السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
محترم بھائی اللہ مجھے او رآپ کو حق بات کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
بات لمبی سے لمبی ہوتی جارہی ہے ۔ اس طوالت کا سبب کیا ہے ؟ اس کو تلاش کرنا شاید مزید طوالت کا سبب بنے لہذا صرف اتنی گزارش ہے کہ اب میں ما سبق بار بار نہیں دہراؤں گا ۔ البتہ آپ کی طرف سے کوئی نئی قابل توجہ بات ہوئی تو اس پر ملاحظات رکھنے کی کوشش کروں گا ۔
یہ اچھی بات ہوگی کہ آپ دوہرائی ہوئی باتوں کو نہیں دوہرائیں گے۔یہی مشکل مسئلہ تویہاں پر ہے کہ آپ کوئی نئی بات نہیں کرتے ہیں اورشروع سے جوآپ نے اتباع اتبعواماانزل الیکم کی لائن پکڑی ہے اس کی خامیاں واضح کردینے کے باوجوداپنے موقف پر نظرثانی کیلئے تیار نہیں ہیں۔
میں نے اتباع کی تعریف یا تعارف میں جو بات رکھی وہ قرآن اور سنت کے دلائل کے ساتھ آپ کے سامنےرکھی لیکن آپ نے پھر بھی اس کو خانہ زاد یا طبع زاد جیسے کلمات سے متصف کیا ہے ۔جبکہ اتباع کی دو حثیتیں بیان کرتے ہوئے آپ نے نہ تو قرآن و سنت سے کوئی نص پیش کی اور نہ ہی کسی امام کی طرف اس کا انتساب کیا بلکہ یوں کہنا کافی سمجھا کہ یہ’’ جگ ظاہر ‘‘ ہے ۔
سابقہ مراسلات میں یہ بات تفصیل سے بیان کی جاچکی ہے کہ صرف قرآن کی آیت یاحدیث پیش کردیناکافی نہیں ہواکرتاہے اس سے آپ کااستدلال کس طورپر بن رہاہے وہ بھی واضح کرناضروری ہے۔آپ کی پیش کردہ آیت اتباع کے تعریف پر قطعاغیرقابل قبول ہے کیونکہ اس میں یہ توبتایاگیاہے کہ ماانزل الیکم کی اتباع کی جائے لیکن یہ قطعانہیں معلوم ہوتاکہ نفس اتباع کیاہے اورماانزل الیکم کے اتباع کی شکل کیاہوگی۔جس طرح کہ ہمیں قرآن مین نماز روزہ حج ودیگر احکام کی آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ فلاں حکم پر عمل کرنا ضروری ہے لیکن وہ فلاں حکم کی نفس حقیقت اورماہیت کیاہے وہ ان آیات سے نہیں معلوم ہوتیں۔
ایک اور بات جو آپ کی گزشتہ چند مشارکات سےسامنے آرہی ہےکہ آپ نے اس بات کا اقرار ( یا اظہار ) کر لیا ہے کہ مجتہد اتباع کرے گا لیکن عامی تقلید کرے گا ۔
آپ کا یہ رویہ چند اعتبارات سے قابل غور ہے :
� کسی آیت یا حدیث سے یہ تفریق ثابت ہے کہ مجتہد اتباع اور عامی تقلید کرے گا ۔ کوئی دلیل پیش کریں ۔
� مجتہد اتبا ع کرے گا تو اتباع کی بیان کردہ دو حیثیتوں میں سے کون سی حیثیت سے اتباع کرے گا ۔ اور اس کی دلیل کیا ہے؟
� کیا امام صاحب کے بعد کو ئی مجتہد آیا ہے جس کے لیے اتباع کرنا جائز ہے ؟ یعنی آپ کے نزدیک آج کے زمانے میں کوئی مجتہد ہو سکتا بھی ہے کہ نہیں ؟ یا پھر ایسے ہی نظری باتیں کر رہے ہیں ؟
آپ جب کسی دوسرے کے لفظ کو صحیح طورپر ادانہیں کرسکتے تواس کو کوٹ کرلیاجائے یہ بہتر طریقہ ہے۔ دوسرے کے بات میں اپنی بات اوراپنے خیالات ملانا درست نہیں ہے۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہاکہ مجتہد اتباع کرے گا اورعامی تقلید کرے گا۔میرے مراسلات دیکھ لیں کہ میں نے کہاہے کہ مجتہد کیلئے اتباع کی شکل اجتہاد کی ہے اورعامی کیلئے اتباع کی شکل تقلید ہے۔
