• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

استشراقی نظریہ ارتقاء اورقراء اتِ قرآنیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمارے خیال میں مستشرق موصوف کا یہ دعویٰ دولحاظ سے بڑاتعجب خیز ہے:
(١) گولڈزیہر نے سابقہ شریعتوں کی کتب کو ان کی اصلی نصوص میں نہیں دیکھا توکیسے حکم لگا سکتا ہے کہ ان میں قرآن کی طرح متعدد قراء ات ووجوہ نہیں تھیں۔
(٢) جبکہ اسی باب میں گولڈزیہر تلمود،تورات کے ایک ہی وقت میں کثیر زبانوںمیں نازل ہونے کا قول اختیار کرتا ہے۔(۲۰)
غرض گولڈ زیہر کا یہ اعتراض تاریخی اور عقلی ہر دو اعتبار سے باطل ہے جس پر دلائل پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ نصِ قرآنی کو کسی قسم کا کوئی اضطراب یا عدمِ ثبات پیش نہیں آیا،کیونکہ اِضطراب اور عدمِ ثبات کا مطلب یہ ہے کہ کسی نص کو مختلف وجوہ اورمتعدد صورتوں پر اس طور پڑھا جائے کہ ان صورتوں کے مابین معنی اورمراد ایک دوسرے کے منافی اورمعارض ہوں یا ان کا ہدف ومقصود بالکل مختلف چیزیں ہوں اور وہ مفہوم ایسا ہو کہ روایات سے اس کا ثبوت بھی نہ ہو،لیکن اگر نص میں وارد ہونے والی مختلف صورتیں متواتر روایات پر مبنی ہوں اورمعنی میں بھی تضاد واقع نہ ہوتو اس کو اضطراب یا عدمِ ثبات نہیں کہا جاتا۔جبکہ قرآن میں موجود وجوہ اورصورتیں ہر قسم کے تناقض سے پاک ہیں اورنہ ہی ان کے معانی میں تعارض وتضاد ہے بلکہ وہ تمام صورتیں ایک دوسرے کو ظاہراورثابت کرتی ہیں۔(۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کی معتمد قراء ات ،بسا اوقات، ایک ہی نص میں مختلف ہوتی ہیں، لیکن ان سب کی نسبت چونکہ مصدرِ اصلی (رسول اللہﷺ)کی طرف ہوتی ہے لہٰذا وہ تمام صورتیں بھی قرآن ہیں، کیونکہ آپﷺ کے بقول قرآن سات حروف پرنازل ہوا ہے اورآپﷺنے اجازت دی کہ جس میں سہولت ہو وہی اختیار کرلو۔(۲۲)
بعض عیسائیوں نے غالباً اپنی کتاب میں بے شمار تحریفات اور انجیل کے مختلف نسخوں میں اختلافات کو قرآنی قراء ات کی طرح قراردیتے ہوئے یہ کہا کہ :
إننا مختلفون فی قراء ۃ کتابنا فبعضنا
یزید حروفا وبعضنا یسقطہا(۲۳)​
اس کے جواب میں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ(م۴۵۶ھ)نے قرآنی قراء ات کے اختلاف کی نوعیت کو اس طرح بیان کیا ہے:
’’فلیس ہذا اختلافا،بل ہو اتفاق منا صحیح؛ لان تلک الحروف وتلک القراء ات کلہا مبلغ بنقل الکواف إلی رسول اﷲ ﷺ إنہا نزلت کلہا علیہ؛ فأی تلک القراء ات قرآنا فہی صحیحۃ وہی محصورۃ کلہا مضبوطۃ معلومۃ لازیادۃ فیہا ولا نقص؛ فبطل التعلق بہذا الفصل وﷲ الحمد‘‘(۲۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام قرافی رحمہ اللہ نے نصاریٰ کے اس زعم کے جواب میں کافی طویل بحث کی ہے جس میں انہوں نے انجیل اورقرآنی آیات کے درمیان فروق کوواضح کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ قراء اتِ مختلفہ کی اِجازت کا پس منظر قبائل ِعرب کی مختلف لغات تھیں،کوئی امالہ کرتا تو کوئی تفخیم،کسی کی لغت میں مدہے کسی میں قصر،کسی کے نزدیک حروف میں جہر ہے توکسی کے نزدیک اخفاء ۔اگر سب کو ایک ہی لغت کا مکلف قرار دیاجاتا تو ان کو مشقت اٹھانی پڑتی ،اس مشقت کو دور کرنے کیلئے قراء ات نازل ہوئیں اور یہ سب کی سب نبیﷺسے متواتر طریقہ سے مروی ہیں۔سو ہمیں ان تمام قراء ات پر اعتماد ہے کہ یہ من جانب اللہ ہیں اور رسول اللہﷺکے دہن مبارک سے نکلی ہوئی ہیں۔اس کے برعکس عیسائی اپنی اناجیل کے مصنفین کو عادل راویوں کے ذریعہ ثابت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔اس لحاظ سے عالمِ عیسائیت کے پاس انجیل کے کسی حرف کے بارے میں یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اللہ کاکلام ہے لہٰذا انجیل کے حاملین ، مسلمانوں کے قرآن کے اصول وقواعد کا اپنی کتاب پر اطلاق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔(۲۵)
