محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
آنکھ اٹکنا، آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھا کر دیکھنا، آنکھ اُٹھانا، آنکھ آنا، آنکھ اونچی نہ کرنا، آنکھ بچانا، آنکھ بدلنا، آنکھ بند ہونا، آنکھ بھرکر دیکھنا، آنکھ بھوں ٹیڑھی کرنا، آنکھ پڑنا، نظر ادھر گئی، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا، آنکھیں پھیر لینا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھوں کا سرمہ۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھیں چُرانا، آنکھیں چھپانا، آنکھ سے آنکھ ملانا، آنکھیں لڑانا، ( یا آنکھ لڑنا) آنکھیں مٹکانا وغیرہ آنکھوں میں رات کاٹنا، آنکھیں پتھرانا
اِن محاورات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے مختلف رویوں کو جو سماجی اخلاقیات سے گہرا واسطہ رکھتے ہیں ہماری سوچ سے کیا تعلق رہا ہے۔ اور اُس پر ہمارا تبصرہ کرنا کیا کیا انداز اختیار کرتا ہے مثلاً آنکھیں پھیر لینا مطلب نکل جانے کے بعد بے مروتی اختیار کرنا۔ آنکھ بدلنا رو یہ میں تبدیلی کرنا۔ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی ایک عام رو یہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھے کہ اس میں احترام کا پہلو باقی نہ رہے آنکھیں چار ہونا ایک دوسرے کے دیکھنے کو کہتے ہیں مگر چار آنکھیں ہونا غیر ضروری خواہشات نہ مناسب تمناؤں اور توقعات کو دل سے لگانے اور اپنی سماجی زندگی میں داخل کرنے والی عورتوں کے لئے اکثر کہا جاتا ہے کہ اس کی چار آنکھیں ہو گئیں۔
آنکھ سے آنکھ ملانا برابری کے رشتہ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنا ہے اور آنکھ نہ ملا سکنا فرق و امتیاز یا نفسیاتی طور پر شرمندہ ہونا کہ اُس کے بعد سامنے جرأت کی ہمت نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ غیرت شخص ہو۔
آنکھیں چرانا بھی سماجی عمل ہے اور وہی کہ نفسیاتی طور پر آدمی کسی سے آنکھ ملا کر گفتگو نہ کر سکے اور بات کو اِدھر اُدھر ٹالنا چاہے آنکھ لڑنا یا آنکھیں لڑانا عجیب و غریب انداز سے ہماری نفسیات پر روشنی ڈالتا ہے، لڑنا یا لڑانا کوئی اچھی ذہنی کیفیت نہیں ہے۔ لیکن قوم کشتی سے لیکر ہاتھیوں کی لڑائی مرغیوں کی پالی اور تیتر بٹیر کی باہمی جنگ دیکھ کر جو لوگ لطف لیتے ہوں اُن کے ہاں آنکھیں لڑانا بھی محبت کا اشارہ ہو جائے گا۔
آنکھ پھڑکنا سماج کی توہم پرستانہ فکر فرمائی کی ایک نشانی ہے کہ آنکھ پھڑک رہی ہے تو کوئی آفت آنے والی ہے اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں بہت رائج رہی ہیں۔ مثلاً بلی نے راستہ کاٹ دیا، تواب سفر منحوس ہو گیا۔ سفر میں خطرات تو تھے ہی اسی لئے سفر پر جانے والے کے بازو پر امام ضامن باندھا جاتا تھا آئینہ کے منہ پر پانی ڈالا جاتا تھا۔ اس سے اُس دور کی توہم پرستی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہوتا ہے۔
آنکھ پھوڑ ٹڈا ہونا دہلی کا خاص محاورہ ہے دوسری جگہوں پر استعمال نہیں ہوتا اور اچانک جو شخص تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آنا اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھنا بھی ہمارے سماجی رو یہ کا ایک پہلو ہے جو افسوس ناک حد تک سماجی ذہنیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
آنکھیں ٹھنڈی کرنا بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز محاورہ ہے جب کسی بات کو دیکھ کر ہمارا جی خوش ہوتا ہے اور ہماری تسکین کا باعث بنتا ہے اسی کو آنکھیں ٹھنڈا ہونا کہتے ہیں۔ اس کے اریب قریب کا محاورہ کلیجہ ٹھنڈا ہونا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش کہا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جو باتیں تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔
"آنکھوں کی سوئیاں نکالنا" بھی کسی محنت طلب اور دقت والے کام کا انجام پا جانا ہے اسی طرح آنکھوں میں سلائی پھیرنا یا سلائی پھرنا اندھا کئے جانے کے عمل کو کہتے ہیں کہ مغلوں میں اِس کا دستور تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو جنہیں اپاہج بنا دینا مقصود ہوتا تھا ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دیتے تھے مغلوں کے دور میں ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں میر کا یہ شعر اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
شہاں کہ کُحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی
اُنہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
ہم میر کے زمانہ سے پہلے اور میر کے زمانہ میں اس طرح کے واقعات کو تاریخ کا حصہ بنتے دیکھتے ہیں اسی کی طرف یہ محاورہ اور میر کا شعر اشارہ کر رہا ہے یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض محاورے تاریخی واقعات سے بھی رشتہ رکھتے ہیں مثلاً"احسان لیجئے جہاں کا مگر احسان نہ لیجئے شاہجہاں کا۔ "
