کمال ہے کہ دلائل پہنچانے کا میڈیم تو وہی تھا نا؟دلائل نہیں پہنچنے سے مطلب مجتہد کے دلائل نہیں پہنچنا ہے۔
مثال کے طور پر آیت قرآنی تو ہر جگہ موجود ہے لیکن اس سے امام شافعی رح نے الگ انداز سے استدلال کیا ہے اور ابو حنیفہ رح نے الگ انداز سے۔ اب جس کے پاس ابو حنیفہ رح کا طرز استدلال نہیں پہنچے گا وہ ان کے حاصل کیے ہوئے مسئلہ کو غلط سمجھے گا۔
اس کی مثال یہ ہے کہ امام شافعی رح آیت قرآنی سے حاصل شدہ مسئلہ میں خبر واحد سے اضافہ درست سمجھتے ہیں۔ اس لیے وضو میں تسمیہ کو فرض قرار دیتے ہیں۔
جب کہ احناف اسے درست نہیں سمجھتے اس لیے تسمیہ کو سنت قرار دیتے ہیں۔
یہ بات کرنا کہ کسی امام کے پاس دلائل نہیں پہنچے ہوں گے درست نہیں۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے۔
احادیث کے لئے سفر کرتے تھے لوگ ۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بسند صحیح ایسے سفر کرنا بھی ثابت نہیں۔ آج بھی جبکہ ذرائع ابلاغ اپنے کمال کو پہنچ چکے، کئی احادیث تک رسائی حاصل ہونے سے رہ جاتی ہے۔ تو کیسے فرض کیا جا سکتا ہے کہ اُس دور میں ہر امام کو تمام دلائل پہنچتے تھے۔ خیر، یہ جملہ معترضہ تھا آپ اصل موضوع پر بات جاری رکھ سکتے ہیں۔