• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات 17 استقامت کا بیان

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
استقامت کا بیان
بسم اللہ ا لرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین۔ الرحمن الرحیم ۔ مالک یوم الدین۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ اھدنا الصرط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم۔ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین (امین) والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلی الٰہ واصحابہ وعلی جمیع عباد اللہ الصالحین۔ اما بعد۔ فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیمط اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰ نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۝۳۲ۧ (حم سجدۃ:۳۰ تا ۳۲)
سب تعریف ہے اللہ کے لیے، جو سارے جہاں کا پالنے والا ہے، بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے، بدلے کے دن کامالک ہے، خدا یا ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں، تو ہمیں سیدھی راہ دکھا، یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ہے نہ ان لوگوں کی جن پر غضب کیا گیا، اور نہ گمراہوں کی، اور درود و سلام نازل ہوں اللہ کے بزرگ رسول پر اور آپﷺ کے تمام آل و اصحاب پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر اس کے بعد میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان،بڑے رحم والا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر قائم رہے، تو ان کے پاس فرشتے یہ کہتے ہوئے آتے ہیں، کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو، جس کا تم وعدہ دیے گئے ہو، ہم دنیا میں اور آخرت میں تمہارے معین و مددگار ہیں اور تمہارے لیے وہاں ہر قسم کی نعمتیں ہوں گی، جس کی تمہاری طبیعت چاہے گی، مہربان بخشش کرنے والے خدا کی طرف سے تمہاری مہمانی ہوگی۔​
کسی کام کے کرنے میں مسلسل جدوجہد اور کوشش کرنے کا نام استقلال اور استقامت ہے اور بغیر استقامت کے دین و دنیا کا کوئی کام نہیں ہوسکتا، اور ہر اس کام کو جسے حق سمجھا جائے، صحیح طور پر اسے حاصل کرنے کے لیے تکلیفیں برداشت کی جائیں مگر صحیح بات سے انحراف اور منہ نہ پھیرا جائے اسی کو استقامت کہتے تھے، تو استقلال اور استقامت مقصد میں کامیابی کے لیے واحد ذریعہ ہے جس میں ہمت اور استقلال نہیں ہے، وہ مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے، شرعی حیثیت سے قرآن شریف میں استقامت کی بڑی اہمیت اور تا کید کی گئی ہے، چنا نچہ ارشاد الٰہی ہے۔
فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطْغَوْااِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (ھود:۱۱۲)
آپ سیدھے اور استقامت سے چلیے ، جیسا کہ حکم ہے ا ور جس نے توبہ کی آپ کے ساتھ، اورحد سے نہ بڑھو، کہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسری آیت میں فرمایا:
اَنَّمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ۔ (حٰمٓ سجدہ:۶)
تمہارا معبود ایک ہی ہے، سو اس کی طرف سیدھے رہو، یعنی اس پر قائم و دائم اور جمے رہو، اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو۔
اور اسی استقامت کے لیے پانچوں نمازوں میں دعا مانگی جاتی ہے:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ (الفاتحہ:۵)
اے اللہ تو صحیح راستہ کی طرف راہنمائی کر اور اس پر ہمیں قائم رکھ
مسلمانوں کو اعلان حق اور حق پر استقامت کی بڑی تاکید کی گئی ہے، چنا نچہ فرمایا:۔
وَاسْتَقِمْ كَـمَآ اُمِرْتَ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِـعْ اَہْوَاۗءَہُمْ۝۰ۭ (الشوری:۱۵)
پس اسی کی طرف بلاؤ، اور اسی پر قائم رکھو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے، اور ان نااہلوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔
ایسے ثابت قدم رہنے والوں کو یہ خوشخبری سنائی جا رہی ہے،کہ کامیابی تمہارے ہی لیے ہے، وہ دن آئے گا، جب کہ تمہیں نہ کسی چیز کاڈر ہوگا، اور نہ کسی چیز کا غم ہوگا، جیسا کہ اس آیت میں فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۱۳ۚ (احقاف:۱۳)
بے شک جنہوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر وہ اس پر جمے رہے، تو نہ ان کو ڈر ہے، اور نہ وہ خوف کھائیں گے۔
