• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور جمہوریت (جواز کے دلائل پر تبصرہ کیجیے)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اگر جمہوریت مخالف افراد کی یہ دلیل تسلیم کرلی جائے کہ قرآن اکثریت کو نادان اور لاشعور کہتا ہے تو پاکستان میں اس مذہبی یا سیاسی جماعت کو حکومت کرنے کا حق دے دینا چاہیے جو اقلیت میں ہو۔
اس عبارت کا جواب دو طریقوں پر دیا جا سکتا ہے
ایک یہ کہ
آپ قرآن مجید کی یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ اکثریت تو نادان اور لاشعور ہے۔ چنانچہ ''اقلیت'' کو حکومت کا حق دینا چاہیئے۔ اس طرح آپ نے خود ہی جمہوریت کی شہ رگ کاٹ ڈالی کیونکہ جمہوریت میں تو اکثریت کی حکومت ہوتی ہے۔
دوسرا یہ کہ
اگر آپ ان لوگوں کی نقلی قرآنی دلیل کو نہیں مانتے تو پھر آپ کس طرح اقلیتی مذہبی یا سیاسی جماعت کو حکومت کا حق دلانے جا رہے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جزاک اللہ خیرا۔
آپ تحریر کے اقتباسات لے کر اس کا خوب علمی رد کیجئے۔مگر ان اقتباسات کو حافظ صاحب سے منسوب نہ کریں۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں

یہی تو مجھے بھی پریشانی لاحق ہے کہ
اگر حافظ صاحب نے یہ تحریر دینی ہی تھی تو ایسے انداز سے ایڈیٹنگ کرتے کہ حافظ صاحب کا موقف واضح طور پر کالم نگار کے مخالف نظر آتا۔
مثلاً: حافظ صاحب یوں لکھ دیتے کہ
کالم نگار لکھتا ہے
کالم نگار مزید کہتا ہے
وغیرہ وغیرہ
اس طرح محترم حافظ صاحب اپنا تبصرہ بھلے شامل نہ کرتے لیکن انداز تحریر خود بخود یہ بتا دیتا کہ حافظ صاحب اس کے خلاف موقف رکھتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس طرح محترم حافظ صاحب اپنا تبصرہ بھلے شامل نہ کرتے لیکن انداز تحریر خود بخود یہ بتا دیتا کہ حافظ صاحب اس کے خلاف موقف رکھتے ہیں۔
تبصرہ تو عسکری بھائی ضرور کریں گے، ان شاء اللہ!
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرآن پاک میں اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں واضح تصور موجود نہیں ہے البتہ ایسے بنیادی اشارے ضرور ملتے ہیں جن سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جمہوری نظام قرآن اور سیرت کے قریب ہے۔ سورة آل عمران کی آیت 104 میں ارشاد ربانی ہے "اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں"۔ سورة المائدہ کی آیت نمبر 101 میں درج ہے "اے لوگو جو ایمان لائے ہو ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں"۔
استغفراللہ ربی من کل ذنب۔ سبحانہ اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
پہلے جملے کا جواب تو میری پہلی پوسٹ میں موجود ہے۔
رہی بات مشورہ سے آپس کے کام کرنے کی تو
جناب عالی
یہ شان صرف اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہی کی ہے کہ وہ کسی سے مشورہ نہیں کرتا۔
ورنہ
کوئی جمہوری چمچہ ہو یا ظالم آمر۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر حاکم وقت مشورہ کرتا ہے۔ قرآن مجید کھول کر دیکھ لیجیے کہ فرعون نے اپنے وزیروں اور سرداروں سے بھی مشورہ مانگا تھا۔ حالانکہ اُس کا دعوی تو یہ تھا کہ وہ (نعوذ باللہ) رب الاعلی ہے۔
جب ایسا ظالم سفاک آمر مشورہ کرتا ہوا قرآن مجید ہمارے سامنے پیش کرتا ہے تو کون سا ایسا نظام یا شخص ہے جو کسی سے مشورہ نہیں کرتا؟
لہٰذا جمہوریت کے حق میں دلیل دینا قرآن فہمی نہ ہونے کے مترادف سمجھی جا سکتی ہے
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرآن پاک میں بہت سے امور کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ پروفیسر محمد عثمان نے اس خاموشی کو "سکوت حکیمانہ" قرار دیا۔
قرآن پاک میں بالفرض خاموشی اختیار کی گئی ہے تو شارح علیہ السلام نے اس دین کی رات کو بھی دن بنا کر پیش کر دیا ہے۔ جس کا دِل چاہے وہ اس نصف النہار کی ضوفشانیوں سے فیض یاب ہو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رسول اللہ نے سیاسی، عسکری، معاشی اور سماجی نوعیت کے امور صحابہ کرام کی مشاورت سے انجام دئیے۔
رسول اللہ ﷺ نے جن جن اُمور میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت فرمائی، اللہ کے حکم کے تحت ہی فرمائی ہے۔ اور قرآن مجید کی سورۃ الشوری اس بات پر دال ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حضور اکرم نے کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہ کیا اور یہ ذمے داری امت پر چھوڑ دی تاکہ وہ مشاورت سے اپنا خلیفہ منتخب کرے تاکہ خلفیہ عوام کو جوابدہ ہو۔
صحیح بخاری و مسلم کی روایات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو وحی الٰہی کے ذریعے یہ معلوم تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ ہوں گے۔ اس لئے آپ ﷺ نے نامزدگی نہیں فرمائی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مشہور محقق ڈاکٹر طہٰ حسین لکھتے ہیں کہ رسول اللہ کی خلیفہ کے بارے میں کوئی وصیت ہوتی تو مسلمان ثقیفہ بنی ساعدہ میں اجتماع کرکے خلیفہ کے بارے میں مشاورت اور مکالمہ نہ کرتے۔ اگر حضور اکرم کسی کو خلیفہ مقرر کردیتے تو ہر خلیفہ کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا اختیار مل جاتا تو خاندانی وراثت کا سلسلہ چل نکلتا جو مشاورت کے جمہوری اصولوں کے منافی ہوتا۔ ثقیفہ بنی ساعدہ کی مجلس مشاورت میں انصار نے فیصلہ کرلیا کہ ان کے خلیفہ سعد بن عبادہؓ ہوں گے۔ انصار کا موقف یہ تھا کہ خلافت ان کا حق ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے دلیل دی کہ قریش چونکہ عرب میں معروف ہیں اور اسلامی ریاست وسعت اختیار کررہی ہے لہٰذا خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے تاکہ وہ وسعت پذیر ریاست کا نظام چلاسکے ۔ مشاورت اور افہام و تفہیم کے بعد انصار اور مہاجرین نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا۔ انھوں نے مسجد نبوی میں بیعت عام لی۔
صحابہ کرام کا مشاورت کرنا یا مکالمہ کرنا حدیث میں اس طرح بیان نہیں ہوا جس طرح سے مندرجہ بالا عبارت میں لکھا گیا ہے۔
بلکہ
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ ارشاد فرمائی جس میں یہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ خلیفہ قریش سے ہو گا۔ چنانچہ سب کے سب (مہاجر و انصار اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے من و عن سرتسلیم خم کر دیا۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ تعالی سے راضی ہوئے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہ ایک جمہوری فیصلہ تھا جس کے ذریعے اسلام کے نظام سیاست میں جمہوریت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس اہم موڑ پر تین گروہ (انصار، مہاجرین، اہل بیت) سامنے آئے جنھوں نے خلافت اپنا استحقاق جانا۔ شبلی نعمانی نے ان گروپوں کو ابتدائی دور کی سیاسی جماعتیں قراردیا ہے۔
بالفرض محال آپ کی بات مان لی جائے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خلیفہ مقرر کیا جانا ایک جمہوری فیصلہ تھا
تو
جناب عالی
آج جس جمہوریت کو آپ پاک صاف کرنا چاہتے ہیں، اور اسلامی نظام خلافت کا متبادل سمجھتے ہوئے جمہوریت ہی کے نفاذ کی راہ صاف کرنا چاہتے ہیں،
تو کیا آج بھی آپ ایسے کسی جمہوری فیصلے سے اسلامی نظام خلافت قائم کرنا چاہ رہے ہیں؟؟؟
واللہ العظیم۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم ہرگز ایسا ہونے والا نہیں ہے۔
ورنہ سب سے قریب ترین مثال مصر و الجزائر وغیرہ کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
 

