• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتباع کسے کہتے ہیں؟

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اتباع کی تعریف اورحدود وقیود کے بیان کرنے میں اس قدر سوال وجواب !اندازہ نہیں تھاکہ جولوگ اتباع کرتے ہیں انہیں اتباع کی تعریف کرنے میں اس قدر مشکل پیش آئے گی۔
بہرحال امید بڑی چیز ہے۔اورامید پر دنیاقائم ہے کہ شاید کسی کوتوفیق ہو اور وہ اتباع کے بارے میں کئے گئے سوالات کے جوابات دینے کی سمت قدم بڑھائے۔والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اتباع کی تعریف اورحدود وقیود کے بیان کرنے میں اس قدر سوال وجواب !اندازہ نہیں تھاکہ جولوگ اتباع کرتے ہیں انہیں اتباع کی تعریف کرنے میں اس قدر مشکل پیش آئے گی۔
بہرحال امید بڑی چیز ہے۔اورامید پر دنیاقائم ہے کہ شاید کسی کوتوفیق ہو اور وہ اتباع کے بارے میں کئے گئے سوالات کے جوابات دینے کی سمت قدم بڑھائے۔والسلام
جواب دینے میں مشکل پیش نہیں آرہی ۔۔۔۔ بلکہ آنجناب کے مزاج گرامی کے مطابق جواب سوچنے میں مشکل پیش آرہی ہے ۔ ۔ کہ آپ کو کس طرح کا جواب پسند ہے ۔ ۔ ۔
کیونکہ عین ممکن ہے جسطرح پہلے جواب پر غیر معقول ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ ہونے کا حکم صادر فرمایا ہے ہوسکتا ہے وہی الفاظ یہاں نقل کردیے جائیں ۔ ۔ ۔
اور آپ کی پسند معلوم کرنا اس وجہ سے مشقت کا باعث بن رہا ہے کہ ایک عنوان سے دوسرے میں جائیں تو آپ کے اصول بدلے ہوتے ہیں ۔ ۔
یہاں جن باتوں کو ناپسند فرماگئے ہیں وہی کام آپ دوسرے موضوعات میں خود سرانجام دے رہے ہیں ۔ ۔ ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔ ۔ ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اسی کو اگرہم عرض کریں کہ یہاں جس قسم کا جواب آنجناب نے دیناچاہاہے دوسری جگہ ویسے جواب پر خود ہی اعتراضات کی بھرمار کررہے ہیں توشاید یہ زیادہ صحیح ہوگا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام عليكم جمشيد بھائی ! پتہ نہیں اب یہ طرز بھی آپ کو پسند آئے گا یا نہیں ؟
بہر صورت جو کچھ لکھ سکا لکھ دیا آپ کی تصدیق یا تردید کا انتظار رہے گا ۔

سوالات کے جوابات سے پہلے اتباع او رتقلید کی تعریف پیش خدمت ہے ۔
اتباع کی تعریف : اتباع کے لغوی معنی ہیں پیروی کرنا ۔
اور شرعی اور اصطلاحی معنی ہیں : دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی پیروی کرنا ۔
تفصیل کے لیے شوکانی کی القول المفید ( طبعۃ دار القلم ، الکویت ) ص 37 ملاحظہ فرمائیں ۔
تقلید کی تعریف : تقلید قلد یقلد سے مصدر ہے جو کہ قلادۃ سے ہے جس کا معنی اس پٹہ کے ہیں جوجانور وغیرہ کے گلےمیں ڈالا جاتاہے ۔
علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ فرماتےہیں :
العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها (تیسیر التحریر 4 / 241 ، لأمیر بادشاه الحنفی ، طبعة دارالفکر بیروت )
ایسا شخص جس کا قول حجج (شرعیہ) میں سے نہیں ہے اس کے قول کے مطابق بلا دلیل عمل کرنا تقلید ہے ۔

سوال : اتباع کی حدود کیا ہیں ؟

جواب : مذکورہ سوال تیں احتمالات رکھتا ہے
اول : بذات خود اتباع کی حدود کیا ہیں ؟ یعنی اتباع کب تک کی جائے گی ؟ یا کن حالات میں اتباع کی جائے گی ؟ وغیرہ
ثانی : پیروی کرنے والوں کی حدود ؟ یعنی کون کون اتباع کا مکلف ہے ؟
ثالث : جس چیز کی اتباع کرنی ہے یعنی متبوع کی حدود کیا ہیں ؟ کون کون سی چیزیں ہیں جن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے ؟
پہلے احتمال کےمطابق جواب : اس حوالے سے اتباع کی کوئی حدود نہیں ہیں ہر حال میں اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور تقلید سے روکا گیا ہے ۔
دوسرے احتمال کےمطابق جواب : تمام مسلمان اتباع کے مکلف ہیں (عوارض اهليت وغيره كو مد نظر ركھا جائے ) جو احکام شر عیہ کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے وہ ان سے پوچھ کر عمل کریں گے جو جانتے ہیں ۔ اور یہ بھی اتباع میں داخل ہے کیونکہ سائل ان کی بات پر اس وجہ سے عمل نہیں کرے گا کہ وہ ان کی بات ہے بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے قرآن و سنت سے بیان کی ہے ۔
تیسرے احتمال کےمطابق جواب : اتباع صرف اللہ اور اس کے رسول کی کی جائے گی ۔ یعنی قرآن و سنت میں جو کچھ لکھا ہے دین وہی ہے اس کے علاوہ کسی کی بات دین نہیں ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا : اتبعو ا ما أنزل إلیکم من ربکم و لا تتبعو ا من دونہ أولیا ۔ اور ما أنزل میں قرآن او رسنت دونوں شامل ہیں ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فهو رد ( رواه مسلم برقم 1718 )


سوال : اجتہاد اور تقلید کے درمیان اتباع کی کیا حیثیت ہے ؟


جواب : یہاں پہلی بات یہ ہے کہ اتباع اجتہاد اور تقلید کے درمیان میں ہے ہی نہیں کہ اس حالت میں اس کی حیثیت بیان کی جائے ۔
دینی أحکام و مسائل میں اتباع کا حکم ہےجیسا کہ پہلے گزرا ۔
اور دینی مسائل دو طرح کے ہیں :
اول : جن میں واضح نصوص موجود ہیں ۔
ثانی : جن کے بارے میں واضح نصوص ہمارے علم میں نہیں ہیں ۔
وہ مسائل جن میں کوئی واضح نص موجود نہیں ایسے مسائل کا حکم قرآن وسنت سےاخذ کرنے کا نام اجتہاد ہے ۔
تو یوں کہا جا سکتاہے کہ اجتہاد اتباع کے حکم میں شامل ہے ۔ مالایتم الواجب إلا بہ فهو واجب ۔
اور تقلید اتباع کے مخالف ہے ۔ کیونکہ اتباع اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے کا نام ہے جبکہ تقلید اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کی بات کو ماننے کا نام ہے ۔
جب تقلید اتباع کے مخالف ہے تو اجتہاد کے بھی مخالف ہے ۔ کیونکہ اجتہاد کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی پیروی کی جاتی ہے ۔ جبکہ تقلید میں ان کے غیر کی پیروی کی جاتی ہے ۔