اس دن خوف و ہیبت سے سب کے دل کانپتے ہوں گے، البتہ استقامت والوں کو کوئی خوف و ہراس نہیں ہوگا، ان کو ہر طرح سے تسلی و اطمینان حاصل ہوگا، اس آیت کی تائید میں وہ حدیث ہے، کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا، کہ آپﷺ مجھے کوئی ایسی ضروری بات فرما دیجیے، کہ میں اس پر ثابت قدم رہوں، آپﷺ نے فرمایا:
قل امنت باللہ ثم استقم۔ (ترمذی)
تم یہ کہو، کہ میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اسی پر جمے رہو۔
اور مرتے دم تک اس کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، حالانکہ اس پر بڑی آفتیں اور مصیبتیں آئیں لیکن وہ حق سے نہیں ہٹے، سچ یہی ہے، کہ حق کی راہ میں مشکلات کا پیش آنا، اور اس میں سچے مردان خدا کی استقامت آزمائش کی اللہ تعالیٰ کا اصول ہے، جو ہمیشہ سے قائم ہے، اور قائم رہے گا، جب تک اس میں کوئی شخص یا کوئی قوم پوری نہیں اترتی، وہ اپنی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝۰ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۔ (البقرہ:۲۱۴)
کیا تم کو خیال ہے کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حالانکہ ابھی تم پر تم سے پہلے کے احوال نہیں آئے، ان کو سختی اور تکلیف پہنچتی رہی ، اور بہت زیادہ ہلائے گئے ، یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے کہنے لگے اللہ کی مدد کب آئے گی، سن رکھو اللہ کی مدد نزدیک ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پہلے لوگوں کو بھی اس میں جانچا گیا ہے، جس سے سچے اور جھوٹے میں فرق ظاہر ہوا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ۝۲ وَلَقَدْفَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ۔ (عنکبوت:۲۔۳)
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ صرف ان کے اس بات کے کہنے کی وجہ سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے چھوڑ دیں گے، ان سے پہلے لوگوں کو بھی ہم نے خوب آزمایا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا، جو سچے ہیں، اور انہیں بھی جان لے گا جو جھوٹے ہیں۔
پہلے لوگوں کی استقامت کے ان احوال میں سے جن کو محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے سامنے نمونہ کے طور پر پیش فرمایا ہے، وہ واقعہ ہے، جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے۔
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، کہ ایک دفعہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی مصیبتوں کا حال ذکر کیا، اور درخواست کی کہ ہمارے لیے دعا کیجیے، چونکہ یہ بھی ایک قسم کی بےتابی کا اظہار تھا، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایسا مرد بھی ہوا ہے، جس کو زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا، اور آرہ سے اس کو چیر کر دو ٹکڑے کر دیئے جاتے تھے، مگر یہ اس کو دین حق سے روگردانی نہیں کرنے دیتا تھا، اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈیوں سے نوچ کر تار تار کر دیا جاتا تھا، مگر یہ تکلیف بھی اس کودین سے نہ ہٹا سکتی تھی۔ (بخاری شریف)۔
رسول اللہ ﷺ کی ان تعلیمات و تلقینات کا جو اثر آپ ﷺ کے ساتھیوں پر ہوا، وہ اہل تاریخ سے چھپا نہیں، ان ہی خباب بن ارت ؓ کا جو اس حدیث کے راوی ہیں یہ واقعہ ہے، کہ اسلام کے جرم میں ا ن کو طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں، آخر کار ایک دن زمین پر کوئلے جلا کر ان کو چت لٹادیا گیا، اور ایک شخص ان کی چھاتی پر پاؤں رکھے رہا، کہ کروٹ نہ بدلنے پائیں، یہاں تک کہ کوئلے پیٹھ کے نیچے پڑے پڑے ٹھنڈے ہوگئے۔(ابن سعد جلد ۳ تذکرہ خباب)
حضرت خباب ؓنے مدتوں کے بعد حضرت عمرؓ کو اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی، تو تپائے ہوئے سونے کی طرح سنگ دل قریش کے ظلم و ستم کا یہ سکہ ان کی پیٹھ پر چمک رہا تھا، حضرت بلال ؓ گرم جلتی بالو پر لٹائے جاتے، پتھر کی بھاری چٹانیں ان کے سینہ پر رکھی جاتیں گلے میںرسی باندھ کر زمین پر گھسیٹے جاتے، اور کہا جاتا کہ اسلام سے باز آجاؤ، اس وقت بھی ان کی زبان سے احد احد ایک خدا ایک خدا ہی نکلتا تھا۔
