اس موقع پر میں سمجھتا ہوں کہ یہاں پر اختلافی امور کو ہائیٹ لائٹ کر لیا جائے تاکہ بات منطقی انجام تک ہہنچ سکے ۔
1- اگر کوئی اپنے مسلکی عالم کی بشری خطا کی تردید نرم الفاظ سے کرے اور مخالف مسلک کے عالم سے تند و خو جملے استعمال کرے تو کیا مسلک پرستی کا
شائبہ اٹھتا ہے یا نہیں (نوٹ ۔ میں نے پہلے بھی مسلک پرستی کے
شائبہ کی ہی بات ہے نہ کہ اثری صاحب کو مسلک پرستی سے متھم کیا ہے)
لیکن مسلک پرستی کا شبہ اس وقت ہوتا ہے جب اپنے مسلک کے عالم میں خطا دیکھی تو اس کو بشری خطا قرار دے لیکن جب مخالف مسلک کی بات ہو تو بد دیانتی کا الزام دھر دیا
اگر اثری صاحب سرفراز صفدر صاحب کی علمی خطاوں (اگر وہ خطائیں ہیں ) کے ذکر کرنے کے بعد ان پر اگر اس طرح کے جملے نہ ہوتے تو مسلک پرستی کا شبہ کبھی سر نہ اٹھاتا
2- حافظ ابن حجر نے جو لين الحدیث کہا اثری صاحب کے ہاں اگر کسی نے اس کو ضعیف سے تعبیر کیا تو غلط ہے لیکن اگر کوئی اس کا ترجمہ کمزور سے کرے تو کیا وہ بھی صحیح ترجمہ ہے یا بعمنی ضعیف ہے
اب آتے ہیں آپ کی پوسٹ کی طرف
کسی کی تردید کرتے وقت ہم عصر علمائے کرام سے ایک دوسرے کے بارے میں سخت الفاظ کا صادر ہو جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ اسماء الرجال کی کتب مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ پھر سرفراز صاحب کا رد یا ان کے لئے مسلک پرستی وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال فقط اس ایک مثال پر قائم نہیں کہ راشدی صاحب کے لئے بھی وہی الفاظ استعمال کئے جاتے۔ سرفراز خاں صاحب اور ارشاد الحق اثری صاحب ہم عصر تھے اور ایک دوسرے کی تردید میں دونوں نے کتب لکھی ہیں۔ معاصرت کی وجہ سے تلخ الفاظ دونوں نے استعمال کئے ہیں۔ اگر آپ نے وہ کتب پڑھی ہیں تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔
اور "انہی الفاظ کے ساتھ" والی جہاں تک بات ہے یہ دعویٰ آپ بھی یقیناً اپنے علماء کے بارے میں نہیں کرتے ہوں گے کہ وہ مخالفین کی تردید میں جو الفاظ استعمال کرتے ہیں، اپنے ہم مسلک علماء سے اختلاف کی صورت میں وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں؟
۔
جب احناف حدیث کا کوئی ایسا مفہوم بیان کرتے ہیں جو اہل حدیث مسلک کے علماء کے مفہوم حدیث سے متصادم ہو تو احناف پر فورا مسلک پرستی کا الزام آتا ہے کہ احناف نے مسلک کی حمایت کی وجہ سے حدیث کا الگ مفہوم لیا ۔ اس طرح کچھ اور امور بھی ہیں جن کی وجہ سے احناف پر مسلک پرستی کا الزام آيا ۔ لیکن اگر کسی حنفی عالم کی بشری خطا کی وجہ سے حنفی عالم پر سنگین الزامات لگائے جائیں لیکن اپنے مسلک کی بات ہو تو بشری خطا کہلائے تو مسلک پرستی کا
شائبہ تو اٹھے گا
آپ سے ایسی توقع نہیں تھی۔
محترم اصطلاحات کے معنی کے لئے لغت یا قرآن نہیں دیکھا جاتا۔ متعلقہ فن ملاحظہ کرنا چاہئے۔ لین کے معنی کے لئے آپ نے قرآن کھول لیا ہے۔ حالانکہ خود آگے جا کر ظفر عثمانی صاحب کے حوالہ سے لین الحدیث کی تعریف میں نرمی کا کوئی لفظ شامل نہیں کیا۔ اگر لین کا معنی نرمی لیا جائے تو لین الحدیث، کا ترجمہ آپ کیا کریں گے؟ حدیث میں نرم؟ یا حدیث میں کمزور؟
نیز اپنے یہ الفاظ یاد رکھیں کہ "کمزور" حدیث کی اصطلاح نہیں ہے۔
مجھے معلوم نہیں راشدی صاحب نے لین الحدیث کا ترمجہ لفظی کیا تھا یا اصطلاحی ۔ اس لئیے میں نے دونوں پہلوں کے حوالہ سے جواب دیا تھا ۔ آپ اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ یہاں لغوی اعتبار سے " کمزور" ترجمہ نہیں ہوا ۔ اب چوں کہ یہ متفقہ پوائنٹ ہے تو میں اس پر مذید کوئی بحث نہیں کروں گا
آگے آپ کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ
1- حافظ ابن الحجر کے ہاں لین الحدیث والے راوی کو ضعیف نہیں کہا جاسکتا اور جر اعتراض اس سلسلے میں سرفراز صفدر صاحب پر کیا ہے وہ صحیح ہے ۔ میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کررہا ہوں (لطف کی بات یہ ہے کہ میں نے احسن کلام کل شام کو دوبارہ دیکھی تو مجھے وہ عبارت نظر نہیں آئی جس پر اثری صاحب اعتراض کر رہے ہیں شاید نظر چوک گئی ہوگی لیکن چوں کہ ہمارا موضوع یہ نہیں۔ مجھے اصل اعتراض اس پر ہے کہ جس عبارت پر اثری صاحب نے اعتراض کیا وہ عبارت راشدی صاحب کی کتاب میں بھی ہے )
2- دوسری بات جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے راشدی صاحب نے جو لین الحدیث راوی کو کمزور کہا تو وہ اس اعتراض کی زد میں نہیں آتے جو اثری صاحب نے کیا ہے اور یہی
اختلافی امر ہے اور میرا کہنا ہے کہ راشدی صاحب نے جو لین الحدیث کو کمزور کہا تو اثری صاحب کی تنقید کی زد میں آتے ہیں
آپ نے اثری صاحب کا مکمل جملہ نقل نہیں کیا۔ جس سے بات بدل گئی۔ اثری صاحب یہاں پر یہ بتا رہے تھے کہ اصطلاحاً حافظ ابن حجر کے نزدیک ضعیف مرتبہ کے راوی اور لین الحدیث میں فرق ہے۔ اور جن حضرات نے بھی مراتب بیان کئے ہیں، انہوں نے لین الحدیث اور ضعیف الحدیث کو علیحدہ ذکر کیا ہے۔ پھر کچھ حوالہ جات کے بعدعثمانی صاحب کا اقتباس درج کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ لین الحدیث کے یہ معنی مولانا ظفر احمد عثمانی مرحوم کی زبانی بیان کئے گئے ہیں اور اس اصولی بات کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں کہ اگر حافظ ابن حجر ؒ خود لین الحدیث اور ضعیف الحدیث میں فرق کرتے ہیں تو پھر لین الحدیث کا ترجمہ ضعیف الحدیث کر دینا، حافظ ابن حجر کی بیان کردہ اصطلاح کے اعتبار سے کیونکر درست ٹھہرایا جا سکتا ہے؟۔ ظاہر ہے اس سے ان دونوں الفاظ میں تفریق بے معنی ہو جائے گی۔
