• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو ترجمہ موضوعات کبیر از ملا علی قاری

شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
آپکے مرزا صاحب تو امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ کے بعد خود ساختہ مبعوث ھوے
تھے۔تو پھر اہل مرزا قادیان صاحب امام ابو حنیفہ کے مسلک پر کیوں ھیں؟


آپکے مرزا صاحب تو خود ساختہ نبی تھے جبکہ امام ابو حنیفہ مسلمانوں کے ایک امام ھیں سمجھ سے بالا تر ھے کہ ایک نبوت کا دعوی دار اور اسکے حواری ایک اہل سنت امام کے کے مسلک پر ھیں کیا اس سے یہ ثابت نھیں ھوتا کہ آپکے مرزا صاحب ناقص ھیں ۔کہ فقہی معاملات میں انھیں امام صاحب کا سہارا لینا پڑا۔

اللہ تعالی سے دعا ھے کہ اہل مرزا قادیان کے حواریوں کو صحیح حدیث اور
قرآن کریم پر صدق دل سے قبول کرنے کی توفیق دے آمین۔

اللہ کریم سے ہم دعاگو ھیں کہ آپکو مرزا صاحب کے اقوال کو رد کرنے کی ہمت دے اور نبی آخر الزمان اور حتم الرسل آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے دین پر ایمان کامل کی توفیق دے۔آمین
آپ کو کس نے کہا کہ مرزا صاحب اور ان کی جماعت کسی اور مسلک پر ہے ؟ اگر ہم حنفی مسلک یا کسی مسلک پر پورے طور پر مقلد ہوں تو ہمارا اختلاف کیوں ہو ، جو بات قرآن حدیث سے ثابت ہو اس کے خلاف کسی کے قول کوہم نہیں ترجیح دیتے نہ کسی امام نہ کسی محدث کی رائے یا عقیدہ قرآن کے خلاف دلیل بن سکتا ہے ، اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں نے جو ان کے مسلک کے فروغ میں کتب لکھی ان میں بھی صرف اسی حد تک ان سے اتفاق ہے جو قرآن حدیث سے صحیح طور پر ثابت ہے ، جو قرآن حدیث کے صریح خلاف عقیدہ جائے اس کو ہم صاف طور پر رد کرتے ہیں مثال کے طور پر حلالہ کی رسم ہے ، ہمارے نزدیک یہ صریح طور پر زنا ہے اور گندی رسم ہے بے شک پوری حنفیت کا اس پر اتفاق یا عمل ہو ہمیں اس سے غرض نہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہاں جی حدیث سے متعلق ہر علم پڑھایا جاتا ہے لیکن قرآن کے خلاف جانے والی حدیث سے متعلق ہمارا اصول جو ہے وہ عام طور پر دوسرے مسالک بشمول اہلحدیث کو قبول نہیں ، اسی پر مرزا صاحب اور مولوی حسین بٹالوی صاحب کا مناظرہ ہوا تھا جو اس وقت الحق لدھیانہ کے نام سے شائع ہوا اور آج تک ہماری کتب میں موجود ہے ۔
آپ کا اصول ہے :
ہر وہ حدیث جو قرآن کے خلاف ہوگی ، مردود ہے ۔
درست ؟
اس بات کا فیصلہ کس اصول کی بنا پر ہوتا ہے کہ فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے ؟
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
آپ کا اصول ہے :
ہر وہ حدیث جو قرآن کے خلاف ہوگی ، مردود ہے ۔
درست ؟
اس بات کا فیصلہ کس اصول کی بنا پر ہوتا ہے کہ فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے ؟
مردود کا لفظ میری طرف سے نہیں لکھا گیا ، میں نے یہ کہا تھا پہلے : صحیح حدیث سے مراد سند کے اعتبار سے صحیح ہونا بھی ہے اور قرآن کے خلاف نہ جاتی ہو ، اگر کوئی بھی روایت سند کے اعتبار سے تو صحیح قرار دی جاتی ہے لیکن قرآن سے واضح ٹکراتی ہے تو اسے قرآن کے مطابق تاویل کر کے اختلاف دور کیا جائے گا ، اور اگر کسی طرح بھی اختلاف دور نہ ہو تو ایسی روایت درجہ اعتبار سے گر جاتی ہے : قرآن کی آیات صریح طور پر جب کسی حدیث کے خلاف جائیں تو معلوم ہو جاتا ہے یہ حدیث پڑھ کر ہی فیصلہ کیا جاسکتا ہے ، جیسے علماء نے ناسخ منسوخ کو ایجاد کیا آخر کیسا اختلاف ان کو قرآن کے اندر ہی نظر آنے لگا کہ خدا کے کلام قرآن کریم میں ہی منسوخ کی قسمیں نکال لینی پڑگئیں ، اگر کسی روایت کے راوی ضعیف ہی ہوں لیکن قرآنی آیات یا کسی صحیح حدیث سے اس کی تا ئید ہوتی ہے تو وہ قبول کے قابل ہے ، ساری تفصیل لکھنا ممکن نہیں ہے اس لیے اسی موضوع پر ہوئی بحث آپ الحق لدھیانہ میں پڑھیں تو بہتر طرح سے جان سکتے ہیں ۔
ہمارے ایک بڑے عالم حافظ روشن علی صاحب سے کسی غیر مسلک کے آدی نے سوال کیا تھا :
آپ کے ہاں کیسی حدیث مسلم ہوا کرتی ہے ؟
جواب میں حافظ صاحب نےفرمایا : اگر عقائد کے متعلق ہو تو متواتر یا مشہور حدیث اور اگر اعمال کے متعلق ہو تو ایسی احاد حدیث بھی ہم مان لیتے ہیں کہ جو قرآن کریم اور متواتر حدیث کے برخلاف نہ ہو ۔

