• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجماع حجت ؟یا الله کے دین کا انکار !

شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
آپ اجماع کے رد میں فقہی اختلافات کی مثالیں دے رہے ہیں ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کو اجماع کا علم ہی نہیں ،
جناب ! آپ خود ہی وضاحت کر دیں ---

اس لئے گذارش ہے کہ پہلے طے کرلیں کہ اجماع کیا ہے ، پھر اس کا کھل کر دلائل کے ساتھ رد کریں ،
آپ سے بھی یہی گذارش ہے کہ آپ تعریف بیان کر دیں کہ اجماع کس چیز کا نام آپ نے رکھا ہوا ہے ؟
ہم پھر اس کا بھی ازالہ کر دیں گے ان شاء الله
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
میری ایک درخواست راشد صاحب سے ۔۔۔
یہ حدیث جو میں ابھی لکھوں گا اس کو غور سے اور حق کی طلب کی نیت سے پڑھیں ۔اور یہ حدیث صحیح ہے اور اس حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں جنہوں نے تنزیل قرآن کا مشاہدہ کیا اور وہ مجھ سے اور آپ سے کہیں زیادہ "قرآن وسنت" کو جانتے تھے، بلکہ ہمارا ان کا تو کوئی مقارنہ نہیں ۔(رضی اللہ عنہ) اب ان کی بات کا تو آپ انکار نہیں کرسکتے نا!
جناب ! یہ بتائیے کہ صحابہ ایک دوسرے کے قول کا رد کرتے تھے یا نہیں جو قرآن اور حدیث کے مطابق نہیں ہوتا تھا ؟؟؟
اور صحیح بات معلوم ہونے پر وہ رجوع کرتے تھے یا نہیں ؟؟؟
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
جناب ! یہ بتائیے کہ صحابہ ایک دوسرے کے قول کا رد کرتے تھے یا نہیں جو قرآن اور حدیث کے مطابق نہیں ہوتا تھا ؟؟؟
اور صحیح بات معلوم ہونے پر وہ رجوع کرتے تھے یا نہیں ؟؟؟
جی، وہ تو کرتے تھے ۔۔ مگر اجماع کا انکار تو (نعوذ باللہ) نہیں کرتے تھے ۔
اور حضرت عمرؓ کے اس قول کو کسی نے رد نہیں کیا۔ (الحمدللہ)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جناب ! ہوائی باتیں نہ کیجیے - بلکہ موضوع کے متعلق قرآن اور احادیث سے دلائل دیجیے -
ہم تحریر رقم فرما چکے ہیں تو آپ اس کا مدلل جواب تحریر فرمانے کا شرف حاصل کر لیجیے !؟
اور اگر مدلل نہ ہو تب تحریر کا فائدہ ہی نہیں ہے ، اس سے بہتر ہے کہ آپ اپنے آپ کو کامل سمجھنے کی بجائے دوسروں کے بھی دلائل سنیے اور حق بات کو قبول کیجیے !
"آنا خیرا " کے الفاظ نہیں ہونے چاہییں - جیسا کہ آپ کہ انداز بیان سے ظاہر ہو رہا ہے !؟
بکرے کا نام کتا ، اور کتا حرام ، لہذا سب مسلمان حرام کتے کھارہے ہیں ۔ اس انداز کا آپ نے اجماع کو سمجھا اور اس پر تحریر لکھی ہے ۔
آپ کو اب یاد آیا ہے ، دوسروں کا ’ اجماع ‘ جاننا ۔ حالانکہ اجماع کوئی ایسی چیز تو نہیں کہ اس پر سب سے پہلے آپ ہی داد تحقیق دے رہے ہیں ، اس پر صدیوں سے بہت لکھا جا چکا ہے ۔ آپ نے کچھ فرمانا تھا ہی تو اس پر نقد کرتے ، ہوائی باتیں تو آپ نے کی ہیں ، اپنی طرف سے ہی ایک چیز فرض کرلی ، اور پھر اس کی تردید بھی فرمادی ۔
آپ کو ایک بار پہلے بھی لنک دیا جا چکا ہے ، ایک بار پھر ملاحظہ کیجیے :
اجماع امت حجت ہے ۔
آپ جیسے لوگوں کو میں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کی باتوں کی تردید کرکے یوں پذیرائی کی جائے ، لیکن بہر صورت انٹرنیٹ کا ماحول ایسا ہے کہ اس میں بہت سارے بادشاہ لوگ موجود ہوتے ہیں ، اگر آپ میرے پاس ہوتے تو یقینا آپ کو ’ اجماع امت ‘ ضرور اچھی طرح سے سمجھاتا ۔
لوگ دین کے متعلق بات کرتے ہوئے ایک فیصد بھی حیا نہیں کرتے ، گویا یہ دین ابھی رات کو ہی نازل ہوا ، اور چودہ صدیوں سے لوگ جھک ہی مارتے گئے ہیں ۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !​
جناب ! جواب آپ کے پاس ہے تو دیجیے وگرنہ اس طرح کی باتوں کو ہوائی ہی کہا جائے گا :
بکرے کا نام کتا ، اور کتا حرام ، لہذا سب مسلمان حرام کتے کھارہے ہیں ۔ اس انداز کا آپ نے اجماع کو سمجھا اور اس پر تحریر لکھی ہے ۔
سوال : -
آپ کو اب یاد آیا ہے ، دوسروں کا ’ اجماع ‘ جاننا ۔
جواب : -
جی نہیں جناب ! ہم پہلے سے واقف ہیں لیکن آپ کی ہوائی باتوں کی وجہ سے کہا گیا تا کہ یہاں قارئین بھی آپ کی تعریف جان سکیں -