ویسے آپ نے جتنے بھی سوالات کئے ہیں۔اس کا جواب اس سوال کے بعد ہی بنتاہے کہ اتباع کی تعریف کیاہے۔ورنہ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ اسی ذکرکردہ حربہ کی ایک شکل ہے کہ سوال کے جواب سے بچنے کیلئے مزید سوالات کردیئے جائیں۔آپ اتباع کی تعریف کریں اورسابقہ علماء کے حوالوں سے بھی اس کو مزین کریں۔ ورنہ ہم اس کو خانہ ساز بلکہ بلکہ خانہ زاد اوراس سے بھی آگے بڑھ کر طبع زاد سمجھنے پر مجبور ہوں گے۔
ایک اور بات جو آپ کی طرف سے سامنے آئی ہے کہ عامی کا تقلید کرنا ہی اس کے لیے اتباع ہے ۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا :
ہمارے نزدیک تقلید کرنے والابھی غیرمتبع نہیں ہیں اورنہ ہی اجتہاد کرنے والا۔ بلکہ دونوں اتباع ہی کررہے ہیں۔ایک استنباط کے ذریعہ اوردوسرااہل علم سے سوال کے ذریعہ۔ یہاں آپ نے اتباع اور تقلید کو ملا دیا ہے حالانکہ اتباع اللہ اور اس کے رسول کی بات کو ماننا ہے جبکہ تقلید اللہ اور اس کے رسول کے غیر کی بات کو ماننا ہے ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکےہیں ۔ اگر آپ کے نزدیک اتباع کی کوئی ایسی تعریف ہے جس میں تقلید بھی شامل ہے یا تقلید کی کوئی ایسی تعبیر ہے جو اتباع ہی ہے تو اس حوالے سے کوئی تعریف بیان کریں ۔
یہ بات بھی آپ کی غلط ہے کہ ہم نے ایساکہاہے ۔ علامہ شاطبی نے اپنے فتاوی میں بیان کیاہے کہ عامی کیلئے مجتہدین کے اقوال شرعی دلائل کی مانند ہیں اسی طرح ابن عبدالبر ،خطیب بغدادی اوردیگر بہت سارے علماء نے آیت فاسئلوا اہل الذکر سے تقلید ہی مراد لیاہے۔ توعامی کیلئے اتباع کی شکل تقلید ہی کی ہوئی نا۔
آپ نے جومطالبہ کیاہے اس کا جواب دے دیاگیا
دوسرامطالبہ کہ آپ کے نزدیک اتباع کی کوئی ایسی تعریف ہے جس میں تقلید بھی شامل ہے یاتقلید کی کوئی ایسی تعبیر ہے جواتباع ہی ہے تواس حوالے سے کوئی تعریف بیان کریں۔
اس کو ہم اتباع کی تعریف سے جان چھرانے کی ایک ترکیب اورگریز کی ایک کوشش سمجھنے پر مجبور ہیں۔ پہلے آپ اتباع کی تعریف اوردیگر سوالات جو تھریڈ کے پہلے پوسٹ میں کئے گئے ہیں۔اس کا جواب دے دیں پھراس کے بعد اپنے سوالات رکھیں۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ آدھے ادھورے جواب دے کر بغیر کسی کے حوالہ کے یہ سمجھاجائے کہ ہم نے توجواب مکمل دے لیاہے؟
اسی طرح آپ کی ایک غلط فہمی یہ ہے کہ شاید ہم عامی کو جب اتباع کی تلقین کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ براہ راست قرآن وسنت کو بغیر کسی رہنمائی کے سیکھے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ چاہے عوام ہوں یا علماء ہر ایک ما سبق علماء سے رہنمائی لیتے ہیں البتہ ہر ایک کا استفادہ کرنے کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے ۔ اور یہ تقلید نہیں ہے بلکہ اس میں اور آپ کی ’’ تقلید ‘‘ میں بڑا واضح فرق ہے ۔ اگر آپ بات آگے چلنے دیں تو ان شاء اللہ مثالوں کے ساتھ واضح کیا جا سکتا ہے ۔
