• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلامی خطبات 5۔ ایمان کی کچھ اور شاخوں کا بیان

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خطبہ ــ 5
ایمان کی کچھ اور شاخوں کا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلاۃ والسلام علی رسولہ محمد والہ واصحابہ اجمعین وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین وسآئر عباداللہ الصالحین ط اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ط لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۝۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۝۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷ (البقرہ:۱۷۷)
(ترجمہ) ساری بھلائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں، بلکہ حقیقۃً بھلا وہ ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر، اور نبیوںپر ایمان رکھنے والا ہو، جو اس کی محبت میں مال خرچ کرے قرابتداروں میں، یتیموں، مسکینوں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی، اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے ، تواکثر و بیشتر پورا کرے، تنگ دستی، دکھ درد، اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں، اور یہی لوگ پرہیز گار ہیں۔
اس آیت پاک میں صحیح عقیدے اور راہ مستقیم کی تعلیم ہو رہی ہے۔ حضرت ا بوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب رسول اللہ ﷺ سے ا یمان کے با رے میں سوال کیا، کہ ایمان کیا چیزہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی، انہوں نے پھر سوال کیا، آپﷺ نے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی، پھریہی سوال کیا، آپﷺ نے فرمایا سن! نیکی کی محبت اور برائی کی عداوت ایمان ہے۔ (ابن ابی حاتم)
بیان کیا جاچکا ہے،کہ ایمان کی تہتر شاخیں ہیں، جن میں سے چودہ شاخوں کا پہلے بیان ہو چکا ہے اس خطبہ میں کچھ اور شاخوں کا بیان کیا جا رہا ہے۔
(۱۵) ایمان کی پندرھویں شاخ،رسول اللہ ﷺ کی عزت اور احترام اور تعظیم کے واجب ہونے کی تصدیق کرنا، اللہ تعالیٰ نے متقیوں کی صفت بتائی۔
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ۔ (الاعراف:۱۵۷)
پھر جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے، اور آپﷺ کی عزت و تعظیم کی، اور آپﷺ کی امداد کی۔
اور فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۱ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۝۲ (الحجرات:۱۔۲)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو، اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے، اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو اللہ کے نبیﷺ کی آواز سے بلند مت کرو، اور آپ ﷺ کے سامنے زور زور سے نہ بولو، جس طرح تم آپس میں زور سے بولتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو، کہ تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و ادب اور احترام کو فرض بتایا گیا ہے،اور آپﷺ کی شان والا شان میں گستاخی کرنے سے عمل برباد ہو جاتے ہیں، اس لیے نبی کی تعظیم فرض اور گستاخی حرام ہے آپﷺ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والا مومن نہیں ہے۔
(۱۶) ایمان کی سولہویں شاخ، دین اسلام پر ثابت قدم رہنا، اور اس کو مضبوط تھامنا ایمان میں داخل ہے، اگر چہ اس کے بارے میں کتنی ہی تکالیف کیوں نہ ہو، اور آگ میں ڈالا جائے ، یا قتل کیا جائے مگر اسلام کو نہ چھوڑے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً (البقرۃ:۲۰۸)
اے ایمان والو! حتی الامکان اسلام کے تمام احکام پر عمل کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:۔
لَا تُشْرِکْ بِاللہِ وَاِنْ قُتِلْتَ اَوْحُرِّقْتَ۔ (مشکوٰۃ شریف)
اللہ کے ساتھ شریک مت کرو، اگرچہ تم قتل کئے جاؤ یا آگ میںجلائے جاؤ۔
اور حضرت انسؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے، کہ جس میں یہ باتیں پائی جائیں گی، وہ ایمان کی لذت کو پالے گا، ان میں سے ایک یہ ہے، کہ اسلام سے پھرنے کو اس قدر ناپسند کرے، جس طرح آگ میں جلنے کو نا پسند کرتا ہے۔
(۱۷) ایمان کی سترھویں شاخ، شرعی علم کا حاصل کرنا ایمان کی ایک شاخ ہے، علم کے معنی جاننے کے ہیں، یعنی اللہ اور رسول کا جاننا ضروری ہے، اور نماز ، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ کا معلوم کرنا ضروری ہے اگر خدا اور اس کے رسول کی معرفت نہیں، ا ور اسلامی ارکان کو نہیں جانتا، تو وہ مسلمان نہیں ، اللہ فرماتا ہے
فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ۔ (محمد:۱۹)
اس بات کو جان لو کہ یقینا اللہ کے علاوہ عبادت کے لائق کوئی نہیں
اور مرفوع حدیث میں ہے:۔
طَلَبُ الْعِلْمَ فَرِیْضَۃ'' عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَۃٍ۔ (بیہقی)
(شریعت کا)علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
علم کی فضیلت میں اور بہت سی حدیثیں ہیں، جو حدیث کی کتابوں میں درج ہیں:
(۱۸) ایمان کی اٹھارہویں شاخ ، دینی علم کی اشاعت ایمان ہے، ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اسلام کی خدمت کرے، اور اس کو لوگوں میں پھیلائے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
لَتُبَيِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَہٗ۔ (آل عمران:۱۸۷)
اس دین کو لوگوں میں پھیلاؤ اور اس کو چھپاؤ نہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور فرمایا:
وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ۔ ( التوبہ:۱۲۲)
جب وہ اپنی قوم کی طرف جائیں، تو ا للہ تعالیٰ سے انہیں ڈرائیں اور وعظ ونصیت کریں۔
جب لوگ دین حق کو چھپاتے ہیں(وہ بڑے مجرم ہیں)، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
من سئل عن علم فکتمہ الجم یوم القیمۃ بلجام من نار۔ (اخرجہ احمد والاربعۃ والحاکم و صححہ)
جس سے علم دین کے متعلق دریافت کیا جائے ا ور وہ اس کو چھپائے تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
تناصحوافی العلم فان خیانۃ احدکم فی علمہ اشدمن خیا نتِہٖ فی مالہ و ان اللہ سائلکم۔
علم میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرو، اس لیے کہ علم میں خیانت کا گناہ مال کی خیانت سے زیادہ ہے، اور اللہ تعالیٰ اس بارے میں تم سے باز پرس کرے گا۔(طبرانی)
(۱۹) ایمان کی انیسویں شاخ، قرآن مجید کی عزت و تعظیم کرنا ہے، کہ اس کو پڑھے پڑھاوے، اس کے حلال کو حلال اور حرام کوحرام جانے اور قرآن پڑھنے پڑھانے والوں اور حافظوں کی عزت کرے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ۝۷۷ۙ فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝۷۸ۙ لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ۝۷۹ۭ تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۸۰
یقینا یہ قرآن عظمتوں اور بزرگی والا ہے، جو محفوظ کتاب میں ہے، اس کو صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ (الواقعہ:۷۷ تا۸۰)

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خیرکم من تعلم القران و علمہ۔ (بخاری)
تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا، خدا اس قرآن کے ذریعہ سے بعض کو اونچا کرے گا، اور بعض کو نیچا کرے گا، جو اس کی عزت کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے مرتبہ کو بلند فرمائے گا، اور جو بے پروائی کرے گا اس کو ذلیل و پست کرے گا۔
(۲۰) ایمان کی بیسویں شاخ طہارت ہے، یعنی دل کو برے عقیدہ سے پاک کرنا، اور بدن و کپڑے اور مکان کو ظاہری نجاستوں سے پاک و صاف رکھنا ایمان کا جزو ہے، گندے عقیدے والے مسلمان اور ہر وقت ناپاک رہنے والے پورے مسلمان نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِيْنَ۝۲۲۲ (البقرہ:۲۲۲)
پاکی حاصل کرنے والوں کو اللہ دوست رکھتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور فرمایا:
اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ۝۰ۭ (المائدۃ:۶)
جب نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنے تمام چہرے کو دھو ڈالو اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک اور سر کا مسح کرو، اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک اس طرح دھوؤ کہ کوئی جگہ خشک نہ رہنے پائے۔
اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الطھور شطر الایمان۔ (مسلم)
پاکی آدھا ایمان ہے۔
اوررسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
لا یقبل اللہ صلوۃ بغیرطھور۔ (مسلم)
بغیر پاکیزگی کے اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا۔
اور رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
ولایحافظ علی الوضوء الا مومن۔ (ابن ماجہ)
وضو پر مومن آدمی ہی محافظت کرتا ہے یعنی ہمیشہ خیال رکھتا ہے۔
