یہاں میں یہی سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ کسی شخص کو تقلید مطلق کی اجازت دینے کا مطلب ہے اس کے لیے تمام اقوال برابر ہیں اور وہ کسی وقت بھی کسی کو پسند اور کسی کو نا پسند کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ناپسند قول پر عمل بھی کرسکتا ہے۔ کیا میں درست ہوں؟
محترم بھائی میں بار بار یہ کہ رہا ہوں کہ بحث میں تقلید مطلق کرنے والے اور تقلید شخصی کرنے والے کو اکٹھا لے کر چلا جائے اور خواہش کی پیروی کرنے والے اور نہ کرنے والے کو علیحدہ علیحدہ دلائل سے ثابت کیا جائے
پس اوپر کی بات اگر آپ کی خواہش کی پیروی نہ کرنے والے کے بارے ہے تو وہ ایک قول سے دوسرے قول میں یا ایک امام سے دوسرے امام کی پیروی کی طرف کسی دلیل کی وجہ سے جائے گا جیسے آپ نے اگلی ٹیگ والی پوسٹ میں وضاحت کی ہے کہ بدلنے کی جائز وجہ ہونا لازمی ہے پس اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو یہ اجازت تقلید شخصی والے کو بھی ہو گی (جیسے اوپر آپ مان چکے ہیں) اور دوسرا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جو زیادہ مدلل لگے اس پر عمل کرے گا
اور اگر اوپر کی بات خواہش کی پیروی کرنے والے کے لئے ہے تو اس نے تو خواہشات کی پیروی کرنی ہے اور شریعت کو ڈھال بنانا ہے پس وہ تقلید شخصی یا تقلید مطلق میں صرف اپنی خواہشات کو ہی دیکھے گا (آپ تقلید شخصی کو یہ سمجھیں کہ وہ چار مختلف اقوال ہیں اور اس میں سے ہر ایک کو اپنی مرضی کے قول کی اتباع کرنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ کسی وجہ سے ایک قول کو دوسرے سے بدل سکتا ہے)
مزید یہ کہ اگر وہ غیر عالم ہے تو دلائل تو اس کے سر پر سے گزر جائیں گے لہذا صرف دل کے فیصلے سے وہ کسی بھی قول پر چل سکتا ہے۔ یہ درست ہے؟
محترم بھائی میں بار بار کہ رہا ہوں کہ اپنے تقلید مطلق کے دلائل کو تقلید شخصی پر لاگو کر کے پیش کیا کریں
غیر مقلد تو مطلق تقلید کرے گا ہی تب جب اسکو کسی مسئلہ میں احادیث کا مکمل علم نہ ہو یا شکوک و شبہات ہوں اور مقلد تو ویسے ہی تب بنتا ہے جب وہ دلائل کی طرف نظر نہ کرے پس ایک ویسے جاہل ہے اور دوسرا جاہل نہ بھی ہو تو جاہل کے حکم میں ہو گا پس اس مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے اگر سب پر لاگو کیا جائے
البتہ علم نہ ہونے کے باوجود تقلید مطلق یا شخصی میں ایک اور چیز بھی دیکھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جس قول یا امام کی تقلید ہو رہی ہے اسکے قابل اعتبار ہونے میں ترجیح دینے کا طریقہ- جس پر میں اپنے دلائل میں بحث کروں گا ان شاءاللہ
میں کہنا چاہتا ہوں کہ قاضی غیر مقلدہ کا فیصلہ ہی نہیں کرسکتا۔ فیصلہ جاری شدہ متفقہ فتوی کے مطابق ہوتا ہے اور وہ اس کو تقلید مطلق کی اجازت کا فتوی ہے۔
اب قاضی اس عورت کو دیکھے گا کہ یہ عورت تقلید مطلق کرتی ہے۔ اسے پسند فلاں قول ہے لیکن اس کی تقلید اس پر لازم نہیں اور وہ کسی وقت بھی دوسرے کسی قول کو پسند کر کے یا ناپسند کیے اس پر عمل کرسکتی ہے۔ قاضی کس قول کے مطابق فیصلہ کرے گا؟ کسی بھی نہیں ظاہر ہے۔ نکاح تو وہ تب باطل کر سکتا ہے یا باقی رکھ سکتا ہے جب مدعی علیہ کسی قول کا التزام تو کرے تاکہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ عورت کہہ رہی ہے قاضی صاحب آج کل مجھے فلاں قول اچھا لگ رہا ہے لیکن میں کسی اور پر بھی عمل کر سکتی ہوں۔ وہ مقدمہ خارج کر دے گا اور کہے گا کہ عورت کو اس کی مرضی کے مطابق کسی وقت بھی کسی قول کو اختیار کرنے کا حق ہے اسے چھوڑ دو۔
اگر میں غلط ہوں تو اصلاح فرمائیں۔
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ کیا جب تقلید نہیں تھی اس وقت کسی قاضی نے کوئی حد قائم نہیں کی کیونکہ اس وقت تو ہر کوئی قاضی کو کہ سکتا تھا کہ جی میری مرضی میں جو چاہے کروں مالکم کیف تحکمون
