• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استحسان کی تعریف اور مثال آسان فہم انداز میں بیان کردیں

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیر آپ نے احسن طریقے سے صحیح معنی سمجهائی اور امام شافعی کا قول نقل کرکے مزید وضاحت فرما دی ۔ اللہ آپکو جزائے خیر سے نوازے۔
اوپر کہی گئی میری بات اسحاق صاحب کی پوسٹ کے جواب میں لکهی گئی تهی ۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جزاک اللہ خیر آپ نے احسن طریقے سے صحیح معنی سمجهائی اور امام شافعی کا قول نقل کرکے مزید وضاحت فرما دی ۔ اللہ آپکو جزائے خیر سے نوازے۔
جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
پیارے بھائی
’’ استحسان ‘‘
استحسان عربی زبان کا لفظ ہے ،اسکا مادہ اصلی’’حسن‘‘ ہے۔باب استفعال سے حسن کا مصدر ’’استحسان‘‘ بنتا ہے۔عربی لغت میں استحسان کامطلب کسی چیز کو خاص خوبی کی بنا پر اچھا سمجھنا ہے۔فقہ اسلامی کے دبستان حنفی میں استحسان کو ایک اہم اور ضمنی ماخذ قانون کے طورپر تسلیم کیا گیا ہے۔استحسان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:
1)قطع المسئلہ عن نظائرھابما ھو قوی ۔کسی مسئلہ کو قوی وجہ سے اسکے نظائر سے الگ کر لینا۔
2)العدول عن قیاس الی قیاس اقوی العدل فی مسئلہ عن مثل ما حکم بہ فی نظائرھا ابی خلافۃ بوجہ ھو اقوی۔ایک قیاس چھوڑ کر اس سے زیادہ قوی قیاس اختیار کرنا،مسئلہ کے نظائرمیں جو حکم موجود ہے کسی قوی وجہ سے اسکو چھوڑ کر اسکے خلاف حکم لگانا۔
3)اجود تعریف الاستحسان العدول بحکم المسئلہ عن نظائرھا لدلیل الشرعی۔استحسان کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ کسی مسئلہ کے فیصلے میں اسکے نظائر کو دوسری دلیل شرعی کی بنا پر چھوڑ دینا۔
4)العدول بالمسئلہ عن حکم نظائرھاالی حکم آخر بوجہ اقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھذالعدول۔کسی مسئلہ میں اسکے نظائر سے قطع نظر کر کے کسی دوسرے حکم کو کسی فوری وجہ کی بنا پر دلیل بنا کر کوئی حکم لگانے کو استحسان کہتے ہیں۔
5)الاستحسان طلب السہولہ فی الاحکام فیما یبتلی فیہ الخاص والعام۔استحسان ان صورتوں میں سہولت طلب کرتا ہے جن میں خاص و عام سب مبتلا ہیں۔
6)جب کسی مسئلہ میں قیاس سے زیادہ قوی دلیل موجود ہویعنی قرآن یا سنت کی نص یا اجماع تو فقہا نے صریح قیاس ترک کر کے زیادہ قوی دلیل کے مطابق فتوی دیا ہے اور یہی استحسان کا مفہوم ہے۔
7)مسائل کا حل بالعموم قیاس ہی سے حاصل ہوجاتا ہے لیکن بعض دفعہ قیاس اصول عامہ سے ٹکرا جاتا ہے،ایسے میں بعض فقہا اصول عامہ کو اختیار کرتے ہیں اور اسے ہی استحسان کہتے ہیں۔

