• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اختلاف ِ امت پر رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کا صحیح اطلاق

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
حوالہ اس بحث کا یہ ہے
فتاوی کبری 5۔94 دار الکتب العلمیہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یہاں میں یہی سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ کسی شخص کو تقلید مطلق کی اجازت دینے کا مطلب ہے اس کے لیے تمام اقوال برابر ہیں اور وہ کسی وقت بھی کسی کو پسند اور کسی کو نا پسند کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ناپسند قول پر عمل بھی کرسکتا ہے۔ کیا میں درست ہوں؟
محترم بھائی میں بار بار یہ کہ رہا ہوں کہ بحث میں تقلید مطلق کرنے والے اور تقلید شخصی کرنے والے کو اکٹھا لے کر چلا جائے اور خواہش کی پیروی کرنے والے اور نہ کرنے والے کو علیحدہ علیحدہ دلائل سے ثابت کیا جائے
پس اوپر کی بات اگر آپ کی خواہش کی پیروی نہ کرنے والے کے بارے ہے تو وہ ایک قول سے دوسرے قول میں یا ایک امام سے دوسرے امام کی پیروی کی طرف کسی دلیل کی وجہ سے جائے گا جیسے آپ نے اگلی ٹیگ والی پوسٹ میں وضاحت کی ہے کہ بدلنے کی جائز وجہ ہونا لازمی ہے پس اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو یہ اجازت تقلید شخصی والے کو بھی ہو گی (جیسے اوپر آپ مان چکے ہیں) اور دوسرا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جو زیادہ مدلل لگے اس پر عمل کرے گا
اور اگر اوپر کی بات خواہش کی پیروی کرنے والے کے لئے ہے تو اس نے تو خواہشات کی پیروی کرنی ہے اور شریعت کو ڈھال بنانا ہے پس وہ تقلید شخصی یا تقلید مطلق میں صرف اپنی خواہشات کو ہی دیکھے گا (آپ تقلید شخصی کو یہ سمجھیں کہ وہ چار مختلف اقوال ہیں اور اس میں سے ہر ایک کو اپنی مرضی کے قول کی اتباع کرنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ کسی وجہ سے ایک قول کو دوسرے سے بدل سکتا ہے)

مزید یہ کہ اگر وہ غیر عالم ہے تو دلائل تو اس کے سر پر سے گزر جائیں گے لہذا صرف دل کے فیصلے سے وہ کسی بھی قول پر چل سکتا ہے۔ یہ درست ہے؟
محترم بھائی میں بار بار کہ رہا ہوں کہ اپنے تقلید مطلق کے دلائل کو تقلید شخصی پر لاگو کر کے پیش کیا کریں
غیر مقلد تو مطلق تقلید کرے گا ہی تب جب اسکو کسی مسئلہ میں احادیث کا مکمل علم نہ ہو یا شکوک و شبہات ہوں اور مقلد تو ویسے ہی تب بنتا ہے جب وہ دلائل کی طرف نظر نہ کرے پس ایک ویسے جاہل ہے اور دوسرا جاہل نہ بھی ہو تو جاہل کے حکم میں ہو گا پس اس مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے اگر سب پر لاگو کیا جائے
البتہ علم نہ ہونے کے باوجود تقلید مطلق یا شخصی میں ایک اور چیز بھی دیکھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جس قول یا امام کی تقلید ہو رہی ہے اسکے قابل اعتبار ہونے میں ترجیح دینے کا طریقہ- جس پر میں اپنے دلائل میں بحث کروں گا ان شاءاللہ

