• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث صحیحہ اور مقلدین ابی حنیفہ

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
سورہ الانفال کی تشریح تفسير عثمانی سے نقل کر رہا ہوں

اگر احناف ایمان میں مطلق اضافہ کا انکار کرتے تو یہاں کبھی یہ ترجمہ اور تشریح نہ ہوتی ۔ اس کا مطلب ہے احناف ایمان میں اضافہ کے قائل ہیں لیکن اس کے مرتبہ میں نہ کہ کمیت میں ۔
یہاں ایمان والوں کو اللہ کی مدد کے وعدہ پر ایمان پہلے سے تھا ، دین کی نصرت کے لئیے ایمانی جذبہ پہلے سے تھا ۔ بس اس کے مرتبہ میں اضافہ ہو گيا ۔
آپ حضرات تو ایمان میں کمیت میں اضافہ کے قائل ہیں تو کیا بتائیں گے یہاں ایمان والوں کا کس امر پر ایمان نہ تھا اور وہ امر اب ان کے ایمان میں داخل ہو گيا ؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
تلمیذ بھائی، آپ نے عمدہ طریقے سے اپنا موقف پیش کر دیا۔ فقط یہ بتا دیں کہ جو کے دانے برابر ایمان، اور ذرہ برابر ایمان، اس قسم کی مثالوں میں جو اور ذرہ میں فرق، کمیت کا ہے یا کیفیت و مرتبہ کا؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
تلمیذ بھائی، آپ نے عمدہ طریقے سے اپنا موقف پیش کر دیا۔ فقط یہ بتا دیں کہ جو کے دانے برابر ایمان، اور ذرہ برابر ایمان، اس قسم کی مثالوں میں جو اور ذرہ میں فرق، کمیت کا ہے یا کیفیت و مرتبہ کا؟
اور ايمان کی ساٹھ یا ستر سے اوپر شاخیں ہیں۔ یہ کمیت ہے یا کیفیت؟؟؟

زیادتی کمیت میں ہوتی ہے یا کیفیت میں؟؟؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میرے جواب میں تلمیذ بھائی جان کی لکھی گئی پوسٹ کا جواب بالتفصیل دیا جائے گا۔لیکن اس جواب سے پہلے میرا ایک چھوٹا سا تلمیذ بھائی سے سوال ہے کہ آپ کے نزدیک عقیدہ اور ایمان میں فرق ہے یا نہیں ؟ کیونکہ تلمیذ بھائی بحث کو خلط ملط کررہے ہیں بات تو ایمان کی کرتے ہیں لیکن بیچ میں عقائد کی باتوں کو لے آتے ہیں۔یعنی عقیدہ اور ایمان سےمتعلق باتوں کو گڈمڈ کرتے جارہے ہیں۔ اس لیے اگر تو بھائی کے نزدیک عقیدہ اور ایمان بمعنی عقیدہ میں کوئی فرق نہیں تو ہمیں بتائیں اور اگر فرق ہے تو کیا فرق ہے وہ بھی بتائیں۔اس سوال کےجواب کےبعد ان شاءاللہ بالتفصیل جواب دیا جائے گا۔ اوراس بات کو مدلل واضح کیاجائے گا کہ ایمان میں کمی وزیادتی کا کیا معنی ہے؟ اور پھر عمل ایمان کاحصہ ہیں یانہیں ؟ اور پھر اہل سنت کی نزدیک ایمان کی تعریف کیا ہے ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
تلمیذ صاحب!

آپ کے نزدیک اعمال الجوارح (نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ) کی کمیت میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔

تو اعمال القلوب (اللہ کا تقویٰ، خوف، خشیت، اخلاص، توکّل اور انابت وغیرہ) کے متعلّق آپ کی کیا رائے ہے؟؟؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
انس نضر صاحب نے کہا کہ

