- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
زکوٰۃ
زکوٰۃ بھی اُن عبادات میں سے ہے جو تمام آسمانی مذاہب کے صحیفوں میں فرض بتائی گئی جس کی تائید مختلف آسمانی صحیفوں سے ہے کہ جس طرح نماز ہر مذہب کا جزء لا ینفک تھی اسی طرح زکوٰۃ بھی تمام مذاہب کا ہمیشہ ضروری جزء رہی ہے۔ (عبادات، ص ۱۴۱)
معنی و مفہوم
زکوٰۃ کے مفہوم میں علماء لغت نے دو معنی بیان کیے ہیں۔
(۱) پاک صاف کرنا یا پاکیزگی۔ نشوونما یا بڑھانا وغیرہ۔ (مفردات القرآن، ص۲۱۳؛معجم المقاییس اللغۃ، ۴۳۶)
زکوٰۃ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ محمود احمد لکھتے ہیں:
Zakat literally means purification, technically it is a tax on the wealth to provide social justice. (Economics of Islam, P. 87)
امین احسن اصلاحی بیان کرتے ہیں:
زکوٰۃ کے اندر نشوونما اور پاکیزگی دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ نفس اورمال دونوں کو پاکیزگی بھی بخشتی ہے اس سے مال میں برکت اور بڑھوتری بھی ہوتی ہے۔ (تدبر قرآن، ۱؍۱۸۵)
یعنی زکوٰۃ نکال کر مال کو پاک کیا جاتا ہے۔ گویا زکوٰۃ ایک میل ہے جس کے نکل جانے سے دولت کی چادر صاف ستھری ہو جاتی ہے۔ (اسلام کا نظام عبادت،ص۹۷)
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ (سورۃ التوبۃ، ۹:۱۰۳)
شریعتِ موسوی… تصورِ زکوٰۃ و فلسفہ
شریعت موسوی میں زکوٰۃ کے واضح احکامات موجود ہیں۔ بنی اسرائیل سے خدا نے جو عہد لیا تھا اس میں نماز اور زکوٰۃ دونوں تھیں ۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (سورۃ البقرۃ۲:۴۳)
اور (اے بنی اسرائیل) نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہے:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ اِنَّہٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا (سورۃ مریم ۱۹:۵۴،۵۵)
اور اس کتاب میں اسماعیل؈ کا ذکر کرو وہ وعدے کا سچا تھا اور سول نبی تھا وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔
اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی شریعت میں زکوٰۃ کی فرضیت کے متعلق بیان فرمایا:
وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوۃِ (سورۃ الأنبیاء، ۲۱:۷۳)
اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔
قرآنِ کریم کے ان ارشادات کی تائید تورات میں موجود ہے جیسا کہ کتاب مقدس میں فرمایا:
جب تم زمین کی پیداوار کی فصل کاٹو تو اپنے کھیت کے کونے کونے تک پورا پورا نہ کاٹنا اور نہ کٹائی کی گری ہوئی بالوں کو چن لینا اور تو اپنے انگورستان کا دانہ دانہ نہ توڑ لینا اور نہ اپنے انگورستان کے گرے ہوئے دانوں کو جمع کرنا ان کو غریبوں اورمسافروں کے لیے چھوڑ دینا، میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ (احبار،۱۹:۹،۱۰؛ احبار، ۳۳:۲۲؛ استثناء، ۱۶:۲۸،۲۹)
اس سلسلے میںMax Weberبیان کرتا ہے:
Land and vineyard are intentionally not to be completely harvested in order that something be left for the gerim and the poor of the ends of fields. (Max Weber, Ancient Judaism, P. 47)
کھیتوں اور انگوروں کے باغوں کی جان بوجھ کر پوری فصل نہیں کاٹی جاتی تھی اس لیے کہ پردیسیوں، مسیکنوں اور یتیموں کا حصہ رکھنا یہودیت میں لازمی تھا۔
زمین کی پیداوار اور درخت کے پھل کا دسواں حصہ بطورِ حق خدا مخصوص کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ کتاب مقدس میں درج ہے:
زمین کی پیداوار کی ساری دہ یکی خواہ وہ زمین کے بیچ کی یا درخت کے پھل کی ہو خداوند کی ہے اور خداوند کے لیے پاک ہے اور اگر کوئی اس میں چھڑانا چاہے تو پانچواں حصہ اور ملا کر چھڑائے۔ (احبار، ۲۷:۳۰،۳۱)
جانوروں کے ریوڑ میں سے بھی حقِ خدا ادا کرنا ضروری تھا اس سلسلے میں کتاب مقدس کی ہدایت یہ ہے:
گائے، بیل اوربھیڑ،بکری یا جو جانور چرواہے کی لاٹھی کے نیچے سے گزرتا ہو ان کی دہ یکی یعنی دس پیچھے ایک ایک جانورخداوند کے لیے پاک ٹھہرے کوئی اس کی دیکھ بھال نہ کرے کہ وہ اچھا ہے یا بُرا ہے اور نہ اسے بدلے اور اگر کہیں کوئی اسے بدلے تو وہ اصل اور بدل دونوں کے دونوں مقدس ٹھہریں اور اس کا فدیہ بھی نہ دیاجائے گا۔ (احبار ،۲۷:۳۲،۳۳)
