• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں عورت کا مقام !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اسلام میں عورت کا مقام !!!

الحمد للہ :

دین اسلام میں عورت کواتنا اونچا مقام مرتبہ حاصل ہوا ہے جواسے پہلے کسی ملت میں حاصل نہیں ہواتھا اورنہ ہی کوئ اور امت اسے پا سکی ۔

دین اسلام نے انسان کوجو‏عزت واحترام دیا ہے اس میں مرد و عوت دونوں برابر کےشریک ہیں ، اوروہ اس دنیا میں اللہ تعالی کے احکامات میں برابرہیں اوراسی طرح دار آخرت میں اجرو ثواب میں بھی برابر ہیں ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے :

{ اوریقینا ہم اولاد آدم کوبڑي عزت دی } الاسراء ( 70 ) ۔

اوراللہ عزوجل کا ایک جگہ پرفرمان کچھ اس طرح ہے :

{ ماں باپ اورعزیزواقارب کے ترکہ میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی اس میں حصہ ہے جوماں باپ اور‏عزیزو اقارب چھوڑ کرمریں } النساء ( 7 )

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے فرمان ہے :

{ اورعورتوں کے لیے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہيں اچھائ کے ساتھ } البقرۃ ( 228 ) ۔

اوراللہ مالک الملک کا فرمان اس طرح بھی ہے :

{ مومن مرد و عورتیں آپس میں ایک دوسرے ( مدد گارو معاون اور) دوست ولی ہیں } التوبـۃ ( 71 ) ۔

اوراللہ تبارک وتعالی نے والدین کے متعلق کچھ اس طرح فرمایا :

{ اورآپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو ، اورماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائيں توان کے آگے اف تک نہیں کہنا اورنہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چيت کرنا ۔

اورعاجزی اورمحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا اوردعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب ان پربھی ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی } الاسراء ( 23 - 24 ) ۔

اورفرمان باری تعالی ہے :

{ پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کوخواہ وہ مرد ہویا عورت ہرگز ضائع نہیں کرونگا } آل عمران ( 195 ) ۔

اوراللہ جل شانہ نے فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اورجوبھی نیک عمل کرے چاہے وہ مرد ہویا عورت لیکن وہ مومن ہوتو ہم اسے یقینا بہتر زندگی عطا فرمائيں گے ، اوران کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے } النحل ( 97 ) ۔

اور اللہ عزوجل نے ایک مقام پراس طرح فرمایا :

{ اورجوبھی ایمان کی حالت میں اعمال صالحہ کرے چاہے وہ مرد ہویا عورت یقینا ایسے لوگ جنت میں جائيں گے ، اورکھجورکی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جاۓ گا } النساء ( 124 ) ۔

یہ ہے وہ عزت و تکریم اورمقام ومرتبہ جو اسلام نے عورت کو دی جس کی مثال نہ تو کسی اوردین میں اور نہ ہی کسی قانون میں ملتی ہے ، بلکہ رومن ( اٹلی ) جدت پسندوں نے تویہ قانون پاس کیا ہے کہ عورت مرد کے تابع رہتے ہوۓ اس کی غلام ہے اوراس کے مطلقا کوئ‏ حقوق نہيں ۔

اٹلی میں ایک بڑے اجتماع کےبعد عورت کے متعلق بحث ومناقشہ کے بعد یہ پاس کیا گيا کہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جسے کچھ اہمیت حاصل نہیں ، اور عورت اخروی زندگی کی وارث نہیں بنےگی اوریہ پلید ہے ۔

جاہلیت میں توعورت ایک گھٹیا سی چيزتھی اسے بیچا اورخریدا جاتا اوراسے شیطانی پلیدی شمار کیا جاتا تھا ۔

اورقدیم ھندوستانی قوانین تویہاں تک کہتے ہیں کہ وبائيں اورموت جہنم اورآگ اورسانپوں کا زہر عورت سے بہتر ہے ، اوراسے زندہ رہنے کا حق صرف خاوند کے ساتھ ہی تھا اگرخاوند مرجاۓ اوراسے آگ میں جلایا جاتا توعورت بھی اس کے ساتھ ہی زندہ جل مرتی اوراگروہ خاوند کے ساتھ نہ جلتی تواسے لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ ھندوستان کے بعض علاقوں میں توابھی تک یہ موجود ہے ۔