میں کہنا چاہتا ہوں کہ قاضی غیر مقلدہ کا فیصلہ ہی نہیں کرسکتا۔ فیصلہ جاری شدہ متفقہ فتوی کے مطابق ہوتا ہے اور وہ اس کو تقلید مطلق کی اجازت کا فتوی ہے۔
اب قاضی اس عورت کو دیکھے گا کہ یہ عورت تقلید مطلق کرتی ہے۔ اسے پسند فلاں قول ہے لیکن اس کی تقلید اس پر لازم نہیں اور وہ کسی وقت بھی دوسرے کسی قول کو پسند کر کے یا ناپسند کیے اس پر عمل کرسکتی ہے۔ قاضی کس قول کے مطابق فیصلہ کرے گا؟ کسی بھی نہیں ظاہر ہے۔ نکاح تو وہ تب باطل کر سکتا ہے یا باقی رکھ سکتا ہے جب مدعی علیہ کسی قول کا التزام تو کرے تاکہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ عورت کہہ رہی ہے قاضی صاحب آج کل مجھے فلاں قول اچھا لگ رہا ہے لیکن میں کسی اور پر بھی عمل کر سکتی ہوں۔ وہ مقدمہ خارج کر دے گا اور کہے گا کہ عورت کو اس کی مرضی کے مطابق کسی وقت بھی کسی قول کو اختیار کرنے کا حق ہے اسے چھوڑ دو۔
اگر میں غلط ہوں تو اصلاح فرمائیں۔
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ کیا جب تقلید نہیں تھی اس وقت کسی قاضی نے کوئی حد قائم نہیں کی کیونکہ اس وقت تو ہر کوئی قاضی کو کہ سکتا تھا کہ جی میری مرضی میں جو چاہے کروں مالکم کیف تحکمون
دوسرا بار بار کہ رہا ہوں کہ تقلید شخصی کو سمجھیں کہ وہ چار اقوال ہیں جن کے اندر مقلد آپ کے اقرار کے مطابق کسی بھی ایک قول کو کسی وجہ سے چن سکتا ہے (جیسا کہ آپ نے اگلی دو پوسٹوں میں ٹیگ کیا ہے جن میں زیادہ تر یہی بات ثابت کی گئی ہے کہ مقلد ان چار اماموں میں کسی امام کے تحت رہ سکتا ہے)
اب آپ بتائیں کہ قاضی اگر تقلید مطلق میں قول کو اختیار کی اجازت سے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے ایک قول کو لازم نہیں پکڑا ہوا تو بھائی تقلید شخصی میں چار قولوں پر اختیار سے بھی اسکو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ ایک امام پر پکا نہیں

تقلید مطلق کی صورت میں مطلق اختیار ہے۔ کوئی قول لازم نہیں۔
محترم بھائی میں بھی بار بار یہ کہ رہا ہوں کہ چار اماموں کی فقہ کو چار اقوال سمجھ لیں اب اس پر آپ مان چکے ہیں کہ ان چار میں تبدیلی کا مطلق اختیار ہے (البتہ آدھا آدھا نہیں) تو بھائی میں پورے فقہ کو ہی تبدیل کرنے کی بات کر رہا ہوں آدھے کی بات نہیں کر رہا

تقلید شخصی کی صورت میں جس مسلک پر ہے اس وقت اس مسلک کے قول کا التزام کیا ہوا ہے۔
تقلید مطلق کی صورت میں کوئی قول لازم ہی نہیں ہے تو بدلنے کا مطلب ہی کوئی نہیں ہے۔ اس کو پہلے ہی اختیار دیا ہوا ہے کوئی بھی قول اختیار کرو۔
بھائی تقلید شخصی نے اگرچہ ایک امام کا التزام کیا ہوا ہے مگر اسکو دوسی طرف جانے کا اختیار تو ہے بالکل اسی طرح اگر تقلید مطلق والے کو دوسرے قول کی طرف جانے کا اختیار دے دیا جائے تو یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اس وقت اس نے ایک قول کا التزام نہیں کیا ہوا

ہاں ایک صورت ہے۔ وہ یہ کہ اسے کہیں کہ جو قول پسند ہے وہ لازم ہے تم پر کم از کم فی الحال۔ تو یہ تقلید شخصی ہی ہے اگرچہ وقتی طور پر۔ اس صورت میں تو ظاہر ہے فیصلہ تقلید شخصی والا ہی نکلے گا۔ اگر یہ صورت اختیار کرتے ہیں تو بتائیں۔
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا صحابہ جس بات پر عمل کرتے تھے اس کو حق سمجھ کر نہیں کرتے تھے بھائی جس بات پر عمل اس طرح عمل کرے کہ وہ اسکو اپنے اوپر اللہ کی طرف سے لازم نہ سمجھتا ہو تو کیا اس پر اجر مل سکتا ہے پس جو عمل کرے گا وہ اسکو پانے لئے واجب سمجھ کر کے گا تقلید مطلق کا یہ مطلب ہے کہ جب اس کو کسی بات کا قرآن و حدیث سے پتا نہ چل رہا ہو تو وہ کسی بھی غیر معین امام کی بات کو ترجیح دینے کے بعد اسکو اپنے لئے حجت سمجھتے ہوئے عمل کر لے پس اگر ترجیح کے بعد تو وہ اسکے لئے لازم ہو گا جب تک کہ وہ ترجیح ختم نہیں ہو گی جیسا کہ آپ نے ابن تینیہ کے حوالے سے پوسٹوں میں بتایا ہوا ہے پس اسکو تقلید شخصی میں شمار کرنا تو نئی بات لگی ہے

