- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
میری رائے میں دعا نے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا کیونکہ مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ ہماری پوری امت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف جذبات کے اظہار سے فیس بک پر جنگ جیتنا چاہتے ہیں اور واقعتا وہ اس میں کامیاب بھی ہیں۔ فیس بک پر فتح ہماری ہی ہوتی ہے لیکن میدان جنگ میں ہم بری طرح مار کھا رہے ہوتے ہیں۔
عارضی جنگ بندی کا مطلب اپنے آپ کو نقصان سے بچانا ہے نہ کہ جہاد کو ترک کرنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت حماس کے پاس وہ ہتھیار یا میزائل نہیں ہیں کہ جن کے ذریعے وہ اسرائیلی یا یہودی فوجیوں کو شکست دے سکے اور امت مسلمہ میں کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں ہے کہ وہ نوحہ پڑھنے یا مالی امداد کے علاوہ عسکری امداد فراہم کرنے کے حق یا پوزیشن میں ہو تو جنگیں ایسے تو نہیں لڑی جاتیں۔ اور جنگ کا مقصد اپنی بربادی نہیں دشمن کی تباہی ہے۔
میری رائے یہ نہیں کہ اسرائیل سے جنگ نہ ہو بلکہ یہ جنگ تو نوشتہ تقدیر ہے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ بغیر تیاری جنگیں لڑنا کوئی حکمت نہیں ہے۔ جنگ بندی کا مطلب گھر بیٹھنا نہیں بلکہ جنگ کی تیاری کرنا ہے۔ آج ہم صرف خالد بن ولید اور ایوبی رحمہما اللہ کی کامیابیوں پر فخر کرتے ہیں لیکن ان کی اسٹریٹجی پر غور نہیں کرتے۔ ایوبی نے کتنی جنگوں کو ایوائڈ کیا، لیکن وہ بزدل نہیں تھا، وہ ایک بڑے معرکے کی تیاری میں تھا۔ حطین کا معرکہ۔ جنگیں طاقت اور قوت سے زیادہ عقل اور دماغ سے لڑی جاتی ہیں اور ہماری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ ٹھیک ہے، ایمان تھا لیکن ان جیسا ذہین بھی کوئی نہیں تھا۔
امریکہ نے پہلی جنگ عظیم میں اپنے آپ کو علیحدہ رکھ کر سپر پاور بنا لیا اور برطانیہ اس میں کودنے کی وجہ سے سپر پاور کھو بیٹھا۔ چین نے جنگ سے علیحدگی کی پالیسی اپنا کر اپنے آپ کو نیکسٹ سپر پاور بنا لیا ہے۔ میری نظر میں مسلمان مجاہدین نیکسٹ سپر پاور بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ جہاد سے زیادہ تیاری جہاد کو فوکس کریں۔ مسلمان حکومتیں کچھ جہاد نہ کریں، واللہ صرف عالمی سیاسی منظر نامے میں جوڑ توڑ کرنا شروع کر دیں اور بیان دیں تو ان کفار کو جرات ہی نہ ہو کہ مسلمانوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے خلاف مشرکین سے اتحاد کیا، اور مشرکین کے خلاف یہود سے اتحاد کیا تو کیا ہم یہود ونصاری کے خلاف اہل تشیع سے اتحاد نہیں کر سکتے؟ اگر میثاق مدینہ سے صحابہ کا ایمان خطرے میں نہیں پڑا جبکہ یہودی قرآن کے بیان کے مطابق مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں تو کیا ایران سے مفاہمت ہمیں منافق بنا دے گی؟ معلوم نہیں، ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ ہم ہر مسئلے کا حل اپنی محدود مذہبی سوچ کے تناظر میں چاہتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسی مذہبیت سے ڈر لگنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہی شاید ہمارے غلبے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کوئی مولوی نہیں بنا سکا، ایک دنیا دار نے بنایا کیونکہ مولوی کے پاس جذبہ ہے، ایمان ہے، لیکن حکمت نہیں ہے اور یہی اس وقت کی ہماری تمام معاصر جہادی تحریکوں کا المیہ ہے۔ حکمت کے بغیر محض جذبوں سے ہم مزید کٹ کھا سکتے ہیں کسی کو نیچے نہیں لگا سکتے۔ ہم ایک ساتھ پچاس محاذوں پر لڑنا چاہتے کیونکہ سب ہمارے دشمن ہیں اور تیاری ایک محاذ کی جتنی بھی نہیں ہے۔ کیا جہاد کا مقصد دشمن سے مار کھانا رہ گیا؟
آج فساد اور خانہ جنگی ہے تو لیبیا میں ہے، افغانستان میں ہے، عراق میں ہے، شام میں ہے، مصر میں ہے، اور اگلا نمبر سعودی عرب کا لگ چکا ہے۔ امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ اور یورپین ممالک میں کیا ہے۔ جنگ کے میدان ہمارے ممالک ہیں۔ مسلمان ممالک۔ اور دونوں طرف کی فوجیں بھی ہماری ہیں۔ ان کا کیا ہے؟ اس کے باجود ہم چند راکٹ برسا کر خوش ہوتے ہیں کہ دشمن پر دہشت طاری ہو گئی ہے۔ ہمیں احساس نہیں ہے کہ ہم نے کیا کھو دیا ہے۔ اور ہم نے پورا مڈل ایسٹ گنوا دیا ہے۔ وہاں نہ ختم ہونے والی سورشیں برپا ہیں۔ لاکھوں شہید ہوئے، لاکھوں بے گھر ہیں، شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔ اور ہم اکا دکا مجاہدین کی کاروائیوں پر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ بہت کام ہو رہا ہے۔ جو کچھ کر سکتے ہیں یعنی حکومتیں، ان کے پاس جذبہ نہیں، ایمان نہیں ہے۔ اور جو کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں، وہ حکمت کو بزدلی سمجھتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