یاد رکھئے آپ کے اقتباس کردہ یہ الفاظ، اثری صاحب کے نہیں ہیں بلکہ عثمانی صاحب کے ہیں۔ اور مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب کا یہ جملہ نقل کرنا بطور الزام ہے کہ انہوں نے بھی لین الحدیث اور ضعیف الحدیث میں تفریق کی ہے۔ اور یہ بھی ملاحظہ کیجئے کہ لین الحدیث ،خود مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب کے نزدیک بھی تعدیل کے قریب لفظ ہے۔ نا کہ تعدیل ہے۔ اور پھر یہ بھی دیکھئے کہ لین الحدیث اگر عثمانی صاحب کے نزدیک تعدیل کے قریب کا لفظ ہے ، تو سرفراز خان صفدر صاحب کا اسے ضعیف کہنا درست ہے یا غلط؟
اثری صاحب نے عثمانی صاحب کا اقتباس نقل کیا تو وہ اس اقتباس سے متفق تھے تو نقل کیا اور اپنے موقف کی تائید میں لائے اور اقتباس میں ہے کہ
تعدیل کے قریب تو کیا ایک کمزور راوی تعدیل کے قریب ہو سکتا ہے
یہاں آپ نے ساری بات ادھر کی ادھر کر دی۔
غور کیجئے۔
اثری صاحب نے سرفراز خان صاحب کی عبارت پر اعتراض بھلا کیا کیا تھا؟
حالانکہ اصطلاحا" لین الحدیث" کے یہ معنی قطعا نہیں کہ وہ حدیث میں ضعیف ہے ۔ حافظ ابن حجر نے تقریب التھذیب کے مقدمہ میں الفاظ جرح و تعدیل کے مراتب بیان کرتے ہوئے "لین الحدیث " کو چھٹے اور ضعیف کو آٹھویں مرتبہ میں ذکر کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر کی یہ تفریق خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک" لین الحدیث" راوی ضعیف مرتبہ کا نہیں ہوتا۔ ۔
پہلی بات: لین الحدیث کے معنی "اصطلاحاً" ضعیف کرنا درست نہیں۔ کیونکہ ضعیف علیحدہ اصطلاح ہے اور لین الحدیث علیحدہ۔ کس کے نزدیک؟ خود حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک، جن کا کلام پیش کیا جا رہا ہے۔
دوسری بات: اثری صاحب کا اصل اعتراض، حافظ ابن حجر ہی کی وضاحت کی روشنی میں ہے اور وہ یہی ہے کہ سرفراز خان صاحب نے حافظ ابن حجر کے جو الفاظ "لین الحدیث" نقل کئے، تو ان کا ترجمہ حافظ ابن حجرؒ کی اصطلاح کے مطابق کرنا چاہئے تھا۔ اور چونکہ حافظ ابن حجرؒ لین الحدیث اور ضعیف الحدیث میں تفریق کرتے ہیں (بطور الزام حوالہ عثمانی صاحب کا بھی پیش کیا ہے) لہٰذا سرفراز صاحب کا یہاں لین الحدیث کا ترجمہ ضعیف کرنا بہرحال غلط ٹھہرتا ہے۔
اور یہ اعتراض راشدی صاحب پر اس لئے فٹ نہیں بیٹھتا، کیونکہ راشدی صاحب کہیں بھی اصطلاح کی بات نہیں کر رہے۔ اور حافظ ابن حجر ؒ کا اقتباس لے کر لین الحدیث کو ضعیف الحدیث قرار نہیں دیتے۔ بلکہ عام اردو کا لفظ کمزور استعمال کرتے ہیں۔ جو لین الحدیث کا درست معنی ہو یا نہ ہو، حافظ ابن حجر کے کلام کے مخالف نہیں ٹھہرتا جبکہ سرفراز صاحب کے جملے میں حافظ ابن حجر کے کلام کی مخالفت ظاہر ہے۔ واللہ اعلم۔
قرائن سے معلوم ہو رہا ہے کہ راشدی صاحب نے کمزور سے مراد اصطلاحی ضعیف ہی لیا ہے ۔ جب کوئی محدث ایک راوی کی توثیق یا تضعییف کرتا ہے تو ایسے شواہد لاتا ہے جو اس کے موقف کے موید ہوں نہ کہ اس کے موقف کو کمزور کریں ۔ جب راشدی صاحب نے ایک راوی کو ضعیف کہا اور اس کی تائید میں حافظ ابن حجر کا قول لائے کہ مذکورہ راوی لین الحدیث ہے تو اس کا مطلب ہے راشدی صاحب سمجھ رہے ہیں کہ حافظ ابن حجر کا لین الحدیث کہنا ضعیف کے معنی میں ہے ورنہ وہ اس کو کبھی اپنے موقف کی تائید میں لاتے ۔ کیوں اگر حافظ ابن حجر کا لین الحدیث کہنا ضعیف سے کم ردجہ کا ہے تو راشدی صاحب جو ایک راوی کوضعیف کہ رہے ہیں تو ان کا موقف کمزور ہوجاتا ہے جس کا مطلب واضح ہے راشدی صاحب نے کمزور ضعیف کا ترجمہ ہی کیا ہے