یہ کہاوت ہے اور کسی وجہ سے شاہ جہاں کے زمانہ میں رائج ہوئی ہے اسی طرح"نادر گردی مرہٹہ گردی" اور جاٹ گردی بھی محاورہ کے معنی میں آتی ہے بری صورت حال کو کہتے ہیں مگر ان کا تعلق تاریخ سے ہے جب انتظام باقی نہ رہے مگر بہرحال اس صورتِ کا تعلق تاریخ کے حقائق سے توہے۔
اِن محاورات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے مختلف رویوں کو جو سماجی اخلاقیات سے گہرا واسطہ رکھتے ہیں ہماری سوچ سے کیا تعلق رہا ہے۔ اور اُس پر ہمارا تبصرہ کرنا کیا کیا انداز اختیار کرتا ہے مثلاً آنکھیں پھیر لینا مطلب نکل جانے کے بعد بے مروتی اختیار کرنا۔ آنکھ بدلنا رو یہ میں تبدیلی کرنا۔ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی ایک عام رو یہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھے کہ اس میں احترام کا پہلو باقی نہ رہے آنکھیں چار ہونا ایک دوسرے کے دیکھنے کو کہتے ہیں مگر چار آنکھیں ہونا غیر ضروری خواہشات نہ مناسب تمناؤں اور توقعات کو دل سے لگانے اور اپنی سماجی زندگی میں داخل کرنے والی عورتوں کے لئے اکثر کہا جاتا ہے کہ اس کی چار آنکھیں ہو گئیں۔
آنکھ سے آنکھ ملانا برابری کے رشتہ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنا ہے اور آنکھ نہ ملا سکنا فرق و امتیاز یا نفسیاتی طور پر شرمندہ ہونا کہ اُس کے بعد سامنے جرأت کی ہمت نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ غیرت شخص ہو۔
آنکھیں چرانا بھی سماجی عمل ہے اور وہی کہ نفسیاتی طور پر آدمی کسی سے آنکھ ملا کر گفتگو نہ کر سکے اور بات کو اِدھر اُدھر ٹالنا چاہے آنکھ لڑنا یا آنکھیں لڑانا عجیب و غریب انداز سے ہماری نفسیات پر روشنی ڈالتا ہے، لڑنا یا لڑانا کوئی اچھی ذہنی کیفیت نہیں ہے۔ لیکن قوم کشتی سے لیکر ہاتھیوں کی لڑائی مرغیوں کی پالی اور تیتر بٹیر کی باہمی جنگ دیکھ کر جو لوگ لطف لیتے ہوں اُن کے ہاں آنکھیں لڑانا بھی محبت کا اشارہ ہو جائے گا۔
آنکھ پھڑکنا سماج کی توہم پرستانہ فکر فرمائی کی ایک نشانی ہے کہ آنکھ پھڑک رہی ہے تو کوئی آفت آنے والی ہے اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں بہت رائج رہی ہیں۔ مثلاً بلی نے راستہ کاٹ دیا، تواب سفر منحوس ہو گیا۔ سفر میں خطرات تو تھے ہی اسی لئے سفر پر جانے والے کے بازو پر امام ضامن باندھا جاتا تھا آئینہ کے منہ پر پانی ڈالا جاتا تھا۔ اس سے اُس دور کی توہم پرستی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہوتا ہے۔
آنکھ پھوڑ ٹڈا ہونا دہلی کا خاص محاورہ ہے دوسری جگہوں پر استعمال نہیں ہوتا اور اچانک جو شخص تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آنا اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھنا بھی ہمارے سماجی رو یہ کا ایک پہلو ہے جو افسوس ناک حد تک سماجی ذہنیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
آنکھیں ٹھنڈی کرنا بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز محاورہ ہے جب کسی بات کو دیکھ کر ہمارا جی خوش ہوتا ہے اور ہماری تسکین کا باعث بنتا ہے اسی کو آنکھیں ٹھنڈا ہونا کہتے ہیں۔ اس کے اریب قریب کا محاورہ کلیجہ ٹھنڈا ہونا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش کہا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جو باتیں تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔
"آنکھوں کی سوئیاں نکالنا" بھی کسی محنت طلب اور دقت والے کام کا انجام پا جانا ہے اسی طرح آنکھوں میں سلائی پھیرنا یا سلائی پھرنا اندھا کئے جانے کے عمل کو کہتے ہیں کہ مغلوں میں اِس کا دستور تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو جنہیں اپاہج بنا دینا مقصود ہوتا تھا ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دیتے تھے مغلوں کے دور میں ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں میر کا یہ شعر اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
شہاں کہ کُحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی
اُنہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
ہم میر کے زمانہ سے پہلے اور میر کے زمانہ میں اس طرح کے واقعات کو تاریخ کا حصہ بنتے دیکھتے ہیں اسی کی طرف یہ محاورہ اور میر کا شعر اشارہ کر رہا ہے یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض محاورے تاریخی واقعات سے بھی رشتہ رکھتے ہیں مثلاً"احسان لیجئے جہاں کا مگر احسان نہ لیجئے شاہجہاں کا۔ "
یہ کہاوت ہے اور کسی وجہ سے شاہ جہاں کے زمانہ میں رائج ہوئی ہے اسی طرح"نادر گردی مرہٹہ گردی" اور جاٹ گردی بھی محاورہ کے معنی میں آتی ہے بری صورت حال کو کہتے ہیں مگر ان کا تعلق تاریخ سے ہے جب انتظام باقی نہ رہے مگر بہرحال اس صورتِ کا تعلق تاریخ کے حقائق سے توہے۔