(۲۱) ایمان کی اکیسویں شاخ، پانچ وقت کی نمازوں کو تمام ارکان و شروط کے ساتھ ادا کرنا ایمان کا جزو اعظم ہے، نماز کی بہت بڑی بزرگی و اہمیت ہے، اس کے چھوڑ دینے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے قرآن مجید میں اسی(۸۰) جگہ اقیموا الصلوۃ آیا ہے، یعنی نماز کو اچھی طرح دل لگا کر ادا کرو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۝۱۰۳ (نساء:۱۰۳)
نماز ا یمانداروں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى۝۰ۤ وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ۝۲۳۸ (البقرۃ:۲۳۸)
تمام نمازوں خصوصاً بیچ والی نماز (عصر کی) محافظت کرو اور اللہ کے سامنے مؤدب کھڑے رہو۔
اور فرمایا:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ۝۰ۭ (ھود:۱۱۴)
ا ور دن کے دونوں کناروں پر (یعنی صبح اور ظہر و عصر میں) نماز کو درستی سے جاری رکھو، اور رات کے اوقات میں بھی نماز پڑھو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اورفرمایا:
اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۝۰ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُوْدًا۝۷۸
سورج ڈھلتے اور غروب ہوتے اور تاریکی شب کے وقت درستی سے نماز ادا کرو، اور صبح کی نماز میں قرآن پڑھنے کو لازم کرو، کیونکہ صبح کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ (بنی اسرائیل:۷۸)
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان بین الرجل و بین الشرک ترک الصلوۃ۔ (مسلم)
انسان اور شرک و کفر کے درمیان اتصال کا ذریعہ ترک نماز ہے یعنی نماز چھوڑنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے، کہ نماز کو ایمان فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشادباری ہے:
وَمَا كَانَ اللہُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ۝۰ۭ (البقرۃ:۱۴۳)
اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان(یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے)کو ضائع نہیں فرمائے گا۔
ایمان اور اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے، ان میں سے ایک نماز بھی ہے، جو نماز پڑھے وہ اسلام کی بنیاد کو قائم رکھے گا، ورنہ منہدم کر دی۔
(۲۲) ایمان کی بائیسویں شاخ زکوٰۃ ہے، قرآن مجید میں تقریباً ہر جگہ نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کو بھی بیان فرمایا ہے۔ اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوٰۃ نماز ادا کرو، اور زکوٰۃ دو، یہ زکوٰۃ بھی اسلام کے پانچ رکنوں میں سے ایک رکن ہے، اس کے چھوڑنے یا انکار کرنے سے کفر لازم آتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں سب سے پہلے تارکین زکوٰۃ سے جہاد کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا۔ (التوبہ:۱۰۳)
ان لوگوں کے مال میں سے زکوٰۃ لے کر ان کو پاک اور صاف کرو، اور ان کو ترقی کی دعا دو۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝۳۴ۙ
اور جو لوگ سونا ا ورچاندی جمع کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے(یعنی زکوٰۃ نہیں دیتے)تو انہیں درد ناک عذاب کی خبر پہنچا دو۔ (التوبہ:۳۴)
وہ مال دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائے گا، اور اس سے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں داغی جائیں گی، اور ان سے کہا جائے گا، یہ وہی مال تو ہے، جسے تم دنیا میں جمع کرتے رہے، اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کیا، آج اسی کا مزہ چکھو، اور فرمایا:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝۰ۭ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۔۝۰(آل عمران:۱۸۰)
جو لوگ اللہ کی دی ہوئی نعمت میں بخل کرتے ہیں، وہ اس بخل کو اپنے حق میں ا چھا نہ سمجھیں، بلکہ یہ ان کے حق میں بہت برا ہے، کہ اس مال کا طوق بنا کر ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کی پوری تفصیل آگے آرہی ہے۔
(۲۳) ایمان کی تئیسویں شاخ روزہ ہے، یہ بھی ان پانچ رکنوں میں سے ایک رکن ہے، جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔(البقرۃ:۱۸۳)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ (البقرۃ:۱۸۵)
رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن اتارا گیا ہے، جو لوگوں کو راستہ بتاتا ہے، اور اس میں کھلی کھلی دلیلیں ہیں ہدایت کی اور حق و نا حق کے پہچاننے کی، پھر جو کوئی تم میں سے اس مہینہ میں ا پنے گھر میں حاضر ہو، وہ قطعاً روزے رکھے۔
روزے کی پوری تفصیل آگے آرہی ہے۔
