• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلاف ِ امت پر رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کا صحیح اطلاق

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم بھائی ایک اور سوال پوچھنا ہے کہ کیا کوئی شافعی زندگی بھر کسی وجہ سے کبھی حنفی بن سکتا ہے یا نہیں اللہ آپکو جزا دے امین
جی بن سکتا ہے۔ اس کی مثال میں امام طحاوی رح کو لیا جا سکتا ہے۔
نہ صرف بن سکتا ہے بلکہ بعض سخت ضروریات کے موقع پر حنفی فقہ پر عمل بھی کر سکتا ہے شافعی رہتے ہوئے۔ البتہ ظاہر ہے اس کا فیصلہ علماء ہی کریں گے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب محترم بھائی باقاعدہ آغاز کرتے ہیں پہلے آپ کی تقلید کے حق میں دئے گئے دلائل پر میں اعتراضات پیش کروں گا پھر اگلے مرحلے میں میں تقلید نہ کرنے کے دلائل دوں گا جس پر آپ اعتراضات کریں گے لیکن یہ سب کچھ صرف علمی بحث کی حد تک ہو گا کیوںکہ میرے خیال میں ہم دونوں ایک دوسرے کو اجتہادی غلطی پر تو کہتے ہیں گمراہ نہیں کہتے

پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر کسی بھی عامی شخص کو اس کا اختیار دے دیا جائے تو وہ ہر مسئلے میں وہ قول اختیار کرے گا جو اسے پسند آئے گا اور ہمارے پاس اس اتباع نفس سے بچانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
اس کی مثال یوں ہے ------
اب یہ کبھی زید کے پاس جاتی ہے کبھی عمرو کے اور کبھی بکر کے اور کوئی پوچھتا ہے تو فورا مرضی کے قول کا حوالہ دیتی ہے۔
محترم بھائی پہلے میں اسلام پر چلنے کا دعوی کرنے والے تمام لوگوں (مقلد اور غیر مقلد) کو دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہوں
1-وہ جن کا مقصد خواہشات کی پیروی ہوتا ہے مگر سہارا شریعت کا لیتے ہیں
2-وہ جن کا مقصد خواہشات کی پیروی نہیں ہوتا بلکہ سیدھے راستے پر چلنا مقصد ہوتا ہے

اب محترم بھائی میں عقلی طور پر دونوں قسموں پر آپ کی پہلے دلیل علیحدہ علیحدہ فٹ کر کے تبصرہ کرتا ہوں آپ انصاف سے اصلاح کر دیں اللہ آپ کو جزا دے امین

پہلی قسم پر آپ کی دلیل کا اطلاق

محترم بھائی پہلی قسم کے لوگوں کو آپ مقلد بنا لیں یا غیر مقلد آپ انکو خواہش کی پیروی سے روک نہیں سکتے جیسے آپ نے سوال پوچھا تھا کہ
کیا ہم اسے روک سکتے ہیں کسی طرح؟؟؟
مثلا اوپر مثال میں لڑکی مقلد بھی ہو گی تو جب ایک کے پاس جائے گی تو اس کی مقلد بن جائے گی جب دوسرے کے پاس جائے گی تو دوسرے کی مقلد بن جائے گی کیونکہ ایک امام سے دوسرے امام کی تقلید میں جانے کے مباح ہونے کا آپ نے اوپر خود اقرار کیا ہے


دوسری قسم پر آپ کی دلیل کا اطلاق

محترم بھائی دوسری قسم پر آپکی دلیل تو ٹھیک نہیں بیٹھتی کیونکہ اسکی نیت صاف ہے
مثلا آپکی ہی مثال والی زیدہ کو لیتے ہیں کہ وہ نیک نیت ہے خواہش کی پیروی نہیں کرتی لیکن وہ امام مالک کی مقلد ہے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لیتی ہے پھر آپ کی بات کے مطابق اسکو سمجھ آ جاتی ہے اور وہ حنفی بن جاتی ہے تو پہلے نکاح کو باطل ہی سمجھے گی مگر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ خواہش کی وجہ سے ایسا کر رہی ہے اسی طرح آگے اسکو سمجھ آ جاتی ہے اور پھر وہ امام شافعی کے مطابق والدین کی مرضی سے کسی اور سے نکاح کر لیتی ہے اب آپ اس کو تو خواہش کا پیروکار نہیں
اب اگر اسی طرح کا عمل وہ تقلید مطلق کے تحت کر لے تو آپ مطلقا اس پر خواہش نفس کا حکم کیسے لگا سکتے ہیں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اب محترم بھائی باقاعدہ آغاز کرتے ہیں پہلے آپ کی تقلید کے حق میں دئے گئے دلائل پر میں اعتراضات پیش کروں گا پھر اگلے مرحلے میں میں تقلید نہ کرنے کے دلائل دوں گا جس پر آپ اعتراضات کریں گے لیکن یہ سب کچھ صرف علمی بحث کی حد تک ہو گا کیوںکہ میرے خیال میں ہم دونوں ایک دوسرے کو اجتہادی غلطی پر تو کہتے ہیں گمراہ نہیں کہتے
یقینا
مطلق تقلید نہیں تقلید شخصی نہ کرنے کے دلائل۔

1-وہ جن کا مقصد خواہشات کی پیروی ہوتا ہے مگر سہارا شریعت کا لیتے ہیں
2-وہ جن کا مقصد خواہشات کی پیروی نہیں ہوتا بلکہ سیدھے راستے پر چلنا مقصد ہوتا ہے
کل میں فتاوی رشیدیہ کا ایک اسکین دیکھ رہا تھا تو اس میں جو شخص ہوائے نفسانی سے بھی خالی ہو اور باعث فساد بھی نہ بنے تو اسے تقلید مطلق کی اجازت دی گئی تھی۔
آپ اگر ملاحظہ فرمانا چاہیں تو لنک یہ ہے۔ لنک
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک مسئلہ ہر شخص کو الگ الگ کر کے فرض نہیں کیا جا سکتا ورنہ ہر شخص اسی کا مدعی ہو جائے گا کہ میں بالکل احتیاط کے مطابق چلنا چاہتا ہوں اور حقیقت کچھ اور ہوگی۔ کسی کے بارے میں قرائن اور گواہیاں یہ بتائیں کہ یہ ایسے ہی محتاط اور متقی شخص ہے تو درست ہے۔
عموما عوام کی بڑی تعداد ایسی ہی ہوتی ہے کہ وہ جو جی میں آتا ہے کرتے ہیں اور اگر کوئی اعتراض کرے تو حوالہ شریعت کا دیتے ہیں اگر ممکن ہو تو۔ اس میں تقلید مطلق کی صورت میں امکانات زیادہ ہوتے ہیں یہ کام کرنے کے۔ خواہشات کا پیروکار اپنے عمل سے رکتا نہیں ہے لیکن تقلید شخصی کی صورت میں عموما اگر وہ اسے غلط سمجھتا ہے تو توبہ کرتا ہے اور اسے شریعت کا جامہ نہیں پہناتا اور نہ ہی اور لوگوں کو اس سے گمراہ کر سکتا ہے۔
تقلید مطلق کی صورت میں بہت سے مسائل میں اسے تسلی ہوتی ہے کہ فلاں امام نے تو یہ کہا ہے نا اور دوسرے بھی اس کے دلائل سن کر گمراہ ہوتے رہتے ہیں۔ پھر اگر وہ قابل تعزیر عمل کر رہا ہو تو اسے عدالت میں بھی نہیں لایا جا سکتا کیوں کہ وہ اپنی مرضی کے امام کا وہاں قول پیش کر کے چھوٹ جائے گا۔حالاں کہ کسی امام کا بھی یہ مقصد نہیں ہوتا کہ یہ شخص ان مسائل پر اس طرح عمل پیرا ہو۔ اس طرح معاشرے میں فساد پھیل جائے گا۔


پہلی قسم پر آپ کی دلیل کا اطلاق
محترم بھائی پہلی قسم کے لوگوں کو آپ مقلد بنا لیں یا غیر مقلد آپ انکو خواہش کی پیروی سے روک نہیں سکتے
اس کا جواب میں نے اوپر لکھا۔