آپ کے نزدیک عامی کامفہوم کیاہے یہ ہماراسوال قطعانہیں ہے ۔فی الحال جوموضوع زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ اتباع کی تعریف کیاہے۔جب اتباع کی تعریف آپ کردیں گے ۔جوواقعتاتعریف ہوتو پھر اسی سے انشاء اللہ دوسری گتھیاں بھی سلجھ جائیں گی اورخواہ مخواہ یہاں وہاں سرمارنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
آپ نے جو بعض گمراہ لوگوں کی صراحتا یا اشارتا مثال دے کر یہ الزام دینے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح تم اتباع کا دعوی کرتے ہو وہ بھی ا تباع کا دعوی کرتے ہیں لیکن خود کو متبع اور ان کو گمراہ قرار دیتے ہو ۔تو یہ اعتراض بھی آپ کا بالکل بے معنی ہے کیونکہ ہم تقلید کا رد کرتے ہیں لیکن قرآن وسنت کو سلف صالحین کے فہم صحیح کے مطابق سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں اور ایسے لوگ جو قرآن وسنت سے غلط معنی مراد لیتے ہیں ہم ان کی بھی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ مقلدین اور اس طرح کے مجتہدین میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے قرآن وسنت کی مخالفت فرق یہ ہے کہ پہلا گروہ کسی اور کے قول کا بہانہ کرکے شعوری یا لا شعوری طور پر مخالفت کرتے ہیں جبکہ دوسرا گروہ خود اپنی غلط تأویلات کی وجہ سے قرآن وسنت کے صحیح فہم سے محروم ہے ۔جب ہم کہتے ہیں کہ ہم سلف صالحین کے فہم کے مطابق قرآن و سنت پر عمل کرتے ہیں تو ہم ان دونوں گروہوں سے بری ہیں مقلدین سے اس لیے کہ وہ قرآن وسنت پر عمل نہیں کرتے بلکہ سلف میں سے چند لوگوں کو خاص کرلیتے ہیں اور ان کے نزدیک یہی قرآن وسنت ہے کیونکہ ان کے نزدیک مقلد کی دلیل قرآن وسنت نہیں بلکہ بعض آئمہ کے اقوال یا بعض مجتہدین کے اجتہادات ہیں ( جبکہ باقی سب کو چھوڑ دیتے ہیں )اور متجددین سے اس لیے کیونکہ وہ سرے سے سلف صالحین کے فہم کے قائل ہی نہیں ہوتے ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ اولاتو فہم سلف وصالحین ایک نہایت مخدوش اصطلاح ہے جس کی نہ کوئی حد متعین ہے اورنہ کوئی قاعدہ وضابطہ ۔جس کا من چاہتاہے فہم سلف وصالحین کا استعمال شروع کردیتاہے؟سلف صالحین کن کو ماناجائے گا۔ صرف صحابہ کرام کو تابعین کو یاتبع تابعین تک کو اسی میں بڑااختلاف ہے۔پھر فہم کی بات تواس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔لیکن اس بحث کو یہیں پر ختم کردیجئے کیونکہ پھر تھریڈ کاموضوع ہی تبدیل ہوجائے گاجو کہ اتباع کی تعریف اوردیگر سوالات سے متعلق ہے۔جہاں تک خود کے قرآن وسنت کا ٹھیکیدار بننے کی بات ہے توجیساکہ عرض کرچکاہوں کہ دل کو خوش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حنفیہ کو اگراہل الرائے مان کر قابل اعتنانہ سمجھیں تو شافعیہ مالکیہ اورحنابلہ نے بھی عامیوں کیلئے تقلید کو ہی ضروری قراردیاہے یقین نہ آئے توان کی اصول فقہ کی کتابیں اٹھاکر دیکھ لیں ۔اگراس زحمت کی تاب نہ ہو تو اہل الرائے میں میری پوسٹ ملاحظہ کرلیں۔