سوال : اتباع کرنے کے مکلف کون لوگ ہیں ؟
اس کا جواب گزر چکا ہےکہ تمام لوگ اتباع کرنے کے مکلف ہیں ۔


سوال : اتباع اور تقلیدمیں جوہر ی فرق کیا ہے ؟ یعنی وہ کون سا جوہری فرق اور دائرہ ہے کہ اس کے پار جایا جائے تو وہ تقلید ہو گی اور اس کے اندر رہا جائے تو وہ اتباع شمار ہو گی ۔ ؟
اگر اتباع کے بارے میں یہ کہاجائے کہ کسی مسئلہ کے ساتھ دلیل بھی بیان کی جائے تو کیاجولوگ صرف کسی مفتی اورمجتہد سے پوچھ کر عمل کرلیتے ہیں دلیل طلب نہیں کرتے ان کا یہ فعل تقلیدمیں شمارکیاجائے گایااتباع میں؟


جواب : اتباع اور تقلید کےدرمیان فرق یہ ہے کہ اتباع اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے کا نام ہے جبکہ تقلید اللہ اور اس کے رسول کے غیر کی بات کو ماننے کانام ہے ۔
شریعت میں اتباع کا حکم ہے اور تقلید سے روکا گیا ہے ۔ ایک مامور بہ اور دوسرا منہی عنہ ہے ۔
جب تک قرآن وسنت کےمطابق عمل کیاجائےگاتو یہ اتباع ہے اور جب قرآن وسنت کو چھوڑکر کسی اور کی بات کو دین سمجھ لیا جائےگا تو یہ تقلید ہو جائے گی ۔
رہی یہ بات کہ :
اگر اتباع کے بارے میں یہ کہاجائے کہ کسی مسئلہ کے ساتھ دلیل بھی بیان کی جائے تو کیاجولوگ صرف کسی مفتی اورمجتہد سے پوچھ کر عمل کرلیتے ہیں دلیل طلب نہیں کرتے ان کا یہ فعل تقلیدمیں شمارکیاجائے گایااتباع میں؟
تو اگر مسئلہ قرآن وسنت کےمطابق بتائے گا تو اتباع ہے اور اگر اپنی رائے یا کسی دوسرے کی رائے جو قرآن وسنت کے مخالف ہے بتاے گا تو اس پر عمل کرنے والا تقلید کا ارتکا ب کرے گا ۔
قرآن وسنت کےمطابق ہونے کے لیے دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ لیکن سائل کا دلیل طلب کرنا یا نہ کرنا یہ دلیل کےوجود یا عدم کو لازم نہیں ہے ۔
لیکن ضروری ہےکہ مسئلہ اسی سے پوچھا جائے جو قرآن وسنت کےمطابق جواب دیتا ہو ۔ ایسے آدمی سے مسئلہ نہیں پوچھا جائے گا جو قرآن وسنت کےخلاف فتوی دیتا ہو ۔
اگر کسی ایسے آدمی سے مسئلہ پوچھاجائے جو ویسے تو قرآن وسنت کےمطابق جواب دیتا ہو لیکن اس مسئلہ میں اس کاجواب قرآن وسنت کےخلاف ہو تو پیروی اسی کی کی جائے گی جودلیل بیان کرے گا ۔
اس طرح یہ بات کہ :
مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ میں ہزاروں مثالیں ایسی ہیں کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام نے مسلہر بیان کیاہے اس کی دلیل بیان نہیں کی ہے تواس پر عمل کرنا تقلید میں شمار ہوگا یااتباع ہوگا۔ ؟
تو اس میں جو مسائل قرآن وسنت کےمطابق ہیں ان میں صحابہ کرام کی پیروی کرنا دراصل قرآن وسنت کی ہی پیروی کرنا ہے لہذا یہ اتباع ہے نہ کہ تقلید ۔
اور جن مسائل میں قرآن وسنت کے موافق نہیں ہیں ان میں ان کی بات ماننا اتباع نہیں ہے ۔ بلکہ ایسی صورت میں ان کی بات کو چھوڑ دیا جائے گا ۔

جو سمجھ آ سکا وہ لکھ دیا ہے اگر صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے او ر اگر غلط ہے تو یہ میری کوتاہی اور شیطان کی طرف سےہے ۔
اگر کوئی امر وضاحت طلب ہے یا کوئی بات غلط ہےتو اطلا ع ہونے پر اس کی وضاحت یا تصحیح کر نے کا انتظار رہے گا ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اتباع کی تعریف اورحدود وقیود کے بیان کرنے میں اس قدر سوال وجواب !اندازہ نہیں تھاکہ جولوگ اتباع کرتے ہیں انہیں اتباع کی تعریف کرنے میں اس قدر مشکل پیش آئے گی۔
جمشید میاں! آپ نے پھر دجل سے کام لیا ہے! آپ نے اتباع کی تعریف کا مطالبہ ہی نہیں کیا تھا۔
دجل نا کن کہ فردا روز محشر
میان مومناں شرمندہ باشی

آپ کے کئے گئے سوالات میں پیش کر دیتا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ
اتباع کی حدود کیاہیں۔
اجتہاد اورتقلید کے درمیان اتباع کی کیاحیثیت ہے۔
اتباع کرنے کے مکلف کون لوگ ہیں۔
اتباع اورتقلید میں جوہری فرق کیاہے۔یعنی
وہ کون سا جوہری فرق اوردائرہ ہے کہ اس کے پار جایاجائے تو وہ تقلید ہوجائے گی اوراس کے اندر رہاجائے تو وہ اتباع میں شمار ہوگا۔
اور آپ کو اس کے جوابات بھی دیئے جا چکے ہیں! اور آپ کے سوالات کا فساد بھی واضح کیا جا چکا ہے۔ مگر اب آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو!!
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب را چہ گناہ