مثلا اوپر مثال میں لڑکی مقلد بھی ہو گی تو جب ایک کے پاس جائے گی تو اس کی مقلد بن جائے گی جب دوسرے کے پاس جائے گی تو دوسرے کی مقلد بن جائے گی کیونکہ ایک امام سے دوسرے امام کی تقلید میں جانے کے مباح ہونے کا آپ نے اوپر خود اقرار کیا ہے
ایک امام سے دوسرے امام کی تقلید میں اگر گئی تو پہلا نکاح ختم ہو جائے گا اور وہ پہلے شخص کے پاس واپس نہیں لوٹ سکے گی۔ یا عدالت پہلے نکاح کو ہی برقرار رکھے گی اور وہ دوسرا نکاح نہیں کر سکے گی۔ اسے یہ معاملہ عدالت میں حل کروانا پڑے گا۔
یہاں صورت یہ ہے کہ زاہدہ نے تینوں نکاح کیے ہیں اور تینوں کے پاس جاتی ہے۔ جب کوئی نکتہ چینی کرتا ہے تو اپنی مرضی کے امام کا قول پیش کرتی ہے۔
جیسے پہلے کے پاس جاتی ہے اور کوئی کچھ کہتا ہے تو امام مالک رح کا قول پیش کرتی ہے اور باقی دو نکاحوں کو پہلے کی موجودگی کی وجہ سے باطل قرار دیتی ہے۔ دوسرے کے پاس جاتی ہے اور کوئی پکڑے تو امام ابو حنیفہ رح کا قول پیش کرتی ہے اور پہلے نکاح کو گواہوں گی غیر موجودگی کی وجہ سے اور تیسرے کو دوسرے کی موجودگی کی وجہ سے احناف کے قول کے مطابق باطل قرار دیتی ہے۔
جب ہم تقلید مطلق کو فتوی میں درست قرار دیں گے تو اسے ہم نہیں روک سکتے۔ حتی کہ عدالت میں بھی نہیں ثابت کر سکتے۔ ہم عدالت میں یہ تو ثابت کر دیں گے کہ ایک وقت میں ایک لڑکی کا تین نکاح رکھنا درست نہیں ہے لیکن اس کی بات درست ہوگی کہ میں ایک وقت میں ایک نکاح رکھتی ہوں۔ جب میرا دل جس قول پر مطمئن ہوتا ہے میں اس کے مطابق نکاح کو اختیار کرتی ہوں۔
تقلید مطلق لازم کرنے کی صورت میں جب وہ دوسرے قول پر گئی اور پہلا نکاح باطل قرار دیا عدالت نے اور اس نے دوسرا یا تیسرا نکاح کر لیا اور پھر وہ پہلے امام کی تقلید پر واپس آگئی تو بھی دوسرا یا تیسرا نکاح باقی ہے باطل نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ پہلے امام کے نزدیک بھی درست ہے لہذا وہ پہلے شوہر کے پاس نیا نکاح کر کے بھی نہیں آ سکتی چہ جائیکہ بلا نکاح آ جائے۔

محترم بھائی دوسری قسم پر آپکی دلیل تو ٹھیک نہیں بیٹھتی کیونکہ اسکی نیت صاف ہے
جی اسی لیے اس قسم کے تقلید مطلق کے درست ہونے کا فتاوی رشیدیہ میں قول کیا گیا ہے لیکن ہم اس کا مطلق فتوی تو نہیں دے سکتے ورنہ سب لوگوں کو الگ الگ کیسے کیا جائے گا کہ یہ کونسی قسم سے ہے؟

مثلا آپکی ہی مثال والی زیدہ کو لیتے ہیں کہ وہ نیک نیت ہے خواہش کی پیروی نہیں کرتی لیکن وہ امام مالک کی مقلد ہے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لیتی ہے پھر آپ کی بات کے مطابق اسکو سمجھ آ جاتی ہے اور وہ حنفی بن جاتی ہے تو پہلے نکاح کو باطل ہی سمجھے گی مگر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ خواہش کی وجہ سے ایسا کر رہی ہے اسی طرح آگے اسکو سمجھ آ جاتی ہے اور پھر وہ امام شافعی کے مطابق والدین کی مرضی سے کسی اور سے نکاح کر لیتی ہے اب آپ اس کو تو خواہش کا پیروکار نہیں
اب اگر اسی طرح کا عمل وہ تقلید مطلق کے تحت کر لے تو آپ مطلقا اس پر خواہش نفس کا حکم کیسے لگا سکتے ہیں
اوپر فرق دی گئی مثال میں اور تقلید مطلق میں واضح کر دیا۔
خلاصۃ یہ کہ تقلید مطلق میں نکاح اول باطل ہو جائے گا اور تقلید شخصی میں نہیں۔
واللہ اعلم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیا یہ چار مسالک علم کل ہیں اور ایسے مسائل کے بارے کیا کرو گے جن کا ان چاروں مسالک میں نام و نشان تک نہیں ہے اور اس طرح ان مسائل کا کیا کرو گے جو مستقبل میں پیش آئیں گے اس لیے مجبورا ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، کتنے ہی ایسے معاملات ہین احناف ان مسائل میں اپنے امام اور اپنے مسلک کا باٖڈر کراس کرکے دوسروں کی سر حد میں داخل ہو جاتے ہیں اگر فقہ حنفی ہی درست ہے اور تقلید کا راستہ ہی درست ہے تو پھر ادھر ادھر کیوں پھرتے ہو ایک جگہ میں ٹکے رہو ایک چیز کے ہر امام کی مختلف راے ہے ایک چیز کو ایک امام کہتا ہی یہ جوتا ہے ایک کہتا ہے یہ پنکھا ہے ایک کہتا ہے یہ پنسل ہے ایک کہتا یہ کرسی ہے اس طرح تو یہ مزاق بن جاے گا اور جن مسالک کا آپ نام لے رہے ہیں یہ تو ایک دوسرے کے خلاف قتال کرتے رہے ہیں
اس کو ناپسند کرنے کی وجہ بیا ن ہوجاتی تو اچھا تھا تاکہ اصلاح ہو جاتی اشماریہ صاحب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا یہ چار مسالک علم کل ہیں اور ایسے مسائل کے بارے کیا کرو گے جن کا ان چاروں مسالک میں نام و نشان تک نہیں ہے اور اس طرح ان مسائل کا کیا کرو گے جو مستقبل میں پیش آئیں گے اس لیے مجبورا ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، کتنے ہی ایسے معاملات ہین احناف ان مسائل میں اپنے امام اور اپنے مسلک کا باٖڈر کراس کرکے دوسروں کی سر حد میں داخل ہو جاتے ہیں اگر فقہ حنفی ہی درست ہے اور تقلید کا راستہ ہی درست ہے تو پھر ادھر ادھر کیوں پھرتے ہو ایک جگہ میں ٹکے رہو ایک چیز کے ہر امام کی مختلف راے ہے ایک چیز کو ایک امام کہتا ہی یہ جوتا ہے ایک کہتا ہے یہ پنکھا ہے ایک کہتا ہے یہ پنسل ہے ایک کہتا یہ کرسی ہے اس طرح تو یہ مزاق بن جاے گا اور جن مسالک کا آپ نام لے رہے ہیں یہ تو ایک دوسرے کے خلاف قتال کرتے رہے ہیں
بھائی جان میرا ارادہ یہ تھا کہ اس بحث کے اختتام پر اس کا تفصیلا جواب دیتا۔ یہ ایک شبہہ ہے جو بہت سے اذہان میں پیدا ہوتا ہے یا پیدا کیا جاتا ہے۔ خیر آپ کہتے ہیں تو ابھی عرض کرتا ہوں۔

کیا یہ چار مسالک علم کل ہیں
جی نہیں یہ چار مسالک علم فقہ ہیں اور ہمارا مطلب بھی علم فقہ سے ہی ہے۔ باقی علوم سے ہمیں بحث نہیں۔

اور ایسے مسائل کے بارے کیا کرو گے جن کا ان چاروں مسالک میں نام و نشان تک نہیں ہے اور اس طرح ان مسائل کا کیا کرو گے جو مستقبل میں پیش آئیں گے اس لیے مجبورا ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا پڑے گا
یہاں ایک عرض ہے کہ ایسا کوئی ایک مسئلہ ڈھونڈ کر دیدیں جو ان چار فقہ میں تو نہ ہو اور قرآن و سنت میں واضح طور پر معلوم ہو اس طرح کہ بلا اجتہاد قرآن و سنت سے حاصل ہو جائے۔
ان فقہ میں نہ ہونے سے مراد یہ نہیں کہ اتنا واضح ہو کہ فقہ میں درج کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو جیسے سود اور نماز وغیرہ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ مسئلہ ہو ج اس سے پہلے معلوم نہ ہو۔
مزید ایک عرض یہ ہے کہ آپ کو ایک مسئلہ دکھاتا ہوں۔ موجودہ دور میں مختلف کمپنیز کام کرتی ہیں۔ کمپنی کی موجودہ صورت جس کے مطابق وہ شخص قانونی (جئریدیئس پعرسون) ہو کسی فقہ میں صراحت سے نہیں ہے۔ لیکن آپ اسے قرآن و حدیث سے بھی صراحتا نہیں ڈھونڈ کر دکھا سکتے۔
اگر آپ کہیں کہ ہم اجتہاد کریں گے تو اولا تو اجتہاد اور قیاس کے بھی کوئی اصول ہوں گے یا ان کے بغیر اجتہاد کریں گے؟ وہ اصول کس کے ہوں گے؟
ثانیا یہ کہ چلیں آپ مجھے بغیر کسی عالم کی مدد کے اجتہاد کر کے حل دکھا دیں۔ کس نص سے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے یہ بھی بتائیے گا۔ لیکن کسی کتاب یا عالم کی مدد حاصل نہیں کیجیے گا ورنہ کہیں نہ کہیں اس کے ڈانڈے مقلدین سے جا ملیں گے۔