اب یہ تو قطعاتسلیم نہیں کیاجاسکتاکہ حنفیہ شافعیہ مالکیہ حنابلہ توغلط کہہ رہے ہیں اورایک فرقہ شاذہ قلیلہ بزعم خود درست ہے اوراس لئے درست ہے کہ وہ قرآن کی دہائی دیتاہے یاحدیث کی دہائی دیتاہے یاسلف صالحین کی دہائی دیتاہے۔
آ
پ نے پہلے بھی بار بار یہی بات کی کہ عامی چونکہ علوم دینیہ سے واقف نہیں ہوتا اس لیے وہ دلیل کے صحیح یا غلط ہونے کی کس طرح پہچان کرے گا نتیجتا اس کو کسی کی تقلید کر لینی چاہیے ۔آپ کی اس بات کا جوا ب بھی ایک سے زیادہ مرتبہ دے دیاگیا ہے دوبارہ پھر ملاحظہ فرمائیں اور سمجھنے کی کوشش کریں ۔
جب آپ کہتے ہیں کہ عامی دلیل نہیں سمجھ سکتا لہذا وہ اتباع بھی نہیں کر سکتا چنانچہ اس کا حل یہ ہے کہ وہ تقلید کر لے ۔آپ کی یہ بات کئی اعتبار سے قابل غور ہے مثلا جب آپ اس کو تقلید کا پابند کرتے ہیں تو دو صورتیں ہیں
اولا :یا تو آپ اس کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کا پابند کریں گے ۔ اس صورت میں چند باتیں قابل ملاحظہ ہیں :
� امام صاحب نے ہر مسئلے میں کلام تو کیا نہیں جن مسائل میں امام صاحب نے کلام نہیں کیا ان مسائل میں وہ کس طرف جائے گا ؟
� مان لیں کہ جو مسئلہ اس کو پیش آیا ہے اس مسئلہ میں امام صاحب کا قول موجود ہے لیکن جو شخص قرآن و سنت کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا کیا کتب فقہ کے انداز سے وہ واقف ہو گا ؟
� اگر آپ کہیں گہ کہ وہ کسی عالم کی طرف رجوع کرے جو اس کو امام صاحب کے اقوال سمجھائے ۔ تو ہم عرض کریں گے کہ یہی رجوع قرآن وسنت کو سمجھنےکے لیےکیوں نہیں کیاجاتا ؟
ثانیا :یا پھر آپ کہیں گے کہ نہیں ہم اس پر امام صاحب کی نہیں بلکہ آج کے کسی عالم کی تقلید واجب کرتے ہیں جو وہ کہے اسی بات پر وہ بغیر کسی دلیل کے عمل کرے گا ۔ تو ایسی صورت میں آپ جو کہتے ہیں کہہ ہم پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلیدواجب ہے یہ بات مستقیم نہیں رہتی اور اسی طرح ایسے شخص کو پھر حنفی نہیں بلکہ اس کو اسی شخص کی طرف منسوب کرنا چاہیے جس کی تقلید آپ نے اس پر واجب کی ہے مثلا ’’ انوری ‘‘ ، صفدری وغیرہ وغیرہ ۔
اور یہ دو صورتیں بھی احتمالا پیش کی ہیں حالانکہ اصلاتو یہ ہےکہ اتباع کا قرآن میں حکم ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ شریعت ایسے امر کا حکم دے دے جس کا انجام دینا ہی محال ہو ۔ فتدبر واللہ یتولاک ۔
فرضی صورتیں آپ وضع کرتے ہیں اوربڑی خوبصورتی سے وضع کرتے ہین اورخواہ مخواہ ہمیں اہل الرائے کہتے ہین جب کہ اس کے زیادہ مستحق توآپ ہیں(ابتسامہ)