مزید آپ کو ایک جملہ بہت ناگوار گذر رہا ہے!
"اتباع جب تک اتباع ہےوہ اتباع ہے"
آپ کو بتلایا بھی گیا کہ جملہ بلکل صحیح ہے۔
تو میاں جی! مقلدین تقلید کو بھی اتباع باور کرانا چاہتے ہیں، لہذا ہر صورت میں جسے اتباع کہا جائے وہ اتباع نہیں ہوا کرتا بلکہ اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے!!!
مگر آپ اپنی کج فہمی کے سبب اس پر اعتراض کئے جا رہے ہو!!
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (الأعراف3)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ "مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ" کی اتباع کا حکم جسے اصطلاح میں اتباع کہا جاتا ہے۔ اور اتباع تو " مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ" کی بھی کی جاتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ممنوع قرار دیا۔
جمشید میاں! اتباع جب تک اتباع ( اتباع اصطلاح ) ہے وہ اتباع ہے!! جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اور اس کی کی کوئی حدود و قیود نہیں۔ انسان زندگی میں کبھی اس اتباع سے آزاد نہیں!!
جمشید میاں! آخر آپ کو اتباع سے آزادی حاصل کرنے کی فکر تقلید کرنے کی وجہ سے لاحق ہو رہی ہے۔ کیونکہ جب تک کوئی شخص اتباع کرے گا، وہ تقلید نہیں کرے گا!! اور آپ ٹہرے تقلید کے داعی!! آپ کو تو اتباع سے دشمنی ہو گی!!
یاد رہے ایک بار پھر عرض کر دوں!!
اتباع کی کوئی حد نہیں۔ اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے۔ اب کوئی ایسا عمل جو اتباع ہی نہ ہو تو وہ اتباع ہی نہیں۔ اور یاد رہے کہ ہم اصطلاح معنی میں اتباع پر گفتگو کر رہے ہیں!!!
اتباع جب تک اتباع (اصطلاحی) ہے وہ اتباع ہے(جس کا حکم ہے) !!
جناب ہم تو اتباع کی حدود کے قائل ہی نہیں کہ انسان کی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ بھی آتا ہے کہ وہ اتباع سے آزاد قرار پاتا ہے!! آپ اس کے قائل ہیں تو "البینة علی المدعي" کے تحت دلیل پیش کریں!
اور اگر آپ دلیل پیش نہیں کرتے تو آپ کی تحریر شیطان کے وساوس ہی قرار دی جا سکتی ہے ، جو اتباع قران و حدیث کو مشکوک ثابت کرنے کو شیطان اپنے چیلوں کو وحی کرتاہے!!!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام عليكم جمشيد بھائی ! پتہ نہیں اب یہ طرز بھی آپ کو پسند آئے گا یا نہیں ؟
بہر صورت جو کچھ لکھ سکا لکھ دیا آپ کی تصدیق یا تردید کا انتظار رہے گا ۔
جمشید بھائی آپ کو ذاتی پیغام کے ذریعے اطلاع دی تھی ۔ پہنچ گئی ہے کہ نہیں ؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
1. السلام عليكم جمشيد بھائی ! پتہ نہیں اب یہ طرز بھی آپ کو پسند آئے گا یا نہیں ؟
بہر صورت جو کچھ لکھ سکا لکھ دیا آپ کی تصدیق یا تردید کا انتظار رہے گا ۔

سوالات کے جوابات سے پہلے اتباع او رتقلید کی تعریف پیش خدمت ہے ۔
اتباع کی تعریف : اتباع کے لغوی معنی ہیں پیروی کرنا ۔
اور شرعی اور اصطلاحی معنی ہیں : دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی پیروی کرنا ۔
تفصیل کے لیے شوکانی کی القول المفید ( طبعۃ دار القلم ، الکویت ) ص 37 ملاحظہ فرمائیں ۔
تقلید کی تعریف : تقلید قلد یقلد سے مصدر ہے جو کہ قلادۃ سے ہے جس کا معنی اس پٹہ کے ہیں جوجانور وغیرہ کے گلےمیں ڈالا جاتاہے ۔
علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ فرماتےہیں :
العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها (تیسیر التحریر 4 / 241 ، لأمیر بادشاه الحنفی ، طبعة دارالفکر بیروت )
ایسا شخص جس کا قول حجج (شرعیہ) میں سے نہیں ہے اس کے قول کے مطابق بلا دلیل عمل کرنا تقلید ہے ۔
آنجناب نے جس محنت سے تقلید کی اصطلاحی تعریف کتب اصول فقہ سے نقل کیاہے اورحوالہ جات دیئے ہیں۔ اسی طرح اتباع کی تعریف بھی کتب اصول فقہ نقل کریں اوراپنے وجدانی اورذوقی استنباط سے ہمیں محظوظ نہ کریں۔یااگرعلمائے اصول فقہ نے اس کی کوئی تعریف بیان نہ کی ہوتواس کی بھی وضاحت کردیں۔

سوال : اتباع کی حدود کیا ہیں ؟
جواب : مذکورہ سوال تیں احتمالات رکھتا ہے
اول : بذات خود اتباع کی حدود کیا ہیں ؟ یعنی اتباع کب تک کی جائے گی ؟ یا کن حالات میں اتباع کی جائے گی ؟ وغیرہ
ثانی : پیروی کرنے والوں کی حدود ؟ یعنی کون کون اتباع کا مکلف ہے ؟
ثالث : جس چیز کی اتباع کرنی ہے یعنی متبوع کی حدود کیا ہیں ؟ کون کون سی چیزیں ہیں جن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے ؟
پہلے احتمال کےمطابق جواب : اس حوالے سے اتباع کی کوئی حدود نہیں ہیں ہر حال میں اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور تقلید سے روکا گیا ہے ۔
دوسرے احتمال کےمطابق جواب : تمام مسلمان اتباع کے مکلف ہیں (عوارض اهليت وغيره كو مد نظر ركھا جائے ) جو احکام شر عیہ کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے وہ ان سے پوچھ کر عمل کریں گے جو جانتے ہیں ۔ اور یہ بھی اتباع میں داخل ہے کیونکہ سائل ان کی بات پر اس وجہ سے عمل نہیں کرے گا کہ وہ ان کی بات ہے بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے قرآن و سنت سے بیان کی ہے ۔
تیسرے احتمال کےمطابق جواب : اتباع صرف اللہ اور اس کے رسول کی کی جائے گی ۔ یعنی قرآن و سنت میں جو کچھ لکھا ہے دین وہی ہے اس کے علاوہ کسی کی بات دین نہیں ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا : اتبعو ا ما أنزل إلیکم من ربکم و لا تتبعو ا من دونہ أولیا ۔ اور ما أنزل میں قرآن او رسنت دونوں شامل ہیں ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فهو رد ( رواه مسلم برقم 1718 )
ان تین احتمالات کی ضرورت نہ پڑتی اگرآنجناب مجھ سے پوچھ لیتے ۔حدود وقیود سے صرف اتباع کی اصطلاحی تعریف مراد تھی ۔تعریف اوراصطلاحی تعریف کا فائدہ یہی ہوتاہے کہ اس سے اس چیز کی حدود قیود متعین ہوجاتی ہیں۔

