• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث صحیحہ اور مقلدین ابی حنیفہ

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوال نمبر ایک : کیا اعمال بھی ایمان کا حصہ ہیں ۔ اگر ایمان کا حصہ ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے اگر کوئی اعمال چھوڑ دے تو وہ ایمان سے بھی خارج ہوجائے گا ۔
عمل ایمان کا حصہ اور رکن ہے۔ اسی لیے تو بے عمل مثلا تارک صلوۃ وصوم جہنم میں جائے گا جیسا کہ نصوص نے بتلایا ہے۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنا بھی عمل ہی ہے اور کلمہ کفر کہنا یا بت کی پرستش کرنا یا نبی کو معاذ اللہ گالی دینا بھی عمل ہی ہے۔ لہذا عمل سے ایمان میں داخل ہو گا اور عمل سے ایمان سے خارج بھی ہو گا۔

سوال نمبر دو : ایمان میں کمی و ذیادتی کا کیا مطلب ہے ۔ اس سے مراد کیفیت میں کمی و ذیادتی مراد ہے یا کمیت میں۔
ایمان کی کمی و زیادتی سے مراد کمیت میں کمی و زیادتی ہے کیونکہ کمی و زیادتی تو کمیت میں ہوتی ہے نہ کہ کیفیت میں۔ کیفیت میں تو بہتری ہوتی ہے نہ کہ زیادتی۔ اگر کیفیت مراد ہوتی تو نصوص کے الفاظ یوں ہوتے کہ جب آیات قرآنیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بہتر یا خوبصورت ہو جاتا ہے۔ عربی زبان میں زائدۃ الکبد جگر کے بڑھے ہوئے حصے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح الزائدۃ الانفیۃ ناک کے بڑھے ہوئے غدود کو کہتے ہیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اجتھادی مسائل پر بحث چوں کہ ہمارا موضوع نہیں ہے اس لئیے اس پر میں کچھ نہیں لکھ رہا ۔ براہ راست موضوع پر آرہا ہوں ۔
اچھی بات ہے۔ لیکن موضوع تو تھا ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے یا نہیں۔؟ پر آپ اس کی کیفیات وتعریفات میں پڑنے کے بعد بھی یہی لکھ رہے ہیں کہ میں نے موضوع پر ہی لکھ رہا ہوں۔جبکہ ماقبل پوسٹ میں مجھے یوں لکھا تھا کہ
کوئی اختلافی مسئلہ پیش کرسکتے ہیں تو صحیح ورنہ موضوع سے غیر متعلق باتوں کو نہ چھیڑیں ۔
اب آپ نے ایمان کی تعریف کیا ہے؟، کمی وزیادتی کی کیفیت کیا ہے؟، عمل ایمان میں داخل ہے یا نہیں؟ کی طرف کیوں ہاتھ بڑھایا ہے۔؟ جبکہ میں نے مسئلہ صرف اتنا پیش کیا کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے جبکہ فقہ حنفی اس کے خلاف ہے۔آپ کو چاہیے تو یہ تھا کہ فقہ کے اس مسئلے پر بغیر اس کی تعریفات وکیفیات میں پڑنے کے ڈائریکٹ ہمیں بتاتے کہ نہیں فقہ کا یہ مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف نہیں ہے۔اور اس پر قرآن وحدیث سے ہی دلائل پیش کرتے قیل وقال پر کبھی سوار نہ ہوتے۔
المختصر آپ نے تین موضوع علیحدہ چھیڑ دیئے ہیں جن کا ’’کمی وزیادتی ہونا یانہ ہونا‘‘ کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں۔اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میں ایک مسئلہ پیش کرونگا اور آپ نے آگے سے دلائل کے ساتھ اس کو قرآن وحدیث کا عین بتلانا ہے۔بغیر تعریفات وکیفیات میں پڑے۔شکریہ
آپنے قراں و حدیث کہ حوالہ سے یہ بتایا کہ ایمان میں کمی و زیادتی ہے۔
جی بالکل بتایا لیکن آپ ماننے کے بجائے تاویلات اور موضوع از خارج باتوں کی طرف بھاگ نکلے۔
لیکن ایمان کی تعریف اور کمی و زیادتی کی کیفیت مجہول رکھی۔
ایک مثال سے سمجھیے ایمان کو ہم ایک کنواں تسلیم کرلیتے ہیں۔ کنوے میں جب پانی زیادہ آجائے تو کنوے میں پانی کی زیادتی ہوجاتی ہے لیکن جب پانی کم ہوجائے تو کنوے میں پانی کی کمی آجاتی ہے۔رائٹ ؟ اسی طرح ایمان والے کی زندگی میں نیک اعمال زیادہ ہوجائیں تو ایمان بڑھ جاتا ہے۔اور اگر برے اعمال زیادہ ہوجائیں تو ایمان کم ہوجاتا ہے۔
اب اگر آپ کسی کو بتانے لگیں کہ ان وجوہات واسباب کی وجہ سے کنوے میں پانی کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے تو کیا سامنے والا اس بات کو تسلیم کرنے سے پہلے آپ سے کنوے کی تعریف، پانی کم زیادہ ہونے کی کیفیت جانے گا ؟ کیاوہ یہ کہے گا کہ آپ نے کنوے کی تعریف اور کمی وزیادتی کو مجہول رکھا ہے اس لیے میں آپ کی بات کو نہیں مانتا۔؟
