• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجماعِ اُمت حجت ہے

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
9۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
" وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ"(سورۃ البقرۃ:۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں اُمت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔
اس آیت کی تشریح میں ابو حیان محمد بن یوسف الاندلسی(متوفی ۷۴۵ھ) نے کہا:
’’ وقیل : معناہ لیکون اجماعکم حجة‘‘(البحر المحیط ج۱ص۵۹۵)
اور کہا گیا ہے: اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا اجماع حجت ہو۔
امام بخاری نے آیتِ مذکورہ کے بعد لکھا ہے :
’’ وما أمر النبیﷺ بلزوم الجماعة وھم أھل العلم‘‘ (صحیح بخاری ۲؍۱۰۹۲ قبل ح۷۳۴۹، فتح الباری۱۳؍۳۱۶)
اہل علم سے مراد اہل السنۃوالجماعۃ کے علماء ہیں۔ (فتح الباری ۱۳؍۳۱۶)
کرمانی نے کہا:
’’مقتضی الأمر بلزوم الجماعة یلزم المکلف متابعة ما أجمع علیہ المجتھدون وھم المراد بقولہ: وھم أھل العلم۔ والآیة التی ترجم بھا احتج بھا أھل الأصول لکون الاجماع حجة...... ‘‘(فتح الباری ۱۳؍۳۱۶۔۳۱۷)
جماعت لازم پکڑنے کے حکم کا تقاضا یہ ہے : (ہر) مکلف پر یہ ضروری ہے کہ جس پر مجتہدین کااجماع ہو اس کی اتباع کرے اور اہلِ علم کے قول سے یہی مراد ہیں۔ امام بخاری نے جوآیت ترجمۃ الباب میں ذکر کی ہےاُس سے اہلِ اصول نے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
10۔ سیدنا الحارث الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" فإنہ من فارق الجماعة قید شبر فقد خلع ربقة الاسلام من عنقہ إلاأن یرجع "(سنن ترمذی :۲۸۶۳، وقال: ’’ ھذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘ وسندہ صحیح ، الشریعہ للآجری۱؍۲۸۷وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ ص۸،اضواء المصابیح اردو ج۱ص۲۴۸)
بے شک جو شخص بالشت برابر جماعت سے دُور ہوا تو اس نے اسلام کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکا ، اِلا یہ کہ وہ رجوع کرے یعنی واپس آ جائے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اجماع شرعی حجت ہے۔


11۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ تین آدمیوں کا قتل جائز ہے:
(۱) قاتل (۲) شادی شدہ زانی (۳) اور ’’والتارک لدینہ المفارق للجماعة ‘‘ (صحیح مسلم :۱۶۷۶ترقیم دارالسلام:۴۳۷۵واللفظ لہ صحیح البخاری :۶۸۷۸)
اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے:
’’ ومخالف الاجماع داخل فی مفارق الجماعة‘‘(فتح الباری ج۱۲ص۲۰۴)
اور اجماع کا مخالف مفارق الجماعہ(کے مفہوم ) میں داخل ہے۔

12۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری اُمت کا ایک طائفہ(گروہ) ہمیشہ حق پر غالب رہے گا۔الخ (صحیح مسلم ح۱۹۲۰، ترقیم دارالسلام :۴۹۵۰)
اس کی تشریح میں علامہ نووی نے لکھا ہے:
’’ وفیہ دلیل لکون الاجماع حجة وھو أصح ما یستدل بہ من الحدیث ‘‘(شرح صحیح مسلم ، درسی نسخہ ج۲ص۱۴۳)
اور اس میں اجماع کے حجت ہونے پر دلیل ہے اور (نووی کے نزدیک) احادیث میں سے اجماع ثابت کرنے والی یہ صحیح ترین دلیل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
13۔ سعید بن جمہان (صدوق حسن الحدیث تابعی ) رحمہ اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا : سلطان (حکمران) لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور یہ کرتا ہے اور وہ کرتا ہے ؟ تو سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ٰ رضی اللہ عنہ ان کا ہاتھ زور سے جھٹک کر فرمایا:
’’ ویحک یا ابن جمھان ! علیک بالسواد الأعظم ، علیک بالسواد الأعظم ، إن کان السلطان یسمع منک فأتہ فی بیتہ فأخبرہ بما تعلم فإن قبل لک وإلا فدعہ فإنک لست بأعلم منہ۔‘‘(مسند احمد ج۴ص۳۸۳۔۳۸۴ح۱۹۴۱۵، وسندہ حسن لذاتہ)
تیری خرابی ہو ، اے ابن جمہان! سواد اعظم کو مضبوطی سے پکڑ لو ، سواد اعظم کو مضبو طی سے پکڑ لو ، اگر سلطان ( مسلمان حکمران) تیری بات سنتاہے تو اس کے گھر جا کر اسے وہ بتا دو جو تم جانتے ہو،پھر اگر وہ مان لے تو (بہتر ہے) ورنہ اسے چھوڑ دو ، کیونکہ تم اس سے زیادہ نہیں جانتے۔
اس حدیث میں سواد اعظم سے مراد مسلمانوں کا اجماع ہے۔


14۔ مشہور ثقہ تابعی امام عمر بن عبد العزیز الاموی رحمہ اللہ نے (اپنی خلافت کے دوران میں ) چاروں طرف لکھ کر (حکم) بھیجا:
’’لیقضی کل قوم بما اجتمع علیہ فقھاؤھم ہر قوم اس کے مطابق فیصلہ کرے جس پر اُن کے فقہاء کا اجماع ہے۔ ( سنن دارمی بتحقیق حسین سلیم اسد ج۱ص۴۸۹ح۶۵۲وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ :۶۳۴، حمید الطویل صرح بالسماع عند الدارمی)
ثابت ہوا کہ عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
15۔ مدینہ طیبہ کے امام ابو عبداللہ مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر بن عمر الاصجی الفقیہ المحدّث رحمہ اللہ ( متوفی ۱۷۹ھ) نے اپنی مشہور کتاب موطأامام مالک میں کئی مقامات پر اجماع سے استدلال کیا ، مثلاً امام مالک نے فرمایا:
" الأمر المجتمع علیہ عندنا أن المسلم إذا أرسل کلب المجوسی الضّاری فصاد أو قتل ، إنہ إذا کان معلّماً فأکل ذلک الصید حلال لا بأس بہ وإن لم یذکہ المسلم........... ‘‘(الموطا، روایۃ یحییٰ۲؍۴۹۴تحت ح۱۰۹۱)
ہمارے ہاں اس پر اجماع ہے کہ مسلمان جب مجوسی کا شکاری کتا ( شکار کے لیے بسم اللہ پڑھ کر ) بھیجے ، پھر وہ شکار کرے یا (شکار کو ) قتل کر دے ، اگر وہ کتا سکھایا ہوا تھا تو اس شکار کا کھانا حلال ہے ، اگرچہ مسلمان اسے ذبح نہ کر سکے ۔
اور فرمایا:
’’ الأمر عندنا ألذی لا اختلاف فیہ ۔ أنہ لا یکرہ الاعتکاف فی کل مسجد یجمّع فیہ۔‘‘(الموطا، روایۃ یحییٰ۱؍۳۱۳تحت ح۷۰۲)
اس بات میں ہمارے ہاں کوئی اختلاف نہیں کہ ہر مسجد جس میں جمعہ ہوتا ہے ، اس میں اعتکاف مکروہ نہیں ہے ۔
تنبیہ بلیغ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ تین مساجد کے علاوہ اعتکاف نہیں ہے ، لیکن یہ روایت اصول حدیث کی رُو سے ضعیف ہے ۔ ( دیکھیئے میری کتاب : توضیح الاحکام ج۲ ص۱۴۷)
موطأا مام مالک میں ’’ الأمر المجتمع ‘‘ کے بہت سے دیگر حوالے بھی ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔


16۔ امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: اصل (دلیل) قرآن یا سنت (حدیث) ہے اور اگر (ان میں) نہ ہو تو پھر ان دونوں پر قیاس (اجتہاد ) ہے اور جب رسول اللہ (ﷺ)تک حدیث متصل (سند سے ) ہو اور سند صحیح ہو تو یہ سنت اور اجماع خبر واحد سے بڑا ہے ۔‘‘ الخ (آداب الشافعی و مناقبہ لا بن ابی حاتم ۱۷۷۔۱۷۸، وسند ہ صحیح الحدیث: ۷۹ ص۵۷)
امام شافعی نے فرمایا:
’’ والعلم طبقات شتی : الأولٰی الکتاب والسنة إذا ثبتت السنة ، ثم الثانیة الاجماع فیما لیس فیہ کتاب ولا سنة والثالثة أن یقول بعض أصحاب النبی ﷺ ولا نعلم لہ مخالفاً منھم........... ‘‘( کتاب الام ج۷ص۲۶۵باب فی قطع العبد)
اور علم کے کئی طبقے ہیں : پہلا یہ کہ کتاب و سنت ، بشرطیکہ سنت ثابت ہو ، پھر دوسرا : اجماع ، جس میں کتاب و سنت نہ ہو، اور تیسرا : نبی ﷺ کے بعض صحابہ کا قول (یا اقوال) جس کا ہمیں مخالف معلوم نہ ہو۔
ثابت ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کتاب و سنت کے بعد اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔ نیز دیکھئےکتاب الرسالہ( ۱۱۲،۱۱۰۵،۱۳۰۹۔۱۳۲۰،۱۸۱۲۔۱ ۸۲۱) وغیر ذلک
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
17۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کے بارے میں پوچھا گیا: کیا ان دونوں کے درمیان بسم اللہ احمٰن الرحیم سے فصل ( جدائی ) کرنا چاہیئے؟ انھوں نے فرمایا:
’’ ینتھی فی القرآن إلٰی ما أجمعوا علیہ : أصحاب محمد علیہ السلام ۔لایزداد فیہ ولا ینقص ‘‘(مسائل احمد ، روایۃ صالح بن احمد ۱؍۲۷۴فقرہ:۲۱۶)
محمد علیہ السلام (ﷺ) کے صحابہ کا جس پر اجماع ہوا ، قرآن کے بارے میں اسی پر رُک جانا چاہیئے ، نہ اضافہ کرنا چاہیئےاور نہ کمی کرنی چاہیئے۔
ثابت ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ اجماع کو حجت سمجھتے تھے بلکہ انھوں نے اجتہادی غلطی سے ایک اختلا فی مسئلے (قراءت خلف الامام) پر بھی اجماع کا دعویٰ کر دیا ۔! (دیکھیئے مسائل احمد ،روایۃ ابی داود ص۳۱قولہ:’’ أجمع الناس أن ھذہ (الآیۃ) فی الصلٰوۃ‘‘!!!)
فائدہ:
امام ابراہیم بن ابی طالب النیسابوری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے احمد (بن حنبل) سے امام کی جہری حالت میں قراءت کے بارے میں پوچھا ؟ تو انھوں نے فرمایا:’’ یقرأ بفاتحة الکتاب‘‘ سورۃ فاتحہ پڑھے۔( تاریخ نیسابورللحاکم بحوالہ سیر اعلام النبلاء للذہبی۱۳؍۵۵۰۔۵۵۱ وسندہ صحیح)
معلوم ہوا کہ مسائل ابی داؤد والا (مشار الیہ) قول منسوخ ہے۔ والحمد للہ
اگر کوئی کہے کہ امام احمد نے فرمایا:
’’من ادعی الاجماع فھو کاذب ، لعل الناس اختلفوا ولم ینبہ إلیہ .........‘‘(المحلیٰ لابن حزم ج۱۰ص۴۲۲ مسئلہ :۲۰۲۵، العین)
جس نے اجماع کا دعویٰ کیا تو وہ جھوٹا ہے ، ہو سکتا ہے کہ لوگوں نے اختلاف کیا ہو اور اسے پتہ نہ چلا ہو ۔
تو اس کی وضاحت میں عرض ہے کہ یہ قول اس شخص کے بارے میں ہے جو اختلافی مسائل میں علم ہو نے کے باجود اختلافی چیز پر اجماع کا دعویٰ کرے۔
مولانا محمد عطا ء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ جماعت اہلحدیث صحیح اجماع کے وجود کو مانتی اور اس کو حجت گردانتی [ہے]۔ امام احمد کا یہ فرمان [ یعنی جو شخص کسی امر میں اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھو ٹا ہے] اجماع کے غلط دعاوی [دعووں]کے بارے میں تھا۔ جو اُس دور کے بدعتی فرقے نصوص صریحہ صحیحہ کی مخالفت میں کرتے اور ان کا سہارا لیتے تھے۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ حافظ ابن القیم اور ان کے شیخ امام ابن تیمیہ کی تالیفات میں بعض جگہ یہ وضاحت ملتی ہے۔‘‘( حاشیہ فتاویٰ علمائے حدیث ج۱۲ ص۷۹، بتصرف یسیر، الحدیث :۶۱ص۴۰)
فائدہ:
’’ تلزم جماعة المسلمین وإمامھم ‘‘ اور ’’ الجماعة‘‘ والی آحادیث کا معنی تو آپ نے پڑھ لیا، اب ’’ وإمامھم‘‘ کا معنی پیشِ خدمت ہے:
امامِ اہلسنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے میتۃ جاھلیۃ والی حدیث کے بارے میں فرمایا: کیاتجھے پتہ ہے کہ (اس حدیث میں ) امام کسے کہتے ہیں؟ جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو جائے، ہر آدمی یہی کہے کہ یہ(خلیفہ) امام ہے، پس اس حدیث کا یہی معنی ہے۔ (سوالات ابن ہانی : ۲۰۱۱، علمی مقالات ج۱ص۴۰۳، بتصرف یسیر)
ثابت ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی مسلمانوں کااجماع حجت سمجھتے تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
18۔ مشہور ثقہ زاہد ابو نصر بشر بن الحارث بن عبد الرحمٰن بن عطا ء بن ہلال المروزی البغدادی رحمہ اللہ ( متوفی ۲۲۷ھ) نے فرمایا:
’’ قد أجمع أھل العلم أن الخفّہ فی القیامة خیر‘‘
اس پر اہلِ علم کا اجماع ہے کہ قیامت کے دن (مال و دولت کا) ہلکا پن بہتر ہوگا۔( کتاب الزہد الکبیر للبیہقی ص۱۴۳ح۲۸۶، وسندہ صحیح)
ثابت ہوا کہ امام بشر الحافی رحمہ اللہ اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔


19۔امام عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ بھی اجماع کے قائل تھے۔ دیکھیئے فقرہ نمبر۹


20۔ امام مسلم بن الحجاج النیسابوری رحمہ اللہ ( متوفی ۲۶۱ھ) نے فرمایا:
’’ اس قائدہ مذکورہ کے مطابق ( اے شاگردِ عزیز !) ہم تمہاری خواہش کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی احادیث جمع کریں گے ۔ رہے وہ لوگ جو تمام علماء حدیث یا اکثر کے نزدیک مطعون ہیں جیسے عبد اللہ بن مسور....... تو ایسے لوگوں کی روایات کو ہم اپنی کتاب میں جمع نہیں کریں گے۔ ‘‘ ( صحیح مسلم ص۴۔۵، الحدیث حضرو: ۸۹ص ۴۸)
اس عبارت سے دو باتیں صاف صاف ثابت ہیں:
1: امام مسلم اجماع کو سمجھتے تھے۔
2: جرح ( وتعدیل) کے اختلاف میں امام مسلم جمہور محدثین کو ترجیح دیتے تھے۔
امام مسلم نے دوسرے مقام پر فرمایا:
’’ لیس کلّ شیی عندی صحیح و ضعتہ ھھنا ، إنما وضعت ھھنا أجمعوا علیہ ‘‘( صحیح مسلم : ۴۰۴، ترقیم دارالسلام : ۹۰۵ باب التشہد فی الصلٰوۃ)
ہر چیز جو میرے نزدیک صحیح ہے وہ میں نے یہاں درج نہیں کی بلکہ میں نے یہاں وہی درج کیا ہے جس پران ( محدثین ) کا اجماع ہے۔
ثابت ہوا کہ امام مسلم اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔


21۔امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ (متوفی ۲۷۹ھ) نے فرمایا:
’’ وقد أجمع أھل العلم من أصحاب النبیﷺ والتابعین ومن بعد ھم علٰی أن النفساء تدع الصلٰوة أربعین یوماً الا أن تری الطھر قبل ذلک فإنھا تغتسل وتصلّی............‘‘(سنن ترمذی: ۱۳۹)
نبیﷺ کے صحابہ ،تابعین اور ان کے بعد والوں کا اس پر اجماع ہے کہ جس عورت کا بچہ یا بچی پیدا ہو، وہ چالیس دن نماز نہیں پڑھے گی اِلا یہ کہ وہ اس سے پہلے پاک ہو جائے تو پھر نہائے گی اور نماز پڑھے گی۔
امام ترمذی کے اس طرح کے اور بھی کئی حوالے ہیں۔

22۔ مشہور ثقہ تابعی امام محمد بن سیرین الانصاری البصری رحمہ اللہ ( متوفی ۱۱۰ھ) نے فرمایا:
’’ أجمعوا علٰی أنہ إذا تکلم استأنف وأنا أحب أن یتکلم ویستأنف الصلٰوة‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ ج۲ص۱۹۶ح ۵۹۱۷وسندہ صحیح)
اس پر ان کا اجماع ہوا کہ جب وہ ( نمازی نماز میں جان بوجھ کر ) باتیں کرے تو وہ نئے سرے سے ( نماز دوبارہ) پڑھے گا اور میں پسند کرتا ہوں کہ اگر وہ کلام کرے تو نماز دوبارہ ( نئے سرے) سے پڑھے۔

23۔ امام ابو حاتم ادریس الرازی رحمہ اللہ (متوفی ۲۷۷ھ) نے فرمایا:
’’ غیر أن أھل الحدیث قد اتفقوا علٰی ذلک ۔ واتفاق أھل الحدیث علٰی شئی یکون حجة‘‘(کتاب المراسیل لا بن ابی حاتم ص۱۹۲، فقرہ: ۷۰۳)
سوائے اس کے کہ اہلِ حدیث (محدثین) نے اس بات پر اتفاق کیا ہے اور اہلِ حدیث کا کسی چیز پر اتفاق (اجماع) حجت ہوتا ہے۔
ثابت ہوا کہ ابو حاتم الرازی بھی اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔


24۔ امام ابو حفص عمرو بن علی الفلاس الصیرفی رحمہ اللہ (متوفی ۲۴۹ھ) نے ایک راوی عبد القدوس بن حبیب الشامی کے بارے میں فرمایا:
’’ أجمع أھل العلم علٰی ترک حدیثہ ‘‘( کتاب الجرح والتعدیل لابن حاتم ۶؍۵۶ت۲۹۵وسندہ صحیح)
اس کی حدیث کے متروک ہونے پر اہلِ علم کا اجماع ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
25۔ امام ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحرین دینار النسائی رحمہ اللہ ( متوفی ۳۰۳ھ) اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔ دیکھیئے فقرہ نمبر۶


26۔ امام ابو احمد عبد اللہ بن عدی الجرحانی رحمہ اللہ (متوفی ۳۶۵ھ) نے ایک کذاب راوی ابو داود سلیمان بن عمرو بن عبد اللہ بن وھب النخعی الکوفی کے بارے میں گواہی دی:
’’ أجتمعوا علٰی أنہ یضع الحدیث‘‘(الکامل فی ضعفاءالرجال ج۳ص۱۱۰۰،دوسرا نسخہ ج۴ص۲۲۸)
اس پر ان (محدثین) کا اجماع ہے کہ وہ حدیثیں گھڑتا تھا۔

