مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
اسلامیات کے پانچ سوالات اور ان کے مختصر جوابات
جواب از مقبول احمد سلفی سوال (1): کیا خواتین حضرات مرد علماء کی تقریر سن سکتی ہیں ؟
جواب : عورت کا مرد کی تقریر سننے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اصل مسئلہ مرد کو دیکھنے کا ہے یعنی عورت اجنبی مرد کو دیکھتے ہوئے تقریر سن سکتی ہے کہ نہیں یا یوں کہہ لیں کہ عورت اجنبی مرد کا چہرہ دیکھ سکتی ہے کہ نہیں ؟۔ اس میں اختلاف ہے کہ عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے کہ نہیں ؟ صحیحین کی روایت سے دیکھنےکی دلیل ملتی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
رأيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم يستُرُني ، وأنا أنظرُ إلى الحبشةِ ، وهم يلعبون في المسجدِ( صحيح البخاري:987)
ترجمہ: میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا وہ مجھے چھپائے ہوئے تھے اور میں ان حبشی مردوں کو جو مسجد نبوی میں کھیل رہے تھے دیکھ رہی تھی۔
عورت کو نگاہیں نیچی کرنے اور مردوں کو نہ دیکھنے کا بھی حکم آیا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حکم لگے گا کہ ضرورتا ً عورت کا اجنبی مردوں کو دیکھنا جائز ہے مگر بلاضرورت دیکھنا منع ہے اور شہوت کی نظر سے دیکھنا تو سخت گناہ کا کام ہے ۔
سوال (2): گھر میں چھپکلی ہو تو اسے مار دینا چاہئے اور کیا اس کے مارنے پر ثواب ملتا ہے ؟
جواب : چھپکلی کو مارنا چاہئے کیونکہ نبی ﷺ نے اسے مارنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گھر میں چھپکلی مارنے کے لئےنیزہ رکھتی تھیں۔ حدیث میں وزع کا لفظ آیا ہے جو چھپکلی کے معنی میں ہے یایہ چھپکلی کی ایک قسم ہے جو گھروں میں رہتی ہے اسی قسم کی چھپکلی کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مارا کرتی تھیں ۔ مسلم شریف کی روایت ہے ۔
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أمر بقتلِ الوزَغِ . وسمَّاه فُوَيسِقًا .(صحيح مسلم:2238)
ترجمہ: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وزغ(چھپکلی) کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے فاسق قرار دیا ہے۔
اور چھپکلی کے مارنے پر ثواب ملتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قتل وزَغًا في أولِ ضربةٍ كُتبت لهُ مائةُ حسنةٍ . وفي الثانيةِ دون ذلك . وفي الثالثةِ دون ذلك( صحيح مسلم:2240)
ترجمہ: جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے ، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی ، دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔
سوال (3): علم غیب عطائی کیا ہے ؟
جواب : جو لوگ نبی ﷺ کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے علم غیب کی دو قسم کرتے ہیں کیونکہ اپنی عوام کو جھوٹی باتوں سے بہلانے پھسلانے کا یہی مناسب بہانہ ہے ۔ ایک غیب ہے ذاتی اور دوسرا غیب ہے عطائی ۔ صوفیوں کا کہنا ہے کہ ذاتی غیب تو اللہ کے پاس ہے مگر عطائی غیب نبی ﷺ کے پاس ہے یعنی اللہ نے نبی ﷺ کو غیب کا علم عطا کیا ہے اس طرح نبی ﷺ بھی عالم الغیب ہوئے ۔ قرآن وحدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالی ہے ، یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالی نے نبی ﷺکو غیب کی خبریں بتائیں تو یہ وحی اور رسالت کے قبیل سے ہے ، کسی کو اگر غیب کی چند باتیں بتائی جائے تو وہ عالم الغیب نہیں کہلائے گا۔ قرآن میں ایک طرف اللہ تعالی نے علم غیب کو اپنی صفت بتلایا ہے تو دوسری طرف محمد ﷺ کی ذات گرامی سے علم غیب کی نفی کی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ (الحشر:22(