والسلام
احسان احمد
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اگر آپ براہ راست گفتگو کرسکتے ہیں تو ہم یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔ یعنی کسی کتاب میں جو بھی دلائل بیان ہوئے ہیں وہ آپ یہاں بیان کریں پھر میں بھی کتب سے دلائل یہاں پیش کروں گا ۔
اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ بحث کو جاری رکھا جائے ۔
ہمارے نزدیک قبول خبر کی معروف شروط ہیں جو محدثین نے بیان کی ہیں مثلا راوی کا عادل و ضابط ہونا ، سند کا متصل ہونا ، شاذ اور معلل نہ ہونا ۔
اس کے علاوہ آحاد ، تواتر ، مخالف قرآن ، مخالف قیاس ، مخالف تاریخ وغیرہ یہ سب اضافی باتیں ہیں جن کا حدیث کے قبول و رد سے کوئی تعلق نہیں ۔
 
شمولیت
اگست 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
ہاں جی حدیث سے متعلق ہر علم پڑھایا جاتا ہے لیکن قرآن کے خلاف جانے والی حدیث سے متعلق ہمارا اصول جو ہے وہ عام طور پر دوسرے مسالک بشمول اہلحدیث کو قبول نہیں ، اسی پر مرزا صاحب اور مولوی حسین بٹالوی صاحب کا مناظرہ ہوا تھا جو اس وقت الحق لدھیانہ کے نام سے شائع ہوا اور آج تک ہماری کتب میں موجود ہے ۔
احسان صاحب !کیوں جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سچ کیوں نہیں بتاتے آپ کے مرزا صاحب تولکھتے ہیں کہ
’’اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرت ﷺ سے احکام پوچھتے ہیں اور ان میں سے جب کسی کو کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے پھر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اور آنحضرت جبرائیل سے وہ مسئلہ جس کی ولی کو حاجت ہوتی ہے پوچھ کر اس ولی کو بتا دیتے ہیں یعنی ظلی طور پر وہ مسئلہ بہ نزول جبرائیل منکشف ہو جاتا ہے ‘پھر شیخ ابنِ عربی نے فرمایا ہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرت ﷺ سے احادیث کی تصیح کرا لیتے ہیں بہتیری حدیثیں ایسی ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح ہیں اور وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں اور بہتیری حدیثیں موضوع ہیں اور آنحضرت ﷺ کے قول سے بذریعہ کشف صحیح ہو جاتی ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 77‘78 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 177‘178)
ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی رقمطراز ہے کہ
’’میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یاعدم صحت کے متعلق تو گو علمائے ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ٹھہراویں مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خداتعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لَامَہْدِیْ اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پرکلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خداتعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ میرا مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہلِ کشف یا اہلِ الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمد قادیانی جلد 2 صفحہ 45 طبع چہارم)
لیجیے قارئین ! مرزا صاحب اور اس کے پیروکار تو محدثین کی جرح سے تو آزاد ہو ہی گئے ہیں۔ اسی تناظر میں چند اور حوالہ جات پیش کر کے آگے بڑھتے ہیں چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بیان ہے کہ
"دوسری وجہ سلب ایمان کی یہ ہوتی ہے کہ ولی اللہ خداتعالی کے مقرب ہوتے ہیں کیونکہ ولی کے معنی قریب کے ہیں ۔ یہ لوگ گویا اللہ تعالی کو سامنے دیکھتے ہیں اور دوسرے لوگ ایک محجوب کی طرح ہوتے ہیں جن کے سامنے ایک دیوار حائل ہو ۔اب یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک تو ان میں سے ایسا ہے جس کے سامنے کوئی پردہ ہی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سب کچھ روشن نظر آتا ہے وہ جو کچھ بیان کرتا وہ حقائق اور معارف ہوتے ہیں وہ احادیث شریفہ کی جو تاویل کرتا ہے وہ صحیح ہوتی ہے کیونکہ وہ براہ راست بھی آنحضرت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے سن لیتا ہے اور اس طرح وہ اس کی اپنی روایت ہوتی ہے حالانکہ دوسرے لوگوں کو تیرہ سو برس کے وسائط سے کہنا پڑتا ہے پھر ان ہر دو میں کیا نسبت ہو سکتی ہے۔"
(ملفوظات جلد اول صفحہ 230 طبع جدید)