حالانکہ اجماع کوئی ایسی چیز تو نہیں کہ اس پر سب سے پہلے آپ ہی داد تحقیق دے رہے ہیں ، اس پر صدیوں سے بہت لکھا جا چکا ہے ۔
آپ نے درست کہا - اس پر پہلے بھی لکھا جا چکا ہے ،،،

آپ نے کچھ فرمانا تھا ہی تو اس پر نقد کرتے ، ہوائی باتیں تو آپ نے کی ہیں ، اپنی طرف سے ہی ایک چیز فرض کرلی ، اور پھر اس کی تردید بھی فرمادی ۔
آپ کو ایک بار پہلے بھی لنک دیا جا چکا ہے ، ایک بار پھر ملاحظہ کیجیے :
اجماع امت حجت ہے ۔
لنک کا مطالعہ کیا جا چکا ہے - اب ہم اس کا جواب یہاں تو تحریر نہیں کر سکتے ---
یہاں تو اسی بات کا جواب دیا جائے گا جو اس پوسٹ پر نقل کی جائے گی - ان شاء الله
(نوٹ : - لنک کا جواب یہاں نہیں دیا جائے گا -)

آپ جیسے لوگوں کو میں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کی باتوں کی تردید کرکے یوں پذیرائی کی جائے
جی ٹھیک ہے جناب ! آپ کی اسی غلط فہمی کا ازالہ پہلے ہی کر دیا گیا تھا :

ہم تحریر رقم فرما چکے ہیں تو آپ اس کا مدلل جواب تحریر فرمانے کا شرف حاصل کر لیجیے !؟
اور اگر مدلل نہ ہو تب تحریر کا فائدہ ہی نہیں ہے ، اس سے بہتر ہے کہ آپ اپنے آپ کو کامل سمجھنے کی بجائے دوسروں کے بھی دلائل سنیے اور حق بات کو قبول کیجیے !

"آنا خیرا " کے الفاظ نہیں ہونے چاہییں - جیسا کہ آپ کے انداز بیان سے ظاہر ہو رہا ہے !؟


لیکن بہر صورت انٹرنیٹ کا ماحول ایسا ہے کہ اس میں بہت سارے بادشاہ لوگ موجود ہوتے ہیں ، اگر آپ میرے پاس ہوتے تو یقینا آپ کو ’ اجماع امت ‘ ضرور اچھی طرح سے سمجھاتا ۔
تبصرہ ؛ - جناب ! تحریراً بات کو سمجھانا اور بہتر ہوتا ہے --- دلائل کا مطالعہ بار بار کیا جا سکتا ہے --- اور جب بار بار مطالعہ کیا جائے تو بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے - الا ما شاء الله

لوگ دین کے متعلق بات کرتے ہوئے ایک فیصد بھی حیا نہیں کرتے
جب لوگوں کی اکثریت حق پر ہونے کی دلیل ہی نہیں تو پھر حیاء کیسے آئیے ان میں !؟