امام شافعیؒ استحسان کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔انہوں نے کتاب الام میں اس پر طویل بحث کی ہے اور ایک رسالہ ’’الرد علی الاستحسان ‘‘ لکھا،جس میں کہ استحسان کی تردید میں دلائل نقل کیے ہیں۔امام شافعی ؒ کتاب الام میں ایک جگہ لکھتے ہیں
’’جب مجتہد استحسان کرتا ہے تو وہ گویا اپنی سوچ سے ایک بات اختراع کرتا ہے اور اس پر قیاس کرتا ہے جبکہ اسے اپنی سوچ کی اتباع کا حکم نہیں دیا گیا‘‘۔استحسان کے قائلین اس بات کاانکارکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجتہدکاقیاس اور استحسان کسی خاص دلیل شرعی کی بنا پر ہوتا ہے۔
اس میں یہ بات ملحوظ رہے کہ :
استحسان اور اس کی پیش کردہ تعریف حنفیہ کے مسلک اور نکتہ نظر کے مطابق ہے ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مجھے امام ملک کی تعریف درکار ہے۔آسان فہم انداز میں
کیونکہ حنیفہ اور مالکیہ میں استحسان کی تعریف میں اختلاف ہے
محترم بھائی !
امام مالک رحمہ اللہ نے خود ’’ استحسان ‘‘ کو ۔۔استنباط کے اصول ۔۔کے طور پر ذکر نہیں کیا ۔۔اور نہ ہی اس کی علمی تعریف بیان فرمائی ہے ؛
اور مالکی مذہب کے مشہور امام قاضی عیاض ؒ نے (ترتيب المدارك وتقريب المسالك ) میں امام ابو حنیفہ اصول فقہ کے رد
میں لکھا ہے :
(فصل) وأما أبو حنيفة فإنه قال بتقديم القياس والاعتبار على السنن والآثار، فترك نصوص الأصول وتمسك بالمعقول وآثر الرأي والقياس والاستحسان، ثم قدم الاستحسان على القياس فأبعد ما شاء.
وحد بعضهم استحسان أنه الميل إلى القول بغير حجة.
وهذا هو الهوى المذموم والشهوة والحدث في الدين والبدعة، حتى قال الشافعي من استحسن فقد شرع في الدين))

کہ : ابو حنیفہ آثار و سنن پر قیاس کو مقدم کرتے ہیں ۔اور نصوص کو چھوڑ کر معقول کو قبول کرتے ۔اور رائے ،قیاس ،اور استحسان کو ترجیح دیتے ہیں
اور کبھی کبھی تو استحسان کو قیاس پر بھی مقدم کردیتے ہیں ۔
اور استحسان کی تعریف بعض علماء نے یہ کی ہے کہ :
استحسان : بے دلیل قول کی طرف میلان کو کہا جاتا ہے،
اور یہ واضح ہے اس طرح تو یہ محض مذموم خواہش،اور من پسندی ہے ،اور دین میں بدعت ہے ،اسی لئے امام شافعی فرماتے ہیں کہ :
استحسان کرنے والا دراصل شریعت گھڑتا ہے ‘‘((ترتيب المدارك وتقريب المسالك )
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محترم بھائی !
امام مالک رحمہ اللہ نے خود ’’ استحسان ‘‘ کو ۔۔استنباط کے اصول ۔۔کے طور پر ذکر نہیں کیا ۔۔اور نہ ہی اس کی علمی تعریف بیان فرمائی ہے ؛
اور مالکی مذہب کے مشہور امام قاضی عیاض ؒ نے (ترتيب المدارك وتقريب المسالك ) میں امام ابو حنیفہ اصول فقہ کے رد
میں لکھا ہے :
(فصل) وأما أبو حنيفة فإنه قال بتقديم القياس والاعتبار على السنن والآثار، فترك نصوص الأصول وتمسك بالمعقول وآثر الرأي والقياس والاستحسان، ثم قدم الاستحسان على القياس فأبعد ما شاء.
وحد بعضهم استحسان أنه الميل إلى القول بغير حجة.
وهذا هو الهوى المذموم والشهوة والحدث في الدين والبدعة، حتى قال الشافعي من استحسن فقد شرع في الدين))

