السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
جمشید بھائی کی طرف سے کچھ سوالات اٹھائے گئے تھے جن کےجوابات حسب استطاعت قرآن وسنت کے مطابق لکھنے کی کوشش کی ۔ لیکن اس میں انہیں کچھ باتیں محل نظر محسوس ہوئیں تو اس حوالے سے کچھ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
جمشید بھائی لکھتے ہیں :
جس طرح آنجناب نے تقلید کی تعریف مختلف علمائے اصول کی کتابوں سے نقل کی ہے قاضی شوکانی اورعلامہ ابن ہمام۔ویسے ہی اتباع کی تعریف بھی نقل کریں محض اپنے وجدانی اورذوقی استنباطات سے ہمیں محظوظ نہ کریں۔
بھائی آپ نے شاید غور سے پڑھا نہیں ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں ہم اتباع کی تعریف باحوالہ پیش کی تھی :
دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی پیروی کرنا ۔
تفصیل کے لیے شوکانی کی القول المفید ( طبعۃ دار القلم ، الکویت ) ص 37 ملاحظہ فرمائیں ۔
شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب کا حوالہ اسی لیے دیا تھا ۔ آپ نے سمجھا کہ شاید یہ حوالہ تقلید کی تعریف کے سلسلے میں ہے ۔ ویسے قرآن کی آیت
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء
پر ہی غو ر کر لیا جائے تو اتباع اور تقلید دونوں کی تعریف اور حدود و قیود سمجھ میں آ جاتی ہیں ۔
آپ نے جو یہ لکھا کہ :
جس طرح آنجناب نے تقلید کی تعریف مختلف علمائے اصول کی کتابوں سے نقل کی ہے قاضی شوکانی اورعلامہ ابن ہمام۔
اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے عبارت کو غور سے نہیں پڑھا ۔ کیونکہ تقلید کی تعریف صرف ابن ہمام کے حوالے سے نقل کی گئی تھی ۔
مزید آپ نے فرمایا :
ان سارے احتمالات کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ مجھ سے پوچھ لیاہوتاتو واضح کردیتاہے کہ اتباع کی حدود وقیود سے مراد اتباع کی اصطلاحی تعریف تھی جس کی رو سے مجتہد اورمقلد سے امتیاز ہوسکے۔
بھائی آپ سے پوچھا تو تھا لیکن آپ برا مان گئے تھے ۔۔ ورنہ میرا سوال کرنے کامقصد تو یہی تھا تاکہ کھل کر آپ کی بات سامنے آجائے ۔۔ خیر جو ہوگیا سو ہوگیا ۔ ۔
مزید آپ نے لکھا :
ان سب میں ایک عام آدمی تو مجتہد کے ذریعہ استنباط کئے گئے حکم کی پیروی کرتاہے ۔بقول آپ کے وہ شخص جو عامی ہے اورتقلید نہیں کرتا اورقرآن وحدیث سے استنباط کی صلاحیت سے بھی عاری ہے وہ کیاکرے گا۔ اگراجتہاد کرے گا تو گنہ گار اورفاسق وفاجر ہوگا۔
یہاں آپ نے کہا کہ عامی شخص کے لیے کیا حکم ہے جو قرآن وسنت سے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کاجواب قرآن مجید میں موجود ہے کہ :
فاسئلوا أهل الذکر إن کنتم لا تعلمون
اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو
جو لوگ قرآن وسنت سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں عام لوگ ان سے مسائل پوچھ لیں گے ۔ اور یہ بات تو بالکل واضح ہے اہل علم میں شمار اسی کا ہوگا جو قرآن وسنت کے دلائل جانتا ہے اور لوگوں کو اسی کے مطابق مسائل بتاتا ہے ۔ یہاں سے تقلید ثابت نہیں ہوتی ۔ کیونکہ تقلید ہے :
ایسا شخص جس کا قول حجج (شرعیہ) میں سے نہیں ہے اس کے قول کے مطابق بلا دلیل عمل کرنا ۔