گویا یہ دین ابھی رات کو ہی نازل ہوا ، اور چودہ صدیوں سے لوگ جھک ہی مارتے گئے ہیں ۔
اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کی پیروی ایسے ہی گل کہلاتی ہے ---
اگر لوگ صرف قرآن اور احادیث نبوی کی پیروی کریں تو لوگ ایسا نہ کریں ---
انا للہ و انا الیہ راجعون
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جی نہیں جناب ! ہم پہلے سے واقف ہیں لیکن آپ کی ہوائی باتوں کی وجہ سے کہا گیا تا کہ یہاں قارئین بھی آپ کی تعریف جان سکیں -
اگر آپ اجماع سے واقف ہو تو اتنی غیر متعلقہ باتیں لکھنے اور اپنا دوسروں کا وقت برباد کرنے کی بجائے سیدھا سادا جواب کیوں نہیں دیتے کہ
اجماع یہ ہے ، اور اس کے رد کے دلائل یہ ہیں ،
چلو میں ایک سائل بن کر پوچھتا ہوں ، اللہ کے واسطے ادھر ادھر کی مارنے کی بجائے بتائیں :۔ اجماع کیا ہے ؟
اور اس کے مردود ہونے کی ایک صریح دلیل کیا ہے ،
اور امت کا کوئی ایک مستند نام خیر القرون میں سے جس نے اجماع کا نام لے اسے ٹھکرایا ہو ،
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
اگر آپ اجماع سے واقف ہو تو اتنی غیر متعلقہ باتیں لکھنے اور اپنا دوسروں کا وقت برباد کرنے کی بجائے سیدھا سادا جواب کیوں نہیں دیتے کہ
اجماع یہ ہے ، اور اس کے رد کے دلائل یہ ہیں ،
جناب ! ادھر ادھر کی آپ نے کیں تھیں تو آپ کو پھر جواب دیا گیا --- تاکہ آپ سیدھی بات کی طرف آ جائیں ---
اور آپ سے کہا گیا کہ آپ لکھیں کہ اجماع کیا ہے ؟ تو ہم اس کا جواب پھر سے لکھ دیں گے --- لیکن جناب اس بات کو کسی خاطر میں نہیں لائے !؟
جہاں تک رد کے دلائل کا تعلق ہے تو کافی دلائل آپ کو مذکور بالا تحریر میں نظر آ جائیں گے اگر آپ آنکھوں سے تعصب اور انکار کی پٹی کو اتار کر ملاحظہ کریں تو !؟

سوال : -

چلو میں ایک سائل بن کر پوچھتا ہوں ، اللہ کے واسطے ادھر ادھر کی مارنے کی بجائے بتائیں :۔ اجماع کیا ہے ؟
جواب : - دلیل دعوی کرنے والے پر ہوتی ہے --- اور اجماع کے حجت ہونے کا دعوی آپ نے کیا ہے ہم نے نہیں --- لہذا دلائل اور تعریف آپ بیان کریں گے ---
البتہ آپ کو ایک حدیث دکھاتے ہیں اور اس میں دیکھتے ہیں کہ اجماع کس نے کیا تھا ؟
ملاحظہ کیجیے :