ارے بھائی کمی وزیادتی کا جو سادہ سا مفہوم ہر عام وخاص کے ذہن میں ہوتا ہے۔(یعنی کمی یا کم ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے اسی طرح زیادتی یا زیادہ ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے) میرے الفاظ بھی اس معنی پر ہیں۔آپ تعریفات وکیفیات وغیرہ میں پڑنے کے بجائے ’’کمی وزیادتی ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘ بس اسی پر ہی رہیں۔
سوال نمبر ایک : کیا اعمال بھی ایمان کا حصہ ہیں ۔ اگر ایمان کا حصہ ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے اگر کوئی اعمال چھوڑ دے تو وہ ایمان سے بھی خارج ہوجائے گا ۔
جی اعمال ایمان کا حصہ ہیں۔اور آپ کی دوسری بات کے جواب سے پہلے آپ مجھے بتائیں کہ مرتد کسے کہتے ہیں؟ انسان مرتد کب ہوتا ہے ؟ کن اعمال سے ہوتا ہے ؟ اور شیخ ابوالحسن علوی بھائی کاجواب بھی دوبارہ نقل کررہا ہوں
عمل ایمان کا حصہ اور رکن ہے۔ اسی لیے تو بے عمل مثلا تارک صلوۃ وصوم جہنم میں جائے گا جیسا کہ نصوص نے بتلایا ہے۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنا بھی عمل ہی ہے اور کلمہ کفر کہنا یا بت کی پرستش کرنا یا نبی کو معاذ اللہ گالی دینا بھی عمل ہی ہے۔ لہذا عمل سے ایمان میں داخل ہو گا اور عمل سے ایمان سے خارج بھی ہو گا۔
سوال نمبر دو : ایمان میں کمی و ذیادتی کا کیا مطلب ہے ۔ اس سے مراد کیفیت میں کمی و ذیادتی مراد ہے یا کمیت میں۔
سب سے پہلے تو کیفیت اور کمیت کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔کیفیت کسی چیز کی حالت کو کہتے ہیں۔اور کمیت مقدار کو کہتے ہیں۔اس کے بعد باقی جواب شیخ صاحب کا نقل کررہا ہوں
ایمان کی کمی و زیادتی سے مراد کمیت میں کمی و زیادتی ہے کیونکہ کمی و زیادتی تو کمیت میں ہوتی ہے نہ کہ کیفیت میں۔ کیفیت میں تو بہتری ہوتی ہے نہ کہ زیادتی۔ اگر کیفیت مراد ہوتی تو نصوص کے الفاظ یوں ہوتے کہ جب آیات قرآنیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بہتر یا خوبصورت ہو جاتا ہے۔
قران و حدیث کی روشنی میں بتائیے گا ۔
جی بھائی ان شاءاللہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہی جواب دیاجائے گا۔
نوٹ:
عزیز بھائی کیا قرآنی احکام کو ماننے کےلیے اس کے ہر ہر ذرے اور پوری تفصیل سے جان کاری ضروری ہے؟ دلائل سے یہ ثابت کیا گیاکہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے۔لیکن فقہ حنفی اس کے خلاف ہے۔اب آپ نے اپنی فقہ کا یہ مسئلہ بغیر قیل وقال کے دلائل سے ثابت کرنا ہے کہ فقہ حنفی کا بھی مسئلہ قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے۔
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ میں کوئی مسئلہ پیش کروں اور آپ ادھر سے کہیں کہ اس کی تعریف نہیں لکھی گئی۔کیفیت نہیں بتائی گئی ۔میں نے تعریف او رکیفیت کی کوئی بات نہیں لکھی صرف مسئلہ کا ذکر کیا ہے۔امید ہے کہ اب موضوع از خارج باتوں سے کلی گریز ہی کیا جائے گا۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
ایمان کی اصلیت وتاثیر میں اختلاف

قرآن وحدیث کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ آدمی کے ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے مگر فقہ حنفی اس کا انکار کرتی ہے۔

قرآن وحدیث كےان مذکور دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے لیکن قرآن وحدیث کی مخالفت میں فقہ حنفی اس بارے کیاکہتی ہے ملاحظہ ہو

وضاحت:
ایمان میں کمی وزیادتی کامسئلہ فقہ حنفی کا سراسر قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔اب آپ مجھے اپنے دعویٰ کو صحیح ثابت کرکےدکھائیں کہ نہیں اس مسئلہ میں بھی احناف (بعید وبعد کی تاویلات سے گریز کرتے ہوئے) قرآن وسنت پر عامل ہیں۔
ایمان میں کمی و زیادتی فقہ حنفی کا مسئلہ ہے؟؟ میرے علم میں کسی نے اسکو فقہ کا مسئلہ قرار نہیں دیا۔