کھیت کے کناروں کا غلہ وغیرہ نادار اور غریبوں کے لیے مخصوص تھا جس کو یہودی شریعت میں "Peah"قرار دیا جاتا تھا۔
Regulations, such as those reserving the corner of the field (Peah) for reaping by the needy gave practical effect to ethical generalizations. (The Standered Jewish Encyclopaedia, P. 427)
فصل کی کٹائی کے دوران کھیت کے کناروں پر کتنی فصل چھوڑنا ضروری ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے بلکہ یہ کھیت کی لمبائی اور چوڑائی کو مد نظر رکھ کر چھوڑنا ضروری ہے، تالمود میں"Peah"کے مقاصد اور فلسفے کو انتہائی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
The following have no prescribed measure Peah, (Corner of the field, the portion of the crop that must be left by the owner to the poor) First Fruit, Festival- offerings, deeds of kindness, and study of the law. And the following are the things the fruit of which a man enjoys in this world but the copital fund of which remains for him in the world to come. One should not leave Peah less than one-sixth of the field. And although there is no prescribed measure it should be fixed according to the size of the field, the number of the poor, and the need. (Lco Auerobach, The Talmud, P. 49(Retrived from November 7, 2009 http://www. sacred-texts.com/jud/bata/bata 04.htm)
لہذا تالمود کے مطابق "Peah"کا فلسفہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کھیت کی پیداوار سے انسان اپنی اس زندگی میں فائدہ اٹھاتا ہے۔ مگر"Peah"انسان کی اُخروی زندگی میں فلاح اور نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔
"Peah"یعنی زکوٰۃ جہاں آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے وہاں اس کی ایک حکمت مال میں برکت اور زیادہ ہونا بھی ہے۔ تالمود میں امراء کی دولت کا راز یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنی دولت کا ۱۰؍۱ حصہ غرباء و مساکین کے مخصوص کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں تالمود میں درج ہے:
Rabbi Ishmael, the son of Joshua, was asked how did the people of the land of Israel become so weathy? He answered, "They gave their tithes in due season, as it is written, " Thou shalt give tithes in order that Thou mayest become rich." (H. Polano, The Talmud, P. 268)
یوشع کے بیٹے ربی اسماعیل نے پوچھا کہ اسرائیل کی زمین کے لوگ اتنے دولت مند کیسے ہو گئے۔ اس نےجواب دیا کہ وہ مقررہ موسم میں اپنی دہ یکیاں دیتے ہیں جیسا کہ یہ لکھا ہے ’’ کہ تو دہ یکی دے تاکہ تو امیر ہو جائے۔‘‘
تالمود کی رو سے صرف کھیتوں اور جانوروں کی ہی نہیں بلکہ درختوں کی"Peah"چھوڑنا بھی ضروری ہے۔
of the trees, sumach, carob, nut trees, the almond, vines, the pomegranate, the olive and date palm are all subject to peah. (Leo Auerbach, The Talmud, P. 50(Retrived from November 7, 2009 http://www.sacred-texts.com/jud/bata/ bata 04.htm)
"Peah"کے علاوہ ناداروں اور مسکینوں کی مدد کے لیے یہودی شریعت میں "Gleaning"کا تصور بھی موجود ہے جس کے حکمت و مقاصد بھی "Peah"ہی کی مانند ہیں۔ غلے کی وہ مقدار جو فصل کاٹنے کے دوران زمین پر گر پڑے اسے "Gleaning"کہتے ہیں۔
اس سلسلے میںThe Standered Jewish Encyclopaediaمیں درج ہے:
This tractate deals with the laws of all the different dues to poor, namely: Peah, laket ("gleaning of grapes") peret ("fallen grapes.") (The Standered Jewish Encyclopaedia P. 1485)
