• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ارض وزیرستان سے ایک عالم دین کا پیغام ۔۔۔ کالج و یونیورسٹی کے طلبا کے نام

شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے نام پیغام

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہایت قابل قدر طلبہ کرام!السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ:۔​
محترم حضرات!جدائی نے جب سے اپنے منحوس ہاتھ مسلم جوانوں کے گریبان میں ڈال رکھے ہیں،اور ساتھ ہی اغیار نے مسلمانوںکے دلوں کے اندر محبت والفت کے فولڈر کو کھرچنا شروع کر رکھا ہے ،اور جب سے ایک جان مسلمان نوجوانوں کے درمیان جدت پسندی اور قدامت پسندی کی دیوار کھڑی کر رکھی ہے ،تب سے ستاروں پر کمند ڈالنے والے نوجوانوں کا فقدان امت مسلمہ کی گھٹی میں آچکا ہے،
اور امت مسلمہ بزبان حال کہتی ہیں:۔
{آجا کہ انتظار کے سب دیپ بجھ گئے} {کب تک تصورات سے محفل سجائیں ہم}
مگر محفل کی رونقیں جدت پسندی کی دنیامیں کھو چکی ہیں۔ہم اس دجالی میڈیا کے تناظر میں آپ حضرات کے تصورات کے سکرین پر اپنا قدیم اور وحشی حلیہ صاف دیکھتے ہیں ،کہ آپ حضرات کا ہمارے متعلق کیا تصور ہے،مگر الحمدللہ اس کے بر عکس آپ حضرات کے صلاحیتوں اور مبارک جذبات سے ہم خوب لطف اندوز ہورہے ہیں کہ یہ سب ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے ہی کشتی کے سوار ہیں۔آپ حضرات سے بھی ہماری یہ درخواست ہے کہ آپ ہمیں غیر نہ سمجھیں ،بلکہ ہمارا موقف معلوم کرنے کی کوشش کریں ۔
قابل صد احترام بھائیو! اس حقیقت سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ ایک جہاندیدہ ،عقل مند،سلجھا ہوا شخص اسلام اور مسلمانوں کی راہ نمائی جس انداز میں کرسکتاہے،جاہل ان پڑھ شخص ہر گز نہیں کرسکتا ۔بلکہ نا اہل لوگ اُلٹا اسلام کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں یہی تو وجہ ہے کہ اسلام کے دشمن سنجیدہ لوگوں کو مسلمانوں کی راہنمائی سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،مختلف غلط پروپیگنڈوںکے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی نفرت ان کی قلوب میں ڈالتے ہیں ،مختلف ناموں سے ہمارے درمیان تفریق اور امتیاز کی فضاء پیدا کرتے ہیں ۔کبھی روشن خیالی اور تاریک خیالی کے نام سے ،کبھی شرپسندی اور امن پسندی کے نام سے ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ہم اتنے تاریک خیال ہیں کہ موجودہ حالات کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔اور نہ ہی آپ حضرات اتنے روشن خیال ہیں کہ اپنے ایمان و اعمال اور عقیدہ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ہم بھی الحمدللہ یہ چاہتے ہیں کہ جتنی تجدیدات ہیں اور جتنے انسانی لوازمات ہیں یہ سب مسلمانوں کو میسر ہو ،مگر ہم ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے جینے کا حق اغیار کے قبضے میں نہ ہو ،یہ چیزیں مسلمانوں کی عزت و آبروں کے عوض نہ ہو ہمیں اغیار کے تجربوں اور ٹیکنالوجی سے انکار نہیں ہے ۔
مگر ان کی کلچر سے ہمیں ضرور انکار ہے کیا ایک مسلمان کفری عقائد و نظریات سے یک طرف ہوکر متقی پرہیز گار ہوکر ڈاکٹر ،انجنیئر،یاسائنسدان نہیں ہوسکتا؟یقینا ہوسکتا ہے تو ایسے ڈاکٹر ،انجیئر،سائنسدان کا کون تاریک خیال مخالف ہوسکتا ہے ؟
اور ایک زناکا ر،بدکار،فحاش،ضمیر فروش مسلمان کا کون روشن خیال مسلمان معتقد ہوسکتا ہے ،روشن خیالی کی انتہاء تو قرآن نے کفر بتایاہے،سورۃ بقرہ میں ارشاد ہے ،ولن ترضی عنک الیهود ُولاانصاریٰ حتی تتبع ملتهم ... الخ کہ یہود ونصاریٰ تم سے اس وقت تک ہر گز راضی نہیں ہونگے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کروگے...الخ۔تو شرعی حدود کے اندر تاریک خیالی او ر روشن خیالی میں ہم اور آپ مساوی ہیں ۔کہ نہ تو ہم مسلمانوں کو جدید سائنس ،ٹیکنالوجی اور ترقی سے دور رکھنے کے قائل ہیں،اور نہ ہی آپ حضرات ان چیزوں کے حصول کیساتھ یہود و نصاریٰ کے کلچر ،نظریات اور عقائد کو اختیار کرنے کے قائل ہیں ،لہٰذا ہم آپ ایک ہی کشتی کے سوار ہوئے۔
ایک مرتبہ ایک صحافی کیساتھ کسی موضوع پر گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ
some thing is batter then nothing
تو میں نے عرض کیا کہ