کتاب فقہ اکبر عقائد سے متعلق ہے نا کہ فقہ حنفی سے متعلق۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب اس کتاب کی نسبت پہلے امام صاحب رحمہ اللہ سے بسند صحیح ثابت کریں ۔ پھر اسے فقہ حنفی کا مسئلہ ثابت کریں پھراحناف کے جمہور فقہاء و محدثین، مفسرین عظام اور اکابر علماء سے ثابت کریں کہ اس عبارت سے جو مفہوم آپ وضع کر رہے ہیں یہی مفہوم ان ہستیوں کا تھا۔
آپ کے مغالطے کا جواب ان وضاحتوں کے بعد ہی بنتا ہے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ایمان میں کمی و زیادتی فقہ حنفی کا مسئلہ ہے؟؟ میرے علم میں کسی نے اسکو فقہ کا مسئلہ قرار نہیں دیا۔
ابن جوزی بھائی نے بغیر پڑھے اور پھر بغیر اس پر سوچ وبچار کیے پوسٹ کرڈالی۔محترم بقول آپ کے چاہے اس کا بیان عقیدہ کی کتاب میں ہے لیکن متعلق تو مقلدین ابی حنیفہ سے ہی ہے۔اور میں نے فقہ حنفی کا مسئلہ لکھا ہے۔مراد یہاں مسئلہ نہ فقہ شافعی کا بیان ہے نہ فقہ مالکی کا اور نہ فقہ حنبلی کا۔اورپھر تھریڈ کے عنوان کو بغور دیکھیں کہ ’’ احادیث صحیحہ اور مقلدین ابی حنیفہؓ ‘‘ تو اس تھریڈ میں امام علیہ الرحمۃ کی طرف منسوب عقائد واعمال کا ہی تذکرہ ہوگا۔اس بات کو پس پشت ڈال کر کہ اس کی منسوبیت الی الامام کس درجہ کی ہے۔؟ کیونکہ جب مذہب حنفی کی کتب میں ان کا بیان ہے تو پھر منسوبیت الی الامام کی بات کرنا ہی ٹائم کا ضیاع ہے۔
اور بیان شدہ مسائل کی نسبت امام کی طرف کس حیثیت کی ہے؟ اس پر بحث کرنا ہی عبث ہے کیونکہ آپ اس سے انکاری نہیں۔اگر آپ انکاری ہوتے تب بات تھی کہ ایک مسئلہ امام علیہ الرحمۃ سے ثابت ہے اور آپ مقلد ہوکر بھی امام صاحب کے اس مسئلہ کو نہیں مانتے۔( ہاں جس مسئلہ سے پوری مقلدیت انکاری ہوجائے گا۔ہم اس پر بحث ہی نہیں کریں گے۔ان شاءاللہ) جی ایسے بھی مسائل ہیں کہ جن پر آپ لوگ امام صاحب کی تقلید سے فراری ہیں۔یہ ہمارا موضوع نہیں۔
کتاب فقہ اکبر عقائد سے متعلق ہے نا کہ فقہ حنفی سے متعلق۔
یہ کتاب کس جماعت، کس گروہ، کس فرقہ، کس کے مقلدین کے عقائد پر ہے ؟ کیا یہ کتاب شافعی، مالکی اور حنبلی سےمتعلق ہے یا حنفیوں سے ؟ جب حنفیوں سےمتعلق ہے تو پھر حنفیت میں اعمال بھی آتے ہیں اور عقائد بھی۔اس لیے آپ ادھر ادھر کی باتوں میں نہ پڑیں نفس مسئلہ پر ہی گفتگو کریں۔شکریہ
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب اس کتاب کی نسبت پہلے امام صاحب رحمہ اللہ سے بسند صحیح ثابت کریں۔
بقول آپ کے جب آپ نے اس مسئلہ کو اپنے فرقہ کی عقائد کی کتاب میں شامل کیا تو اس بات کا خیال رکھا تھا ؟ کہ آیا اس کی نسبت امام صاحب کی طرف صحیح بھی ہے کہ نہیں ؟ جب آپ کی کتب میں بیان ہے تو پہلے اس بات کا خیال آپ لوگوں کو رکھنا چاہیے تھا نہ کہ اب ہمارے اوپر یہ ذمہ داری ڈال دی جائے کہ پہلے یوں کرو اور پھر یوں کرو۔آپ یا حنفیت سےمتعلق اس کتاب کاانکار کریں کہ یہ کتاب حنفی مذہب کی ہے ہی نہیں یا پھر قیل وقال سے گریز کریں۔جزاک اللہ
پھر اسے فقہ حنفی کا مسئلہ ثابت کریں
بہت خوب۔کیا آپ لوگ اس مسئلہ سے انکاری ہیں ؟ جس کتاب میں ہے اس کتاب کو حنفیت کی کتاب تسلیم نہیں کرتے ؟ مصنف کو مذہب حنفی کا مقلد نہیں مانتے ؟ آپ لکھیں کہ یہ مسئلہ مذہب حنفی کاہے ہی نہیں بلکہ فلاں مذہب کا ہے ۔اس کے بعد باقی باتیں۔
پھراحناف کے جمہور فقہاء و محدثین، مفسرین عظام اور اکابر علماء سے ثابت کریں کہ اس عبارت سے جو مفہوم آپ وضع کر رہے ہیں یہی مفہوم ان ہستیوں کا تھا۔
واہ بہت خوب۔ ارے بھائی اب قرآن وحدیث کا مفہوم جو فقہ حنفی کے خلاف ہو وہ احناف کے جمہور فقہاء ومحدثین، مفسرین عظام اور اکابر علماء کے تابع ہوگیا ہے؟ کیا ہم نے جو سادہ اور عام فہم مفہوم قرآن وحدیث کے دلائل سے ثابت کیا ہے۔کہ الایمان یزید وینقص اورمذہب حنفی کی ہی کتاب سے ثابت کیاکہ الایمان لا یزید ولا ینقص۔تو اس میں کس مفہوم کی آپ بات کررہے ہیں ؟ اگر قرآن وحدیث کے مفہوم سے مذہب حنفی کا مفہوم مطابقت رکھتا ہے تو پھر واضح کریں۔بجائے اس کے کہ اس کے ثبوت کی ذمہ داری ہم پر ڈال دیں۔