یہ تو ایک بات ہوئی۔ اب تحقیقی بات کی طرف آتے ہیں تو میرے محترم بھائی کسی مسلک کی تقلید کا مطلب اس کے اصول فقہ و قواعد فقہ کی تقلید ہوتی ہے۔ اول تو اکثر مسائل ان چاروں فقہ میں حل ہوتے ہیں (اسی پر تو کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ پہلے سے سوچ سوچ کر مسائل حل کیوں کیے گئے حالانکہ یہ اعتراض انتہائی بودا ہے کیوں کہ اگر ایسے پہلے سے اخذ کر بھی لیے گئے تو اس میں کیا حرج ہے؟) اور اگر نہیں ہو تو اس مسئلہ کی نظیر ڈھونڈی جاتی ہے۔ جب نظیر مل جائے تو قواعد کے مطابق اس پر قیاس کر لیا جاتا ہے۔ اور اگر بالفرض نظیر بھی نہ ملے اور قواعد کی رو سے بھی حل نہ ہو تو اس مذہب کے اصولوں کے مطابق قرآن و حدیث سے استنباط کر لیا جاتا ہے۔
یہ سب کون کرتا ہے؟ یہ بحث ہے۔ آپ خلاصۃ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس میں جتنی صلاحیت ہوتی ہے وہ اتنا کام کرتا ہے۔
ایک عامی شخص کا کام یہ ہے کہ وہ فاسئلوا اہل الذکر کے مطابق علماء سے مسئلہ پوچھ لے اور عمل کر لے جیسا کہ صحابہ کرام وغیرہ کے بھی بہت سے مسائل بلا دلیل مصنف ابن ابی شیبہ میں ذکر ہیں اور دلائل کے ساتھ بھی موجود ہیں۔
(غالبا آپ نے یا کسی نے اس پر یہ اشکال کیا تھا کہ صاحب مصنف کا یہ طرز ہے کہ وہ پہلے احادیث ذکر کرتے ہیں اور پھر فتاوی تو فتاوی کے دلائل پہلے ذکر ہوتے ہیں۔
یہ اشکال درست نہیں کیوں مصنف کے اعتبار سے تو پہلے ذکر ہوتے ہیں لیکن سائل نے جو مسئلہ پوچھا تھا اور اس کا جو جواب دیا گیا وہاں یہ دلیل کے ساتھ جواب نہیں تھا۔)

کتنے ہی ایسے معاملات ہین احناف ان مسائل میں اپنے امام اور اپنے مسلک کا باٖڈر کراس کرکے دوسروں کی سر حد میں داخل ہو جاتے ہیں اگر فقہ حنفی ہی درست ہے اور تقلید کا راستہ ہی درست ہے تو پھر ادھر ادھر کیوں پھرتے ہو ایک جگہ میں ٹکے رہو
اس سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ احناف متعصب اور تقلید جامد کے قائل نہیں ہیں بلکہ حق کو دیکھتے ہیں۔ کیا خیال ہے بھائی؟
یہ ضرورت کے وقت اور بقدر ضرورت ہوتا ہے اور علماء کرام کی جماعت کرتی ہے عامی آدمی نہیں۔
مقلدین کا ہر فریق اپنے امام کو درست مع احتمال خطا اور دوسرے امام کو خطا پر مع احتمال درستگی سمجھتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے ایک امام کا موقف کمزور نظر آئے یا ناقابل عمل نظر آئے کسی خاص زمانے میں یا اس سے مفاسد کا خدشہ ہو تو دوسرے امام کے قول پر فتوی دیا جاتا ہے۔ یعنی اسے درست سمجھا جاتا ہے۔
حافظ صاحب ہم لوگ دلائل کے میدان میں ضرور ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں اور دلائل دیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوسرے کو باطل سمجھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہ حنفی احناف کی سمجھ ہے جو وہ قرآن و حدیث سے سمجھے ہیں اور ضروری نہیں کہ یہی صحیح ہو۔ ہو سکتا ہے شوافع یا حنابلہ صحیح سمجھ رہے ہوں۔ البتہ احناف اپنی سمجھ پر عمل کے مکلف ہیں۔

ایک چیز کے ہر امام کی مختلف راے ہے ایک چیز کو ایک امام کہتا ہی یہ جوتا ہے ایک کہتا ہے یہ پنکھا ہے ایک کہتا ہے یہ پنسل ہے ایک کہتا یہ کرسی ہے اس طرح تو یہ مزاق بن جاے گا
کیسا جاہلانہ اعتراض ہے یہ۔ یقینا یہ آپ نے نہیں کیا ہوگا۔ کسی بھی بدیہی یا واضح چیز میں کبھی اختلاف نہیں ہوتا۔ کیا آپ مجھے ایک بھی ایسا اختلاف دکھا سکتے ہیں؟ پھر تقلید کے منکر کیا کرتے ہیں۔ صرف یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں یہ مسہری ہے۔ پھر ہر ایک شخص اپنی نئی رائے نکال لاتا ہے۔ تو اس طرح تو اس مذاق میں اضافہ ہی ہوتا ہے کمی نہیں۔ بہتر نہیں کہ پچھلے مذاق تک ہی اکتفا کریں مزید بڑھائیں نہیں؟

اور جن مسالک کا آپ نام لے رہے ہیں یہ تو ایک دوسرے کے خلاف قتال کرتے رہے ہیں
کیا کسی مسلک میں بعض افراد کا غالی ہونا یا آپس میں لڑنا اس مسلک کے غلط ہونے کی نشانی ہوتی ہے؟ مجھے اس بات پر تعجب ہوتا ہے جب لوگ یہ اشکال کرتے ہیں اور مسلمانوں کی آپس کی جنگوں کو بھول جاتے ہیں۔ کتنی جنگیں مسلمانوں نے آپس میں لڑی ہیں۔ جنگ جمل، جنگ صفین، بنو عباس اور بنو امیہ کی چپقلش، بایزید یلدرم اور سلطان تیمور کی جنگ، ایوبی کی مسلمان حکمرانوں سے جنگیں، خوارزم شاہ اور خلیفہ بغداد کی خفیہ سازشیں۔ میں کتنی مثالیں دوں؟ اگر حق و باطل کا یہی معیار ہے تو مسالک کے غالی افراد کی آپس کی جنگیں اتنی نہیں ہوئی ہوں گی۔ پھر یہ اشکال کرنے والے اسلام کو خیرباد کیوں نہیں کہہ دیتے؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
نیٹ کے مسئلے کی وجہ سے اور دوسری پوسٹ میں مصروفیت کی وجہ سے دیر پر معذرت
یقینا
مطلق تقلید نہیں تقلید شخصی نہ کرنے کے دلائل۔
محترم بھائی میرے نزدیک خالی تقلید سے مراد تقلید شخصی ہی ہے پس میں اس پر دلائل دوں گا جب آپ کہیں گے ان شاءاللہ
باقی محترم بھائی میں نے آپ کی پہلی دلیل پر اعتراضات دو قسموں کو ذہن میں رکھ کے کیا تھا اور پھر جواب اس فرق کو ذہن میں رکھ کے ہی علیحدہ علیحدہ دیتا ہوں

1-خواہش نفس کی اتباع نہ کرنے والے مسلمان
محترم بھائی پہلی قسم کے بارے بات کرتے ہوئے ہم نے یہ اصول ذہن میں رکھنا ہے کہ یہ خواہش نفس کی اتباع نہیں کرتے
اب پہلی قسم کے بارے آپ نے اقرار کیا کہ
کل میں فتاوی رشیدیہ کا ایک اسکین دیکھ رہا تھا تو اس میں جو شخص ہوائے نفسانی سے بھی خالی ہو اور باعث فساد بھی نہ بنے تو اسے تقلید مطلق کی اجازت دی گئی تھی۔
آپ اگر ملاحظہ فرمانا چاہیں تو لنک یہ ہے۔ لنک
محترم بھائی میرے لئے اتنا ہی کافی ہے اور میرے نزدیک باقی باتیں غیر متعلقہ ہیں کیونکہ ان میں اس اصول کو ذہن میں نہیں رکھا گیا کہ وہ خواہش نفس کی اتباع نہیں کرتا

2-خواہش نفس کی اتباع کرنے والے مسلمان
اس پر آپ نے زیدہ کی مثال دی تھی تو میں نے کہا تھا کہ اس طرح تو یہ تقلید کرتے ہوئے بھی وہ بار بار امام تبدیل کر کے کر سکتی ہے تو اس پر آپنے وضاحت کی ہے کہ
ایک امام سے دوسرے امام کی تقلید میں اگر گئی تو پہلا نکاح ختم ہو جائے گا اور وہ پہلے شخص کے پاس واپس نہیں لوٹ سکے گی۔ یا عدالت پہلے نکاح کو ہی برقرار رکھے گی اور وہ دوسرا نکاح نہیں کر سکے گی۔ اسے یہ معاملہ عدالت میں حل کروانا پڑے گا۔
محترم بھائی اس مقلدہ کو عدالت میں لے جانا ہے تو تقلید مطلق والی کو بھی عدالت میں لے جائیں عدالت اسکا نکاح بھی باطل کر کے کسی ایک کے حوالے کر دے گی
دوسری بات یہ ہے کہ اگر عدالت اس مقلدہ عورت کا نکاح باطل بھی کر دے سوچنا یہ ہے کہ عدالت تو کسی ایک امام کے تقلید کو دیکھتے ہوئے اسکا نکاح باطل کرے گی بعد میں جب دوبارہ وہ مقلدہ عورت اسی شخص کے پاس سے برآمد ہو گئی تو وہ کہ دے گی کہ میں نے غلطی سے غلط امام کیا ہوا تھا اب میرا امام تبدیل ہے اسلئے عدالت اپنے پرانے فیصلے کے خلاف میرا پرانا نکاح بحال سمجھے

تقلید مطلق لازم کرنے کی صورت میں جب وہ دوسرے قول پر گئی اور پہلا نکاح باطل قرار دیا عدالت نے اور اس نے دوسرا یا تیسرا نکاح کر لیا اور پھر وہ پہلے امام کی تقلید پر واپس آگئی تو بھی دوسرا یا تیسرا نکاح باقی ہے باطل نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ پہلے امام کے نزدیک بھی درست ہے لہذا وہ پہلے شوہر کے پاس نیا نکاح کر کے بھی نہیں آ سکتی چہ جائیکہ بلا نکاح آ جائے۔
خلاصۃ یہ کہ تقلید مطلق میں نکاح اول باطل ہو جائے گا اور تقلید شخصی میں نہیں۔
واللہ اعلم
میں کہتا ہوں کہ تقلید شخصی میں اگر وہ عورت پہلے والے امام کی تقلید میں آتی ہے تو پہلے والے امام کے نذدیک بھی دوسرا اور تیسرا نکاح باطل ہو جائے گا کیونکہ جب اسکا پہلے نکاح کا باطل ہونا ہی غلط ہو جائے گا تو دوسرا یا تیسرا نکاح تو ویسے ہی نکاح پر نکاح کی حمت سے باطل ہو جائے گا محترم بھائی اللہ کو گواہ بنا کر کہیں کہ جو شریعت پر چلنا ہی نہیں چاہتا اسکو حلیے بنانے سے کون روک سکتا ہے

