• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو محا ورات اور زبان وبیان میں اُس کی اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آب و دانہ اُٹھ جانا
آب، پانی۔ دانہ، کوئی بھی ایسی شے جو خوراک کے طور پر لی جائے۔ اور پرندے تو عام طور پر دانہ ہی لیتے ہیں۔ چونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آدمی کا رزق اوپر سے اترتا ہے اور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جس کو جہاں سے چاہے رزق دے۔ اور یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہوتا ہے اور تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا خبر ہے کس کا آب و دانہ کب اٹھ جائے اور جب تک آب و دانہ ہے، اسی وقت تک قیام بھی ہے۔ جب آب و دانہ اٹھ جائے گا تو قیام بھی ختم ہو جائے گا۔
یہ محاورہ ہمارے تہذیبی تصورات اور زندہ رہنے کے فطری تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ "آب و دانہ"، "آب و خور" اور"آب و خورش" بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ یہ ایک ہی محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ خُورش، خُور اور خُوراک فارسی الفاظ ہیں اور اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آب و رنگ
آب و رنگ کے معنی دوسرے ہیں، یعنی رونق، خوب صورتی، رنگینی اور رعنائی۔ آب دار اسی لیے چمک دار کو کہتے ہیں۔ آب داری کے معنی روشن اور چمک دار ہونے کی صِفت تھی اور بے آب ہونے کے معنی اپنی خوب صورتی سے محروم ہونا ہوتا ہے اور اس کے معنی عزت کھونے کے بھی آتے ہیں۔ لڑکی بے آب ہو گئی، یعنی بے عزت ہو گئی، اس کا کنوار پن ختم ہوا۔ "موتی کی سی آب" محاورہ ہے اور چمک دار موتی کو"درِ خوش آب" کہتے ہیں۔ اس معنی میں"آب" بمعنی عزت، توقیر، آن بان وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ جو استعاراتی معنی ہیں۔ یہاں بھی آب و رنگ اسی معنوں میں آیا ہے۔ رنگ خوب صورتی پیدا کرتا ہے اور"آب" تازگی، طراوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپ بیتی۔ اَپ بیتی
انسان کی تاریخ عجیب ہے۔ یہ اس کی اپنی تاریخ بھی ہے، اس کے ماحول کی تاریخ بھی ہے، اُس کی اپنی نسلوں کی تاریخ اور خود اس ملک یا اس نسل کی تاریخ بھی جس سے اِس کا تعلق ہوتا ہے۔ اب کوئی انسان، اپنے حالات کے تحت، یہ بھی ممکن ہے اپنی تاریخ بھول جائے اور کسی انسان کو اپنے ماحول، اپنی قوم اور اپنے شہر یا اپنے علاقہ کی تاریخ یاد رہے۔ اپنی تاریخ کو آپ بیتی کہتے ہیں اور دوسروں کی تاریخ کو جگ بیتی۔ جب انسان اپنے حالات لکھتا ہے یا بیان کرتا ہے تو اُسے وہ آپ بیتی کہتا ہے۔ ہم اسے خود نوشت سوانح عمری بھی کہتے ہیں۔ گفتگو میں جب آدمی اپنے حالات بیان کرتا ہے اور اگر اس میں اس کا اپنا غم شامل ہوتا ہے تو وہ اُس کی رام کہانی کہلاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں جگ بیتی نہیں آپ بیتی کہہ رہا ہوں۔ ہم نے خود نوشت سوانح کو آپ بیتی کہا ہے اور جب کسی کی خود نوشت سوانح کو اُردو یا ہندی میں ترجمہ کرتے ہیں تو اسے آپ بیتی کہتے ہیں، جیسے میر کی آپ بیتی، غالب کی آپ بیتی، خسرو کی آپ بیتی وغیرہ۔ کہانیاں، افسانہ، قصہّ، داستانیں بھی آپ بیتیاں ہوتی ہیں جن میں جگ بیتیوں کا زیادہ عنصر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم ان میں تاریخ، تہذیب و ثقافت کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ بھی شعوری، نیم شعوری یا لا شعوری طور پر ہمارے ماحول کی گزاری ہوئی زندگی یا گزارے جانے والے ذہنی ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح "آپ بیتی" اور جگ بیتی کا ہمارے تہذیبی ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنے تئیں شاخِ زعفران سمجھنا
آدمی میں اس کی اپنی نفسیات یا ماحول کی نفسیات کے تحت طرح طرح کے ذہنی رویّے develop ہو جاتے ہیں۔ اِن میں بدلاؤ بھی آتا ہے لیکن ایک وقت میں یہ انسان کے فکر و کردار کا بہت نمایاں حصّہ ہوتے ہیں اور اگر ان میں نمود و نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے تکلیف یا مذاق کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کو وہ عورت ہو یا مرد بڑا ہو یا چھوٹا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں یعنی بہت بڑی چیز خیال کرتے ہیں۔ زعفران جڑی بوٹیوں میں بہت قیمت کی چیز ہے۔ اسی لیے شاخِ زعفران ہونا گویا بڑی قدر و قیمت رکھنے والا شخص ہے۔
محاورے ہمارے معاشرتی رویوں پر جو روشنی ڈالتے ہیں اور سماج کے مزاج و معیار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اُن میں یہ محاورہ بھی شامل ہے۔ اپنے آپ کو دُور کھینچنا بھی کم و بیش اسی امتیاز پسندی اور مغروریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنا اُلّو سیدھا کرنا
عجیب و غریب محاورہ ہے جس میں اُلّو کے حوالہ سے بات کی گئی اور معاشرے کے ایک تکلیف دہ رویّہ کو سامنے لایا گیا یا اس پر طنز کیا گیا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آدمی وہ کوئی بھی ہو، اپنا بیگانہ، امیر غریب، دوسرے سے اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے اور مطلب برآری کے لیے دوسرے سے چاپلوسی اور خوشامد کی باتیں کرتا ہے اور مقصد اپنا مطلب نکالنے سے ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک اور محاورہ بھی ہے یعنی دوسرے کو" الّو بنانا" یعنی بیوقوف بنانا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اَپرادھ ہرنا (ہڑنا)
