کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
38۔ مشہور ثقہ محدث ابو بکر احمد بن الحسین بن علی البیہقی رحمہ اللہ ( متوفی ۴۵۸ھ) نے کئی مقامات پر اجماع سے استدلال کیا، مثلاً فرمایا:
اس بارے میں شیخ البانی کا موقف ( اجماع کے معارض ہونے کی وجہ سے) باطل ومردود ہے اور عقل مند کے لیے اتنا اشارہ ہی کافی ہے۔
اجماع کے سلسلے میں امام بیہقی کے بعض دوسرے اقوال کے لیے دیکھیئے السنن الکبریٰ ( ۸؍۲۴۰باب ما جاء فیمن اتی جاریۃ امرأتہ) اور السنن الکبریٰ ( ۷؍۲۴۰ مبشر بن عبید)
39۔ شیخ ابو سلیمان حمد بن محمد الخطابی البستی رحمہ اللہ ( متوفی ۳۸۸ھ) نے فرمایا:
40۔ خطیب بغدادی ( ابو بکر بن علی بن ثابت الحافظ ) رحمہ اللہ ( متوفی ۴۶۳ھ) نے اپنی کتاب ’’ الفقیہ والمتفقہ ‘‘ میں اجماع کے حجت ہونے پر باب باندھا ہے:
’’ الکلام فی الأصل الثالث من أصول الفقہ وھو اجماع المجتھدین ‘‘ ( ۱؍۱۵۴)
اور پھر اس پر بہت سے دلائل نقل کئے۔
خطیب بغدادی نے اس پر اہلِ علم کا اجماع نقل کیا کہ صرف وہی حدیث قابلِ قبول ہے ، جس کا (ہر ) راوی عاقل صدوق ہو ، اپنی روایت بیان کرنے میں امانت دار ہو۔ ( الکفایہ فی علم الروایہ ص۳۸، دوسرا نسخہ ۱؍۱۵۷)
41۔ حافظ ابو یعلیٰ خلیل بن عبداللہ بن احمد بن خلیل الخلیلی القزوینی رحمہ اللہ ( متوفی ۴۴۶ھ) نے سلم بن سالم البلخی ( ایک راوی و فقیہ) کے بارے میں فرمایا:
تنبیہ:’’ واستدللنا بحصول الاجماع علٰی اباحتہ لھن علٰی نسخ الأخبار الدالة علٰی تحریمہ فیھن خاصہ واللہ أعلم‘‘
اور ہم نے عورتوں کے لیے سونا پہننے کے حلال ہونے پر اجماع سے دلیل پکڑی کہ جن روایات میں خاص طور پر ان کے لیے حرمت آئی ہے وہ منسوخ ہیں۔ واللہ اعلم ( السنن الکبریٰ للبیہقی ۴؍۱۴۷، نیز دیکھیئے الاداب للبیہقی ص۳۷۱ح۸۰۳)
اس بارے میں شیخ البانی کا موقف ( اجماع کے معارض ہونے کی وجہ سے) باطل ومردود ہے اور عقل مند کے لیے اتنا اشارہ ہی کافی ہے۔
اجماع کے سلسلے میں امام بیہقی کے بعض دوسرے اقوال کے لیے دیکھیئے السنن الکبریٰ ( ۸؍۲۴۰باب ما جاء فیمن اتی جاریۃ امرأتہ) اور السنن الکبریٰ ( ۷؍۲۴۰ مبشر بن عبید)
39۔ شیخ ابو سلیمان حمد بن محمد الخطابی البستی رحمہ اللہ ( متوفی ۳۸۸ھ) نے فرمایا:
’’ وفی حدیث عاصم بن ضمرة کلام متروک بالاجماع غیر مأخوذ بہ فی قول أحد من العلماء......‘‘( معالم السنن ج۲ص۲۲ومن باب زکاۃ السائمہ ، کتاب الزکاۃ )
اور عاصم بن ضمرہ کی روایت میں ایسا کلام ہے جو بالاجماع متروک ہے، علماء میں سے کسی ایک نے بھی اسے نہیں لیا۔ الخ
40۔ خطیب بغدادی ( ابو بکر بن علی بن ثابت الحافظ ) رحمہ اللہ ( متوفی ۴۶۳ھ) نے اپنی کتاب ’’ الفقیہ والمتفقہ ‘‘ میں اجماع کے حجت ہونے پر باب باندھا ہے:
’’ الکلام فی الأصل الثالث من أصول الفقہ وھو اجماع المجتھدین ‘‘ ( ۱؍۱۵۴)
اور پھر اس پر بہت سے دلائل نقل کئے۔
خطیب بغدادی نے اس پر اہلِ علم کا اجماع نقل کیا کہ صرف وہی حدیث قابلِ قبول ہے ، جس کا (ہر ) راوی عاقل صدوق ہو ، اپنی روایت بیان کرنے میں امانت دار ہو۔ ( الکفایہ فی علم الروایہ ص۳۸، دوسرا نسخہ ۱؍۱۵۷)
41۔ حافظ ابو یعلیٰ خلیل بن عبداللہ بن احمد بن خلیل الخلیلی القزوینی رحمہ اللہ ( متوفی ۴۴۶ھ) نے سلم بن سالم البلخی ( ایک راوی و فقیہ) کے بارے میں فرمایا:
’’ أجمعوا علٰی ضعفہ‘‘ ( الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث ۳؍۹۳۱ت۸۵۵)
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