کہ : ابو حنیفہ آثار و سنن پر قیاس کو مقدم کرتے ہیں ۔اور نصوص کو چھوڑ کر معقول کو قبول کرتے ۔اور رائے ،قیاس ،اور استحسان کو ترجیح دیتے ہیں
اور کبھی کبھی تو استحسان کو قیاس پر بھی مقدم کردیتے ہیں ۔
اور استحسان کی تعریف بعض علماء نے یہ کی ہے کہ :
استحسان : بے دلیل قول کی طرف میلان کو کہا جاتا ہے،
اور یہ واضح ہے اس طرح تو یہ محض مذموم خواہش،اور من پسندی ہے ،اور دین میں بدعت ہے ،اسی لئے امام شافعی فرماتے ہیں کہ :
استحسان کرنے والا دراصل شریعت گھڑتا ہے ‘‘((ترتيب المدارك وتقريب المسالك )
بھائی آپ اس تعریف کو آسان مہم انداز میں بیان کرسکتے ہیں
upload_2015-10-25_20-40-55.png
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
[بَابُ الْقَوْلِ فِي الِاسْتِحْسَانِ]ِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: تَكَلَّمَ قَوْمٌ مِنْ مُخَالِفِينَا فِي إبْطَالِ الِاسْتِحْسَانِ حِينَ ظَنُّوا أَنَّ الِاسْتِحْسَانَ حُكْمٌ مِمَّا يَشْتَهِيه الْإِنْسَانُ وَيَهْوَاهُ، أَوْ يَلَذُّهُ، وَلَمْ يَعْرِفُوا مَعْنَى قَوْلِنَا فِي إطْلَاقِ لَفْظِ الِاسْتِحْسَانِ.فَاحْتَجَّ بَعْضُهُمْ فِي إبْطَالِهِ بِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى} [القيامة: 36] وَرُوِيَ: أَنَّهُ الَّذِي لَا يُؤْمَرُ وَلَا يُنْهَى، قَالَ: فَهَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ لِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ تَعَالَى أَنْ يَقُولَ بِمَا يَسْتَحْسِنُ، فَإِنَّ الْقَوْلَ (بِمَا يَسْتَحْسِنُهُ شَيْءٌ يُحْدِثُهُ لَا عَلَى مِثَالِ مَعْنًىسَبَقَ) فَهَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَعْرِفْ مَعْنَى مَا أَطْلَقَهُ أَصْحَابُنَا مِنْ هَذَا اللَّفْظِ، فَتَعَسَّفُوا الْقَوْلَ فِيهِ مِنْ غَيْرِ دِرَايَةٍ.
وَقَدْ حَدَّثَنِي بَعْضُ قُضَاةِ مَدِينَةِ السَّلَامِ، مِمَّنْ كَانَ يَلِي الْقَضَاءَ بِهَا فِي أَيَّامِ الْمُتَّقِي لِلَّهِ، قَالَ سَمِعْتُ إبْرَاهِيمَ بْنَ جَابِرٍ، وَكَانَ إبْرَاهِيمُ هَذَا رَجُلًا كَثِيرَ الْعِلْمِ، قَدْ صَنَّفَ كُتُبًا مُسْتَفِيضَةً فِي اخْتِلَافِ الْفُقَهَاءِ، وَكَانَ يَقُولُ بِنَفْيِ الْقِيَاسِ، بَعْدَ أَنْ كَانَ يَقُولُ بِإِثْبَاتِهِ. (قَالَ فَقُلْتُ) لَهُ: مَا الَّذِي أَوْجَبَ عِنْدَكَ الْقَوْلَ بِنَفْيِ الْقِيَاسِ بَعْدَمَا كُنْت قَائِلًا بِإِثْبَاتِهِ؟ فَقَالَ: قَرَأْتُ إبْطَالَ الِاسْتِحْسَانِ لِلشَّافِعِيِّ فَرَأَيْتُهُ صَحِيحًا فِي مَعْنَاهُ، إلَّا أَنَّ جَمِيعَ مَا احْتَجَّ بِهِ فِي إبْطَالِ الِاسْتِحْسَانِ هُوَ بِعَيْنِهِ يُبْطِلُ الْقِيَاسَ، فَصَحَّ بِهِ عِنْدِي بُطْلَانُهُ. وَجَمِيعُ مَا يَقُولُ فِيهِ أَصْحَابُنَا بِالِاسْتِحْسَانِ فَإِنَّهُمْ إنَّمَا قَالُوهُ مَقْرُونًا (بِدَلَائِلِهِ وَحُجَجِهِ) لَا عَلَى جِهَةِ الشَّهْوَةِ وَاتِّبَاعِ الْهَوَى، وَوُجُوهُ دَلَائِلِ الِاسْتِحْسَانِ مَوْجُودَةٌ فِي الْكُتُبِ الَّتِي عَمِلْنَاهَا فِي شَرْحِ كُتُبِ أَصْحَابِنَا، وَنَحْنُ نَذْكُرُ هَهُنَا جُمْلَةً، نُفْضِي بِالنَّظَرِ فِيهَا إلَى مَعْرِفَةِ حَقِيقَةِ قَوْلِهِمْ فِي هَذَا الْبَابِ بَعْدَ تَقْدِمَةٍ بِالْقَوْلِ فِي جَوَازِ إطْلَاقِ لَفْظِ الِاسْتِحْسَانِ.