برسوں سے لوگ تمام مسالک میں مسلمان ہو رہے ہیں لیکن وہ یہ سوال نہیں پوچھتے۔
ہر کسی کی آزمائش اس کی حد تک ہوتی ہے۔ عامی کو کہا ہے فاسئلوا اہل الذکر۔ وہ پوچھے گا۔ کسی ایک مسلک کو اختیار کرلے گا تو مختلف اقوال کے بارے میں سرگرداں نہیں رہے گا۔
اور اگر علم حاصل کرتا جائے گا تو اس کی آزمائش بھی بڑھتی جائے گی۔ اسے پڑھنا اور تحقیق کرنا پڑے گا۔ دوسروں کے مسائل سمجھنا اور حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ اور جب علم میں کامل ہو جائے گا تو آزمائش آئے گی کہ متشابہات کو بے چوں و چرا مان لو۔ ان کی قطعی تفصیل نہ ڈھونڈو۔
اس طرح تو بے شمار سوالات ممکن ہیں اور ان کے جوابات بھی۔ لیکن یہ سوالات علمی ابحاث میں لانے کے نہیں ہیں۔
محترم بھائی میرا سوال صرف آپ کے اس جملے پر تھا کہ اللہ نے چاروں اماموں پر خصوصی انعام کیا کہ انھوں نے ہر اصول بتا دیا تو میں نے کہا تھا کہ اگر اللہ نے ہر اصول بتانا ہی تھا تو یہ کرم اپنے نبی محمف صلی اللہ علیہ وسلم (وما ینطق ----) یا کم از کم صحابہ (کلھم عدول) پر کیوں نہ کیا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عبدہ بھائی بحث الجھ گئی ہے۔ میں اپنی کم فہمی کی بنا پر آپ کی بات نہیں سمجھ پا رہا اور آپ کو اپنی نہیں سمجھا پا رہا۔ ایک کام کرتے ہیں۔
کچھ باتوں کی وضاحت کر لیتے ہیں۔
1: میں تقلید مطلق کا قائل ہوں۔ میرے سامنے عورت کو چھونے سے وضو لازم ہونے نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ امام شافعی رح کے نزدیک وضو لازم ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک لازم نہیں۔ مجھے ابو حنیفہ رح کا قول پسند ہے۔
اب کچھ سوال ہیں:۔
1: کیا مجھ پر کم از کم فی الحال یہ قول لازم ہے؟
2: میں علم نہیں رکھتا تو یہ قول کس بنا پر میرے نزدیک راجح ہونا چاہیے؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بحث الجھ گئی ہے۔ میں اپنی کم فہمی کی بنا پر آپ کی بات نہیں سمجھ پا رہا اور آپ کو اپنی نہیں سمجھا پا رہا۔
محترم بھائی جب ہم اس نہج سے بات کریں گے کہ لازمی دوسرے کی بات سمجھیں تو پھر میرے خیال میں بات ادھر ہی رہے گی پس میرے خیال میں ہم میں سے ہر ایک ایک آدھ دفعہ اپنی اپنی دلیل دے اور پھر اسکو چھوڑ کر آگے چلیں قاری خود ہی اپنی سمجھ سے فیصلہ کر لے گا چاہے وہ صحیح بات سمجھے یا غلط سمجھے اجر تو ملے گا کیونکہ ہمیں ابھی تقلید کے پس منظر میں اور بہت سی باتیں واضح کرنی ہیں مثلا
1-ابھی آپ کی دوسری اجماع والی دلیل پر بحث بھی رہتی ہے
2-میں نے تقلید شخصی کی بجائے تقلید مطلق کرنے کے حق میں دلائل دینے ہیں
3-تقلید مطلق میں مختلف قولوں میں ترجیح کس بنیاد پر دی جائے گی
4-اہل حدیث تقلید مطلق کو بھی ہمیشہ واجب نہیں کہتے بلکہ صرف قرآن و حدیث کا علم نہ ہونے میں واجب کہتے ہیں تو اس لاعلمی سے کیا مراد ہے
پس آپ جس بات کو کہیں اسکو شروع کر دیتے ہیں