تورات کے زمانے میں چونکہ دولت ازیادہ تر صرف زمین کی پیداوار اور جانوروں کے گلوں تک محدود ہی اس لیے ان ہی دونوں چیزوں کی زکوٰۃ کا زیادہ ذکر آیا ہے۔ (شبلی نعمانی، عبادات،ص ۱۴۳)
تالمود میں"Gleaning"کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے۔
If one cut a handfull, or pulled up a handfull, and a thorn pricked him and it fell from his hands to the ground, it belongs to the owner. If it fell on the inside of the hand or the inside of the sickle, it belongs to the poor. If it fell over the top of the hand or the top of the sickle, Rabbi Ismael says: it belongs to the poor. Rabbi Akiba says: it belongs to the owner. (Leo Auerbach, The Talmud, P. 51(Retrived from November 7, 2009 http://www. sacred-texts.com/ jud/bata/bata 04.htm)
گویا اس قانون کی رو سے "Gleaning"کا انحصار اس بات پر ہے کہ اناج ہاتھ سے کٹائی کے دوران کس طرح گرتا ہے۔ اگر یہ زمین پر براہ راست گرتا ہے تو یہ مالک کا ہے اور اگر یہ ہاتھ کے اندر گرے تو یہ غریبوں کا حق ہے اسی طرح کٹی ہوئی فصل کا وہ حصہ جو ہوا اُڑا کرے جائے اور فصل کے گٹھوں کا وہ حصہ جو زمین کو چھوئے وہ غرباء کا حق ہے۔
تالمود میں غریبوں کے حق اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اُسے دولت میں اضافے اور حفاظت کا ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح نمک گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور بغیر نمک کے گوشت سڑ جاتا ہے ۔ لہٰذا جس طرح نمک گوشت کے لیے مفید ہے اسی طرح غریبوں اور ناداروں کو ان کا حق ادا کرنا دولت کے لیے مفید ہے۔ (H. Polano, The Talmud, P. 244)
لہٰذا یہودی شریعت میں "Peah"اور"Gleaning کا فلسفہ، اخروی زندگی میں حصول فلاح، مال میں اضافہ و برکت، معاشرے کی فلاح و بہبود اور ناداروں، مسکینوں، بیواؤں اور یتیموں کو فائدہ پہنچانا ہے۔
اسلام میں تصور و فلسفہ زکوٰۃ
اسلام میں نماز کے بعد جس عبادت کا اصل تعلق خالق و مخلوق کے باہمی سلسلہ اور رابطہ سے ہے وہ زکوٰۃ ہے۔ قرآنِ کریم میں بیشتر مقامات پر زکوٰہ کی فرضیت، اہمیت اور مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ (سورۃ البقرۃ ۲:۲۷۷)
ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اورنماز قائم کریں، اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے۔
زکوٰۃ ہر صاحبِ حیثیت و نصاب مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور یہ غرباء اور مساکین کا حق ہے قرآنِ پاک میں ارشاد ہے۔
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ (سورۃ الذّریٰت ۵۱:۱۹)
اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اورمحروم کے لیے ۔
محمد اسلم اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں۔
In the religious sense this term is applied to the share, given by the wealthy to the begger, and by so doing the rich increase their wealth and seek blessing. (Muslim Conduct of State, P. 250)
زکوٰۃ کے معنی نمو پانے یا ترقی کے ہیں۔ اور شریعت کی رو سے مخصوص مال کا خاص شرائط کے ساتھ اس کے حق دار کو مالک بنا دینا ہے۔ یعنی صاحب نصاب کو اپنے مال میں سے فقیروں اور زکوٰۃ کے حق داروں کو مقررہ مقدار بطورِتملیک عطا کرنا ہے۔ (کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعۃ، ۱؍۵۹۰۔)
زکوٰۃ آپس میں انسانوں کے درمیان ہمدردی اور باہم ایک دوسرے کی امداد اور معاونت کا نام ہے جس کا اہم فائدہ نظامِ جماعت کے قیام کے لیے مالی سرمایہ بہم پہنچانا ہے۔ (عبادات،ص ۱۴۱)
نور محمد غفاری بیان کرتے ہیں:
اسلام نے زکوٰۃ کا نظام قائم کر کے امراء کی دولت غربا تک پہنچائی جو دیگر معاشی اور سیاسی فوائد کے جلو میں امن و آشتی، خیر خواہی، اخوت و مروّت اور معاشرتی سازگاری لاتی ہے۔ (اسلام کا نظامِ عبادت، ۱۱۶)
یعنی زکوٰۃ تقسیمِ دولت میں غیر فطری عدم مساوات کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے اس کے ذریعے سے امیروں کی دولت غریبوں تک منتقل ہوتی ہے۔ (اسلامی نظریۂ حیات،ص ۴۶۰)