دوسرا بار بار کہ رہا ہوں کہ تقلید شخصی کو سمجھیں کہ وہ چار اقوال ہیں جن کے اندر مقلد آپ کے اقرار کے مطابق کسی بھی ایک قول کو کسی وجہ سے چن سکتا ہے (جیسا کہ آپ نے اگلی دو پوسٹوں میں ٹیگ کیا ہے جن میں زیادہ تر یہی بات ثابت کی گئی ہے کہ مقلد ان چار اماموں میں کسی امام کے تحت رہ سکتا ہے)
اب آپ بتائیں کہ قاضی اگر تقلید مطلق میں قول کو اختیار کی اجازت سے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے ایک قول کو لازم نہیں پکڑا ہوا تو بھائی تقلید شخصی میں چار قولوں پر اختیار سے بھی اسکو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ ایک امام پر پکا نہیں
تقلید مطلق کی صورت میں مطلق اختیار ہے۔ کوئی قول لازم نہیں۔
محترم بھائی میں بھی بار بار یہ کہ رہا ہوں کہ چار اماموں کی فقہ کو چار اقوال سمجھ لیں اب اس پر آپ مان چکے ہیں کہ ان چار میں تبدیلی کا مطلق اختیار ہے (البتہ آدھا آدھا نہیں) تو بھائی میں پورے فقہ کو ہی تبدیل کرنے کی بات کر رہا ہوں آدھے کی بات نہیں کر رہا
تقلید شخصی کی صورت میں جس مسلک پر ہے اس وقت اس مسلک کے قول کا التزام کیا ہوا ہے۔
تقلید مطلق کی صورت میں کوئی قول لازم ہی نہیں ہے تو بدلنے کا مطلب ہی کوئی نہیں ہے۔ اس کو پہلے ہی اختیار دیا ہوا ہے کوئی بھی قول اختیار کرو۔
بھائی تقلید شخصی نے اگرچہ ایک امام کا التزام کیا ہوا ہے مگر اسکو دوسی طرف جانے کا اختیار تو ہے بالکل اسی طرح اگر تقلید مطلق والے کو دوسرے قول کی طرف جانے کا اختیار دے دیا جائے تو یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اس وقت اس نے ایک قول کا التزام نہیں کیا ہوا
ہاں ایک صورت ہے۔ وہ یہ کہ اسے کہیں کہ جو قول پسند ہے وہ لازم ہے تم پر کم از کم فی الحال۔ تو یہ تقلید شخصی ہی ہے اگرچہ وقتی طور پر۔ اس صورت میں تو ظاہر ہے فیصلہ تقلید شخصی والا ہی نکلے گا۔ اگر یہ صورت اختیار کرتے ہیں تو بتائیں۔
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا صحابہ جس بات پر عمل کرتے تھے اس کو حق سمجھ کر نہیں کرتے تھے بھائی جس بات پر عمل اس طرح عمل کرے کہ وہ اسکو اپنے اوپر اللہ کی طرف سے لازم نہ سمجھتا ہو تو کیا اس پر اجر مل سکتا ہے پس جو عمل کرے گا وہ اسکو پانے لئے واجب سمجھ کر کے گا تقلید مطلق کا یہ مطلب ہے کہ جب اس کو کسی بات کا قرآن و حدیث سے پتا نہ چل رہا ہو تو وہ کسی بھی غیر معین امام کی بات کو ترجیح دینے کے بعد اسکو اپنے لئے حجت سمجھتے ہوئے عمل کر لے پس اگر ترجیح کے بعد تو وہ اسکے لئے لازم ہو گا جب تک کہ وہ ترجیح ختم نہیں ہو گی جیسا کہ آپ نے ابن تینیہ کے حوالے سے پوسٹوں میں بتایا ہوا ہے پس اسکو تقلید شخصی میں شمار کرنا تو نئی بات لگی ہے
برسوں سے لوگ تمام مسالک میں مسلمان ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ سوال نہیں پوچھتے۔
ہر کسی کی آزمائش اس کی حد تک ہوتی ہے۔ عامی کو کہا ہے فاسئلوا اہل الذکر۔ وہ پوچھے گا۔ کسی ایک مسلک کو اختیار کرلے گا تو مختلف اقوال کے بارے میں سرگرداں نہیں رہے گا۔
اور اگر علم حاصل کرتا جائے گا تو اس کی آزمائش بھی بڑھتی جائے گی۔ اسے پڑھنا اور تحقیق کرنا پڑے گا۔ دوسروں کے مسائل سمجھنا اور حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ اور جب علم میں کامل ہو جائے گا تو آزمائش آئے گی کہ متشابہات کو بے چوں و چرا مان لو۔ ان کی قطعی تفصیل نہ ڈھونڈو۔
اس طرح تو بے شمار سوالات ممکن ہیں اور ان کے جوابات بھی۔ لیکن یہ سوالات علمی ابحاث میں لانے کے نہیں ہیں۔
محترم بھائی میرا سوال صرف آپ کے اس جملے پر تھا کہ اللہ نے چاروں اماموں پر خصوصی انعام کیا کہ انھوں نے ہر اصول بتا دیا تو میں نے کہا تھا کہ اگر اللہ نے ہر اصول بتانا ہی تھا تو یہ کرم اپنے نبی محمف صلی اللہ علیہ وسلم (وما ینطق ----) یا کم از کم صحابہ (کلھم عدول) پر کیوں نہ کیا