the some thing is a snake then nothing is batter then something if
یقیناً خالی جیب بہتر ہے اس سے کہ کوئی تیرے جیب میں سانپ ڈال دیں۔
تو یہ ایک غلط فہمی ہے جو کہ دشمن نے تاریک خیالی اور روشن خیالی کے نام پر پیدا کر رکھی ہے ۔ہاں مجاہدین اسلام کے شکل میں ایسے لوگ ہونگے جو اسلام کو ایک محدود دائرے کے اندر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہونگے ،اپنی طبیعت اور منشاء کو وہ اسلام سمجھتے ہونگے ،انکے اقوال و افعال یقیناً دائرہ اسلام سے باہر ہونگے ۔
مگر ساتھ تعلیم یافتہ طبقوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں ،ہزاروں لاکھوں کے تعداد میں ،جو اسلامی شکل و صورت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ،ان کے دل ودماغ مغربی روشن خیالی کے نظر ہوچکے ہیں ان کی ساری صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کو دشمن کے غلام اور محکوم بنانے میں صرف ہورہی ہیں ،دن رات دشمن کے بیہودہ تبلیغات میں یکسر مصروف رہتے ہیں ۔اپنی ماؤں،بہنوں کی عزت و آبرو کے سودا گر بن چکے ہیں ،ان حضرات کے نزدیک روشن خیالی سے مراد ،بے دینی ،بے حیائی ،عریانی اور فحٖاشی ہے،اور یقیناً ہم میں سے کوئی بھی ایسی روشن خیالی کیلئے تیار نہیں ہے۔
اب ہم مل کر ہی حد سے تجاوز کرنے والے تاریک خیال اور روشن خیالوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔اور دشمن کے خام خیالی پر مٹی ڈال کر دکھا سکتے ہیں کہ دیکھوں تاریک خیال اور روشن خیال حضرات نے مل کر امت مرحومہ کا بیڑا پار کردیا ،غلامی اور محکومی کی زنجیروں کو توڑ دیا۔
تو پیارو!ہم وحشی نہیں ہم درندے نہیں ،ہم آپ حضرات کے محبت و اُنس کے پیاسے ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
؎{لگے ہیں شمع پر پہرے زمانے کی نگاہوں کے جنہیں جلنے کی حسرت ہے وہ پروانے کہاں جائے}
تو ہمارے محبوب عوام پر اغیار کے پہرے لگے ہیں کہ نہ ہمیں ملنے دیتے ہیں نہ بات کرنے دیتے ہیں ۔
{نہ تڑپنے کی اجازت نہ فریاد کی ہے۔گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میری صیاد کی ہے۔ }
میرے بھائیو!اگر ایک مانوس پالتوجانور کوبھی انسانون سے ایک مدت تک دور رکھاجائے،سارے لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئے،تو یقیناً یہ مانوس جانور بھی وحشی درندہ بن جائیگا،لہٰذا ا ٓپ حضرات ہمیں قریب سے دیکھیں کبھی تو غلطی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں کہ ہم ایک ہی نظر میں کتنے محبت کے گیت سناتے ہیں ،ہمارے وحشی چہروں پر کبھی تو الفت کا ہاتھ پھر کر دیکھیں کہ کیسے مبدل بہ انس ہوتے ہیں ۔آؤ ہم مل کر اقبال کے اس شعر کا مصداق بنتے ہیں
{،محبت مجھے ان جوانوں سے ۔ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند}
جان سے عزیز طلبہ کرام ! حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور حکمرانی کی حوص نے اور جہاد کے نام فساد پہلانے والے عناصر نے عوامۃالناس کا ستیاناس کردیا ،اب ہم مل کر ہی اس مظلوم عوام کی تقدیر کو ان ظالموں کے ہاتھ سے نکال سکتے ہیں۔
یاد رکھو!یہ وحشی مگر مخلص چہرے آہستہ آہستہ فنا ہورہے ہیں ،اگر ان تمام پر اجل کی خاموشی چھاگئی اور دشمن کا مفلوج ہاتھ آزادانہ طور پر مسلمانوں کے گریبان میں پڑگیا پھر ان حضرات کی اہمیت کااحساس ہوجائیگا مگر ۔۔
{سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے تو کیاکیا ۔ دن میں اگر چراغ جلائے تو کیاکیا}
آخر میں ہم آپ حضرات سے یہی عرض کریں گے ۔
{ایسے ویرانے میں ایک دن گھٹ کر مر جائیں گے ہم۔جتنا جی چاہے پکاروں پھر نہیں آئیں گے ہم}
اب اجازت دیجیے۔اللہ حافظ
مفتی ابوہشام محسودجنوبی وزیرستان ایجنسی
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
مجموعی طور پر مفید سوچ اور تحریر ہے۔
عبدہ بھائی ، کچھ معلومات چاہیئے کہ وزیرستان میں آئے دن ان کی جانب سے خود کش اور چیک پوسٹس پر حملے بھی تو کیئے جاتے ہیں۔
اس مسئلے کے لیے اسلام سے کیسا حل ملتا ہے ؟؟
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
مجموعی طور پر مفید سوچ اور تحریر ہے۔
عبدہ بھائی ، کچھ معلومات چاہیئے کہ وزیرستان میں آئے دن ان کی جانب سے خود کش اور چیک پوسٹس پر حملے بھی تو کیئے جاتے ہیں۔
اس مسئلے کے لیے اسلام سے کیسا حل ملتا ہے ؟؟