غرضیکہ اختلافِ قراء ات ،اضطراب اورعدمِ ثبات کے قبیل سے نہیں بلکہ یہ سب قراء ات ہمیں یقینی طور پر رسول اللہeسے بطریقِ تواتر وصول ہوئی ہیں اور ان میں سے ہر قراء ت قرآن ہے۔لہٰذا گولڈزیہر کا یہ شبہ کسی طرح کی عقلی ونقلی دلیل سے قطعاً عاری ہے اور اگر یہ قرآن کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا، لیکن چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اس لئے اختلافات سے پاک ہے۔ تاہم اختلافِ قراء ات کی نوعیت سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کا اختلاف اس اختلاف کے قبیل سے نہیں جس میں تضاد یاتناقض پایا جاتا ہے بلکہ یہ اختلاف،تغایر اورتنوع کاہے جو قرآنی اعجاز کی علامت ہے ۔ ابن قتیبہa(م۲۷۶ھ)اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الاختلاف نوعان: اختلاف تغایر،واختلاف تضاد فاختلاف التضاد لایجوز،ولیست واجدہ بحمد اﷲ فی شئ من القرآن الا فی الامر والنہی من الناسخ والمنسوخ واختلاف التغایر جائز‘‘(۲۶)
تغیر وتنوع کا یہ اختلاف قرآنی قراء ات میں موجود ہے اور ہر قراء ت ایک مستقل آیت کے حکم میں ہے یقینا یہ اختلاف’ایجاز‘ کو واضح کرتاہے۔قرآن کا سارا مزاج ارشادوتعلیم کے اسی راستہ پر چلتا ہے۔(۲۷)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ولا نزاع بین المسلمین أن الحروف السبعۃ التی أنزل القرآن علیہا لا تتضمن تناقض المعنی وتضادہ، بل قد یکون معناہا متفقاً أو متقارباً،کما قال عبد اﷲ ابن مسعود: إنما ہو کقول أحدکم: اقبل، وھلم وتعال‘‘(۲۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کے مابین اختلاف کی ممکنہ صورتیں
قراء ات کے مابین اختلاف تین حال سے خالی نہیں ہوتا:
(١) لفظ مختلف ہوں اور معنی متحد۔
(٢) لفظ اورمعنی دونوں مختلف ہوں، لیکن تضاد کے بغیر ایک مفہوم میںجمع ہوں۔
(٣) لفظ اورمعنی مختلف ہوں ،ایک شے میں اجتماع بھی ممکن نہ ہو،لیکن ایک دوسری وجہ سے تضاد کے بغیر جمع ہوجائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تنوعِ قراء ات کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
(١) رَبَّنَا بَاعِدْاوربَاعَدَ (۲۹)
(٢) اِلَّا اَنْ یُّخَافَا الّا یُقِیمَا اور الَّا اَنْ یَخَافَا الا یقِیْمَا (۳۰)
(٣) وَاِنْ کَانَ مَکْرہم لِتَزُوْلُ اور لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَال (۳۱)
(٤) یخدعون اوریخادعون(۳۲)
(٥) یَکْذِبُوْنَ اور یُکَذِّبُوْنَ(۳۳)
(٦) لمستُمْ اورلامستم(۳۴)
(٧) حَتّی یَطْہُرْنَ اور یَطَّہَرْنَ(۳۵)
ہر قراء ت دوسری قراء ت کے لیے ایسی ہی ہے جیسے ایک آیت دوسری آیت کے لیے،ہر ایک پر ایمان واجب ہے اور جو معنی وہ قراء ات رکھتی ہیں اس کا اتباع بھی واجب ہے ۔ تعارض کا گمان کرتے ہوئے دووجوہ میں سے کسی ایک کو ترک کرنا جائز نہیں بلکہ خود حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’من کفر بحرف فقدکفر بہ کلہ‘‘(۳۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جن قراء ات میں لفظ اورمعنی دونوں متحد رہتے ہیں ان کا تنوع دراصل کیفیت ِنطق میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً: ہمزات، مدات،امالات اورنقلِ حرکات،اظہار،ادغام،اختلاس،لام اور راء کو باریک کرنا یا موٹا کرناوغیرہ جن کو قراء ’اصول‘کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی تناقض اورتضاد نہیں ہوتا،کیونکہ ایک لفظ کی ادائیگی کے مختلف طریقے لفظ کو مختلف نہیں بناتے بلکہ لفظ بدستور اسی طرح رہتا ہے اوربسااوقات اَدائیگی کے انہی طریقوں سے متعدد معانی نمودار ہوتے ہیں جو رسم میں متحد ہونے کے باوجود متنوع معانی کے حامل ہوتے ہیں۔(۳۷)
غرض جملہ قراء ات حق ہیں اور ان کا اختلاف بھی حق ہے،اس میں کوئی تضاد اورتناقض نہیں ۔قرآن مجید ہر تحریف وتبدیلی یا اضطراب واختراع سے پاک واحد کتاب ہے جس کا تقابل دنیا کی کوئی کتاب نہیں کر سکتی۔چنانچہ یہ دعویٰ برمحل ہوگا کہ قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جس کی نص کو اضطراب اورعدمِ ثبات پیش نہیں آیا اورباقی تمام کتب تحریفات کا شکار ہوئی ہیں اور اس حقیقت کے دونوں پہلوؤں کے دلائل مختصر انداز سے تحریر کر دئیے گئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کے متعدد متون اور عدم وحدت
