• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات از فضیلۃ الشیخ عبد السلام بستوی - خطبہ نمبر 3

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خطبہ ــ 3
محمد رسول اللہ ﷺ کے بیان میں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین۔ الرحمن الرحیم مالک یوم الدین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین۔ وعلی الہ واصحابہ اجمعین وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی سآئر عباد اللہ الصالحین۔ امابعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ط
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۝۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۱۵۸ (اعراف:۱۵۸)

حمد و صلوۃ کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، اے محمد (ﷺ )آپ کہہ دیجیے، کہ اے لوگو! تحقیق میں اللہ کا رسول ہوں، تم سب کے پاس بھیجا گیا ہوں، وہ اللہ جو زمینوں اور آسمانوں کا بادشاہ ہے، اور جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے، تو تم تصدیق کرو، اللہ کی اور اس کے رسول کی،جو اُمی نبی ہیں، وہ اللہ ا ور اس کی تمام باتوں کی تصدیق کرتے ہیں، تم اسی نبی کی سنت کے موافق عمل کرو، تاکہ تم راہ پاؤ۔
اس آیت کریمہ میں حکم ہے، کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کرو، اور آپ کی تابع داری کرو۔
کلمہ طیبہ کے پہلے حصہ لاالہ الا اللہ میں توحید کا ذکر تھا، جس کا مختصر بیان پہلے ہو چکا ہے۔ توحید کے بعد اسلام کی دوسری بنیاد محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی تصدیق کرنا، اور شہادت دینا ہے، رسول کے معنی خبر پہنچانے والے کے ہیں، اور شرعی محاورے میں رسول اس نیک انسان کو کہتے ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب دے کر مخلوق کی ہدایت کے لیے دنیا میں بھیجا تھا، ان ہی کو نبی ا ورپیغمبر بھی کہتے ہیں۔
رسول و پیغمبر اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور نیک بندے گناہوں سے بالکل پاک و صاف ہوتے تھے، اور ہر قسم کی خوبیاں اور بھلائیاں ان میں ہوتی تھیں، ان کے پاس اللہ تعالیٰ اپنا حکم دے کر فرشتوں کو بھیجتا تھا، وہ لوگ فرشتوں سے اللہ تعالیٰ کا حکم سن کر اور پڑھ کر مخلوق کو سناتے، اچھی باتوں کا حکم کرتے، اور بری باتوں سے روکتے تھے، جنت کی خوشخبری دے کر دوزخ سے ڈراتے تھے، اپنی قوم کی خیر خواہی اورہمدردی میں رات دن مشغول رہتے، کسی مخلوق سے نہیں ڈرتے، اور نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم چھپاتے تھے، بلکہ تمام حکموں کو نڈر اور بے خوف ہو کر پہنچا دیتے، اور ماں باپ سے زیادہ مہربان ہوتے تھے، اس لیے ہم سب پر فرض ہے کہ ان کی اطاعت و فرماں برداری کریں، جس کام کے کرنے کا کہا ہے، اس کام کو بجا لائیں اور جس سے منع کیا ہے اس سے باز رہیں، ان کی نافرمانی سے ا للہ تعالیٰ ناخوش اور فرماںبرداروں سے خوش ہوتا ہے، بلکہ ان کی فرماںبرداری اللہ ہی کی فرماںبرداری ہے، اور ان کی نافرمانی اللہ تعالیٰ ہی کی نافرمانی ہے، جو اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے گا، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ا ور جو اُن کی فرماںبرداری کرے گا، وہ ہمیشہ جنت میں رہے گا، ہم سب اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں اور رسولوں پر ایمان و یقین کرتے ہیں، کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سچے اور نیک بندے تھے، نبی اور رسول بہت ہوئے ہیں، ان کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا ا ور کوئی نہیں جانتا، ان میں سے بعض نبیوں اور رسولوں کا بیان قرآن مجید میں آیا ہے، اور بعض کا نہیں آیا، سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور سب سے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ رسول برحق ہیں ا ور سب نبیوں کے امام اور پیشوا ہیں۔
