• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام پر چاليس(40) اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 39


کیا مریم علیہا السلام ہارون علیہ السلام کی بہن تھیں؟



کیا مریم علیہا السلام ہارون علیہ السلام کی بہن تھیں؟

"آپ کے قران میں یہ ذکر آیا ہے کہ مریم علیہا السلام ہارون علیہ السلام کی بہن تھی، حضرت محمد (ﷺ) جنہوں نے قرآن تصنیف کیا ( نعوذ باللہ ) یہ نہیں جانتے تھے کہ ہارون علیہ السلام کی بہن مریم، یسوع مسیح علیہ السلام کی والدہ مَیری (Mary) سے مختلف خاتون ہیں اور دونوں میں تقریباً ایک ہزار سال کا وقفہ ہے؟ "

قرآن کریم کی سورۃ مریم میں فرمایا گیا ہے:

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا (٢٧)يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا (٢٨)

" پھر وہ اس ( بچے ) کو اٹھائے اپنی قوم کے پاس آئی تو وہ کہنے لگے: اے مریم ! یقیناً تو نے بہت بُرا کام کیا ہے۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔ "

( سورۃ مریم 19 آیت 27-28)

عیسائی مشرنی کہتے ہیں کہ نبئ کریم (ﷺ) کو یسوع مسیح علیہ السلام کی والدہ مَیری یا مریم اور ہارون علیہ السلام کی بہن مریم میں فرق معلوم نہیں تھا، حالانکہ دونں کے درمیان ایک ہزار برس کا بعد زمانی ہے ۔ لیکن انہیں شاید علم نہیں کہ عربی زبان کے جملے کی ساخت میں بہن کے معانی آل اولاد بھی ہیں، لہذا لوگوں نے مریم سے کہا: اے ہارون کی اولاد! اور فی الواقع اس سے ہارون علیہ السلام کی اولاد ہی مراد ہے۔

بیٹے کا مطلب اولاد ہے :

بائبل میں لفظ " بیٹا " بھی اولاد کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ متی کی انجیل کے باب اول کے فقرہ نمبر 1 میں ہے:

" یسوع مسیح، داؤد کا بیٹا " ( متی : 1/1)

لوقا کی انجیل کے باب نمبر 3 کے فقرہ نمبر 23 میں لکھا ہے:

" جب یسوع خود تعلیم دینے لگا، قریباً تیس برس کا تھا اور ( جیسا کہ سمجھا جاتا ) یوسف کا بیٹا تھا۔ "

( لوقا: 3/23 یوسف سے مراد یوسف نجار ہے جو مسیحی عقیدے کے مطابق حضرت مریم کا شوہر تھا۔ )


کیا مسیح علیہ السلام کے دو باپ تھے؟

ایک شخص کے دو والد نہیں ہوسکتے، لہذا جب یہ کہا جائے گا کہ " یسوع مسیح علیہ السلام ، داؤد کا بیٹا تھا " تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام، داؤد علیہ السلام کی آل اولاد میں سے تھے ، بیٹا Son سے مراد جانشین یا اولاد ہے۔

بنا بریں قرآن مجید کی سورہ مریم کی آیت نمر 28 پر اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ اس میں مذکور " اُخت ہارون " سے مراد حضرت ہارون علیہ السلام کی بہن مریم نہیں بلکہ اس سے مراد مریم والدہ مسیح ہیں جو ہارون علیہ السلام کی اولاد ، یعنی ان کی نسل میں سے تھیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 40


کیا " روح اللہ " سے الوہیت مسیح کشید کی جاسکتی ہے؟



کیا " روح اللہ " سے الوہیت مسیح کشید کی جاسکتی ہے؟


" کیا قرآن کریم یہ بیان نہیں کرتا کہ یسوع مسیح کلمۃ اللہ ( اللہ کا کلمہ ) ہیں اور روح اللہ ( اللہ کی روح ) بھی، کیا اس سے شان الوہیت ظاہر نہیں ہوتی؟

قرآن مجید کی رُو سے مسیح علیہ السلام اللہ کی جانب سے ایک کلمہ ہیں اللہ کا کلمہ نہیں، چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 45 میں کہا گیا ہے۔:

إِذْ قَالَتِ الْمَلائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (٤٥)

" ( یاد کرو ) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم ! بے شک اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح ابن مریم ہوگا۔ وہ دنیا اور آخرت میں بڑے رتبے والا اور اللہ کے قریبی بندوں میں سے ہوگا۔ "

( سورۃ آل عمران 3 آیت 45)

گویا قرآن میں مسیح علیہ السلام کا ذکر" اللہ کی جانب سے ایک کلمہ " کے طور پر کیا گیا ہے نہ کہ " اللہ کے کلمہ " کے طور پر ، اللہ کے ایک کلمے سے مراد اللہ کا پیغام ہے، اگر کسی شخص کو اللہ کی جانب سے ایک کلمہ کہا جائجے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ اللہ کا پیغمبر اور نبی ہے۔

انبیاء کے القاب :