حدثنايحيى بن يحيى،وابو بكر بن ابي شيبةكلاهما، ‏‏‏‏‏‏عن ابي معاوية، ‏‏‏‏‏‏قال يحيى:‏‏‏‏ اخبرناابو معاوية، عنالاعمش، عنعبد الله بن مرة، عنالبراء بن عازب
، قال:‏‏‏‏ " مر على النبي صلى الله عليه وسلم بيهودي محمما مجلودا، ‏‏‏‏‏‏فدعاهم صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ هكذا تجدون حد الزاني في كتابكم؟، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ نعم، ‏‏‏‏‏‏فدعا رجلا من علمائهم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ انشدك بالله الذي انزل التوراة على موسى اهكذا تجدون حد الزاني في كتابكم؟، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ لا ولولا انك نشدتني بهذا لم اخبرك، ‏‏‏‏‏‏نجده الرجم ولكنه كثر في اشرافنا، ‏‏‏‏‏‏فكنا إذا اخذنا الشريف تركناه وإذا اخذنا الضعيف اقمنا عليه الحد، ‏‏‏‏‏‏قلنا:‏‏‏‏ تعالوا فلنجتمع على شيء نقيمه على الشريف والوضيع، ‏‏‏‏‏‏فجعلنا التحميم والجلد مكان الرجم، ‏‏‏‏‏‏فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ اللهم إني اول من احيا امرك إذ اماتوه فامر به فرجم " فانزل الله عز وجل يايها الرسول لا يحزنك الذين يسارعون في الكفر إلى قوله إن اوتيتم هذا فخذوه سورة المائدة آية 41 يقول ائتوا محمدا صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فإن امركم بالتحميم والجلد فخذوه، ‏‏‏‏‏‏وإن افتاكم بالرجم فاحذروا، ‏‏‏‏‏‏فانزل الله تعالى ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الكافرون سورة المائدة آية 44، ‏‏‏‏‏‏ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الظالمون سورة المائدة آية 45، ‏‏‏‏‏‏ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الفاسقون سورة المائدة آية 47 في الكفار كلها،‏‏‏‏
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی نکلا، کوئلے سے کالا کیا ہوا اور کوڑے کھایا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا اور فرمایا: ”کیا تم زانی کی یہی سزا پاتے ہو اپنی کتاب میں؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عالموں میں سے ایک شخص کو بلایا اور فرمایا: ”میں تجھ کو قسم دیتا ہوں اللہ کی جس نے اتارا تورات کو موسیٰ علیہ السلام پر کیا تمہاری کتاب میں زنا کی یہی حد ہے؟“ وہ بولا: نہیں اور جو تم مجھ کو یہ قسم نہ دیتے تو میں نہ کہتا ہماری کتاب میں تو زنا کی حد رجم ہے لیکن ہم میں کے عزت دار لوگ بہت زنا کرنے لگے تو جب ہم کسی بڑے آدمی کو زنا میں پکڑتے تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب غریب آدمی کو پکڑتے تو اس پر حد جاری کرتے، آخر ہم نے کہا: سب جمع ہوں اور سزا ٹھہرا لیں جو شریف رذیل سب کو دیا کریں پھر ہم نے منہ کالا کرنا کوئلے سے اور کوڑے لگانا رجم کے بدلے مقرر کیا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ! میں سب سے پہلے تیرے حکم کو زندہ کرتا ہوں جب ان لوگوں نے اس کو مار ڈالا۔“ (یعنی ختم کر ڈالا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا وہ یہودی رجم کیا گیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لاَ يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِى الْكُفْرِ» یہاں تک کہ فرمایا «إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ» (۵-المائدہ:۴۱) یعنی یہودیہ کہتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دیں تو اس پر عمل کرو اور جو رجم کا فتویٰ دیں تو بچے رہو (یعنی نہ مانو) پھر اللہ نے یہ آیتیں اتاریں «لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ» (۵-المائدہ:۴۴)، «‏‏‏‏لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ» (۵-المائدہ:۴۵)، «وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ» (۵-المائدہ:۴۷) ”جو اللہ کے اتارے موافق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں، جو اللہ کے اتارے موافق نہ کریں وہ ظالم ہیں، جو اللہ کے اتارے موافق فیصلہ نہ کریں وہ فاسق ہیں۔“ یہ سب آیتیں کافروں کے حق میں اتریں۔
(صحیح مسلم
كِتَاب الْحُدُودِ
باب رَجْمِ الْيَهُودِ أَهْلِ الذِّمَّةِ فِي الزِّنَا)
(نوٹ : - سنن ابوداود اور ابن ماجہ میں بھی درج ہے )