یاد رہے ہم نے ایک مسئلہ بیان کرنا ہے اور آپ لوگوں نے یہ ثابت کرنا ہے کہ حنفی مذہب کا یہ مسئلہ قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے۔یاپھر اس مسئلے کوماننے سےانکار کردینا ہے۔دو باتیں ہیں۔تیسری بات کوئی نہیں ہے۔

نوٹ:
اور پھر مزے کی بات یہ باتیں صرف آپ کو یاد آئی ہیں کیا تلمیذ بھائی کی نظر پہلے اس طرف نہیں گئی ؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
گڈ مسلم صاحب اور ابو الحسن علوی صاحب نے جو لکھا ہے وہ تقریبا ملتا جلتا ہے ۔ لیکن ایک اعتراض گڈمسلم صاحب کا الگ ہے ۔ پہلے گڈمسلم صاحب کے اعتراض کا جواب ۔
اب آپ نے ایمان کی تعریف کیا ہے؟، کمی وزیادتی کی کیفیت کیا ہے؟، عمل ایمان میں داخل ہے یا نہیں؟ کی طرف کیوں ہاتھ بڑھایا ہے۔؟ جبکہ میں نے مسئلہ صرف اتنا پیش کیا کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے جبکہ فقہ حنفی اس کے خلاف ہے۔آپ کو چاہیے تو یہ تھا کہ فقہ کے اس مسئلے پر بغیر اس کی تعریفات وکیفیات میں پڑنے کے ڈائریکٹ ہمیں بتاتے کہ نہیں فقہ کا یہ مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف نہیں ہے۔اور اس پر قرآن وحدیث سے ہی دلائل پیش کرتے قیل وقال پر کبھی سوار نہ ہوتے۔
المختصر آپ نے تین موضوع علیحدہ چھیڑ دیئے ہیں جن کا ’’کمی وزیادتی ہونا یانہ ہونا‘‘ کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں۔اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میں ایک مسئلہ پیش کرونگا اور آپ نے آگے سے دلائل کے ساتھ اس کو قرآن وحدیث کا عین بتلانا ہے۔بغیر تعریفات وکیفیات میں پڑے۔شکریہ
جب کسی بھی معاملہ پر بحث کی جاتی ہے پہلے اس موضوع کا حدود اربعہ طے کیا جاتا ہے کہ تاکہ متعین ہوجائے بحث کس بات پر کرنی ہے ۔ اگر کوئی پاکستان پر بحث کرے اور مراد اس سے ہمارا پیارا وطن ہو لیکن سامع اس سے مراد اس کا مطلب "پاک جگہ " لے کر مقدس مقامات پر بات شروع کردے تو گفتگو کا کیا حال ہوگا ۔ اس لئیے پہلے موضوع کی تعریف واضح الفاظ میں کی جاتی ہے ۔ عرب ممالک میں جو عیسائی ہیں وہ گرجا گھر کی عبادت کو صلاہ کہتے ہیں تو کیا آپ اگر صلاہ کی بات کریں تو کیا یہ نہ بتائیں گے کہ صلاہ کی تعریف کیا ہے ۔ اور جب آپ صلاہ کی بات کرنے سے پہلے صلاہ کی تعریف کردیں گے تو واضح ہوجائے گا آپ نے جو صلاہ کی بات وہ اسلامی صلاہ (نماز) ہے نہ کہ گرجا گھر کی صلاہ ۔
میں نے ایمان کی ہی تعریف پوچھی تھی جس میں کمی و زیادتی ہمارہ موضوع ہے اگر میں یہاں روزہ کی تعریف پوچھتا تو آپ کہ سکتے تھے میں موضوع سے ہٹا ہوں
ارے بھائی کمی وزیادتی کا جو سادہ سا مفہوم ہر عام وخاص کے ذہن میں ہوتا ہے۔(یعنی کمی یا کم ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے اسی طرح زیادتی یا زیادہ ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے) میرے الفاظ بھی اس معنی پر ہیں۔آپ تعریفات وکیفیات وغیرہ میں پڑنے کے بجائے ’’کمی وزیادتی ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘ بس اسی پر ہی رہیں۔
ماشاء اللہ ، دعوے قرآن و حدیث سے بات ثابت کرنے سے ہیں اور مفہوم وہ معتبر ہیں جو عام و خاص کے ذہن میں ہیں ۔ آپ کی بات قراں و سنت کے حوالہ سے تب کہلائے گي جب آپ مفہوم بھی قران و سنت سے دیں ۔
اب آتے ہیں گڈمسلم ابو الحسن علوی کے مشترکہ جوابات کی طرف
آپ نے دو باتیں کی ہیں
ایک ۔ اعمال ایمان کا حصہ ہیں
عمل ایمان کا حصہ اور رکن ہے۔ اسی لیے تو بے عمل مثلا تارک صلوۃ وصوم جہنم میں جائے گا جیسا کہ نصوص نے بتلایا ہے۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنا بھی عمل ہی ہے اور کلمہ کفر کہنا یا بت کی پرستش کرنا یا نبی کو معاذ اللہ گالی دینا بھی عمل ہی ہے۔ لہذا عمل سے ایمان میں داخل ہو گا اور عمل سے ایمان سے خارج بھی ہو گا۔