حدیث مبارکہ ہے:
تؤخذ من اغنیاء ھم وفتردّ علی فقراء ھم (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب اخذ الصدقۃ من الأغنیاء و ترد فی الفقراء حیث کانوا، رقم الحدیث ،۱۴۹۶،ص۲۴۳)
اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کی وضاحت کرتے ہوئے افضال الرحمن بیان کرتے ہیں:
In a Muslim economy, inspite of the non-existance of intrest, people would never hoard idle each balances simply because of a 2__% levy in the form of Zakat which they have to pay under all the circumstances. (Economic Doctrine of Islam, 3/106)
زکوٰۃ کا اصلی اورمرکزی مقصد وہی ہے جو خود لفظ زکوٰۃ کے اندر ہے۔ زکوٰۃ کے لفظی معنی ’’پاکی‘‘ اور ’’صفائی‘‘ کے ہیں۔ یعنی گناہ اور دوسری روحانی قلبی اور اخلاقی برائیوں سے پاک و صاف ہونا۔ قرآن پاک میں یہ لفظ اسی معنی میں بار بار آیا ہے۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا (سورۃ الشمس ۹۱:۹)
یقینا فلاح پا گیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى(سورۃ الأعلی ،۸۷:۱۴)
فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔
اسی لیے حضور اکرمﷺ مومنین کو نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم فرمائے۔
یامرنا بالصلوٰۃ والزکوٰۃ والصلۃ والعاف (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، رقم الحدیث ۱۳۹۴،ص۲۲۴)
ہمیں (آپ) نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا حکم دیتے تھے۔
زکوٰۃ خالص اللہ کی رضا کے لیے دی جاتی ہے۔ اسی لیے اس کی ادائیگی کا مقصد نبی اکرمﷺ نے رضائے الٰہی اور حصولِ جنت قرار دیا ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے۔
ان رجلا قال لنبی صلی اللہ علیہ وسلم اخبرنی بعمل یدخلنی الجنۃ قال مالہ مالہ وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ارب مالہ تعبد اللہ ولا تشرک بہ شیئا وتقیم الصلوٰۃ وتؤتی الزکوٰۃ وتصل الرحم۔ (ایضاً، رقم الحدیث ۱۳۹۶،ص۲۲۵)
ایک شخص نے رسولِ اکرمﷺ سے عرض کیا مجھے آپﷺ ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ صحابہ نے فرمایا:اسے کیا ہو گیا؟ اسے کیا ہو گیا؟ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا اسے سوال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی (فرمایا) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔
اشرف علی تھانوی زکوٰۃ کے اسرار بیان کرتے ہیں:
جب خدا تعالیٰ کے لیے اپنے اس مال عزیز کو خرچ کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کا مدار اور معیشت کا انحصار ہے۔ اور جو محبت اورتکلیف اور عرق ریزی سے کمایا گیا ہے۔ تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایمان میں بھی ایک شدت و صلابت پیدا ہوتی ہے۔ خدائے رحیم و کریم سے تعلق بڑھتا ہے۔ کیونکہ اپنے مال عزیز کو خدا کے لیے چھوڑنا نفس پر بھاری ہے اس لیے اس تکلیف کے اٹھانے سے خدا سے تعلق بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں،ص ۹۹)
خدائے بزرگ و برتر انسان کی کمزور، فطرت سے بخوبی واقف ہے۔ انسان کو جب کبھی بھی سرمایہ میسر آتا ہے تو اس کا دل و دماغ الٹ جاتا ہے۔ غریب، متقی، پرہیزگار بھی رئیس ہونے پر فرعون بننے کی آرزو رکھتا ہے۔ یہ اس کو اپنی ذاتی املاک سمجھ کر حرص و طمع کے سلسلے کو غیر محدود طور پر بڑھانے کا متمنی ہوتا ہے۔ ان جذبات و خواہشات کو دبانے اور معاشرے میں انتشار کو پنپنے سے روکنے کے لیے زکوٰۃ و صدقات کے احکامات نازل کیے گئے۔ (اسلام کا تمدنی اور سیاسی نظام،ص ۲۳۱)
الغرض زکوٰۃ امارت و غربت کا بہترین علاج ہے۔ آج اگر زکوٰۃ دقات کی تنظیم ہو اور صحیح نظام کے ساتھ غریبوں کی ضروریات کے لیے زکوٰۃ و صدقات وصول کیے جائیں اور ان کا مصرف معقول تجویز کیا جائے تو تمام پیچیدہ مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ (فلسفہ عبادات اسلامی،ص ۴۳)