خود رسول اللہ ﷺ کا وہ فقرہ جس کو آپ ﷺ نے اپنے چچا ابوطالب کے جواب میں فرمایا تھا، اس کی تاثیر اس وقت تک کم نہ ہوگی ، جب تک آسمان میں سورج اور چاند کی روشنی قائم ہے فرمایا چچا جان ! اگر یہ کافر میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی دے دیں تب میں بھی اس دین حق سے باز نہ آؤ نگا اسی استقلال ، استقامت اور نصرت الٰہی کی وجہ سے آپ ﷺ نے منصب نبوت کو ادا کیا، اور دنیا سے بامراد رخصت ہوئے ﷺ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بہرحال موحد مسلمان کو ہر صورت میں اپنے دین پر قائم رہنا چاہیے، گو اس کو کتنی ہی قتل اور سزا کی دھمکی دی جائے، مگر وہ صخرۃ الوادی کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے، اس سلسلہ کے دو چار واقعات بیان کر رہاہوں جس سے ایمان کو تقویت حاصل ہوگی۔
حافظ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں آیت: الا من اکرہ وقلبہ مطمئن کے تحت یہ تحریر فرمایا ہے کہ حافظ ابن عساکر عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سہمی صحابی کے ترجمہ میں بیان کرتے ہیں، کہ آپ کو رومی کافروں نے قید کر لیا، اور اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا، بادشاہ نے آپ سے کہا کہ تم نصرانی بن جاؤ، میں تمہیں اپنے راج پاٹ میں شریک کیے لیتا ہوں، اور اپنی شاہزادی کو تمہارے نکاح میں دیتا ہوں، عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ تو کیا، اگر تو اپنی تمام بادشاہت مجھے دیدے، اور تمام عرب کا راج بھی مجھے سونپ دے اور یہ چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین محمدی ﷺ سے پھر جاؤں، تو یہ بھی ناممکن ہے، بادشاہ نے کہا پھر تجھے قتل کردوں گا، حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ نے جواب دیا کہ ہاں یہ تجھے اختیار ہے، چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا، اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا، اور تیر اندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں اور جسم چھیدنا شروع کیا، باربار کہا جاتا، کہ اب بھی نصرانیت قبول کر لو، اور آپ پورے صبر و استقلال سے فرماتے جاتے تھے، کہ ہرگز نہیں، آخر بادشاہ نے حکم دیا، کہ اسے سولی سے اتار لو، اور پیتل کی بنی ہوئی دیگ خوب تپا کر آگ بنا کر لائی جائے، چنانچہ وہ پیش ہوئی، بادشاہ نے ایک اور مسلمان قیدی کی بابت حکم دیا، کہ اسے اس میں ڈال دو، اسی وقت حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ کی موجودگی میں آپ کے دیکھتے ہوئے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا، وہ مسکین صحابی اسی وقت چر مر ہو کر رہ گئے گوشت پوست جل گیا اور ہڈیاں چمکنے لگیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
پھر بادشاہ نے حضرت عبداللہ ؓ سے کہا: کہ دیکھو اب بھی بات مان لو، ا ور ہمارا مذہب قبول کر لو، ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائیگا، آپ نے پھر بھی اپنے ایمانی جوش سے کام لیکر فرمایا: کہ ناممکن ہے، کہ میں خدا کے دین کو چھوڑ دوں، اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا، کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دو، جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کے لیے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں، اس وقت اس نے حکم دیا ، کہ رک جائیں، اور انہیں اپنے پاس بلالیا، اس لیے کہ اب اسے امید بندھ گئی تھی، کہ شاید اس عذاب کو دیکھ کر اب اس کے خیالات پلٹ گئے ہیں، میری مان لے گا، اور میرے مذہب کو قبول کر کے میری دامادی میں آکر میری سلطنت کا ساجھی بن جائے گا، لیکن بادشاہ کی یہ تمنا اور یہ خیال بے سود نکلا، حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا: کہ میں صرف اس وجہ سے رویا تھا، کہ آہ آج ایک ہی جان ہے، جسے راہ خدا میں اس عذاب کے ساتھ میں قربان کر رہاہوں، کاش کہ میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی، کہ آج میں سب جانیں راہ اللہ میں اسی طرح ایک ایک کر کے فدا کر دیتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بعض روایتوں میں ہے، کہ آپ کو قید خانہ میں رکھا اور کھانا پینا بند کر دیا، کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا، لیکن آپؓنے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ تک نہ فرمائی، بادشاہ نے آپؓکو بلوا بھیجا، اور اسے نہ کھانے کا سبب دریافت کیا، تو آپؓنے جواب دیا، کہ اس حالت میں یہ میرے لیے مباح تو