عارضی جنگ بندی کا مطلب اپنے آپ کو نقصان سے بچانا ہے نہ کہ جہاد کو ترک کرنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت حماس کے پاس وہ ہتھیار یا میزائل نہیں ہیں کہ جن کے ذریعے وہ اسرائیلی یا یہودی فوجیوں کو شکست دے سکے اور امت مسلمہ میں کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں ہے کہ وہ نوحہ پڑھنے یا مالی امداد کے علاوہ عسکری امداد فراہم کرنے کے حق یا پوزیشن میں ہو تو جنگیں ایسے تو نہیں لڑی جاتیں۔ اور جنگ کا مقصد اپنی بربادی نہیں دشمن کی تباہی ہے۔
میری رائے یہ نہیں کہ اسرائیل سے جنگ نہ ہو بلکہ یہ جنگ تو نوشتہ تقدیر ہے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ بغیر تیاری جنگیں لڑنا کوئی حکمت نہیں ہے۔ جنگ بندی کا مطلب گھر بیٹھنا نہیں بلکہ جنگ کی تیاری کرنا ہے۔ آج ہم صرف خالد بن ولید اور ایوبی رحمہما اللہ کی کامیابیوں پر فخر کرتے ہیں لیکن ان کی اسٹریٹجی پر غور نہیں کرتے۔ ایوبی نے کتنی جنگوں کو ایوائڈ کیا، لیکن وہ بزدل نہیں تھا، وہ ایک بڑے معرکے کی تیاری میں تھا۔ حطین کا معرکہ۔ جنگیں طاقت اور قوت سے زیادہ عقل اور دماغ سے لڑی جاتی ہیں اور ہماری تاریخ اس پر گواہ ہے۔ ٹھیک ہے، ایمان تھا لیکن ان جیسا ذہین بھی کوئی نہیں تھا۔
امریکہ نے پہلی جنگ عظیم میں اپنے آپ کو علیحدہ رکھ کر سپر پاور بنا لیا اور برطانیہ اس میں کودنے کی وجہ سے سپر پاور کھو بیٹھا۔ چین نے جنگ سے علیحدگی کی پالیسی اپنا کر اپنے آپ کو نیکسٹ سپر پاور بنا لیا ہے۔ میری نظر میں مسلمان مجاہدین نیکسٹ سپر پاور بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ جہاد سے زیادہ تیاری جہاد کو فوکس کریں۔ مسلمان حکومتیں کچھ جہاد نہ کریں، واللہ صرف عالمی سیاسی منظر نامے میں جوڑ توڑ کرنا شروع کر دیں اور بیان دیں تو ان کفار کو جرات ہی نہ ہو کہ مسلمانوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے خلاف مشرکین سے اتحاد کیا، اور مشرکین کے خلاف یہود سے اتحاد کیا تو کیا ہم یہود ونصاری کے خلاف اہل تشیع سے اتحاد نہیں کر سکتے؟ اگر میثاق مدینہ سے صحابہ کا ایمان خطرے میں نہیں پڑا جبکہ یہودی قرآن کے بیان کے مطابق مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں تو کیا ایران سے مفاہمت ہمیں منافق بنا دے گی؟ معلوم نہیں، ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ ہم ہر مسئلے کا حل اپنی محدود مذہبی سوچ کے تناظر میں چاہتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسی مذہبیت سے ڈر لگنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہی شاید ہمارے غلبے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کوئی مولوی نہیں بنا سکا، ایک دنیا دار نے بنایا کیونکہ مولوی کے پاس جذبہ ہے، ایمان ہے، لیکن حکمت نہیں ہے اور یہی اس وقت کی ہماری تمام معاصر جہادی تحریکوں کا المیہ ہے۔ حکمت کے بغیر محض جذبوں سے ہم مزید کٹ کھا سکتے ہیں کسی کو نیچے نہیں لگا سکتے۔ ہم ایک ساتھ پچاس محاذوں پر لڑنا چاہتے کیونکہ سب ہمارے دشمن ہیں اور تیاری ایک محاذ کی جتنی بھی نہیں ہے۔ کیا جہاد کا مقصد دشمن سے مار کھانا رہ گیا؟
آج فساد اور خانہ جنگی ہے تو لیبیا میں ہے، افغانستان میں ہے، عراق میں ہے، شام میں ہے، مصر میں ہے، اور اگلا نمبر سعودی عرب کا لگ چکا ہے۔ امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ اور یورپین ممالک میں کیا ہے۔ جنگ کے میدان ہمارے ممالک ہیں۔ مسلمان ممالک۔ اور دونوں طرف کی فوجیں بھی ہماری ہیں۔ ان کا کیا ہے؟ اس کے باجود ہم چند راکٹ برسا کر خوش ہوتے ہیں کہ دشمن پر دہشت طاری ہو گئی ہے۔ ہمیں احساس نہیں ہے کہ ہم نے کیا کھو دیا ہے۔ اور ہم نے پورا مڈل ایسٹ گنوا دیا ہے۔ وہاں نہ ختم ہونے والی سورشیں برپا ہیں۔ لاکھوں شہید ہوئے، لاکھوں بے گھر ہیں، شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔ اور ہم اکا دکا مجاہدین کی کاروائیوں پر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ بہت کام ہو رہا ہے۔ جو کچھ کر سکتے ہیں یعنی حکومتیں، ان کے پاس جذبہ نہیں، ایمان نہیں ہے۔ اور جو کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں، وہ حکمت کو بزدلی سمجھتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب