• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو محا ورات اور زبان وبیان میں اُس کی اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی ایڑی دیکھو
ایڑی پاؤں کا پچھلا اور نچلا حصّہ ہوتا ہے۔ اُس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کو آدمی نہیں دیکھتا اور جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ اُس کے اپنے عیب بھی ہو سکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا رُو نما ہوتی ہیں، اُن پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر آدمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی رادھا کو یاد کرو
سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق "رادھا" سری کرشن کی محبوبہ تھی۔ اُس کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ "سری کرشن" کی مزاج آشنا اور ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے میں مزاج شناسی اور خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔
عام طور سے ہم محبت کے رشتے کو جنس اور جذبہ کا رشتہ سمجھتے ہیں یا پھر خون کے رشتے کا تقاضہ، جب کہ محبت کا رشتہ خوبیوں کے اعتراف اور اعتماد کی دین ہوتا ہے۔ "کرشن اور رادھا" کے رشتے میں یہی خلوصِ خاطر اور دلی تعلق موجود تھا۔ جو سماجی رشتوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ نا پید ہوتا ہے۔
اِس محاورے میں اس پہلو کو طنز کے طور پر سامنے لایا گیا ہے کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑو، بے تعلق ہو جاؤ اور اپنی لگی سگی "رادھا" کو یاد کرو۔ رادھا کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عورتوں کا محاورہ ہے۔ چونکہ سماج میں عورت ایک گھرے ہوئے ماحول میں رہتی ہے، اِس لیے اس کے ہاں preservation یعنی محفوظ رکھنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے اور قدیمانہ ماحول، محاورے، زبان اور رسم و رواج زیادہ تر عورتوں ہی کے وسیلے سے باقی رہتے ہیں۔ تمام محاورے عورتوں کے ہی نہیں ہیں، یہ مختلف طبقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اُن میں سے بعض محاورے خاص طور پر مردوں سے ذہنی رشتہ رکھتے ہیں، مثلاً "اپنی صلیب آپ اُٹھانا۔" ظاہر ہے کہ عورتوں کو صلیب نہیں دی جاتی تھی، مردوں ہی کو دی جاتی تھی۔ "پھانسی چڑھنا" بھی مردوں ہی کا محاورہ ہے۔ "اپنی قبر آپ کھودنا" بھی مردوں کا محاورہ ہے، اس لیے کہ عورتیں قبرستان نہیں جاتیں اور نہ ہی قبر کھودتی ہیں۔ "اپنے قول کا پکا ہونا" بھی مردوں سے ہی متعلق محاورہ ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی کھال میں مست ہونا
معاشرے میں ہم ایک دوسرے کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں خود پسندی یا خود داری زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے احسان مند بننا نہیں چاہتے۔ اب اگر اُن کے پاس کچھ نہیں ہے تو ایک عجیب سی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں "اپنی کھال میں مست ہو جانا۔" یعنی ایک آدمی غریب بھی ہو، خود دار بھی ہو، یا پھر اپنے معاملات سے بے پروا اور بے خبر بھی رہنا چاہتا ہو، ایسے موقع پر طنزاً یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں۔ اپنی پروا بھی نہیں۔ وہ تو بس اپنی کھال میں مست ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے کا ایک نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اس سے اریب قریب"آپا بسرانا"، "آپا تجنا"، "آپا تج دینا" محاورے ہیں جن کے معنی ہیں خود فراموشی اختیار کرنا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی گُڑیا آپ سنوارنا
"گڑیاں" ہندوستانی تہذیب کی ایک علامت ہے۔ اب تو پلاسٹک کی گڑیاں بننے لگی ہیں۔ ایک زمانے میں یہ کپڑے اور روئی سے تیار ہوتی تھیں اور گھر کی بڑی بوڑھیاں بچیوں کے لیے کھیل کی غرض سے بناتی تھیں۔ گھر میں جو گھریلو سامان ہوتا ہے، اسی کی نقل گڑیوں کے برتنوں میں تیار کی جاتی تھی۔ چھوٹا سا پلنگ، تکیہ، لحاف اور پتیلی، چمچہ، کٹوری وغیرہ، وغیرہ۔
گڑیوں کی شادی رچائی جاتی تھی۔ مایوں کی رسم الگ ہوتی تھی۔ اِس کے علاوہ پیر مکوڑا الگ بنتا تھا۔ یہ کسی بزرگ کی چھوٹی سی قبر ہوتی تھی اور اُس کے چاروں طرف احاطہ اور جھنڈیاں نیز چھوٹی چھوٹی شمعیں جو اسی مقصد کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ اور اس طرح گویا ایک عُرس کا سماں باندھا جاتا تھا۔
گڑیوں کے ذریعہ بچیوں کو گھر گرہستی کے بہت سے کام آ جاتے تھے اور باتیں معلوم ہو جاتی تھیں۔ اپنی گڑیاں سنوارنا، اپنی گھر گرہستی کو بہتر بنانا، اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کرنا اُن کو سلیقہ سکھلانا۔ پڑھانے لکھانے کا پہلے رواج نہیں تھا۔ اِس سے ہم گھریلو معاشرت اور وہاں کی تہذیبی فضا کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی گوں کا یار
معاشرے میں جو بھی عیب ہوتے ہیں اُن کو ہم جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور محاورے زیادہ تر انہیں پر بنے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جو بات محاورے میں کہہ دی گئی، وہ بات واضح ہو گئی لیکن محاورے کی وجہ سے وہ پھر رواج عام کا حصّہ بن گئی اور اُس کی معاشرتی حیثیت پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ اِس محاورے میں گوں کے معنی ہیں خود غرض، مطلبی۔ ہم اسے اس طرح بھی کہتے ہیں کہ وہ ہماری "گوں کا آدمی" نہیں ہے۔