27۔ امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ ( متوفی ۲۲۴ھ) نے سر کے مسح کے بارے میں فرمایا:
’’ثم فسرتہ السنة بالأخبار التی ذکرنا عن النبی ﷺ ۔ فأما توقیت النصف والربع فإنہ لا یجوز إلا أن یوجد علمہ فی کتاب أو سنة أو اجماع‘‘
پھر سنت نے اس کی تفسیر بیان کی ہے اُن روایات کے ساتھ جنھیں ہم نے نبی ﷺ سے ذکر کیا ہے، پھر یہ کہ آدھے یا چوتھائی (سر کے مسح) کی مقدار مقرر کرنا جائز نہیں اِلا یہ کہ کتاب ، سنت یا اجماع سے معلوم ہو جائے۔
ثابت ہوا کہ امام بخاری کے استاد امام عبید رحمہ اللہ (غریب الحدیث وغیرہ جیسی مفید کتا بوں کے مصنف) بھی کتاب و سنت کے بعد اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔


28۔ طبقات ابن سعد والے محمد بن سعد بن منیع الہاشمی البصری البغدادی رحمہ اللہ (متوفی ۲۳۰ھ) نے فرمایا:
’’ وأجمعوا علٰی أن خالد بن معدان توفی سنة ثلاث ومائة فی خلا فة یزید بن عبد الملک‘‘(الطبقات الکبریٰ ج۷ص۴۵۵)
اور اس پر ان کا اجماع ہے کہ خالد بن معدان ۱۰۳(ہجری) میں یزید بن عبدالملک کی خلافت کے دور میں فوت ہوئے۔

29۔ حافظ ابو حاتم محمد بن حبان البستی ( متوفی ۳۵۴ھ) نے احکامِ مصطفیٰ (ﷺ) کے بارے میں 110 قسمیں بیان کیں ، جن میں قسم نمبر79کے تحت فرمایا:
’’ الأمر بالشئی الذی أمر بہ لعلة معلومة لم تذکر فی نفس الخطاب وقد دلّ الاجماع علٰی نفی امضاء حکمہ علٰی ظاہرہَ۔‘‘
آپ کا کسی چیز کے بارے میں کسی معلوم شدہ علت کی وجہ سے حکم دینا جو کہ حدیث کے متن میں مذکور نہیں ہے اور اجماع نے اس پر دلالت کی ہے کہ اس میں ظاہر پر حکم نہیں ہے۔
حافظ ابن حبان نے ایک بہترین اصول سمجھایا:
’’ اخبارہ ﷺ عن الشئی الذی ظاہرہ مستقل بنفسہ ولہ تخصیصات : أحدھما من سنة ثابتة والآخر من الاجماع، قد یستعمل الخبر مرة علٰی عمومہ وأخری یخص بخبر ثان ، وتارة یخصّ بالاجماع‘‘(الاحسان نسخہ محققہ ج۱ ص ۱۳۴،نوع:۳۶)
آپ ﷺ کا کسی چیز کے بارے میں خبر بیان کرنا جس کا ظاہری عموم بذاتِ خود مستقل (واضح) ہے اور اس کی دو تخصیصات ہیں : ایک تو سنتِ ثابتہ (صحیح حدیث) سے اور دوسری اجماع سے ۔ روایت بعض اوقات اپنے عموم پر استعمال ہوتی ہےاور بعض اوقات دوسری روایت اس کی تخصیص کر دیتی ہےاور بعض اوقات اجماع سے اس کی تخصیص کی جاتی ہے۔
حافظ ابن حبان نے عظیم اصول سمجھایا کہ مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے ، بشرطیکہ:
’’ مالم یخالف الکتاب أو السنة أوا لاجماع‘‘ ( الاحسان ۱۱؍۴۸۸ح۵۰۹۱، پرانا نسخہ : ۵۰۶۹)
جب تک کتاب یا سنت (حدیث) یا اجماع کے مخالف نہ ہو۔
ان بیانات سے دو باتیں صاف ثابت ہیں:
1: ابن حبان کے نزدیک اجماع حجت ہے۔
2: ابن حبان کے نزدیک (حجت ہونے کے لحاظ سے ) سنت اور حدیث ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ (دیکھیئے فقرہ:۱۶)
لہٰذا مرزا غلام قادیانی (کذاب) اور اس کے پیروکار قادیانیوں کا حجت ہونے کے لحاظ سے حدیث اور سنت میں فرق کرنا باطل ہے۔
اجماع کے بارے میں حافظ ابن حبان کے مزید حوالوں کے لیے دیکھیئے الاحسان (۵؍۴۷۱، دوسرا نسخہ ۵؍۱۴۰،تیسرا نسخہ ۷؍۴۴۲۔۴۴۳) وغیرہ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
30۔ امام ابو محمد اسحاق بن ابراہیم بن مخلد الحنظلی المروزی عرف اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (متوفی ۲۳۸ھ) نے فرمایا:
’’ وقد أجمع أھل العلم أن کل شئی یشبہ الطلاق فھو طلاق کما تقدم من نیتہ بارادہ الطلاق‘‘(مسائل احمد و اسحاق روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج ج۱ص۴۹۸فقرہ:۱۳۲۰)
اور اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ ہر چیز جو طلاق کے مشابہ ہےتو وہ طلاق ہے، جیسا کہ ارادۂ طلاق کی نیت کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے ۔
امام اسحاق بن راہویہ نے تکفیر کے کئی مسائل پر اجماع نقل فرمایاہے۔(دیکھیئے تعظیم قدر الصلوٰۃ للمروزی ۲؍۹۳۰فقرہ:۹۹۱)


