کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
9۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اس آیت کی تشریح میں ابو حیان محمد بن یوسف الاندلسی(متوفی ۷۴۵ھ) نے کہا:" وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ"(سورۃ البقرۃ:۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں اُمت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔
امام بخاری نے آیتِ مذکورہ کے بعد لکھا ہے :’’ وقیل : معناہ لیکون اجماعکم حجة‘‘(البحر المحیط ج۱ص۵۹۵)
اور کہا گیا ہے: اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا اجماع حجت ہو۔
کرمانی نے کہا:’’ وما أمر النبیﷺ بلزوم الجماعة وھم أھل العلم‘‘ (صحیح بخاری ۲؍۱۰۹۲ قبل ح۷۳۴۹، فتح الباری۱۳؍۳۱۶)
اہل علم سے مراد اہل السنۃوالجماعۃ کے علماء ہیں۔ (فتح الباری ۱۳؍۳۱۶)
’’مقتضی الأمر بلزوم الجماعة یلزم المکلف متابعة ما أجمع علیہ المجتھدون وھم المراد بقولہ: وھم أھل العلم۔ والآیة التی ترجم بھا احتج بھا أھل الأصول لکون الاجماع حجة...... ‘‘(فتح الباری ۱۳؍۳۱۶۔۳۱۷)
جماعت لازم پکڑنے کے حکم کا تقاضا یہ ہے : (ہر) مکلف پر یہ ضروری ہے کہ جس پر مجتہدین کااجماع ہو اس کی اتباع کرے اور اہلِ علم کے قول سے یہی مراد ہیں۔ امام بخاری نے جوآیت ترجمۃ الباب میں ذکر کی ہےاُس سے اہلِ اصول نے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