سوال : اجتہاد اور تقلید کے درمیان اتباع کی کیا حیثیت ہے ؟
جواب : یہاں پہلی بات یہ ہے کہ اتباع اجتہاد اور تقلید کے درمیان میں ہے ہی نہیں کہ اس حالت میں اس کی حیثیت بیان کی جائے ۔
دینی أحکام و مسائل میں اتباع کا حکم ہےجیسا کہ پہلے گزرا ۔
اور دینی مسائل دو طرح کے ہیں :
اول : جن میں واضح نصوص موجود ہیں ۔
ثانی : جن کے بارے میں واضح نصوص ہمارے علم میں نہیں ہیں ۔
وہ مسائل جن میں کوئی واضح نص موجود نہیں ایسے مسائل کا حکم قرآن وسنت سےاخذ کرنے کا نام اجتہاد ہے ۔
تو یوں کہا جا سکتاہے کہ اجتہاد اتباع کے حکم میں شامل ہے ۔ مالایتم الواجب إلا بہ فهو واجب ۔
اور تقلید اتباع کے مخالف ہے ۔ کیونکہ اتباع اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے کا نام ہے جبکہ تقلید اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کی بات کو ماننے کا نام ہے ۔
جب تقلید اتباع کے مخالف ہے تو اجتہاد کے بھی مخالف ہے ۔ کیونکہ اجتہاد کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی پیروی کی جاتی ہے ۔ جبکہ تقلید میں ان کے غیر کی پیروی کی جاتی ہے ۔
اکبرالہ آبادی کا ایک شعر ہے جس میں انہوں نے دورحاضر کی بیویوں پر تنقید کی ہے کہ دنیابھر کی باتیں کریں گی یہاں یہ ہوا وہاں ہوا لیکن اصل بات غائب کردیں گی کہ
یہ نہ بتلایاکہاں رکھی ہے روٹی رات کی[/HL
]آنجناب نے بھی باتیں بہت ساری کردیں لیکن جو اصل بات تھی اسی کو غائب کردیاہے۔
آپ کہتے ہیں کہ مسائل دوقسم کے ہیں۔ایک جس میں واضح نصوص ہیں اورایک جس میں واضح نصوص نہیں ہیں۔ ایسے مسائل کو مجتہدین حضرات قرآن وسنت سے مستنبط کرتے ہیں۔تو وہ مسائل جس میں واضح نصوص نہیں ہیں۔ اس میں آپ کی جماعت کے لوگ کیاکریں گے
اجتہاد
اتباع
تقلید
اگرآپ کی جماعت کا ہرفرد مجتہد ہے تواس کی وضاحت کردیں تاکہ ہمیں اوردوسروں کو بھی معلوم ہوجائے کہ اجتہاد کو خواہ مخواہ لوگوں نے دشوارمشہور کررکھاہے وہ تو چوراہوں پر ریڑھیوں پر مل جایاکرتی ہے اوریہ کہ اگر کوئی علماء کے نام کا درست تلفظ بھی نہیں کرسکتا یالکھ سکتا تو کیاہوااللہ نے فرمارکھاہے کہ ہم نے قرآن کوآسان کردیاہے لہذا ہرخاص وعام مدعی اجتہاد ہوسکتاہے؟
رہ گئی دوسری اورتیسری شکل تواسی کی وضاحت کیلئے پوچھاتھاکہ اتباع کو آپ اجتہاد اورتقلید کے درمیان کہاں پر رکھتے ہیں اوراس پر آپ نے طولانی تقریر شروع کردی کہ لایتم الواجب اوروغیرہ وغیرہ۔

سوال : اتباع کرنے کے مکلف کون لوگ ہیں ؟
اس کا جواب گزر چکا ہےکہ تمام لوگ اتباع کرنے کے مکلف ہیں ۔
سوال چنااورجواب گندم ہے۔پوچھایہ جارہاہے کہ آپ شرعی مسائل پر عمل کرنے کے بارے میں اجتہاد اورتقلید کے درمیان اتباع کو کہاں پر رکھتے ہیں کیونکہ اگر ہرفرد مجتہد ہوتاتوپھر اتباع کانام رکھنے کی ہی ضرورت کیاتھی سیدھے سیدھے اجتہاد کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیاگیا۔جب اجتہاد پر بھی اتباع کا ہی شعبہ ہے توخود کو مجتہد کیوں نہیں کہتے اورپنی جماعت کو جماعت مجتہدین کیوں نہیں لکھتے ۔

جواب : اتباع اور تقلید کےدرمیان فرق یہ ہے کہ اتباع اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے کا نام ہے جبکہ تقلید اللہ اور اس کے رسول کے غیر کی بات کو ماننے کانام ہے ۔
شریعت میں اتباع کا حکم ہے اور تقلید سے روکا گیا ہے ۔ ایک مامور بہ اور دوسرا منہی عنہ ہے ۔
جب تک قرآن وسنت کےمطابق عمل کیاجائےگاتو یہ اتباع ہے اور جب قرآن وسنت کو چھوڑکر کسی اور کی بات کو دین سمجھ لیا جائےگا تو یہ تقلید ہو جائے گی ۔
آپ نے میرے سوالوں کے جواب میں وجدانی اورذوقی امور پر زیادہ بھروسہ کیاہے اولاتو تقلید کے خلاف شریعت ہونے اورمنہی عنہ ہونے کی وضاحت ضروری تھی۔دوسرے یہ آنجناب نے یہ جوارشاد فرمایاہے۔
جب تک قرآن وسنت پر عمل کیاجائے گا۔ ایک عامی شخص کو یہ کیسے معلوم ہوگاکہ اجتہادی امور پر کس مجتہد نے خطاکی ہے اورکس کی رائے درست ہے۔
مشہور حدیث ہے کہ چھ چیزوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رباہونے کی صراحت کی حنطہ شعیر وغیرہ وغیرہ ۔اس میں فقہاء مجتہدین نے اس سے علت نکالی کہ رباکی اصل علت یہ ہے۔ اس میں امام شافعی،امام مالک اورامام ابوحنیفہ کی رائے مختلف ہے۔ عامی شخص یہ کیسے معلوم کرے گاکہ اس میں کس کی بیان کردہ علت قرآن وحدیث کے مطابق ہے اورکس کی بیان کردہ علت غلط ہے۔

جب تک قرآن وسنت کےمطابق عمل کیاجائےگاتو یہ اتباع ہے اور جب قرآن وسنت کو چھوڑکر کسی اور کی بات کو دین سمجھ لیا جائےگا تو یہ تقلید ہو جائے گی ۔
ویسے آنجناب کا یہ جواب بہت حد تک ابن داؤد کے اس جواب کے مشابہ ہے کہ اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے
سوال تویہی ہے کہ جب تک کی حدود کیاہیں۔آپ نے بھی یہی فرمایاہے کہ جب تک قرآن وسنت کے مطابق عمل کیاجائے تویہ جب تک کی تحدید کیسے ہوگی؟وجدانی ،ذوقی استباطی ،اجتہادی ۔ہرایک کی اپنی مرضی کہ اس کی جوچاہے تشریح کرلے ۔
دوسرے اجتہادی مسائل میں کسی کی رائے پر عمل کرنادین سمجھ کر ہی ہوگا یاکچھ اورسمجھ کر ۔
اگرآنجناب کی مراد یہ ہے کہ کسی فرد واحد کو مطلق مطاع سمجھ لیاجائے تو اس کی خود حنفیہ اورقائلین تقلید نے تردید کی ہے اوراس کا تقلید سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔


رہی یہ بات کہ :
اگر اتباع کے بارے میں یہ کہاجائے کہ کسی مسئلہ کے ساتھ دلیل بھی بیان کی جائے تو کیاجولوگ صرف کسی مفتی اورمجتہد سے پوچھ کر عمل کرلیتے ہیں دلیل طلب نہیں کرتے ان کا یہ فعل تقلیدمیں شمارکیاجائے گایااتباع میں؟
تو اگر مسئلہ قرآن وسنت کےمطابق بتائے گا تو اتباع ہے اور اگر اپنی رائے یا کسی دوسرے کی رائے جو قرآن وسنت کے مخالف ہے بتاے گا تو اس پر عمل کرنے والا تقلید کا ارتکا ب کرے گا ۔
محترم بزرگ:ایک عامی شخص یہ کیسے امتیاز کرے گاکہ اس کو مفتی صاحب نے جو مسئلہ بغیر دلیل کے بتایاہے وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یاخلاف ہے ۔خاص طورپر بات اس صورت میں اورنازک ہوجاتی ہے کہ جب کہ آپ کے مطابق اس میں واضح نص نہ ہو۔
یہاں پر آنجناب نے ایک عجیب حرکت کی ہے کہ ہماراسوال مستفتی کے متعلق ہے اورآنجناب کا جواب مفتی کے متعلق ہوگیاہے۔ہم سوال یہ نہیں کررہے ہیں کہ مفتی کا فتوی کیساہوگا۔ ہماراسوال مستفتی کے متعلق ہے کہ اگر اس کو ایک فتویٰ مفتی نے دیااوراس میں دلیل بیان نہیں کی اوراس پر اس نے عمل کرلیاتویہ تقلیدہے یااتباع ہے۔
ہمیں صرف اتناہی بیان کردیں۔ مفتی کے متعلق آگے سوالات ہوں گے۔

قرآن وسنت کےمطابق ہونے کے لیے دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ لیکن سائل کا دلیل طلب کرنا یا نہ کرنا یہ دلیل کےوجود یا عدم کو لازم نہیں ہے ۔
لیکن ضروری ہےکہ مسئلہ اسی سے پوچھا جائے جو قرآن وسنت کےمطابق جواب دیتا ہو ۔ ایسے آدمی سے مسئلہ نہیں پوچھا جائے گا جو قرآن وسنت کےخلاف فتوی دیتا ہو ۔
یہ جودلیل ہے اس کی پرکھ ایک عامی شخص کیسے کرے گا۔ایک شخص مفتی کے ساتھ جاتاہے اورپوچھتاہے کہ سود کی علت کیاہے۔ مفتی اس کو ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی رائے کے مطابق فتوی دے دیتاہے یااپنی رائے سے فتوی دیتاہے۔اب یہ اس میں تمیز کیسے کرے گاکہ مفتی نے جوبتایاکہ وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یاخلاف ہے۔ اگر اس کو اتناہی علم ہوتاکہ وہ تمیز کرسکتاتو پھر مفتی سے پوچھنے کی ضرورت کیاتھی خود ہی کسی ایک رائے پر عمل کرلیتا۔
آنجناب نے جو اس کی تاکید کی ہے مسئلہ اسی سے پوچھاجائے جو قرآن وسنت کے مطابق بتاتاہو۔تواس کی تحدید کیسے ہوگی کہ کون قرآن وسنت کے مطابق شرعی مسائل کا جواب دیتاہے ویسااس کا آسان طریقہ یہی ہوسکتاہے کہ جواہل حدیث مفتی ہے اس کا ہرفتوی قرآن وسنت کے مطابق اورجوحنفی ہے اس کا ہرفتوی قرآن وسنت کے خلاف ہے۔


اگر کسی ایسے آدمی سے مسئلہ پوچھاجائے جو ویسے تو قرآن وسنت کےمطابق جواب دیتا ہو لیکن اس مسئلہ میں اس کاجواب قرآن وسنت کےخلاف ہو تو پیروی اسی کی کی جائے گی جودلیل بیان کرے گا ۔
لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ اس کا امتیاز ایک عامی شخص کیسے کرے گا۔پھر پتہ نہیں آنجناب دلیل سے کیاسمجھتے ہیں۔ ایک ہے دلیل کا سن لینا یہ کام ہروہ شخص کرسکتاہے جس کو اللہ نے قوت سماعت سے نوازاہے لیکن دلیل کا سمجھنا یہ دوسری چیز ہے۔آپ لوگ دونوں کو گڈمڈ کردیتے ہیں۔جیساکہ پہلے بھی بیان کرچکاہوں کہ آئن اسٹائن کے نظریات انگلش میں لکھے ہوئے ہیں اورنیٹ پر بکھرے ہوئے ہیں۔لیکن اس کو سمجھنے کیلئے صرف انگلش زبان کی واقفیت کافی نیہں ہوگی بلکہ سائنس سے واقفیت ضروری ہوگی۔
اسی طرح کیاایک سائنس کا طالب علم کتب فقہ کے مسائل طلاق ولعان کو سمجھ لے گاجب تک کہ وہ فقہ سے واقف نہ ہو۔ لہذا عامی شخص دلیل کی تعیین اورترجیح کیسے کرے گا۔


اس طرح یہ بات کہ :
مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ میں ہزاروں مثالیں ایسی ہیں کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام نے مسلہر بیان کیاہے اس کی دلیل بیان نہیں کی ہے تواس پر عمل کرنا تقلید میں شمار ہوگا یااتباع ہوگا۔ ؟
تو اس میں جو مسائل قرآن وسنت کےمطابق ہیں ان میں صحابہ کرام کی پیروی کرنا دراصل قرآن وسنت کی ہی پیروی کرنا ہے لہذا یہ اتباع ہے نہ کہ تقلید ۔
اور جن مسائل میں قرآن وسنت کے موافق نہیں ہیں ان میں ان کی بات ماننا اتباع نہیں ہے ۔ بلکہ ایسی صورت میں ان کی بات کو چھوڑ دیا جائے گا ۔
آپ اپنی خود کی بات بھول ہوگئے کہ مسائل دوقسم کے ہیں۔وہ جس میں واضح نصوص نہیں ہیں اورفقہاء کو اپنے اجتہاد سے کام لیناپڑتاہےاس میں ایک عام آدمی اس کی تمیز کیسے کرے گاکہ ان کی رائے قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہے۔

عہد رسالت مآب اوراس کے بعد کے قریبی زمانہ میں تویہ سہولت تھی کہ ایک شخص نے اپنی رائے سے ایک فتوی بیان کیااوربعد میں واضح طورپر معلوم ہوگیاکہ حدیث رسول اس کے برخلاف ہے تو یہاں معاملہ صاف ہے۔لیکن بعد کے ادوار میں توثبوت حدیث بھی ایک اہم امر ہے اورا سکی بھی لمبی چوڑی بحثیں ہیں۔
جس کے بارے میں ہم بحث کررہے ہیں وہ یہ کہ معاملہ اگر مختلف النوع حدیثوں کاہے۔یاپھراس معاملہ میں کوئی حدیث ہی نہیں ہے ۔توایسے میں عامی کیسے معلوم کرے گاکہ ہم نے جس مفتی سے پوچھاہے اس نے صحیح مسئلہ بتایایاغلط بتایاہے۔
ایک واضح بات کریں کہ ایک شخص حنفی مفتی حنفی کے پاس جاتاہے اورمسئلہ پوچھتاہے اوراس پر عمل کرتاہے
ایک اہل حدیث شخص اپنے مسلک کے مفتی کے پاس جاتاہے اورمسئلہ پوچھتاہے اوراس پر عمل کرلیتاہے۔دلیل دونوں میں سے کسی کو نہیں معلوم
تواس میں مقلد کون ہے اورمتبع کون ہے اورکیوں ہے؟