ہم جب عامی کو اجتہاد سے منع کرتے ہیں تواس کو اس سے بھی منع کرتے ہیں کہ وہ کتب فقہ سے براہ راست استفادہ بغیر علم ولیاقت کے شروع کردے کیونکہ ہرفن کی اپنی اصطلاحات اورتعبیرات ہوتی ہیں جب تک کوئی اس سے آگاہ نہ ہو اس سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہوگا بلکہ الٹاسمجھے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم عامی حضرات سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے موثوق یاقابل بھروسہ عالم دین سے فتویٰ پوچھے ۔کتب فقہ میں جہاں پر تقلید کا مسئلہ مذکور ہوتاہے اگروہاں اب تک نظردوڑانے کی توفیق نہیں ہوئی ہے تودیکھ لیجئے کہ وہاں بھی یہی کہاگیاہے کہ عامی تواصل میں مفتی کا ہی مقلد ہوتاہے لیکن چونکہ مفتی براہ راست خود اجتہاد نہیں کرتا بلکہ بیشتر صورتوں مین وہ امام ابوحنیفہ کے اقوال سے استفادہ کرتاہے اس لئے اس کو امام ابوحنیفہ کا مقلد کہاجاتاہے ۔اسی سے آپ کے بیان کردہ تمام ذکر کردہ صورتوں کابھی جواب ہوجاتاہے فردافرداہرشکل وصورت کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ویسے تنبیہایہ عرض ہے کہ پہلے اتباع کی تعریف کا جواب دینے کی کوشش کریں ۔سوال سے بچنے کے ذیلی اورعقبی راستے تلاش نہ کریں۔
آئینہ ان کو دکھایاتو برا مان گئے
ذرا ملاحظہ فرمائیں آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
اگرآدمی صاحب علم ونظرہے تواس کیلئے اتباع یہ ہے کہ وہ خود سے اجتہاد کرے۔ اگراجتہاد کی صلاحیت سے متصف نہیں ہے۔لیکن دلائل مین غوروفکر کرسکتاہے تواس کوجودلائل سے راجح معلوم ہواس پر عمل کرے اس کیلئے یہی اتباع ہے ۔(نوٹ:حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں تقلید کی نفی کرنے کے بعد کہ آدمی اتباع کرے گا۔ اوراس پر دلائل دینے کے بعد آخر میں عوام کیلئے تقلید کی ضرورت کومحسوس کیاہے۔اس سے بھی پتہ چلتاہے کہ ان کے نزدیک اتباع اہل علم کاکام ہے۔ عامیوں کاکام نہیں ہے)اوراگراس کی بھی صلاحیت سے محروم ہے تو وہ تقلید کرے ۔یہی اس کے حق میں اتباع ہے۔یہ توہماراموقف ہے جو میں کئی مواقع پر ظاہر کرچکاہوں
یہاں آپ نے لوگوں کی تیں اقسام بیان کی ہیں پہلی قسم کے لوگ آپ کے نزدیک مجتہدین تیسری قسم کے لوگ مقلدین اور اس کے درمیان میں ایک اور قسم آپ نے بیان کی ہے جو نہ مقلدین ہیں اور نہ ہی مجتہدین ۔ لگتا ہے آپ اس کو متبعین کہنا چاہتے تھے لیکن احتیاطا صرف نظر کر گئے ہیں ۔ ( ابتسامہ )
قطع نظر اس کے کہ آپ کی یہ تقسیم کیسی ہے ذرا ملاحظہ فرمائیں اپنی ایک اور عبارت :
کتب اصول فقہ میں اتباع کی تعریف الگ سے مذکور نہ ہونے کی وجہ سے بداہتایہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ لوگ صرف دوکٹیگری کے قائل تھے ۔یاتوآدمی مجتہد ہوگا یامقلد ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے اتباع کی تعریف بھی نہیں کی ہے۔جیساکہ میں نے اہل الرائے کی بحث میں مالکیہ،شافعیہ اورحنابلہ کی کتابوں سے نقل کیاہے کہ لوگوں کی دوقسمیں ہیں یاتومجتہد یامقلد ۔
یہأں آپ بڑے دعوی سے نقل کرآئے ہیں کہ لوگوں کی صرف دو ہی قسمیں ہیں ۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے ؟ وہذا غیض من فیض ۔۔۔ فلینبغی للإنسان أں یتنبہ ۔
