نمبر تین کیا احتجاجی مظاہرات کا بھی امر تجدید میں شمار کیا جا سکتا ہے یعنی اب عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق آداب اسلام اور اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں جواز کا پہلو نکالا جا سکتا ہے؟
میرے خیال میں ایسا ہو سکتا ہے اور شاید فائدہ مند بھی ہو جائے اگر آپ کے بیان کئے گئے خدشہ کو دور کر لیا جائے جس پر نیچے بات کی ہے
اگر واقعی احتجاجی مظاہرات ایک سنجیدہ اجتماعی ردعمل ہے تو کیا ہم نے اسی ردعمل پر اکتفا نہیں کر لیا اور اپنی اصل ذمہ داریوں سے صرف نظر کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ؟
یہ تمام امور سابقہ مباحث پر اضافی سوالات ہیں جو میرے ذہن میں پیدا ہوئے؟
اور یہ کہ شریعت نے تحفظ رسالت کا یہی منھج ہمیں دیا ہے ؟
کیا ایسا نہیں کہ یہ انداز احتجاج ہمیں ہمارے دین سے مزید دور سے دور کرتا جا رہا ہے کہ ایک برائی دوسری برائی کا سبب بن جایا کرتی ہے؟
جی محترم بھائی اسی خدشہ کا اوپر ذکر کیا تھا مثلا گستاخی رسول کے واقعے کو ہی مثال بناتے ہیں اور اسی خدشے کے پہلو سے بات کرتے ہیں
1۔میرے خیال میں ایک کام تو نواز شریف شہباز شریف کا ہے کہ جو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جو بھی پاکستان کی طرف میلی نظر سے دیکھے گا اسکو زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا تو انکو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف میلی نظر سے دیکھ رہے ہیں انکا کیا کرنا ہو گا کیا کوئی خفیہ مشن روانہ نہیں کیا جا سکتا اگر ہمیں واقعی رسول اللہ کی طرف اٹھنے والی میل آنکھ کا افسوس پاکستان کی طرف اٹھنے والی میلی آنکھ سے زیادہ ہو
2۔دوسرا کام ہم عوام کا ہے تو اس سلسلے میں آپ کا خدشہ بالکل درست ہے کہ ہمارا اصل کام تو انکو قتل کرنا یا اور کسی طرح سے جواب دینے کا تھا مگر ہم نے صرف مظاہروں پر اکتفا کر لیا تو محترم بھائی ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں کیونکہ جیسے محترم خضر بھائی نے من رای منکم منکرا---- والی بات بتائی تو اس میں ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھنے والوں کو خدا پوچھے گا ہم کم از کم زبان سے تو روک سکتے ہیں یا روک نہیں سکتے تو اسکو اپنے دل میں تو برا جانیں گے اور یہ کم سے کم ایمان ہو گا پس جب لوگوں کے سامنے یہ بات تفصیل سے کریں گے تو لوگوں کو بھی معلومات ملیں گی اور کچھ لوگ جو ابھی بھی معاف کر دینے کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں وہ کم از کم اسکو دل میں برا جاننے لگیں
اور آخری گزارش یہ ہے کہ کیا واقعی اس انداز احتجاج سے فریق مخالف پر کوئی اثر مرتب ہوتا ہے یا نہیں ؟
اگر ہوا ہے تو ایسے ملین مارچ اور حرمت رسول مارچ وغیرہ سے عالم کفر نے ایسی کتنی مرتبہ گستاخانہ حرکات سے معافی مانگی؟
یا کم از کم انہوں نے مزید ایسا نہ کرنے کا اعلان کیا ہو؟
یہ آپ کا سوال بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اسکے لئے میں احتجاج کا مظاہرہ کرنے کے حق میں ہونے کے باوجود یہ بھی سمجھتا ہوں کہ احتجاج کا جو طریقہ ہم اختیار کر رہے ہیں اس میں ہم خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا رہے
یہی احتجاج کے طریقے میں عقل نہ استعمال کرنے کی وجہ ہے کہ آپ کی خدشہ کے مطابق فریق مخالف پر اسکا بہت کم اثر ہو رہا ہے
میرے خیال میں اگر احتجاج کرنا ہے تو اسکا صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاکوں کی مذمت میں کوئی ریلی نکالنے سے زیادہ اہم یہ ہےکہ ہم گستاخوں کے قتل کی حمایت میں ریلی نکالیں
اگر کوئی تھوڑی بھی عقل رکھتا ہے تو وہ دیکھے کہ ان کافروں نے خاکوں کی حکمات میں اتنی ریلیاں نہیں نکالیں جتنی اس ملعون قتل ہونے والے کی حمایت میں نکالی ہیں اور وہ سارے حکمران اور عوام بار بار یہی کہ رہے ہیں کہ ہم سب آج سے شارلی ہیں مگر دوسری طرف کوئی ایک بھی ہمارا بڑا یہ نہیں کہ سکا کہ ہم آج سے ان گستاخؤں کے لئے سعید اور شریف ہیں
اسکا فائدہ یہ ہوتا کہ وہ گستاخ سمجھ لیتے کہ ہم نے اگر قتل کیا تو ہمیں مارنے والوں میں خالی طالبان یا القائدہ کے دہشت گرد ہی نہیں بلکہ سارے مسلمان ہمارے خلاف ہیں ابھی تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے تو خالی مذمتی لوگ ہیں قتل کرنے والا ان میں کوئی نہیں اگر القائدہ ہے بھی تو اس کو تو ہم نے انکے اپنے مسلمان ممالک میں ہی اتنا شکنجے میں جکڑ لیا ہے کہ وہ اپنی بقا کو خطرے میں دیکھ رہی ہے وہ ہمارا کیا بگاڑ لے گی
پس ہمیں اگر واقعی اللہ کے رسول سے محبت ہے تو میرے خیال میں ضرور ہر پلیٹ فارم پر احتجاج کریں مگر اس میں ان گستاخؤں تک یہ پیغام کھلے عام پہنچائیں کہ
اگر وہ سارے چارلی ہیں تو ہم سارے غازی علم دین، شریف، سعید ہیں