انس نضر صاحب نے کہا کہ
یہ کمیت اور کیفیت کا فلسفہ کیوں شروع کر دیا آپ نے؟؟؟
بعض دفعہ اصطلاحی لفظ میں اختلاف ہوتا ہے لیکن نظریہ یا طریقہ کار میں نہیں ۔ میرے خیال میں بھی في الحال کمیت اور کیفیت یا مراتب کی بحث کو بھول جاتے ہیں ۔ اور میں جو ایمان کی کمی و ذیادتی کی صورتیں لکھی ہیں ان کو موردبحث مقرر کرلیتے ہیں
ایمان میں کمی و بیشی کی صورت
صورت نمبر ایک
جن چیزوں پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لئیے ضروری ہے اس میں کسی ایک بھی انکار دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔ اب دو مسلماں ہیں ایک نمازی متقی ۔ دوسرا نماز تو پڑہ لیتا ہے لیکن کچھ اور گناہوں میں مبتلا ہے مثلا گانے سنتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ تو اگر دونوں مومن ہیں تو جن پر پہلے مسلماں کا ایمان ہے تو فاسق شخض تب ہی مومن ہوگا جب وہ بھی انہی عقائد کا حامل ہو ۔ تو گویا جن امور پر ایماں لانا مومن ہونی کی شرائط میں شامل ہے تو اس میں تو دونوں برابر ہیں ۔ ہاں تقوی میں ضرور فرق ہوگا ، ایک کو اللہ کا خوف غالب ہے دوسرے کو اللہ کی صفات اور قیامت پر ایمان تو ہے (کیوں کہ وہ مسلماں ہے ) لیکن استحضار نہیں ،
یعنی وہ امور جن پر ایمان لانا لازمی ہے تو ان کی تعداد کے لحاظ سے دونوں کے ایمان میں کوئی فرق نہیں ۔ جاہے ایک متقی ہو اور دوسرا فاسق ۔
تو ایمان میں جو امور داخل ہیں ان کی تعداد میں کمی و بیشی نہیں ہوسکتی ۔ اس تعداد میں کمی سے کافر تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کمی ایمان میں کمی نہ کہلائے گي ۔ اگر کوئی کسی ایک امر جن پر ایماں لانا مسلمان ہونے کی شرط ہے اس کا انکار کرتا ہے مثلا ختم نبوت کا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کے ایمان میں کمی ہوئی ہے بلکہ کہا جائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
آپ نے کمیت و کیفیت میں پڑے بغیر بتانا ہے کہ کیا آپ کے نذریک ایمان میں اضافہ یا کمی کا مطلب صورت نمبر ایک تحت آتا ہے ۔ کیا آپ ایمان میں اس کمی و بیشی کے قائل ہیں جو صورت نمبر ایک بتائی گئی
احناف کی کتب میں جہاں مومن اور فاسق کے ایمان کو برابر کہا گيا وہ یہی صورت ہے ۔
صورت نمبر دو
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک مسلمان کو ایمان تو ان تمام امور پر ہے جن پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لئیے شرط ہے ۔ ان امور کی تعداد میں تو کمی و بیشی نہیں ہوتی ہاں تقوی ، اللہ کے خوف وغیرہ میں کمی و بیشی ہوتی ہے جو لا محالہ ایماں کی کمی و بیشی سے مربوط ہے ۔ اس ایمان کی کمی و بیشی کے احناف بھی قائل ہیں جیسا کہ ان کتب سے میں نے بتایا ہے ۔
یا آپ کا نظریہ یہ ہے کہ کمیت و کیفیت و مراتب کے فلسفے کو الگ رکھتے ہوئے ایمان میں کمی و بیشی اس صورت پر ہوتی ہے ۔
یا آپ دونوں صورتوں ایمان میں کمی و بیشی کے قائل ہیں ؟؟؟
میں نے کمیت و مراتب کا فلسفہ الگ کردیا ہے ۔ آپ نے واضح طور پر یہ بتانا ہے آپ ایمان میں کمی و بیشی کی کس صورت کے قائل ہیں ۔ صورت نمبر ایک یا صورت نمبر دو۔
شاکر صاحب نے کہا
تلمیذ بھائی، آپ نے عمدہ طریقے سے اپنا موقف پیش کر دیا۔ فقط یہ بتا دیں کہ جو کے دانے برابر ایمان، اور ذرہ برابر ایمان، اس قسم کی مثالوں میں جو اور ذرہ میں فرق، کمیت کا ہے یا کیفیت و مرتبہ کا؟
ایمان میں کمی و بیشی کی جو دو صورت بیان کیں ہیں ، میرے نذدیک صورت نمبر دو یہاں مراد ہے ۔
صورت نمبر ایک مراد لینے کا مطلب ہے ختم نبوت کا منکر بھی ایک دن جہنم سے نکلے گا ، صورت نمبر دو مراد لی جائے تو مراد ہے آخر کار ایسا شخص بھی جہنم سے نکلے گا جس کا ایمان تو ان تمام امور پر ہے جو مسلمان ہونے کے لئیے شرط ہے یعنی جن امور پر ایمان لانا ہے ان کی تعداد میں یہ جہنم سے نکلنے والا آخری شخص اور پہلا شخص برار ہیں ہان تقوی میں ضرور فرق ہے ۔ یہاں بھی کم تقوی والے کے مومن کے ایمان کو کم تقوی کی وجہ سے جو اور ذرہ سے تشبیہ دی گئی ہے
انس نضر صاحب نے کہا
اور ايمان کی ساٹھ یا ستر سے اوپر شاخیں ہیں۔ یہ کمیت ہے یا کیفیت؟؟؟
زیادتی کمیت میں ہوتی ہے یا کیفیت میں؟؟؟
فی الحال آپ کے کہنے پر میں نے کمیت و کیفیت و مراتب کی بحث ختم کردی ہے ۔ ایمان کے جس طرح شعبے ہیں اسی طرح نفاق کے بھی شعبے ہیں ۔ اگر کوئی دل سے مومن ہو ، لیکن اس میں نفاق کا کوئی شعبہ پایا جائے تو وہ مومن ہوگا یہ منافق ؟ اس سوال کا جواب دینے سے آپ کو خود ہی سمجھ آجائے گی کہ ایمان کی شاخوں و شعبے سے کیا مراد ہے ۔ اگر آپ کو اس سے نہ سمجھ آئے تو میرے سوال کا جواب دے دیجئیے گا باقی ایمان کے شعبوں سے متعلق ان شاء اللہ میں بتادوں گا لیکن جواب مدلل ہو ۔
گڈمسلم صاحب نے کہا
آپ کے نزدیک عقیدہ اور ایمان میں فرق ہے یا نہیں
عن أبي هريرة قال كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس فأتاه جبريل فقال ما الإيمان قال الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث
یہ ایک مشہور حدیث کا ٹکڑا نقل کیا ہے ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب بتایا وہ مسلمانوں کے بنیادی عقائد ہیں ۔ میرے خیال میں ایمان اور عقائد کے حوالہ سے اس حدیث کے بعد کچھ مذید کہنے کی ضرورت نہیں