میں نے یہ بھی عرض کیا کہ صرف بعض ایسے افراد کو دیکھ کر یا یہ کہہ کر کہ یہ مسئلہ صرف ان کے لیے ہے جو خواہش نفس کی اتباع نہیں کرتے ہم فتوی کیسے دے سکتے ہیں؟
یہاں فتوی دینے سے پہلے فتوی کے لئے جس چیز کو علت بنایا جا رہا ہے اسکی بات ہو رہی ہے دیکھیں کہ تقلید کے واجب ہونے کی آپ کی پہلی دلیل ہی یہ تھی کہ خواہشات کی پیروی سے بچا جا سکے تو محترم بھائی لامحالہ میں نے جب رد کرنا تھا تو میں نے صرف اس انسان کو لینا تھا جو خواہش کی پیروی کرتا ہو کیونکہ فتوی میں علت ہی اسکو بنایا گیا ہے اور میں ابھی فتوی کا رد کر رہا ہوں
بعد میں جب علت خواہشات کی پیروی نہیں ہو گی تو میں پھر مسلمانوں کی اس طرح تقسیم بھی نہیں کروں گا اشکال بتانے پر اللہ آپ کو جزا دے امین
دیکھیں بھائی شریعت میں عدالت کو کلی اختیار نہیں ہوتا کہ جو چاہے کرے۔ (فقہ میں بحث کے وقت ہماری مراد شرعی عدالت ہوتی ہے۔)
اگر وہ امام تبدیل کرے گی تو عدالت کے سامنے دو صورتیں ہوں گی: یا تو پچھلے امام کے مطابق نکاح چوں کہ صحیح ہو گیا ہے اور گواہوں کا مسئلہ مجتہد فیہ مسئلہ ہے تو نکاح اول کو برقرار ہی رکھے۔
یا پھر موجودہ امام کے مطابق چوں کہ نکاح درست نہیں ہوا تھا اس لیے نکاح کو باطل قرار دے۔ یہ قاضی کی رائے پر موقوف ہے۔
لیکن قاضی جب ایک مرتبہ ایک فیصلہ کر دے تو اسے علتوں وغیرہ کے بدلنے سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حتی کہ ایک قاضی کا کیا ہوا فیصلہ اگر ادلہ قطعیہ کے خلاف نہ ہو تو دوسرا قاضی بھی باطل نہیں کرسکتا۔
لہذا اگر قاضی نے نکاح اول باطل قرار دیدیا تو اب وہ مسلک واپس تبدیل کرنے سے یہ فیصلہ نہیں تبدیل ہوگا۔ لہذا نکاح ثانی درست رہے گا۔
محترم بھائی میں یہاں رد اپنے اصولوں سے نہیں کر رہا بلکہ آپ کی بات کا تضاد ہی پیش کر رہا ہوں
آپ نے اوپر کہا کہ قاضی ایک دفعہ فیصلہ کے بعد تبدیل نہیں کرے گا چاہے وہ امام بھی تبدیل کر لے
اس پر میرا سوال یہ ہے کہ ایک شرعی قاضی فیصلہ کس شریعت کی بنیاد پر کرے گا اس سوال کو مقلدہ اور غیر مقلدی کے پس منظر میں علیحدہ علیحدہ ذرا دیکھتے ہیں
1-غیر مقلدہ کا فیصلہ اگر قاضی اسکے پسند کے قول پر کرے گا اور قول بدلنے پر وہ نئے قول کے مطابق فیصلہ کرے گا-تو اس صورت میں پھر قاضی کو لازم ہے کہ مقلدہ عورت کا فیصلہ اسکے پسند کے امام کے مطابق کرے اور امام بدلنے پر فیصلہ نئے امام کے قول کے مطابق کرے
2-غیر مقلدہ کا فیصلہ اگر قاضی ایک دفعہ پسند کے قول کے مطابق کے گا اور قول بدلنے پر وہ اپنے فیصلے کو نہیں بدلے گا تو پھر مقلدہ کی صورت میں بھی اسکو ایک دفعہ اسکے پسند کے امام کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا پھر امام بدلنے پر بھی وہ اپنے فیصلے کو برقرار رکھے گا پس آپ کا نیچے والا قول ٹھیک نہیں