ایک اور مقام پر مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ
"یہ پکی بات ہے کہ آنے والا اسی امت سے ہو گا اور حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص مثیل مسیح بھی تو ہو اگرچہ محدثین اس حدیث کی صحت پر کلام کرتے ہیں مگر اہل کشف کی یہ بات مانی ہوئی ہے کہ وہ اپنے کشف سے بعض احادیث کی صحت کر لیتے ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح نہ ہوں اور بعض کو غیر صحیح قرار دے سکتے ہیں ۔ یہ حدیث اہل کشف نے جن میں روحانیت اور تصفیہ قلب ہوتا ہے صحیح بیان کی ہے۔"
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 97 طبع جدید)
احسان صاحب !تمام تر تلاش بسیار کے باوجود بندہ ناچیز کو کسی بھی محدث کی ایسی کوئی تحریر نہیں مل سکی جس میں محدثین نے مرزا غلام احمد قادیانی کے بیان کردہ اس اصول کو درست تسلیم کیا ہو کہ اہل کشف محدثین کی جرح کے پابند نہیں ہوتے بلکہ براہ راست نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے احادیث کی صحت کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں اس لیے میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ مندرجہ بالا تحریر میں مرزا قادیانی نے محدثین کی طرف بھی ایک جھوٹ منسوب کیا ہے۔
محترم قارئین ! ایک طرف تو مرزا صاحب خود کو اہل کشف قرار دیتے ہوئے احادیث کو پرکھنے کے حوالے سے محدثین کے پیش کردہ اصول و ضوابط سے قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف خود کو حکم و عدل قرار دیتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ
"جب مدت دراز گزر جاتی ہے اور غلطیاں پڑ جاتی ہیں تو خدا ایک حکم مقرر کرتا ہے جو ان غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے ۔آنحضرت صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم حضرت مسیحؑ کے سات سو برس بعد آئے اس وقت ساتویں صدی میں ضرورت پڑی تو کیا اب چودہویں صدی میں بھی ضرورت نہ پڑتی اور پھر جس حال میں کہ ایک ملہم ایک صحیح حدیث کو وضعی اور وضعی کو صحیح بزریعہ الہام قرار دے سکتا ہے اور یہ اصول ان لوگوں (محدثین) کا مسلم ہے تو پھر حکم کو کیوں اختیار نہیں ہے؟ ایک حدیث کیا اگر وہ ایک لاکھ حدیث بھی پیش کریں تو ان کی پیش کب چل سکتی ہے؟"
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 276,277طبع جدید)
مزید ایک مقام پر لکھا کہ
"اہل کشف جو لوگ ہوتے ہیں وہ احادیث کی صحت کے لیے محدثین کے اصول تنقید احادیث کے پابند نہیں ہوتے بلکہ وہ بعض اوقات ایک صحیح حدیث کو ضعیف ٹھہرا سکتے ہیں یا ضعیف کو صحیح کیونکہ وہ براہ راست اللہ تعالی یا رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے اطلاع پاتے ہیں جب یہ بات ہے تو پھر مسیح موعود جو حکم ہو کر آئے گا کیا اس کو یہ حق نہ ہو گا کہ وہ احادیث کی صحت اس طریق پر کر سکے؟"
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 378 طبع جدید)
مرزا غلام احمد قادیانی مزید ایک مقام پر کہتا ہے کہ
"میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے ۔ مجھے ایک سماوی آدمی مانو پھر یہ سارے جھگڑے اور تمان نزاعین جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں حو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی حدیث صحیح ہو گی۔"
 