ہو گیا ہے ، لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع دینا چاہتا ہی نہیں، اب بادشاہ نے کہا کہ اچھا تو میرے سر کا بوسہ لے لو، تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھ کے اور تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دیتا ہوں آپؓنے اسے قبول فرما لیا، اور اس کے سر کا بوسہ لے لیا، اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا، آپ کو اور آپ کے تمام ساتھیوں کو چھوڑ دیا، جب حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ یہاں سے آزاد ہو کر حضرت عمر فاروقؓ کے پاس پہنچے، تو آپؓ نے فرمایا: کہ ہر مسلمان پر حق ہے، کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا ماتھا چومے اور میں ابتدا کرتا ہوں، یہ فرما کر پہلے آپؓنے ان کے سر کا بوسہ لیا۔ (ابن کثیر)
آپ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ کے استقلال اور استقامت کا حال سنا، اب آپ حضرت خبیبؓبن عدی کے حال کو بھی سنیے، جو کہ نہا یت ہی درد انگیز اور سبق آموز ہے، بخاری شریف اور استیعاب اور طبقات ابن سعد اور دیگر تاریخ کی کتابوں میں ان کا واقعہ اس طرح لکھا ہوا ہے۔
۳ھ؁ میں غزوہ رجیع ہوا، آنحضرت ﷺ نے عاصم بن ثابت انصاریؓکو دس آدمیوں پر امیر بنا کر تبلیغ کے لیے روانہ فرمایا: عسفان ا ور مکہ کے درمیان میں بنی ہذیل کا ایک قبیلہ لحیان رہتا تھا، اس کو خبر ہوگئی ۔ اسکے سو تیر اندازوں نے اس مختصر جماعت کو گھیر لیا، سات آدمی اسی جگہ لڑ کر شہید ہوگئے، تین شخص جن میں سے حضرت خبیبؓ بھی تھے زندہ بچے، یہ تینوں جان بخشی کے عہد و پیمان پر پہاڑی سے نیچے اترے، تیر اندازوں نے کمانوں کے تانت کھول کر ان کے ہاتھ باندھے، ایک غیرت مند مسلمان اس بے عزتی کو گوارانہ کر سکا، اور مردانہ وار لڑ کر جان دے دی، اب صرف دو شخص باقی رہ گئے، ان کو لے جا کر مکہ کے بازار میں فروخت کر دیا۔
اسلام کے اس یوسف کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا، جسے غزوہ بدر میں حضرت خبیب ؓ ہی نے قتل کیا تھا، عقبہ بن حارث نے اپنے گھر میں لا کر قید کیا، ہاتھ میں ہتھ کڑیاں تھیں، اور موہب کو نگرانی پر مقرر کیا، عقبہ کی بیوی کھا نا کھلاتے وقت ہاتھ کھول دیا کرتی تھی، کئی مہینہ قید میں رہے، اشہر حرم گزر گئے ، تو قتل کی تیاریاں ہوئیں، حضرت خبیب ؓ نے مو ہب سے تین باتوں کی درخواست کی تھی، آب شیریں پلانا، بتوں کا ذبیحہ نہ کھلانا ، قتل سے پہلے خبر کر دینا، یہ آخری درخواست عقبہ کی بیوی سے بھی کی تھی، قتل کا ارادہ ہوا، تو اس نے ان کو آگاہ کر دیا، انہوں نے طہارت کے لیے اس سے استرہ مانگا، اس نے لا کردے دیا، اس کا بچہ کھیلتا کھیلتا ان کے پاس چلا آیا، ا نہوں نے اس کو اپنی ران پر بٹھایا، ماں کی نظر پڑی ، تو دیکھا ننگا استرہ ان کے ہاتھ میں ہے، اور بچہ ان کے زانو پر ہے، یہ منظر دیکھ کر وہ کانپ اٹھی ۔ حضرت خبیبؓ نے فرمایا ، تمہارا کیا خیال ہے، کہ میں اپنے خون کا اس بچہ سے انتقام لوں گا، حاشایہ ہماری شان نہیں، حضرت خبیب ؓ کی باتوں کا اس پر خاص اثر ہوا، کہتی تھی ، کہ میں نے خبیب ؓ سے بہتر کسی قیدی کو نہیں دیکھا، میں نے بارہا ان کے ہاتھ میں انگور کا خوشہ دیکھا، حالانکہ اس زمانے میں انگور کی فصل بھی نہ تھی، اس کے علاوہ وہ بندھے ہوئے تھے، اس لیے یقینا وہ خدا کا دیا ہوا رزق تھا، جو خزانہ غیب سے ان کو ملتا تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت خبیب ؓ کے قتل میں مشرکین نے بڑا اہتمام کیا، حرم سے باہر تنعیم میں ایک درخت پر سولی کا پھندا لٹکایا گیا، آدمی جمع کیے گئے، مرد، عورت، بوڑھے، بچے، امیر و غریب، وضیع و شریف غرض ساری خلقت تماشائی تھی، جب لوگ عقبہ کے گھر سے ان کو لینے کے لیے آئے تو فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ، دو رکعت نماز پڑھ لوں، زیادہ پڑھوں گا، تو تم کہو گے ، کہ موت سے گھبرا کر بہانہ ڈھونڈ رہا ہوں، نماز سے فارغ ہو کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں یہ دعا زبان پر تھی۔
اَللّٰھُمَّ احْصِھِمْ عَدَدًاوَّاقْتُلْھُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْھُمْ اَحَدًا۔
اے میرے پروردگار! تو ان کو شمار کرے، اور ان کو ایک ایک کر کے قتل کر، اور ان میںسے کسی کو نہ چھوڑ۔
پھر یہ شعر پڑھتے ہوئے سولی کے نیچے پہنچے :
و لست ابالی حین اقتل مسلما