اعمال ایمان کا حصہ ہیں تو روزہ بھی عمل ہے اور یہ بھی یقینا ایمان کا حصہ ہے اور آپ نے کہا کہ
عمل سے ایمان میں داخل ہو گا اور عمل سے ایمان سے خارج بھی ہو گا۔
تو کیا تارک روزہ دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا
جہاں تک بت پرستی کرنا یا نبی کو معاذ اللہ گالی دیناوغیرہ جیسے اعمال کا تعلق ہے تو اس طرح کے اعمال ایسے شخص سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جس کے دل میں کفر ہوتا ہے ۔ یہ ممکن نہیں ہوتو موحد اور بت پرستی کر رہا ہو ۔ ہو تو مومن اور نبی کو معاذ اللہ گالی دے رہا ہو ۔ اس لئيے ان اعمال کا مرتکب شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے کیوں کہ ایک مومن شخص سے یہ اعمال ناممکن ہیں
لیکن یہ ممکن ہے کہ ہوتو مومن لیکن بلا عذر روزہ چھوڑ دے ۔ تو کیا ایسا شخص جو بلا عذر روزہ چھوڑ دے دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا ؟ کم از کم آپ حضرات کی ایمان کی تعریف سے تو یہی لگ رہا ہے

دوسری بات آپ نے کہی کہ ایمان میں کمی و زیادتی کمیت میں کمی زیادتی ہے کیفیت (یعنی مراتب میں نہیں )
ایمان کی کمی و زیادتی سے مراد کمیت میں کمی و زیادتی ہے کیونکہ کمی و زیادتی تو کمیت میں ہوتی ہے نہ کہ کیفیت میں۔ کیفیت میں تو بہتری ہوتی ہے نہ کہ زیادتی۔ اگر کیفیت مراد ہوتی تو نصوص کے الفاظ یوں ہوتے کہ جب آیات قرآنیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بہتر یا خوبصورت ہو جاتا ہے۔
اسلام کے کچھ بنیادی عقائد ہیں جن پر ایمان لانا لازمی ہے ، ان میں سے ایک کا بھی انکار مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔ مثلا اللہ کی توحید ، نبی کی رسالت اور خاتم النبیین ماننا ، قران کو اللہ کا کلام اور تحریف سے پاک ماننا وغیرہ وغیرہ ۔ اگر کوئی ختم نبوت کا انکار کرتا ہے تو کمیت میں اس نے کمی کی تو آپ کی تعریف کے مطابق اس کے ایمان میں کمی ہوئی ہے لیکن ہے مومن ۔۔۔۔
پھر تو قادیانی حضرات آپ کے نزدیک کم درجے کے مومن ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج بھی نہیں ہیں ؟؟؟؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جب کسی بھی معاملہ پر بحث کی جاتی ہے پہلے اس موضوع کا حدود اربعہ طے کیا جاتا ہے کہ تاکہ متعین ہوجائے بحث کس بات پر کرنی ہے ۔
ارے تلمیذ بھائی حدود اربعہ کس کو کہتے ہیں؟ شاید آپ اس کو نہیں جانتے ؟ یا سہواً آپ نے حدود اربعہ کا لفظ استعمال کردیا ہے محترم موضوع بیان کرکے حدود اربعہ تو طے کردیا ہے۔ مزید آپ حدود اربعہ سے کیا طے کروانا چاہتے ہیں۔؟
ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے یا نہیں بولنا ہی حدود اربعہ طے کرنا ہے۔
اگر کوئی پاکستان پر بحث کرے اور مراد اس سے ہمارا پیارا وطن ہو لیکن سامع اس سے مراد اس کا مطلب "پاک جگہ " لے کر مقدس مقامات پر بات شروع کردے تو گفتگو کا کیا حال ہوگا۔
ارے محترم جب اگلا یہ طے کردے کہ آپ نے پاکستان سے متعلق گفتگوکرنی ہے۔تو آج کل کون پاگل ہے جو پاکستان کو نہیں جانتا اور پاکستان پر بات کرنے کےبجائے مقدس مقامات پر بات کرنا شروع کردے گا۔؟
اس لئیے پہلے موضوع کی تعریف واضح الفاظ میں کی جاتی ہے۔
واہ بہت خوب اگر ان بحثوں میں پڑ گئے تو پھر اللہ ہی حافظ ہوگا۔ میں نے جب تھریڈ لگایا کہ ’’احادیث صحیحہ اور مقلدین ابی حنیفہ ‘‘ تو آپ نے حدیث، صحیح، مقلد وغیرہ کی تعریف پر بات کی ہے ؟ صرف ایمان کی تعریف وغیرہ پر وقت ضائع کیوں کیاجارہا ہے۔؟ اسی اصول پر اگر عمل کرنا ہے تو پہلے حدیث کی تعریف، پھر صحیح کی تعریف، پھر مقلد کی تعریف وغیرہ پر بحث نہ کرلیں۔تعجب ہے۔
محترم ایمان کی تعریف کیا ہے ؟ اس ٹاپک کو چھوڑ کر اس پر آئیں کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے یا نہیں ؟ اسی بات پر اگر دلائل پیش کرنے ہیں تو ٹھیک ورنہ فضول میں وقت کا ضیاع نہ کیا جائے۔
میں نے ایمان کی ہی تعریف پوچھی تھی جس میں کمی و زیادتی ہمارہ موضوع ہے اگر میں یہاں روزہ کی تعریف پوچھتا تو آپ کہ سکتے تھے میں موضوع سے ہٹا ہوں