ہمارے نبی محمد ﷺ قریش کے معزز خاندان بنو ہاشم میں پیدا ہوئے،آپﷺ کے والد ماجد کا نام عبداللہ اور والدہ محترمہ کا نام آمنہ تھا، آپﷺ بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، دادا عبدالمطلب اور تایا ابو طالب نے آپﷺ کی پرورش کی، چالیس برس کے بعد آپﷺ کو نبوت ملی، آپﷺ پر جب آسمان سے قرآن شریف اترنے لگا، اور حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لانے لگے، اور آپﷺ مشرکین عرب و کفار مکہ کو قرآن شریف پڑھ کر سناتے اور سمجھاتے، بری باتوں سے روکتے، اور اچھی باتوں کے کرنے کا حکم فرماتے تھے، مگر مکہ والوں نے آپﷺ کو بہت دق کیا، تو آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے، مدینہ والوں نے آپﷺ کی بڑی عزت کی، بہت سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے، باقی جو رہ گئے تھے، وہ بھی مسلمان ہوگئے اور جان و مال سے خدمت کرنے لگے، دس برس مدینہ منورہ میں قیام رہا ، اور وہیں تریسٹھ برس کی عمر میں اس دارفانی سے رحلت فرماگئے، آپﷺ تمام رسولوں اور نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں، آپﷺکے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا، آپﷺ کے بعد جو نبوت کا دعویٰ کرے ، وہ جھوٹا ہے، دجال ہے آپﷺ تمام انسانوں بلکہ تمام فرشتوں سے بھی افضل اور سب کے سردار ہیں، قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھیں گے، اور سب سے پہلے گناہ گاروں کی شفاعت کریں گے، آپﷺ کی شفاعت قبول ہوگی، محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت تمام ایمان والوں پر فرض ہے، بغیر آپﷺ کی اطاعت کے کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا، ذیل کی آیتوں میں اس کا بیان ہے،
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ان آیتوں میں اللہ و رسول کی فرمانبرداری اور تابعداری کی بڑی اہمیت بتلائی گئی ہے، رسول اللہ ﷺ کے رسول ماننے کا یہی مطلب ہے، کہ ہر کام میں اللہ کے رسولﷺ کے قول و فعل کی عملی حیثیت سے پیروی کی جائے، دین و دنیا کے مقدمات کا فیصلہ اللہ اور پیغمبر ہی سے کرایا جائے، ا ور بلاچون و چرا اسے تسلیم کر لیا جائے، جو لوگ زبانی کلمہ طیبہ کا دوسرا جزو''محمد رسول اللہ'' کہتے ہیں، ا ور اپنے مقدمات کو طاغوت اور مخالفین کے سامنے پیش کرتے ہیں، اور ان کے فیصلہ کو مان کر عمل کرتے ہیں، وہ صحیح معنوں میں اللہ کے رسول ﷺ کو رسول ہی تسلیم نہیں کرتے، کیا خوب کہا ہے کسی نے :
لاکھ تو نے منہ سے کلمہ کو پڑھا
اگر یقین دل میں نہیں کس کام کا
جو لوگ صحیح معنوں میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں، وہ قیامت کے روز اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ ہوں گے، نیز جگہ جگہ قرآن مجید میں اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول آیا ہے، یعنی اللہ کی اطاعت کرو، اور اس کے رسول کا کہا مانو، اللہ کی اطاعت کیسے کی جائے اور وہ کس کس کام سے خوش اور کس سے ناخوش ہے، اس کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بلاواسطہ کسی کو خود اللہ تعالیٰ ہی بتا دے، کہ تم اس طرح ہماری عبادت و اطاعت کرو، ایسا ہی شخص نبی اور رسول ہوگا، دوسری صورت یہ ہے کہ نبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے، اب چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے، اور کوئی نیا نبی اور رسول نہیں آسکتا ، تو پہلے رسول کی تابعداری سے خدا کی اطاعت ہو سکتی ہے، بغیر رسول کی تابعداری کے اللہ کی فرمانبرداری ہو ہی نہیں سکتی، اللہ کے رسول کی تابعداری ہی اللہ کی فرمانبرداری ہے،
اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝۷۹ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۝۸۰ۭ (النساء:۷۹۔۸۰)
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ بطورِ گواہ کافی ہے جو رسول کا کہا مانے گا، وہ دراصل خدا کا حکم مانے گا، اور جو رخ پھیر لے گا، تو ہم نے آپ کو اس پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا ہے۔
اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے، کہ اے ہمارے نبی ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، جو اللہ کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے گا، اور جو اللہ کے رسول سے محبت کرے گا، وہ اللہ سے محبت کرے گا، اسی طرح جس نے رسول کی نافرمانی کی ، اس نے گویا اللہ کی نافرمانی کی، اپنے رسول کی نافرمانی سے خدا ناخوش ہوتا ہے، جس طرح اپنے نافرمانوں سے ناخوش ہوتا ہے،