پاکستانی افواج و حکومت کے خلاف طالبان کے حملوں کے حوالے دو موضوعات میں نے اس پر فورم پر ارسال کیے تھے۔
1۔ پاکستان میں جہاد کے متعلق افغان طالبان کا موقف
2۔ پاکستان میں جہاد کے متعلق شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کا موقف
دونوں موضوعات سے طالبان کے پاکستانی افواج پر حملوں کی تائید ہوتی ہے شاید اسی لئے فورم انتظامیہ نے دونوں موضوعات کو فورم سے ہٹا دیا ہے ۔۔ تاہم اس کو درج ذیل لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔
http://www.box.com/s/2ggwa5awcja3oxopexpc

آپ کی سہولت کے لئے یہاں اپلوڈ بھی کر رہا ہوں اگر فورم انتظامیہ اس کو ہٹا نہ دے تو۔۔۔
 

اٹیچمنٹس

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم حضرات!جدائی نے جب سے اپنے منحوس ہاتھ مسلم جوانوں کے گریبان میں ڈال رکھے ہیں،اور ساتھ ہی اغیار نے مسلمانوںکے دلوں کے اندر محبت والفت کے فولڈر کو کھرچنا شروع کر رکھا ہے ،اور جب سے ایک جان مسلمان نوجوانوں کے درمیان جدت پسندی اور قدامت پسندی کی دیوار کھڑی کر رکھی ہے ،تب سے ستاروں پر کمند ڈالنے والے نوجوانوں کا فقدان امت مسلمہ کی گھٹی میں آچکا ہے،
اور امت مسلمہ بزبان حال کہتی ہیں:۔
{آجا کہ انتظار کے سب دیپ بجھ گئے} {کب تک تصورات سے محفل سجائیں ہم}
جزاک اللہ خیرا

مگر محفل کی رونقیں جدت پسندی کی دنیامیں کھو چکی ہیں۔ہم اس دجالی میڈیا کے تناظر میں آپ حضرات کے تصورات کے سکرین پر اپنا قدیم اور وحشی حلیہ صاف دیکھتے ہیں ،کہ آپ حضرات کا ہمارے متعلق کیا تصور ہے،مگر الحمدللہ اس کے بر عکس آپ حضرات کے صلاحیتوں اور مبارک جذبات سے ہم خوب لطف اندوز ہورہے ہیں کہ یہ سب ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے ہی کشتی کے سوار ہیں۔آپ حضرات سے بھی ہماری یہ درخواست ہے کہ آپ ہمیں غیر نہ سمجھیں ،بلکہ ہمارا موقف معلوم کرنے کی کوشش کریں ۔
جی آپ کی بات درست ہے ہمیں کم از کم ایک دوسرے کی بات اچھے طریقے سے سننی چاہئے اور دوسرے کو بھی اپنی سوچ رکھنے کی اجازت دینی چاہئے اگر وہ اسلام کے دائرے کے اندر رہتی ہو یہ بات طرفین کو سوچنی چاہئے یعنی اگر کوئی جہاد ہی نہیں کر رہا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ جہاد کو فساد کہتا ہے یا منکر جہاد ہے یہ بھی تو احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ شریعت کی روشنی میں کسی خاص حالات کو جہاد کے لئے مناسب نہ سمجھتا ہو جیسے ہمارے شیخ محترم امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتاوی میں کچھ اس طرح کی وضآحت ہے اور دوسری طرف اگر کوئی جہاد کر رہا ہے اور اس سے اجتہادی غلطی ہو جاتی ہے (جیسے کہ احد میں کچھ صحابہ سے غلطی ہو گئی تھی حتی کہ اس پر قرآن میں وعید بھی آئی تھی) تو ہم اسکو گمراہ اور ایجنٹ جیسے غیر مدلل القابات نہ دیں واللہ اعلم

قابل صد احترام بھائیو! اس حقیقت سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ ایک جہاندیدہ ،عقل مند،سلجھا ہوا شخص اسلام اور مسلمانوں کی راہ نمائی جس انداز میں کرسکتاہے،جاہل ان پڑھ شخص ہر گز نہیں کرسکتا ۔بلکہ نا اہل لوگ اُلٹا اسلام کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں یہی تو وجہ ہے کہ اسلام کے دشمن سنجیدہ لوگوں کو مسلمانوں کی راہنمائی سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،مختلف غلط پروپیگنڈوںکے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی نفرت ان کی قلوب میں ڈالتے ہیں ،مختلف ناموں سے ہمارے درمیان تفریق اور امتیاز کی فضاء پیدا کرتے ہیں ۔کبھی روشن خیالی اور تاریک خیالی کے نام سے ،کبھی شرپسندی اور امن پسندی کے نام سے ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ہم اتنے تاریک خیال ہیں کہ موجودہ حالات کے تقاضوں سے ناواقف ہیں۔اور نہ ہی آپ حضرات اتنے روشن خیال ہیں کہ اپنے ایمان و اعمال اور عقیدہ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ہم بھی الحمدللہ یہ چاہتے ہیں کہ جتنی تجدیدات ہیں اور جتنے انسانی لوازمات ہیں یہ سب مسلمانوں کو میسر ہو ،مگر ہم ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے جینے کا حق اغیار کے قبضے میں نہ ہو ،یہ چیزیں مسلمانوں کی عزت و آبروں کے عوض نہ ہو ہمیں اغیار کے تجربوں اور ٹیکنالوجی سے انکار نہیں ہے ۔
مگر ان کی کلچر سے ہمیں ضرور انکار ہے کیا ایک مسلمان کفری عقائد و نظریات سے یک طرف ہوکر متقی پرہیز گار ہوکر ڈاکٹر ،انجنیئر،یاسائنسدان نہیں ہوسکتا؟یقینا ہوسکتا ہے تو ایسے ڈاکٹر ،انجیئر،سائنسدان کا کون تاریک خیال مخالف ہوسکتا ہے ؟
اور ایک زناکا ر،بدکار،فحاش،ضمیر فروش مسلمان کا کون روشن خیال مسلمان معتقد ہوسکتا ہے ،روشن خیالی کی انتہاء تو قرآن نے کفر بتایاہے،سورۃ بقرہ میں ارشاد ہے ،ولن ترضی عنک الیهود ُولاانصاریٰ حتی تتبع ملتهم ... الخ کہ یہود ونصاریٰ تم سے اس وقت تک ہر گز راضی نہیں ہونگے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کروگے...الخ۔تو شرعی حدود کے اندر تاریک خیالی او ر روشن خیالی میں ہم اور آپ مساوی ہیں ۔کہ نہ تو ہم مسلمانوں کو جدید سائنس ،ٹیکنالوجی اور ترقی سے دور رکھنے کے قائل ہیں،اور نہ ہی آپ حضرات ان چیزوں کے حصول کیساتھ یہود و نصاریٰ کے کلچر ،نظریات اور عقائد کو اختیار کرنے کے قائل ہیں ،لہٰذا ہم آپ ایک ہی کشتی کے سوار ہوئے۔
جی محترم بھائی اور اس سنجیدگی میں شریعت کا تفقہ بھی شامل ہونا چاہئے ورنہ خالی خآلص نیت کے اخلاص سے بات درست نہیں ہوتی یا خالی دنیاوی علم سے ہی حق حاصل شاید نہ ہو سکتا ہو یا آسانی پیدا کر سکتا ہے اگر درست طریقے سے استعمال کیا جائے جزاک اللہ خیرا

ایک مرتبہ ایک صحافی کیساتھ کسی موضوع پر گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ
some thing is batter then nothing
تو میں نے عرض کیا کہ
the some thing is a snake then nothing is batter then something if
یقیناً خالی جیب بہتر ہے اس سے کہ کوئی تیرے جیب میں سانپ ڈال دیں۔
تو یہ ایک غلط فہمی ہے جو کہ دشمن نے تاریک خیالی اور روشن خیالی کے نام پر پیدا کر رکھی ہے ۔ہاں مجاہدین اسلام کے شکل میں ایسے لوگ ہونگے جو اسلام کو ایک محدود دائرے کے اندر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہونگے ،اپنی طبیعت اور منشاء کو وہ اسلام سمجھتے ہونگے ،انکے اقوال و افعال یقیناً دائرہ اسلام سے باہر ہونگے ۔
جی محترم بھائی آپ کی بعض موقعوں کے لئے درست ہے یالبتہ ہ بات غلط بھی ہو سکتی ہے جب ہم غلط سمجھ رہے ہوں یعنی ایک سمجھ رہا ہو کہ وہ ہماری جیب میں سانپ ڈال رہا ہے اور دوسرا سمجھ رہا ہو کہ وہ ہماری جیب میں چانپ (بکرے کی) ڈال رہا ہے پس فرق تو سمجھنے کی وجہ سے آیا پس اسکی تحقیق ہونی لازمی ہے کہ آیا وہ واقعی سانپ ہے یا شرعی طور پر اس میں علماء میں اختلاف ہے پھر ہمیں اپنے علم کے مطابق اور علماء کے راجح قول کے مطابو اسکو سانپ یا چانپ سمجھنا پڑے گا


تو پیارو!ہم وحشی نہیں ہم درندے نہیں ،ہم آپ حضرات کے محبت و اُنس کے پیاسے ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ۔
؎{لگے ہیں شمع پر پہرے زمانے کی نگاہوں کے جنہیں جلنے کی حسرت ہے وہ پروانے کہاں جائے}
تو ہمارے محبوب عوام پر اغیار کے پہرے لگے ہیں کہ نہ ہمیں ملنے دیتے ہیں نہ بات کرنے دیتے ہیں ۔
{نہ تڑپنے کی اجازت نہ فریاد کی ہے۔گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میری صیاد کی ہے۔ }
میرے بھائیو!اگر ایک مانوس پالتوجانور کوبھی انسانون سے ایک مدت تک دور رکھاجائے،سارے لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئے،تو یقیناً یہ مانوس جانور بھی وحشی درندہ بن جائیگا،لہٰذا ا ٓپ حضرات ہمیں قریب سے دیکھیں کبھی تو غلطی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں کہ ہم ایک ہی نظر میں کتنے محبت کے گیت سناتے ہیں ،ہمارے وحشی چہروں پر کبھی تو الفت کا ہاتھ پھر کر دیکھیں کہ کیسے مبدل بہ انس ہوتے ہیں ۔آؤ ہم مل کر اقبال کے اس شعر کا مصداق بنتے ہیں
{،محبت مجھے ان جوانوں سے ۔ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند}
جزاک اللہ خیرا ہمیں پتا ہے آپ کے اندر خلوص ہے البتہ ہمارا آپ سے طریقہ کار کا اختلاف ہونا ہمارے بھائی چارے کو ختم تو نہیں کرتا