اچھا جی لیکن جب میں نے تمہاری ہی بیان کردہ بات کہ
’’ لیکن میری رائے ہے اکثر امور پر دیوبند اور اہلحدیث میں اجتہادی اختلاف ہے اور اور اس اجتہادی اختلاف میں میں دیوبند کو حق پر سمجھتا ہوں‘‘
میں یہ پوچھا تھا کہ آپ ذرا اجتہادی مسائل تو بتائیں کہ آپ اجتہادی مسائل کس کو کہتے ہیں ؟ اور پھر ان مسائل میں دیوبند کو حق پر سمجھ رہے ہیں۔تو اس وقت آنحضرت نے تو کہا تھا کہ
کوئی اختلافی مسئلہ پیش کرسکتے ہیں تو صحیح ورنہ موضوع سے غیر متعلق باتوں کو نہ چھیڑیں ۔
اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اگر ایمان کی تعریف اور اس سے متعلق باتوں پر گفتگو کرنی ہے تو علیحدہ تھریڈ قائم کرلیں۔اس تھریڈ میں ہم ایک مسئلہ فقہ حنفی کا جو قرآن وحدیث کے خلاف ہوگا پیش کریں گے اور آپ ہمارے دلائل کا رد پیش کرتے ہوئے فقہ حنفی کے اس مسئلہ کو قرآن وحدیث کے عین موافق ثابت کریں گے۔بغیر اس مسئلہ کی تعریفات وکیفیات میں پڑے۔اور ادھر ادھر کی بےدلائل باتوں کے۔ میں نے یہ پیش کیا کہ قرآن وحدیث کے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے لیکن فقہ حنفی اس کے خلاف ہے۔اور آپ کا دعویٰ ہے کہ مذہب حنفی قرآن وحدیث کے عین موافق ہے۔اس مسئلہ میں آپ اپنے دعویٰ کوبادلائل ثابت کریں۔شکریہ
ماشاء اللہ ، دعوے قرآن و حدیث سے بات ثابت کرنے سے ہیں اور مفہوم وہ معتبر ہیں جو عام و خاص کے ذہن میں ہیں ۔ آپ کی بات قراں و سنت کے حوالہ سے تب کہلائے گي جب آپ مفہوم بھی قران و سنت سے دیں ۔
بچگانہ حرکتیں اور باتیں۔ اچھا آپ مجھے بتائیں کہ میں نے جو کہا کہ
’’ ارے بھائی کمی وزیادتی کا جو سادہ سا مفہوم ہر عام وخاص کے ذہن میں ہوتا ہے۔(یعنی کمی یا کم ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے اسی طرح زیادتی یا زیادہ ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے) میرے الفاظ بھی اس معنی پر ہیں۔‘‘
یہاں کم اور زیادہ ہونے کا جو معنی ومفہوم ہر عام وخاص جانتا ہوتا ہے کیا یہ معنی ومفہوم شریعت کے خلاف ہے ؟ کیا یہاں پر میں زاد(زیادتی، اضافہ، بڑھوتری) اور نقص(کمی) پر قرآن کریم سے وہ الفاظ نکال کر پیش کرتا جو اس معنی پر دال ہیں تب آپ مانتے ؟ اگر آپ کو اس مفہوم سےاختلاف ہے تو محترم اختلاف پیش کریں اور پھر کمی اور زیادتی کی تعریف پیش فرمائیں تاکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوجائے۔
تو کیا تارک روزہ دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا ؟
میں نے آپ سے ماقبل پوچھا تھا کہ
’’ مرتد کسے کہتے ہیں؟ انسان مرتد کب ہوتا ہے ؟ کن اعمال سے ہوتا ہے ؟ ‘‘ جس کا جواب ابھی تک آپ نے نہیں دیا اگر اس کاجواب دیا ہوتا تو پھر تارک روزہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے کہ نہیں؟ لکھنا بھی نہ پڑتا۔
اسلام کے کچھ بنیادی عقائد ہیں جن پر ایمان لانا لازمی ہے ، ان میں سے ایک کا بھی انکار مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔ مثلا اللہ کی توحید ، نبی کی رسالت اور خاتم النبیین ماننا ، قران کو اللہ کا کلام اور تحریف سے پاک ماننا وغیرہ وغیرہ ۔ اگر کوئی ختم نبوت کا انکار کرتا ہے تو کمیت میں اس نے کمی کی تو آپ کی تعریف کے مطابق اس کے ایمان میں کمی ہوئی ہے لیکن ہے مومن ۔۔۔۔
پھر تو قادیانی حضرات آپ کے نزدیک کم درجے کے مومن ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج بھی نہیں ہیں ؟؟؟؟

اس سوال کے جواب سے پہلے آپ مجھے ایک چھوٹے سے سوال کا جواب دیں کہ ایک کافر جب کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ایمان والا ہوجاتا ہے تو یہ اس کا کلمہ پڑھنا عمل ہے یا نہیں ؟ اگر آپ اس کا جواب یہ دیں کہ یہ اس کا عمل نہیں تو پھر آپ بتائیں گے کہ پھر کافر کا یہ فعل کیا کہلائے گا ؟ اور اگر آپ جواب دیں کہ یہ اس کاعمل ہے تو پھر آپ اس بات سے انکاری ہیں کہ عمل ایمان کا رکن اور حصہ ہی نہیں۔