اگر میں مسلمان رہ کر مارا جاؤں تو مجھے غم نہیں
علی ای جنب کان للہ مصرعی
کہ کس پہلو پر خدا کی راہ میں پچھاڑا جاتا ہوں
و ذلک فی ذات الالٰہ وان یشا
جو کچھ ہو رہا ہے خدا کی محبت میں ہو رہا ہے
یبارک علی او شال شاو ممزع
اگر وہ چاہے تو ان کٹے ہوئے ٹکڑوں پر برکت نازل کرے گا۔
مولانا قاضی سلیمان صاحب منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے اشعار میں حضرت خبیب ؓ کے مفہوم کو یوں ادا فرماتے ہیں:
جب نکلتی جان ہے اسلام پر
تب نہیں پرواہ مجھ کو جان کی
کیوں نہ دوں کامل خوشی سے اپنی جان
چاہیے مجھ کو رضا رحمان کی
آرزو پنہاں میرے سینہ میں تھی
اس دل مشتاق پر ارمان کی
آنکھ کر لیتی زیارت وقت نزع
داعی حق ھادی ایمان کی
اے خدا پہنچا میرا ان کو سلام
جان جن پر میں نے ہے قربان کی
طبری اور سیرت ابن ہشام جلد دوم اور رحمۃ للعالمین جلد اول میں ہے، کہ حضرت خبیب ؓ کو جب سولی کے تختہ پر چڑھایا گیا، تو ایک سخت دل نے حضرت خبیب ؓ کے جگر کو چھیدا، اور پوچھا کہو اب تو تم بھی پسند کرتے ہو گے کہ محمد (ﷺ) پھنس جائے اور میں چھوٹ جاؤں، حضرت خبیب ؓ نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے جواب دیا، کہ خدا خوب جانتا ہے، کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا، کہ میری جان بچ جانے کے لیے نبی کریم ﷺ کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھے، پھر ان سے کہا گیا، کہ تم اسلام چھوڑ دو، تمہیں آزاد کر دیا جائے گا، حضرت خبیب ؓ نے فرمایا: کہ خدا کی قسم! اگر تمام دنیا کی سلطنت بھی میرے سامنے پیش کر دو، تب بھی اسلام نہیں چھوڑ سکتا، مشرکین نیزوں سے چھیدتے جاتے ، اور اس قسم کے سوال و جواب کرتے جاتے، آخر عقبہ بن حارث اور مغیرہ عبدری نے گلے میں پھندا ڈالا، اور ہمیشہ کے لیے ان کو راحت کی نیند سلا دیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ کیسا عجیب منظر تھا، اسلام کے ایک غریب ا لوطن فرزند پر کیسے ظلم و ستم ہو رہے تھے، بطحا ئے کفر کا خونی و قاتل ، توحید کے فرزند کو کس طرح ذبح کر رہا تھا، یہ سب کچھ تھا، لیکن مجسمہ اسلام اب بھی پیکر صبرو رضا بنا ہوا تھا، اور بغیر کسی اضطراب کے نہایت سکون کے ساتھ جان دے دی۔
آنحضرت ﷺ کو اس فاجعہ عظمیٰ کی خبر وحی کے ذریعہ ہوئی، تو فرمایا اے خبیب ؓ ! تجھ پر سلام ا ور عمروبن ربیعہ ضمری کو اس شہید وفا کی لاش کا پتہ لگانے کے لیے مکہ بھیجا، عمرو رات کے وقت سولی کے پاس ڈرتے ڈرتے گئے، درخت پر چڑھ کر رسی کاٹی، جسد اطہر زمین پر گرا، چاہا کہ اتر کر اسے ا ٹھا لیں، لیکن یہ جسم زمین کے قابل نہ تھا، فرشتوں نے اٹھا کر اس مقام پر پہنچا یا، جہاں شہیدان راہ وفا کی روحیں رہتی ہیں، عمرو بن ربیعہ کو سخت حیرت ہوئی، بولے کیا زمین تو نہیں نگل گئی۔
قتل کرتے وقت مشرکین نے انہیں قبلہ رخ نہیں رکھا تھا، لیکن جو چہرہ قبلہ کی طرف پھر چکا تھا وہ کسی دوسری طرف کیونکہ پھر سکتا تھا، مشرکین نے بار بار پھیرنے کی کوشش کی ، مگر ناکام رہے۔
سعد بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت عمر فاروق ؓ کے عمال میں سے تھے، ان کا یہ حال تھا کہ کبھی کبھی یک بارگی بے ہوش ہو جایا کرتے تھے، حضرت عمر فاروق ؓ نے ان سے وجہ پوچھی، تو بولے مجھے نہ کوئی مرض ہے نہ کچھ شکایت ہے، جب حضرت خبیب ؓ کو سولی پر چڑھایا گیا، تو میں اس مجمع میں موجود تھا مجھے جس وقت خبیب ؓ کی باتیں یاد آجاتی ہیں، میں کانپ کر بیہوش ہو جاتا ہوں، مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا۔حضرت خبیب ؓ ہی کی طرح کا ایک اور واقعہ سنیئے۔ (رحمتہ للعالمین ، ج۱)
حضرت حبیب بن زید مازنی انصاری رضی اللہ عنہ استقلال و استقامت کے پہاڑ تھے، ان کے ہر ہر عضو کو کاٹا گیا، لیکن اسلام کے دامن رحمت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا، ان کا مختصر واقعہ یہ ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو مسیلمہ کذاب کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا، اس نے حضرت حبیب ؓ سے دریافت کیا کہ تم محمدﷺ کو کیا سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا وہ ہمارے سچے رسول ا ور نبی برحق ہیں، تو مسیلمہ کذاب نے کہا، جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا، کہ میرے متعلق تم کیاکہتے ہو؟ یعنی میں بھی رسول ہوں، میری رسالت کی تم گواہی دو، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بہرا ہوں، تمہاری بات میرے کانوں میں نہیں پہنچتی، مسیلمہ کذاب نے خفا ہو کر جلا دوں کو حکم دیا، کہ اس کا ایک ایک جوڑ کاٹتے جاؤ، اور ہر ایک جوڑ پر میری رسالت کا اقرار کراؤ اگر میری رسالت کی گواہی دے، تو چھوڑ دو، اور اگر محمد ﷺ کے رسول ہونے کی گواہی دے، تو اس کی بوٹی بوٹی بنا دو، چنانچہ وہ جلاد اپنی بات کہتے رہے، ا ور حضرت حبیب رضی اللہ عنہ ا شھد ان محمد رسول اللہ کہتے رہے، آخر ان کے جسم مبارک کے تین سو ساٹھ ٹکڑے کر دیے گئے، لیکن رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی پر آخر دم تک نہایت استقلال و استقامت کے ساتھ قائم رہے رضی اللہ عنہ۔
حافظ الحدیث ابو عمرو یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر ، الا ستیعاب فی اسماء الاصحاب میں حضرت حبیب ؓ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وکان حبیب بن زید ھذا قد بعثہ رسول اللہ ﷺ الی مسیلمۃ الکذاب بالیمامۃ فکان مسیلمۃ اذا قال لہ اتشھدان محمدا رسول اللہ ﷺ تعم واذا قال لہ اتشھدانی رسول اللہ قال انا اصم لا اسمع فعل ذلک مرارا فقطعہ مسیلمۃ عضوا عضوا ومات شھیدا رحمۃ اللہ علیہ۔
(اس عبارت کا خلاصہ مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور اسی قسم کا واقعہ سورہ یاسین والے حبیب کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، جو اپنے زمانے کے رسولوں کی تائید اورنصرت میں شہید کر دیئے گئے، حافظ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں یہ بیان فرمایا ہے، کہ شہر انطاکیہ کے لوگوں کے پاس یکے بعد دیگرے تین رسول آئے، اور ان لوگوں نے تینوں رسولوں کی تکذیب کی اور پوشیدہ طور پر ان نبیوں اور رسولوں کے قتل کا ارادہ کیا، ایک مسلمان جو اس بستی کے آخری حصہ میں رہتا تھا، جس کا نام حبیب تھا، کسی طرح سے اس کو اس بستی کے برے ارادے کا علم ہوگیا، اس سے صبر نہ ہو سکا، اور دوڑا بھاگا آیا، اور اپنی قوم کو سمجھانا شروع کیا، کہ تم ان لوگوں کی تابعداری کرو، ان کا کہنامانو، تم ان کی راہ پر چلو، دیکھو یہ نبی اپنا کوئی فائدہ نہیں کر رہے ہیں تم سے کوئی تبلیغ رسالت کا بدلہ نہیں مانگ رہے، اپنی خیر خواہی کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتے، صرف خدا کی توحید کی طرف تم کو بلاتے ہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: کہ ان کفار نے اس مومن کامل کو بری طرح مارا پیٹا اس کو گرا کر اس کے پیٹ پر چڑھ بیٹھے، اور پیروں سے اسے روندنے لگے، یہاں تک کہ اس کی آنتیں اس کے پیچھے کے راستے سے باہر آئیں، اسی وقت خدا کی طرف سے اس کو جنت کی بشارت سنائی گئی اسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے رنج و غم سے آزاد کر دیا، اور امن و چین کے ساتھ جنت میں پہنچا دیا ، ان کی شہادت سے اللہ خوش ہوا، جنت ان کے لیے کھول دی گئی ، اور داخلہ کی اجازت مل گئی، اپنے ا جرو ثواب اور عزت و ا کرام کو دیکھ کر پھر اس کی زبان سے نکل گیا، کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی، کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا، اور میرا بڑا ہی اکرام کیا، فی الواقع مومن سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں، اور دھوکے باز اور بدخواہ نہیں ہوتے، دیکھیے اس باخدا شخص نے زندگی میںبھی قوم کی خیر خواہی کی ، اور مرنے کے بعد بھی ان کا خیر خواہ رہا یہ بھی مطلب ہے، کہ وہ کہتا ہے، کہ کاش میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے کس چیز کے باعث میرے رب نے بخشااور کیوں میری عزت کی ، تو لامحالہ وہ بھی اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے، اور اللہ پر ایمان لاتے اور رسولوں کی پیروی کرتے، اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کرے، اور ان سے خوش رہے، دیکھو تو قوم کی ہدایت کے کس قدر خواہش مند تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی، کہ حضورﷺ اگر اجازت دیں، تو میں اپنی قوم میں تبلیغ دین کے لیے جاؤں، اور انہیں دعوت اسلام دوں، آپ ﷺ نے فرمایا: کہ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں قتل کر دیں، جواب دیا کہ حضور ﷺ اس بات کا تو احتمال ہی نہیں کیونکہ انہیں مجھ سے اس قدر الفت و عقیدت ہے، کہ اگر میں سویا ہوا ہوں،تو وہ مجھے جگائیں گے بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا پھر جائیے ، یہ چلے، جب لات و عزیٰ کے بتوں کے پاس سے ان کا گذر ہوا تو بولے اب تمہاری شامت آگئی، اس بات پر پورا قبیلہ ثقیف بگڑ بیٹھا، انہوں نے کہنا شروع کیا، اے میری قوم کے لوگو! تم ان بتوں کو ترک کرو، یہ لات و عزیٰ دراصل کوئی چیز نہیں، اسلام قبول کرو، تو سیدھی راہ حاصل ہوگی، اے میرے بھائی بندو! یقین مانو کہ یہ بت کچھ حقیقت نہیں رکھتے، ساری بھلائی اسلام میں ہے وغیرہ ابھی صرف تین ہی مرتبہ اس کلمہ کو دہرایا تھا کہ ایک بد نصیب تن جلے نے دور سے ہی ایک تیر چلایا، جو رگ اکحل پر لگا، اور آپ اسی وقت شہید ہوگئے ۔ آنحضرت ﷺ کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ ایسا ہی تھا، جیسا سورہ یٰسین والا جس نے کہا تھا، کاش میری قوم میری مغفرت اور عزت کو جان لیتی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت کعب احبار کے پاس جب حبیب ؓ بن زید بن عاصم کا ذکر کیا گیا، جو قبیلہ بنو مازن بن نجار سے تھے، جن کو جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے شہید کر دیا تھا، تو آپ ؓ نے فرمایا خدا کی قسم! یہ حبیب بھی اسی حبیب کی طرح تھے، جن کا ذکر سورہ یٰسین میں ہے، اب اس کی تائید میں سورۃ یاسین کی ان آیتوں کو پڑھ کر اور سن کر اپنے ایمان کو تازہ کیجیے:
وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَۃِ رَجُلٌ يَّسْعٰى قَالَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِيْنَ۝۲۰ۙ اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا يَسْـَٔــلُكُمْ اَجْرًا وَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۲۱ وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۲ ءَ اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِــہَۃً اِنْ يُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَـنِّىْ شَفَاعَتُہُمْ شَـيْـــًٔا وَّلَا يُنْقِذُوْنِ۝۲۳ۚ اِنِّىْٓ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۲۴ اِنِّىْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِ۝۲۵ۭ قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ۝۲۶ۙ بِمَا غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ۝۲۷ (23) ۞ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي قَوْمِہٖ مِنْۢ بَعْدِہٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِيْنَ۝۲۸ اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ۝۲۹ (یٰسین:۲۰ تا ۲۹)
اورایک شخص اس شہر کے کسی اور مقام سے دوڑتا ہوا آیا، کہنے لگا، اے میری قوم ! ان رسولوں کی راہ چلو، ایسے لوگوں کی راہ پر چلو، جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، اور وہ خود بھی راہ راست پر ہیں، مجھے کیا ہوگیا ہے، جو اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے، اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، کیا میں اسے چھوڑ کر ایسوں کو معبود بناؤں اور خدائے رحمان مجھے کچھ نقصان پہنچانا چاہے، تو ان کی شفاعت مجھے کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے، اور نہ مجھے بچا سکیں، پھر تو میں یقینا کھلی گمراہی میں ہوں، میری سنو! میں تو سچے دل سے تم سب کے رب پر ایمان لاچکا، اس سے کہا گیا، کہ جنت میں داخل ہو جا، کہنے لگا، کہ کاش میری قوم کو بھی علم ہو جاتا، کہ مجھے میرے پروردگار نے بخش دیا، اور مجھے ذی عزت لوگوں میں سے کر دیا، اس کے بعد ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہ اتارا ، اور نہ اس طرح ہم اتارا کرتے ہیں، وہ تو صرف ایک زور دار چیخ تھی، کہ یکایک وہ سب کے سب بجھ بجھا گئے۔
اور اس قسم کے صحابہ کرام کے ا ور واقعات سنئے:
حضرت صہیب اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں چھوڑ دیتے تھے لیکن دھوپ کی شدت سے ان کی حرارت اسلام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی۔