جو سمجھ آ سکا وہ لکھ دیا ہے اگر صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے او ر اگر غلط ہے تو یہ میری کوتاہی اور شیطان کی طرف سےہے ۔
اگر کوئی امر وضاحت طلب ہے یا کوئی بات غلط ہےتو اطلا ع ہونے پر اس کی وضاحت یا تصحیح کر نے کا انتظار رہے گا ۔
وضاحت طلب امور توبہت سے ہیں لیکن ضروری گزارش یہ ہے کہ جولکھیں محض وجدانی اورذوقی استنباط کو کافی نہ سمجھیں بلکہ کتب اصول فقہ سے اس کی تائید اورشہادت کے حوالے بھی قلم بند کریں۔ ورنہ ہمیں بھی اجازت دیں کہ آپ حضرات کے سوالات کے جواب میں اپنے وجدانی اورذوقی امور کوکام میں لائیں۔ والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
جمشید بھائی کی طرف سے کچھ سوالات اٹھائے گئے تھے جن کےجوابات حسب استطاعت قرآن وسنت کے مطابق لکھنے کی کوشش کی ۔ لیکن اس میں انہیں کچھ باتیں محل نظر محسوس ہوئیں تو اس حوالے سے کچھ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
جمشید بھائی لکھتے ہیں :

جس طرح آنجناب نے تقلید کی تعریف مختلف علمائے اصول کی کتابوں سے نقل کی ہے قاضی شوکانی اورعلامہ ابن ہمام۔ویسے ہی اتباع کی تعریف بھی نقل کریں محض اپنے وجدانی اورذوقی استنباطات سے ہمیں محظوظ نہ کریں۔
بھائی آپ نے شاید غور سے پڑھا نہیں ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں ہم اتباع کی تعریف باحوالہ پیش کی تھی :

دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی پیروی کرنا ۔
تفصیل کے لیے شوکانی کی القول المفید ( طبعۃ دار القلم ، الکویت ) ص 37 ملاحظہ فرمائیں ۔
شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب کا حوالہ اسی لیے دیا تھا ۔ آپ نے سمجھا کہ شاید یہ حوالہ تقلید کی تعریف کے سلسلے میں ہے ۔ ویسے قرآن کی آیت
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء
پر ہی غو ر کر لیا جائے تو اتباع اور تقلید دونوں کی تعریف اور حدود و قیود سمجھ میں آ جاتی ہیں ۔

آپ نے جو یہ لکھا کہ :

جس طرح آنجناب نے تقلید کی تعریف مختلف علمائے اصول کی کتابوں سے نقل کی ہے قاضی شوکانی اورعلامہ ابن ہمام۔
اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے عبارت کو غور سے نہیں پڑھا ۔ کیونکہ تقلید کی تعریف صرف ابن ہمام کے حوالے سے نقل کی گئی تھی ۔
مزید آپ نے فرمایا :
ان سارے احتمالات کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ مجھ سے پوچھ لیاہوتاتو واضح کردیتاہے کہ اتباع کی حدود وقیود سے مراد اتباع کی اصطلاحی تعریف تھی جس کی رو سے مجتہد اورمقلد سے امتیاز ہوسکے۔
بھائی آپ سے پوچھا تو تھا لیکن آپ برا مان گئے تھے ۔۔ ورنہ میرا سوال کرنے کامقصد تو یہی تھا تاکہ کھل کر آپ کی بات سامنے آجائے ۔۔ خیر جو ہوگیا سو ہوگیا ۔ ۔

مزید آپ نے لکھا :

ان سب میں ایک عام آدمی تو مجتہد کے ذریعہ استنباط کئے گئے حکم کی پیروی کرتاہے ۔بقول آپ کے وہ شخص جو عامی ہے اورتقلید نہیں کرتا اورقرآن وحدیث سے استنباط کی صلاحیت سے بھی عاری ہے وہ کیاکرے گا۔ اگراجتہاد کرے گا تو گنہ گار اورفاسق وفاجر ہوگا۔
یہاں آپ نے کہا کہ عامی شخص کے لیے کیا حکم ہے جو قرآن وسنت سے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کاجواب قرآن مجید میں موجود ہے کہ :
فاسئلوا أهل الذکر إن کنتم لا تعلمون
اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو
جو لوگ قرآن وسنت سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں عام لوگ ان سے مسائل پوچھ لیں گے ۔ اور یہ بات تو بالکل واضح ہے اہل علم میں شمار اسی کا ہوگا جو قرآن وسنت کے دلائل جانتا ہے اور لوگوں کو اسی کے مطابق مسائل بتاتا ہے ۔ یہاں سے تقلید ثابت نہیں ہوتی ۔ کیونکہ تقلید ہے :
ایسا شخص جس کا قول حجج (شرعیہ) میں سے نہیں ہے اس کے قول کے مطابق بلا دلیل عمل کرنا ۔
جیساکہ پہلے گزرا ۔ تو تقلید کی تعریف سے یہ بات ثابت ہے کہ مقلَد کا قول حجت شرعیہ میں سے نہیں ہے ـ اور جو چیز حجت شرعی نہیں ہے قرآن وسنت میں اس کی پیروی کاحکم بھی نہیں ہے
تو ثابت یہ ہوا کہ یہأں سے اہل علم وہی مراد ہیں جو قرآن وسنت کے مطابق مسئلہ بتاتےہیں ۔

جمشید بھائی مزید لکھتے ہیں :

دوسری شکل یہ ہے کہ دلائل پر غورکرے گااوردلیل کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔لیکن یہ چیز متبحر علماء کے ساتھ خاص ہے۔جب کہ ہماری بحث ایسے شخص کے بارے میں ہورہی ہے جوکہ عامی ہے۔اگریہ کہاجائے کہ اس کو فتویٰ دلیل کے ساتھ بیان کردیاجائے تو اولاتو ہم کو صحابہ کرام اورتابعین عظام کے فتاوی جات میں بہت سے ایسے فتاوی ملتے ہیں جو انہوں نے بغیر دلیل کے بیان کئے ہیں۔توکیااس کو ماننے والے مقلد کہے جاسکتے ہیں۔
تو عرض ہے ان کو ماننے والے مقلدین نہیں بلکہ متبعین ہیں کیونکہ یہ حضرات اہل الذکر میں شامل ہیں ۔ اور ان کی طرف مسائل میں اسی وجہ سے رجوع کیا جاتا تھا کے وہ قرآن وسنت کا علم رکھنے والے اور اس کے مطابق فتوی دیتے ہیں ۔ اور دلیل کے مطابق کسی کے فتوی پر عمل کرنا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے ۔
او راگر آپ کے نزدیک ان حضرات میں سے کوئی ایسا ہے کہ وہ قرآن وسنت کےخلاف فتوی دیتا تھا اور اپنی رائے کی طرف بلاتا تھا تو ایسے شخص کی بات ماننا ظاہر ہے تقلید ہے ۔
رہی یہ بات کسی مسئلہ میں ان حضرات سے غلطی ہوگئی تو پھر ان کی بات کوچھوڑ کر قرآن وسنت پر عمل کیاجائے گا ۔
یہاں دو ہی احتمال ہیں کہ صحابہ کرام و تابعیں عظام یا تو مسئلہ قرآن وسنت کی دلیل کی رو سے بتاتے تھے یا اس کےخلاف ۔
پہلی صورت میں یہ تقلید میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ تقلید تو بغیر دلیل کے کسی کی بات کو ماننے کانام ہے ۔
اور دوسری بات کا تصور کوئی مسلمان ان کے بارے میں نہیں کرسکتا ۔
رہی یہ بات کہ بعض مسائل میں بعض صحابہ کرام کو جو اجتہادی غلطیاں لگیں تو اس میں ان کی بات کو چھوڑ دیا جائے گا اور دیگر صحابہ کی بات کو مان لیا جائے گا جو دلیل کے مطابق ہیں ۔ واللہ أعلم ۔

