عبداللہ عزام
رکن
- شمولیت
- مئی 01، 2014
- پیغامات
- 60
- ری ایکشن اسکور
- 38
- پوائنٹ
- 63
کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے نام پیغام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہایت قابل قدر طلبہ کرام!السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ:۔
محترم حضرات!جدائی نے جب سے اپنے منحوس ہاتھ مسلم جوانوں کے گریبان میں ڈال رکھے ہیں،اور ساتھ ہی اغیار نے مسلمانوںکے دلوں کے اندر محبت والفت کے فولڈر کو کھرچنا شروع کر رکھا ہے ،اور جب سے ایک جان مسلمان نوجوانوں کے درمیان جدت پسندی اور قدامت پسندی کی دیوار کھڑی کر رکھی ہے ،تب سے ستاروں پر کمند ڈالنے والے نوجوانوں کا فقدان امت مسلمہ کی گھٹی میں آچکا ہے،اور امت مسلمہ بزبان حال کہتی ہیں:۔
{آجا کہ انتظار کے سب دیپ بجھ گئے} {کب تک تصورات سے محفل سجائیں ہم}
مگر محفل کی رونقیں جدت پسندی کی دنیامیں کھو چکی ہیں۔ہم اس دجالی میڈیا کے تناظر میں آپ حضرات کے تصورات کے سکرین پر اپنا قدیم اور وحشی حلیہ صاف دیکھتے ہیں ،کہ آپ حضرات کا ہمارے متعلق کیا تصور ہے،مگر الحمدللہ اس کے بر عکس آپ حضرات کے صلاحیتوں اور مبارک جذبات سے ہم خوب لطف اندوز ہورہے ہیں کہ یہ سب ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے ہی کشتی کے سوار ہیں۔آپ حضرات سے بھی ہماری یہ درخواست ہے کہ آپ ہمیں غیر نہ سمجھیں ،بلکہ ہمارا موقف معلوم کرنے کی کوشش کریں ۔
قابل صد احترام بھائیو! اس حقیقت سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ ایک جہاندیدہ ،عقل مند،سلجھا ہوا شخص اسلام اور مسلمانوں کی راہ نمائی جس انداز میں کرسکتاہے،جاہل ان پڑھ شخص ہر گز نہیں کرسکتا ۔بلکہ نا اہل لوگ اُلٹا اسلام کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں یہی تو وجہ ہے کہ اسلام کے دشمن سنجیدہ لوگوں کو مسلمانوں کی راہنمائی سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،مختلف غلط پروپیگنڈوںکے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی نفرت ان کی قلوب میں ڈالتے ہیں ،مختلف ناموں سے ہمارے درمیان تفریق اور امتیاز کی فضاء پیدا کرتے ہیں ۔کبھی روشن خیالی اور تاریک خیالی کے نام سے ،کبھی شرپسندی اور امن پسندی کے نام سے ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ہم اتنے تاریک خیال ہیں کہ موجودہ حالات کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔اور نہ ہی آپ حضرات اتنے روشن خیال ہیں کہ اپنے ایمان و اعمال اور عقیدہ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ہم بھی الحمدللہ یہ چاہتے ہیں کہ جتنی تجدیدات ہیں اور جتنے انسانی لوازمات ہیں یہ سب مسلمانوں کو میسر ہو ،مگر ہم ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے جینے کا حق اغیار کے قبضے میں نہ ہو ،یہ چیزیں مسلمانوں کی عزت و آبروں کے عوض نہ ہو ہمیں اغیار کے تجربوں اور ٹیکنالوجی سے انکار نہیں ہے ۔
مگر ان کی کلچر سے ہمیں ضرور انکار ہے کیا ایک مسلمان کفری عقائد و نظریات سے یک طرف ہوکر متقی پرہیز گار ہوکر ڈاکٹر ،انجنیئر،یاسائنسدان نہیں ہوسکتا؟یقینا ہوسکتا ہے تو ایسے ڈاکٹر ،انجیئر،سائنسدان کا کون تاریک خیال مخالف ہوسکتا ہے ؟
اور ایک زناکا ر،بدکار،فحاش،ضمیر فروش مسلمان کا کون روشن خیال مسلمان معتقد ہوسکتا ہے ،روشن خیالی کی انتہاء تو قرآن نے کفر بتایاہے،سورۃ بقرہ میں ارشاد ہے ،ولن ترضی عنک الیهود ُولاانصاریٰ حتی تتبع ملتهم ... الخ کہ یہود ونصاریٰ تم سے اس وقت تک ہر گز راضی نہیں ہونگے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کروگے...الخ۔تو شرعی حدود کے اندر تاریک خیالی او ر روشن خیالی میں ہم اور آپ مساوی ہیں ۔کہ نہ تو ہم مسلمانوں کو جدید سائنس ،ٹیکنالوجی اور ترقی سے دور رکھنے کے قائل ہیں،اور نہ ہی آپ حضرات ان چیزوں کے حصول کیساتھ یہود و نصاریٰ کے کلچر ،نظریات اور عقائد کو اختیار کرنے کے قائل ہیں ،لہٰذا ہم آپ ایک ہی کشتی کے سوار ہوئے۔