تقلید مطلق کی صورت میں تو اسے اجازت ہے کہ کسی وقت بھی کوئی بھی قول اختیار کرلے۔ قاضی باطل اس کے مسلک کی بنیاد پر کر رہا تھا۔ یہاں کس بنیاد پر کرے گا؟ وہ ابھی ایک قول کو اختیار کر کے بیٹھی ہے لیکن اگلے ہی منٹ میں دوسرا قول اختیار کر سکتی ہے اور چوں کہ ہم نے تقلید مطلق کی اجازت ہر غیر عالم کو بھی دے رکھی ہے اس لیے ہم اس سے قول کی تبدیلی پر دلائل بھی نہیں مانگ سکتے۔
یہ تو اس خاص مسئلہ میں فیصلہ ہوا۔
یعنی خود ہی کہ دیا کہ تقلید مطلق کی صورت میں اسے اجازت ہے محترم بھائی ذرا یہ تو بتا دیں کہ کہیں یہ اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کے تحت تو نہیں آ جائے گا یعنی ہمارے لئے تو قاضی کو کلی اختیار نہیں لیکن آپ کو خواہش سے بچانے کے لئے قاضی کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں جیسے صدر ذرداری کو استثنی حاصل تھی
باقی اگرچہ مسلک کی تبدیلی کی اجازت ہے لیکن بار بار اس طرح مسلک بدلنے کی نہیں ورنہ تقلید مطلق اور تقلید شخصی میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟
دیکھیں محترم بھائی مجھے آپ کی یہ بات انصاف کے مطابق نہیں لگی دیکھیں امام بدلنے یا قول بدلنے کے پیچھے دو طرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں
1-ایک ٹھوس دلیل
2-خواہش نفس
پس آپ تقلید شخصی میں امام بدلیں یا تقلید مطلق میں قول بدلیں اگر تو اس کے پیچھے ٹھوس دلیل موجود ہے تو پھر ایک دفعہ بدلنے کا جو حکم ہو گا دو دفعہ بدلنے کا بھی وہی حکم ہو گا
اور اگر اسکے پیچھے خواہش نفس ہے تو آپ ایک دفعہ بھی بدلیں گے تو جائز نہیں ہو گا
پس محترم بھائی اس میں تقلید مطلق اور تقلید شخصی کا کوئی کمال نہیں بلکہ اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ بدلنے کی وجہ کیا ہے
عدالت کسی شخص کی تبدیلی مسلک ایک بار مان لے گی، دو بار مان لے گی لیکن جب وہ مسلسل ایسا کرے گا بلا وجہ اور بلا دلیل تو قاضی اس پر پابندی لگا دیگا۔ کیوں؟؟؟ اس لیے کہ تقلید مطلق کی اجازت نہیں ہے اور بار بار مسلک تبدیل کرنا حقیقت میں تقلید مطلق ہی ہے۔
محترم بھائی یہاں بھی مجھے طرف داری واضح نظر آ رہی ہے کہ تقلید مطلق والی عورت کو تو قاضی کھلی چھوٹ دے دے گا کہ جب دل چاہے بدل لو مگر تقلید شخصی والے سے وجہ پوچھے گا تو محترم بھائی میرا سوال ہے کہ اگر وجہ پوچھنا قاضی کا شرعی فریضہ ہے تو قاضی کیا پاکستانی قانون پڑھا ہو گا کہ کسی کو استثنی دے گا اور کسی سے وجہ پوچھ لے گا
