ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
اسراء و معراج کی شب میں جشن منانے کی شرعی حیثیت
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و علی آلہ وصحبہ ............أما بعد ۔اسراء او رمعراج کی شب اللہ عزوجل کے ہاں عظیم نشانیوں میں سے ہے جو نبی کریم ﷺ کی صداقت اور اللہ کے آپ کے عظیم مقام و مرتبہ پر دلالت کرتی ہے، نیز اس سے اللہ عزوجل کی حیرت کن قدرت اور اس کے اپنی تمام مخلوقات پر عالی و بلند ہونے کاثبوت ملتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا : سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۱
'' پاک ہے وہ ذات۔ اللہ تعالی ۔ جو اپنے بندے کو رات ہی میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے''۔
رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ ﷺ کو آسمان پر لے جایا گیا ، آپ ﷺ کی خاطر آسمانوں کے دروازے کھولے گئے یہاں تک کہ ساتویں آسمان سے آگے گزر گئے ، وہاں پر آپ کے رب نے اپنے ارادہ کے مطابق آپ سے گفتگو فرمائی اور پانچ وقت کی نمازیں فرض کیں تھیں، پھر ہمارے نبی محمد ﷺ بار بار اللہ کے پاس جاتے اور تخفیف کاسوال کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے اسے باعتبار فرضیت پانچ وقت کی کردیا اور اجروثواب پچاس نمازوں ہی کاباقی رکھا، کیونکہ ہر نیکی دس گنابڑھائی جاتی ہے لہذا اللہ تعالی ہی تمام ترنعمتوں پر حمدو شکر کاسزاوار ہے۔
یہ رات جس میں اسراء و معراج کاواقعہ پیش آیا اس کی تعیین کے بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے، بلکہ اس کی تعیین میں جو روایتیں بھی آئی ہیں محدثین کے نزدیک نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ، اور اس شب کو لوگوں کے ذہنوں سے بھلادینے میں اللہ تعالی کی کوئی بڑی حکمت ضرور پوشیدہ ہے ، اور اگر اس کی تعیین ثابت بھی ہوجائے تومسلمانوں کے لئے اس میں کسی طرح کاجشن منانا اسے کسی عبادت کے لئے خاص کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے نہ تو اس میں کسی طرح کاکوئی جشن منایا اور نہ ہی اسی کسی عبادت کے لئے خاص کیا، اور اگر اس شب میں جشن منانا اور اجتماع کرناشرعاً ثابت ہوتا تونبی ﷺ اپنے قول یافعل سے اسے امت کے لئے ضرور واضح کرتے ، اور اگر عہد نبوی یاعہد صحابہ میں ایسی کوئی چیز ہوتی تووہ بلاشبہ معروف و مشہور ہوتی اور صحابہ کرام اسے نقل کرکے ہم تک ضرور پہنچاتے کیونکہ انہوں نے نبی ﷺ سے نقل کراکے امت کو ہر وہ بات پہنچائی جس کی امت کو ضرورت تھی ، اور دین کے کسی بھی معاملہ میں کوئی کوتاہی نہ کی بلکہ وہ نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے ۔ چنانچہ اگر اس شب جشن منانے اور محفل معراج منعقد کرنے کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی تووہ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے۔
نبی ﷺ امت کے سب سے زیادہ خیرخواہ تھے،آپ ﷺ نے پیغام الہی کو پورے طور پر پہنچا کرامانت کی ادائیگی فرما دی، لہذا اگر ا س شب کی تعظیم اور س میں جشن منانا دین اسلام سے ہوتا توآپ ﷺ قطعاً اسے نہ چھوڑتے اور نہ ہی اسے چھپاتے ، لیکن جب عہد نبوی اور عہد صحابہ میں یہ سب کچھ نہیں ہوا تو یہ بات واضح ہوگئی کہ شب معراج کی تعظیم اور س کے اجتماع کادین اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اللہ تبارک و تعالی نے اس امت کے لئے اپنے دین کی تکمیل فرمادی ہے، اور ان پر اپنی نعمت کااتمام کردیاہے، اور ہر اس شخص پر عیب لگایا ہے جومرضی الہی کے خلاف بدعات ایجاد کرے، اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی کتاب مبین قرآن کریم میں سورۃ المائدہ کے اندر فرمایا :
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔
'' آج میں نے تمہارے لئے دین کومکمل کردیا، اور تم پر اپنا انعام پورا کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا''۔
واللہ عزوجل نے سورۃ الشوری میں فرمایا :
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَہُمْ۰ۭ وَاِنَّ الظّٰلِـمِيْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۲۱