کچھ باتوں کی وضاحت کر لیتے ہیں۔
1: میں تقلید مطلق کا قائل ہوں۔ میرے سامنے عورت کو چھونے سے وضو لازم ہونے نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ امام شافعی رح کے نزدیک وضو لازم ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک لازم نہیں۔ مجھے ابو حنیفہ رح کا قول پسند ہے۔
اب کچھ سوال ہیں:۔
1: کیا مجھ پر کم از کم فی الحال یہ قول لازم ہے؟
2: میں علم نہیں رکھتا تو یہ قول کس بنا پر میرے نزدیک راجح ہونا چاہیے؟
محترم بھائی تقلید مطلق اور تقلید شخصی دونوں میں جب کوئی کسی کی تقلید کرتا ہے تو پہلے اس امام یا اس قول کو لازم سمجھ کر عمل کرتا ہے یہی پہلے لکھا تھا
جہاں تک دوسرا سوال ہے تو محترم بھائی یہ ایک علیحدہ بحث ہے جسے میں نے اوپر نمبر 3 کے تحت لکھا ہے میرے نزدیک اسکی دو وجوہات ہو سکتی ہیں اگر کہیں تو اس بحث کو شروع کر دیتے ہیں جزاک اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم بھائی جب ہم اس نہج سے بات کریں گے کہ لازمی دوسرے کی بات سمجھیں تو پھر میرے خیال میں بات ادھر ہی رہے گی پس میرے خیال میں ہم میں سے ہر ایک ایک آدھ دفعہ اپنی اپنی دلیل دے اور پھر اسکو چھوڑ کر آگے چلیں قاری خود ہی اپنی سمجھ سے فیصلہ کر لے گا چاہے وہ صحیح بات سمجھے یا غلط سمجھے اجر تو ملے گا
بھائی میں ایک مبتدی طالب علم ہوں۔ مجھے صرف تھوڑی سی عربی آتی ہے۔ اس لیے علمی ابحاث اپنے علم میں اضافے کے لیے کرتا ہوں۔ اس لیے سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ قاری کے لیے ابحاث تو علماء کرتے ہوں گے۔

محترم بھائی تقلید مطلق اور تقلید شخصی دونوں میں جب کوئی کسی کی تقلید کرتا ہے تو پہلے اس امام یا اس قول کو لازم سمجھ کر عمل کرتا ہے یہی پہلے لکھا تھا
ہمارے سامنے دو چیزیں ہیں: 1: کسی ایک مسئلے میں تقلید مطلق یا شخصی کرنا، 2: تمام مسائل میں تقلید مطلق یا شخصی کرنا۔
آپ کی بات کے مطابق جب کوئی تقلید مطلق میں کسی امام کے قول کو اختیار کرتا ہے تو کم از کم اس وقت لازم سمجھ کر کرتا ہے۔
نام اس کا کچھ بھی رکھ دیں لیکن تقلید شخصی اور مطلق دونوں میں ایک ہی کام ہو رہا ہے یہاں۔ ایک خود کو حنفی کہہ کر ایک قول اختیار کر رہا ہے اور دوسرا غیر مقلد کہہ کر۔ اسی طرح ایک مسلک تبدیل کرے گا اور دوسرا قول۔ نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔
مثال کے طور پر مس مرئۃ سے وضو نہ ٹوٹنا میرے نزدیک ابو حنیفہ کی تقلید شخصی کی وجہ سے لازم ہے اور آپ کے نزدیک ابو حنیفہ کے قول کو پسند کرنے کی وجہ سے لازم ہے۔
قاضی بھی جب اس کے مطابق فیصلہ فیصلہ کرے گا تو دونوں کے لیے ایک ہی فیصلہ کرے گا۔ لہذا یہ بات ختم۔۔۔

اب بات رہ گئی اس بات کی کہ تمام مسائل من حیث المجموع میں تقلید شخصی ہوگی یا نہیں؟ مثال کے طور پر غیر مقلد کو اختیار ہوگا کہ ایک مسئلہ میں ایک امام کا قول اور دوسرے میں دوسرے کا قول اختیار کر لے یا مقلد ایک امام کے ہی مسائل کو لازمی پکڑے رہے گا۔ علماء میں اس میں اختلاف رہا ہے جو کہ بعد میں عرض کرتا ہوں۔

پہلے:۔
جہاں تک دوسرا سوال ہے تو محترم بھائی یہ ایک علیحدہ بحث ہے جسے میں نے اوپر نمبر 3 کے تحت لکھا ہے میرے نزدیک اسکی دو وجوہات ہو سکتی ہیں اگر کہیں تو اس بحث کو شروع کر دیتے ہیں جزاک اللہ
جی مناسب ہے کہ ہم یہ واضح کر لیں کہ ترجیح آخر کس اعتبار سے ہوگی۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ہمارے سامنے دو چیزیں ہیں: 1: کسی ایک مسئلے میں تقلید مطلق یا شخصی کرنا، 2: تمام مسائل میں تقلید مطلق یا شخصی کرنا۔
محترم بھائی میرے سامنے مقلد تو تمام مسائل میں تقلید شخصی کرے گا اور غیر مقلد تقلید نہیں کرے گا بلکہ نص کی پیروی کرے گا ہاں جب اسکو کسی جگہ نص کا علم نہ ہو سکے یا مختلف نصوص میں تعارض اسکے شکوک و شبہات بڑھا دے تو وہ تقلید مطلق کرے گا اور جس کی کرے گا تو اسکے پیچھے بھی کوئی وجہ یا علت ہو گی اور اس وجہ یا علت کے اختام پر ہی وہ قول تبدیل کرے گا

مثال کے طور پر مس مرئۃ سے وضو نہ ٹوٹنا میرے نزدیک ابو حنیفہ کی تقلید شخصی کی وجہ سے لازم ہے اور آپ کے نزدیک ابو حنیفہ کے قول کو پسند کرنے کی وجہ سے لازم ہے۔
قاضی بھی جب اس کے مطابق فیصلہ فیصلہ کرے گا تو دونوں کے لیے ایک ہی فیصلہ کرے گا۔ لہذا یہ بات ختم۔۔۔
جی محترم بھائی

اب بات رہ گئی اس بات کی کہ تمام مسائل من حیث المجموع میں تقلید شخصی ہوگی یا نہیں؟ مثال کے طور پر غیر مقلد کو اختیار ہوگا کہ ایک مسئلہ میں ایک امام کا قول اور دوسرے میں دوسرے کا قول اختیار کر لے یا مقلد ایک امام کے ہی مسائل کو لازمی پکڑے رہے گا۔ علماء میں اس میں اختلاف رہا ہے جو کہ بعد میں عرض کرتا ہوں۔
پہلے:۔
جی مناسب ہے کہ ہم یہ واضح کر لیں کہ ترجیح آخر کس اعتبار سے ہوگی۔
یعنی آپ ترجیح والی بات کو شروع کرنا چاہتے ہیں تو ابھی میں دفتر سے چھٹی کر رہا ہوں اور کسی جگہ جانا ہے رات کو ٹائم ملا تو ان شاءاللہ شروع کر دوں گا جزاک اللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یعنی آپ ترجیح والی بات کو شروع کرنا چاہتے ہیں تو ابھی میں دفتر سے چھٹی کر رہا ہوں اور کسی جگہ جانا ہے رات کو ٹائم ملا تو ان شاءاللہ شروع کر دوں گا جزاک اللہ
تقلید شخصی اور تقلید مطلق میں ترجیح کی مندرجی ذیل وجوہات میں نے اوپر پوسٹ نمبر 38 میں بتائیں تھیں