(۲۴) ایمان کی چوبیسویں شاخ اعتکاف کرنا ہے، اس کی مزید تشریح روزوں کے بیان میں آئے گی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے چند دن مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہتے ہیں، یہ سنت مؤکدہ ہے، رسول اللہ ﷺ ہمیشہ اعتکاف کیا کرتے تھے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ۝۰ۙ فِي الْمَسٰجِدِ۝۰ۭ (البقرۃ:۱۸۷)
مسجد میں معتکف ہونے کی حالت میں تم اپنی عورتوں کے پاس جا کر ان سے ہم بستر نہ ہونا۔
اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَہِّرَا بَيْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝۱۲۵
اورہم نے ابراہیم و اسمٰعیل کو یہ تاکید کر دی کہ تم دونوں میرے گھر(کعبہ) کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں کے لیے پاک کرو۔ (البقرہ:۱۲۵)
(۲۵) ایمان کی پچیسویں شاخ حج ہے، یہ حج اسلام کے رکنوں میں سے ایک رکن ہے اللہ فرماتا ہے:
وَلِلہِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْہِ سَبِيْلًا۝۰ۭ (آل عمران:۹۷)
استطاعت رکھنے والوں پر اللہ کے گھر کا طواف کرنا ضروری اور فرض ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ۝۰ۭ (البقرۃ: ۱۹۶)
اللہ تعالیٰ کے لیے حج ا ور عمرہ پورا کرو۔
نبی ﷺنے فرمایا، جو استطاعت والا بغیر حج کے مر جائے، تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر مرے۔(ترمذی شریف)
(۲۶) ایمان کی چھبیسویں شاخ جہاد ہے، اس کے یہ معنی ہیں، کہ اللہ کے دین کی اشاعت کے لیے زبان، ہاتھ اور پاؤں سے کوشش کرنا، یہ شرائط کی موجودگی میں فرض ہے، اور قیامت تک اس کا حکم باقی رہے گا، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَجَاہِدُوْا فِي اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ (حج:۷۸)
اللہ کے راستہ میں اس طرح جہاد کرو،جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا، کہ کون سا عمل سب عملوں سے افضل ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
الایمان باللہ و رسولہ فقیل ثم ماذا قال الجھاد فی سبیل اللہ۔ (بخاری)
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پھر عرض کیا گیا، کہ اس کے بعد کس کا درجہ ہے؟ فرمایا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جاھدوا المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم۔ (ابوداؤد)
مشرکین سے جہاد کرو، اپنے مال، اپنی جان اور اپنی زبان کے ساتھ
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من مات ولم یغزولم یحدث بہ نفسہ مات علی شعبۃ من النفاق۔ (مسلم)
جو مرجائے حالانکہ اس نے نہ جہاد کیا ہو، ا ور نہ جہاد کا ا رادہ کیا ہو، تو وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔
(۲۷) ایمان کی ستائیسویں شاخ جہاد کی تیاری ہے، کہ آدمی اعلائے کلمۃ اللہ اور دین حق کی نشرواشاعت کے لیے ہر وقت مستعد اور تیار رہے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ۔ (انفال:۶۰)
ان مخالفین کے مقابلہ میں جتنی قوت کی تیاری تم سے ہوسکے کرو۔
اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۝۰ۣ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۲۰۰ۧ (آل عمران:۲۰۰)
اے ایمان والو صبر کرو اور صبر پر جمے رہو اور دشمن سے مقابلہ کی تیاری میں مصروف رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم فلاح پاؤ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رباط یوم فی سبیل اللہ خیر من الدنیاو مافیھا۔ (بخاری)
اللہ کے رستہ میں ایک دن کی تیاری دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے افضل ہے۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من جھز غازیا فی سبیل اللہ فقد غزا۔ (بخاری شریف)
جس نے اللہ کے راستہ میں کسی غازی اور مجاہد کا سامان تیار کرادیا ، تو اس کو بھی جہاد کا ثواب ملے گا۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من لم یغزولم یجھز غازیا او یخلف غازیا فی اھلہ بخیر اصابہ قارعۃ قبل یوم القیامۃ۔(ابو داؤد)
جو شخص نہ جہاد کرے اور نہ غازی کا سامان تیار کرے، اور نہ اس کے چلے جانے کے بعد اس کے بال بچوں کی بھلائی کے ساتھ نگرانی کرے تو قیامت سے پہلے اللہ اس کو کسی مصیبت میں مبتلا کر دے گا۔
