حقیقت تو یہی ہے کہ آقائے دو جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ و سلام کی شادی مبارک جب عرب کی نیک و پاکدامن تاجر خاتون حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ سے انجام پائی تو آپؐ نے اپنی پہلی زوجہ کی زندگی میں کوئی دوسری شادی نہ کی چنانچہ حیات طیبہ کے مطابق پہلی بیوی کی موجودگی میں کسی دوسری کو لے کر آنے کا تصور ہی نہیں ملتا۔ قرآن پاک میں ''بیوی'' کے حقوق' والدین یہ احسان' یتیموں' مسکینوں و بیوائوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر و تاکید تو ہے لیکن سوکن کے حقوق کا تصور تک نہیں ملتا۔ یہ مبالغہ قرآن کی آیت ''اودتم دو دو چار چار سے جنہیں تم پسند کرو نکاح کر لو'' سے پیدا کیا جاتا ہے۔ ہمیں آیات قرآنی کو ان کے سیاہ و سباق سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس آیت مبارکہ کا نزول جنگ بدر کے ان کٹھن حالات میں ہوا۔ جب لاتعداد مسلمان مرد بدر کی جنگ میں شہید ہو گئے اور انکی بیویاں پیچھے غیر محفوظ و بے آسرا رہ گئیں۔ اس آیت کا مقصد دراصل بدر کی جنگ میں شہید ہو جانیوالے مردوں کی بیوائوں کو تکریم سے اپنے نکاح میں لے لینے کا حکم ہے تاکہ اس طرح شہیدان بدر کی عورتوں کو تحفظ حاصل ہوتا... یہ حکم بھی ہر شخص کیلئے نہیں تھا بلکہ ان مردوں کیلئے تھا جو بیک وقت اپنی منکوحہ عورتوں کی انصاف سے کفالت کرنے کی سکت رکھتے تھے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ نہ کہ مبالغ و مغالطے پھیلانے کی... کافروں نے تو اسلام میں ایک سے زائد شادیوں کے مبالغ کا بے حد پروپیگنڈا کیا جو کہ کارفوں کے دل کے کرود' حسد اور منافقت کا بین ثبوت رہا ہے۔ ہمارے اپنے دینی بھائیوں نے بھی اپنے گھر کی شریف بیوی کے خلاف اس آیت مبارکہ کو برعکس اس آیت کی روح کے استعمال کیا۔ جب اس آیت مبارکہ کی روح اور مثبت پہلو کو معاشرے کے شر انگیز عناصر نے ناجائز استعمال کیا تو عملاً نتیجتاً خاندانی نظام بکھرا' گھر ٹوٹے' نسلیں تباہ ہوئیں۔ فتنے ' فساد پھوٹے بلکہ بیشتر گھرانوں میں نوبت قتل و غارت تک بھی پہنچ جاتی ہے اور اللہ کو شر انگیزی سخت ناپسند ہے... اللہ تبارک و تعالیٰ زمین پہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ فتنے قتل کی طرف لی جاتے ہیں لیکن الہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہے... بیوی کی موجودگی میں بچوں کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنا فتنہ ہی ہوتا ہے؟ مرد خفیہ دوستیاں کریں' نامحرم عورتوں سے باتیں و ملاقاتیں کریں' حدوں سے آگے بڑھیں' گھر کی عورت کو دھوکہ دیں ' جھوٹ بولیں پھر شادیوں تک نوبتیں لے آئیں اور پھر اپنی کج رویوں کا جوز اسلام میں چار شادیاں لے آئیں... بھئی یہ کہاں کا اسلام ہے جس کے آغاز سے انجام تک کا ہر قدم غیر اسلامی و غیر شرعی ہے؟ نفس کی پیروی میں' حرص و طمع و ذہنی پسماندگی و ظلم و ناانصافی کے زور پر ہونے والی گناہ کی شادیوں کی مقدس' مطہر و منور رحمتہ اللعالمین کی شادیوں سے کیا مماثلت (نعوذ باللہ) حضورؐ کی شادیاں حکمت سے بھرپور و مشیت الٰہی ثابت ہوئیں... جسے پڑھنے و سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں اس مختصر کالم پہ اس پر روشنی ڈالنے سے معذور ہوں۔ یہ وضاحت میں کسی اور کالم کیلئے سنبھال رکھتی ہوں۔ اس وقت ادراک کیلئے ایک واقعہ پیش کرنا چاہوں گی کہ حضرت فاطمۃ الزھراؓ کو حضرت علیؓ کی چند باتوں سے گمان ہوا کہ وہ دوسری شادی کرنیوالے ہیں۔ خاتون جنت سیدہ فاطمہؓ رنج و ملال کے ساتھ اپنے ابا حضور محمد مصطفیٰؐ کے پاس تشریف لائیں اور اپنا گمان و اندیشہ بیان کیا۔ حضورؐ نے حضرت علیؓ کو بلایا۔ حضرت علیؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؐ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا ''علیؓ ' فاطمہ میرے جگر کا گوشہ ہے اگر اسے رنج ہوا تو مجھے رنج ہو گا۔'' حضرت علیؓ سب کچھ سمجھ گئے اور دوسرے نکاح کا خیال ترک کر دیا۔ (حضرت علیؓ کی دیگر شادیاں حضرت فاطمتہ الزہرہؓ کی رحلت کے بعد انجام پائیں۔ہمارے پیارے حبیبؐ تو یا امتی یا امتی پکارتے تھے۔ اپنی اولاد سے بھی زیادہ اپنی امت کیلئے بیتاب رہتے تھے آپؐ جب فاطمتہ الزہرہؓ کو رنج میں نہیں دیکھ سکتے تو ہمارے پیارے نبیؐ امت کی شریف زادیوں کا رنج کس طرح پسند فرمائیں گے؟
جناب والا... اسلام اتنا بے پرواہ بھی نہیں ہے' اسلام مرد کو شادیوں کی یوں کھلی چُھٹی بھی نہیں دیتا جس طرح آپ معاشرتی ہیجانی کیفیتوں کو نظر انداز کر کے مرد کواس کے کسی پیدائشی حق کے طور پر دے رہے ہیں۔ اسلام عائلی زندگی میں عورت کے ساتھ مرد کو بھی تلقین کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ شادی ہو جائیے تو صرف عورت کو نہیں بلکہ مرد کو بھی اپنی بیوی کی دلجوئی کرنے بلکہ بیوی کی دل آزاری کرنے سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حضورؐ کا ارشاد مبارک ہے ''عربی'' ترجمہ (تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی اہلیہ کے ساتھ اچھا ) اب کوئی بتائیے کہ اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر کوئی مرد دوسری تیسری اور چوتھی سے مراسم پیدا کرے اور شادی تک کی باتیں بنائیے تو وہ اپنی اہلیہ کیلئے کس طرح اچھا ہوگا؟ علماء کرام تو اسلام میں مردانہ جبلت و نفسیات کے خیال و لحاظ کا پرچار کرتے رہتے ہیں ارے بھائی اسلام پر عورت و مرد دونوں کی نفسیات کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر میں لاتا ہے۔ بس ناانصافی و ظلم و شر و فتنے سے روکتا ہے' معاشرتی انصاف و عدل کا درس دیتا ہے۔ جو زیادہ طاقت میں ہوتا ہے' انصاف کے معاملے میں وہ زیادہ ذمہ دار بھی ہوتا ہے اور جس کے پاس منصفی کے فرائض آ جاتے ہیں۔ اسے چاہئے کہ وہ حقوق العباد کے معاملے میں اللہ سے ڈرے کیونکہ اللہ سے عدل و انصاف کے حوالے سے ضرور پوچھے گا اور اس وقت لوگوں کی حمائتیں ' دولت و طاقت و حیلے بہانے کچھ کام نہ آئیے گا... اسلامی نظریاتی کونسل میں ایسے علماء کرام کا ہونا ضروری ہے جو اسلامی تعلیمات کو عملی مسائل و ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر نہ دیکھیں... جو معاشرتی تقاضوں کے عین مطابق دینی و قانونی تعبیریں و تاویلیں پیش کرنے کے اہل ہوں' جو گھریلو امن سے لے کر معاشرتی امن کو پیش نظر رکھیں۔ اسلام مرد کو دوسری شادی کی مان مانی کرنے اسے کہیں زیادہ زور دے کر حیاء و شرم و شرافت و نفس سے جنگ یعنی جہاد اکبر کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ وفاقی و شرعی عدالت و عدالت عظمیٰ جس قانون کیلئے اپنا حتمی فیصلہ صادر کر چکی ہے کہ قانونی طور پر مرد پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نہیں کر سکتا تو پھر اسلامی نظریاتی کونسل کا اس بحث کو چھیڑنے کا کیا مقصد ہے؟؟