خلاصۃ یہ کہ تقلید مطلق میں نکاح اول باطل ہو جائے گا اور تقلید شخصی میں نہیں۔
اسکا غلط ہونا اوپر ثابت کر دیا ہے اور ویسے بھی یہ تو میں نے آپ کی مثال لی ہے جس میں آپ اشکال ظاہر کر رہے ہیں ورنہ میں کئی اور ایسی مثالیں بیان کر سکتا ہوں کہ جس میں مقلد یا مقلدہ اماموں کو تبدیل کر کے اپنا فائدہ نکال سکتی ہیں
ممکنہ بے راہروی کو روکنا
محترم بھائی یہ ساری باتیں تو آپ کے جوابات کے تحت تھیں اور ابھی تقلید کرنے کی عقلی خرابیاں تو میں بعد میں اپنے دلائل میں بتاؤں گا مگر ان سے ہٹ کر اوپر آپ کی ایک بات کے جواب میں (فساد کے ڈر سے تقلید کا واجب ہونا) کہنا چاہوں گا کہ جب اگر ہمیں کسی کے فساد میں گرنے کا خوف ہو تو کیا ہم اس پر اپنی مرضی سے فساد سے بچنے کا طریقہ بنا کر اس کے لئے واجب کر سکتے ہیں مثلا آج کل کے حالات میں دس سال کا لڑکا لڑکی کے خراب ہونے کے چانس ہوتے ہیں تو کیا ہم یہ لوگوں کے لئے واجب قرار دے سکتے ہیں کہ دس سال کے ہوتے ہی سب لڑکے لڑکیوں کی شادی کر دینی چاہئے وغیرہ وغیرہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
1-خواہش نفس کی اتباع نہ کرنے والے مسلمان
محترم بھائی پہلی قسم کے بارے بات کرتے ہوئے ہم نے یہ اصول ذہن میں رکھنا ہے کہ یہ خواہش نفس کی اتباع نہیں کرتے
اب پہلی قسم کے بارے آپ نے اقرار کیا کہ

محترم بھائی میرے لئے اتنا ہی کافی ہے اور میرے نزدیک باقی باتیں غیر متعلقہ ہیں کیونکہ ان میں اس اصول کو ذہن میں نہیں رکھا گیا کہ وہ خواہش نفس کی اتباع نہیں کرتا


میں نے یہ بھی عرض کیا کہ صرف بعض ایسے افراد کو دیکھ کر یا یہ کہہ کر کہ یہ مسئلہ صرف ان کے لیے ہے جو خواہش نفس کی اتباع نہیں کرتے ہم فتوی کیسے دے سکتے ہیں؟

محترم بھائی اس مقلدہ کو عدالت میں لے جانا ہے تو تقلید مطلق والی کو بھی عدالت میں لے جائیں عدالت اسکا نکاح بھی باطل کر کے کسی ایک کے حوالے کر دے گی
دیکھیں بھائی شریعت میں عدالت کو کلی اختیار نہیں ہوتا کہ جو چاہے کرے۔ (فقہ میں بحث کے وقت ہماری مراد شرعی عدالت ہوتی ہے۔)
اگر وہ امام تبدیل کرے گی تو عدالت کے سامنے دو صورتیں ہوں گی: یا تو پچھلے امام کے مطابق نکاح چوں کہ صحیح ہو گیا ہے اور گواہوں کا مسئلہ مجتہد فیہ مسئلہ ہے تو نکاح اول کو برقرار ہی رکھے۔
یا پھر موجودہ امام کے مطابق چوں کہ نکاح درست نہیں ہوا تھا اس لیے نکاح کو باطل قرار دے۔ یہ قاضی کی رائے پر موقوف ہے۔
لیکن قاضی جب ایک مرتبہ ایک فیصلہ کر دے تو اسے علتوں وغیرہ کے بدلنے سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حتی کہ ایک قاضی کا کیا ہوا فیصلہ اگر ادلہ قطعیہ کے خلاف نہ ہو تو دوسرا قاضی بھی باطل نہیں کرسکتا۔
لہذا اگر قاضی نے نکاح اول باطل قرار دیدیا تو اب وہ مسلک واپس تبدیل کرنے سے یہ فیصلہ نہیں تبدیل ہوگا۔ لہذا نکاح ثانی درست رہے گا۔

تقلید مطلق کی صورت میں تو اسے اجازت ہے کہ کسی وقت بھی کوئی بھی قول اختیار کرلے۔ قاضی باطل اس کے مسلک کی بنیاد پر کر رہا تھا۔ یہاں کس بنیاد پر کرے گا؟ وہ ابھی ایک قول کو اختیار کر کے بیٹھی ہے لیکن اگلے ہی منٹ میں دوسرا قول اختیار کر سکتی ہے اور چوں کہ ہم نے تقلید مطلق کی اجازت ہر غیر عالم کو بھی دے رکھی ہے اس لیے ہم اس سے قول کی تبدیلی پر دلائل بھی نہیں مانگ سکتے۔

یہ تو اس خاص مسئلہ میں فیصلہ ہوا۔
باقی اگرچہ مسلک کی تبدیلی کی اجازت ہے لیکن بار بار اس طرح مسلک بدلنے کی نہیں ورنہ تقلید مطلق اور تقلید شخصی میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟ جب وہ عدالت میں کہے گی کہ میں نے اپنا مسلک تبدیل کیا ہے تو عدالت معقول وجہ پوچھے گی۔ بغیر معقول وجہ کے ہمیشہ اجازت نہیں دی جا سکتی۔ امام طحاوی سے حنفی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا کہ میں اپنے ماموں مزنی رح کو ہمیشہ ابو حنیفہ رح کی کتب میں دیکھتے ہوئے دیکھتا تھا اس لیے میں اس مسلک کی طرف منتقل ہوگیا۔ (الطبقات السنیہ)
عدالت کسی شخص کی تبدیلی مسلک ایک بار مان لے گی، دو بار مان لے گی لیکن جب وہ مسلسل ایسا کرے گا بلا وجہ اور بلا دلیل تو قاضی اس پر پابندی لگا دیگا۔ کیوں؟؟؟ اس لیے کہ تقلید مطلق کی اجازت نہیں ہے اور بار بار مسلک تبدیل کرنا حقیقت میں تقلید مطلق ہی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر عدالت اس مقلدہ عورت کا نکاح باطل بھی کر دے سوچنا یہ ہے کہ عدالت تو کسی ایک امام کے تقلید کو دیکھتے ہوئے اسکا نکاح باطل کرے گی بعد میں جب دوبارہ وہ مقلدہ عورت اسی شخص کے پاس سے برآمد ہو گئی تو وہ کہ دے گی کہ میں نے غلطی سے غلط امام کیا ہوا تھا اب میرا امام تبدیل ہے اسلئے عدالت اپنے پرانے فیصلے کے خلاف میرا پرانا نکاح بحال سمجھے
اس کا جواب میں نے تفصیلا عرض کر دیا۔

میں کہتا ہوں کہ تقلید شخصی میں اگر وہ عورت پہلے والے امام کی تقلید میں آتی ہے تو پہلے والے امام کے نذدیک بھی دوسرا اور تیسرا نکاح باطل ہو جائے گا کیونکہ جب اسکا پہلے نکاح کا باطل ہونا ہی غلط ہو جائے گا تو دوسرا یا تیسرا نکاح تو ویسے ہی نکاح پر نکاح کی حمت سے باطل ہو جائے گا محترم بھائی اللہ کو گواہ بنا کر کہیں کہ جو شریعت پر چلنا ہی نہیں چاہتا اسکو حلیے بنانے سے کون روک سکتا ہے
اس کا جواب عرض کر دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ چار مسالک جو مشہور ہوئے اور ان کے علاوہ کسی مسلک کی تقلید نہیں ہوئی تو یہ بلا وجہ نہیں ہے۔ بلکہ ان مسالک کے فقہاء نے ہر مسئلہ کو ممکنہ حد تک حل کیا ہے۔ میں اگر یہ کہوں کہ اصول بنانے والے ائمہ اربعہ پر خدا کی خصوصی عنایت تھی جنہوں نے ایسے مضبوط اصول بنائے کہ وہ ہر مسئلے کو حل کرتے ہیں تو یہ بیجا نہ ہوگا۔

ویسے بھی یہ تو میں نے آپ کی مثال لی ہے جس میں آپ اشکال ظاہر کر رہے ہیں ورنہ میں کئی اور ایسی مثالیں بیان کر سکتا ہوں کہ جس میں مقلد یا مقلدہ اماموں کو تبدیل کر کے اپنا فائدہ نکال سکتی ہیں
جواب اوپر ہے۔