زکوٰۃ بھی اُن عبادات میں سے ہے جو تمام آسمانی مذاہب کے صحیفوں میں فرض بتائی گئی جس کی تائید مختلف آسمانی صحیفوں سے ہے کہ جس طرح نماز ہر مذہب کا جزء لا ینفک تھی اسی طرح زکوٰۃ بھی تمام مذاہب کا ہمیشہ ضروری جزء رہی ہے۔ (عبادات، ص ۱۴۱)
معنی و مفہوم
زکوٰۃ کے مفہوم میں علماء لغت نے دو معنی بیان کیے ہیں۔
(۱) پاک صاف کرنا یا پاکیزگی۔ نشوونما یا بڑھانا وغیرہ۔ (مفردات القرآن، ص۲۱۳؛معجم المقاییس اللغۃ، ۴۳۶)
زکوٰۃ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ محمود احمد لکھتے ہیں:
Zakat literally means purification, technically it is a tax on the wealth to provide social justice. (Economics of Islam, P. 87)
امین احسن اصلاحی بیان کرتے ہیں:
زکوٰۃ کے اندر نشوونما اور پاکیزگی دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ نفس اورمال دونوں کو پاکیزگی بھی بخشتی ہے اس سے مال میں برکت اور بڑھوتری بھی ہوتی ہے۔ (تدبر قرآن، ۱؍۱۸۵)
یعنی زکوٰۃ نکال کر مال کو پاک کیا جاتا ہے۔ گویا زکوٰۃ ایک میل ہے جس کے نکل جانے سے دولت کی چادر صاف ستھری ہو جاتی ہے۔ (اسلام کا نظام عبادت،ص۹۷)
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ (سورۃ التوبۃ، ۹:۱۰۳)
شریعتِ موسوی… تصورِ زکوٰۃ و فلسفہ
شریعت موسوی میں زکوٰۃ کے واضح احکامات موجود ہیں۔ بنی اسرائیل سے خدا نے جو عہد لیا تھا اس میں نماز اور زکوٰۃ دونوں تھیں ۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (سورۃ البقرۃ۲:۴۳)
اور (اے بنی اسرائیل) نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہے:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ اِنَّہٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا وَكَانَ يَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِيًّا (سورۃ مریم ۱۹:۵۴،۵۵)
اور اس کتاب میں اسماعیل؈ کا ذکر کرو وہ وعدے کا سچا تھا اور سول نبی تھا وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔
اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی شریعت میں زکوٰۃ کی فرضیت کے متعلق بیان فرمایا:
وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءَ الزَّكٰوۃِ (سورۃ الأنبیاء، ۲۱:۷۳)
اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے کی اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔
قرآنِ کریم کے ان ارشادات کی تائید تورات میں موجود ہے جیسا کہ کتاب مقدس میں فرمایا:
جب تم زمین کی پیداوار کی فصل کاٹو تو اپنے کھیت کے کونے کونے تک پورا پورا نہ کاٹنا اور نہ کٹائی کی گری ہوئی بالوں کو چن لینا اور تو اپنے انگورستان کا دانہ دانہ نہ توڑ لینا اور نہ اپنے انگورستان کے گرے ہوئے دانوں کو جمع کرنا ان کو غریبوں اورمسافروں کے لیے چھوڑ دینا، میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ (احبار،۱۹:۹،۱۰؛ احبار، ۳۳:۲۲؛ استثناء، ۱۶:۲۸،۲۹)
اس سلسلے میںMax Weberبیان کرتا ہے:
Land and vineyard are intentionally not to be completely harvested in order that something be left for the gerim and the poor of the ends of fields. (Max Weber, Ancient Judaism, P. 47)
کھیتوں اور انگوروں کے باغوں کی جان بوجھ کر پوری فصل نہیں کاٹی جاتی تھی اس لیے کہ پردیسیوں، مسیکنوں اور یتیموں کا حصہ رکھنا یہودیت میں لازمی تھا۔
زمین کی پیداوار اور درخت کے پھل کا دسواں حصہ بطورِ حق خدا مخصوص کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ کتاب مقدس میں درج ہے:
زمین کی پیداوار کی ساری دہ یکی خواہ وہ زمین کے بیچ کی یا درخت کے پھل کی ہو خداوند کی ہے اور خداوند کے لیے پاک ہے اور اگر کوئی اس میں چھڑانا چاہے تو پانچواں حصہ اور ملا کر چھڑائے۔ (احبار، ۲۷:۳۰،۳۱)
جانوروں کے ریوڑ میں سے بھی حقِ خدا ادا کرنا ضروری تھا اس سلسلے میں کتاب مقدس کی ہدایت یہ ہے:
گائے، بیل اوربھیڑ،بکری یا جو جانور چرواہے کی لاٹھی کے نیچے سے گزرتا ہو ان کی دہ یکی یعنی دس پیچھے ایک ایک جانورخداوند کے لیے پاک ٹھہرے کوئی اس کی دیکھ بھال نہ کرے کہ وہ اچھا ہے یا بُرا ہے اور نہ اسے بدلے اور اگر کہیں کوئی اسے بدلے تو وہ اصل اور بدل دونوں کے دونوں مقدس ٹھہریں اور اس کا فدیہ بھی نہ دیاجائے گا۔ (احبار ،۲۷:۳۲،۳۳)
کھیت کے کناروں کا غلہ وغیرہ نادار اور غریبوں کے لیے مخصوص تھا جس کو یہودی شریعت میں "Peah"قرار دیا جاتا تھا۔
Regulations, such as those reserving the corner of the field (Peah) for reaping by the needy gave practical effect to ethical generalizations. (The Standered Jewish Encyclopaedia, P. 427)
فصل کی کٹائی کے دوران کھیت کے کناروں پر کتنی فصل چھوڑنا ضروری ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے بلکہ یہ کھیت کی لمبائی اور چوڑائی کو مد نظر رکھ کر چھوڑنا ضروری ہے، تالمود میں"Peah"کے مقاصد اور فلسفے کو انتہائی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
The following have no prescribed measure Peah, (Corner of the field, the portion of the crop that must be left by the owner to the poor) First Fruit, Festival- offerings, deeds of kindness, and study of the law. And the following are the things the fruit of which a man enjoys in this world but the copital fund of which remains for him in the world to come. One should not leave Peah less than one-sixth of the field. And although there is no prescribed measure it should be fixed according to the size of the field, the number of the poor, and the need. (Lco Auerobach, The Talmud, P. 49(Retrived from November 7, 2009 http://www. sacred-texts.com/jud/bata/bata 04.htm)
لہذا تالمود کے مطابق "Peah"کا فلسفہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کھیت کی پیداوار سے انسان اپنی اس زندگی میں فائدہ اٹھاتا ہے۔ مگر"Peah"انسان کی اُخروی زندگی میں فلاح اور نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔
"Peah"یعنی زکوٰۃ جہاں آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے وہاں اس کی ایک حکمت مال میں برکت اور زیادہ ہونا بھی ہے۔ تالمود میں امراء کی دولت کا راز یہ بیان کیا گیا کہ وہ اپنی دولت کا ۱۰؍۱ حصہ غرباء و مساکین کے مخصوص کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں تالمود میں درج ہے:
Rabbi Ishmael, the son of Joshua, was asked how did the people of the land of Israel become so weathy? He answered, "They gave their tithes in due season, as it is written, " Thou shalt give tithes in order that Thou mayest become rich." (H. Polano, The Talmud, P. 268)
یوشع کے بیٹے ربی اسماعیل نے پوچھا کہ اسرائیل کی زمین کے لوگ اتنے دولت مند کیسے ہو گئے۔ اس نےجواب دیا کہ وہ مقررہ موسم میں اپنی دہ یکیاں دیتے ہیں جیسا کہ یہ لکھا ہے ’’ کہ تو دہ یکی دے تاکہ تو امیر ہو جائے۔‘‘
تالمود کی رو سے صرف کھیتوں اور جانوروں کی ہی نہیں بلکہ درختوں کی"Peah"چھوڑنا بھی ضروری ہے۔
of the trees, sumach, carob, nut trees, the almond, vines, the pomegranate, the olive and date palm are all subject to peah. (Leo Auerbach, The Talmud, P. 50(Retrived from November 7, 2009 http://www.sacred-texts.com/jud/bata/ bata 04.htm)
"Peah"کے علاوہ ناداروں اور مسکینوں کی مدد کے لیے یہودی شریعت میں "Gleaning"کا تصور بھی موجود ہے جس کے حکمت و مقاصد بھی "Peah"ہی کی مانند ہیں۔ غلے کی وہ مقدار جو فصل کاٹنے کے دوران زمین پر گر پڑے اسے "Gleaning"کہتے ہیں۔
اس سلسلے میںThe Standered Jewish Encyclopaediaمیں درج ہے:
This tractate deals with the laws of all the different dues to poor, namely: Peah, laket ("gleaning of grapes") peret ("fallen grapes.") (The Standered Jewish Encyclopaedia P. 1485)
