السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امیر حمیدالدین اور ان کی کتاب فوائد کا تو معلوم نہیں ، لیکن یہاں جو بات کہی گئی ہے کہ :
''قرآن کریم کے منکر کافر قرار دیا جائے گا ،حدیث قدسی کے منکر کو نہیں''
یہ بات محل نظر ہے!
کہ قرآن بھی وحی ہے اور حدیث بھی وحی ہے! اور وحی کا منکر کافر ہے!خواہ وہ وحی قرآن کی ہو، خواہ حدیث قدسی ہو یا حدیث قدسی کے علاوہ!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جو دین سے تعلق رکھتی ہے، وہ وحی سے ہے! اور اس کا منکر کافر ہے!
قرآن کو ماننے اور حدیث کو ماننے میں فرق کرنے والوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (سورة النساء 150)
بے شک جو لوگ الله اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ الله اوراس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعضوں پر ایمان لائے ہیں اور بعضوں کے منکر ہیں اور چاہتے ہیں کہ کفر اور ایمان کے درمیان ایک راہ نکالیں۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
بات یہ ہے کہ جب کسی کو معلوم ہو جائے کہ یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے یعنی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہو جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یا عمل ہے یا تقریر ہے، پھر وہ اس کا انکار کردے، ایسا شخص کافر ہے!
ایک بات مزید مد نظر رکھیں کہ انکار حدیث میں انکار قرآن بھی شامل ہے، کیونکہ حدیث کے انکار سے قرآن کا انکار لازم آتا ہے!
نوٹ: میں اس بات کا سخت حامی ہوں کہ ہر کسی کو عالم نہ سمجھا جائے، جس کی جو حیثیت ہے اسے وہیں رکھنا چاہیئے! اور شیخ کے لقب کے حقدار علماء ہیں، میں اس کا حقدار نہیں!