جیساکہ پہلے گزرا ۔ تو تقلید کی تعریف سے یہ بات ثابت ہے کہ مقلَد کا قول حجت شرعیہ میں سے نہیں ہے ـ اور جو چیز حجت شرعی نہیں ہے قرآن وسنت میں اس کی پیروی کاحکم بھی نہیں ہے
تو ثابت یہ ہوا کہ یہأں سے اہل علم وہی مراد ہیں جو قرآن وسنت کے مطابق مسئلہ بتاتےہیں ۔
جمشید بھائی مزید لکھتے ہیں :
دوسری شکل یہ ہے کہ دلائل پر غورکرے گااوردلیل کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔لیکن یہ چیز متبحر علماء کے ساتھ خاص ہے۔جب کہ ہماری بحث ایسے شخص کے بارے میں ہورہی ہے جوکہ عامی ہے۔اگریہ کہاجائے کہ اس کو فتویٰ دلیل کے ساتھ بیان کردیاجائے تو اولاتو ہم کو صحابہ کرام اورتابعین عظام کے فتاوی جات میں بہت سے ایسے فتاوی ملتے ہیں جو انہوں نے بغیر دلیل کے بیان کئے ہیں۔توکیااس کو ماننے والے مقلد کہے جاسکتے ہیں۔
تو عرض ہے ان کو ماننے والے مقلدین نہیں بلکہ متبعین ہیں کیونکہ یہ حضرات اہل الذکر میں شامل ہیں ۔ اور ان کی طرف مسائل میں اسی وجہ سے رجوع کیا جاتا تھا کے وہ قرآن وسنت کا علم رکھنے والے اور اس کے مطابق فتوی دیتے ہیں ۔ اور دلیل کے مطابق کسی کے فتوی پر عمل کرنا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے ۔
او راگر آپ کے نزدیک ان حضرات میں سے کوئی ایسا ہے کہ وہ قرآن وسنت کےخلاف فتوی دیتا تھا اور اپنی رائے کی طرف بلاتا تھا تو ایسے شخص کی بات ماننا ظاہر ہے تقلید ہے ۔
رہی یہ بات کسی مسئلہ میں ان حضرات سے غلطی ہوگئی تو پھر ان کی بات کوچھوڑ کر قرآن وسنت پر عمل کیاجائے گا ۔
یہاں دو ہی احتمال ہیں کہ صحابہ کرام و تابعیں عظام یا تو مسئلہ قرآن وسنت کی دلیل کی رو سے بتاتے تھے یا اس کےخلاف ۔
پہلی صورت میں یہ تقلید میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ تقلید تو بغیر دلیل کے کسی کی بات کو ماننے کانام ہے ۔
اور دوسری بات کا تصور کوئی مسلمان ان کے بارے میں نہیں کرسکتا ۔
رہی یہ بات کہ بعض مسائل میں بعض صحابہ کرام کو جو اجتہادی غلطیاں لگیں تو اس میں ان کی بات کو چھوڑ دیا جائے گا اور دیگر صحابہ کی بات کو مان لیا جائے گا جو دلیل کے مطابق ہیں ۔ واللہ أعلم ۔
آپ نے لکھا :
دوسرے یہ کہ صرف دلیل کا سننا کافی نہیں ہوتا دلیل کا سمجھنا بھی ضروری ہوتاہے ۔جیساکہ پہلے بھی لکھ چکاہوں کہ آئن اسٹائن کے نظریات انگلش میں نیٹ پر لکھے ہوئے مل جائیں گے لیکن کتنے لوگ اس کے سمجھنے کی لیاقت رکھتے ہیں۔لہذا اگردلیل بیان کربھی دی جائے تو محض سننے سے کیافائدہ ہوگا۔اگروہ اس کے سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتاہوگا۔
اگر اس سے مراد وہ شخص ہے جو قرآن وسنت کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کا جواب پہلےگزر گیا ہے کہ عامی شخص کیا کرے گا ۔۔۔ اور اگر آپ کی کوئی اور مراد ہے تو بیان کردیں ۔ ۔
آپ نے سوال کیا کہ اتباع کے مکلف کون لوگ ہیں ۔۔ جواب دیا گیا کہ اتباع کے مکلف تمام لوگ ہیں ۔ اس پر آپ نے تبصرہ کیا کہ :
یہ جواب ہمارے سوال کو صحیح طورپر نہ سمجھنے اورابن دائود کی تقلید یااتباع سے پیداہواہے۔
تو ہم آپ سےگزارش کرتےہیں کہ اس سوال کا جواب تین صورتوں میں محصور ہے
(١) تمام لوگ اتباع کے مکلف ہیں ۔
(٢ ) کوئی بھی اتباع کا مکلف نہیں ہے ۔
(٣) بعض لوگ مکلف ہیں
قرآن کی آیت
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم
کی رو سے پہلی صورت صحیح ہے ۔ جبکہ باقی دو صورتیں غلط ہیں اگر آپ کے نزدیک ہمارا جواب درست نہیں ہے تو پھر درست کیا ہے دلیل کےساتھ واضح کریں ۔
آپ لکھتے ہیں:
شرعی مسائل جو پیش آتے ہیں اس میں آپ کیاطریقہ کار اختیار کرتے ہیں
1: اجتہاد کرتے ہیں،
2: سابقہ علماء کی آراء پر تنقیدی نگاہ ڈال کر کسی ایک رائے کو اختیار کرتے ہیں
3: یاپھر کسی عالم کی تقلید کرتے ہیں۔
تو عرض ہے کہ شرعی مسائل میں ہم وہی طریقہ اختیار کرتے ہیں جس کا قرآن وسنت میں حکم دیاگیا مثلا :
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم و لا تتبعوا من دونہ أولیاء ۔
اور ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہا کم عنہ فانتہوا ۔
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ ۔
اور یہ آپ کی بتائی ہوئی پہلی دونوں صورتوں میں سے کسی کے ذریعے بھی ہو سکے یا دونوں کو اکٹھا کرکے ہو تو ہم کرتےہیں ۔ اور یہ وہی لوگ کرتے ہیں جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ صلاحیت رکھنےوالوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔
اور رہی تیسری صورت تقلید کی تو اس سے ہم کنارہ کشی کرتے ہیں اور اس کی دلیل پہلے گزر چکی ہے کہ
ولا تتبعوا من دونہ أولیا ء
اور آپ نے تقلید اور اتباع کے درمیان بتائے ہوئے فرق پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ :
یہ کہاں سے آپ نے ثابت کیاکہ تقلید اللہ اوراس کے رسول کے غیر کی بات کو ماننے کا نام ہے؟
تو عرض ہے کہ ہم نے اوپر ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ کے الفاظ میں تقلید کی تعریف نقل کی ہے دربارہ پھر ملاحظہ فرمالیں :
العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها (تیسیر التحریر 4 / 241 ، لأمیر بادشاه الحنفی ، طبعة دارالفکر بیروت )
ایسا شخص جس کا قول حجج (شرعیہ) میں سے نہیں ہے اس کے قول کے مطابق بلا دلیل عمل کرنا تقلید ہے ۔
تو آپ ہی بتادیں کہ اللہ اور اس کے رسول کا قول حجت شرعیہ ہے کہ نہیں ؟
اور آپ ہی بتادیں کہ یہاں تقلید اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے کو کہا گیا ہے یا ان کے غیر کی ؟
ہم نے لکھا :
شریعت میں اتباع کا حکم ہے اور تقلید سے روکا گیا ہے ۔ ایک مامور بہ اور دوسرا منہی عنہ ہے ۔
اور آپ نے کہا :
یہ بھی بغیر دلیل اورحوالہ کے ہے۔
تو اس کی دلیل ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں دوبارہ پھر لکھ دیتے ہیں کہ :
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم میں اتباع کا حکم اور
ولا تتبعوا من دونہ أولیاء میں تقلید سے منع کیا گیا ہے ۔
آپ نے کہا :
ایک عام آدمی کیلئے اس مشکل کا حل کیاہوگاکہ وہ کیسے معلوم کرے گاکہ مفتی صاحب نے جوہمیں بتایاہے وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یاغیرمطابق ہے؟