اس سوال کے جواب کے بعد باقی باتیں۔ ان شاءاللہ
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم گڈمسلم صاحب ،
آپ کا پرزور اصرار ہے کہ میں ایمان کی تعریف اور کمی و زیادتی کی کیفیت میں پڑے بغیر بات چیت آگے بڑہا‎ؤں اور ثابت کروں احناف کا موقف قران و حدیث سے مطابق ہے ۔
ٹھیک ہے مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ جب میں احناف کا موقف قراں و حدیث سے موافق ثابت کروں گا تو بات ایمان اور کمی و زیادتی کی کیفیت کی طرف ہی آئے گي ۔ بہر حال آپ کے اصرار کو دیکھتے ہوئے میں احناف کا موقف بتاؤں گا لیکن تقریبا ان شاء اللہ تین چار دن تک۔ في الحال مہمانوں کی آمد کی وجہ سے مصروفیات ہیں ۔
یہ ایک اوپن فورم ہے ۔ ہر کوئی اس میں قران و حدیث کی روشنی میں بات کرسکتا ہے لیکن گذارش ہے کہ میری غیر موجودگی میں موضوع کا رخ کہیں اور طرف نہ چلا جآئے ۔ اگر کوئي اپنا موقف پیش کرے تو بالکل کرسکتا ہے لیکن موضوع سے متعلق رہتے ہوئے ۔
ان شاء اللہ چند دنوں میں حاضری ہوتی ہے ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم گڈمسلم صاحب ،
آپ کا پرزور اصرار ہے کہ میں ایمان کی تعریف اور کمی و زیادتی کی کیفیت میں پڑے بغیر بات چیت آگے بڑہا‎ؤں اور ثابت کروں احناف کا موقف قران و حدیث سے مطابق ہے ۔
ٹھیک ہے مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔
عزیز بھائی پہلے آپ کا اصرار تھا کہ مسائل پیش کرو اور اب جب مسئلہ پیش کردیا ہے تو پھر میرے اصرار کی بات کاہے کو؟ آپ کا بس یہ حق بنتا ہے کہ آپ میرے پیش کردہ دلائل کو بادلائل غلط ثابت کرتے ہوئے مسئلہ کی حقیقت قرآن وحدیث کےہی دلائل سے بیان کرکے ہمارے علم میں اضافہ فرمائیں۔یادر رہے کہ آپ کی کوئی بھی منطقی اور دلیل سےخالی بات نہیں مانی جائے گی۔جیسے دلائل میں نے بغیر قیل وقال کے پیش کیے اسی طرح آپ پیش کریں گے۔
لیکن میرا اندازہ ہے کہ جب میں احناف کا موقف قراں و حدیث سے موافق ثابت کروں گا تو بات ایمان اور کمی و زیادتی کی کیفیت کی طرف ہی آئے گي۔
محترم آپ دلائل ہی وہ پیش کرنا جس میں کمی وزیادتی کا تعلق کمیت سے نہیں بلکہ کیفیت سے ہو۔آپ کمیت کی بات ہی نہ کرنا کیونکہ آپ اس کے قائل ہی نہیں ہیں۔آپ بس کیفیت کی بات کرنا اور کیفیت میں کمی وزیادتی کو بادلائل ثابت کرکے کمیت میں کمی وزیادتی والے ہمارے موقف کو قرآن وحدیث کے خلاف ثابت کرنا۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اعمال میں بطور کمیت کے کمی و زیادتی تو ممکن ہے لیکن ایمان میں نہیں ۔ اگو کوئی شخص ایک دن 2 رکوع تلاوت کرتا ہے اور اگلے دن 3 رکوع تو کہا جائے گا کہ اس کے عمل میں بطور کمیت کے اضافہ ہوا ۔ لیکن یہ صورت ایمان میں بطور کمیت کے ممکن نہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ میرا ایمان ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ ہے تو اس میں بطور کمیت اضافہ ممکن نہیں لیکن بطور مرتبہ ممکن ہے ۔ مثال کے طور پر ایک شخص مسلمان ہے اور گانے بھی سنتا ہے ۔ لیکن ایک دن کسی عالم کی محفل میں بیٹھا اور اللہ کے علم الغیب ہونے کے متعلق بیان سنا تو جب اگلے دن گانے سننے لگا تو اس کو اللہ کے عالم الغیب والی صفت کا استحضار رہا اور یہ دل میں خیال آیا اللہ میرے اس عمل سے واقف ہے تو وہ گانے سننے سے باز آیا ۔ اس کو اللہ کے عالم الغیب کی صفت پر ایمان تو تھا لیکن اسلامی محفل میں بیٹھ کر اگلے دن بھی اس صفت کا استحضار رہا ۔ یہ ہے ایمان میں اضافہ ۔ ایمان کا مرتبہ بڑہا ۔ ایمان تو اللہ کی عالم الغیب کی صفت پر پہلے سے ایمان تھا اب استحضار ہونے کی وجہ سے ایمان کی کیفیت میں فرق آگيا ۔
اب پہلی بات کی طرف آتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں ۔
آپ نے کہا کہ مرتد کسے کہتے ہیں اور کوئی مرتد کس طرح ہوتا ہے اور اگر کوئی بت پرستی کرتا ہے یا معاذ اللہ نبی کو گالی دیتا ہے تو یہ عمل ہے