ممکنہ بے راہروی کو روکنا
محترم بھائی یہ ساری باتیں تو آپ کے جوابات کے تحت تھیں اور ابھی تقلید کرنے کی عقلی خرابیاں تو میں بعد میں اپنے دلائل میں بتاؤں گا مگر ان سے ہٹ کر اوپر آپ کی ایک بات کے جواب میں (فساد کے ڈر سے تقلید کا واجب ہونا) کہنا چاہوں گا کہ جب اگر ہمیں کسی کے فساد میں گرنے کا خوف ہو تو کیا ہم اس پر اپنی مرضی سے فساد سے بچنے کا طریقہ بنا کر اس کے لئے واجب کر سکتے ہیں مثلا آج کل کے حالات میں دس سال کا لڑکا لڑکی کے خراب ہونے کے چانس ہوتے ہیں تو کیا ہم یہ لوگوں کے لئے واجب قرار دے سکتے ہیں کہ دس سال کے ہوتے ہی سب لڑکے لڑکیوں کی شادی کر دینی چاہئے وغیرہ وغیرہ

یہ بات آپ کی واقعی قابل غور ہے۔ ہم لوگوں کے لیے یہ واجب قرار نہیں دے سکتے۔
لیکن دونوں میں فرق سمجھیے۔ تقلید شخصی کی ابتدا بقول شاہ ولی اللہ رح دوسری صدی ہجری میں شروع ہو گئی تھی اور چوتھی صدی میں لوگوں نے تقلید شخصی باقاعدہ شروع کر دی تھی۔ شاہ صاحب رح کے قول سے ہٹ کر ہم دیکھیں تو بھی یہ نظر آتا ہے۔
ہم ایک ایسی چیز کو واجب قرار دے رہے ہیں جس پر مسلمان جمع ہیں سوائے چند لوگوں کے۔
اگر لوگ پہلے سے جمع ہوں دس سال کے لڑکے لڑکیوں کی شادی کر دینے پر اور خال خال کوئی نہ کرتا ہو اور پھر فتنے کا خوف ہو تو شاید ہم اسے واجب قرار دے سکتے ہیں۔ پھر یہ ایسا فساد ہے جو صرف ایک جہت سے ہے اور اس کا سد باب دیگر طریقوں سے بآسانی ممکن ہے جیسا کہ لڑکوں کو نگرانی میں رکھنے سے وغیرہ۔ جبکہ تقلید مطلق میں بہت سی جہات سے فساد آتا ہے۔ بہت سے مسائل میں فساد آ تا ہے۔
واللہ اعلم
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میں نے یہ بھی عرض کیا کہ صرف بعض ایسے افراد کو دیکھ کر یا یہ کہہ کر کہ یہ مسئلہ صرف ان کے لیے ہے جو خواہش نفس کی اتباع نہیں کرتے ہم فتوی کیسے دے سکتے ہیں؟
یہاں فتوی دینے سے پہلے فتوی کے لئے جس چیز کو علت بنایا جا رہا ہے اسکی بات ہو رہی ہے دیکھیں کہ تقلید کے واجب ہونے کی آپ کی پہلی دلیل ہی یہ تھی کہ خواہشات کی پیروی سے بچا جا سکے تو محترم بھائی لامحالہ میں نے جب رد کرنا تھا تو میں نے صرف اس انسان کو لینا تھا جو خواہش کی پیروی کرتا ہو کیونکہ فتوی میں علت ہی اسکو بنایا گیا ہے اور میں ابھی فتوی کا رد کر رہا ہوں
بعد میں جب علت خواہشات کی پیروی نہیں ہو گی تو میں پھر مسلمانوں کی اس طرح تقسیم بھی نہیں کروں گا اشکال بتانے پر اللہ آپ کو جزا دے امین

دیکھیں بھائی شریعت میں عدالت کو کلی اختیار نہیں ہوتا کہ جو چاہے کرے۔ (فقہ میں بحث کے وقت ہماری مراد شرعی عدالت ہوتی ہے۔)
اگر وہ امام تبدیل کرے گی تو عدالت کے سامنے دو صورتیں ہوں گی: یا تو پچھلے امام کے مطابق نکاح چوں کہ صحیح ہو گیا ہے اور گواہوں کا مسئلہ مجتہد فیہ مسئلہ ہے تو نکاح اول کو برقرار ہی رکھے۔
یا پھر موجودہ امام کے مطابق چوں کہ نکاح درست نہیں ہوا تھا اس لیے نکاح کو باطل قرار دے۔ یہ قاضی کی رائے پر موقوف ہے۔
لیکن قاضی جب ایک مرتبہ ایک فیصلہ کر دے تو اسے علتوں وغیرہ کے بدلنے سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حتی کہ ایک قاضی کا کیا ہوا فیصلہ اگر ادلہ قطعیہ کے خلاف نہ ہو تو دوسرا قاضی بھی باطل نہیں کرسکتا۔
لہذا اگر قاضی نے نکاح اول باطل قرار دیدیا تو اب وہ مسلک واپس تبدیل کرنے سے یہ فیصلہ نہیں تبدیل ہوگا۔ لہذا نکاح ثانی درست رہے گا۔
محترم بھائی میں یہاں رد اپنے اصولوں سے نہیں کر رہا بلکہ آپ کی بات کا تضاد ہی پیش کر رہا ہوں
آپ نے اوپر کہا کہ قاضی ایک دفعہ فیصلہ کے بعد تبدیل نہیں کرے گا چاہے وہ امام بھی تبدیل کر لے
اس پر میرا سوال یہ ہے کہ ایک شرعی قاضی فیصلہ کس شریعت کی بنیاد پر کرے گا اس سوال کو مقلدہ اور غیر مقلدی کے پس منظر میں علیحدہ علیحدہ ذرا دیکھتے ہیں
1-غیر مقلدہ کا فیصلہ اگر قاضی اسکے پسند کے قول پر کرے گا اور قول بدلنے پر وہ نئے قول کے مطابق فیصلہ کرے گا-تو اس صورت میں پھر قاضی کو لازم ہے کہ مقلدہ عورت کا فیصلہ اسکے پسند کے امام کے مطابق کرے اور امام بدلنے پر فیصلہ نئے امام کے قول کے مطابق کرے

2-غیر مقلدہ کا فیصلہ اگر قاضی ایک دفعہ پسند کے قول کے مطابق کے گا اور قول بدلنے پر وہ اپنے فیصلے کو نہیں بدلے گا تو پھر مقلدہ کی صورت میں بھی اسکو ایک دفعہ اسکے پسند کے امام کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا پھر امام بدلنے پر بھی وہ اپنے فیصلے کو برقرار رکھے گا پس آپ کا نیچے والا قول ٹھیک نہیں

تقلید مطلق کی صورت میں تو اسے اجازت ہے کہ کسی وقت بھی کوئی بھی قول اختیار کرلے۔ قاضی باطل اس کے مسلک کی بنیاد پر کر رہا تھا۔ یہاں کس بنیاد پر کرے گا؟ وہ ابھی ایک قول کو اختیار کر کے بیٹھی ہے لیکن اگلے ہی منٹ میں دوسرا قول اختیار کر سکتی ہے اور چوں کہ ہم نے تقلید مطلق کی اجازت ہر غیر عالم کو بھی دے رکھی ہے اس لیے ہم اس سے قول کی تبدیلی پر دلائل بھی نہیں مانگ سکتے۔
یہ تو اس خاص مسئلہ میں فیصلہ ہوا۔
یعنی خود ہی کہ دیا کہ تقلید مطلق کی صورت میں اسے اجازت ہے محترم بھائی ذرا یہ تو بتا دیں کہ کہیں یہ اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کے تحت تو نہیں آ جائے گا یعنی ہمارے لئے تو قاضی کو کلی اختیار نہیں لیکن آپ کو خواہش سے بچانے کے لئے قاضی کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں جیسے صدر ذرداری کو استثنی حاصل تھی

باقی اگرچہ مسلک کی تبدیلی کی اجازت ہے لیکن بار بار اس طرح مسلک بدلنے کی نہیں ورنہ تقلید مطلق اور تقلید شخصی میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟
دیکھیں محترم بھائی مجھے آپ کی یہ بات انصاف کے مطابق نہیں لگی دیکھیں امام بدلنے یا قول بدلنے کے پیچھے دو طرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں
1-ایک ٹھوس دلیل
2-خواہش نفس
پس آپ تقلید شخصی میں امام بدلیں یا تقلید مطلق میں قول بدلیں اگر تو اس کے پیچھے ٹھوس دلیل موجود ہے تو پھر ایک دفعہ بدلنے کا جو حکم ہو گا دو دفعہ بدلنے کا بھی وہی حکم ہو گا
اور اگر اسکے پیچھے خواہش نفس ہے تو آپ ایک دفعہ بھی بدلیں گے تو جائز نہیں ہو گا
پس محترم بھائی اس میں تقلید مطلق اور تقلید شخصی کا کوئی کمال نہیں بلکہ اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ بدلنے کی وجہ کیا ہے

عدالت کسی شخص کی تبدیلی مسلک ایک بار مان لے گی، دو بار مان لے گی لیکن جب وہ مسلسل ایسا کرے گا بلا وجہ اور بلا دلیل تو قاضی اس پر پابندی لگا دیگا۔ کیوں؟؟؟ اس لیے کہ تقلید مطلق کی اجازت نہیں ہے اور بار بار مسلک تبدیل کرنا حقیقت میں تقلید مطلق ہی ہے۔
محترم بھائی یہاں بھی مجھے طرف داری واضح نظر آ رہی ہے کہ تقلید مطلق والی عورت کو تو قاضی کھلی چھوٹ دے دے گا کہ جب دل چاہے بدل لو مگر تقلید شخصی والے سے وجہ پوچھے گا تو محترم بھائی میرا سوال ہے کہ اگر وجہ پوچھنا قاضی کا شرعی فریضہ ہے تو قاضی کیا پاکستانی قانون پڑھا ہو گا کہ کسی کو استثنی دے گا اور کسی سے وجہ پوچھ لے گا