اوریھودیت میں یھودی عورت کا کیا حال تھا اس کا بھی ہم جائزہ لیتے ہیں عھد قدیم میں یہ مندرجہ ذیل بات موجود ہے :

میں اورمیرا دل حکمت وعقل کے علم اوراسے حاصل اورتلاش کرنے کے لیے گھوما پھرا تا کہ میں شرکوجوکہ جہالت اورحماقت کوجوکہ جنوں ہے معلوم کرسکوں ، تومیں نے موت کوپایا عورت جوکہ کھڑکی اوراس کادل تسمہ اوراس کے ہاتھ بیڑیاں ہيں ۔ سفر الجامعۃ الاصحاح ( 7 : 25 - 26 ) ۔

یہ تومعلوم ہی ہے کہ عھد قدیم پریھودی اورعیسائ دونوں کا ایمان ہے اوروہ اسے مقدس سمجھتے ہیں ۔

زمانہ قدیم میں عورت کا یہ حال تھا اوراورموجودہ اوراس سے پہلے ماضی قریب کے دورمیں عورت کوکیا کچھ حاصل ہے اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات کریں گے :

ایک ڈانمارک کا ایک مصنف (wieth kordsten ) عورت کے بارہ میں کیتھولک چرچ کےنقطہ نظرکی شرح کرتے ہوۓ کہتا ہے :

( دوروسطی میں یورپی عورت کا بہت ہی کم خیال رکھا جاتا تھا اس لیے کہ کیتھولک چرچ کےمذھب میں عورت دوسرے درجہ کی مخلوق شمارہوتی ہے )

( 586 م ) میلادی کوفرانس میں عورت کے بارہ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں اس بات پرغورکیا گيا کہ آیا عورت انسان شمار ہوتی ہے یا کہ نہیں ؟

اوراس کانفرنس میں مناقشہ کرنے بعد یہ قرار پا کہ عورت ایک انسان ہے لیکن وہ مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئ ہے ۔

اورفرانسیسی قانون کی شق نمبر ( 217 ) میں مندرجہ ذیل بات کہی گئ ہے :

( شادی شدہ عورت ( اگرچہ اس کی شادی اس بنیاد پرہوئ ہوکہ اس کی اوراس کے خاوند کی ملکیت علیحدہ ہی رہے گی ) کا کسی کے لیے ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اورنہ ہی وہ اپنی ملکیت کومنتقل کرسکتی اورنہ ہی اسے رہن رکھ سکتی ہے ، اورنہ ہی وہ عوض یا بغیرعوض اپنے خاوند کی معاھدے میں شرکت کے بغیر یا پھر اس کی موافقت جوکہ لکھی ہوئ ہوکے بغیر مالک بن سکتی ہے )

اورانگلیڈ میں ہنری ہشتم نے انگریز عورت پرکتاب مقدس پڑھنا حرام قرار دیا ، حتی کہ ( 1850 ) میلادی تک عورتوں کوشہری ہی شمار نہیں کیا گیا ، اوران کے لیے ( 1882 ) میلادی تک کو‏ئ کسی قسم کے حقوق شخصی نہیں تھے ۔ دیکھیں کتاب : سلسلۃ مقارنۃ الادیان ۔ تالیف احمد شلبی جلد ( 3 ) صفحہ ( 210 - 213 ) ۔

اوردورحاضرمیں یورپ اورامریکہ اوردوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑی مخلوق ہے جوصرف اورصرف تجارتی اشیاء کی خرید وفروخت کےلیے استعمال ہوتی ہے ، وہ اشتہاری کمپنیوں کا جزلاینفصل ہے ، بلکہ یہاں حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیے گۓ ہیں اوراس کے جسم کوتجارتی اشیاء کے لیے مباح کرلیا گيا ہے ،اورمردوں نے اپنے بناۓ ہوۓ قانون سے اسے اپنے لیے ہر جگہ پراس کے ساتھ کھیلنا ہی مقصد بنا لیا ہے ۔

اس کا خیال اس وقت رکھا جاتا ہے جب تک تووہ اپنے ھاتھ یا پھر فکروسوچ سے مال وغیرہ خرچ کرے اورجب وہ بڑی عمر کی ہوجاۓ اور اپنے حواس کھو بیٹھے اورکسی کو کچھ نہ دے سکے تومعاشرہ اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اوراسی طرح ادارے بھی اس کوچھوڑ دیتے ہیں اوروہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں زندگی گزارتی ہے یا پھر نفسیاتی ہسپتالوں میں ۔

