بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
وضاحت کر دی گئی ہے احادیث نبوی کی روشنی میں --- ملاحظہ کر لیجیے پھر سے !
و السلام
آپ حضرات ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس کے آخری حصہ کا خلاصہ کہ جب ایک صحابی نے پوچھا کہ اگر (اُس وقت) مُسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ہی کوئی اِمام (تو میں کیا کروں)، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اُن تمام فرقوں سے بالکل الگ رہنا خواہ تُمہیں(تنہا زندہ رہنے کے لیے)درخت کی جڑ چوسنا پڑے(اِسی طرح اپنا وقت گذارلینا) یہاں تک موت تمہیں آن لے اور تُم اِسی حال میں ہو)))
اسی تناظر میں میں نے پوچھا تھا کہ اگر حاکم شرعی یا امیر نہ ہو تو کیا کرے. حدیث کے مطابق ایسے مسلم کو تمام فرقوں سے الگ رہنا چاہیے۔ خواہ اس کے لیئے درخت کی جڑ چوسنی پڑے. اس حدیث کی روشنی میں کیا مسعود صاحب کے وقت کوئی حاکم شرعی تھا اگر تھا تو کیا انہوں نے ان کی بیعت کی. اگر نہیں تھا تو کس حدیث کی رو سے وہ جماعت المسلمین رجسٹرڈ کروا کے اس کے امیر بن گئے.
ویسے لچھے دار باتیں بہت کر لیتے ہیں لیکن جب کوئی مسائل پوچھے جائیں کہ بغیر قیاس کہ بتائیں تو آپ لوگ یا تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا کہتے حدیث بار بار دیکھو بات سمجھ آجائے گی. مجھے صرف اتنا بتادیں کس حدیث کی روشنی میں آپ کے مسعود صاحب امیر جماعت المسلمین بن گئے.