تورات کے زمانے میں چونکہ دولت ازیادہ تر صرف زمین کی پیداوار اور جانوروں کے گلوں تک محدود ہی اس لیے ان ہی دونوں چیزوں کی زکوٰۃ کا زیادہ ذکر آیا ہے۔ (شبلی نعمانی، عبادات،ص ۱۴۳)
تالمود میں"Gleaning"کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے۔
If one cut a handfull, or pulled up a handfull, and a thorn pricked him and it fell from his hands to the ground, it belongs to the owner. If it fell on the inside of the hand or the inside of the sickle, it belongs to the poor. If it fell over the top of the hand or the top of the sickle, Rabbi Ismael says: it belongs to the poor. Rabbi Akiba says: it belongs to the owner. (Leo Auerbach, The Talmud, P. 51(Retrived from November 7, 2009 http://www. sacred-texts.com/ jud/bata/bata 04.htm)
گویا اس قانون کی رو سے "Gleaning"کا انحصار اس بات پر ہے کہ اناج ہاتھ سے کٹائی کے دوران کس طرح گرتا ہے۔ اگر یہ زمین پر براہ راست گرتا ہے تو یہ مالک کا ہے اور اگر یہ ہاتھ کے اندر گرے تو یہ غریبوں کا حق ہے اسی طرح کٹی ہوئی فصل کا وہ حصہ جو ہوا اُڑا کرے جائے اور فصل کے گٹھوں کا وہ حصہ جو زمین کو چھوئے وہ غرباء کا حق ہے۔
تالمود میں غریبوں کے حق اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اُسے دولت میں اضافے اور حفاظت کا ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح نمک گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور بغیر نمک کے گوشت سڑ جاتا ہے ۔ لہٰذا جس طرح نمک گوشت کے لیے مفید ہے اسی طرح غریبوں اور ناداروں کو ان کا حق ادا کرنا دولت کے لیے مفید ہے۔ (H. Polano, The Talmud, P. 244)
لہٰذا یہودی شریعت میں "Peah"اور"Gleaning کا فلسفہ، اخروی زندگی میں حصول فلاح، مال میں اضافہ و برکت، معاشرے کی فلاح و بہبود اور ناداروں، مسکینوں، بیواؤں اور یتیموں کو فائدہ پہنچانا ہے۔
اسلام میں تصور و فلسفہ زکوٰۃ
اسلام میں نماز کے بعد جس عبادت کا اصل تعلق خالق و مخلوق کے باہمی سلسلہ اور رابطہ سے ہے وہ زکوٰۃ ہے۔ قرآنِ کریم میں بیشتر مقامات پر زکوٰہ کی فرضیت، اہمیت اور مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ (سورۃ البقرۃ ۲:۲۷۷)
ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اورنماز قائم کریں، اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے۔
زکوٰۃ ہر صاحبِ حیثیت و نصاب مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور یہ غرباء اور مساکین کا حق ہے قرآنِ پاک میں ارشاد ہے۔
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ (سورۃ الذّریٰت ۵۱:۱۹)
اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اورمحروم کے لیے ۔
محمد اسلم اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں۔
In the religious sense this term is applied to the share, given by the wealthy to the begger, and by so doing the rich increase their wealth and seek blessing. (Muslim Conduct of State, P. 250)
زکوٰۃ کے معنی نمو پانے یا ترقی کے ہیں۔ اور شریعت کی رو سے مخصوص مال کا خاص شرائط کے ساتھ اس کے حق دار کو مالک بنا دینا ہے۔ یعنی صاحب نصاب کو اپنے مال میں سے فقیروں اور زکوٰۃ کے حق داروں کو مقررہ مقدار بطورِتملیک عطا کرنا ہے۔ (کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعۃ، ۱؍۵۹۰۔)
زکوٰۃ آپس میں انسانوں کے درمیان ہمدردی اور باہم ایک دوسرے کی امداد اور معاونت کا نام ہے جس کا اہم فائدہ نظامِ جماعت کے قیام کے لیے مالی سرمایہ بہم پہنچانا ہے۔ (عبادات،ص ۱۴۱)
نور محمد غفاری بیان کرتے ہیں:
اسلام نے زکوٰۃ کا نظام قائم کر کے امراء کی دولت غربا تک پہنچائی جو دیگر معاشی اور سیاسی فوائد کے جلو میں امن و آشتی، خیر خواہی، اخوت و مروّت اور معاشرتی سازگاری لاتی ہے۔ (اسلام کا نظامِ عبادت، ۱۱۶)
یعنی زکوٰۃ تقسیمِ دولت میں غیر فطری عدم مساوات کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے اس کے ذریعے سے امیروں کی دولت غریبوں تک منتقل ہوتی ہے۔ (اسلامی نظریۂ حیات،ص ۴۶۰)