یہ کمیت اور کیفیت کا فلسفہ کیوں شروع کر دیا آپ نے؟؟؟
بعض دفعہ اصطلاحی لفظ میں اختلاف ہوتا ہے لیکن نظریہ یا طریقہ کار میں نہیں ۔ میرے خیال میں بھی في الحال کمیت اور کیفیت یا مراتب کی بحث کو بھول جاتے ہیں ۔ اور میں جو ایمان کی کمی و ذیادتی کی صورتیں لکھی ہیں ان کو موردبحث مقرر کرلیتے ہیں
ایمان میں کمی و بیشی کی صورت
صورت نمبر ایک
جن چیزوں پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لئیے ضروری ہے اس میں کسی ایک بھی انکار دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔ اب دو مسلماں ہیں ایک نمازی متقی ۔ دوسرا نماز تو پڑہ لیتا ہے لیکن کچھ اور گناہوں میں مبتلا ہے مثلا گانے سنتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ تو اگر دونوں مومن ہیں تو جن پر پہلے مسلماں کا ایمان ہے تو فاسق شخض تب ہی مومن ہوگا جب وہ بھی انہی عقائد کا حامل ہو ۔ تو گویا جن امور پر ایماں لانا مومن ہونی کی شرائط میں شامل ہے تو اس میں تو دونوں برابر ہیں ۔ ہاں تقوی میں ضرور فرق ہوگا ، ایک کو اللہ کا خوف غالب ہے دوسرے کو اللہ کی صفات اور قیامت پر ایمان تو ہے (کیوں کہ وہ مسلماں ہے ) لیکن استحضار نہیں ،
یعنی وہ امور جن پر ایمان لانا لازمی ہے تو ان کی تعداد کے لحاظ سے دونوں کے ایمان میں کوئی فرق نہیں ۔ جاہے ایک متقی ہو اور دوسرا فاسق ۔
تو ایمان میں جو امور داخل ہیں ان کی تعداد میں کمی و بیشی نہیں ہوسکتی ۔ اس تعداد میں کمی سے کافر تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کمی ایمان میں کمی نہ کہلائے گي ۔ اگر کوئی کسی ایک امر جن پر ایماں لانا مسلمان ہونے کی شرط ہے اس کا انکار کرتا ہے مثلا ختم نبوت کا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کے ایمان میں کمی ہوئی ہے بلکہ کہا جائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
آپ نے کمیت و کیفیت میں پڑے بغیر بتانا ہے کہ کیا آپ کے نذریک ایمان میں اضافہ یا کمی کا مطلب صورت نمبر ایک تحت آتا ہے ۔ کیا آپ ایمان میں اس کمی و بیشی کے قائل ہیں جو صورت نمبر ایک بتائی گئی
احناف کی کتب میں جہاں مومن اور فاسق کے ایمان کو برابر کہا گيا وہ یہی صورت ہے ۔

صورت نمبر دو
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک مسلمان کو ایمان تو ان تمام امور پر ہے جن پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لئیے شرط ہے ۔ ان امور کی تعداد میں تو کمی و بیشی نہیں ہوتی ہاں تقوی ، اللہ کے خوف وغیرہ میں کمی و بیشی ہوتی ہے جو لا محالہ ایماں کی کمی و بیشی سے مربوط ہے ۔ اس ایمان کی کمی و بیشی کے احناف بھی قائل ہیں جیسا کہ ان کتب سے میں نے بتایا ہے ۔
یا آپ کا نظریہ یہ ہے کہ کمیت و کیفیت و مراتب کے فلسفے کو الگ رکھتے ہوئے ایمان میں کمی و بیشی اس صورت پر ہوتی ہے ۔
یا آپ دونوں صورتوں ایمان میں کمی و بیشی کے قائل ہیں ؟؟؟
میں نے کمیت و مراتب کا فلسفہ الگ کردیا ہے ۔ آپ نے واضح طور پر یہ بتانا ہے آپ ایمان میں کمی و بیشی کی کس صورت کے قائل ہیں ۔ صورت نمبر ایک یا صورت نمبر دو۔