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۝۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۝۱۱۵ۧ (النساء:۱۱۵)
اور جو شخص راہ ہدایت کھل چکنے کے بعد اللہ کے رسول کی مخالفت کرے گا، اور مسلمانوں کے راستہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلے گا، ہم اس کو اسی راہ پر چلائیں گے، جس پر وہ چلے گا، اور اس کو دوزخ میں داخل کر دیں گے، اور وہ بری جگہ ہے۔
اس آیت کریمہ کا مطلب بالکل واضح ہے، کہ جو شخص باوجود ظہور ہدایت ، اور نزول قرآن اور حقانیت اسلام کے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرے گا، اور ہمارے نبی اور اسلام کے طریقے کو چھوڑ کر غیروں کے طریقوںکو اختیار کرے گا، اور گمراہی کو پسند کرے گا، تو ہم بھی اس کو اسی گمراہی میں چھوڑ دیں گے، جو اس نے ا پنے لیے پسند کی ہے، اور آخرت میں اس کو جہنم میں داخل کر دیں گے،رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنایا ہے، آپ کے اقوال، افعال ، احوال کی پیروی میں نجات ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۝۲۱ۭ (احزاب:۲۱)
یقینا تمہارے لیے رسول خدا ﷺ میں بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے نمونہ ہے، جو اللہ کی اور قیامت کے آخری دن کی امید رکھتا ہے اور خدا کو بہت یاد کرتا ہے۔
جو لوگ زبان سے تو رسالت محمدی کا اقرار کرتے ہیں، مگر آپﷺ کے فیصلے کے مطابق عمل نہیں کرتے ان کو منافق کہا جاتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۝۰ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۴۷ وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝۴۸ وَاِنْ يَّكُنْ لَّہُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْہِ مُذْعِنِيْنَ۝۴۹ۭ اَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَرَسُوْلُہٗ۝۰ۭ بَلْ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۵۰ۧ اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵۱ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۵۲ (النور:۴۷ تا ۵۲)
وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، اور فرمانبردار ہوئے، پھر ان میں سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی پھر جاتا ہے یہ ایمان والے ہی نہیں، جب وہ لوگ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں، کہ خدا اور اس کا رسول ان کے جھگڑوں کا فیصلہ کر دیں، تو بھی ان کی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے، ہاں اگر ان ہی کو حق پہنچتا ہے تو مطیع و فرمانبردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں، کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے، یا یہ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں، یا انہیں اس بات کاڈر ہے، کہ کہیں خدا ا ور اس کا رسول ان کی حق تلفی نہ کریں ، بات تو یہ ہے، کہ یہ لوگ خود بھی بڑے بے انصاف ہیں، ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے، کہ خدا اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے ، تو وہ کہتے ہیں ،کہ ہم نے سنا اور مان لیا، یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، جو بھی خدا کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں، اور خداکا خوف رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہ نجات پانے والے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ان آیتوں میں منافقین کی حالت ، کیفیت اور علامت بتلائی گئی ہے، کہ یہ لوگ زبان سے ایمان اور اطاعت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن دل اور عمل اس کے خلاف ہیں، اور جب شرعی فیصلہ کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے، اگر اس میں ان کو اپنا دنیاوی فائدہ نظر آتا ہے، تو خوشی سے قبول کر لیتے ہیں، اور اگر اس میں دنیاوی نقصان نظر آتا ہے، تو حق کی طرف دیکھتے بھی نہیں،حالانکہ مومن کی یہی نشانی ہے، کہ وہ خدااور رسول کی تابعداری کرتے ہیں، اور ان کا یہی قول و عمل ہے، اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔
رسول پر ایمان لانے کا مطلب:
یہی ہے کہ اللہ کا رسول جو کچھ بتائے ، وہ حق ہے جو کچھ کہے وہ سچ ہے، اور جو عمل کرے وہ قابل اتباع ہے، ان کی تمام بتائی باتوں کا ماننا، اور اس کے مطابق عمل کرنا فرض ہے، خواہ عبادات کے بارے میں ہو، یا معاملات اور اخلاق کے متعلق ہو یا تمدن اور معاشرت کے بارے میں ہو، غرض زندگی کے کسی بھی شعبہ کے متعلق ہو، جب اپنی زندگی کو رسول کی عملی زندگی کے سانچے میں ڈھال لے گا، تو وہ اللہ کے رسول کو رسول مان لے گا، اور اس کا ا یمان بالرسالت صحیح ہوگا، نہیں تو نہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لایومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ(شرح السنۃ)
تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائے۔
یعنی اپنے خیال و ارادہ کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق بنالے تب مومن ہوسکتا ہے، اور جو آپﷺ کا تابعدار نہیں، وہ مومن نہیں آپﷺ نے فرمایا:
کل امتی یدخلون الجنۃ الا من ابی قیل ومن ابی قال من اطاعنی دخل الجنۃ ومن عصانی فقدابی (بخاری شریف)
میری کل امت جنت میں داخل ہوگی، مگر جو انکار کرے عرض کیا گیا، کہ کون انکار کرے گا؟ فرمایا جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جو نافرمانی کرے گا، وہ انکار کرے گا (یعنی نافرمانی اور انکار کرنا گویا نہ ماننے کی دلیل ہے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
محبت رسول ﷺ:
جب رسول کا مطلب سمجھ میں آگیا، تو اس کے لوازمات سے یہ بھی ہے، کہ اللہ کے رسول کی محبت تمام چیزوں سے زیادہ ہو، اور یہ ظاہر بات ہے، کہ جو جس سے محبت کرتا ہے، وہ اس کی ہر بات اور ہر ادا کو پسند کرتا ہے، اور اس کے کہنے پر چلتا ہے، اور اس کی ہر ادا کو اختیار کرتا ہے، وہ اس کے رنگ میں رنگ جانے کی بڑی خواہش کرتا ہے، گویا ایمان بالرسول ، محبت رسول اور اطاعت رسول ایک چیز ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا یومن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔ (بخاری شریف)
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے ماں باپ اور اولاد اور دیگر تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔
اور آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
من احبنی کان معی فی الجنۃ۔ (ترمذی)
جو میرے ساتھ محبت کرے، وہ میرے ساتھ جنت میں رہے گا
نیز آپﷺ نے فرمایا ہے:
المرء مع من احب۔ (بخاری شریف)
ہر شخص کا حشر اپنے دوست کے ساتھ ہوگا۔
اللہ کے رسول ﷺ کی محبت ا یمان کا جزو ہے، محبت کے تین اسباب ہیں، جمال، کمال، جود، یہ تینوں اوصاف رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدس میں موجود تھے، ؎
ہم حسن و جمال بے نہایت داری
ہم جود و کرم بے حد غایت داری
ہم حسن ترا مسلم و ہم احسان!
محبوب توئی کہ ہر دو آیت داری
محبت کی دو قسمیں ہیں، طبعی اور عقلی،محبت عقلی سے اطاعت و فرمانبرداری مراد ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ کی محبت تمام عزیزوں اور خویش و اقارب ، ماں باپ، بیٹے، بیوی اور اپنی جان سے بھی زیادہ ہو، یعنی اگر کسی موقع پر رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کے مقابلہ میں تمام عزیزوں کو چھوڑنا پڑجائے، یا اپنی جان دینی پڑ جائے ، تو سب کو چھوڑ دے یا اپنی جان دے دے، مگر اللہ کے رسولﷺ کی نافرمانی نہ ہونے پائے، جب یہ کیفیت پیدا ہو جائے گی، تب ایمان کامل ہوگا،
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس کی تائید حضرت عمرؓ کے واقعہ سے ہوتی ہے، کہ حضرت عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں، کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپﷺ حضرت عمر ؓ کا ہاتھ اپنے دست مبارک سے پکڑے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے آپﷺ سے عرض کیا:
لانت یا رسول اللہ احب الی من کل شیء الا من نفسی۔ (بخاری شریف)