اس کا جواب عرض کر دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ چار مسالک جو مشہور ہوئے اور ان کے علاوہ کسی مسلک کی تقلید نہیں ہوئی تو یہ بلا وجہ نہیں ہے۔ بلکہ ان مسالک کے فقہاء نے ہر مسئلہ کو ممکنہ حد تک حل کیا ہے۔ میں اگر یہ کہوں کہ اصول بنانے والے ائمہ اربعہ پر خدا کی خصوصی عنایت تھی جنہوں نے ایسے مضبوط اصول بنائے کہ وہ ہر مسئلے کو حل کرتے ہیں تو یہ بیجا نہ ہوگا۔
محترم بھائی اگر کوئی غیر مسلم آپ سے سوال کر دے کہ اللہ نے ہمارے آزمانے کے لئے ہی دنیا بنائی ہے تو اسکی دو صورتیں ہو سکتی تھیں
1-اللہ تعالی علم سیدھا راستہ بالکل واضح بیان کر دیتا اور آزماہش صرف عمل میں ہوتی
2-اللہ تعالی علم کی تلاش اور عمل دونوں کو آزمائش ہمارے لئے بناتا

اب اگر آپ پہلی بات کو لیتے ہیں تو پھر تو علم واضح بیان کرنے کے لئے اللہ اپنا کرم (جو آپ کے نزدیک چار اماموں پر ہوا ہے) وہ اپنے نبی پر ہی کیوں نہ کر دیتا جو سب سے محبوب نبی ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اماموں میں کوئی اتنا خاص فاصلہ بھی نہیں کہ اتنے عرصے کے لئے علم چھپا کے رکھنا تھا
اور دوسری صورت میں پھر ہمیں آج بھی محنت ہی کرنی ہو گی حلوہ کی طرح کھانا نہیں ہو گا

یہ بات آپ کی واقعی قابل غور ہے۔ ہم لوگوں کے لیے یہ واجب قرار نہیں دے سکتے۔
لیکن دونوں میں فرق سمجھیے۔
ہم ایک ایسی چیز کو واجب قرار دے رہے ہیں جس پر مسلمان جمع ہیں سوائے چند لوگوں کے۔
اگر لوگ پہلے سے جمع ہوں دس سال کے لڑکے لڑکیوں کی شادی کر دینے پر اور خال خال کوئی نہ کرتا ہو اور پھر فتنے کا خوف ہو تو شاید ہم اسے واجب قرار دے سکتے ہیں۔
میرا سوال یہ تھا کہ اگر واقعی فساد کو اس طرح روکنا ہمارے سلف کا کام ہوتا یا یہ شرعی طریقہ ہوتا تو میں تو ایک مثال دی ہے اور ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں پھر انہوں نے ہر اس طرح کے کام پر اجماع کیا ہوتا (قطع نظر اس اجماع کی حقیقت کے)

پھر یہ ایسا فساد ہے جو صرف ایک جہت سے ہے اور اس کا سد باب دیگر طریقوں سے بآسانی ممکن ہے جیسا کہ لڑکوں کو نگرانی میں رکھنے سے وغیرہ۔ جبکہ تقلید مطلق میں بہت سی جہات سے فساد آتا ہے۔ بہت سے مسائل میں فساد آ تا ہے۔
واللہ اعلم
محترم بھائی ابھی تو آپ کی ایک ہی جہت سے تقلید نہ کرنے پر رد چل رہا ہے جب اور جہتیں بیان کریں گے تو میں بھی نکاح نہ کرنے کی اور خرابیاں بیان کر دوں گا اور لڑکوں کو جہاں تک نگرانی میں رکھنے کا کام ہے تو بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ جن مولویوں کی نگرانی میں ان لڑکوں کو رکھا گیا تو کہیں کوئی نئی جہت سے حملہ نہ ہو جائے کیوں کہ آپ کے نظریہ میں تو ہر کوئی خواہشات کا پیروکار ہی ہے اور ہم نے تمام مسئلے ان کے لئے بنانے ہیں تو پھر تو کسی کو روکنا ممکن ہی نہیں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم بھائی میں یہاں رد اپنے اصولوں سے نہیں کر رہا بلکہ آپ کی بات کا تضاد ہی پیش کر رہا ہوں
آپ نے اوپر کہا کہ قاضی ایک دفعہ فیصلہ کے بعد تبدیل نہیں کرے گا چاہے وہ امام بھی تبدیل کر لے


میں نے کہا تھا:۔
لیکن قاضی جب ایک مرتبہ ایک فیصلہ کر دے تو اسے علتوں وغیرہ کے بدلنے سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حتی کہ ایک قاضی کا کیا ہوا فیصلہ اگر ادلہ قطعیہ کے خلاف نہ ہو تو دوسرا قاضی بھی باطل نہیں کرسکتا۔
اس کو نوٹ رکھیے گا کیوں کہ دونوں باتوں میں فرق ہے جس کا ابھی کی بحث سے تعلق نہیں۔

اس پر میرا سوال یہ ہے کہ ایک شرعی قاضی فیصلہ کس شریعت کی بنیاد پر کرے گا اس سوال کو مقلدہ اور غیر مقلدی کے پس منظر میں علیحدہ علیحدہ ذرا دیکھتے ہیں
1-غیر مقلدہ کا فیصلہ اگر قاضی اسکے پسند کے قول پر کرے گا اور قول بدلنے پر وہ نئے قول کے مطابق فیصلہ کرے گا-تو اس صورت میں پھر قاضی کو لازم ہے کہ مقلدہ عورت کا فیصلہ اسکے پسند کے امام کے مطابق کرے اور امام بدلنے پر فیصلہ نئے امام کے قول کے مطابق کرے

یہاں میں یہی سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ کسی شخص کو تقلید مطلق کی اجازت دینے کا مطلب ہے اس کے لیے تمام اقوال برابر ہیں اور وہ کسی وقت بھی کسی کو پسند اور کسی کو نا پسند کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ناپسند قول پر عمل بھی کرسکتا ہے۔ کیا میں درست ہوں؟
مزید یہ کہ اگر وہ غیر عالم ہے تو دلائل تو اس کے سر پر سے گزر جائیں گے لہذا صرف دل کے فیصلے سے وہ کسی بھی قول پر چل سکتا ہے۔ یہ درست ہے؟

میں کہنا چاہتا ہوں کہ قاضی غیر مقلدہ کا فیصلہ ہی نہیں کرسکتا۔ فیصلہ جاری شدہ متفقہ فتوی کے مطابق ہوتا ہے اور وہ اس کو تقلید مطلق کی اجازت کا فتوی ہے۔ (اگرچہ فیصلہ قاضی کے مسلک کے مطابق بھی ہوتا ہے لیکن اس کا ہماری بحث سے تعلق نہیں۔) اب قاضی اس عورت کو دیکھے گا کہ یہ عورت تقلید مطلق کرتی ہے۔ اسے پسند فلاں قول ہے لیکن اس کی تقلید اس پر لازم نہیں اور وہ کسی وقت بھی دوسرے کسی قول کو پسند کر کے یا ناپسند کیے اس پر عمل کرسکتی ہے۔ قاضی کس قول کے مطابق فیصلہ کرے گا؟ کسی بھی نہیں ظاہر ہے۔ نکاح تو وہ تب باطل کر سکتا ہے یا باقی رکھ سکتا ہے جب مدعی علیہ کسی قول کا التزام تو کرے تاکہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ عورت کہہ رہی ہے قاضی صاحب آج کل مجھے فلاں قول اچھا لگ رہا ہے لیکن میں کسی اور پر بھی عمل کر سکتی ہوں۔ وہ مقدمہ خارج کر دے گا اور کہے گا کہ عورت کو اس کی مرضی کے مطابق کسی وقت بھی کسی قول کو اختیار کرنے کا حق ہے اسے چھوڑ دو۔
اگر میں غلط ہوں تو اصلاح فرمائیں۔

یعنی خود ہی کہ دیا کہ تقلید مطلق کی صورت میں اسے اجازت ہے محترم بھائی ذرا یہ تو بتا دیں کہ کہیں یہ اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کے تحت تو نہیں آ جائے گا یعنی ہمارے لئے تو قاضی کو کلی اختیار نہیں لیکن آپ کو خواہش سے بچانے کے لئے قاضی کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں جیسے صدر ذرداری کو استثنی حاصل تھی
میں نے کہا تھا:۔
تقلید مطلق کی صورت میں تو اسے اجازت ہے کہ کسی وقت بھی کوئی بھی قول اختیار کرلے۔
تقلید مطلق کی صورت میں اسے یعنی عورت کو اختیار ہے۔ اب میری پوسٹ دوبارہ پڑھیے اور ابھی جو اوپر لکھا ہے اسے بھی ملاحظہ فرمائیے۔

دیکھیں محترم بھائی مجھے آپ کی یہ بات انصاف کے مطابق نہیں لگی دیکھیں امام بدلنے یا قول بدلنے کے پیچھے دو طرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں
1-ایک ٹھوس دلیل
2-خواہش نفس
پس آپ تقلید شخصی میں امام بدلیں یا تقلید مطلق میں قول بدلیں اگر تو اس کے پیچھے ٹھوس دلیل موجود ہے تو پھر ایک دفعہ بدلنے کا جو حکم ہو گا دو دفعہ بدلنے کا بھی وہی حکم ہو گا
اور اگر اسکے پیچھے خواہش نفس ہے تو آپ ایک دفعہ بھی بدلیں گے تو جائز نہیں ہو گا
پس محترم بھائی اس میں تقلید مطلق اور تقلید شخصی کا کوئی کمال نہیں بلکہ اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ بدلنے کی وجہ کیا ہے