جان سے عزیز طلبہ کرام ! حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور حکمرانی کی حوص نے اور جہاد کے نام فساد پہلانے والے عناصر نے عوامۃالناس کا ستیاناس کردیا ،اب ہم مل کر ہی اس مظلوم عوام کی تقدیر کو ان ظالموں کے ہاتھ سے نکال سکتے ہیں۔
جی محترم بھائی اس بات کا انکار شاید ہی کوئی دینی جماعت کرتی ہو کہ ہمیں ان حکمرانوں سے نجات حاصل کرنی ہے اور شریعت کا نفاذ کرنا ہے البتہ اختلاف آگے طریقے کا ہے

یاد رکھو!یہ وحشی مگر مخلص چہرے آہستہ آہستہ فنا ہورہے ہیں ،اگر ان تمام پر اجل کی خاموشی چھاگئی اور دشمن کا مفلوج ہاتھ آزادانہ طور پر مسلمانوں کے گریبان میں پڑگیا پھر ان حضرات کی اہمیت کااحساس ہوجائیگا مگر ۔۔
{سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے تو کیاکیا ۔ دن میں اگر چراغ جلائے تو کیاکیا}
جی محترم بھائی جہاد کرنے والے سارے چہرے ہمارے لئے مخلص ہی ہیں چاہے وہ عرب مجایدین ہوں یا کوئی اور- ہم انکی کامیابی کی دعا کرتے ہیں البتہ علماء میں جہاد کے طریقے اور مصلحت اور مفسدہ پر جو اختلاف ہے اس کی وجہ سے جہاد کرنے والوں میں اختلاف کو بھی ہم ہوا نہیں دینا چاہتے کیونکہ ہم کسی کی نیت کا حال نہیں جانتے
اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور ہمارے مجاہدین کی مدد و نصرت کرے امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
مجموعی طور پر مفید سوچ اور تحریر ہے۔
عبدہ بھائی ، کچھ معلومات چاہیئے کہ وزیرستان میں آئے دن ان کی جانب سے خود کش اور چیک پوسٹس پر حملے بھی تو کیئے جاتے ہیں۔اس مسئلے کے لیے اسلام سے کیسا حل ملتا ہے ؟؟
جزاک اللہ خیرا بہنا یہاں مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ آپ کا سوال خود کش حملہ کے جائز نا جائز ہونے کا ہے یا پھر پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے کے جائز یا ناجائز ہونے کا ہے میں دونوں کا مختصر جواب دیتا ہوں جس کی تفصیل چاہئے ہو تو لکھ دوں گا
1-خود کش حملوں کے مطلقا جواز کا قائل تو شاید کوئی نہیں البتہ کچھ ضرورتوں کے تحت اسکے جواز کا فتوی انتہائی مجبوری کے تحت دیا جاتا ہے جیسا کہ ہماری جماعت کی ہی کتاب جہاد اسائکوپیڈیا میں مفتی عبد الرحمن رحمانی رحمہ اللہ نے اسکے بعض صورتوں میں مستحب ہونے کا فتوی دیا ہوا ہے اور بھی بڑے علماء سے اسکا فتوی ملتا ہے پاکستان کے فوجیوں نے بھی ایسا کیا ہے جیسے ٹینکوں کی جنگ یا راشد منہاس کا معاملہ وغیرہ
البتہ میرے خیال میں (جس سے فقہی اختلاف بھی رکھا جا سکتا ہےکیونکہ یہ فقہی معاملہ ہے) اسکے لئے بہت سوچنے اور دینی علم رکھنے کی ضرورت ہے اور صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی اور راستہ بھی نہ ہو اور مصلحت بہت ہی زیادہ ہو آج کل کے حملوں کی طرح نہیں جس میں میرے علم کے مطابق فائدہ نہیں ہوتا واللہ اعلم
2-پاکستان کے خلاف خود کش حملہ تو دور کی بات عام جہاد بھی کرنا میرے خیال میں شریعت کے مصلحت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے درست نہیں اور اسکے بارے میں نے دلائل مختلف مقامات پر دئے ہوئے ہیں البتہ یہ بھی اوپر کی طرح میرا اپنا نظریہ ہے پس کوئی مجھ سے اختلاف بھی کر سکتا ہے جیسے ہماری چھوٹی بہنا مشکٰوۃ نے اس پوسٹ کے ساتھ کیا ہے میں اسکو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اللہ انکو بات کو دل میں نہ رکھنے پر جزائے خیر دے امین البتہ جب مجھے دلائل سے سمجھ آ جائے گا تو میں اللہ کی توفیق سے رجوع کر لوں گا واللہ اعلم
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
ابتسامہ۔۔۔عبدہ بھائی آپ کی پوسٹ سے میری ریٹنگ بالکل بھی میل نہیں کھاتی ۔۔میں نے تو ریٹنگ مختصر پوسٹ پر دی تھی لیکن اب پوسٹ نےخاصہ قد وقامت نکال لیا ہے ۔۔معذرت کے ساتھ کافی مضحکہ خیز سے بات لگ رہی ہے کہ آپ نے پوسٹ میں ہی لکھا ہوا ہے ۔
پس کوئی مجھ سے اختلاف بھی کر سکتا ہے جیسے ہماری چھوٹی بہنا مشکٰوۃ نے اس پوسٹ کے ساتھ کیا ہے
پڑھنے سےیوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو پہلے ہی پتہ تھا اس پوسٹ کو میں نے غیر متفق ریٹ کرنا ہے ۔۔۔ابتسامہ
خیر یہ بات سمجھایئے گا کہ راشد منہاس کی خود کشی مستحب تھی؟؟اور خود کش حملہ صرف پاکستان میں ہی "مصلحت" کے تحت جائز نہیں یا پوری دنیا میں یہ "مصلحت " لاگو ہوتی ہے۔۔۔
کیونکہ موجودہ "جرار"اور گزشتہ"غزوہ" میں ایسے ہی کچھ حملوں کی تعریف و توصیف ہوچکی ہے لیکن شائد اب نظریہ ضرورت کے تحت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ابتسامہ۔۔۔عبدہ بھائی آپ کی پوسٹ سے میری ریٹنگ بالکل بھی میل نہیں کھاتی ۔۔میں نے تو ریٹنگ مختصر پوسٹ پر دی تھی لیکن اب پوسٹ نےخاصہ قد وقامت نکال لیا ہے ۔۔معذرت کے ساتھ کافی مضحکہ خیز سے بات لگ رہی ہے کہ آپ نے پوسٹ میں ہی لکھا ہوا ہے ۔