آپ نے لکھا :

دوسرے یہ کہ صرف دلیل کا سننا کافی نہیں ہوتا دلیل کا سمجھنا بھی ضروری ہوتاہے ۔جیساکہ پہلے بھی لکھ چکاہوں کہ آئن اسٹائن کے نظریات انگلش میں نیٹ پر لکھے ہوئے مل جائیں گے لیکن کتنے لوگ اس کے سمجھنے کی لیاقت رکھتے ہیں۔لہذا اگردلیل بیان کربھی دی جائے تو محض سننے سے کیافائدہ ہوگا۔اگروہ اس کے سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتاہوگا۔
اگر اس سے مراد وہ شخص ہے جو قرآن وسنت کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کا جواب پہلےگزر گیا ہے کہ عامی شخص کیا کرے گا ۔۔۔ اور اگر آپ کی کوئی اور مراد ہے تو بیان کردیں ۔ ۔

آپ نے سوال کیا کہ اتباع کے مکلف کون لوگ ہیں ۔۔ جواب دیا گیا کہ اتباع کے مکلف تمام لوگ ہیں ۔ اس پر آپ نے تبصرہ کیا کہ :

یہ جواب ہمارے سوال کو صحیح طورپر نہ سمجھنے اورابن دائود کی تقلید یااتباع سے پیداہواہے۔
تو ہم آپ سےگزارش کرتےہیں کہ اس سوال کا جواب تین صورتوں میں محصور ہے
(١) تمام لوگ اتباع کے مکلف ہیں ۔
(٢ ) کوئی بھی اتباع کا مکلف نہیں ہے ۔
(٣) بعض لوگ مکلف ہیں
قرآن کی آیت اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم
کی رو سے پہلی صورت صحیح ہے ۔ جبکہ باقی دو صورتیں غلط ہیں اگر آپ کے نزدیک ہمارا جواب درست نہیں ہے تو پھر درست کیا ہے دلیل کےساتھ واضح کریں ۔

آپ لکھتے ہیں:

شرعی مسائل جو پیش آتے ہیں اس میں آپ کیاطریقہ کار اختیار کرتے ہیں
1: اجتہاد کرتے ہیں،
2: سابقہ علماء کی آراء پر تنقیدی نگاہ ڈال کر کسی ایک رائے کو اختیار کرتے ہیں
3: یاپھر کسی عالم کی تقلید کرتے ہیں۔
تو عرض ہے کہ شرعی مسائل میں ہم وہی طریقہ اختیار کرتے ہیں جس کا قرآن وسنت میں حکم دیاگیا مثلا :
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم و لا تتبعوا من دونہ أولیاء ۔
اور ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہا کم عنہ فانتہوا ۔
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ ۔


اور یہ آپ کی بتائی ہوئی پہلی دونوں صورتوں میں سے کسی کے ذریعے بھی ہو سکے یا دونوں کو اکٹھا کرکے ہو تو ہم کرتےہیں ۔ اور یہ وہی لوگ کرتے ہیں جو اس کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ صلاحیت رکھنےوالوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔
اور رہی تیسری صورت تقلید کی تو اس سے ہم کنارہ کشی کرتے ہیں اور اس کی دلیل پہلے گزر چکی ہے کہ ولا تتبعوا من دونہ أولیا ء

اور آپ نے تقلید اور اتباع کے درمیان بتائے ہوئے فرق پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ :

یہ کہاں سے آپ نے ثابت کیاکہ تقلید اللہ اوراس کے رسول کے غیر کی بات کو ماننے کا نام ہے؟
تو عرض ہے کہ ہم نے اوپر ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ کے الفاظ میں تقلید کی تعریف نقل کی ہے دربارہ پھر ملاحظہ فرمالیں :

العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها (تیسیر التحریر 4 / 241 ، لأمیر بادشاه الحنفی ، طبعة دارالفکر بیروت )
ایسا شخص جس کا قول حجج (شرعیہ) میں سے نہیں ہے اس کے قول کے مطابق بلا دلیل عمل کرنا تقلید ہے ۔
تو آپ ہی بتادیں کہ اللہ اور اس کے رسول کا قول حجت شرعیہ ہے کہ نہیں ؟
اور آپ ہی بتادیں کہ یہاں تقلید اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے کو کہا گیا ہے یا ان کے غیر کی ؟

ہم نے لکھا :

شریعت میں اتباع کا حکم ہے اور تقلید سے روکا گیا ہے ۔ ایک مامور بہ اور دوسرا منہی عنہ ہے ۔
اور آپ نے کہا :

یہ بھی بغیر دلیل اورحوالہ کے ہے۔
تو اس کی دلیل ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں دوبارہ پھر لکھ دیتے ہیں کہ :
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم میں اتباع کا حکم اور ولا تتبعوا من دونہ أولیاء میں تقلید سے منع کیا گیا ہے ۔

آپ نے کہا :

ایک عام آدمی کیلئے اس مشکل کا حل کیاہوگاکہ وہ کیسے معلوم کرے گاکہ مفتی صاحب نے جوہمیں بتایاہے وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یاغیرمطابق ہے؟
تو بھائی عرض ہے کہ یہ باتیں بالکل واضح ہوتی ہیں ہر دور میں اور ہر علاقہ میں ایسے علماء کو لوگ پہچانتے ہیں کہ کون قرآن وسنت کے مطابق فتوی دیتے ہیں اور کون اس کے خلاف کرتے ہیں ۔ اگر پھر بھی پتہ نہ چل سکے تو کسی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ میں مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں تو کس سے پوچھوں ۔ ۔ ۔
اگر پھر بھی اشکال حل نہ ہو تو ذرا ان کتابوں کا مطالعہ کر لیجیے جن میں تقلید کے ثبوت اور خاص کر تقلید شخصی کے ثبوت پر دلائل دیے گئے ہیں کہ کس طرح ایک عامی مقلِد اپنے مقلَد کے علم و فضل اور دینی مسائل میں مہارت کو پہچانے گا ۔

مزید لکھتےہیں :

سوال کا صاف جواب دیکھناسیکھئے۔خود کہہ چکے ہیں کہ مسائل دوقسم کے ہیں ایک وہ جس میں واضح نص ہے اوردوسراجس میں واضح نص نہیں ہے۔ وہ امور جس میں واضح نص نہیں ہے اوروہ فقہاء کے قرآن وسنت میں استنباط اوراجتہاد سے طئے ہوتے ہیں اس میں یہ فرق کرنا یہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یانہیں ہے کیاجاہلوں کاکام ؟
تو عرض ہے کہ
فقہاء نے ٹھیک کہا یا ان سے اجتہادی غلطی ہو گئی اس کا فیصلہ تو دلیل کے ذریعے ہی کیاجائے گا جس کا استنباط و اجتہاد مبنی بر دلیل ہو گا اس کی بات کو ماناجائے گا اور دوسرے کی بات کوچھوڑ دیا جائے گا ۔ کیونکہ اجتہاد بھی تو کسی نص کی بنا پر ہوتا ہے نا ؟ رہی یہ بات کہ ایک عامی شخص اس کا فیصلہ کیسے کرے گا ۔ تو اس کا جواب ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ وہ ان علماء سے رہنمائی لے گا جو فرق اور تمییز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ جس طرح ایک عامی حنفی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےاجتہادات کو سمجھنے کے لیے اپنے علماء سے مسائل پوچھتا ہے ۔ آپ مجھے کسی ایسے عامی حنفی کی مثال دےدیں جو براہ راست امام صاحب کے اقوال پر عمل کرتا ہو ۔

