• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو محا ورات اور زبان وبیان میں اُس کی اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آگے ہاتھ پیچھے پات
پات پیڑ کے پتہ کو کہتے ہیں ایسا غریب آدمی جس کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے بھی کچھ نہ ہو یہ محاورہ اُس کے لئے ہوتا ہے ہندوستان میں سادھو سنت اور خاص طور پر پر جین مت کو ماننے والے منی ننگے رہتے ہیں۔ جو غربت کے باعث نہیں ہوتا یونان میں بعض دیوتاؤں یا قدیم انسانوں کے پرائیوٹ حصّہ جسم کو انجیر کے پتے سے ڈھکتے تھے۔ وہ ایک فنکارانہ رو یہ تھا غربت وہاں بھی شریک نہیں تھی مگر ہمارے معاشرے میں غُربت و اِفلاس کو بھی اس پس منظر میں خصوصیت سے شامل کیا گیا ہے۔
غُربت پر ہمارے یہاں بہت محاورے ہیں اُن میں ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ اُس کے گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہے یا ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے بھوکا ننگا فقیر جیسے محاورے ہمارے معاشرے کی غربت کو ظاہر کرتی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اُلٹا توا ہونا، بے حد کالا ہونا
ہندوستان میں سانولا رنگ تو ہوتا ہی تھا اُس کی تعریف بھی کی جاتی تھی۔ لیکن زیادہ کالے رنگ کو ناپسند بھی کیا جاتا رہا ہے اسی لئے اُلٹا توا ہونا بہ حیثیت محاورے کے ہمارے ہاں رائج ہوا کہ وہ آدمی کیا ہے اُلٹا توا ہے۔ اس سے ہم یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ اُن لوگوں نے بطور محاورہ رائج کیا جو جو نسبتاً اچھے رنگ والے ہوتے تھے۔
اُلٹے لفظ اور مفہوم کے ساتھ بہت محاورے بنے ہیں اور ہمارے معاشرے کی ذہنی سطح کے مختلف رنگ اُس کے ذریعہ سامنے آتے ہیں مثلاً اُلٹی گنگا بہانا، بات کو الٹ پلٹ کر دیکھنا، یا دینا۔ اُلٹی سیفی پڑھنا یعنی بددعا دینا۔ اُلٹے پاؤں پھر آنا، فوری طور پر واپس لوٹ آنا، الٹے ملک کا ہونا، بے حد بیوقوف ہونا ملک کا لفظ ہماری عام زبان میں بہ طورِ علاقہ استعمال ہوتا تھا ملک اس معنی میں نہیں آتا تھا جس معنی میں اب آتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اُلٹی سانسیں آنا یا اُلٹے سانس آنا
اِس سے مراد ہے جان کنی کا عالم جب سانس اُکھڑ جاتی ہے دہلی میں اُسے" گھنگرو بجنا" کہتے ہیں کہ وہ خود ایک محاورہ ہے۔
الش کرنا
بادشاہوں یا امیروں کے لئے الگ سے جو اُن کا پسندیدہ کھانا ہوتا تھا وہ خاصہ کہلاتا تھا۔ اُس میں سب شریک نہیں ہوتے تھے امیر یا بادشاہ اُس میں سے جب بطورِ تحفہ کسی کو کچھ دیا جاتا تھا تو وہ" الش" کہلاتا تھا یہ ترکی لفظ ہے اور غالباً مغل بادشاہوں کے ساتھ آیا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
الف
حروفِ تہجی میں پہلا حرف ہے اور اِس اعتبار سے خاص معنی رکھتا ہے۔ ابتداء کو ظاہر کرتا ہے خدا کے نام یعنی"اللہ کا پہلا حرف ہے" الف اللہ" کا محاورہ ہے اور اس کے معنی سب سے الگ اور جدا۔ الِف کھینچنا گَداگری کرنے کو کہتے ہیں۔ "الف" کے ساتھ عریاں ہونے کا تصور بھی آتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ ننگا الف تھا۔
"پُرش" ہندو فلسفہ میں خدا کو بھی کہتے ہیں"الکھ پرش" خُدا کی ذات بھی ہے اور ایسے فقیر کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں سے آزاد اور الگ تھلگ رہتا ہو۔ ہندو کلچر میں" الکھ" کا لفظ بہت اہم اور مقدّس ہے۔ اسی لئے ایک مقدس ندی کا نام" الکھ نندا ہے"" الکھ داس" نام رکھا جاتا ہے"الکھ جگانا" یعنی جوش عقیدت پیدا کرنا۔ "آرتی اتارنا" بھجن پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اِس کے علاوہ کچھ مانگنے کو بھی درویشوں کی جگہ پر" الکھ جگانا" کہتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
الگ پڑنا، الگ تھلک ہو جانا یا الگ تھلگ کر دیا جانا
بہت سادہ سا محاورہ ہے جواب بھی استعمال ہوتا ہے کہ میں الگ پڑ گیا۔ یہ بھی ممکن ہے اور ہوتا رہا ہے کہ کوئی گروپ یا گروہ کسی ایک آدمی کے چلنے نہ دے اور یہ بھی ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے کہ آدمی اپنی جان بچانے کے لئے یہ کہے کہ میں اکیلا پڑ گیا تاکہ وہ الزام سے بچ جائے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ اللہ کرنا