یعنی ہماری مطلب اس سے نہیں نکل سکتا۔ "گوں گیرا" بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی تلاش میں رہتا ہے۔ "اپنی گوں کا یار" بہت واضح صورت ہے کہ وہ خود غرض اور مطلبی ہے۔ "آپ سوارتھی" کے معنی بھی یہی ہیں جس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی چھا کو کون کھٹّی کہتا ہے
یہ محاورہ بھی ہمارے معاشرے کے رویّے پر ایک طنز ہے۔ "چھا" بلوئے ہوئے دُودھ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس سے گھی یا مکھن نکل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اور خاص طور پر پیٹ کو درست رکھنے کے لیے بہت اچھی غذا ہے، مگر کھٹی "چھا" مزے دار نہیں ہوتی۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محاورہ شہر سے وابستہ نہیں ہے۔ گاؤں یا قصبے سے متعلق ہے جہاں "چھا" پینے کا رواج عام تھا۔ کچھ لوگ "چھا" بیچتے بھی تھے اور کہتے تھے کہ ہماری "چھا" میٹھی ہے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اسی سے یہ محاورہ وجود میں آیا اور اب اس کے معنی ہمارے معاشرتی رویوں سے جڑ گئے کہ ہم اپنوں کو بُرا کہنا نہیں چاہتے اور اپنی کوئی برائی تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی چھا کو کون کھٹی بتاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ معاشرے کا ایک عیب ہے کہ وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ بول کر اپنا کام چلانا چاہتا ہے۔ اس میں شہر اور دیہات سب شریک ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی بات کا پچ کرنا
اپنی بات پر جمنا اور اُس کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دینا۔ وہ دلیلیں اس بات کو اور بگاڑ دیتی ہیں اور وہ صورت ہوتی ہے۔ "عذرِ گنا ہ بد تر از گناہ۔" اسی لیے بات میں سلیقہ ہونا چاہیے۔ جہاں یہ دیکھو کہ دلیل نہیں چلے گی، وہاں اپنی بات پر"اڑنے" کے بجائے معذرت کر لو اور غلطی کو مان لو۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنے نصیبوں کو رونا
مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتے ہیں۔ اب ہم جاپان اور چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے۔ مگر محاورہ اپنی جگہ پر ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر لوگ نکمّے پن کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، ناکام رہتے ہیں اور قسمت کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو رہے ہیں۔ تقدیر پر اعتماد کوئی بڑی بات نہیں مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد آدمی ایسا سوچے تو غلط نہیں ہے۔ وہاں بھی تقدیر کی بُرائی شریک نہیں ہوتی۔ دوسروں کی بدمعاشی، بد دیانتی شریک ہوتی ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، معاشرہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اور دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں، جھُوٹ سچ اور غلط سلط طریقہ سے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور جو زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایک کے ساتھ انصاف اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے اور آپ کو مصیبت میں ڈالے۔ اتفاقی طور پر کچھ باتیں ضرور ہو جاتی ہیں اور وہ بہت بڑے نقصان اور فائدے کا سبب بنتی ہیں۔ مگر سبب بہرحال اُن کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھنا
ہم جن معاشرتی کمزوریوں، برائیوں اور عیبوں کا شکار ہیں، اور نہ جانے کب سے رہے ہیں، اُن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، اُن پر تنقید کرتے ہیں، طعن و تعریض کرتے ہیں ؛ وہ خود ہم میں ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ہم کبھی اپنی طرف دیکھتے ہیں، نہ ان کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے خاندان، اپنے عزیز اور اپنے گروہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ عیب اُن میں بھی ہیں۔ صرف دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہیں سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں، دوسروں کے رویّے میں اختلاف کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے گریبان میں تو منہ ڈال کر دیکھو کہ تم خود کیا ہو، تمہارا اپنا کردار کیا ہے۔ تمہاری اپنی انسانی خو بیاں کیا ہیں اور کتنے عیب ہیں جو تمہارے اندر بھرے ہوئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ صرف کوئی سیدھا سادہ محاورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی ماحول اور آپسی رویّوں پر ایک تبصرہ ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اپنی اپنی پڑنا
آدمی خود غرض تو ہوتا ہی ہے، اس کی معاشرتی زندگی اور آپسی معاملات کے تلخ تجربے اس کی انسانی فطرت کو زیادہ گرد آلود کر دیتے ہیں۔ گاہ گاہ ہمارا ماحول اس طرح بدلتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے لیے جواز تلاش کر لیتے ہیں اور بے طرح خود غرضیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا یا اِن کے کام آنا، اُن کے مسائل سے دل چسپی لینا، اپنی مجبوری کے تحت ہو۔ آدمی صرف اپنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے؛ اپنی ضرورتوں کی طرف دیکھتا ہے؛ اس وقت سماج میں ایک آپا دھاپی شروع ہو جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اب کسی کو کسی کی پروا نہیں، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔
 
Top