پڑھنے سےیوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو پہلے ہی پتہ تھا اس پوسٹ کو میں نے غیر متفق ریٹ کرنا ہے ۔۔۔ابتسامہ
بہنا اصل میں آپ نے پوسٹ پر کمنٹس دینے کی بجائے خالی غیر متفق کر دیا تو میں نئی پوسٹ میں اسکا جواب لکھنے کی بجائے ادھر ہی اختلاف والی بات لکھ دی
البتہ بات کا اتنا زیادہ قد و قامت بھی نہیں نکالا تھا خآلی اسکو ہیل والی جوتی پہنائی تھی تو اتنی لمبی ہو گئی (ابتسامہ)

خیر یہ بات سمجھایئے گا کہ راشد منہاس کی خود کشی مستحب تھی؟؟
بہنا ایک تو یہ بتا دوں کہ میں نے راشد منہاس کی مثال صرف اسکو مطلقا ناجائز کہنے والوں کو سمجھانے کے لئے لکھی تھی کہ جو خود کش حملوں کو مطلقا نا جائز اور حرام کہ رہے ہوتے ہیں وہ راشد منہاس کے حملے کو حلال کہ رہے ہوتے ہیں تو عقل مند اور پر خلوص لوگوں کو قائل کرنا مشکل ہو جاتا ہے

دوسری بات کہاں تک راشد منہاس کے خود کش حملے کی شرعی حیثیت کی ہے تو میرے نزدیک امام بخآری کے ترجمۃ الباب العلم قبل القول والعمل کے تحت کسی انسان کے عمل کی درستگی اسکی خالی نیت پر انحصار نہیں کرتی بلکہ اسکو اسکا علم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ یہ عمل کیوں کر رہا ہے جیسے کلمہ پڑھنا خآلی مطلوب نہیں جب تک آپ کو اسکے مفہوم کا مکمل علم نہ ہو جیسا کہ شروط لا الہ الا للہ میں بتایا جاتا ہے پس کوئی انسان جب خود کش حملہ کرتا ہے وہاں مندرجہ ذیل چیزیں دیکھی جاسکتی ہیں
1-نیت نیک ہو یعنی خلوص نیت
2-اسکو یہ بھی علم ہو کہ میں یہ عمل کیوں کر رہا ہوں یعنی اللہ کے لئے کر رہا ہوں یا کسی اور کے لئے- پس اگر کوئی کسی وطن کے لئے جان دے رہا ہے اور اس سے اسکا مقصد یہ ہو کہ اس وطن کو بچانے سے اللہ کا دین غالب ہو گا اور واقعی وہ خلوص دل سے اللہ کے دین کو غالب دیکھنا چاہتا ہے اور یہ بھی پتا ہے دین کے غلبہ سے کیا مراد ہے تو سمجھیں کہ اسکا عمل قبل العلم نہیں بلکہ العلم قبل العمل ہے پھر شاید اس کو اجر ملے گا اگرچہ پریکٹیکل اسکی سوچ ممکن نہ بھی ہو واللہ علم
3-اوپر سوچ کے بعد اسکو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا خود کش حملہ ہی واحد راستہ ہے یا اسکی کتنی ضرورت ہے

میرے خیال میں اوپر تین نمبروں میں سے پہلے دو نمبروں میں غلطی نہ ہونا لازمی ہے البتہ تیسرے میں غلطی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ سوچنا کہ اس وقت محلحت کیا ہے اور ضرورت کتنی ہے تو اسکے لئے سمجھدار ہونے کے علاوہ دین کے علم کی بھی بہت ضرورت ہے جو سب کے پاس ایک جیسا نہیں ہوتا واللہ اعلم