31۔ امام ابوعوانہ یعقوب ابن اسحاق بن ابراہیم الاسفر ائینی النیسابوری رحمہ اللہ ( متوفی ۳۱۶ھ) نے فرمایا:
’’ وقد أجمع أھل العلم أن بیت المال عصبة من لا عصبة لہ ‘‘(مسند ابی عوانہ نسخہ مرقمہ ج۳ص۱۵۹قبل ح۴۵۵۶)
اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ جس کا عصبہ نہ ہو تو بیت المال اس کا عصبہ ہوتا ہے۔
علمِ میراث میں عصبہ اسے کہتے ہیں جس کا میراث میں حصہ مقرر نہ ہو اور اسے ذوالفروض کے ترکہ میں سے حصہ پہنچتا ہو۔ (دیکھیئے القاموس الوحیدص۱۰۸۷)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
32۔ حافظ ابو بکر احمد بن عمر و بن عبد الخالق البزار رحمہ اللہ ( متوفی ۲۹۲ھ) نے اپنے علم کے مطابق عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں فرمایا:
’’ وعبد الرحمٰن بن زید قد أجمع أھل العلم بالنقل علٰی تضعیف أخبارہ التی رواھا............‘‘( البحر الزخارج ۱۵ص۲۷۷ح۸۷۶۳)
اور حدیث کے علماء کا عبد الرحمٰن بن زید کی بیان کردہ روایتوں کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔

33۔ امام ابو عبد اللہ محمد بن نصر المروزی الفقیہ رحمہ اللہ ( متوفی ۲۹۴ھ) نے اس بات پر اجماع نقل کیا کہ شرابی اگر شراب پینے کے بعد مسئلہ پوچھے کہ وہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے تو اسے حکم دیا جائے گا کہ نماز پڑھے اور اسے چالیس دنوں کی نمازوں کے اعادے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ (دیکھیئے تعظیم قدر الصلوٰۃ ج۲ص۵۸۷۔۵۸۸فقرہ:۶۱۹)