 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آپ کی تحریر میں تو اجماع کی تعریف ہمیں نظر نہیں آئی ، البتہ درج ذیل چند سطروں سے آپ کے اجماع کو سمجھنے اور اس کی تردید کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے :
جناب ! بتائیے یہ کون سا اجماع ہے کہ اتنے فرقے بن چکے ہیں ؟؟؟
ہر ایک میں حلال اور حرام کا فرق ہے !
ہر کوئی حسب ضرورت مخالفین پر کفر و شرک و خارجیت کے فتوے صادر کرتا رہتا ہے !
اب آپ سے پھر وہی سوال ہے کہ یہ کیسا اتفاق ہوا کہ ہر ایک میں ١٨٠ ڈگری کا فرق ہے ؟؟؟
ایک جس چیز کو حلال کہتا ہے !؟ تو دوسرا اسی کو حرام !؟
اور تیسرا اٹھ کر کہتا ہے کہ نہ تم صحیح اور نہ تم ! بلکہ یہ بات یوں ہے !
اب یہ کیسا اجماع ہے ؟؟؟
بتائیں ، ان سطور میں بیان کردہ تصور اجماع آپ نے کہاں سے اخذ کیا ہے ؟ کس نے اجماع کی تعریف یہ کی ہے کہ امت کے تمام مسائل میں سوفیصد متفق ہونے کا نام اجماع ہے ؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اگر لوگ صرف قرآن اور احادیث نبوی کی پیروی کریں تو لوگ ایسا نہ کریں

’’ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۘ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَؕ وَسَآءَتْ مَصِیْراً ‘‘( النسآء:۱۱۵)
اورجو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد ، رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ پھرتا ہے ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ (جہنم) برا ٹھکانہ ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر فرح القرطبی (متوفی۶۷۱ھ) نے فرمایا:
’’ قال العلماء فی قولہ .....دلیل علٰی صحة القول بالاجماع‘‘(تفسیر قرطبی: الجامع لاحکام القرآن۵؍۳۸۶، دوسرا نسخہ ۱؍۹۷۲)
علماء نے فرمایا کہ اس میں اجماع کے قول کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔

ابو اسحٰق ابراہیم بن موسیٰ بن محمد الشاطبی (متوفی ۷۹۰ھ) نے لکھا ہے:
’’ ثم ان عامة العلماء استدلوا بھا علٰی کون الاجماع وأن مخالفہ عاصٍ وعلٰی أن الابتداع فی الدین مذموم‘‘(الموافقات ۴؍۳۸، الفصل الرابع فی العموم والخصوص : المسألۃ الثالثہ ؍ تحقیق مشہور حسن)
پھر عام علماء نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اجماع حجت ہے اور اس کا مخالف گنہگار ہے اور یہ استدلال بھی کیا ہے کہ دین میں بدعت نکالنا مذموم ہے۔

برہان الدین ابراہیم بن عمر البقاعی (متوفی ۸۸۵ھ) نے اس آیت کی تشریح و تفسیر میں لکھا :
’’ وھذہ الآیة دالة علٰی أن الاجماع حجة‘‘( نظم الدرر فی تناسب الآیات والسورج ۲ص ص۳۱۸)
اور یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے ۔

حنفی فقیہ ابو اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم السمرقندی (متوفی ۳۷۵ھ) نے آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’ وفی الآیة دلیل: أن الاجماع حجة لأن من خالف الاجماع فقد خالف سبیل المؤمین ‘‘(تفسیر سمر قندی ؍بحر العلوم ۱؍۳۸۷۔۳۸۸)
اور اس آیت میں (اس پر) دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے،کیونکہ جس نے اجماع کی مخالفت کی تو اس نے سبیل المؤمنین کی مخالفت کی ۔

قاضی عبداللہ بن عمر البیضاوی (متوفی ۷۹۱ھ) نے اس آیت کی تشریح میں کہا :
’’والآیة تدل علٰی حرمة مخالفة الاجماع.....‘‘ (انوار التنزیل و اسرار التنزیل ؍تفسیر بیضاوی ۱؍۲۴۳)
اور آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اجماع کی مخالفت حرام ہے

2- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ اُمَّتِیْ عَلٰی ضَلَالَة اَبَداً،وَیَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَة "(المستدرک الحاکم۱؍۱۱۶ح۳۹۹ وسندہ صحیح)
اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ۔
اس حدیث کی سند درج ذیل ہے :