یا رسول اللہ! آپ ﷺ مجھے اپنی جان کے علاوہ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم جب تک میں تم کو اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں تب تک تم سچے مومن نہیں ہوسکتے، حضرت عمرؓ نے عرض کیا، اب مجھے آپﷺ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوگئے ہیں آپﷺ نے فرمایا: اب تم کامل مومن ہوگئے ہو(بخاری شریف)
قرآن مجید سے بھی یہی ثابت ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۴ۧ (توبہ: ۲۳۔۲۴)
اے مومنو! اگر تمہارے باپ، بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھتے ہوں، تو انہیں اپنا دوست نہ بناؤ، اور جو ایسا کرے گا، تو یہی لوگ ظالم ہوں گے، اے ہمارے پیغمبر! آپ کہہ دیجیے، کہ اگر تمہارے باپ، اولاد ، بھائی، بیویاں، کنبہ ، تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے، اور تمہاری تجارت جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے، اور تمہارے رہنے کے مکان جو تمہیں بہت پسند ہیں، یہ سب چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہادسے زیادہ پیاری ہوں، تو انتظار کرو، یہاں تک کہ جو خدا کو کرنا ہے تمہارے سامنے آجائے، خدا فاسقوں پر ہدایت کی راہیں نہیں کھولتا۔
اس آیت کریمہ سے یہی معلوم ہوتا ہے، کہ خدا اور رسول کی محبت سب سے زیادہ ہونی چاہیے، اور اپنے اور غیروں کے مقابلہ میں خدا اور رسول ہی کو ترجیح دینا چاہیے، اور ان دونوں کی محبت سب کی محبتوں پر غالب ہونی چاہیے، انصار اور صحابہ کرامؓ کو آپ ﷺسے اسی طرح کی محبت تھی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شفا میں ہے، کہ جنگ احد میں ایک انصاری عورت کا باپ بھائی اور شوہر تینوں شہید ہوگئے تھے، جب اسے خبر ملی تو اس نے دریافت کیا،کہ رسول اللہ ﷺ تو خیریت سے ہیں، کہا گیا ہاں، اس نے کہا، چلو مجھے دکھا دو، تاکہ میں خود روئے انور کو دیکھ لوں، جب اس نے آپﷺ کو دیکھ لیا، تو بولی کل مصیبۃ بعد ک جلل، جب آپﷺ زندہ و سلامت ہیں، تو اس کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔ ؎
میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہ دین ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
اہل مکہ جب زید بن دثنہ کو حرم سے باہر لے چلے تو ابو سفیان بن حرب نے کہا کہو زید قسم کھا کر بتاؤ کیا اس وقت تمہیں یہ پسند ہے، کہ محمد (ﷺ)یہاں تمہاری جگہ ہوتے، اور تم اپنے گھر ہوتے؟ زید ؓنے قسم کھا کر کہا، کہ مجھے ہر گز یہ گوارا نہیں ، کہ میں اپنے گھر میں ہوں، اور یہاں آپﷺ کے جسم میں کانٹا بھی چبھے، ابوسفیان کہنے لگا کہ میں نے کبھی کسی کو اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا، جتنی کہ محمد(ﷺ) کے ساتھی ان سے محبت کرتے ہیں۔
قاضی عیاض نقل کرتے ہیں، کہ ایک شخص نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، کہ آپ ﷺمجھے میرے تمام اہل وعیال سب سے زیادہ محبوب ہیں مجھے آپﷺ کی صورت یاد آتی ہے تو صبر نہیں آتا، جب تک آپ ﷺ کو یہاں آکر دیکھ نہیں لیتا، اب غم یہ ہے، کہ وفات کے بعد آپﷺ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوں گے تو میں آپ ﷺ کو وہاں کیسے دیکھا کروں گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۝۶۹ۭ (النساء:۶۹)
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانتے ہیں، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر خدا کا انعام ہے، یعنی نبی، صدیق، شہید اور نیک لوگ، اور ان لوگوں کی صحبت بڑی نعمت ہے۔
آپﷺ نے اسے یہ آیت سنا دی:
اللہ تعالیٰ کی محبت اطاعت رسول پر موقوف ہے، جو اللہ کے رسول کی فرماںبرداری کرے، وہ خدا کا دوست ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۱ قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۝۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ۝۳۲ (آل عمران:۳۱۔۳۲)
