس کرنے والے مشبہ کو کیا کہئے!!!
ہم سرے سے اتباع کے حدود کے قائل ہی نہیں۔یعنی اتباع کی حدود بالکل لفظ ہندو کی طرح کسی حدود وقیود سے خارج ہے جیساکہ ڈاکٹر رادھاکرشنن نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ" ہروہ شخص ہندوہے جو خود کو ہندوکہتاہے"۔جورام کو مانتاہے وہ بھی ہندو، جورام کو نہیں مانتا وہ بھی ہندو، جو راون کو پوجتاہے وہ بھی ہندو، جوسرے سے بھگوانوں کونہیں مانتاوہ بھی ہندو اورجو مورتیوں کی پوجاکرتاہے وہ بھی ہندواورجومورتیوں کی پوجاکوغلط بتاتاہے وہ بھی ہندو۔ شاید کچھ یہی حال ابن داؤد کی اتباع کاہے جس کے کوئی حدود نہیں ۔
ارے میاں! یہ معاملہ دراصل ان لوگوں کا ہے کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا دعوی تو کرتے ہیں مگر اپنے امام اعظم ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں، اور اسے اتباع باور کروانے چاہتے ہیں۔ جبکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں! جیسے کہ ہندو کی مثال آپ نے دی ہے!!!! ہم نے یہ نہیں کہا کہ جو بھی کسی عمل و فکر کو اتباع کہہ دے وہ اتباع ہی ہے۔ اور وہی جملہ آپ کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے!!!
بخداایسااتباع پہلی مرتبہ دیکھنے سننے میں آیاہے۔
آپ نے اپنی زندگی اب تک مقلدین حنفیہ کے دروس میں برباد کی ہے، مقلدین حنفیہ کو کیا معلوم کہ اتباع کیا ہے!! آپ ہمارے درمیان رہیں ابھی آپ کو بہت کچھ سیکھنا ہے ان شاءاللہ!!
جب اتباع کی کوئی حدونہایت نہیں توہرچیز اتباع میں داخل ہے چاہے اس کاتعلق نواقض اسلام سے ہو، محرمات شرعیہ سے ہو،حدود وتعزیرات سے ہو کسی سے بھی ہو جب کوئی حدودنہایت ہی نہیں توکسی بھی چیز سے کیافرق پڑتاہے۔
جمشید میاں بلکل ! انسان کی زندگی میں آنے والے تمام معاملات میں اتباع لازم ہے اس کی زندگی کا کوئی پہلو اتباع قرآن و حدیث سے مبرا نہیں!! اور ہر معاملہ میں لازم ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی اتباع کرے۔ میاں جمشید ! آپ ہر عمل کو اتباع سمجھ رہے کو خواہ وہ قرآن و حدیث کے مواقف ہو یا نہ ہو!! میاں جی اعمال و افکار پرقید ہے کہ وہ اتباع میں داخل ہوں!!!
تعجب تویہ ہے کہ اسلام اورایمان کی حدودنہایت ہے لیکن حدونہایت نہیں ہے توصرف "اتباع"کیلئے۔ مزید تعجب ہے کہ سلفی جماعت کی ترجمانی کیلئے اب صرف ابن داؤد جیسے اشخاص باقی رہ گئے ہیں۔
جمشید میاں! کیا کہہ رہے ہو؟ انسان کو کب اسلام و ایمان کو ترک کرنے کی چٹھی حاصل ہے!!
جمشید میاں!
آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگرعرض کریں گے توشکائت ہوگی

آپ پہلے صاف سیدھے الفاظ میں اقرارکرلیں کہ اتباع کی کوئی حدونہایت نہیں ہوتی ۔ اورہوسکے تواس کو اپنی جماعت کابھی موقف قراردیں کیونکہ آپ کی جماعت کایہ وطیرہ عام ہے کہ جہاں کہیں پھنستی ہے توفوراکہہ دیتی ہے کہ ہم اسکو نہیں مانتے۔
ہم اس بات کو صراحتا بیان کر آئیں ہیں! اور حدود کے قائل آپ ہیں کہ اتباع کی حدود ہیں۔ تو آپ پہلے "البینة علی المدعي" مطابق دلیل پیش کریں کر دیں کہ انسان اتباع قرآن و حدیث سے آزاد ہو جایا کرتا ہے!!! اور پھر اس پر اتباع قرآن و حدیث لازم نہیں ہوا کرتی!! اور سوال آپ سے پہلے بھی کیا گیا ہے! جس سے آپ کنی کترا رہے ہیں اور ہندوں کی کتابوں کے بے محل حوالے پیش کرنا شروع کر دیئے ہیں!!! میاں جی دلیل پیش کریں!! یہی سوال پہلے ان الفاظ میں کیا گیا تھا:
یاد رہے کہ آپ نے سوال حدود کے تعین کے حوالے سے کیا ہے، اور ہم سرے سے اتباع کی حدود کے قائل ہی نہیں۔ اب پہلے تو آپ "البینة علی المدعي "کے مطابق اپنے اس مؤقف پر دلیل پیش کریں کہ اتباع کی حدود ہوتی ہیں۔ پھر ہم آپ کے دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
دکھیں جمشید میاں! ہم اہل سنت والجماعت ہیں، ہمارا منہج آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے مقلد نہیں دلیل کی بنیاد پر کسی کا قول قبول کرتے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر رد! اور یہ اہل الحدیث اہل السنت والجماعت کے حوالے سے " کہیں پھنستی" کا فتور تو آپ اپنے دماغ سے نکال ہی دیں !! کیونکہ پھنستی تو ہمیشہ مقلدین کی ہی ہے!!
اب کتنی بار دوہراؤں یہ "ہم ہم "کا قول کسی ایسے عالم کیلئے توزیباہےجس کے علم وعمل کے لوگ قائل ہوں لیکن جسے علم وعمل سے کوئی واسطہ نہ ہو اس کو چاہئے کہ ہم ہم کرنے کے بجائے علماء کے اقوال پیش کرے ۔ کیونکہ ہم ہم کرنے سے کوئی جاہل عالم نہیں بن جاتا۔
آپ کی علمی حدود اربعہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں کوئی ناواقف ہوتواسے اس طرح کے الفاظ سے دھوکہ دیجئے لہذا جولکھنا ہے حوالہ اوردلیل کے ساتھ لکھیں۔ اوراگرحوالہ اوردلیل کے ساتھ لکھنا مشکل ہورہاہو توکسی دوسرے کو موقع دیں شاید وہ بہتر وضاحت کرسکے۔
جمشید میاں! آپ ہمارے علمی حدود اربعہ کو رہنے دیں!! آپ اس کا جواب دیں جو آپ سے مطلوب ہے!! مجھے برا بھلا کہیں جتنا کوسنا چاہو سو کوس لیں مگر جواب سے فرار اختیار نہ کریں!! اس کا جواب ضرور دیں جمشید میاں!!