اور خود کش حملہ صرف پاکستان میں ہی "مصلحت" کے تحت جائز نہیں یا پوری دنیا میں یہ "مصلحت " لاگو ہوتی ہے۔۔۔
اس مصلحت کا تعلق علاقے سے نہیں بلکہ حالات سے ہے مثلا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اندر کے گستاخ رسول عبد اللہ بن ابی کو (جسکی گستاخی کا گواہ قرآن ہے) کسی مصلحت کے تحت قتل نہیں کروایا مگر ابو رافع (اسکا نام بھی عبد اللہ بن ابی ہی آتا ہے) اور کعب بن اشرف کو قتل کروایا
اب کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ ابو رافع (عبد اللہ بن ابی) دوسرے عبد اللہ بن ابی سے زیادہ خطرناک تھا بلکہ مصلحت کو دیکھتے ہوئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے کیونکہ عام لوگوں تک ہر تفصیل نہیں پہنچ سکتی تو آج کل تو میڈیا دجالی ہے تو بات کو کس طرح بگاڑ کر آگے پیش کرے گا تو نقصان اسلام کا ہی ہو گا
جلدی میں اتنا ہی لکھ سکا اگر بات سمجھ نہ آئی ہو یا میرے سمجھانے کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل ہو تو الدین نصیحۃ کے تحت لازمی بتائیں جزاک اللہ خیرا

کیونکہ موجودہ "جرار"اور گزشتہ"غزوہ" میں ایسے ہی کچھ حملوں کی تعریف و توصیف ہوچکی ہے لیکن شائد اب نظریہ ضرورت کے تحت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اوپر بتا چکا ہوں کہ کچھ لوگ خآص حالات اور خاص مقامات کو دیکھتے ہوئے ان خود کش حملوں کو مناسب نہیں سمجھتے تو انکی سوچ کو غلط نہیں کہا جا سکتا البتہ اگر آپ یہ کہیں کہ پہلے یہ کود کش حملوں کو حلال کہتے تھے یا جماعۃ الدعوہ کی کتاب جہاد انسائکلو پیڈیا میں انکو مستحب کہا ہوا ہے تو اب اسکو مطلقا حرام کیوں کہ رہے ہیں تو میرے خیال میں جب ایل علم کے درمیان بات ہوتی ہے تو میں نے کسی جماعۃ الدعوہ والے کو ان کو مطلقا حرام کہتے نہیں دیکھا البتہ کچھ مجبوریوں یا نظریہ ضرورت کے تحت (جو اگر جائز ہو تو اسکو شریعت میں مصلحت کہا جاتا ہے) آج عامی لوگوں کے سامنے کچھ جماعت والے انکو مطلقا حرام کہتے نظر آتے ہیں تو اسکی وجہ مصلحت اور ساتھ عامی انسان کی کم علمی ہے اسکو اگر یہ سارے دلائل سمجھانے بیٹھ جائیں گے تو معاملہ بگڑ جائے گا جس طرح بچا پوچھتا ہے کہ اللہ کتنا بڑا ہے یا اس طرح کا کوئی اور سوال پوچھ لیتا ہے تو اسکو سمجھانے کی بجائے اسکا رخ دوسری طرف پھیرا جاتا ہے واللہ اعلم
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
جزاک اللہ خیر بھائی! یہی بات تو سمجھ نہیں آتی کہ ایک کام دوسروں کے لئے ناجائز ہے لیکن اپنے وہی کام کریں تو "فرض"بنا دیا جاتاہے ۔
اللہ تعالٰٰی آپ کو آپ کے خلوص اور نیک نیتی کا بہترین اجر عطا فرمائیں۔۔۔آمین یا رب العالمین
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
سب سے پہلے تو عرض یہ ہے کہ فدائی حملہ کو " خودکش حملہ " کہنا بھی غلط ہے ۔
مجھے ڈر ہے اس بات کا کہ ایک دن یہ لوگ جہاد کو بھی " خود کش جہاد" کا نام دینے لگ جائیں گے ۔
اپنے آپ کو مارنا اور ہلاک کرنا منع اور حرام ہے ۔
کسی تکلیف کے باعث اپنے آپ کو مارنا حرام ہے ، چاہے جہاد میں ہی کیوں نہ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک شخص کی پیشنگوئی کی تھی کہ یہ جہنمی ہے اس نے بعد میں تکلیف کے باعث نیزہ یا تلوار کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تھا ۔
عن أبي سعيد سعد بن سنان الخدري رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( لا ضرر ولا ضرار ) ، حديث حسن رواه ابن ماجة والدارقطني وغيرهما مسندا ، ورواه مالك في الموطأ مرسلا : عن عمرو بن يحيى عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم ، فأسقط أبا سعيد ، وله طرق يقوي بعضها بعضا .

حالت کے پیش نظر قتال فرض ہے جس میں مارنا اور مرنا دونوں لازم اور ملزوم ہے ۔
جبکہ جہاد میں تقریباً نناوے فیصد یقین ہوتا ہے کہ میں مارا جاؤں گا ۔ لیکن نیت اور مقصد اس میں اصل چیز ہے ،
جس کی وجہ سے ایسی کاروائی کو اس دور کے تقاضوں کے پیش نظر دشمن اسلام کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی خاطر جائز ہے ۔ واللہ اعلم
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
سب سے پہلے تو عرض یہ ہے کہ فدائی حملہ کو " خودکش حملہ " کہنا بھی غلط ہے مجھے ڈر ہے اس بات کا کہ ایک دن یہ لوگ جہاد کو بھی " خود کش جہاد" کا نام دینے لگ جائیں گے


محترم بھائی یہ لغوی طور پر کہا جاتا ہے جو جائز ہے کیونکہ خود کشی کا لفظ دو باتوں پر بولا جا سکتا ہے
1-اپنے آپ کو خود مارنا (مقصد چاہے جو مرضی ہو)
2-اپنے آپ کو مارنے کا انتظام کرنا (مقصد چاہے جو مرضی ہو)