(یعنی اے ہمارے رسول سب لوگوں سے) کہہ دیجیے، کہ اگر تم اللہ کو چاہتے ہو، تو میری تابعداری کرو، اللہ تم کو چاہے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،(اے ہمارے رسول) کہہ دیجیے، کہ اللہ کی اور رسول اللہ کی فرمانبرداری کرو، اگر وہ اس سے پھر جائیں، تو بات یہ ہے کہ وہ نافرمان ہیں، اور اللہ تعالیٰ نافرمانوں سے محبت نہیں رکھتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس آیت کے شان نزول کی بابت تفسیر جامع البیان وغیرہ میں لکھا ہے، کہ مشرک لوگ بتوں کو اور جنوں کو پوجتے تھے، اور دعویٰ ان کا یہ تھا، کہ یہ کام ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کرتے ہیں، یعنی ہماری نیت یہ ہے، کہ ان کاموں سے اللہ راضی ہو جائے، اور یہود و نصاریٰ کہتے تھے، کہ ہمارے بزرگ پیغمبر ہوئے ہیں، اور ہم لوگ پیغمبروں کی اولاد ہیں، لہٰذا اللہ کو ہم سے ضرور محبت ہوگی،ایسے ہی مکہ والے یوں سمجھتے تھے، کہ ہم لوگ بیت اللہ کے خادم اور مجاور ہیں، اور حاجیوں کی مہمانداری و خبر گیری کرتے ہیں، ہم پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی و محبت ضرور ہوگی، اور ان سب کی بات رد کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یعنی فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی، تو اس کے بھیجے ہوئے رسول کو مانتے اللہ کی محبت تو جب ہی سچی ہے، اور اس کی رضا مندی جب ہی حاصل ہوگی،جب کہ رسول اللہ ﷺ کی حکم برداری کرو گے اگر اس کے رسول کی حکم برداری نہیں کرتے، تو سب خیال اور تمام دعوے غلط ہیں۔
آج کل کے ہزاروں مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے، کہ زبان سے تو یہ کہتے ہیں، کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ پیارے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کے واسطے ہمارا مال اورجان قربان ہے، لیکن رسول ﷺ کے حکم کی پیروی بالکل نہیں کرتے، جدھر دیکھو، شکل و صورت، وضع قطع، کھانا کمانا ، شادی بیاہ اور لینا دینا غرض سب کام اپنے ملک، برادری اور باپ دادا کی رسم پر کرتے ہیں، اور جب کوئی کہے کہ یہ کام اور سب رسمیں چھوڑ دو، اور شریعت پر چلو، تو یہ جواب دیتے ہیں، کہ ہم لوگ دنیادار ہیں، گناہ گار ہیں، بھلا ہم سے شریعت پر عمل کہاں سے ہوسکتا ہے! دیکھا آپ نے شریعت پر عمل کرنے سے صاف انکار کرتے ہیں، اور پھر اچھے خاصے مسلمان بنے رہیں :
تجھ میں کچھ بوئے وفاداری نہیں
یار ہو کر شیوہ یاری نہیں
حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
لیس الایمان بالتمنی ولا بالتحلی ولکن ھو ما وقر فی القلب و صدقھُ العمل (دیلمی)
ایمان کا دعویٰ تصنع اور بناوٹ کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ ایمان وہ ہے جودل میں جگہ پکڑے، اور عمل اس کی تصدیق کر دے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے والا قیامت کے دن کفِ افسوس ملے گا:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ تَنْزِيْلًا۝۲۵ اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ۝۰ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا۝۲۶ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْہِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا۝۲۷ يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۝۲۸ لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ۝۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا۝۲۹ (الفرقان:۲۵ تا ۲۹)
جس دن آسمان مع بادل کے پھٹ جائے گا اور فرشتے لگا تار اتریں گے، اس دن ملک صرف رحمن ہی کا ہوگا، اور یہ دن نافرمانوں پر بڑا بھاری ہوگا، اس دن ستم گر شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا، ہائے افسوس کاش میں نے اللہ کے رسول کی راہ لی ہوتی ، ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا، اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی، اور شیطان تو انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا، کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی تابعداری فرض ہے نافرمانی کرنے والا قیامت کے دن افسوس کرے گا:
فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۝۴۱ۭ۬ يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِہِمُ الْاَرْضُ۝۰ۭ وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللہَ حَدِيْثًا۝۴۲ۧ (النساء:۴۱۔۴۲)