انیب

مبتدی
شمولیت
مئی 22، 2014
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
13
"جمہوریت اگر اقتدار میں عوامی نمائندگی ،شوریٰ و مشاورت ،حقوق و فرائض کی ادائیگی اور آزادیٔ رائے کا نام ہے تو خلافت راشدہ سے بڑی اور نمایاں کوئی جمہوری ریاست دنیا نے کبھی نہیں دیکھی مغرب کی ترقی یافتہ جمہوریت نے جو اصول و اقدار صدیوں کے ارتقائی سفر کے بعد بھی حاصل نہیں کیں خلافت راشدہ نے ساتویں صدی عیسوی میں ہی دنیا کو دکھا دی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔جمہوری ریاست میں عوام کی اکثریت کی رائے اور رویے سے حلال و حرام ،جائز و ناجائز اور حق و باطل کے بنیادی فیصلوں تک کو تبدیل کیا جاسکتا ہے جبکہ خلافت میں عوام الناس کی سوفیصد اکثریت بھی ایسے بنیادی فیصلے کرنے کی مجاز نہیں ہے جو شریعت کے خلاف ہوں اور نہ ہی یہ اختیار عوام کے نمائندوں یا حکمرانوں کو کسی بھی قیمت پر حاصل ہوسکتا ہے تاہم اجتماعی معاملات میں عوام کی شرکت کا پہلو نظام خلافت میں اس قدر اہم ہے کہ خود خلافت کا انعقاد ہی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ لوگ بیعت عام کے ذریعے اس کی تائید نہ کردیں۔" (ریاست و حکومت کے اسلامی اصول،ص۱۲۹،۱۲۸،۱۱۳)
 
Top