ترجمہ: وہ اﷲ ہی ہے نہیں کوئی معبود سوائے اس کے ، جاننے والا غائب وحاضر کا بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا۔
اس آیت میں اللہ نے علم غیب کو اپنی صفت بتلایا ہے ، دوسرا فرمان ہے :
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (الانعام:50(
ترجمہ: اے نبی ! آپ لوگوں سے کہہ دیں ! نہیں کہتا میں تم سے کہ میرے پاس اﷲکے خزانے ہیں اور نہ جانتا ہوں میں غیب اور نہ کہتا ہوں میں تم سے کہ میں فرشتہ ہوں نہیں پیروی کرتا مگر اس کی جو وحی کیا جاتا ہے میری طرف پوچھو (ان سے)کیا برابر ہوسکتاہے اندھا اور آنکھوں والا؟کیا تم غور نہیں کرتے ؟
اس آیت میں اللہ نے کہا کہ محمد ﷺ غیب نہیں جانتے جو کچھ ان کے پاس ہے وحی ہے یعنی محمد ﷺ کی ذات سے علم غیب کی نفی کی ہے مطلب یہ ہوا کہ علم غیب اللہ کی صفت ہے اسے کسی دوسرےمیں تسلیم کرنا اللہ کی صفت کو مخلوق کی صفت سے تشبیہ دینا ہے ۔ اسی لئے ہم اہل حدیث نبی کی لائی ہوئی تمام باتوں کو وحی کہتے ہیں جیساکہ اللہ نے فرمایا: وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ(النجم:3-4)
ترجمہ: اوروہ نبی اپنی خواہش سے تو بولتے ہی نہیں یہ تو وحی ہے جو کہ ان کی طرف وحی کی جاتی ہے ۔
بحث کے طور پر تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ آپ ﷺ کو علم غیب عطائی ہے بطور مثال آپ ﷺ کو غیب کی چند باتیں عطا کی گئیں تو اس کا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ غیب کی جتنی خبر آپ ﷺ کو عطا کی گئی اس کے علاوہ غیب کی دوسری کوئی بات نہیں جانتے ہیں کیونکہ عطا اسی کو کہیں گے تو مل جائے اور جو نہ ملے وہ عطا نہیں ہے ۔ ہم سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ نبی ﷺ کو طائف میں لہولہان کیاگیا، احد میں دانت شہید کیا گیا، جبل رماۃ پہ جنہیں آپ نے مامور کیا انہوں وہ جگہ چھوڑ دی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی ،سترقاریوں کو آپ نے تعلیم دینے کے لئے بھیجا وہ شہید کردئے گئےوغیرہ اگر آپ غیب جانتے تو یہ حالات کبھی نہ پیدا ہوتے ۔
سوال (4) : نماز میں نبی کا خیال آنے پر نماز ہوجائے گی ؟
جواب : نبی ﷺ نے امت کو اپنی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے او ر نماز اللہ کے لئے پڑھی جاتی ہے گویا ہم نماز میں اللہ کا دھیان رکھ کر رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ادا کریں گے ۔ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ بلاشبہ نماز میں نبی ﷺ اور آپ کی سنت کا خیال آئے گا اس کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ باقاعدہ درود میں آپ ﷺ کا نام تک آیا ہے جسے قعدہ میں پڑھا جاتا ہے ۔ایسا ہوسکتا ہےکہ محمد کا نام آئے توجہ اس طرف چلی جائے مگر آپ کی طرف خیال کرکے اس میں ڈوب جانایا قصدا ًنماز میں آپ کا خیال لانا یہ منع ہے ۔
سوال (5): کیا انما المومنون اخوۃ(سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں) کے تحت نبی ہمارے بھائی ہیں ؟
جواب : دین وایمان کے رشتے سے تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ بخاری شریف کی اس روایت سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے ۔
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ خطبَ عائشةَ إلى أبي بكرٍ ، فقالَ له أبو بكرٍ : إنَّمَا أنا أخوكَ ، فقالَ : أنتَ أخي في دينِ اللهِ وكتَابِهِ ، وهيَ لي حلالٌ .(صحيح البخاري:5081)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے شادی کے لئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں آپ کا بھائی ہوں ۔ ( تو عائشہ سے کیسے نکاح کریں گے ) ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اللہ کے دین اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے رشتہ سے تم میرے بھائی ہو اور عائشہ میرے لئے حلال ہے ۔