مختلف انبیائے کرام کو مختلف القاب دیئے گئے، جب کسی پیغمبر کو کوئی لقب دیا جاتا ہے تو اس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دوسرے پیغمبر وہ خصوصیت یا خوبی نہیں رکھتے، مثال کے طور پر حضرت ابراہیم کو قرآن میں خلیل اللہ، یعنی اللہ کا دوست کہا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ تمام دوسرے پیغمبر اللہ کے دوست نہیں تھے۔ حضرت موسی علیہ السلام کو کلیم اللہ کہا گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان سے کلام کیا۔ اس سے بھی یہ مراد نہیں کہ اللہ نے دوسرے انبیاء سے بات نہیں کی،اسی طرح مسیح علیہ السلام کا بطور کلمۃ من اللہ یعنی " اللہ کی طرف سے ایک کلمہ " کا ذکر کیا گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے انبیاء اللہ کی طرف سے ایک کلمہ یا پیغام بر نہیں ہیں۔

حضرت یحیٰی علیہ السلام جنھیں عیسائی یوحنا صباغ (John the Baptist) کہتے ہیں۔ ان کے ذکر میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ من اللہ، یعنی " اللہ کی طرف سے ایک کلمہ " کہا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے:

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ (٣٨)فَنَادَتْهُ الْمَلائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ (٣٩)

" وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا کی: میرے رب ! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا کر، بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے، پھر جب وہ حجرے میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا تو فرشتوں نے اسے آواز دی: بے شک اللہ تجھے یحیٰ کی خوشخبری دیتا ہے، وہ اللہ کے ایک کلمے ( عیسیٰ ) کی توثیق کرے گا، اور سردار، نفس پر ضبط رکھنے والا اور نیکو کار نبی ہوگا۔

( سورۃ آل عمران 3 آیات 38 تا 39)


مسیح علیہ السلام کا ذکر بطور روح اللہ کے نہیں کیا گیا بلکہ سورۃ نساء میں روح من اللہ، یعنی " اللہ کی جانب سے ایک روح " کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلا تَقُولُوا ثَلاثَةٌ انْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلا (١٧١)

" اے اہل کتاب! دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو، بے شک عیسیٰ ابن مریم تو اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہی ہے جسے اس نے مریم کی طرف ڈالا اور وہ اس کی طرف سے ایک روح ہے، چنانچہ تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ معبود تین ہیں، اس سے باز آجاؤ یہ تمہارے لیے بہتر ہے ، بے شک اللہ ہی معبود واحد ہے، وہ اس ( امر ) سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، اور اللہ بطور کارساز کافی ہے۔"

( سورۃ النساء 4 آیت 171)

اللہ کی روح ہر انسان میں پھونکی گئی ہے :

اللہ کی طرف سے روح پھونکے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ( نعوذ باللہ ) معبود ہیں، قرآن متعدد مقامات پر بیان کرتا ہے کہ اللہ انسانوں میں " اپنی روح سے " پھونکتا ہے، مثلاً

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (٢٩)

" پھر جب میں اسے ( آدم کو ) درست کرلوں اور اپنی روح سے اس میں پھونک دوں تو اس کے آگے سجدی کرتے گر پڑنا۔

( سورۃ الحجر 15 آیات 29)

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَالأفْئِدَةَ قَلِيلا مَا تَشْكُرُونَ (٩)

" پھر انسان ( کے اعضاء ) کو درست کیا اور اس میں اپنی روح سے پھونکا، اور اس نے تمہارے کانِ آنکھیں اور دل بنائے، تم کم ہی شکر کرتے ہو۔ "

( سورۃ السجدہ 32 آیت 9)
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 41


کیا مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں؟



کیا مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں؟

"کیا یہ بات درست نہیں کہ آپ کا قرآن سورۃ مریم ( آیت : 33 ) میں ذکر کرتا ہے کہ یسوع مسیح علیہ السلام انتقال کرگئے اور پھر زندہ کیئے گئے اور اٹھائے گئے تھے ؟ "

قرآن مجید میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام انتقال کرگئے بلکہ ان کا قول صیغہ مستقبل میں ہے۔ سورۃ مریم میں عیسیٰ علیہ السلام کی بابت ارشاد باری تعالٰی ہے کہ انہوں نے کہا:

وَالسَّلامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (٣٣)
" اور سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، اور جس میں مرجاؤں گا، اور جس دن میں زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔"

( سورۃ مریم 19 آیت 33)

قرآن کا بیان یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام نے کہا:

سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میں مرجاؤں گا، یہ نہیں کہا گیا کہ جس روز میں فوت ہوا، یہ بات مستقبل کے صیغے میں کہی گئی ہے، صیغہ ماضی میں نہیں۔


مسیح علیہ السلام زندہ اٹھائے گئے :

قرآن کریم سورۃ النساء میں مزید بتاتا ہے:

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (١٥٧)بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (١٥٨)

"اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے ( ہم نے ان پر لعنت کی ) کہ " ہم نے مسیح ابن مریم اللہ کے رسول کو قتل کیا" حالانکہ انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ انہیں شبہے میں ڈال دیا گیا۔ اور بے شک جنہوں نے عیسٰی کے بارے میں اختلاف کیا وہ ضرور ان کے متعلق شک میں ہیں، انہیں ان کے بارے میں کوئی علم نہیں سوائے گمان کی پیروی کے، اور انہوں نے یقیناً انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ بڑا زبردست، بہت حکمت والا ہے۔

( سورۃ النساء 4 آیات 157 تا 158 )

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے عیسٰی علیہ السلام کو یہودیوں کی گھناؤنی سازش سے بچا کر زندہ آسمان پر آُٹھالیا تھا، قیامت کے قریب زمین پر ان کا نزول ہوگا اور فتنہ دجال کے ختم ہوجانے اور تمام روئے زمین پر اللہ کے دین اسلام کے فروغ کے بعد عیسٰی علیہ السلام انتقال کرجائیں گے۔

 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
آخر میں دو فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم :




تخريج حديث ليبلغن هذا الأمر مبلغ الليل والنهار :

عن تميم الداري رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين بعز عزيز أو بذل ذليل عزاً يعز الله به الإسلام وذلاً يذل الله به الكفر " وكان تميم الداري يقول :" قد عرفت ذلك في أهل بيتي لقد أصاب من أسلم منهم الخير والشرف والعز ولقد أصاب من كان منهم كافراً الذل والصغار والجزية .

أخرجه أحمد رقم ( 16998 ) 4/ 103، والطبراني في مسند الشاميين رقم ( 951 ) 2/79 ، والحاكم في المستدرك رقم ( 8326 ) 4/477 وقال : هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه ، والبيهقي في السنن الكبرى رقم ( 18400 ) 9 / 181، وابن منده في كتاب الإيمان رقم ( 1085 ) 2/982، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد 6/14وقال : رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح ، وأخرجه أحمد أيضاً رقم ( 23865 ) 6/4 ، وابن حبان من حديث المقداد بن الأسود رقم ( 6699 ) 15/91 ، والطبراني في الكبير رقم ( 601 ) 20 / 254 ، وفي مسند الشاميين رقم ( 572 ) 1/324 ، والحاكم في المستدرك رقم ( 8324 ) 4/476وقال : هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه ، والبيهقي في السنن الكبرى رقم ( 18399 ) 9 / 181، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد 6/14وقال : رجال الطبراني رجال الصحيح ، وصححه الألباني في السلسلة الصحيحة رقم ( 3 ) 1 / 32 ، وفي مشكاة المصابيح رقم ( 42 ) .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا، جہاں دن اور رات کا چکر چلتا ہے ، اللہ کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا ، جہاں اس دین کو داخل نہ کر دے ، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کر لیا جائے یا اسے رد کر کے (دنیا و آخرت کی)ذلت قبول کر لی جائے ، عزت وہ ہوگی جو اللہ اسلام کے ذریعہ عطا کرے گا اور ذلت وہ ہوگی جس سے اللہ کفر کو ذلیل کرے گا۔

  • جناب تمیم داری رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بیان کرکے فرماتے تھے ،کہ اس فرمان رسول ﷺ کی صداقت میں نے اپنے خاندان میں دیکھی ہے
  • ہمارے خانندان میں سے جس نے بھی اسلام قبول کیا ۔اللہ نے اسے عزت وشرف اور دیگر کئی اصناف خیر سے نوازا ہے
  • اور جس جس نے کفر نہیں چھوڑا ۔۔ اس نے ذلت و رسوائی کا سامنا کیا ہے ۔



حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"والذی نفس محمد بیدہ لا یسمع بی احد من ھذہ الامۃ یھودی ولا نصرانی ثمہ یموت ولم یومن بالذی ارسلت بہ الا کان من اصھاب النار"

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے ،اس امت میں سے جس کسی نے خواہ یہودی ہو یا عیسائی ،میرے بارے میں سنا اور وہ اس دین پر ایمان لائے بغیر مر گیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا تو وہ یقینا اہل جہنم میں سے ہے۔"

(صحیح مسلم)
 
Last edited:
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
السلام علیکم! جزاک اللہ خیر محترم بھائی ایک مزید کام اگر ممکن ہو تو جہاں اس کتاب کا پی ڈی ایف لنک موجود ہے ۔ اس کے ساتھ ایک ورڈ ڈوک بھی ڈانلوڈ کرنے کے لئے دے دی جئے قارئین کے لئے جزاک اللہ خیرا والسلام علیکم ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم! جزاک اللہ خیر محترم بھائی ایک مزید کام اگر ممکن ہو تو جہاں اس کتاب کا پی ڈی ایف لنک موجود ہے ۔ اس کے ساتھ ایک ورڈ ڈوک بھی ڈانلوڈ کرنے کے لئے دے دی جئے قارئین کے لئے جزاک اللہ خیرا والسلام علیکم ۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !


uhttp://forum.mohaddis.com/styles/default/xenforo/gradients/category-23px-light.png)

Islam-par-Etrizat-ka-Jawab-
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
محترم بھائی دی گئی لنک پر ایرر دکھا رھا ھے ۔۔ اور کھل نہیں رھا ۔
 
Top