مرتد وہ جو اسلام لانے کے بعد کفر کرے ۔ اب وہ کوئی ایسا کفریہ کام کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے تو آپ کا اعتراض یہ ہے کہ یہ عمل کی وجہ دائرہ اسلام سے خارج ہوا ۔
اگر کوئی بت پرستی کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج اس لئیے ہوجاتا ہے کہ بت پرستی والا عمل یہ ظاہر کرتا ہے ایمان اس شخص سے نکل چکا ہے ۔ کیوں کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص مسلمان ہواور بت پرستی بھی کرے ۔ جن اعمال کو کفریہ کہا جاتا ہے وہ اس لئیے کہا جاتا ہے وہ اشخاص کے کفر پر دال ہوتے ہیں
اگر کسی شخص پر زبردستی کر کے بت پرستی کرائی جائے اور وہ دل سے مومن ہو تو کل قیامت میں بھی وہ مومن ہوگا اس ظاہری عمل سے وہ کاقروں میں نہیں اٹھایا جائے گا ۔
مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اگر کفریہ اعمال کرنا ہی کافر ہونے کے لئیے کافی ہے تو پھر من اکرہ و قلبھ مطمئن والا بھی کافر قرار پاتا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں شامل نہیں ۔
اگر اعمال بھی ایمان میں داخل ہیں تو روزہ بھی عمل ہے اور بلا عذر تارک روزہ کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا نہ آپ قائل ہیں اور نہ ہم۔ اگر روزہ بھی ایمان کا حصہ ہوتا تو تارک روزہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ۔

ایمان میں کمی و بیشی کی صورت
اب جن چیزوں پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لئیے ضروری ہے اس میں کسی ایک بھی انکار دائرہ اسلام سے خارج کردے گا ۔
اب دو مسلماں ہیں ایک نمازی متقی ۔ دوسرا نماز تو پڑہ لیتا ہے لیکن کچھ اور گناہوں میں مبتلا ہے مثلا گانے سنتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ تو اگر دونوں مومن ہیں تو جن پر پہلے مسلماں کا ایمان ہے تو فاسق شخض تب ہی مومن ہوگا جب وہ بھی انہی عقائد کا حامل ہو ۔ تو گویا جن امور پر ایماں لانا مومن ہونی کی شرائط میں شامل ہے تو اس میں تو دونوں برابر ہیں ۔ ہاں مراتب میں ضرور فرق ہوگا ، ایک کو اللہ کا خوف غالب ہے دوسرے کو اللہ کی صفات اور قیامت پر ایمان تو ہے (کیوں کہ وہ مسلماں ہے ) لیکن استحضار نہیں ، یا ایماں مرتبہ میں کم ہے ۔
یعنی وہ امور جن پر ایمان لانا لازمی ہے تو ان کی تعداد کے لحاظ سے دونوں کے ایمان میں کوئی فرق نہیں ۔ جاہے ایک متقی ہو اور دوسرا فاجر ۔
تو ایمان میں جو امور داخل ہیں ان کی تعداد میں کمی و بیشی نہیں ہوسکتی ۔ اس تعداد میں کمی سے کافر تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کمی ایمان میں کمی نہ کہلائے گي ۔ اگر کوئی کسی ایک امر جن پر ایماں لانا مسلمان ہونے کی شرط ہے اس کا انکار کرتا ہے مثلا ختم نبوت کا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کے ایمان میں کمی ہوئی ہے بلکہ کہا جائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
احناف کی کتب میں جہاں مومن اور فاجر کے ایمان کو برابر کہا گيا وہ یہی صورت ہے ۔

ایمان میں کمی و بیشی کی دوسری صورت ایمان کے مراتب میں زیادتی ہے ۔ یہ ذیادتی باکل ہوتی ہے اور قرآنی آیت کا بھی صرف یہی مطلب نکل سکتا ہے اور اس کے احناف بھی قائل ہیں
ایک متقی کا ایمان اونچے مرتبہ کا ہوتا ہے اور ایک فاجر کا مرتبہ کم ہوتا ہے ۔ جب یہ فاجر شخص قران کے دروس میں بیٹھتا ہے تو اللہ کی برکت سے اس کے ایمان کے مرتبہ میں اضافہ ہوتا ہے اور گناہوں کو چھوڑتا چلا جاتا ہے ۔
اس ایمان کی کمی و بیشی کے احناف بھی قائل ہیں

آپ کوچاہئیے تھا کہ احناف کے وہ اقوال بھی پیش کرتے تھے جس میں میں انہوں کہا کہ البتہ یقین اور تصدیق کے لحاظ سے کمی و زیادتی ہوتی ہے ۔
ساتھ میں کتاب فقہ اکبر کی اردو شرح کا ایک پیج بھی سکین کر کے لگارہا ہوں ۔
(کتاب فقہ اکبر کی اردو شرح کا صفحہ اٹیچ کر رہا ہوں ۔ ہو نہیں رہا ۔ بہر حال کوشش کر رہا ہوں۔ اگلے پیغام میں کسی طرح اٹیچ کر ہی لی ہے )
اب آپ ثابت کریں کہ ایمان میں کمیت کے لحاظ سے زیادتی کیسے ہوتی ہے مثالوں کے ساتھ ۔
 
Top