شاکر صاحب نے کہا
تلمیذ بھائی، آپ نے عمدہ طریقے سے اپنا موقف پیش کر دیا۔ فقط یہ بتا دیں کہ جو کے دانے برابر ایمان، اور ذرہ برابر ایمان، اس قسم کی مثالوں میں جو اور ذرہ میں فرق، کمیت کا ہے یا کیفیت و مرتبہ کا؟
ایمان میں کمی و بیشی کی جو دو صورت بیان کیں ہیں ، میرے نذدیک صورت نمبر دو یہاں مراد ہے ۔
صورت نمبر ایک مراد لینے کا مطلب ہے ختم نبوت کا منکر بھی ایک دن جہنم سے نکلے گا ، صورت نمبر دو مراد لی جائے تو مراد ہے آخر کار ایسا شخص بھی جہنم سے نکلے گا جس کا ایمان تو ان تمام امور پر ہے جو مسلمان ہونے کے لئیے شرط ہے یعنی جن امور پر ایمان لانا ہے ان کی تعداد میں یہ جہنم سے نکلنے والا آخری شخص اور پہلا شخص برار ہیں ہان تقوی میں ضرور فرق ہے ۔ یہاں بھی کم تقوی والے کے مومن کے ایمان کو کم تقوی کی وجہ سے جو اور ذرہ سے تشبیہ دی گئی ہے

انس نضر صاحب نے کہا

اور ايمان کی ساٹھ یا ستر سے اوپر شاخیں ہیں۔ یہ کمیت ہے یا کیفیت؟؟؟

زیادتی کمیت میں ہوتی ہے یا کیفیت میں؟؟؟
فی الحال آپ کے کہنے پر میں نے کمیت و کیفیت و مراتب کی بحث ختم کردی ہے ۔ ایمان کے جس طرح شعبے ہیں اسی طرح نفاق کے بھی شعبے ہیں ۔ اگر کوئی دل سے مومن ہو ، لیکن اس میں نفاق کا کوئی شعبہ پایا جائے تو وہ مومن ہوگا یہ منافق ؟ اس سوال کا جواب دینے سے آپ کو خود ہی سمجھ آجائے گی کہ ایمان کی شاخوں و شعبے سے کیا مراد ہے ۔ اگر آپ کو اس سے نہ سمجھ آئے تو میرے سوال کا جواب دے دیجئیے گا باقی ایمان کے شعبوں سے متعلق ان شاء اللہ میں بتادوں گا لیکن جواب مدلل ہو ۔

گڈمسلم صاحب نے کہا

آپ کے نزدیک عقیدہ اور ایمان میں فرق ہے یا نہیں
عن أبي هريرة قال كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس فأتاه جبريل فقال ما الإيمان قال الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث

یہ ایک مشہور حدیث کا ٹکڑا نقل کیا ہے ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب بتایا وہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد ہیں ۔ میرے خیال میں ایمان اور عقائد کے حوالہ سے اس حدیث کے بعد کچھ مذید کہنے کی ضرورت نہیں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
کیا آپ ایمان میں اس کمی و بیشی کے قائل ہیں جو صورت نمبر ایک بتائی گئی
احناف کی کتب میں جہاں مومن اور فاسق کے ایمان کو برابر کہا گيا وہ یہی صورت ہے ۔
احناف کی کسی معتبر عقائد کی کتاب کا حوالہ دے سکتے ہیں جہاں مومن و فاسق کے ایمان کی برابری دراصل ایمانیات کی تعداد میں برابری قرار دی گئی ہو۔
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
میرا خیال ہے کہ اس بحث کو ختم کر دیا جائے کیونکہ احناف کی کتابوں میں ایمان میں کمی وزیادتی کا قول کفریہ الفاظ میں شمار کیا گیا ہے

اس وقت فتنہ تکفیر کا سد باب زیاده اہم ہے


السنة
لعبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى : 290هـ)

كان أبو حنيفة يقول: إيمان إبليس وإيمان أبي بكر الصديق رضي الله عنه واحد، قال أبو بكر: يا رب وقال إبليس: يا رب .


المعرفة والتاريخ للفسوي (المتوفى : 347هـ)

قال أبو حنيفة: إيمان آدم وإيمان إبليس واحد، قال إبليس: رب بمآ أغويتني وقال: رب فأنظرني إلى يوم يبعثون وقال آدم: ربنا ظلمنا أنفسنا .