ہم نےآپ کی تحریر سے دلیل پیش کردی ہے اور دعوی آپ خود سمجھ جائیں گے ۔ لیکن آپ نے دعوی پیش کردیا ہے کہ :
میراخیال ہے کہ آپ کا ذہن خود اس بارے میں واضح نہیں ہے کہ اتباع کیاہے۔ اسی لئے آپ مذکورہ الجھاؤ اورکنفیوژن کاشکار ہورہے ہیں۔اورپڑھنے والوں کوبھی اسی الجھن میں مبتلاکررہے ہیں۔جب کوئی بات قائل کے ذہن میں واضح نہ ہو تواس کا اظہار تحریر اورتقریر کی بھی شکل میں ہواکرتاہے۔ گزارش ہے کہ پہلے اپنے ذہن کو اتباع کے تعلق سے صاف کرلیں۔
آپ نے شاید میری بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔یہ بات میں متعدد مواقع پر صاف کرچکاہوں کہ اوراگرفقہ حنفی کی کتابوں سے کچھ اشتغال اورمعلومات ہیں تووہاں دیکھ لیں مثلارسم عقود المفتی،یادیگر کتابیں جہاں مجتہدین کے طبقات بیان کئے گئے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی عقدالجید بھی دیکھ لیں۔حدیث دل میں میں نے اپنے اہل حدیث ہونے اورپھر حنفی ہونے کی جوبات بیان کی ہے اس کوبھی دیکھ لیں۔مولانا تقی عثمانی کی تقلید کی شرعی حیثیت میں بھی متبحر فی المذہب کی بحث پڑھ لیں۔ایک مجتہدہے جو ادلہ شرعیہ سے مسائل کا استنباط کرے گا۔ایک مقلد ہے جو مجتہدین کے اقوال پر عمل کرے گا۔بقول شاطبی کے مجتہدین کے اقوال ہی اس کیلئے دلائل شرعیہ کے مانند ہیں۔تیسرے نمبر پر وہ متبحر فی المذہب جس کو ایک طرف دلائل شرعیہ سے بھی اچھی واقفیت ہے دوسری طرف متجہدین کے اقوال ،ان کے وجوہ اورتخریجات میں بھی درک حاصل ہے۔ اس کو اگرلگتاہے کہ مجتہد کاکوئی قول قرآن وحدیث کے خلاف ہے تووہ مجتہد کے قو ل کو چھوڑ کر قرآن وحدیث کی پیروی کرلے۔یہی بات ابن عبدالبرنے بھی کہی ہے اوراس کوانہوں نے اتباع سے بھی تعبیر کیاہے۔انہوں نے اولاتو تقلید کی نفی پر دلائل دیئے پھربعد مین عامیوں کیلئے تقلید کا اثبات کیااورآیت پیش کی فاسئلواااہل الذکر ان کنتم لاتعلمون اس سے واضح ہے کہ وہ تقلید کی نفی ان لوگوں کیلئے کرتے ہیں جو عامی نہیں ہیں۔
کتب اصول فقہ میں اتباع کی تعریف الگ سے مذکور نہ ہونے کی وجہ سے بداہتایہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ لوگ صرف دوکٹیگری کے قائل تھے ۔یاتوآدمی مجتہد ہوگا یامقلد ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے اتباع کی تعریف بھی نہیں کی ہے۔جیساکہ میں نے اہل الرائے کی بحث میں مالکیہ،شافعیہ اورحنابلہ کی کتابوں سے نقل کیاہے کہ لوگوں کی دوقسمیں ہیں یاتومجتہد یامقلد ۔
آپ نے شاید میری بات پر غورنہیں کیاکیونکہ طبقات مجتہدین کے تعلق سے شاید آپ کی معلومات نہایت محدود ہیں۔!جب ہم بنیادی اعتبار سے بات کرتے ہیں تو دوہی اقسام ہوتی ہیں۔ مقلد مجتہد پھر جب ہم تفصیل جاتے ہیں تو ایک درمیانی شکل متبحرفی المذہب کی آتی ہے۔جب اس سے زیادہ تفصیل میں جاتے ہیں تومجتہدین کے دیگر طبقات ہمارے سامنے آتے ہین جیساکہ مجتہد مطلق منتسب،اصحاب تخریج،اصحاب وجوہ ودیگر۔