حدیث مبارکہ ہے:
تؤخذ من اغنیاء ھم وفتردّ علی فقراء ھم (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب اخذ الصدقۃ من الأغنیاء و ترد فی الفقراء حیث کانوا، رقم الحدیث ،۱۴۹۶،ص۲۴۳)
اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کی وضاحت کرتے ہوئے افضال الرحمن بیان کرتے ہیں:
In a Muslim economy, inspite of the non-existance of intrest, people would never hoard idle each balances simply because of a 2__% levy in the form of Zakat which they have to pay under all the circumstances. (Economic Doctrine of Islam, 3/106)
زکوٰۃ کا اصلی اورمرکزی مقصد وہی ہے جو خود لفظ زکوٰۃ کے اندر ہے۔ زکوٰۃ کے لفظی معنی ’’پاکی‘‘ اور ’’صفائی‘‘ کے ہیں۔ یعنی گناہ اور دوسری روحانی قلبی اور اخلاقی برائیوں سے پاک و صاف ہونا۔ قرآن پاک میں یہ لفظ اسی معنی میں بار بار آیا ہے۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا (سورۃ الشمس ۹۱:۹)
یقینا فلاح پا گیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى(سورۃ الأعلی ،۸۷:۱۴)
فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔
اسی لیے حضور اکرمﷺ مومنین کو نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم فرمائے۔
یامرنا بالصلوٰۃ والزکوٰۃ والصلۃ والعاف (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ، رقم الحدیث ۱۳۹۴،ص۲۲۴)
ہمیں (آپ) نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا حکم دیتے تھے۔
زکوٰۃ خالص اللہ کی رضا کے لیے دی جاتی ہے۔ اسی لیے اس کی ادائیگی کا مقصد نبی اکرمﷺ نے رضائے الٰہی اور حصولِ جنت قرار دیا ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے۔
ان رجلا قال لنبی صلی اللہ علیہ وسلم اخبرنی بعمل یدخلنی الجنۃ قال مالہ مالہ وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ارب مالہ تعبد اللہ ولا تشرک بہ شیئا وتقیم الصلوٰۃ وتؤتی الزکوٰۃ وتصل الرحم۔ (ایضاً، رقم الحدیث ۱۳۹۶،ص۲۲۵)
ایک شخص نے رسولِ اکرمﷺ سے عرض کیا مجھے آپﷺ ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ صحابہ نے فرمایا:اسے کیا ہو گیا؟ اسے کیا ہو گیا؟ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا اسے سوال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی (فرمایا) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔
اشرف علی تھانوی زکوٰۃ کے اسرار بیان کرتے ہیں:
جب خدا تعالیٰ کے لیے اپنے اس مال عزیز کو خرچ کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کا مدار اور معیشت کا انحصار ہے۔ اور جو محبت اورتکلیف اور عرق ریزی سے کمایا گیا ہے۔ تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایمان میں بھی ایک شدت و صلابت پیدا ہوتی ہے۔ خدائے رحیم و کریم سے تعلق بڑھتا ہے۔ کیونکہ اپنے مال عزیز کو خدا کے لیے چھوڑنا نفس پر بھاری ہے اس لیے اس تکلیف کے اٹھانے سے خدا سے تعلق بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں،ص ۹۹)
خدائے بزرگ و برتر انسان کی کمزور، فطرت سے بخوبی واقف ہے۔ انسان کو جب کبھی بھی سرمایہ میسر آتا ہے تو اس کا دل و دماغ الٹ جاتا ہے۔ غریب، متقی، پرہیزگار بھی رئیس ہونے پر فرعون بننے کی آرزو رکھتا ہے۔ یہ اس کو اپنی ذاتی املاک سمجھ کر حرص و طمع کے سلسلے کو غیر محدود طور پر بڑھانے کا متمنی ہوتا ہے۔ ان جذبات و خواہشات کو دبانے اور معاشرے میں انتشار کو پنپنے سے روکنے کے لیے زکوٰۃ و صدقات کے احکامات نازل کیے گئے۔ (اسلام کا تمدنی اور سیاسی نظام،ص ۲۳۱)
الغرض زکوٰۃ امارت و غربت کا بہترین علاج ہے۔ آج اگر زکوٰۃ دقات کی تنظیم ہو اور صحیح نظام کے ساتھ غریبوں کی ضروریات کے لیے زکوٰۃ و صدقات وصول کیے جائیں اور ان کا مصرف معقول تجویز کیا جائے تو تمام پیچیدہ مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ (فلسفہ عبادات اسلامی،ص ۴۳)