صورت سمجھیے نا۔
تقلید مطلق کی صورت میں مطلق اختیار ہے۔ کوئی قول لازم نہیں۔
تقلید شخصی کی صورت میں جس مسلک پر ہے اس وقت اس مسلک کے قول کا التزام کیا ہوا ہے۔ بار بار جب بدلے گا تو پوچھا جائے گا بھائی کیا وجہ ہے جو بار بار مسلک کی تبدیلی کی جا رہی ہے؟ اگر وجہ خواہش نفس ظاہر ہوگی یا نفسیاتی پرابلم تو پابندی لگا دی جائے گی کہ آرام سے ایک ہی پر چپکے بیٹھو۔ کیوں کہ اگر یہ اجازت دے دیں کہ جس وقت جو مسلک دل چاہے اختیار کر لے تو اس میں اور جس وقت جو قول چاہے اختیار کر لے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
تقلید مطلق کی صورت میں کوئی قول لازم ہی نہیں ہے تو بدلنے کا مطلب ہی کوئی نہیں ہے۔ اس کو پہلے ہی اختیار دیا ہوا ہے کوئی بھی قول اختیار کرو۔
ہاں ایک صورت ہے۔ وہ یہ کہ اسے کہیں کہ جو قول پسند ہے وہ لازم ہے تم پر کم از کم فی الحال۔ تو یہ تقلید شخصی ہی ہے اگرچہ وقتی طور پر۔ اس صورت میں تو ظاہر ہے فیصلہ تقلید شخصی والا ہی نکلے گا۔ اگر یہ صورت اختیار کرتے ہیں تو بتائیں۔

محترم بھائی یہاں بھی مجھے طرف داری واضح نظر آ رہی ہے کہ تقلید مطلق والی عورت کو تو قاضی کھلی چھوٹ دے دے گا کہ جب دل چاہے بدل لو مگر تقلید شخصی والے سے وجہ پوچھے گا تو محترم بھائی میرا سوال ہے کہ اگر وجہ پوچھنا قاضی کا شرعی فریضہ ہے تو قاضی کیا پاکستانی قانون پڑھا ہو گا کہ کسی کو استثنی دے گا اور کسی سے وجہ پوچھ لے گا
میں نے تفصیل لکھی نا۔

محترم بھائی اگر کوئی غیر مسلم آپ سے سوال کر دے کہ اللہ نے ہمارے آزمانے کے لئے ہی دنیا بنائی ہے تو اسکی دو صورتیں ہو سکتی تھیں
1-اللہ تعالی علم سیدھا راستہ بالکل واضح بیان کر دیتا اور آزماہش صرف عمل میں ہوتی
2-اللہ تعالی علم کی تلاش اور عمل دونوں کو آزمائش ہمارے لئے بناتا

برسوں سے لوگ تمام مسالک میں مسلمان ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ سوال نہیں پوچھتے۔
ہر کسی کی آزمائش اس کی حد تک ہوتی ہے۔ عامی کو کہا ہے فاسئلوا اہل الذکر۔ وہ پوچھے گا۔ کسی ایک مسلک کو اختیار کرلے گا تو مختلف اقوال کے بارے میں سرگرداں نہیں رہے گا۔
اور اگر علم حاصل کرتا جائے گا تو اس کی آزمائش بھی بڑھتی جائے گی۔ اسے پڑھنا اور تحقیق کرنا پڑے گا۔ دوسروں کے مسائل سمجھنا اور حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ اور جب علم میں کامل ہو جائے گا تو آزمائش آئے گی کہ متشابہات کو بے چوں و چرا مان لو۔ ان کی قطعی تفصیل نہ ڈھونڈو۔

میرے پیارے بھائی آپ بتائیں اگر غیر مسلم آپ سے کہے کہ تمہارے ایک مسئلہ میں آٹھ اقوال بھی ہیں۔ میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے تو عربی پڑھنا بھی نہیں آتی۔ میرے نزدیک تو سارے برابر ہیں۔ میں ایک کو ترجیح کیسے دوں اختیار کرنے کے لیے؟
یا کہے کہ اللہ نے ہمارے آزمانے کے لیے ہی دنیا بنائی ہے تو مندرجہ بالا دو صورتیں ہو سکتی تھیں۔ پھر یہ متشابہات اتار کر اور مسئلہ تقدیر اتار کر اپنے دین کو مبہم کیوں بنا دیا؟

اس طرح تو بے شمار سوالات ممکن ہیں اور ان کے جوابات بھی۔ لیکن یہ سوالات علمی ابحاث میں لانے کے نہیں ہیں۔

میرا سوال یہ تھا کہ اگر واقعی فساد کو اس طرح روکنا ہمارے سلف کا کام ہوتا یا یہ شرعی طریقہ ہوتا تو میں تو ایک مثال دی ہے اور ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں پھر انہوں نے ہر اس طرح کے کام پر اجماع کیا ہوتا (قطع نظر اس اجماع کی حقیقت کے)
کسی چیز پر حکم مختلف دلائل کی روشنی میں دیا جاتا ہے صرف ایک عقلی دلیل کے ذریعے نہیں۔ میں جو وجہ بیان کی ہے وہ نفی کی ہے کہ باقیوں میں اور اس میں اس وجہ سے فرق ہے۔ اس لیے باقیوں پر اسے قیاس کرنا درست نہیں۔
جب اس پر وجوب کا حکم لگایا جائے گا تو مختلف دلائل کو دیکھا جائے گا۔
جیسے یہ ایک دلیل ہے جس پر بحث ہو رہی ہے۔ دوسری دلیل عدم القائل بالفصل ہے وغیرہ وغیرہ۔


دریں اثناء کہ میں اس پوسٹ کو تحریر کر رہا تھا کسی خیال کے تحت شاملہ میں فتاوی الکبری لابن تیمیہ کھولا اور ذرا سا آگے بڑھا تو ایک مکمل بحث کھل گئی۔ اگلی پوسٹ میں پیش کرتا ہوں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس بحث میں امام ابن تیمیہ رح نے شیخ نجم الدین ابن حمدان کی ایک عبارت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس عبارت سے دو مرادیں ہو سکتی ہیں پھر دونوں صورتوں میں مسئلہ بیان کیا ہے۔
أحدهما: أن من التزم مذهبا معينا ثم فعل خلافه من غير تقليد لعالم آخر أفتاه ولا استدلال بدليل يقتضي خلاف ذلك، ومن غير عذر شرعي يبيح له فعله.
فإنه يكون متبعا لهواه وعاملا بغير اجتهاد ولا تقليد فاعلا للتحريم بغير عذر شرعي وهذا منكر.

عبدہ بھائی آپ تو ترجمہ کر سکتے ہیں لیکن دیگر بھائیوں کے لیے ترجمہ کر دیتا ہوں:
"ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس شخص نے کسی معین مذہب کو لازم کر لیا پھر وہ اس کے خلاف کرے بغیر کسی دوسرے عالم کی تقلید کے جس نے اسے فتوی دیا ہو اور بغیر کسی دلیل سے استدلال کے جو اس کے خلاف کا تقاضا کرے اور بغیر کسی عذر شرعی کے جو اس کے لیے اس فعل کو مباح کرے تو وہ اپنی خواہش کا پیروکار اور بغیر اجتہاد اور تقلید کے عامل (اور) حرام کام بغیر عذر شرعی کے کرنے والا ہوگا اور یہ غلط ہے۔"
آگے دوسری مراد پر تفصیلی بحث ہے:۔


وهو أن من التزم مذهبا لم يكن له أن ينتقل عنه، قاله بعض أصحاب أحمد وكذلك غير هذا ما يذكره ابن حمدان وغيره يكون مما قاله بعض أصحابه وإن لم يكن منصوصا عنه، وكذلك ما يوجد في كتب أصحاب الشافعي ومالك وأبي حنيفة كثير منه يكون مما ذكره بعض أصحابهم وليس منصوصا عنهم، بل قد يكون خلاف ذلك.

وأصل هذه المسألة أن العامي هل عليه أن يلتزم مذهبا معينا يأخذ بعزائمه ورخصه. فيه وجهان لأصحاب أحمد، وهما وجهان لأصحاب الشافعي، والجمهور من هؤلاء وهؤلاء لا يوجبون ذلك، والذين أوجبوه يقولون إذا التزمه لم يكن له أن يخرج عنه ما دام ملتزما له أو ما لم يتبين له أن غيره أولى بالالتزام منه.