المبسوط للسرخسي (المتوفى : 483هـ)

أن الفسق لا ينقص من إيمانه عندنا فإن الإيمان لا يزيد ولا ينقص


تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق لفخر للزيلعي (المتوفى : 743هـ)

أن الفسق لا ينقص من إيمانه شيئا


البحر الرائق لابن نجيم المصري (المتوفى : 970هـ)

ويكفر بقوله الإيمان يزيد وينقص

والإيمان لا يزيد ولا ينقص


مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر
لعبد الرحمن محمد ، المعروف بشيخي زاده (المتوفى : 1078هـ)

ويكفر بقوله الإيمان يزيد وينقص
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
احناف کی کسی معتبر عقائد کی کتاب کا حوالہ دے سکتے ہیں جہاں مومن و فاسق کے ایمان کی برابری دراصل ایمانیات کی تعداد میں برابری قرار دی گئی ہو۔
ہمارا موضوع جو چل رہا ہے کہ قران و حدیث میں ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔ پہلے مرحلے میں میں ہم نے دیکھنا ہے کہ اس اضافہ کا کی کیا تشریح ہے اور دوسرے مرحلے میں دیکھنا ہے کہ کیا احناف اس اضافہ کے قائل ہیں یا نہیں
پہلے آپ یہ تصدیق کردیں کہ میں نے جو ایمان میں میں کمی و بیشی کی جو دو صورت نقل کیں ہیں ، آپ کے ہاں کونی سی صورت قرآن و حدیث مطابق ہے یا دونوں صورتیں مطابق ہیں یا کوئی اور صورت مراد ہے ۔
اگر آپ یہ تصدیق کردیں گے ایمان میں کمی و بیشی سے مراد صورت نمبر دو ہے اور صورت نمبر ایک میں جس طرح سے کمی و بیشی بیان کی گئی ہے وہ قراں و حدیث کے خلاف ہے اور صورت نمبر ایک کے تحت تمام مومنین کا ایمان برابر ہے تو پہلا مرحلہ طے ہوجائے گا پھر دوسرے مرحلہ میں احناف کا موقف ان کی کتب سے دیکھیں گے کہ کیا وہ بھی یہی ہے جو میں نے دو صورتیں میں لکھا ہے ۔
کم از کم اتنا تو تفسیر عثمانی سے آپ نے دیکھ لیا کہ احناف ایمان میں مطلق اضافہ کا انکار نہیں کرتے ۔ بعض صورت میں اضافہ کے قاائل ہیں اور بعض صورت میں نہیں (ان دو صورتوں کی وضاحت کی جاچکی ہے )
ایک بات میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلسل مجھ سے سوالات ہورہے ہیں لیکن میرے سوالات کے جوابات نہیں آرہے

میرا خیال ہے کہ اس بحث کو ختم کر دیا جائے کیونکہ احناف کی کتابوں میں ایمان میں کمی وزیادتی کا قول کفریہ الفاظ میں شمار کیا گیا ہے
اگر احناف کی کتب میں مطلق ایمان میں کمی و ذیادتی کو کفریہ کہا گيا ہے تو تفسیر عثمانی میں ایمان میں ذیادتی کی بات کیوں کی گئی
یہ ہوتا ہے مسلک پرستی کا نتیجہ ۔ اپنے مخالف مسلک کی کتب سے بس چیدہ چیدہ اقتباسات نقل کر جو چاہو کہتے رہو ۔ کیا آپ نے کبھی کم از کم تفسیر عثمانی نہیں پڑہی ۔ کیا آپ نے وہاں ایمان میں اضافہ کا نہیں پڑہا ۔ کیا تفسیری عثمانی احناف کے ہاں معتبر تفسیر نہیں ۔ کیا احناف علماء جب قران کا درس دیتے ہیں تو تفسیر عثمانی ہاتھ میں لے کر نہیں آتے ۔ کیا احناف مدارس کے طلباء تفسیر عثمانی نہیں پڑہتے ۔
کچھ تو سوچو اور صرف سوالات نہ کرو جوابات بھی دو
 
Top