کفار مکہ حضرت ابو فکیہہ کے پاؤں میں بیڑی ڈال کر دھوپ میں لٹا دیتے، پھر پشت پر پتھر کی چٹان رکھ دیتے، یہاں تک کہ مختل الحواس ہو جاتے، ایک دن امیہ نے ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور آدمیوں کو ان کے گھسیٹنے کا حکم دیا، اس کے بعد ان کو تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیا، اتفاق سے راہ میں ایک گبریلا جا رہا تھا ا میہ نے استہزائً کہا، تیرا پروردگار یہی تو نہیں، بولے میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہی ہے، اس پر اس نے زور سے ان کا گلا گھونٹا، لیکن اس کے بے درد بھائی کو جو اس وقت اس کے ساتھ تھا، اس پر بھی تسکین نہیں ہوئی اور اس نے کہا، کہ اس کو اور اذیت دو۔ (اسد الغابہ، تذکرہ صہیب و ابوفکیہہ)
حضرت سمیہؓ حضرت عمار کی والدہ تھیں، ایک دن کفار نے ان کو دھوپ پر لٹا دیا تھا، اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ کا گذر ہوا، تو فرمایا صبر کرو صبر، تمہارا ٹھکانہ جنت ہے، لیکن ابوجہل کو اس پر بھی تسکین نہ ہوئی، اور اس نے برچھی مار کر ان کو شہید کر دیا، چنانچہ اسلام میں سب سے پہلے شرف شہادت ان کو نصیب ہوا۔ (اسد الغابہ ، تذکرہ سمیہ ؓ)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حضرت عمر ؓ کی بہن جب ان سے پہلے اسلام لائیں، اور حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا ، تو اس قدر مارا کہ تمام بدن لہولہان ہوگیا، اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا، کہ جو کچھ کرنا ہو کرو، میں تو اسلام لا چکی۔ (تذکرہ عمر ؓ)
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے جب خانہ کعبہ میں اپنے اسلام کا اعلان کیا، تو ان پر کفار ٹوٹ پڑے، ا ور مارتے مارتے زمین سے لگا دیا۔ (مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اول اول خانہ کعبہ میں قرآن مجید کی چند آیات بآواز بلند پڑھیں، تو کفار نے ان کو اس قدر مارا، کہ ان کے چہرے پر نشان پڑ گئے، لیکن انہوں نے صحابہ کرام ؓ سے کہا، کہ اگر کہو تو کل پھر اسی طرح بآواز بلند قرآن کی تلاوت کروں۔ (اسد الغابہ، تذکرہ ابن مسعود ؓ)
ان اذیتوں کے علاوہ کفار ان غریبوں کو اور بھی مختلف طریقوں سے ستاتے تھے، پانی میں غوطے دیتے تھے، مارتے تھے، بھوکا پیاسا رکھتے تھے، یہاں تک کہ ضعف کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ (اسد الغابہ)
یہ وہ لوگ تھے، جن میں اکثر یا تو لونڈی غلام تھے یا غریب الوطن، لیکن ان کے علاوہ بہت سے دولت مند اور معزز لوگ بھی کفار کی دست درازی سے محفوظ نہ رہ سکے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نہایت معزز شخص تھے، لیکن جب اسلام لائے، تو خود ان کے چچا نے ان کو رسی میں باندھ دیا۔ (طبقات ابن سعد)
حضرت زبیر بن عوام جب اسلام لائے، تو ان کا چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر لٹکا دیتا تھا، پھر نیچے سے ان کی ناک میں دھواں دیتا تھا۔ (ریاض النضرۃ للمحب الطبری، تذکرہ حضرت زبیر بن العوام)
حضرت عمر ؓ کے چچا زاد بھائی سعید بن زید ؓ اسلام لائے، تو حضرت عمر ؓ نے ان کو رسی میں باندھ دیا۔ (بخاری شریف)
حضرت عیاش بن ابی ربیعہ اور سلمہ بن ہشام ا سلام لائے، تو کفار نے دونوں کے پاؤں کو ایک ساتھ باندھ دیا۔ (طبقات ابن سعد)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے، تو ایک تقریر کے ذریعہ سے دعوت اسلام دی، کفار نے یہ نامانوس آواز سنی ، تو ان پر ٹوٹ پڑے، اور اس قدر مارا، کہ قبیلہ بنوتمیم کو ان کی موت کا یقین ہوگیا، وہ ان کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے، شام کے وقت ان کی زبان کھلی تو بجائے اس کے کہ اپنی تکلیف بیان کرتے، رسول اللہ ﷺ کا حال پوچھا، اب خاندان کے لوگ بھی ان سے الگ ہوگئے، لیکن ان کو اسی محبوب کے نام کی رٹ لگی رہی، آخر لوگوں نے ان کو آپ تک پہنچا دیا، آپ نے یہ حالت دیکھی، تو ان کے اوپر گر پڑے، ان کا بوسہ لیا، اور سخت رقت طبع کا ا ظہار فرمایا۔(اسد الغابہ)
صبر واستقامت کی یہ بہترین مثالیں تھیں، اور صحابہ کرام کے زمانہ میں خود اہل کتاب تک ان کے معترف تھے۔ چنانچہ استیعاب میں ہے کہ جب صحابہ کرام شام گئے،تو اہل کتاب نے ان کودیکھ کر کہا، کہ عیسٰی بن مریم کے وہ اصحاب جو آروں سے چیرے گئے، اور سولی پر لٹکائے گئے، ان مسلمانوں سے زیادہ تکلیفیں برداشت کرنے والے نہ تھے۔ (استیعاب جلد اول ص ۶)
اولئک ابائی فجئنی بمثلھم
اذا جمعتنا یا جریر المجامع

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو استقلال و استقامت کے ساتھ اسلام پر قائم رکھے ، اور ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ والصلوۃ والسلام علی جمیع الانبیآء و سید المرسلین محمد والہ واصحابہ اجمعین۔
 
Top