مسلمانوں میں ایک معاشرتی رو یہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہر بات کو خُدا سے نسبت دیتے ہیں ایسا صوفیانہ طرزِ فکر کے تحت بھی ہوتا ہے تہذیبی رسوم و آداب کے تحت بھی اور اس میں معاشرے کی یہ ذہنی روش بھی شامل رہتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی انفرادی یا اجتماعی بُرائی چھُپانے کے لئے معاملہ کو مذہب کی چھتر چھایا میں لے آنا چاہتے ہیں مثلاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں ہوتا یہ کہنے والا اِس بات کو بھول جاتا ہے کہ اُس کی ناکامی میں اُس کی غلطی کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور دوسروں کی مکاریوں کو بھی ہم ہر بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اسی طرح کی باتوں کا سہارا لیتے ہیں چونکہ مذہب ہماری نفسیات میں داخل ہو گیا ہے اسی وجہ سے اِس بات کا رُخ بات بات میں مذہب کی طرف پھر جاتا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تہذیبی اظہار میں یہ رو یہ کہیں کہیں بہت خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اللہ نگہبان، اللہ حافظ، اللہ اللہ کرنا یا ہونا اس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے یعنی آخری وقت ہے اور خُدا یاد آ رہا ہے۔
دمِ واپس اب سرِ راہ ہے
عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے
اظہارِ تعجب کے لئے بھی اللہ اللہ کہا جاتا ہے جیسے اللہ اللہ یہ نوبت آ گئی۔ یا تم کوکسی بات سے کیا واسطہ تم تو اللہ اللہ کرو۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اللہ آمین سے بچہ پالنا، یا اللہ آمین کا بچہ ہونا
جو بچے بہت لاڈلے ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ خاندان یا ماں باپ کی بہت تمنائیں وابستہ ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے۔
اللہ ماری یا اللہ مارا یا خُدا ماری
یہ محاورہ اُس موقع پر بولتے ہیں جہاں عورتیں نگوڑا اور موا وغیرہ بولتی ہیں یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کچھ محاورے ہمارے یہاں صرف عورتوں سے متعلق ہیں مرد اِس کو استعمال نہیں کرتے۔
اللہ والا، خُدا رسیدہ، بہت نیک
یہ محاورہ دہلی میں فقیر کے لئے استعمال ہوتا ہے چاہے اِسے عورت کے ساتھ وابستہ کیا جائے یا مرد کے لئے اللہ نور نام بھی ہوتا ہے لیکن جب اللہ کانور کہتے ہیں تو اس سے مراد نورانی صورت ہوتی ہے ڈاڑھی کو بھی اللہ کانور کہا جاتا ہے۔
اللہ کے گھر سے پھرنا، شدید بیماری سے واپس آنا
جس کا یہ مطلب بھی ہے کہ موت خدا سے قُربت کا ذریعہ ہے اِسی لئے یہ محاورہ بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
الٰہی مہر ہونا
جس طرح سے کوئی مُہری دستاویز مصدِقہ ہوتی ہے اسی لئے جب یہ کہا جائے وہ الٰہی مہر ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رقم وہ بات وہ وعدہ نامہ ہر طرح مصدِقہ ہے۔ تصدیق شدہ ہے اور اُس سے انکار نہیں ہو سکتا۔
اللہ کا جی (جیو۔ جان) ہونا
جو آدمی بالکل سُوجھ بُوجھ سے بالکل محروم ہوتا ہے بس ایک معصوم جانور جیسا اُس کا ذہن اور اُسی کے مطابق اس کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کو اللہ کی جی کہتے ہیں یہاں اللہ کا جیو کہنا ایک خاص تہذیبی معنی بھی رکھتا ہے وہ یہ کہ اللہ تو ہر انسان کو معصوم اور بھولا بھالا پیدا کرتا ہے یہ تو آدمی کو اُس کا ماحول اور اُس کی اپنائی ہوئی زندگی کی قدریں ہوتی ہیں جو اسے مکاری پر آماد ہ کرتی ہیں اِس لئے کہ جانداروں یا جانوروں میں تجربہ تو ان کے ذہن کو بدلتا ہے ورنہ بیشتر وہ معصوم ہوتے ہیں اور اپنی فطرت پر قائم ہوتے ہیں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں ہر بات کو کسی نہ کسی پہلو سے خدائی ہی سے نسبت دی جاتی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اِلَّلذی نہ اُلَّلذِی، نہ اِدھر کا نہ اُدھر، الی اللذین ولا الی اللذین
دین کا نہ دنیا کا عربی زبان کے فقرہ کو اپنے محاورے میں ڈھال لینا اور اُس میں اُردو پن پیدا کر دینا ہمارے زبان دانوں کا بڑا کارنامہ ہے اور اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم نے دوسری زبانوں اور ادبیات کے نمونوں سے کچھ حاصل کیا ہے تو اُسے اپنے طور پر اور اپنے ذہن کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔
یہ اعتراض کہ اُردو میں تو بہت کچھ عربی فارسی یا پھر تُرکی یا تاتاری زبانوں سے آیا ہے غلط ہے ہم نے ان کے ذریعہ اپنی زبان کو زیادہ Enrich کیا ہے مختلف اعتبارات سے ترقی دی ہے اِس کو دیا نتداری اور ایک ارتقاء پذیر زبان کے تاریخی سفر سے وابستہ کرنا چاہیے محض کسی سیاسی حکمتِ عملی سے نہیں جو علمی دیانتداری کے خلاف ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپ سے خُوب خُدا کا نام
یعنی اپنے سے اچھا تو صرف خدا کا نام ہوتا ہے۔ اس سے سماج کی اِس نفسیات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر آدمی خود مرکزیت کا شکار ہوتا ہے کہ صرف میں سب کچھ ہوں اور مجھ سے بہتر کوئی نہیں بس خدا کا نام ہے اگر اس اعتبار سے محاوروں پر غور کیا جائے تو سماج کہ ذہن و زندگی سے کتنے پردے اٹھتے ہیں جن کے اندر ہم جھانک نہیں پاتے۔
 
Top