گولڈزیہر اپنی کتاب میں مختلف قراء ات پر تنقید اور ان کو قرآنی متن میں سبب ِاضطراب قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ مختلف قراء ات دراصل قرآن کے متعدد متون ہیں اور تاریخِ اسلامی کے کسی دور میں نصِ واحد کے ساتھ قرآن منظرِعام پر نہیں آسکاماسوا چند اقدامات کے جن کا اثر مستقل نہیں رہا۔ اس ضمن میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع قرآن کے کارنامہ کو نصِ قرآنی کی وحدت کی طرف اہم قدم قراردیتا ہے ،لکھتاہے:
’’وفی جمیع الشوط القدیم للتاریخ الإسلامی لم یحرز المیل إلی التوحید العقدی للنص إلا انتصارات خفیفۃ‘‘(۳۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس شبہ کاحاصل دوچیزیں ہیں:
٭ قراء اتِ مختلفہ قرآن کے متعدد متون ہیں، لہٰذا قرآن ایک نہیں ہے۔
٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو ایک کر دیا۔
گولڈزیہر اپنے شبہا ت میں تدریجی رنگ اختیار کرتے ہوئے اوّلاً نصِ قرآنی کو مضطرب گردانتاہے پھر جمعِ عثمانی سے ماقبل مصاحف کا مصحفِ عثمانی سے تقابل کرتا ہے جس کے بعد اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قرآن کے مختلف Versionsہیں۔اس کے بعد مذکورہ بالا شبہ پیش کیا جوسابقہ شبہات کا ہی تسلسل ہے۔
گولڈزیہر کے نزدیک مسلمان ہمیشہ قرآنی نص کی وحدت کی طرف رغبت رکھتے تھے لیکن ان کی یہ خواہش بارآور ثابت نہیں ہوسکی البتہ دورِ عثمانی میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ گولڈزیہر بھی دیگر مستشرقین کی طرح دلائل سے قطع نظر پہلے سے طے شدہ نظریات ہی کو اپنا واحد وظیفہ بناتاہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان دعووں پر اس نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔بہرطور جواباً چند نکات ملاحظہ ہوں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ کسی ایک مسلمان سے بھی یہ ثابت نہیں کہ اس نے کبھی یہ خیال کیا ہو کہ قرآن کریم کی کئی نصوص ہیں،ان کو ایک کر دیا جائے اوراگر ایساہوتا تو ہم تک یہ بات ضرور پہنچتی۔
٭ خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کی جو کتابت کروائی اور ان کو مختلف ممالک ِاسلامیہ کی طرف اِرسال کیااورلوگوں کو اس پرمامور کیا ،اس کا باعث توحیدنصِ قرآنی کی طرف میلان نہیں تھابلکہ تمام مسلمانوں کو قراء اتِ ثابتہ پر اکٹھا کرنے کی رغبت تھی تاکہ متواتر قراء ات کے علاوہ قراء ات کا خاتمہ ہو اورامت پر آسانی اورسہولت ہوجائے۔(۳۹)
٭ مصاحف میں قرآن کی کتابت کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اہلِ حمص،اہلِ دمشق اور اہلِ کوفہ وبصرہ کی یہ خبر پہنچی کہ ان میں سے ہر ایک اپنی قراء ت کو دوسرے کی قراء ت سے بہترکہتا ہے اورلوگ نزاع میں مبتلا ہورہے ہیں تو اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے تقریباً بارہ ہزار کی تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنہم جمع ہوئے اور یہ رائے دی کہ لوگوں کو ایک مصحف پرجمع کردیاجائے۔چنانچہ خلافتِ ابو بکررضی اللہ عنہ میں جمع کردہ مصحف کو ، جو اس وقت حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا،منگواکرحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت کوحکم دیا کہ وہ اس سے عرضۂ اَخیرہ کالحاظ رکھتے ہوئے مصاحف تیار کریں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان مصاحف کی تیاری کے بعدہرمصحف کے ساتھ ایک ایک قاری بھی مختلف شہروں میں بھیجا تاکہ وہ رسمِ مصحف کے مطابق متواتر قراء ات کی تعلیم دے۔ اس طرح ان علاقوں میں تابعین حفاظ کا ایک جمِ غفیر پیداہوگیاجوصحابہ رضی اللہ عنہم کے براہِ راست شاگردتھے۔
 
Top