ایک مرتبہ ایک صحافی کیساتھ کسی موضوع پر گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ
some thing is batter then nothing
تو میں نے عرض کیا کہ
the some thing is a snake then nothing is batter then something if
یقیناً خالی جیب بہتر ہے اس سے کہ کوئی تیرے جیب میں سانپ ڈال دیں۔
تو یہ ایک غلط فہمی ہے جو کہ دشمن نے تاریک خیالی اور روشن خیالی کے نام پر پیدا کر رکھی ہے ۔ہاں مجاہدین اسلام کے شکل میں ایسے لوگ ہونگے جو اسلام کو ایک محدود دائرے کے اندر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہونگے ،اپنی طبیعت اور منشاء کو وہ اسلام سمجھتے ہونگے ،انکے اقوال و افعال یقیناً دائرہ اسلام سے باہر ہونگے ۔
مگر ساتھ تعلیم یافتہ طبقوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں ،ہزاروں لاکھوں کے تعداد میں ،جو اسلامی شکل و صورت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ،ان کے دل ودماغ مغربی روشن خیالی کے نظر ہوچکے ہیں ان کی ساری صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کو دشمن کے غلام اور محکوم بنانے میں صرف ہورہی ہیں ،دن رات دشمن کے بیہودہ تبلیغات میں یکسر مصروف رہتے ہیں ۔اپنی ماؤں،بہنوں کی عزت و آبرو کے سودا گر بن چکے ہیں ،ان حضرات کے نزدیک روشن خیالی سے مراد ،بے دینی ،بے حیائی ،عریانی اور فحٖاشی ہے،اور یقیناً ہم میں سے کوئی بھی ایسی روشن خیالی کیلئے تیار نہیں ہے۔
اب ہم مل کر ہی حد سے تجاوز کرنے والے تاریک خیال اور روشن خیالوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔اور دشمن کے خام خیالی پر مٹی ڈال کر دکھا سکتے ہیں کہ دیکھوں تاریک خیال اور روشن خیال حضرات نے مل کر امت مرحومہ کا بیڑا پار کردیا ،غلامی اور محکومی کی زنجیروں کو توڑ دیا۔
تو پیارو!ہم وحشی نہیں ہم درندے نہیں ،ہم آپ حضرات کے محبت و اُنس کے پیاسے ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
؎{لگے ہیں شمع پر پہرے زمانے کی نگاہوں کے جنہیں جلنے کی حسرت ہے وہ پروانے کہاں جائے}
تو ہمارے محبوب عوام پر اغیار کے پہرے لگے ہیں کہ نہ ہمیں ملنے دیتے ہیں نہ بات کرنے دیتے ہیں ۔
{نہ تڑپنے کی اجازت نہ فریاد کی ہے۔گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میری صیاد کی ہے۔ }
میرے بھائیو!اگر ایک مانوس پالتوجانور کوبھی انسانون سے ایک مدت تک دور رکھاجائے،سارے لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئے،تو یقیناً یہ مانوس جانور بھی وحشی درندہ بن جائیگا،لہٰذا ا ٓپ حضرات ہمیں قریب سے دیکھیں کبھی تو غلطی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں کہ ہم ایک ہی نظر میں کتنے محبت کے گیت سناتے ہیں ،ہمارے وحشی چہروں پر کبھی تو الفت کا ہاتھ پھر کر دیکھیں کہ کیسے مبدل بہ انس ہوتے ہیں ۔آؤ ہم مل کر اقبال کے اس شعر کا مصداق بنتے ہیں
{،محبت مجھے ان جوانوں سے ۔ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند}
جان سے عزیز طلبہ کرام ! حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور حکمرانی کی حوص نے اور جہاد کے نام فساد پہلانے والے عناصر نے عوامۃالناس کا ستیاناس کردیا ،اب ہم مل کر ہی اس مظلوم عوام کی تقدیر کو ان ظالموں کے ہاتھ سے نکال سکتے ہیں۔
یاد رکھو!یہ وحشی مگر مخلص چہرے آہستہ آہستہ فنا ہورہے ہیں ،اگر ان تمام پر اجل کی خاموشی چھاگئی اور دشمن کا مفلوج ہاتھ آزادانہ طور پر مسلمانوں کے گریبان میں پڑگیا پھر ان حضرات کی اہمیت کااحساس ہوجائیگا مگر ۔۔
{سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے تو کیاکیا ۔ دن میں اگر چراغ جلائے تو کیاکیا}
آخر میں ہم آپ حضرات سے یہی عرض کریں گے ۔
{ایسے ویرانے میں ایک دن گھٹ کر مر جائیں گے ہم۔جتنا جی چاہے پکاروں پھر نہیں آئیں گے ہم}
اب اجازت دیجیے۔اللہ حافظ
مفتی ابوہشام محسودجنوبی وزیرستان ایجنسی