توآپ اس کا مقارنہ و موازنہ ( اس میں کو‏ئ کسی قسم کی برابری نہیں ) اس سے کریں جوقرآن مجید میں آیا ہے :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مدد گارو معاون اور ) دوست ہیں } التوبۃ ( 71 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائ کے ساتھ } البقرۃ ( 228 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورآپ کا رب صاف صاف یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو ، اورماں باپ کے ساتھ احسان کرو ، اگر آپ کی موجودگی میں ان میں سے ایک یا وہ دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائيں توان کے آگے اف تک نہیں کہنا اورنہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چيت کرنا ۔

اورعاجزی اورمحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست کیے رکھنا اوردعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب ان بھی ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی } الاسراء ( 23 - 24 ) ۔


اورجب عورت کواس کے رب نے اسے یہ عزت واحترام دیا توساری بشریت کے لیے واضح کردیا کہ عورت کواس لیے پیدا کیا ہے کہ یاتووہ ماں اور بیوی ہوگی یا پھر بیٹی اوربہن کے روپ میں ، اوراس کے لیے خصوصی قوانین بھی مشروع کیے جوکہ صرف عورت کے ساتھ خاص ہیں نہ کہ مرد کے ساتھ ۔

یہ مضمون ڈاکٹر محمد بن عبداللہ بن صالح السحیم کی کتاب : الاسلام اصولہ ومبادؤہ سے لیا گيا ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/132959
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
مردکو غیرت مند ہونا چاہیئےمونچھیں تو دلالوں کی بھی ہوتی ہیں
اور
عورت کو با حیا ہونا چاہیئے
خوبصورت تو طوائف بھی ہوتی ہے
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
بہو، بیٹی اور سسرال
=========

والدین کی ازدواجی زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو بچوں کی شخصیت بھی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ جو والدین بچوں کے سامنے لڑتے ہیں، ان کے بچے ساری زندگی ایک منفی شخصیت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے بچے اگر لڑکیاں ہوں تو بہت مشکل ہوتا ہے کہ شوہر کی تابعدار ہوں اور اگر لڑکے ہوں تو محال ہوتا ہے کہ بیوی کی عزت کرسکیں۔ پس اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ہی کم از کم اپنے آپسی تعلقات خوشگوار رکھئے۔

اگر آپکی ساس نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے تو کوشش کیجئے کہ وہ زیادتی آپ اپنی بہو کے ساتھ نہ کریں۔ اپنی بہو کے لئے ویسی ہی ساس بنئے جیسی آپ اپنی بیٹی کی ساس کو دیکھنا چاہتی ہیں۔ بہو تلاش کرنے نکلیں تو ایسی ڈیمانڈ سامنے رکھئے جن پر آپ کی بیٹیاں بھی پوری اتر سکتی ہوں۔ کسی کی بیٹی کو بیاہ کر گھر لے جائیں تو اسکے ساتھ وہ سلوک روا رکھئے جو آپ اپنی بیٹی کے ساتھ اسکے سسرال والوں کا چاہتے ہیں۔ اپنی بیوی کو وہ عزت دیجئے جو آپ اپنے بہنوئی سے اپنی بہن کے لئے اور اپنے داماد سے اپنی بیٹی کے لئے توقع رکھتے ہوں۔ جتنا پیار آپکو اپنی بیٹی اور بہن سے ہے، اتنا ہی پیار اس کو بھی اپنی بہن اور بیٹی سے ہے جس نے اسکو آپ کے عقد میں دیا ہے۔ ورنہ یاد رکھئے اللہ کے ہاں مکافات عمل ہے، آج آپ جو کسی دوسرے کی بیٹی اور بہن کے ساتھ کرینگے کل وہ آپکی بیٹی اور بہن کے آگے آئے گا۔

اولاد کا دکھ بہت تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور بے بس کردینے والا بھی۔ کوشش کریں کہ کسی کو اس دکھ میں مبتلا کرکے اسکی آہ نہ لیجیے۔ وگرنہ اللہ کی لاٹھی کب چل نکلے کسی کو پتہ نہیں۔

تحریر: محمد فھد حارث
 
Top