(۲۸) ایمان کی اٹھائیسویں شاخ، دشمن سے جنگ کے وقت ثابت قدمی دکھانا ، قرآن مجید میں اس کے بارے میں متعدد جگہ فرمایا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ۝۱۵ۚوَمَنْ يُّوَلِّہِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَۃٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۱۶ (الانفال:۱۵۔۱۶)
اے ایمان والو! جب تم میدان جنگ میں کافروں سے ملو، تو ان سے پشت مت پھیرو، جو اس دن پیٹھ پھیرے گا وہ ا للہ تعالیٰ کے غضب میں آئے گا، اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ بہت بری جگہ ہے، مگر جو لڑائی میں اپنا کرتب اور پینترا دکھانے کے لیے پشت پھیرے یا اپنی جماعت میں شامل ہونے کے لیے پیٹھ پھیردے تو ان دونوں صورتوں میں گناہ نہیں ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۴۵ۚ (الانفال:۴۵)
اے ایمان والو! جب تم مخالف گروہ سے ملو، تو ان کے مقابلہ میں ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو، تاکہ تم فلاح پالو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میدان جنگ میں پیٹھ پھیر کر بھاگنا کبیرہ گناہ ہے۔ (بخاری)
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنگ کی آرزو مت کرو، اور اگر اس کا موقع آ پڑے، تو ثابت قدم رہو، جنت تو تلوار کی چھاؤں میں ہے۔ (بخاری)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(۲۹) ایمان کی انتیسویں شاخ، غنیمت میں سے پانچواں حصہ بیت المال کو دینا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ ۔ (الانفال:۴۱)
اور اس بات کو جان لو، کہ جو کچھ غنیمت حاصل کرو، تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے، اور ان کے قرابتداروں کے لیے، اور محتاجوں کے لیے ا ور مسافروں کے لیے ہے اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کو ایمان باللہ میں فرمایا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، کہ قبیلہ عبدالقیس کے نمائندے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ، اور عرض کیا، کہ حضرت ہم دو ردراز سے آئے ہیں، کچھ ہمیں ارشاد فرمائیے، تاکہ ہم اس پر عمل کریں، اور لوگوں کو بتائیں آپﷺ نے فرمایا، ان چار باتوں کے بجا لانے کاحکم دیتا ہوں، اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں، میں تمہیں ایک اللہ پر ایمان لانے کاحکم دیتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا، تم اکیلے اللہ پر ایمان لانے کو جانتے ہو، ان لوگوں نے کہا، اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا وہ یہ ہے کہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی الوہیت کی گواہی دینا، ا ور یہ کہ محمد(ﷺ) اس کے بندے اور رسول برحق ہیں، اور نماز قائم کرنا،روزہ رکھنا، حج ادا کرنا، زکوٰۃ دینا، اور غنیمت کے مال میں سے پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کرنا ۔ (بخاری)
اس حدیث سے معلوم ہوا ، کہ غنیمت سے پانچواں حصہ بیت المال میں دینا ایمان کا جزو ہے، اور جو اس کو ادا نہیں کرے گا، وہ خائن ا ور ناقص الایمان ہے، اور قیامت کے روز ا پنی خیانت کو ساتھ لائے گا، اور جہنم میں جانے کا مستحق ہوگا۔
(۳۰) ایمان کی تیسویں شاخ غلام آزاد کرنا ہے، اللہ کی خوشنودی کے لیے کسی غلام کو آزاد کرنا جزو ایمان ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من اعتق رقبۃ اعتق اللہ بکل عضو منھا عضوا منہ من النار۔ (بخاری)
جو غلام آزاد کرتا ہے، تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ہر ایک عضو کو دوزخ سے آزاد کر دے گا۔
(۳۱) ایمان کی اکتیسویں شاخ، کفارہ ادا کرنا ہے، یعنی جب کوئی قصور ہو جائے، تو اس کی معافی میں اللہ کے واسطے فدیہ اور کفارہ ادا کرنا ایمان کا ایک جزو ہے، قرآن و حدیث سے چار کفارے ثابت ہیں۔
(۱) قتل کا کفارہ۔
(۲) ظہار کا کفارہ ، یعنی اگر کوئی اپنی بیوی کو ماں کہہ دے تو اس کے عوض کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
(۳) قسم کا کفارہ۔
(۴) رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں قصداً بیوی سے جماع کرنے کا کفارہ ادا کرنا، ان کفاروں کا ادا کرنا فرض ہے، اگر کوئی ادا نہیں کرے گا، تو وہ بڑا مجرم ہوگا، اور اس کا ایمان ناقص ہوگا، اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کی دستگیری فرمائے، اور ایمان و عمل کی توفیق بخشے۔ (آمین)
باقی شاخوں کا بیان انشاء اللہ آئندہ خطبے میں آپ پڑھیں گے۔
بَارَکَ اللہُ لَنَاوَ لَکُمْ فِی الْقُرْآنِ العَظِیم ط وَنَفَعْنَا وَایَاکُم بِالاٰیٰتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیْم۔
 
Top