تو بھائی عرض ہے کہ یہ باتیں بالکل واضح ہوتی ہیں ہر دور میں اور ہر علاقہ میں ایسے علماء کو لوگ پہچانتے ہیں کہ کون قرآن وسنت کے مطابق فتوی دیتے ہیں اور کون اس کے خلاف کرتے ہیں ۔ اگر پھر بھی پتہ نہ چل سکے تو کسی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ میں مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں تو کس سے پوچھوں ۔ ۔ ۔
اگر پھر بھی اشکال حل نہ ہو تو ذرا ان کتابوں کا مطالعہ کر لیجیے جن میں تقلید کے ثبوت اور خاص کر تقلید شخصی کے ثبوت پر دلائل دیے گئے ہیں کہ کس طرح ایک عامی مقلِد اپنے مقلَد کے علم و فضل اور دینی مسائل میں مہارت کو پہچانے گا ۔
مزید لکھتےہیں :
سوال کا صاف جواب دیکھناسیکھئے۔خود کہہ چکے ہیں کہ مسائل دوقسم کے ہیں ایک وہ جس میں واضح نص ہے اوردوسراجس میں واضح نص نہیں ہے۔ وہ امور جس میں واضح نص نہیں ہے اوروہ فقہاء کے قرآن وسنت میں استنباط اوراجتہاد سے طئے ہوتے ہیں اس میں یہ فرق کرنا یہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یانہیں ہے کیاجاہلوں کاکام ؟
تو عرض ہے کہ
فقہاء نے ٹھیک کہا یا ان سے اجتہادی غلطی ہو گئی اس کا فیصلہ تو دلیل کے ذریعے ہی کیاجائے گا جس کا استنباط و اجتہاد مبنی بر دلیل ہو گا اس کی بات کو ماناجائے گا اور دوسرے کی بات کوچھوڑ دیا جائے گا ۔ کیونکہ اجتہاد بھی تو کسی نص کی بنا پر ہوتا ہے نا ؟ رہی یہ بات کہ ایک عامی شخص اس کا فیصلہ کیسے کرے گا ۔ تو اس کا جواب ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ وہ ان علماء سے رہنمائی لے گا جو فرق اور تمییز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ جس طرح ایک عامی حنفی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےاجتہادات کو سمجھنے کے لیے اپنے علماء سے مسائل پوچھتا ہے ۔ آپ مجھے کسی ایسے عامی حنفی کی مثال دےدیں جو براہ راست امام صاحب کے اقوال پر عمل کرتا ہو ۔
باقی آپ نےجو یہ لکھا کہ :
میرے خیال سے اس فورم پر ننانوے فیصد حضرات اس لیاقت سے عاری ہیں کہ وہ اجتہادی مسائل میں یہ طئے کرنے کی لیاقت رکھتے ہوں کہ کس کی رائے درست اورکس کی رائے مرجوح ہے۔اورآنجناب یہ حق عامیوں کو دینے چلے ہیں۔
تو اس کا آپ کی زبان میں تو شاید جواب کوئی اور بنتا تھا لیکن ہماری طرف سےیہی گزارش ہے کہ یہ آپ کی لا علمی اور غلط فہمی ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔
اسی طرح آپ نے فرمایا :
پھر آنجناب نے کمال یہ کیاہے کہ مفتی نے اگر خلاف سنت وقرآن بتادیااوراس کے بتائے ہوئے کے مطابق مستفتی نے عمل کرلیاتواس کو تقلید میں شمار کرلیاہے۔اگر عامی اتناعلم رکھتاتومفتی کے پاس جاتاہی کیوں اوراگر وہ لاعلمی سے عمل کررہاہے تویہ اتباع کیوں نہیں تقلید کیوں ہوگیا؟
تو ہم آپ سے معذرت کرتے ہیں کہ ہمارا یہ مقصد نہیں تھا اگر آپ ہماری سابقہ عبارات کو مدنظر رکھتے تو شاید یہ بات کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ بہر صورت ہم اپنی بات کو پھر بیان کردیتے ہیں کہ : اگر مفتی قرآن وسنت کے مطابق مسائل بتاتا ہو لیکن کسی مسئلہ میں اس سے غلطی ہو جائے اور مستفتی اس پر عمل کر لے تو اگر تو اس پر حق واضح نہیں ہو سکا تو اس میں اس کو مقلد نہیں کہا جائے گا ۔ اور اگر حق واضح ہو جانے کے باوجود وہ اسی مفتی صاحب کی بات پر مصر رہتا ہے تو ظاہر ہے یہ اتباع کے زمرے سے نکل جائے گا ۔