"ہڑنا" دیہات میں عام بولا جاتا ہے، جیسے پیسے ہڑنا، عقل ہڑنا۔ یہ ہڑنا ہڑپ کرنے کے معنی میں آتا ہے یعنی سُوجھ بُوجھ کو سلب کرلینا، عقل کو چھین لینا۔ اَپرادھ ہندی میں گناہ، قصور اور خطا کو کہتے ہیں۔ آدمی خدا کا قصور بھی کرتا ہے، سماج کے نقطۂ نظر سے بھی اس سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں۔ وہ جُرم کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ بے حد نقصان پہنچانے والے معاشرتی یا دینی جرم کو مذہب کی اِصطلاح میں پاپ، اَپرادھ یا گناہ کہتے ہیں۔ انسان کو اس طرح کے گناہوں کا احساس رہا ہے۔ اسی لیے اس نے معافی مانگنے کا اخلاقی رو یہ بھی اختیار کیا اور گناہ بخشوانے کا تصور بھی اس کی زندگی میں داخل رہا۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان نے گناہ بخشوانے یا بخشے جانے کا خیال ذہن میں رکھتے ہوئے طرح طرح کی باتیں سوچیں۔ مذہبی عبادات میں اس کے وسیلے تلاش کیے۔ مسلمانوں میں تو یہ بات یہاں تک آ گئی کہ فلاں وقت کی نماز پڑھنے یا حج کرنے سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ہندوؤں نے بھی تیرتھ یاترا اور اشنان میں ان وسائل کو ڈھونڈا اور آخر کار اس پر مطمئن ہو گئے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپ سُوار تھی
"سوار" ہندی میں خود غرضی کو کہتے ہیں، یعنی اپنا مطلب جسے آدمی ہر طرح حل کرنا چاہے۔ اُسے مطلب نکالنا بھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی عام کمزوری ہے اور پچھلی صدیوں کے حالات کا نتیجہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا سوچتا ہے تو بُرا ہی سوچتا ہے۔ اس کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے جب دوسرے کی طرف سے غلط سوچ سامنے آتی ہے تو اُس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غلط روش یا خود غرضانہ رویے سے بچنا نہیں چاہتا۔ اس بات کو لوگ سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارا ردِعمل بھی ہے اور یہ محاورے بھی جن میں انہیں رویوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ہم اپنی معاشرتی زندگی میں اِس کا مشاہدہ بھی روز روز کرتے ہیں مگر حالات کے دباؤ اور قدیمانہ روایت کے تحت اس کے خلاف کھُلم کھلا کچھ نہیں کہتے۔ اور کہتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ورنہ عام رو یہ یہ ہے کہ صبر کرو، برداشت کرو جب کہ سامنے کی بات بالکل یہ ہے۔ کہ ان روشوں کو کیوں نہ ترک کیا جائے، صرف برداشت ہی کیوں کرایا جائے۔ مگر انسان نے کچھ روایتیں تو اختیار کر لیں لیکن اپنے اوپر خود تنقید کرنا جسے خود احتسابی کہتے ہیں، وہ منظور نہیں کیا اور بد قسمتی یہ ہے کہ مذہب کے روایتی تصور نے بھی انسان کو اس میں مدد دینی شروع کی کہ وہ من مانی کرتا رہے۔ جب کہ مذہب کا اصل مقصد یہ نہ تھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپ رُوپ
اپنے آپ ہی سب کچھ ہونا۔ رُوپ کے معنی ہندو فلاسفی اور ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو فلسفہ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور سنوارا نہیں۔ اِس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مزاح کے طور پر، جس آدمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپ سے باہر ہونا یا آپے سے باہر ہونا
آپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور سوچا گیا ہے۔ "آپے سے باہر ہونا" ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ اُسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو آپے سے باہر ہو گیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غصّہ سے ہے کہ وہ اپنے غصّہ پر قابو نہیں رکھ سکتا۔
آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غصہّ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے جس کو ہر موقع اور تعلقات کے ہر مرحلہ میں پیشِ نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہارِ نا خوشی نہ کیا جائے، اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو
نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تر مصدر ہندوی ہیں اور اُن سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا ذہنی رو یہ کیا رہا ہے۔
"اور" کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ آدمی کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اُس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا بُرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو روا روی کا رو یہ موجود رہتا ہے کہ آدمی خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی بُرائی اس کو نظر نہیں آتی، دوسروں کی کمزوری کی طرف خواہ مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروں کا رو یہ بہت غلط، نہ روا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور سمجھ کر بات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و آبرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی ہے۔
 
Top