شمولیت
اگست 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
57
آپ کو کس نے کہا کہ مرزا صاحب اور ان کی جماعت کسی اور مسلک پر ہے ؟ اگر ہم حنفی مسلک یا کسی مسلک پر پورے طور پر مقلد ہوں تو ہمارا اختلاف کیوں ہو ، جو بات قرآن حدیث سے ثابت ہو اس کے خلاف کسی کے قول کوہم نہیں ترجیح دیتے نہ کسی امام نہ کسی محدث کی رائے یا عقیدہ قرآن کے خلاف دلیل بن سکتا ہے ، اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں نے جو ان کے مسلک کے فروغ میں کتب لکھی ان میں بھی صرف اسی حد تک ان سے اتفاق ہے جو قرآن حدیث سے صحیح طور پر ثابت ہے ، جو قرآن حدیث کے صریح خلاف عقیدہ جائے اس کو ہم صاف طور پر رد کرتے ہیں مثال کے طور پر حلالہ کی رسم ہے ، ہمارے نزدیک یہ صریح طور پر زنا ہے اور گندی رسم ہے بے شک پوری حنفیت کا اس پر اتفاق یا عمل ہو ہمیں اس سے غرض نہیں ۔
احسان صاحب ! یہاں پر بھی آپ ڈنڈی مار رہے ہیں لیجئے اپنے بڑوں کا موقف بھی سن لیجئے آپ کی جماعت کی کتاب فقہ احمدیہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ

’’فقہ احمدیہ میں عام مدوّن فقہ حنفی سے بعض امورمیں اختلاف کیاگیاہے یہ اختلاف فقہ حنفی کے اصولوں سے باہرنہیں۔پس جس طرح حضرت امام ابو حنیفہ سے آپ کے شاگردوں مثلًا حضرت امام ابویوسف یاحضرت امام محمد کا اختلاف فقہ حنفی کے دائرہ سے ان کو باہر نہیں لے جاتا اور ان کے اس اختلاف کوفقہ حنفی کی مخالفت نہیں سمجھاجاتا اسی طرح فقہ احمدیہ کابعض امور میں اختلاف فقہ حنفی کے مخالف قرار نہیں دیاجاسکتا خصوصًاجبکہ یہ اختلاف انہی اصولوں پرمبنی ہے جنہیں فقہاء حنفی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ فقہ احمدیہ کے وہی مأخذ ہیں جوفقہ حنفی کے ہیں۔‘‘
(فقہ احمدیہ مشتمل بَراحکامِ شخصیہ صفحہ15شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ)
اب بتائیے یہ وجہ ہے چند ایک مسائل میں اختلاف کی نہ کہ حنفیت سے انکار آپ کے مرزا صاحب کا تو کہنا ہے کہ

’’ہمارامذہب وہابیوں کے برخلاف ہے ہمارے نزدیک تقلیدایک اباحت ہے کیونکہ ہرایک شخص مجتہد نہیں ہے ذراساعلم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں ہوجاتا۔ کیاوہ اس لائق ہے کہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری سے آزادہوجائے۔ قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہراورپاک لوگوں کے کسی پرنہیں کھولے جاتے۔ہمارے ہاں جوآتاہے اسے پہلے ایک حنفیت کارنگ چڑھاناپڑتاہے۔میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اﷲ تعالیٰ کافضل اوراسلام کے واسطے ایک چاردیواری ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیداکیے جونہایت متقی اورصاحبِ تزکیہ تھے۔آج کل کے لوگ جوبگڑے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑدی گئی ہے۔‘‘
(ملفوظات مرزاغلام احمدقادیانی جلداوّل صفحہ534طبع چہارم)
احسان احمد !پڑھتا جا شرماتا جا
 
Top