دیکھیں محترم بھائی مجھے آپ کی یہ بات انصاف کے مطابق نہیں لگی دیکھیں امام بدلنے یا قول بدلنے کے پیچھے دو طرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں
1-ایک ٹھوس دلیل
2-خواہش نفس
اب میں دونوں کی تھوڑی سی وضاحت کر دیتا ہوں محترم اشماریہ بھائی اور محترم خضر حیات بھائی اصلاح کر دیں
1-ٹھوس دلیل
دلیل سے کیا مراد ہے تو محترم بھائی ہمارے پاس دین پر عمل کرنے کے لئے دو طرح کی دلیلیں ہوتی ہیں ایک نقلی اور دوسری عقلی- اب چونکہ تقلید کی بات ہو رہی ہے تو ظاہر ہے ہمیرے پاس نقلی دلیل تو ہو گی نہیں یا ہو گی تو اشکال یا تعارض ہو گا پس یہاں دلیل سے مراد عقلی دلیل ہے
میرے خیال میں اس کے تحت مختلف قول یا فقہ کے پیچھے جو ذات ہوتی ہے اس پر ہمارا اعتبار کا فرق ہمیں ترجیح کے قابل بناتا ہے اور جب ہم کسی ذات پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں تو اسکا قول اور فقہ کی تقلید ہمیں راجح نظر آتی ہے
اور اس کی بنیاد تجربہ اور مشاہدہ ہو گا اور ہمارا ذاتی رجحان بھی شامل ہو گا جس کی وجہ سے ہم کسی کی ذات پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور کسی پر کم اعتبار کرتے ہیں
مثلا بچہ ماں اور باپ دونوں کی بہت سی باتوں میں تقلید کرتا ہے اب بچہ جانتا ہے کہ دونوں مجھ سے محبت کرتے ہیں مگر وہ یہ بھی کبھی تجربہ سے فیصلہ کر لیتا ہے کہ فلاں زیادہ محبت کرتا ہےاب یہ تجربہ چاہے اس کے اپنے کسی رجحان کی بنیاد پر ہو مثلا کچھ بچے پیسوں کو اہمیت زیادہ دیتے ہیں اور پیار کو کم اہمیت دیتے ہوں تو ایسے بچوں کو والد کی محبت زیادہ نظر آتی ہو گی
اسی طرح کچھ لوگ حدیث کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کوئی رائے جو اصول فقہ کے تحت دی گئی ہو اسکو زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو اس لحآظ سے ان کے نزدیک قابل اعتبار ذات مختلف ہو سکتی ہے اسی طرح کچھ اصولوں میں پسند نا پسند کی وجہ سے ترجیح کا فیصلہ کرتے ہیں مثلا کسی کے ذہن میں مشاہدہ یا تجربہ سے یہ آ گیا کہ خبر واحد تو حجت ہو نہیں سکتی یا مسل حجت ہو نہیں سکتی یا مفہوم مخالف حجت نہیں ہو سکتا تو وہ اس کی بنیاد پر بھی شخصیات میں ترجیح دے سکتا ہے لیکن یہ عامی کے لئے نہیں ہو گا بلکہ تھوڑا علم رکھنے والے کے لئے ہو گا