"اور وہ یہ ہے کہ جس نے کسی مذہب کا التزام کر لیا اس کے لیے اس سے منتقل ہونا درست نہیں" (یہ تمام ائمہ سے منقول ہے اگرچہ منصوص نہیں بلکہ کبھی اس کے خلاف بھی منصوص ہے۔)
"" کے درمیان عبارت کا ترجمہ ہے اور () کے درمیان غیر ترجمہ کی ہوئی بعض عبارت کا خلاصہ۔

(اس مسئلہ کی بنیاد اس پر ہے کہ عامی مذہب معین تمام مسائل کے ساتھ لازما اختیار کرے گا؟ تمام علماء کی دونوں رائے ہیں جمہور اس طرف ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جو اسے لازم قرار نہیں دیتے) "اور جو لازم قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب التزام کر لیا تو اس کے لیے اس سے نکلنا درست نہیں ہے جب تک اس مذہب کو تھامے ہوئے ہے یا جب تک اس کے لیے واضح نہیں ہو جاتا کہ اس کے علاوہ مذہب التزام کے لیے اس سے اولی ہے۔"
یعنی تقلید مطلق بلا علم و دلیل کی اجازت نہیں ہے۔

پھر آگے بحث ہے کہ اگر دنیوی کسی غرض سے مذہب کی تبدیلی کر رہا ہے تو درست نہیں اور اگر دینی غرض سے کر رہا ہے تو درست ہے۔
ولا ريب أن التزام المذاهب والخروج عنها إن كان لغير أمر ديني مثل أن يلتزم مذهبا لحصول غرض دنيوي من مال أو جاه ونحو ذلك فهذا مما لا يحمد عليه بل يذم عليه في نفس الأمر ولو كان ما انتقل إليه خيرا مما انتقل عنه وهو بمنزلة من يسلم لا يسلم إلا لغرض دنيوي أو يهاجر من مكة إلى المدينة لامرأة يتزوجها أو دنيا يصيبها.
وقد كان في زمن النبي - صلى الله عليه وسلم - رجل هاجر إلى امرأة يقال لها أم قيس فكان يقال له مهاجر أم قيس، فقال النبي - صلى الله عليه وسلم - على المنبر في الحديث الصحيح: «إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه» .
وأما إن كان انتقاله من مذهب إلى مذهب لأمر ديني، مثل أن يتبين له رجحان قول على قول فرجع إلى القول الذي يرى أنه أقرب إلى الله ورسوله فهو مثاب على ذلك، بل واجب على كل أحد إذا تبين له حكم الله ورسوله في أمر أن لا يعدل ولا يتبع أحدا في مخالفة حكم الله ورسوله، فإن الله فرض طاعة رسوله - صلى الله عليه وسلم - على كل أحد في كل حال، فقال تعالى: {فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما} [النساء: 65] وقال تعالى: {قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم} [آل عمران: 31] وقال تعالى: {وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا أن يكون لهم الخيرة من أمرهم} [الأحزاب: 36] . وقد صنف الإمام أحمد كتابا في طاعة الرسول - صلى الله عليه وسلم - وهذا متفق عليه بين أئمة المسلمين.


فطاعة الله ورسوله، وتحليل ما أحله الله ورسوله، وتحريم ما حرمه الله ورسوله، وإيجاب ما أوجبه الله ورسوله واجب على جميع الثقلين الإنس والجن واجب على كل أحد في كل حال سرا وعلانية، لكن لما كان من الأحكام ما لا يعرفه كثير من الناس رجع الناس في ذلك إلى من يعلمهم ذلك، لأنه أعلم بما قال الرسول وأعلم بمراده.
فأئمة المسلمين الذين اتبعوهم وسائل وطرق وأدلة بين الناس وبين الرسول يبلغونهم ما قاله ويفهمونهم مراده بحسب اجتهادهم واستطاعتهم وقد يخص الله هذا العالم من العلم والفهم ما ليس عند الآخر.
وقد يكون عند ذلك في مسألة أخرى من العلم ما ليس عند هذا، وقد قال تعالى: {وداود وسليمان إذ يحكمان في الحرث إذ نفشت فيه غنم القوم وكنا لحكمهم شاهدين} [الأنبياء: 78] {ففهمناها سليمان وكلا آتينا حكما وعلما} [الأنبياء: 79] .
فهذان نبيان كريمان حكما في قضية واحدة فخص الله أحدهما بالفهم وأثنى على كل منهما «والعلماء ورثة الأنبياء» واجتهاد العلماء في الأحكام كاجتهاد المستدلين على جهة الكعبة، فإذا كان أربعة أنفس يصلي كل واحد بطائفة إلى أربع جهات لاعتقادهم أن الكعبة هناك، فإن صلاة الأربعة صحيحة، والذي صلى إلى جهة الكعبة واحد وهو المصيب الذي له أجران، كما في الصحيح، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران وإن اجتهد فأخطأ فله أجر» .

(اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت لازم ہے) "لیکن جب بعض احکام ایسے ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے تو وہ اس کی طرف لوٹیں گے ان میں جو انہیں یہ احکام سکھاتا ہے اس لیے کہ وہ زیادہ جانتا ہے کہ جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اور ان کی مراد کو بھی زیادہ جانتا ہے"
یعنی غیر اہل علم تقلید کرے گا۔ اور تقلید بھی وہ جس میں وہ اپنے امام یا عالم کو مسئلہ کو زیادہ جاننے والا مانے گا۔

"تو مسلمانوں کے امام جن کی وہ اتباع کرتے ہیں لوگوں اور رسول اللہ ص کے درمیان وسیلے اور راستے اور دلیلیں ہیں وہ انہیں آپ کا فرمان پہنچاتے ہیں اور اپنے اجتہاد اور استطاعت کے مطابق آپ ص کی مراد سمجھاتے ہیں۔ اور اللہ نے اس عالم کو اس علم و فہم میں خاص کیا ہے جو دوسرے میں نہیں ہے۔"
ائمہ کی اتباع عامی پر لازم ہے۔

وأكثر الناس إنما التزموا المذاهب بل الأديان بحكم ما تبين لهم فإن الإنسان ينشأ على دين أبيه أو سيده أو أهل بلده كما يتبع الطفل في الدين أبويه وسادته وأهل بلده، ثم إذا بلغ الرجل فعليه أن يلتزم طاعة الله ورسوله، حيث كانت ولا يكون ممن إذا قيل لهم: اتبعوا ما أنزل الله، قالوا: بل نتبع ما ألفينا عليه آباءنا، فكل من عدل عن اتباع الكتاب والسنة وطاعة الله ورسوله إلى عادته وعادة أبيه وقومه فهو من أهل الجاهلية المستحقين للوعيد، وكذلك من تبين له في مسألة من المسائل الحق الذي بعث الله به رسوله ثم عدل عنه إلى عادته فهو من أهل الذم والعقاب.
وأما من كان عاجزا عن معرفة ما أمر الله به ورسوله، وقد اتبع فيها من هو من أهل العلم والدين ولم يتبين له أن قول غيره أرجح من قوله فهو محمود مثاب، لا يذم على ذلك ولا يعاقب.

(اکثر لوگ بچے کی طرح ماں باپ کے ادیان پر چلتے ہیں لیکن بالغ ہونے پر اللہ اور رسول کے فرمان پر عمل لازم ہے) "اسی طرح جس شخص کے لیے اس حق کے مسائل میں سے ایک مسئلہ بھی واضح ہو گیا جس حق کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے پھر اپنی عادت کو اپنایا تو وہ مذمت والے اور سزا یافتہ لوگوں میں سے ہے۔
اور بہر حال وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی معرفت سے عاجز ہو اور وہ اہل علم و دین میں سے کسی کی پیروی کرلے اور اس کے لیے یہ واضح نہ ہو کہ کسی اور کا قول اس کے قول سے زیادہ راجح ہے تو وہ تعریف یافتہ ثواب پانے والوں میں سے ہے۔ نہ اس کی مذمت ہوگی اور نہ اسے سزا ملے گی"
ان اہل حدیث بھائیوں کے لیے دعوت غور و فکر ہے جو صرف اردو ترجمہ بعض کتب کا پڑھ کر دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔



وإن كان قادرا على الاستدلال ومعرفة ما هو الراجح ولو في بعض المسائل، فعدل عن ذلك إلى التقليد، فهذا قد اختلف فيه، فمذهب أحمد المنصوص عنه الذي عليه أصحابه أن هذا آثم أيضا، وهذا مذهب الشافعي وأصحابه، وحكي عن محمد بن الحسن وغيره: أنه يجوز له التقليد قيل مطلقا وقيل: يجوز تقليد الأعلم.
وحكى بعضهم هذا عن أحمد كما ذكره أبو إسحاق في اللمع وهذا غلط على أحمد، فإن أحمد إنما يقول هذا في الصحابة فقط على اختلاف عنه في ذلك.


محمد بن الحسن احناف کے امام محمد رح ہیں۔

وأما مثل مالك والشافعي وسفيان، ومثل إسحاق بن راهويه وأبي عبيد فقد نص في غير موضع على أنه لا يجوز للعالم القادر على الاستدلال أن يقلدهم وقال: لا تقلدوني ولا تقلدوا مالكا ولا الشافعي ولا الثوري وكان يحب الشافعي ويثني عليه، ويحب إسحاق ويثني عليه، ويثني على مالك والثوري وغيرهما من الأئمة، ويأمر العامي بأن يستفتي إسحاق وأبا عبيد وأبا ثور وأبا مصعب، وينهى العلماء من أصحابه، كأبي داود، وعثمان بن سعيد، وإبراهيم الحربي، وأبي بكر الأثرم، وأبي زرعة، وأبي حاتم السجستاني، ومسلم، وغير هؤلاء أن لا يقلدوا أحدا من العلماء ويقول عليكم بالأصل بالكتاب والسنة.
اس فتوی کا خلاصہ یہ نکلا۔
1: جو شخص ایک مذہب معین پر چل پڑے تو بغیر تقلید غیر (تبدیلی مسلک) یا استدلال (قابلیت اجتہاد کے لیے) یا عذر شرعی کے اس مسلک کے خلاف عمل درست نہیں۔
2: عامی کے لیے مذہب متعین کو چھوڑنا درست نہیں الا یہ کہ دوسرا اس کے نزدیک زیادہ راجح ہو۔ اور اگر وہ دلائل میں ترجیح کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو امام کو برحق مان کر عمل کرے۔ اسے اسی پر ثواب ملے گا۔
3: اور اگر کسی مسئلہ میں بھی استنباط و استدلال کی صلاحیت ہو تو اس میں تقلید درست نہیں۔ اور امام محمد رح کے نزدیک اس میں بھی اعلم کی تقلید درست ہے۔
 
Top