پہلے پ تو آپ اعتراض نہیں کریں گے دوسرے پر اگر ابہام ہو تو بخاری کی جادوگر، بچہ اور راہب والی حدیث یعنی اصحاب الاخدود والوں کا معاملہ آپ کو پتا ہو گا کہ بچے نے اپنے مارنے کا بندوبست خود کیا تھا اور اس کو بہت سے علماء خود کش حملہ کی دلیل بناتے ہیں چنانچہ محدث رسالہ میں بھی ایک دفعہ میں نے پڑھا تھا کہ ہمارے شیخ محترم عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا انٹرویو چھپا تھا جو انہوں نے عامر لیاقت کو دیا تھا جس میں عامر لیاقت نے پوچھا تھا کہ ان کے پاس خود کش حملے کی کیا دلیل ہے تو انہوں نے اسی حدیث کا حوالی دیا تھا کہ اس کو دلیل بنایا جاتا ہے

1-اپنے آپ کو مارنا اور ہلاک کرنا منع اور حرام ہے ۔
2-کسی تکلیف کے باعث اپنے آپ کو مارنا حرام ہے

پہلی بات مطلق کی گئی ہے جس کو بنیاد بنا کر آپ نے اوپر فدائی حملہ کو خود کش حملہ کہنا غلط کہا تھا مگر آپ کی یہ مطق بات ہی غلط ہے اور آپ کو بھی اس کا احساس ہے تبھی آپ نے دوسرے نمبر میں خود ہی اسکو شرط سے مقید کر دیا پس خود کش حملہ میں نیت کو بھی دیکھا جائے گا اور فقہی طور پر اسکی ضرورت کو بھی دیکھا جائے گا ڈائریکٹ خود کشی کا حکم نہیں لگا سکتے باقی وضاحت میں نے اوپر کر دی ہے

حالت کے پیش نظر قتال فرض ہے جس میں مارنا اور مرنا دونوں لازم اور ملزوم ہے ۔
جبکہ جہاد میں تقریباً نناوے فیصد یقین ہوتا ہے کہ میں مارا جاؤں گا ۔ لیکن نیت اور مقصد اس میں اصل چیز ہے ،
جی محترم بھائی میرا ان لوگوں سے فقہی اختلاف ہے کہ جو خود کش حملہ اور فدائی حملہ میں اس بنیاد پر فرق کرتے ہیں کہ خود کش میں چونکہ 100 فیصد خود کشی کا چانس ہوتا ہے اور فدائی میں 60 یا 70 فیصد ہوتا ہے پس یہ مطلقا حرام ہیں
میں کہتا ہوں کہ 100 فیصد صورت میں ہو یا 60 فیصد میں دونوں طرح اس میں خود کشی کا پہلو تو شامل ہے مثلا کوئی انسان ٹرین کے آگے لیٹتا ہے تو تقریبا 100 فیصد مرنے کے چانس ہیں اگر بس کے آگے لیٹے گا تو کم ہیں اور کار کے آگے اور کم ہوں گے اور موٹر سائیکل کے آگے اور کم اور سائیکل کے آگے لیٹے تو اور کم
پس میرا سوال ہے کہ اگر یہ سارے مر جائیں تو ہم خد کشی کا فیصلہ کس بات پر کریں گے کیا ہم وہاں چانس دیکھ رہے ہوں گے بلکہ ہم تو نیت کو دیکھیں گے اگر سب کی نیت خود کشی کی ہی تھی تو حرام موت ہو گی پس ثبت ہوا کہ چانس سے منسلک کرنا فقہی طور پر غلط ہے بلکہ نیت کو دیکھا جاتا ہے
البتہ چانس بڑھنے سے ایک کام زیادہ ہو گا کہ ہمیں احتیاط انتہائی زیادہ کرنا ہو گی اور کسی عالم سے مکمل مفسدہ اور مصلحت کا موازنہ کروا کر ایسا کیا جا سکتا ہے ہر کوئی اپنی مرضی سے ایسا نہیں کر سکتا



جس کی وجہ سے ایسی کاروائی کو اس دور کے تقاضوں کے پیش نظر دشمن اسلام کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی خاطر جائز ہے ۔ واللہ اعلم
محترم بھائی اوپر میں نے کہا ہے کہ عالم کو بتانا ہو گا اور یاد رکھیں عالم کو بھی خالی سامنے نظر آنے والے مصلحتوں کو نہیں دیکھنا ہو گا جیسے آپ نے زیادہ نقصان پہنچانے والی اوپر بتائی ہیں بلکہ ہر طرح کی مصلحتوں اور ہر طرح کے مفسدوں کو بھی دیکھنا ہو گا مفسدوں میں اس بات کا بھی خیال انتہائی اہم ہے کہ لوگوں کو اس کی امیج کیا جا رہی ہے کیونکہ یاد رکھیں لوگوں کو غلط امیج جانے کی وجہ سے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جگہوں پر ایسے لوگوں کو مارنا یا ایسا فعل کرنا چھوڑ دیا تھا جو فی نفسہ جائز تھے مثلا
1-کعبہ کی دیوار کو اصل جگہ پر واپس نہ لانا
2-عبد اللہ بن ابی منافق کو قتل نہ کرنا حالانکہ وہ ابو رافع اور کعب بن اشرف سے کم گستاخ نہیں تھا بلکہ اس پر تو قرآن بھی گواہ تھا واللہ اعلم
 
Top