آپ تقلید کو اجتہاد اور اتباع کے درمیان مانتے ہو۔ جبکہ ہم اجتہاد کو اتباع میں شامل مانتے ہیں۔ اور تقلید کو اتباع کے منافی۔ اب آپ پہلے "البینة علی المدعي" کے مطابق اپنے اس مؤقف پر دلیل پیش کریں، پھر ہم آپ کے دلیل کا بطلان اور ہمارے جواب کے اثبات پر دلیل پیش کرتے ہیں۔
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس تھریڈ کا مقصد اہل حدیث حضرات کے اس دعوی کو سمجھنے کی کوشش تھی کہ وہ اتباع کرتے ہیں اورتقلید نہیں کرتے ۔ابن دائود کی لایعنی بحثوں سے تھریڈ کا مقصد تقریباختم ہورہاہے اورمزید بحث جاری رکھی گئی تو ایسے لطیفے مزید سامنے آتے رہیں گے کہ
اتباع اتباع ہے جب تک کہ وہ اتباع ہے۔
لہذا اگرکسی دوسرے بالخصوص انس نضر صاحب کے پاس ان سوالات کے کچھ معقول جوابات ہوں توپیش کریں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
اس تھریڈ کا مقصد اہل حدیث حضرات کے اس دعوی کو سمجھنے کی کوشش تھی کہ وہ اتباع کرتے ہیں اورتقلید نہیں کرتے ۔ابن دائود کی لایعنی بحثوں سے تھریڈ کا مقصد تقریباختم ہورہاہے اورمزید بحث جاری رکھی گئی تو ایسے لطیفے مزید سامنے آتے رہیں گے کہ
اتباع اتباع ہے جب تک کہ وہ اتباع ہے۔
لہذا اگرکسی دوسرے بالخصوص انس نضر صاحب کے پاس ان سوالات کے کچھ معقول جوابات ہوں توپیش کریں۔
السلام عليكم و رحمة الله وبركاته !
جمشید بھائی !
میں آپ کے سوالات کے جوابات دینا چاہتا ہوں ۔ لیکن اس سے پہلے آپ سے سوال کا جواب لکھنےکا طریقہ سمجھناچاہتا ہوں تاکہ آپ کے سوالات کے معقول جوابات دے سکوں ۔ اور اس کے لیے میرے ذہن میں آسان طریقہ تو یہی ہے کہ آپ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھیں تاکہ میں آپ کی تحریر سے آپ کا منہج سمجھ کر آپ کے سوالات کا جواب لکھ سکوں ۔ امید ہے آپ اس سے اتفاق فرمائیں گے ۔
سوالات یہ ہیں :
سوال نمبر ١۔ تقلید کی حدود کیا ہیں ؟
سوال نمبر ٢۔ اجتہاد و اتباع کے ساتھ تقلید کی کیا حیثیت ہے ؟
سوال نمبر ٣۔ تقلید کرنے کے مکلف کون لوگ ہیں ؟
سوال نمبر ٤۔ اتباع اور تقلید میں فرق کیا ہے ؟

اگر سوال نمبر ٤ کا جواب نہ دینا چاہیں تو مقلد ہونے کی حیثیت سے تقلید کی لغوی و شرعی تعریف بیان کرکے اس کا حکم متعین کردیں ۔۔ میں متبع ہونے کی حیثیت سے اتباع کے بارے میں یہی چیزیں بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔ فرق خود بخود واضح ہو جائے گا ۔ ان شاء ال

اللہ تعالی دلوں کے بھید جانتا ہے میرا مقصد اس سے افہام و تفہیم ہے ۔ اور سوالات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھ سے پہلے جو جوابات لکھے گئے ہیں ان کے بارے میں جمشید بھائی کا خیال یہ ہے کہ ان میں ان کے سوالات کے جوابات موجود نہیں ہیں اور لکھنے والوں کو جواب لکھنا نہیں آتا وغیرہ ۔۔۔۔
میں نے سوچا کہ پہلے جمشید بھائی سے اسی طرح کے سوالات کرلیتے ہیں تاکہ پتہ چل جائے کہ وہ کیسے جوابات چاہتےہیں تاکہ کوشش عبث نہ ہو ۔
اور اگر میرا یہ طریقہ نہ مناسب ہو تو جمشید بتادیں پھر کوئی او صورت نکالنےکی کوشش کریں گے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اللہ تعالی دلوں کے بھید جانتا ہے میرا مقصد اس سے افہام و تفہیم ہے ۔
پہلے ان جملوں سے متاثر ہواکرتاتھا لیکن اب اس طرح جملے روح اورسچائی کے جذبہ سے عاری محسوس ہوتے ہیں۔بہرحال حسن ظن رکھتے ہوئے کہ واقعتاآپ نے افہام وتفہیم کی غرض سے یہ سلسلہ شروع کیاہے۔آپ بتاناپسند کریں گے کہ آپ نے اس سے قبل کتنے سوالات کے جوابات میں یہ طرز اپنایاہے۔
پھرکیایہ ضروری ہے کہ میرے سوال کے جواب پر آپ کا جواب موقوف ہو۔
مان لیجئے کہ میرے سوالات کے جوابات غلط ہیں توکیاآپ بھی غلط جوابات دیں گے؟
ویسے تقلید کے تعلق سے سوالات کے جوابات میں اردومجلس پر بہت پہلے ہی دے چکاہوں۔اور اس وقت میں نے کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیاتھاکہ آپ اتباع کے بارے میں پہلے میرے سوالات کے جوابات دے دیں پھرمیں آپ کے سوالات کے جوابات دوں گا۔
کیوں کہ یہ کوئی علمی طرز نہیں بلکہ مناظرہ کا طرز ہے۔سناہے کچھ مدارس میں توسکھایاہی یہ جاتاہے فریق کے کسی سوال کاجواب مت دو بلکہ ہمیشہ اس کو سوال کی پوزیشن میں لائو۔اوراگرکبھی جواب دینے کی نوبت آئے تواس سے چند سوال نماجواب دے دو۔
میراخیال ہے کہ برصغیر کاکوئی طالب علم یاجس طرح ابن دائود کرتے ہیں وہ توکسی حد تک سمجھ میں آتاہے لیکن الجامعۃ الاسلامیہ کا طالب بھی وہی مناظرانہ روش اپنائے توسوائے اس کے اورکیاسوچاجاسکتاہے کہ موصوف تاحال گرفتارعہدقدیم ہیں اوراس سے پیچھانہیں چھڑاسکے ہیں۔
آپ خود سنجیدگی سے غورکریں گے توپتہ چلے گاکہ یہ طرز افہام وتفہیم کیلئے قطعانامناسب نہیں ہے۔بلکہ نامانوس بھی ہے۔فورم پر بھی خود کتنے سوالات کے جواب دیئے جاتے ہیں اورآج تک فورم پر میں نے نہیں دیکھاکہ کسی نے آپ جیساسوال کیاہووالسلام۔
ویسے آپ کو تقلید پر سوالات کرنے ہیں تواس اتباع کے تھریڈ کے ختم ہونے کے بعد ضرور سوال کریں ۔ہم انشاء اللہ قطعانہیں کہیں گے کہ فلاں سوال کا جواب دے دو پھر ہم جواب دے دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اس طرح کی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
پہلے ان جملوں سے متاثر ہواکرتاتھا لیکن اب اس طرح جملے روح اورسچائی کے جذبہ سے عاری محسوس ہوتے ہیں۔بہرحال حسن ظن رکھتے ہوئے کہ واقعتاآپ نے افہام وتفہیم کی غرض سے یہ سلسلہ شروع کیاہے۔آپ بتاناپسند کریں گے کہ آپ نے اس سے قبل کتنے سوالات کے جوابات میں یہ طرز اپنایاہے۔
پھرکیایہ ضروری ہے کہ میرے سوال کے جواب پر آپ کا جواب موقوف ہو۔
مان لیجئے کہ میرے سوالات کے جوابات غلط ہیں توکیاآپ بھی غلط جوابات دیں گے؟
ویسے تقلید کے تعلق سے سوالات کے جوابات میں اردومجلس پر بہت پہلے ہی دے چکاہوں۔اور اس وقت میں نے کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیاتھاکہ آپ اتباع کے بارے میں پہلے میرے سوالات کے جوابات دے دیں پھرمیں آپ کے سوالات کے جوابات دوں گا۔
کیوں کہ یہ کوئی علمی طرز نہیں بلکہ مناظرہ کا طرز ہے۔ سناہے کچھ مدارس میں توسکھایاہی یہ جاتاہے فریق کے کسی سوال کاجواب مت دو بلکہ ہمیشہ اس کو سوال کی پوزیشن میں لائو۔اوراگرکبھی جواب دینے کی نوبت آئے تواس سے چند سوال نماجواب دے دو۔
میراخیال ہے کہ برصغیر کاکوئی طالب علم یاجس طرح ابن دائود کرتے ہیں وہ توکسی حد تک سمجھ میں آتاہے لیکن الجامعۃ الاسلامیہ کا طالب بھی وہی مناظرانہ روش اپنائے توسوائے اس کے اورکیاسوچاجاسکتاہے کہ موصوف تاحال گرفتارعہدقدیم ہیں اوراس سے پیچھانہیں چھڑاسکے ہیں۔
آپ خود سنجیدگی سے غورکریں گے توپتہ چلے گاکہ یہ طرز افہام وتفہیم کیلئے قطعانامناسب نہیں ہے۔بلکہ نامانوس بھی ہے۔فورم پر بھی خود کتنے سوالات کے جواب دیئے جاتے ہیں اورآج تک فورم پر میں نے نہیں دیکھاکہ کسی نے آپ جیساسوال کیاہووالسلام۔
ویسے آپ کو تقلید پر سوالات کرنے ہیں تواس اتباع کے تھریڈ کے ختم ہونے کے بعد ضرور سوال کریں ۔ہم انشاء اللہ قطعانہیں کہیں گے کہ فلاں سوال کا جواب دے دو پھر ہم جواب دے دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اس طرح کی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔
جمشید بھائی لگتا ہے برا منا گئے ہیں حتی کہ سلام کا جواب تک دینا بھی بھول گئے ہیں ۔
بھائی میں آپ سے معذرت کرلیتا ہوں کہ افہام و تفہیم کا ایسا طریقہ اختیار کیا جو آپ کے نزدیک
کوئی علمی طرز نہیں بلکہ مناظرہ کا طرز ہے۔
یہ طرز افہام وتفہیم کیلئے قطعانامناسب ہی نہیں ہے۔بلکہ نامانوس بھی ہے
سوچا تو یہی تھا کہ آپ کی مشارکت پر جزاکم اللہ کہہ دیا ہے اتنا کافی ہے لیکن بعد میں سوچا کہ کچھ نہ کچھ لکھ دینا چاہیے ۔
آپ نے فرمایا :
ویسے تقلید کے تعلق سے سوالات کے جوابات میں اردومجلس پر بہت پہلے ہی دے چکاہوں۔
تو گزارش ہے کہ آپ نے جوابات تو پہلےہی دے دیےہیں ان کو ذرا یہأں نقل ہی کرنا آپ نےکون سا از سر نو لکھنا ہے یہاں نقل کردیں تاکہ جن باتوں سے ہم آج تک محروم رہے ہیں استفادہ کر سکیں ۔
اور آپ نےجو یہ کہا کہ :
سناہے کچھ مدارس میں توسکھایاہی یہ جاتاہے فریق کے کسی سوال کاجواب مت دو بلکہ ہمیشہ اس کو سوال کی پوزیشن میں لائو۔اوراگرکبھی جواب دینے کی نوبت آئے تواس سے چند سوال نماجواب دے دو۔
تو یہ صاحب کس مدرسے سے پڑہے ہوئے ہیں جن کا ارشاد نقل کرتے ہوئے آپ نے ان کی پیروی بھی کی ہے ملاحظہ فرمائیں :

اسی طرح آپ نے لکھا :
آپ بتاناپسند کریں گے کہ آپ نے اس سے قبل کتنے سوالات کے جوابات میں یہ طرز اپنایاہے۔
تو عرض ہے کہ نہ اس طرح کی صورت حال پیش آئی نہ میں نے اس طرح کا طرز اپنایا ۔ اور اس کی وضاحت میں نے پہلے بھی کردی تھی کہ :
اور سوالات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھ سے پہلے جو جوابات لکھے گئے ہیں ان کے بارے میں جمشید بھائی کا خیال یہ ہے کہ ان میں ان کے سوالات کے جوابات موجود نہیں ہیں اور لکھنے والوں کو جواب لکھنا نہیں آتا وغیرہ ۔۔۔۔
میں نے سوچا کہ پہلے جمشید بھائی سے اسی طرح کے سوالات کرلیتے ہیں تاکہ پتہ چل جائے کہ وہ کیسے جوابات چاہتےہیں تاکہ کوشش عبث نہ ہو ۔
اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ :
میں آپ کے سوالات کے جوابات دینا چاہتا ہوں ۔ لیکن اس سے پہلے آپ سے سوال کا جواب لکھنےکا طریقہ سمجھناچاہتا ہوں تاکہ آپ کے سوالات کے معقول جوابات دے سکوں ۔ اور اس کے لیے میرے ذہن میں آسان طریقہ تو یہی ہے کہ آپ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھیں تاکہ میں آپ کی تحریر سے آپ کا منہج سمجھ کر آپ کے سوالات کا جواب لکھ سکوں ۔
میرے خیال سے بات بالکل واضح ہے ۔
اسی طرح آپ نے لکھا ہے کہ :
ویسے آپ کو تقلید پر سوالات کرنے ہیں تواس اتباع کے تھریڈ کے ختم ہونے کے بعد ضرور سوال کریں ۔ہم انشاء اللہ قطعانہیں کہیں گے کہ فلاں سوال کا جواب دے دو پھر ہم جواب دے دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اس طرح کی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔
اس بات کی حقیقت کیا ہے یہ آپ کے اس اقتباس سے واضح ہے:
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
پوری بات نقل کریں۔
یادش بخیر!
مولانااشرف علی تھانوی سے کسی نے کسی شرعی مسئلہ کی حکمت کے بارے میں دریافت کیا۔مولانانے جواب نماسوال کیاکہ آپ اس کے اس حکمت پوچھنے میں کیاحکمت ہے؟وہ محترم خاموش ہوگئے۔
آپ نے بھی بالکل اسی صنیع اورطرز میں پوچھاہے کہ

ویسے آپ کی اس انوکھی ترتیب کے بارے میں إنما شفاء العی السؤال کے تحت آپ سے ہی پوچھ لیتے ہیں یہ کس کتاب سے اخذ کی گئی ہے ؟
اس کے جواب میں ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح سے سوال کرنے کے بارے میں آپ نے کس کتاب میں پڑھاہے۔انسان کو سوال کرتے وقت سنجیدگی برتنی چاہئے۔
آپ کلمہ پڑھتے ہیں وہ اسی ترتیب سے شروع ہوتاہے ۔ لاالہ کوئی معبود نہیں الااللہ سوائے اللہ کے۔ نفی پہلے ہے۔ اثبات بعد میں ہے۔ اس کے علاوہ غوروفکر سے کام لیں گے توڈھیروں دلیلیں مل جائیں گی۔
ویسے کسی موضوع کوبذات خود شروع کرنا اورکسی دوسرے پر رد کرنا۔دونوں میں فرق ہے۔
پہلے موضوع میں انسان پہلے اپنی بات کہتاہے اوردلائل ذکر کرتاہے جب کہ کسی نقد اورتبصرہ میں پہلے جس پرنقد کیاجارہاہےاس کے خیالات اوردلائل ذکرکئے جاتے ہیں اس کے بعد اپنی بات رکھی جاتی ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔
اوخود غورکریں کہ دونوں میں کیافرق ہے۔
آپ کے سوال کا پوراجواب دیاگیاہے صرف یہ بتایاگیاہے کہ وہ مولانا اشرف علی تھانوی کے سوال کے جیساہی آپ کابھی سوال ہے۔اورمولانا اشرف علی تھانوی نے یہ سوال ایسے شخص سے کیاتھا جو بار بار شرعی مسائل کی حکمت کے تعلق سے پوچھنے کا عادی تھا جو ظاہرسی بات ہے کہ غلط بات ہے۔
 
Top