’’ حدثنا ابوبکر محمد بن أحمد بن بالویة : ثنا موسی بن ہارون:ثنا العباس بن عبدالعظیم: ثنا عبد الرزاق : ثنا ابراھیم بن میمون العدنی۔وکان یسمی قریش الیمن وکان من العابدین المجتھدین۔ قال قلت لأبی جعفر : واللہ لقد حدثنی ابن طاوس عن أبیہ قال: سمعت ابن عباس یقول:قال رسول اللہ ﷺ (اتحاف المہرۃلابن حجر ۷؍۲۹۷ح۸۴۸، المستدرک :۳۹۹، مخطوط مصور ج۱ص۵۰[۴۹])
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !​
غلط فہمی : -
’’ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۘ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَؕ وَسَآءَتْ مَصِیْراً ‘‘( النسآء:۱۱۵)
اورجو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد ، رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ پھرتا ہے ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ (جہنم) برا ٹھکانہ ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر فرح القرطبی (متوفی۶۷۱ھ) نے فرمایا:
’’ قال العلماء فی قولہ .....دلیل علٰی صحة القول بالاجماع‘‘(تفسیر قرطبی: الجامع لاحکام القرآن۵؍۳۸۶، دوسرا نسخہ ۱؍۹۷۲)
علماء نے فرمایا کہ اس میں اجماع کے قول کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔

ابو اسحٰق ابراہیم بن موسیٰ بن محمد الشاطبی (متوفی ۷۹۰ھ) نے لکھا ہے:
’’ ثم ان عامة العلماء استدلوا بھا علٰی کون الاجماع وأن مخالفہ عاصٍ وعلٰی أن الابتداع فی الدین مذموم‘‘(الموافقات ۴؍۳۸، الفصل الرابع فی العموم والخصوص : المسألۃ الثالثہ ؍ تحقیق مشہور حسن)
پھر عام علماء نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اجماع حجت ہے اور اس کا مخالف گنہگار ہے اور یہ استدلال بھی کیا ہے کہ دین میں بدعت نکالنا مذموم ہے۔

برہان الدین ابراہیم بن عمر البقاعی (متوفی ۸۸۵ھ) نے اس آیت کی تشریح و تفسیر میں لکھا :
’’ وھذہ الآیة دالة علٰی أن الاجماع حجة‘‘( نظم الدرر فی تناسب الآیات والسورج ۲ص ص۳۱۸)
اور یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے ۔

حنفی فقیہ ابو اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم السمرقندی (متوفی ۳۷۵ھ) نے آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’ وفی الآیة دلیل: أن الاجماع حجة لأن من خالف الاجماع فقد خالف سبیل المؤمین ‘‘(تفسیر سمر قندی ؍بحر العلوم ۱؍۳۸۷۔۳۸۸)
اور اس آیت میں (اس پر) دلیل ہے کہ اجماع حجت ہے،کیونکہ جس نے اجماع کی مخالفت کی تو اس نے سبیل المؤمنین کی مخالفت کی ۔

قاضی عبداللہ بن عمر البیضاوی (متوفی ۷۹۱ھ) نے اس آیت کی تشریح میں کہا :
’’والآیة تدل علٰی حرمة مخالفة الاجماع.....‘‘ (انوار التنزیل و اسرار التنزیل ؍تفسیر بیضاوی ۱؍۲۴۳)
اور آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اجماع کی مخالفت حرام ہے
ازالہ : -

الله تعالیٰ فرماتا ہے : -

(وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۘ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَؕ وَسَآءَتْ مَصِیْراً)

اورجو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد ، رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ پھرتا ہے ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ (جہنم) برا ٹھکانہ ہے۔( النسآء:۱۱۵)

وضاحت : -

یہاں سبیل مؤمنین سے موصوف اجماع مراد لے رہے ہیں جبکہ سبیل مؤمنین رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی موجود تھا اور اس وقت یہ نام نہاد اجماع یعنی کتاب وسنت کی کسی بھی نص سے مسئلہ استنباط کیے بغیر مجتہدین کا اجماع موجود نہ تھا ۔
یعنی یہ آیت کریمہ تو واضح کر رہی ہے کہ حجت وشریعت صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ اس دور کے مؤمنین صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ہی مسائل اخذ کرتے تھے ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ سبیل مؤمنین اجماع نہیں بلکہ کتاب وسنت سے استنباط واجتہاد ہے !
اور موصوف نے "سبیل المؤمنین" کا معنى "اجماع" ثابت کرنے کے لیے ایسے قیل وقال کا سہارا لیا ہے جو خود حجت نہیں ہیں ۔
جبکہ اسی لفظ کا معنى "رجوع إلى الکتاب والسنہ" اسی آیت کی دلالت میں موجود ہے ۔

والحمد للہ رب العالمین
 
Top