قاضی عیاض نے جوبات کہی ہے کہ امام ابوحنیفہ قیاس اوررائے کو آثار پر مقدم رکھتے ہیں تو یہ نہایت غلط بات ہےاوراس کی تردید خودامام ابوحنیفہ سے باسناد صحیحہ ثابت ہے جسے ابن معین نے اپنی تاریخ میں اورابن عبدالبر نے الانتقاء میں اورخطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ذکر کیاہے ۔اورچونکہ ہمارے کچھ مہربان احناف کے خلاف کسی بھی بات کو بڑی گرمجوشی کے ساتھ قبول کرتےہیں لہذا اس کی تردید کیلئے امام ابوبکر جصاص رازی کا یہ اقتباس نقل کیاہے۔ترجمہ کی ضرورت نہیں کہ اہل علم ترجمہ کو بخوبی جانتے ہیں، امام ابوبکرجصاص رازی کی ’’الفصول فی الاصول‘‘فقہ حنفی میں اصول فقہ کی بہترین کتاب ہے۔ اس میں انہوں نے استحسان کے دلائل پر بہت بہترکلام کیاہے اورامام شافعی کے قول پر بھی کلام کیاہے۔
خلاصہ کلام اتناہے کہ امام شافعی جس استحسان کی تردید کرتے ہین اس استحسان کے احناف قائل نہیں اورجس استحسان کے احناف قائل ہیں، امام شافعی نے اس کی تردید نہیں کی۔
 

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
پیارے بھائی
’’ استحسان ‘‘
استحسان عربی زبان کا لفظ ہے ،اسکا مادہ اصلی’’حسن‘‘ ہے۔باب استفعال سے حسن کا مصدر ’’استحسان‘‘ بنتا ہے۔عربی لغت میں استحسان کامطلب کسی چیز کو خاص خوبی کی بنا پر اچھا سمجھنا ہے۔فقہ اسلامی کے دبستان حنفی میں استحسان کو ایک اہم اور ضمنی ماخذ قانون کے طورپر تسلیم کیا گیا ہے۔استحسان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:
1)قطع المسئلہ عن نظائرھابما ھو قوی ۔کسی مسئلہ کو قوی وجہ سے اسکے نظائر سے الگ کر لینا۔
2)العدول عن قیاس الی قیاس اقوی العدل فی مسئلہ عن مثل ما حکم بہ فی نظائرھا ابی خلافۃ بوجہ ھو اقوی۔ایک قیاس چھوڑ کر اس سے زیادہ قوی قیاس اختیار کرنا،مسئلہ کے نظائرمیں جو حکم موجود ہے کسی قوی وجہ سے اسکو چھوڑ کر اسکے خلاف حکم لگانا۔
3)اجود تعریف الاستحسان العدول بحکم المسئلہ عن نظائرھا لدلیل الشرعی۔استحسان کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ کسی مسئلہ کے فیصلے میں اسکے نظائر کو دوسری دلیل شرعی کی بنا پر چھوڑ دینا۔
4)العدول بالمسئلہ عن حکم نظائرھاالی حکم آخر بوجہ اقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھذالعدول۔کسی مسئلہ میں اسکے نظائر سے قطع نظر کر کے کسی دوسرے حکم کو کسی فوری وجہ کی بنا پر دلیل بنا کر کوئی حکم لگانے کو استحسان کہتے ہیں۔
5)الاستحسان طلب السہولہ فی الاحکام فیما یبتلی فیہ الخاص والعام۔استحسان ان صورتوں میں سہولت طلب کرتا ہے جن میں خاص و عام سب مبتلا ہیں۔
6)جب کسی مسئلہ میں قیاس سے زیادہ قوی دلیل موجود ہویعنی قرآن یا سنت کی نص یا اجماع تو فقہا نے صریح قیاس ترک کر کے زیادہ قوی دلیل کے مطابق فتوی دیا ہے اور یہی استحسان کا مفہوم ہے۔
7)مسائل کا حل بالعموم قیاس ہی سے حاصل ہوجاتا ہے لیکن بعض دفعہ قیاس اصول عامہ سے ٹکرا جاتا ہے،ایسے میں بعض فقہا اصول عامہ کو اختیار کرتے ہیں اور اسے ہی استحسان کہتے ہیں۔

امام شافعیؒ استحسان کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔انہوں نے کتاب الام میں اس پر طویل بحث کی ہے اور ایک رسالہ ’’الرد علی الاستحسان ‘‘ لکھا،جس میں کہ استحسان کی تردید میں دلائل نقل کیے ہیں۔امام شافعی ؒ کتاب الام میں ایک جگہ لکھتے ہیں
’’جب مجتہد استحسان کرتا ہے تو وہ گویا اپنی سوچ سے ایک بات اختراع کرتا ہے اور اس پر قیاس کرتا ہے جبکہ اسے اپنی سوچ کی اتباع کا حکم نہیں دیا گیا‘‘۔استحسان کے قائلین اس بات کاانکارکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجتہدکاقیاس اور استحسان کسی خاص دلیل شرعی کی بنا پر ہوتا ہے۔

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
کیا آپ کسی مثال سے استحسان کو سمجھا سکتے ہیں۔۔؟؟؟؟
آسان الفاظ میں سمجھا دیں آسان مثال سے؟؟؟
 
Top