2-خواہش نفس
اس میں مختلف چیزیں آ جاتی ہیں ایک تو وہ باتیں ہیں جو آپ نے اوپر زیدہ کی مثال میں بتائی ہیں اور واللہ کل ہی مجھے اپنے ایک حنفی دوست کا فون آیا جس کو تین طلاق پر فتوی چاہئے تھا اور وہ حلالہ نہیں کروانا چاہتا تھا اور مجھ سے کہا کہ وکیل نے کہا ہے کہ فتوی دلا دیں
اس میں ایک اور بات بھی آتی ہے وہ ہے تقلید میں تقلید- یعنی جب کوئی دیکھتا ہے کہ معاشرے میں لوگ فلاں کی تقلید کر رہے ہیں تو وہ معاشرے کو ہی دلیل بناتے ہوئے (جو اصل دلیل نہیں) اس ہستی کی تقلید مطلق یا شخصی شروع کر دیتا ہے اس میں اہل حدیث بھی آ جاتے ہیں جن کو سوائے رفع یدین کی کچھ باتوں کے اور پتا نہیں ہوتا مگر اہل حدیث میں پیدا ہونے یا اس جماعت سے تعلق رکھنے یا انکی کسی جماعت سے فائدہ وابستہ ہونے کی وجہ سے اہل حدیث کہلوا رہے ہوتے ہیں یا انکی طرح عمل کر رہے ہوتے ہیں جیسے قرآن میں ما الفینا علیہ اباءنا وغیرہ آتا ہے
مزید باتیں بعد میں آپ اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میرے خیال میں اس کے تحت مختلف قول یا فقہ کے پیچھے جو ذات ہوتی ہے اس پر ہمارا اعتبار کا فرق ہمیں ترجیح کے قابل بناتا ہے اور جب ہم کسی ذات پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں تو اسکا قول اور فقہ کی تقلید ہمیں راجح نظر آتی ہے
ایک شخص کو ایک مسئلہ میں ابو حنیفہ رح پر زیادہ اعتماد اور دوسرے میں شافعی رح پر زیادہ اعتماد کیسے ہوگا؟
میرا مطلب ہے فقاہت اسے ابو حنیفہ کی زیادہ لگتی ہے تو شافعی رح کا قول کیسے اختیار کرے گا؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ایک شخص کو ایک مسئلہ میں ابو حنیفہ رح پر زیادہ اعتماد اور دوسرے میں شافعی رح پر زیادہ اعتماد کیسے ہوگا؟
میرا مطلب ہے فقاہت اسے ابو حنیفہ کی زیادہ لگتی ہے تو شافعی رح کا قول کیسے اختیار کرے گا؟
محترم بھائی آپ شاہد سمجھے نہیں میں نے تقلید مطلق اور تقلید شخصی دونوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف وجوہات لکھی ہیں جو ہمارےاعتماد کا سبب بنتی ہیں اور یہ نہیں لکھا کہ یہ ساری تقلید شخصی کے لئے ہیں پس جب آپ فقاہت کی بنیاد پر امام کو چنہیں گے تو یہ تقلید شخصی کی بات ہو رہی ہے پھر آپ ساری باتوں میں اسی امام کی پیروی کریں گے
جبکہ تقلید مطلق میں صرف اماموں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ آج کل کے ہمارے علماء بھی اس میں آ جاتے ہیں کیونکہ آجکل اکثر تقلید اسی قبیل سے ہے پس میرے علم کے مطابق کبھی اہل حدیث عامی بھی آجکل کے اہل حدیث علماء کی ہی تقلید کرتے نظر آتے ہیں مثلا رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے یا تشہد میں انگلی ہلانے یا قنوت وتر رکوع سے پہلے جیسی اکثر باتوں کا عامی اہل حدیث کو پتا ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایل حدیث عالماء پر اعتماد کرتے ہوئے یعنی تقلید کرتے ہوئے عمل کرتا ہے مگر اس اعتماد کے پیچھے اسکا رجحان ہوتا ہے کہ اس عالم نے رائے کی بجائے مجھے صرف حدیث کے مطابق عمل بتایا ہو گا اسی طرح عامی حنفی بھی اصل میں آج کل کے حنفی علماء کی ہی تقلید کرتے ہیں وہ خود فقہ کی کتابیں نکال کر نہیں بیٹھتے پس یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس حنفی عالم نے مجھے شریعت کی ہی بات بتائی ہو گی مگر حدیث کو صرف مقدم نہیں رکھا ہو گا بلکہ رائے یا فقہ کو بھی ذہن میں رکھا ہو گا اسی طرح کوئی اگر حدیث کو حجت ہی نہیں مانتا تو صرف اس عالم کی پیروی کرے گا جو قرآن سے بات بتانے کا عادی ہو گا یعنی پرویز، چکڑالوی وغیرہ- پس آجکل بھی پیروی کے پیچھے رجحان ہوتا ہے جسکو آپ اماموں کے حوالے سے فقاہت کا چناؤ وغیرہ اور آجکل کی تقلید مطلق میں نظریات کا چناؤ کہ سکتے ہیں
البتہ یہ رجحان کے تحت اعتماد وہ عامی کرتا ہے جس میں تھوڑی بہت سمجھ بوجھ ہو اور ان رجحانات کا واقعی علم بھی ہو لیکن میرے خیال میں زیادہ تر تقلید میں تقلید والی بات ہوتی ہے
کیا واقعی زیادہ معاملہ تقلید میں تقلید والا ہی ہوتا ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ٹھیک ہے اپنی بات کو جاری رکھیے محترم بھائی۔
 
Top