مذید یہ اسی فورم پر ایسی تحاریر موجود ہیں جن میں کسی راوی کو ضعیف کہا گيا تو تائید میں جہاں دیگر محدثین کے اقوال لائے گئے وہاں حافظ ابن حجر کے حوالہ سے لین الحدیث کہا گيا ۔ اگر اہل حدیث علماء کے نذدیک لیں الحدیث اور ضعیف میں واضح فرق ہے تو راوی کے ضعف کی تائید میں لین الحدیث کیوں لایا گيا ۔
ایک مثال واضح ہو
http://www.kitabosunnat.com/forum/موضوع-ومنکر-روایات-46/ایصال-ثواب-سے-متعلق-بعض-ضعیف-ومردود-روایات۔-10278/#post69720
لہٰذا آپ خود سے درج ذیل سوالات پوچھ سکتے ہیں:
1۔ لین الحدیث اور ضعیف الحدیث حافظ ابن حجر کے نزدیک ایک ہی معنی میں ہے یا نہیں؟ ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ حافظ ابن حجر ان دونوں کے معنی میں تفریق کرتے ہیں اور بلکہ خود عثمانی صاحب نے بھی یہ تفریق کی ہے۔
لین الحدیث اور ضعیف الحدیث حافظ ابن حجر کے نزدیک دو معنی میں ہے اور اس پر میں کوئی اعتراض نہیں کررہا ۔ اعتراض اس پر ہے راشدی صاحب نے بھی اس تفریق کا خیال نہیں رکھا
2۔ لین الحدیث کا درست ترجمہ آپ کے نزدیک کیا ہے۔ کیونکہ بقول عثمانی صاحب یہ تعدیل نہیں، بلکہ تعدیل کے قریب ہے۔ اسی طرح حافظ ابن حجر کے نزدیک چھٹے درجے کا راوی تو لین الحدیث ہے، لیکن آٹھویں درجہ کا راوی ضعیف الحدیث ہے۔ لہٰذا ایسا راوی جو تعدیل اور ضعیف کے درمیان ہو، اس کے لئے اصطلاحاً لین الحدیث کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس کا اردو میں کمزور معنی کر دینا ہرگز غلط نہیں۔ لیکن لین الحدیث کو ضعیف الحدیث قرار دینا بہرحال غلط ہے، کیونکہ دونوں الفاظ میں تفریق ثابت ہے۔ جبکہ لین الحدیث اور کمزور کے الفاظ میں تفریق ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر نے لين الحدیث کے متعلق کہا
السادسة: من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بلفظ: مقبول، حيث يتابع، وإلا فلين الحديث.
حافظ ابن حجر کے قول کا مفہوم ہے اگر ایک راوی جس کی حدیث بہت کم ہو اور اس کی جرح ثابت نہ ہو لیکن اس کی متابعت نہ ہو تو لین الحدیث کہلائے گا
یعنی حافظ ابن حجر کے نذدیک جس راوی میں تین صفات ہوں وہ لین الحدیث کہلائے گا
1- قلہ الحدیث 2 اس کے متعلق ایسی کوئی بات ثابت نہ جس کی وجہ سے اس راوی کی حدیث چھوڑی جائے (یعنی اس پر جرح ثابت نہ ہو) 3 ۔ تفرد الراوی
تو کیا ایسے راوی کو
کمزور کہا جاسکتا ہے ۔
کہنے کا مقصد اور خلاصہ یہ ہے کہ اگر جن راویوں کو حافظ ابن حجر نے لین الحدیث کہا اس کا مطلب اگر ضعیف غلط ہے تو کمزور کہنا بھی غلط ہے