''کیا ان لوگوں نے اسے اللہ کے شریک مقرر کررکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ تعالی کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں ، اگر فیصلہ کردیاجاتا ، یقیناً ان ظالموں کے لئے یہی درد ناک عذاب ہے ''۔(الشوریٰ:۲۱)
رسول اللہ ﷺ سے صحیح احادیث میں بدعات سے بچنے کی تاکید اورا س کے گمرای ہونے کی صراحت ثابت ہے ، تاکہ امت کے افراد ان کے بھیانک خطرات سے آگاہ ہوکر ان کے ارتکاب سے پرہیز و اجتناب کریں۔
چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیاکام نکالا جو دراصل اس میں سے نہیں ہے وہ ناقابل قبول ہے''۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : '' جس نے کوئی ایسا عمل کیاجو ہمارے اسلام میں نہیں تووہ ناقابل قبول ہے''۔
اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے:'' حمدو صلاۃ کے بعد : بیشک بہترین بات اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد ﷺ کاطریقہ ہے، اور بدترین کام نئی ایجاد کردہ بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اور سنن میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں انتہائی جامع نصیحت فرمائی جس سے دلوں میں لرزہ طاری ہوگیا اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں، توہم نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ الوداعی پیغام معلوم ہوتا ہے لہذا آپ ہمیں وصیت فرمائیے آپ ﷺ نے فرمایا : '' میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے ، حاکم وقت کی بات سننے اور ماننے کی وصیت کرتاہوں اگرچہ تم پر حبشی غلام ہی حاکم بن جائے، اورمیرے بعد جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھےگا ، اس وقت تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اسے دانتوں سے مضبوط پکڑلو اور دین میں نئی نئی باتوں سے بچو۔ کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے''۔
رسول اکرم ﷺ کے صحابہ اور سلف صالحین بھی بدعتوں سے ڈرانے اوران سے بچنے کی تاکید کرتے رہے کیونکہ بدعات دین میں زیادتی اور مرضی الہی کے خلاف شریعت شریعت سازی ہیں بلکہ یہ اللہ کے دشمن یہود و نصاری کی مشابہت ہے، جس طرح انہوں نے اپنے اپنے دین یہودیت اور عیسائیت میں نئی چیزیں ایجاد کرلیں نیز بدعات ایجاد کرنے کالازمی نتیجہ دین اسلام کونقص اور عدم کمال سے مہتم کرنا ہے۔
اور یہ تو واضح ہی ہے کہ بدعات کے ایجاد کرنے میں بہت بڑی خرابی اور شریعت کی انتہائی خلاف ورزی ہے، نیز اللہ عزوجل کے اس فرمان اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ '' آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے'' سے ٹکراؤ اور بدعات سے ڈرانے اور نفرت دلانے والی احادیث رسول کی صریح مخالفت بھی ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس مسئلہ میں ہماری طرف سے پیش کردہ دلیلیں حق کے طلبگار کے لئے بدعت شب معراج کے انکار اور اس سے ڈرانے کے لئے کافی اور تسلی بخش ہوں گی ، اور ان سے یہ بھی واضح ہوگیا ہوگاکہ شب معراج کے جشن اور اجتماع کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
چونکہ اللہ نے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خیرخواہی اور ان تک شریعت کی تبلیغ و اشاعت کو واجب اور علم کے چھپانے کو حرام قرار دیا ہے ، تومیں نے مناسب سمجھا کہ مسلمان بھائیوں کو اس بدعت سے باخبر کردوں جو بیشتر ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اسے دین کا ایک حصہ سمجھ لیا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرمادے انہیں دین کی سمجھ عطا فرما دے اور ہمیں اور ان کو حق پر کاربند اور ثابت قدم رہنے اور خلاف حق امور سے گریز کرنے کی توفیق عطافرمائے، وہ اللہ اس کاکارساز اور اس پر قابو ہے۔
اور اللہ اپنے بندے اور رسول ہمارے نبی محمد ﷺ پر اور آپ کے اہل و عیال اور ساتھیوں پررحمت و سلامتی اور برکت نازل فرمائے۔
کتاب : توحید کا قلعہ
تالیف : عبدالملک القاسم
دارالقاسم للنشر والتوبیح