اس کا جواب عرض کر دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ چار مسالک جو مشہور ہوئے اور ان کے علاوہ کسی مسلک کی تقلید نہیں ہوئی تو یہ بلا وجہ نہیں ہے۔ بلکہ ان مسالک کے فقہاء نے ہر مسئلہ کو ممکنہ حد تک حل کیا ہے۔ میں اگر یہ کہوں کہ اصول بنانے والے ائمہ اربعہ پر خدا کی خصوصی عنایت تھی جنہوں نے ایسے مضبوط اصول بنائے کہ وہ ہر مسئلے کو حل کرتے ہیں تو یہ بیجا نہ ہوگا۔
محترم بھائی اگر کوئی غیر مسلم آپ سے سوال کر دے کہ اللہ نے ہمارے آزمانے کے لئے ہی دنیا بنائی ہے تو اسکی دو صورتیں ہو سکتی تھیں
1-اللہ تعالی علم سیدھا راستہ بالکل واضح بیان کر دیتا اور آزماہش صرف عمل میں ہوتی
2-اللہ تعالی علم کی تلاش اور عمل دونوں کو آزمائش ہمارے لئے بناتا
اب اگر آپ پہلی بات کو لیتے ہیں تو پھر تو علم واضح بیان کرنے کے لئے اللہ اپنا کرم (جو آپ کے نزدیک چار اماموں پر ہوا ہے) وہ اپنے نبی پر ہی کیوں نہ کر دیتا جو سب سے محبوب نبی ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اماموں میں کوئی اتنا خاص فاصلہ بھی نہیں کہ اتنے عرصے کے لئے علم چھپا کے رکھنا تھا
اور دوسری صورت میں پھر ہمیں آج بھی محنت ہی کرنی ہو گی حلوہ کی طرح کھانا نہیں ہو گا
یہ بات آپ کی واقعی قابل غور ہے۔ ہم لوگوں کے لیے یہ واجب قرار نہیں دے سکتے۔
لیکن دونوں میں فرق سمجھیے۔
ہم ایک ایسی چیز کو واجب قرار دے رہے ہیں جس پر مسلمان جمع ہیں سوائے چند لوگوں کے۔
اگر لوگ پہلے سے جمع ہوں دس سال کے لڑکے لڑکیوں کی شادی کر دینے پر اور خال خال کوئی نہ کرتا ہو اور پھر فتنے کا خوف ہو تو شاید ہم اسے واجب قرار دے سکتے ہیں۔
میرا سوال یہ تھا کہ اگر واقعی فساد کو اس طرح روکنا ہمارے سلف کا کام ہوتا یا یہ شرعی طریقہ ہوتا تو میں تو ایک مثال دی ہے اور ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں پھر انہوں نے ہر اس طرح کے کام پر اجماع کیا ہوتا (قطع نظر اس اجماع کی حقیقت کے)
پھر یہ ایسا فساد ہے جو صرف ایک جہت سے ہے اور اس کا سد باب دیگر طریقوں سے بآسانی ممکن ہے جیسا کہ لڑکوں کو نگرانی میں رکھنے سے وغیرہ۔ جبکہ تقلید مطلق میں بہت سی جہات سے فساد آتا ہے۔ بہت سے مسائل میں فساد آ تا ہے۔
واللہ اعلم
محترم بھائی ابھی تو آپ کی ایک ہی جہت سے تقلید نہ کرنے پر رد چل رہا ہے جب اور جہتیں بیان کریں گے تو میں بھی نکاح نہ کرنے کی اور خرابیاں بیان کر دوں گا اور لڑکوں کو جہاں تک نگرانی میں رکھنے کا کام ہے تو بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ جن مولویوں کی نگرانی میں ان لڑکوں کو رکھا گیا تو کہیں کوئی نئی جہت سے حملہ نہ ہو جائے کیوں کہ آپ کے نظریہ میں تو ہر کوئی خواہشات کا پیروکار ہی ہے اور ہم نے تمام مسئلے ان کے لئے بنانے ہیں تو پھر تو کسی کو روکنا ممکن ہی نہیں