باقی آپ نےجو یہ لکھا کہ :

میرے خیال سے اس فورم پر ننانوے فیصد حضرات اس لیاقت سے عاری ہیں کہ وہ اجتہادی مسائل میں یہ طئے کرنے کی لیاقت رکھتے ہوں کہ کس کی رائے درست اورکس کی رائے مرجوح ہے۔اورآنجناب یہ حق عامیوں کو دینے چلے ہیں۔
تو اس کا آپ کی زبان میں تو شاید جواب کوئی اور بنتا تھا لیکن ہماری طرف سےیہی گزارش ہے کہ یہ آپ کی لا علمی اور غلط فہمی ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔

اسی طرح آپ نے فرمایا :

پھر آنجناب نے کمال یہ کیاہے کہ مفتی نے اگر خلاف سنت وقرآن بتادیااوراس کے بتائے ہوئے کے مطابق مستفتی نے عمل کرلیاتواس کو تقلید میں شمار کرلیاہے۔اگر عامی اتناعلم رکھتاتومفتی کے پاس جاتاہی کیوں اوراگر وہ لاعلمی سے عمل کررہاہے تویہ اتباع کیوں نہیں تقلید کیوں ہوگیا؟
تو ہم آپ سے معذرت کرتے ہیں کہ ہمارا یہ مقصد نہیں تھا اگر آپ ہماری سابقہ عبارات کو مدنظر رکھتے تو شاید یہ بات کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ بہر صورت ہم اپنی بات کو پھر بیان کردیتے ہیں کہ : اگر مفتی قرآن وسنت کے مطابق مسائل بتاتا ہو لیکن کسی مسئلہ میں اس سے غلطی ہو جائے اور مستفتی اس پر عمل کر لے تو اگر تو اس پر حق واضح نہیں ہو سکا تو اس میں اس کو مقلد نہیں کہا جائے گا ۔ اور اگر حق واضح ہو جانے کے باوجود وہ اسی مفتی صاحب کی بات پر مصر رہتا ہے تو ظاہر ہے یہ اتباع کے زمرے سے نکل جائے گا ۔

تقلید اور اتباع میں فرق کےحوالے سے آپ لکھتے ہیں :

ایک عامی شخص حنفی مفتی سے فتوی پوچھتاہے اوردلیل طلب نہیں کرتا اورعمل کرلیتاہے توآپ اس کوتقلید شمار کرتے ہیں ۔ایک اہل حدیث شخص اپنے مفتی سے فتوی پوچھتاہے اوردلیل نہیں پوچھ کر صرف اس کے بتائے ہوئے عمل کرلیتاہے تواس میں متبع کون ہے اورمقلد کون ہے اورکیوں ہے۔؟اس کی وضاحت توضروری ہے نامیرے بھائی۔
ایسی صورت حال میں متبع اور مقلد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ :

مقلِد کا مطمح نظر اپنےمقلَد کا قول ہوتا ہے جبکہ متبع کے پیش نظر قرآن وسنت کا حکم تلاش کرنا ہوتاہے ۔
اسی طرح متبعین کے مفتی سے اگر دلیل پوچھی جائے تو وہ دلیل بتادیتا ہے اگر اس سے غلطی ہو جائے اور ا س کی وضاحت کی جائے تو وہ رجوع بھی کرلیتا ہے جبکہ مقلدین میں یہ سب چیزیں بہت بڑی جسارت سمجھی جاتی ہیں ۔
اسی طرح اہل حدیث حضرات کے اکثر فتاوی جات قرآن و سنت کے دلائل سے مزین ہوتے ہیں جبکہ مقلدین کے فتاوی جات شرعی دلائل کی بجائے اقوال آئمہ سے بھرپور ہو تے ہیں ۔
اور آپ کا یہ فرمانا کہ :

جو اہل حدیث مفتی ہے وہ قرآن وسنت کے مطابق جواب دیتاہے اورجوحنفی ہے وہ قرآن وسنت کے خلاف جواب دیتاہے ؟
تو اس کا جواب ’’ ہاں ‘‘ میں ہے ۔ لیکن تھوڑے سے اضافے کے ساتھ کہ : غالب یہی ہے لیکن بعض حالات میں اس کے عکس کا انکار نہیں کیاجا سکتا ۔ ایسی صورت میں پیروی اسی چیز کی جائے گی جو مبنی بر دلیل ہے ۔ واللہ أعلم ۔

آخر میں لکھتے ہیں کہ :
براہ کرم ایک مرتبہ دوبارہ میرے سوال پر نظرڈالیں اورپھر لکھیں اورگزارش یہ ہے کہ جولکھیں دلیل اورحوالوں کے ساتھ لکھیں۔ محض اپنے وجدانی استنباط کو راہ نہ دیں اوراگراسی پر مصر ہیں توپھر جب ہم اپنے وجدانی استنباط سے جواب دیں گے تواس پر اعتراض مت کیجئے گا۔
تو ہم عرض کرتےہیں کہ جو کچھ دلیل کے مطابق محسوس ہوا وہی لکھا ہے اور جہاں دلیل کی ضرورت تھی بیان کردی ہے ۔ اس کے باوجود بھی اگر آپ کو کسی جگہ دلیل نظر نہیں آتی تو آپ اس کی نشاندہی کردیں تاکہ دلیل بیان کی جاسکے ۔۔
باقی آپ نے جو ہمیں تنبیہ کی ہے کہ ہم بھی اپنے وجدانی استباط سے ۔۔۔ الی آخر ہ ۔۔۔۔ تو آپ سے گزارش ہے جس چیز کوآپ حق سمجھتے ہیں چھپا کر نہ رکھیں بلکہ کھل کر لکھیں اگر بات ٹھیک ہوئی تو آپ کی بات کی تائید کریں گے اور اگر کہیں غلط ہوئی تو اس پر آپ کو تنبیہ کریں گے ۔۔

والسلام ۔

توجہ فرمائیں : جمشید بھائی نے دو حصوں میں جواب لکھا تھا لیکن بعد میں دیکھا کہ انہوں نے پہلے حصے کو حذف کردیا شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں میں باتیں ایک جیسی ہی تھیں ۔
تو یہ جواب پہلے حصے کا ہے ۔ او راگر یہأں کوئی ایسی بات کا جواب ہے جو جمشید بھائی کی موجودہ مشارکت میں موجود نہیں تو اس کے لیے بھی معذرت خواہ ہیں کیونکہ ہم نے جواب ان کی پہلی مشارکت کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے لیکن بعدمیں دیکھا گیا ہےکہ انہوں نے أپنے دوسرے حصے میں بعض ایسی چیزوں کو حذف کردیا ہے جو کہ پہلے میں تھیں ۔ہاں دوسرے حصے میں اگر کوئی نئی بات ہوئی تو اس کا جواب دے دیا جائے گا ۔
 
Top