34۔ امام ابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ الدینوری الکاتب الصدوق رحمہ اللہ ( متوفی ۲۷۶ھ) نے فرمایا:
’’ ونحن نقول ان الحق یثبت عندنا بالاجماع أکثر من ثبوتہ بالروایة لأن الحدیث قد تعترض فیہ عوارض من السھو والاغفال وتدخل علیہ الشبہ والتأویلات والنسخ ویأخذہ الثقة من غیر الثقة......... والاجماع سلیم من ھذ ہ الأسباب کلھا‘‘(تاویل مختلف الحدیث فی الرد علی اعداء اہل الحدیث ص۱۷۶)
اور ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک روایت سے زیادہ ، اجماع سے حق ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ حدیث پر سہو اور غفلت کا اعتراض ہو سکتا ہے، شبہات، تا ویلات اور ناسخ منسوخ کا احتمال ہو سکتا ہے اور یہ بھی (کہا جا سکتا ہے) کہ ثقہ نے اسے غیر ثقہ سے لیا تھا........ اور اجماع ان تمام باتوں سے محفوظ ہے۔
ابن قتیبہ نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح بغیر کتاب و اثر کے انسانی گوشت کے حرام ہونے پرا جماع ہے، اسی طرح بندروں کے حرام ہونے پر بھی بغیر کتاب و اثر کے اجماع ہے۔ (تاویل مختلف الحدیث ص ۱۷۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
35۔ امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ ( متوفی ۳۱۸ھ) نے اپنی کتابوں مثلاً الاوسط وغیرہ میں بار بار اجماع سے استدلال کیا ہے، بلکہ اجماع کے موضوع پر مستقل ایک کتاب’’ الاجماع‘‘ لکھی ہے۔
ابن المنذر نے فرمایا:
’’ وأجمعوا علٰی أن حکم الجوامیس حکم البقر‘‘(الاجماع ص۱۲، فقرہ:۹۱)
اور اس پر اجماع ہے کہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا حکم ہے۔
اور فرمایا:
’’وأجمعوا الی أن المال إذا حال علیہ الحول أن الزکاة تجب فیہ‘‘(الاجماع ص۱۳، فقرہ:۱۰۳)
اور اس پر اجماع ہے کہ اگر مال پر ایک سال گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے۔
تفصیل کے لیے پوری کتاب کا مطالعہ مفید ہے اور بعض مسائل میں اختلاف کی بنیاد پر سارے مسئلے یعنی اجماع کو ہی رد کر دینا باطل ہے۔


36۔ ایک روایت کے بارے میں ابو نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحاق بن مہران الاصبہانی رحمہ اللہ (متوفی ۴۳۰ھ) نے لکھا ہے:
’’ وھو مما أجمعوا علٰی صحتہ وأخرجہ مسلم فی کتابہ عن أبی کریب‘‘(معرفۃ الصحابہ لا بی نعیم ج۱ص۱۹۳ح۶۹۱)
اور اس کے صحیح ہونے پر اجماع ہے اور اسے مسلم نے اپنی کتاب میں ابو کریب سے روایت کیا ہے۔

37۔ حافظ ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن عبدالبر النمری القرطبی الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی ۴۶۳ھ) نے اپنی کتابوں میں بار بار اجماع سے استدلال کیا ہے، مثلاً انھوں نے اس معنعن روایت کے مقبول ہونے پر اجماع نقل کیا ہے جس میں تین شرطیں موجود ہوں:
1: تمام راوی عادل (وضابط) ہوں۔
2: تمام راویوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ثابت ہو۔
3: تمام راوی تدلیس سے بری ہوں۔(دیکھیئے التمہید المانی الموطأ من المعانی والاسانید ج۱ص۱۲)
اجماع کے خلاف بات کو ابن عبد البر نے با معنی قرار دیا اور امام ابو قلابہ عبد اللہ بن زید الجرمی الشامی رحمہ اللہ (ثقہ تابعی) کے بارے میں فرمایا:
’’أجمعواعلٰی أنہ من ثقات العلماء‘‘( الاستغناء فی معرفۃ المشہور ین من حملۃ العلم بالکنیٰ ج۱ص ۸۹۵۔۸۹۶فقرہ:۱۰۶۳)
اس پر اجماع ہے کہ وہ ثقہ علماء میں سے ہیں۔
نیز دیکھیئے جامع بیان العلم وفضلہ ( ۲؍۵۹تحت ح۷۳۰باب معرفۃ اصول العلم وحقیقۃ)
 
Top