تقلید اور اتباع میں فرق کےحوالے سے آپ لکھتے ہیں :
ایک عامی شخص حنفی مفتی سے فتوی پوچھتاہے اوردلیل طلب نہیں کرتا اورعمل کرلیتاہے توآپ اس کوتقلید شمار کرتے ہیں ۔ایک اہل حدیث شخص اپنے مفتی سے فتوی پوچھتاہے اوردلیل نہیں پوچھ کر صرف اس کے بتائے ہوئے عمل کرلیتاہے تواس میں متبع کون ہے اورمقلد کون ہے اورکیوں ہے۔؟اس کی وضاحت توضروری ہے نامیرے بھائی۔
ایسی صورت حال میں متبع اور مقلد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ :
مقلِد کا مطمح نظر اپنےمقلَد کا قول ہوتا ہے جبکہ متبع کے پیش نظر قرآن وسنت کا حکم تلاش کرنا ہوتاہے ۔
اسی طرح متبعین کے مفتی سے اگر دلیل پوچھی جائے تو وہ دلیل بتادیتا ہے اگر اس سے غلطی ہو جائے اور ا س کی وضاحت کی جائے تو وہ رجوع بھی کرلیتا ہے جبکہ مقلدین میں یہ سب چیزیں بہت بڑی جسارت سمجھی جاتی ہیں ۔
اسی طرح اہل حدیث حضرات کے اکثر فتاوی جات قرآن و سنت کے دلائل سے مزین ہوتے ہیں جبکہ مقلدین کے فتاوی جات شرعی دلائل کی بجائے اقوال آئمہ سے بھرپور ہو تے ہیں ۔
اور آپ کا یہ فرمانا کہ :
جو اہل حدیث مفتی ہے وہ قرآن وسنت کے مطابق جواب دیتاہے اورجوحنفی ہے وہ قرآن وسنت کے خلاف جواب دیتاہے ؟
تو اس کا جواب ’’ ہاں ‘‘ میں ہے ۔ لیکن تھوڑے سے اضافے کے ساتھ کہ : غالب یہی ہے لیکن بعض حالات میں اس کے عکس کا انکار نہیں کیاجا سکتا ۔ ایسی صورت میں پیروی اسی چیز کی جائے گی جو مبنی بر دلیل ہے ۔ واللہ أعلم ۔
آخر میں لکھتے ہیں کہ :
براہ کرم ایک مرتبہ دوبارہ میرے سوال پر نظرڈالیں اورپھر لکھیں اورگزارش یہ ہے کہ جولکھیں دلیل اورحوالوں کے ساتھ لکھیں۔ محض اپنے وجدانی استنباط کو راہ نہ دیں اوراگراسی پر مصر ہیں توپھر جب ہم اپنے وجدانی استنباط سے جواب دیں گے تواس پر اعتراض مت کیجئے گا۔
تو ہم عرض کرتےہیں کہ جو کچھ دلیل کے مطابق محسوس ہوا وہی لکھا ہے اور جہاں دلیل کی ضرورت تھی بیان کردی ہے ۔ اس کے باوجود بھی اگر آپ کو کسی جگہ دلیل نظر نہیں آتی تو آپ اس کی نشاندہی کردیں تاکہ دلیل بیان کی جاسکے ۔۔
باقی آپ نے جو ہمیں تنبیہ کی ہے کہ ہم بھی اپنے وجدانی استباط سے ۔۔۔ الی آخر ہ ۔۔۔۔ تو آپ سے گزارش ہے جس چیز کوآپ حق سمجھتے ہیں چھپا کر نہ رکھیں بلکہ کھل کر لکھیں اگر بات ٹھیک ہوئی تو آپ کی بات کی تائید کریں گے اور اگر کہیں غلط ہوئی تو اس پر آپ کو تنبیہ کریں گے ۔۔
والسلام ۔
توجہ فرمائیں : جمشید بھائی نے دو حصوں میں جواب لکھا تھا لیکن بعد میں دیکھا کہ انہوں نے پہلے حصے کو حذف کردیا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں میں باتیں ایک جیسی ہی تھیں ۔
تو یہ جواب پہلے حصے کا ہے ۔ او راگر یہأں کوئی ایسی بات کا جواب ہے جو جمشید بھائی کی موجودہ مشارکت میں موجود نہیں تو اس کے لیے بھی معذرت خواہ ہیں کیونکہ ہم نے جواب ان کی پہلی مشارکت کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے لیکن بعدمیں دیکھا گیا ہےکہ انہوں نے أپنے دوسرے حصے میں بعض ایسی چیزوں کو حذف کردیا ہے جو کہ پہلے میں تھیں ۔ہاں دوسرے حصے میں اگر کوئی نئی بات ہوئی تو اس کا جواب دے دیا جائے گا ۔