اس وقت کیا حال ہوگا، جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے، اور ان سب پر اے نبی ہم آپ کو گواہ بنا کر پیش کریں گے، اس دن کفر کرنے والے اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے والے آرزو کریں گے، کہ کاش زمین ان کو اپنے اندر سما کر ہموار ہوجائے، اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔
رسولﷺ کی تابعداری میں لوگوں کا امتحان ہے:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ۝۰ۭ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَۃً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللہُ۝۰ۭ (البقرہ:۱۴۳)
اور جس قبلہ پرآپ پہلے تھے،اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ اس رسول کا سچا تابعدار کون ہے، اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے، گویا یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے، ان پر کوئی دشوار نہیں ہے۔
جو اس وقت اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے عمل کی موافقت کرے گا، وہ آزمائش میں پورا اترے گا اور جو تحویل قبلہ کے وقت نافرمانی کرے گا، وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوگا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ کے رسولﷺ کی تابعداری بہترین کسوٹی ہے:
مشکوۃ شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے پاس چند فرشتے آئے، اور آپ سوتے تھے، تو وہ فرشتے آپس میں کہنے لگے، کہ ان کے لیے ایک مثال ہے، وہ مثال ان کو سناؤ، بعض فرشتے بولے مثال کس کو سنائیں یہ تو سوتے ہیں، بعض فرشتوں نے جواب دیا، کہ ان کی آنکھ سوتی ہے، اور دل جاگتا ہے یعنی ان کا سونا ا یسا نہیں ہے، جیسا کہ اور لوگوں کا سونا ہوتا ہے، بلکہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں، اور دل خبردار اور ہشیار رہتا ہے، جو کچھ تم کہو گے، وہ سنیں گے، تو ان فرشتوں نے کہا،کہ ان کی مثال ایسی ہے،کہ کسی شخص نے ایک مکان بنا یا، اور اس میں ضیافت کا سامان تیار کیا، اور ایک بلانے والے کو بھیجا، کہ لوگوں کو اس ضیافت کے لیے بلا لائے ، تو جو کوئی اس بلانے والے کے کہنے پر چلا آئے گا ، وہ اس مکان میں بھی داخل ہوگا، اور ضیافت کا کھانا بھی کھائے گا، اور جو شخص اس بلانے والے کے کہنے پر نہ آئے گا، وہ اس مکان میں بھی داخل نہ ہوگا، اور ضیافت کا کھانا بھی اسے میسر نہ ہوگا، بعض فرشتوں نے کہا، کہ اس کا مطلب کھول دو، تا کہ وہ سمجھیں اس پر بعض فرشتے بولے، کہ وہ تو سوتے ہیں، بعض فرشتوں نے کہا، کہ آنکھیں سوتی ہیں، اور دل جاگتا ہے، توان فرشتوں نے کہا، کہ وہ مکان جنت ہے، اور بلانے والے محمد ﷺ ہیں، جو شخص محمد رسول اللہ ﷺ کی تابعداری کرے، وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے، اور جو شخص محمد ﷺ کی نافرمانی کرے وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے، اور محمد ﷺ لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں، یعنی کافر و مومن اور نیک و بد میں تمیز ا ور پہچان کا یہی طریقہ ہے، کہ جوکوئی محمد ﷺ کا تابعدار ہے، وہ مومن اور نیک ہے، اور ان ہی کے واسطے جنت ہے، اور جو کوئی ان کی تابعداری نہ کرے، وہ کافر اوردوزخی ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ۝۲۰ۚۖ (انفال:۲۰)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی، اور اس کے رسول کی اور مت پھرو اس سے اور تم سنتے ہو۔
اور مت ہو مانند ان لوگوں کے ، کہ کہتے ہیں سنا ہم نے ا ور وہ نہیں سنتے ، یعنی یہود و نصاریٰ کا یہ حال ہے، کہ زبان سے تو تورات و انجیل اور پہلے انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان احکام پر عمل نہیں کرتے، ا للہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا، کہ تم ایسے مت ہو جانا ، جب تک احکام الٰہی اور احکامِ رسول اللہ ﷺ کی تعمیل نہ کرو گے، اس وقت تک زبانی اقرار سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اطاعت رسول اللہ ﷺ کی توفیق مرحمت فرمائے ، اور ہم سب مسلمانوں کاخاتمہ بالخیر ہو(آمین)
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
والصلوۃ والسلام علی رسولہ محمد والہ واصحابہ اجمعین۔
 
Top