• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام پر چاليس(40) اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 29


کیا قرآن میں تضاد ہے؟



کیا قرآن میں تضاد ہے؟

" قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے، ایک دوسری آیت قرآنی کہتی ہے کہ ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے، تو کیا قرآن اپنی ہی بات کی نفی نہیں کررہا؟ "

قرآن کریم کی سورۃ السجدہ اور سورۃ الحج میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی نظر میں جو دن ہے، وہ ہماری دانست کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ۔ :

يُدَبِّرُ الأمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (٥)

" وہی ( اللہ ) آسمان سے زمین تک ( سارے ) معاملات کی تدبیر کرتا ہے، پھر ایک دن میں، جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے، وہ معاملات اوپر اس کے پاس جاتے ہیں۔" ( سورۃ السجدہ 32 ایت 5)

ایک اور آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ کے نزدیک ایک دن تمہارے پچاس ہزار سال کے برابر ہے، ارشاد باری تعالی ہے ۔ :

تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (٤)

" فرشتے اور روح القدس ( جبرائیل ) اوپر اس کی طرف چڑھیں گے ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ " ( سورۃ المعارج 70 آیت 4 )

ان آیات کا عمومی مطلب یہ ہے کہ اللہ کے وقت کا موازنہ زمینی وقت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثالیں زمین کے ایک ہزار سال اور پچاس ہزار سال سے دی گئی ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ کے نزدیک جو ایک دن ہے وہ زمین کے ہزاروں سال یا اس سے بھی بہت زیادہ عرصے کے برابر ہے۔

" یوم " کے معنی :

ان تینوں آیات میں عربی لفظ " یوم " استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب " ایک دن " کے علاوہ " طویل عرصہ " یا " ایک دور " بھی ہے، اگر آپ یوم کا ترجمہ عرصہ (Period) کریں تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔

سورۃ حج میں فرمایا گیا ہے:

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (٤٧)

" یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں، اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں ایک دن تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس کے برابر ہے۔ " ( سورۃ الحج 22 آیت 47)

جب کافروں نے یہ کہا کہ سزا میں دیر کیوں ہے اور اس کا مرحلہ جلد کیوں نہیں آتا تو قرآن میں ارشاد ہوا کہ اللہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام نہیں رہے گا، تمہاری نظر میں جو عرصہ ایک ہزار سال کو محیط ہے، وہ اللہ کے نزدیک ایک دن ہے۔

50 ہزار اور ایک ہزار سال کی حقیقت :

سورۃ سجدی کی مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تک تمام امور کو پہنچنے میں ہمارے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کا عرصہ لگتا ہے،

جبکہ سورۃ المعارج کی آیت: 4 کا مفہوم یہ ہے کہ فرشتوں اور رُوح القدس یا ارواح کو اللہ تعالی تک پہنچنے میں پچاس ہزار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

حاشیہ :

قرآن کے بیان کئے گئے وقت کا پیمانہ عام انسانوں کے لحاظ سے ہے، فرشتون خاص طور پر حضرت جبریل ( علیہ السلام ) اور ان کے ساتھ والے فرشتوں کے لیے یہ وقت ایک دن یا اس سے بھی کم ہے جبکہ انسانوں کو اتنا فاصلہ طے کرنے میں ایک ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

باقی رہا پچاس ہزار سال کا دن تو فرشتے خصوصاً جبریل ( علیہ السلام ) زمین سے سدرہ المنتہٰی تک کا فاصلہ ایک دن یا اس سے بھی کم مدت میں طے کر لیتے جبکہ عام انسانی پیمانے سے یہ فاصلہ پچاس ہزار سال میں طے کیا جاسکتا ہے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ زمین سے عرش تک جو امور پہنچائے جاتے ہیں وہ ایسے وقت میں پہنچتے ہیں کہ عام لوگوں کو اس میں پچاس ہزار سال لگ جائیں، مفسرین کے ایک قول کے مطابق قیامت کا دن کفار اور نافرمانوں پر ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال جتنا بھاری ہوگا۔ البتہ مومنوں کے لیے وہ ایک دن یا اس سے کم تکلیف کا باعث ہوگا -

جیسے حدیث میں ہے کہ وقت ظہر سے عصر تک کا ہوگا صرف اس قدر ہوگا جس قدر کوئی نماز میں وقت لگاتا ہے۔

( مسند أحمد: 3/75 و ابن حبان: 7334) تفصیل کے لیے دیکھیئے تفسیر فتح البیان، تفسیر الخازن اور تفسیر روح المعانی وغیرہ۔ )

ضروری نہیں کہ دو مختلف افعال کے انجام پانے کے لیے یکساں مدت درکار ہو، مثال کے طور پر مجھے ایک مقام تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے جبکہ دوسرے مقام تک سفر کے لیے 50 گھنٹے درکار ہیں تو اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ میں دو متضاد باتیں کررہا ہوں۔

یوں قرآن کی آیات نہ صرف ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ وہ مسلمہ جدید سائنسی حقائق سے بھی ہم آہنگ ہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 30


تخلیق انسان کس سے؟


تخلیق انسان کس سے؟


" ایک مقام پر قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو نطفے ( مادہ منویہ ) سے پیدا کیا گیا جبکہ ایک دوسرے مقام پر کہا گیا ہے کہ آدمی کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ کیا یہ دونوں آیات باہم متصادم نہیں؟ اپ سائنسی طور پر یہ کیسے ثابت کریں گے کہ آدمی کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے؟ "

قرآن کریم میں بنی نوع انسان کی حقیر ابتدا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسے مادہ منویہ کے ایک قطرے سے پیدا کیا گیا۔ یہ بات متعدد آیات میں کہی گئی جن میں سورۃ قیامہ کی حسب ذیل آیت بھی شامل ہے:

أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى (٣٧)

" کیا وہ ( ایک حقیر ) پانی کا نطفہ نہ تھا جو ( رحم مادر میں ) ٹپکایا جاتا ہے۔"

( سورۃ قیامہ 75 آیت 37)


قرآن کریم متعدد مقامات پر اس بات کا ذکر بھی کرتا ہے کہ بنی نوع انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ حسب ذیل آیت میں بنی نوع انسان کی تخلیق اور ابتداء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ (٥)

"لوگو! اگر تمہیں زندگی بعدِ موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو ( تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ) بے شک ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ "

(سورۃ الحج 22 آیت 5)


موجودہ دور میں ہمیں معلوم ہے کہ جسمِ انسانی کےک عناصر، جن سے مل کر انسانی جسم وجود میں آیا ہے، سب کے سب کم یا زیادہ مقدار میں مٹی میں شامل ہیں، سو یہ اس آیتِ قرآن کی سائنسی توجیہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ۔

قرآن کی بعض آیات میں اگر یہ فرمایا گیا ہے کہ آدمی نطفے سے پیدا کیا گیا جبکہ بعض اور آیات میں کہا گیا ہے کہ اسے مٹی سے پیدا کیا گیا، تو ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں۔ تضاد سے مراد تو ایسے بیانات ہیں، جو باہم مختلف ہوں یا متصادم ہوں اور بیک وقت صحیح نہ ہوں۔

پانی سے انسان کی تخلیق :

بعض مقامات پر قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کو پانی سے پیدا کیا گیا۔ مثال کے طور پر سورۃ الفرقان میں کہا گیا :

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا ف (٥٤)

" اور وہی ( اللہ ) ہے جس نے آدمی کو پانی سے پیدا کیا۔

( سورۃ الفرقان 25 آیت 54)


فرض کیجئے میں یہ کہتا ہوں کہ چائے کا کپ تیار کرنے کے لیے پانی درکار ہے لیکن اس کے لیے چائے کی پتی اور دودھ یا ملک پاؤڈر بھی درکار ہوتا ہے۔ یہ دونوں بیانات متضاد نہیں کیونکہ پانی اور چائے کی پتی دونوں ہی چائے کی پیالی تیار کرنے کے لیئے ضروری ہیں، مزید برآں اگر میں میٹھی چائے بنانا چاہوں تو اس میں چینی بھی ڈال سکتا ہوں، لہذا قرآن جب یہ کہتا ہے کہ انسان کو نطفے ، مٹی اور پانی سے تخلیق کیا گیا تو اس میں کوئی تضاد نہیں بلکہ تینوں میں امتیاز قائم کیا گیا ہے۔ چیزوں میں امتیاز (Contradistinction) کا مطلب ایک ہی موضوع کے ایسے دو تصورات کے بارے میں بات کرنا جو باہیم متصادم نہ ہوں، مثال کے طور پر اگر میں یہ کہوں کہ انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے اور عادتاً جھوٹا ہے تو یہ ایک متضاد بات ہوگی لیکن اگر میں یہ کہوں کہ انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے اور عادتاً جھوٹا ہے تو یہ ایک متضاد بات ہوگی لیکن اگر میں یہ کہوں کہ یہ آدمی دیانت دار ، مہربان اور محبت کرنے والا ہے تو یہ اس کی مختلف صفات میں امتیاز ظاہر کرنے والا ایک بیان ہوگا۔

جاری ہے -----
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 31


افلاک و ارض کی تخلیق چھ یا آٹھ روز میں؟



افلاک و ارض کی تخلیق چھ یا آٹھ روز میں؟

" قرآن کئی مقامات پر یہ بیان کرتا ہے کہ زمین و آسمان چھ دنوں میں پیدا کئے گئے، لیکن سورۃ فُصِلت ( حم السجدہ ) میں کہا گیا کہ زمین و آسمان 8 دنوں میں بنائے گئے، کیا یہ ایک تضاد نہیں؟ اسی آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی اور پھر اس کے بعد آسمان 2 دنوں میں پیدا کیئے گئے، یہ بات بِگ بینگ (Big Bang) یا عظیم دھماکے کے نظریئے کے منافی ہے جس کے مطابق زمین و آسمان بیک وقت پیدا ہوئے۔ "

مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ قرآن کے مطابق آسمان اور زمین 6 دنوں، یعنی چھ ادوار میں پیدا کئے گئے ۔ اس کا ذکر حسب ذیل سورتوں میں آیا ہے:

٭ سورۃ اعراف کی آیت 54

٭ سورۃ یونس کی آیت 3

٭ سورۃ ہود کی آیت 7

سورۃ فرقان کی آیت 59

٭ سورۃ سجدی کی آیت 4

٭ سورۃ ق کی آیت 38

٭ سورۃ حدید کی آیت 4


وہ آیاتِ قرآنی جو آپ کے خیال میں یہ کہتی ہیں کہ آسمان و زمین آٹھ دنوں میں پیدا کیے گئے ، وہ 41 ویں سورۃ فُصِلت ( حم السجدۃ ) کی آیاات: 9 تا 12 ہیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ۔ :

قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الأرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ (٩)وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ (١٠)ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلأرْضِ اِئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (١١)فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (١٢)

" ( اے نبی! ) ان سے کہیئے: کیا تم واقعی اس ذات سے انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کے شریک ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا؟ وہ تو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس نے اس ( زمین ) میں اس کے اوپر پہاڑ جما دیئے، اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس میں غذاؤں کا ( ٹھیک ) اندازہ رکھا۔ یہ ( کام ) چار دنوں میں ہوا، پوچھنے والوں کے لیے ٹھیک ( جواب ) ہے، پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا، اس نے اس (آسمان ) سے اور زمین سے کہا: وجود میں آجاؤ خواہ تم چاہو یا نہ چاہو، دونوں نے کہا: ہم آگئے، فرمانبردار ہوکر۔ تب اس نے دونوں کے اندر انہیں سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کاکام الہام کردیا۔ اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں ( ستاروں ) سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کردیا۔ یہ سب ایک بہت زبردست، خوب جاننے والے کی تدبیر ہے۔ "

( سورۃ فُصِلت ( حم السجدۃ ) 41 آیات 9 تا 12)
قرآن کریم کی ان آیات سے بظاہر یہ تاثر ملا ہے کہ آسمان اور زمین 8 دنوں میں پیدا کیے گئے۔

اللہ تعالی اس آیت کے شروع ہی میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو عبارت کے اس ٹکڑے میں موجود معلومات کو اس کی صداقت کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کے لیے غلط طور پر استعمال کرتے ہیں، درحقیقت وہ کفر پھیلانے میں دلچسپی رکھتے اور اس کی توحید کے منکر ہیں۔ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہی ہمیں بتا رہا ہے کہ بعض کفار ایسے بھی ہوں گے جو اس ظاہری تضاد کو غلط طور پر استعمال کریں گے۔

" ثُم " سے مراد " مزید برآں "

اگر آپ توجہ اور احتیاط کے ساتھ ان آیات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں زمین اور آسمان کی دو مختلف تخلیقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہاڑوں کو چھوڑ کر زمین دو دنوں میں پیدا کی گئی۔ اور 4 دنوں میں پہاڑوں کو زمین پر مضبوطی سے کھڑا کیا یگا اور زمین میں برکتیں رکھ دی گئیں اور نپے تلے انداز کے مطابق اس میں رزق مہیا کردیا گیا۔ لہذا آیات: 9 اور 10 کے مطابق پہاڑوں سمیت زمین 6 دنوں میں پیدا کی گئی، آیات: 11 اور 12 کہتی ہیں کہ مزید برآں دو دنوں میں آسمان پیدا کئے گئے ، گیارہویں آیت کے آغاز میں عربی کا لفظ " ثُم " استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب پھر یا مزید برآں ہے، قران کریم کے بعض تراجم میں " ثُم " کا مطلب پھر لکھا گیا ہے۔ اور اس سے بعد ازاں مراد لیا گیا ہے۔ اگر " ثُم " کا ترجمہ غلط طور پر " پھر " کیا جائے تو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے کل ایام آٹھ قرار پائیں گے اور یہ بات دوسری قرآنی آیات سے متصادمم ہوگی جو یہ بتاتی ہے کہ آسمان و زمین چھ دنوں میں پیدا کیئے گئے ، علاوہ ازیں اس صورت میں یہ آیت قرآن کیرم کی سورۃ الانبیاء کی 30 ویں آیات سے بھی متصادم ہوگی جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ زمین و آسمان بیک وقت پیدا کئے گئے تھے۔

لہذا اس آیت میں لفظ " ثم " کا صحیح ترجمہ " مزید برآں " یا " اس کے ساتھ ساتھ " ہوگا۔

علامہ عبداللہ یوسف علی نے صحیح طور پر " ثؐم " کا ترجمہ " مزید برآں (Moeover) " کیا ہے جس سے واضح طور پر ییہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب پہاڑوں وغیرہ سمیت چھ دنوں مین زمین پیدا کی گئی تو بیک وقت اس کے ساتھ ہی دو دنوں میں آسمانن بھی پیدا کیئے گئے تھے، چنانچہ کل ایام تخلیق آٹھ نہیں چھ ہیں۔

فرض کیجیئے ایک معمات کہتا ہے کہ وہ 10 منزلہ عمارت اور اس کے گرد چار دیواری 6 ماہ میں تعمیر کردے گا اور اس منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عمارت کا تہ خانہ 2 ماہ میں تعمیر کیا گیا اور دس منزلوں کی تعمیر نے 4 مہینے لیے اور جب بلڈنگ اور تہ خانہ بیک وقت تعمیر کیئے جاررہے تھے تو اس نے ان کے ساتھ ساتھ عمارت کی چار دیواری کی بھی تعمیر کردی جس میں دو ماہ لگے۔ اس میں پہلا اور دوسرا بیان باہم متصادم نہیں لیکن دوسرے بیان سے تعمیر کا تفصیلی حال معلوم ہوجاتا ہے۔

آسمان اور زمین کی بیک وقت تخلیق :

قرآن کریم میں کئی مقامات پر تخلیق کائنات کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض جگہ السمٰوات و الأرض (آسمان اور زمین ) کہا گیا ہے جبکہ بعض دوسرے مقامات پر الأرض و السمٰوات ( زمین اور آسمان ) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سلسلے میں سورۃ الانبیاء میں عظیم دھماکے (Big bang) کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آسمان اور زمین بیک وقت پیدا کیے گئے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلا يُؤْمِنُونَ (٣٠)

" کیا کافروں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین باہم ملے جلے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کردیا، اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کی، کیا پھر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے؟"

( سورۃ الانبیاء 21 آیت 30 )


هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (٢٩)

" وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔"

( سورۃ البقرہ 2 آیت 29)


یہاں بھی اگر آپ ( ثُم ) کا ترجمہ غلط طور پ " پھر " کریں گے تو یہ آیت قرآن کی بعض دوسری آیات اور بگ بینگ کے نظریئے سے متصادم ہوگی، لہذا لفظ " ثُم " کا صحیح ترجمہ " مزید برآں " " بیک وقت " یا " اس کے ساتھ ساتھ " ہے۔

جاری ہے ----
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 32


کیا مشرق و مغرب دو دو ہیں ؟؟


کیا مشرق و مغرب دو دو ہیں ؟؟


" قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ کہا گیا کہ اللہ دو مشرقوں اور مغربوں کا آقا و مالک ہے ۔ آپ کے نزدیک اس آیتِ قرآنی کی سائنسی تعبیر کیا ہے؟ "

قرآن کہتا ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے، قرآن کریم کی وہ آیت جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے :

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (١٧)

"( وہی ) مشرقین ( دو مشرق ) اور مغربین ( دو مغرب ) کا رب ہے۔ "

( سورۃ الرحمن 55 آیت 17)

عربی متن میں مشرق و مغرب کے الفاظ تثنیہ کی شکل میں استعمال کیئ گئے ہیں۔ ان سے مراد یہ ہے کہ اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے۔

مشرق و مغرب کی انتہا :

جغرافیے کی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور لیکن اس کے طلوع ہونے کا مقام سارا سال تبدیل ہوتا رہتاہے۔ سال میں دو دن، 21 مارچ اور 23 ستمبر ، جو اعتدال ربیعی و خریفی (Equinox) کے نام سے معروف ہیں، ایسے ہیں جب سورج عین مشرق سے طلوع ہوتا ہے، یعنی خط استوا پر سفر کرتا ہے، باقی تمام دنوں میں عین مشرق سے قدرے شامل یا قدرے جنوب کی طرف ہٹ کر طلوع ہوتا ہے۔ موسم گرما کے دوران میں 22 جون کو سورج مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے ( خط سرطان پرسفر کرتا ہے ) تو موسم سرما میں بھی ایک خاص دن، یعنی 22 دسمبر کو سورج مشرق کی دوسری انتہا سے نکلتا ہے۔ ( خط جدی پر سفر کرتا ہے )۔ اس طرح سورج موسم گرما میں ( 22 جون ) اور موسم سرما میں ( 22 دسمبر ) کو مغرب میں دو مختلف انتہاؤں پر غروب ہوتا ہے۔

حاشیہ:

زمین خط استوا کا عرض بلد صفر ہے جو زمین کو دو برابر نسٖ کروں میں تقسیم کرتا ہے۔ خط استوا کے شمال میں خط سرطان کا عرض بلد 23.5 درجے شمالی ہے اور خط استوا کے جنوب میں خط جدی کا عرض بلد 23.5 درجے جنوبی ہے، سورج بظاہر انہی دو عرض بلاد کے درمیان نظر آتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ زمین کی محوری گردش ( لٹو کی طرح مغرب سے مشرق کو گھومنے) کے دوران میں سال کے مختلف اوقات میں اس مختلف مقامات سورج کے براہ راست سامنے آتے ہیں۔ سال میں دو بار 21 مارچ اور 23 ستمبر کو سورج خط استوا پر عموداً جمکتا ہے ( بظاہر خط استوا پر سفر کرتا نظر آتا ہے ) جبکہ 22 جون کو سورج کی شعاعیں خط سرطان پر عموداً پڑتی ہیں اور 22 دسمبر کو سورج خط جدی پر عموداً چمکتا ہے ( محسن فارانی))۔ فطرت کا یہ مظاہرہ کسی بھی شہر میں رہنے والے لوگ بآسانی دیکھ سکتے ہیں یا کسی بلند و بالا عمارت سے سورج کے اس طلوع و غروب کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظارہ کرنے والے لوگ دیکھیں گے کہ سورج گرمیوں میں 22 جون کو مشرق کی ایک انتہا سے نکلتا ہے تو سردوں میں 22 دسمبر کو ایک دوسری انتہا سے ، مختصر یہ کہ سارا سال سورج مشرق کے مختلف مقامات سے نکلتا ہے اور مغرب کے مختلف مقامات پر غروب ہوتا رہتا ہے۔

لہذا جب قرآن اللہ کا ذکر دو مشرقوں اور دو مغربوں کے رب کے طور پر کرتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی مشرق و مغرب دوں کی دونوں انتہاؤں کا رب اور مالک ہے۔

تمام نقاطِ و مقامات کا مالک اللہ ہے :

اللہ تعالی مشرق و مٖغرب کے تمام نقاطِ و مقامات کا مالک ہے، عربی میں جمع کے صیغے کی دو اقسام ہیں۔ ایک جمع تثنیہ ہے، یعنی دو کی جمع اور دوسری قسم وہ ہے جس میں دو سے زیادہ کی جمع مراد ہوتی ہے۔ سورۃ رحمن کی 17 ویں آیت میں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال کیئے گئے ہیں جن کا صیغہ جمع تثنیہ ہے اور ان سے مراد دو مشرق اور مغرب ہیں۔ قرآن کریم کی حسب ذیل آیت دیکھیئے۔

فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ (٤٠)

" پس میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی "

(سورۃ المعارج 70 آیت 40)

اس میں مشرق اور مغرب کی جمع کے لیئے مشارق اور مغارب کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو کہ جمع کے صیغے ہیں اور دو سے زیادہ کی تعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قرآن کیرم میں اللہ تعالی کا ذکر مشرق اور مغرب کے تمام مقامات کا مالک ہونے کے علاوہ مشرق و مغرب کے دو انتہائی مقامات کے رب اور مالک کے طور پر بھی کیا گیا ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 33


کیا اسلام تشدد اور خونریزی کی دعوت دیتا ہے؟



کیا اسلام تشدد اور خونریزی کی دعوت دیتا ہے؟

" کیا اسلام تشدد، اور خونریزی کی اور بہیمت کو فروغ دیتا ہے۔ اس لیئے قرآن کہتا ہے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ جہاں کہیں کفار کو پائیں انہیں قتل کردیں؟"

قرآن کریم سے بعض مخصوص آیات کا ٖغلط طور پر اس لیے حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس غلط تصور کو قائم رکھا جاسکے کہ اسلام تشدد کی حمایت کرتا ہے اور اپنے پیروکاروں پر زور دیتا ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے باہر رہنے والوں کو قتل کردیں۔

آیت جس کا غلط حوالہ دیا جاتا ہے :

سورۃ توبہ کی مندرجہ ذیل آیت کا اسلام کے ناقدین اکثر حوالہ دیتے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ اسلام تشدد، خون ریزی اور وحشت کو فروغ دیتا ہے۔

فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ (٥)

" تم مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ، انہیں قتل کردو۔"

( سورۃ التوبہ 9 آیت 5)
آیت کا سیاق و سباق :

در حقیقت ناقدینِ اسلام اس ایت کا حوالہ سیاق و سباق سے ہٹ کردیتے ہیں۔ آیت کے سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اس سورت کا مطالعہ آیت نمبر 1 سے شروع کیا جائے۔ اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان جو معاہداتِ امن ہوئے تھے، ان سے براءت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس براءت ( معاہدات کی منسوخی ) سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود عملاً خلاف قانون ہوگیا کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا۔ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں یا پھر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نظم و ضبط میں دے دیں۔ مشرکین کو اپنا رویہ بدلنے کے لیے چار ماہ کا وقت دیا گیا۔ ارشاد الٰہی ہوا:

فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٥)

" پس جب حرمت ( دی گئی مہلت ) والے مہینے گزر جائیں تو تم مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ قتل کردو اور ان کر پکڑ لو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکواۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو،بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والاہے۔

( سورۃ التوبہ 9 ایت 5)

عہد نو کی ایک مثال :

ہم سب جانتے ہیں کہ ایک وقت تھا امریکہ ویت نام پر برسر پیکار تھا۔ فرض کیجیئے کہ صدر امریکہ یا امریکی جرنیل نے جنگ کے دوران میں امریکی سپاہیوں سے کہا: جہاں کہیں ویت نامیوں کو پاؤ انہں ہلاک کردو۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے اگر آج میں سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ کہوں کہ امریکی صدر یا جرنیل نے کہا تھا کہ جہاں کہیں ویت نامیوں کو پاؤ انہیں قتل کردو، تو یوں معلوم ہوگا کہ میں کسی قصائی کا ذکر کرررہا ہوں۔ لیکن اگر میں اس کی یہی بات صحیح سیاق و سباق میں بیان کروں تو یہ بالکل منطقی معلوم ہوگی کیونکہ وہ دراصل جنگ کے حالات میں اپنی سپاہ کا حوصلہ پڑھانے کے لیئے ایک ہنگامی حکم دے رہا تھا کہ دشمن کو جہاں کہیں پاؤ ختم کردو، حالت جنگ ہونے کے بعد یہ حکم ساقط ہوگیا۔

حالتِ جنگ کا حکم :

اسی طرح سورۃ توبہ کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہوا کہ " تم مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ انہیں قتل کردو۔ " یہ حکم جنگ کے حالات میں نازل ہوا اور اس کا مقصد مسلم سپاہ کا حوصلہ بڑھانا تھا، قرآن کریم درحقیقت مسلمان سپاہیوں کو تلقین کررہا ہے کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں اور جہاں کہیں دشمنوں سے سامنا ہو انہیں قتل کردیں۔

ارون شوری کی فریب کاری :

ارون شوری، بھارت میں اسلام کے شدید ناقدوں میں سے ہے۔ اس نے بھی اپنی کتاب " فتاوٰی کی دنیا " کے صفحہ 572 پر سورۃ توبہ کی آیت نمبر 5 کا حوالہ دیا ہے۔ آیت نمبر 5 کا حوالہ دینے کے بعد وہ دفعتاً ساتویں آیت پر آجاتا ہے، یہاں ہر معقول آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر آیت نمبر 6 سے گریز کیا ہے۔

قرآن سے جواب :

سورۃ توبہ کی آیت نمبر 6 اس الزام کا شافی جواب دیتی ہے کہ اسلام ( نعوذ باللہ ) تشدد، بہیمت اور خونریزی کو فروغ دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے:

وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَعْلَمُونَ (٦)

" ( اے نبی! ) اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیجیئے تاکہ وہ اللہ کا کلام سن سکے ، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دیجیئے، یہ ( رعایت ) اس لیئے ہے کہ بے شک وہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ "
( سورۃ التوبہ 9 آیت 6)

قرآن کریم نہ صرف یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی مشرک حالات جنگ میں پانہ طلب کرے تو اسے پناہ دی جائے بلکہ یہ حکم دیتا ہے کہ اسے محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے، ہوسکتا ہے کہ موجود بین الاقوامی منظر نامے میں ایک رحم دل اور امن پسند جرنیل جنگ کے دوران میں دشمن کے سپاہیوں کو امن طلب کرنے پر آزادانہ جانے دے لیکن کون ایسا فوجی جرنیل ہوگا جو اپنے سپاہیوں سے یہ کہ سکے کہ اگر دوران جنگ دشمن کے سپاہی امن کے طلب گار ہوں تو انہیں نہ صرف یہ کہ رہا کردو بلکہ محفوظ مقام پر پہنچا بھی دو؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 34


کیا قرآنی احکامِ وراثت میں ریاضی کی غلطی ہے؟


کیا قرآنی احکامِ وراثت میں ریاضی کی غلطی ہے؟

" ہندو دانسور ارون شوری نے دعوٰی کیا ہے کہ قرآن کریم میں ریاضی کی ایک غلطی پائی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سورۃ النساء کی آیات نمبر 11 اور 12 میں وارثوں کو دی جانے والی وراثت کے حصوں کو جمع کیا جائے تو کل عدد ایک سے زیادہ بن جاتا ہے۔ لہذا ( نعوذ باللہ ) قرآن کامصنف ریاضی نہیں جانتا۔"

وراثت کے مسائل قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیئے گئے ہیں :

٭ سورۃ البقرہ 2 آیت 180

٭ سورۃ البقرہ 2 آیت 240

٭ سورۃ النساء 4 آیت 7 تا 9

٭ سورۃ النساء 4 آیات 19 اور 33

٭ سورۃ المائدہ 5 آیات 105 اور 108


لیکن وراثت کے حصوں کے بارے میں سورۃ النساء کی آیات نمبر 11، 12 اور 176 میں واضح احکام ہیں۔

آیئے سورۃ النساء کی آیات نمبر 11 اور 12 کا جائزہ لیں جس کا حوالہ ارون شوری نے دیا ہے:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (١١)وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (١٢)

" تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے، پھر اگر ( دو یا ) دو سے زیادہ عورتیں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے، اور اگر ایک ہی بیٹی وارث ہوتو آدھا ترکہ اس کا ہے۔ اگر میت صاحب اولاد ہوتو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیئے اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے اور اگر میت کے ( ایک سے زیادہ ) بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصے کی حقدار ہوگی۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ دادا اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کیئے ہیں اور بے شک اللہ خوب جاننے والا ، بڑی حکمت والا ہے۔ اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو، اگر وہ بے اولاد ہوں تو اس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ان کےترکے کا چوتھا حصہ تمہارا ہے۔ ( یہ تقسیم ) ان کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ اور گر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہارے ترکے میں تمہاری بیویوں کا چوتھا حصہ ہے، پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکے میں ان کا آٹھواں حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) تمہاری وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ اور اگر وہ آدمی جس کا ورثہ تقسیم کیا جارہا ہو۔ اس کا بیٹا نہ ہو باپ، یا ایسی عورت ہو اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے ، پھر اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو وہ سب ایک تہائی حصے میں ( برابر ) شریک ہوں گے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی ( جبکہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے تاکید ہے۔ اور اللہ خوب جاننے والا، بڑے حوصلے والا ہے۔ "

( سورۃ النساء 4 آیات 11 اور 12 )

اسلام کا قانون وراثت :

اسلام نے قانونِ وراثت کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قرآن میں ایک جامو اور بنیادی خاکہ دیا گیا ہے۔ جبکہ اس کی تفصیل اور جزئیات نبی کریم (ﷺ) کی احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ قانون اتنا جامع اور مفصل ہے کہ اگر کوئی شخص حصہ داروں کی مختلف ترتیب و ترکیب کے ساتھ اس پر عبور حاصل کرنا چاہے تو اسے اس کے لیے ساری عمر وقت کرنی پڑے گی۔ ادھر ارون شوری ہے جو قرآن کی دو آیات کے سرسری اور سطحی مطالعے سے اور شرعی معیارات سے واقفیت حاصل کیے بغیر ہی اس قانون کو جاننے کی توقع رکھتا ہے۔

اس کی حالت اس شخص جیس یہے جو الجبرے کی ایک مساوات حل کرنے کا خواہاں ہے، حالانہ وہ ریاضی کے بنیادی قواعد (Bodmas) بھی نہیں جانتا جن کے مطابق قطع نظر اس بات سے کہ ریاضی کی کون سی علامت پہلے آئی ہے، پہلے آپ کو Bodmas حل کرنا ہوگا، یعنی پہلے بریکٹیں حل کرنی ہوں گی۔ دوسرے مرحلے پر تقسیم کا عمل کرنا ہوگا، تیسرے پر ضرب کا عمل، چوتھے پر جمع کا عمل اور پانچویں مرحلے پر تفریق کا عمل انجام دینا ہوگا۔ اگر ارون شوری ریاضی سے نابلد ہے اور وہ مساوات کے حل کا عمل ضرف سے شروع کرتا ہے۔ پھر تفریق کا عمل کرتا ہے اس کے بعد بریکٹوں کو دور کرنے کا عمل انجام دیتا ہے، پھر تقسیم کی طرف آتا ہے اور آخر میں جمع کا عمل بروئے کار لاتا ہے تو یقیناً اس کا جواب غلط ہی ہوگا۔

اسی طرح جب قرآن مجید سورۃ النساء کی آیات 11 اور 12 میں قانون وراثت بیان کرتا ہے تو اگرچہ سب سے پہلے اولاد کے حصے کا ذکی گیا ہے اور اس کے بعد والدین اور میں یا بیوی کے حصے بیان ہوئے ہیں لیکن اسلامی قانون وراثت کے مطابق سب سے پہلے قرض اور واجبات ادا کیے جاتے ہیں اس کے بعد والدین اور میاں یا بیوی کا حصہ ادا کیا جاتا ہے جو اس امر پر منحصر ہے کہ مرنے والے نے اپنے پیچھے بچے بھی چھوڑے ہیں یا نہیں، اس کے بعد بچنے والی جائداد بیٹوں اور بیٹیوں میں مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے۔ لہذا کل حصص کے مجموعے کا ایک سے بڑھ جانے کا سوال کہاں پیدا ہوا؟

حاشیہ :

قانون وراثت کے عام مسائل تو سیدھے ہیں ان میں جتنے حصص ہوں وہ مخرج کے حساب سے ورثاء پر تقسیم ہوجاتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ورثآء کے حصص مخرج سے بڑھ جاتے ہیں۔ اس میں مناسب عدد کا اضافہ کرکے مخرف کو حصص کے برابر کرلیا جاتا ہے۔ اصطلاح میںاسے " عَول " کہتے ہیں۔ اس سے یہ فرق پڑتا ہے کہ ورثاء کا حصہ کچھ کم ہوجاتا ہے۔ عول کا سب سے پہلے فتوٰی حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے دیا۔ اکثر صحابہ کرام ( رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ) نے اسے قبول کیا سوائے چند ایک کے۔

ان میں حضرت عبداللہ بن عباس ( رضی اللہ تعالی عنہ) بھی ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے:

مرنے والی خاتون اپنے پیچھے، خاوند اور دو سگی بہنیں وارث کے طور پر چھوڑ جاتیہے۔ خاوند کا حصہ نصف ½ ہے اور دو سگی بہنوں کا حصہ دو تہائی 2/3 ہے ۔ یہاں اصل مسئلہ ( ذو اضعاف اقل ) 6 ماہ۔ خاوند کو نصف ( تین حصے ) ملے گا اور بہنوں کے لیے 2 تہائی ( چار حصے ) ہے۔ اب اس مسئلے میں " عول " آگی، یعنی مخرج تنگ ہوگیا جس کی بنا پر حصص بڑھا دیئے، پہلے 6 تھے اب 7 ہوگئے۔ اس طرح چند صورتیں اور بھی ہیں جن میں عَول آتا ہے۔ اور یہ عَول کا آنا ریاضی کے قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ یہ ایک تقدیری مسئلہ ہے۔ کہ مؤرث کی کے وقت کون سا وارث زندی ہے۔ ان میں سے جو زیادہ حق دار ہے اسی کو وراثت میں حصہ ملے گا۔ بوض دفعہ مخج کے مطابق نکالے ہوئے حصص بچ جاتے ہیں وہ اصحاب الروض میں سوائے زوجین کے ، تقسیم کردیئے جاتے ہیں۔

(تفصیل کے لیے دیکھیئے تفہیم الواریث از استاد فاروق اصغر صارم )۔

سو یہ اللہ نہیں جو ریاضی نہیں جانتا بلکہ خود ارون شوری ریاضی کے علم سے بے بہر اور ناواقف ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 35


کفار کے دلون پر مہر لگنے کے بعد وہ قصور وار کیوں؟



کفار کے دلون پر مہر لگنے کے بعد وہ قصور وار کیوں؟

" اگر اللہ نے کافروں، یعنی غیر مسلموں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے تو پھر انہیں اسلام قبول نہ کرنے کا قصور وار کیسے ٹہرایا جاسکتا ہے؟

اللہ تعالی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 6 اور 7 میں فرماتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ (٦)خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (٧)

" بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے یکساں ہے، خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کیرں، بہرحال وہ ایمان لانے والے نہیں، اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ "

(سورۃ البقرہ 2 آیات 6 ا تا 7)

یہ آیات عام کفار کی طرف اشارہ نہیں کرتیں جو ایمان نہیں لائے۔ قرآن کریم میں ان کے لیئے (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی وہ لوگ جو حق کو رد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نبئ کریم (ﷺ) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا۔ کہ

" تم خبردار کرو یا نہ کرو، یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ عالی نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں نہ ایمان لاتے ہیں، بلکہ معاملہ برعکس ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کفار بہرصورت حق کو مسترد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور آپ انہیں تنبیہ کریں یا نہ کریں، وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ لہذا اس کا ذمہ دار اللہ نہیں بلکہ کفار خود ہیں۔

حاشیہ:

اللہ تعالٰی کی طرف گمراہ کرنے یا دلوں پر مہر لگانے کی نسبت اس لیے درست نہیں کہ اللہ تعالی نے انبیاء و رسل بھیج کر اور آسمانوں سے کتابیں نازل فرما کر انسانوں کے لیے راہِ حق واضح کردی۔ اب جنہوں نے حق قبول کیا وہ ہدایت یافتہ اور کامیاب ٹھہرے اور جنہوں نے حق سے منہ موڑا اور انبیاء و رسل کو ستایا، اللہ نے انہیں گمراہی میں پڑا رہنے دیا اور حق کی توفیق نہ دی۔

ایک مثال سے وضاحت :

فرض کیجیئے ایک تجربہ کار استاد آخری ( فائنل ) امتحانات سے قبل یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ فلاں طالب علم امتحان میں فیل ہوجائے گا، اس لیے کہ وہ بہت شریر ہے، سبق پر توجہ نہیں دیتا اور اپنے ہوم ورک بھی کرکے نہیں لاتا۔ اب اگر وہ امتحان میں ناکام رہتا ہے تو اس کا قصور وار کسے ٹھہرایا جائےگا۔ استاد کو یا طالب علم کو؟ استاد کو صرف اس وجہ سے کہ استاد نے پیشگوئی کردی تھی۔ اس لیے اسے طالب علم کی ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح اللہ تعالی کو یہ بھی پیشگی علم ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے حق کو ٹھکرانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔

لہذا وہ غیر مسلم خود ایمان اور اللہ سے منہ موڑنے کے ذمہ دار ہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 36


فہم و ادراک کا مرکز دل یا دماغ ؟



فہم و ادراک کا مرکز دل یا دماغ ؟

" قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اللہ نے کافروں کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ دوسری طرف سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ فہم و ادراک اور ایمان لانا دماغ کا کام ہے۔ دل کا نہیں، تو کیا قرآن کا دعوٰی سائنس کے متضاد ہے؟ "

قرآن مجید ارشاد ہوا:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ (٦)خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (٧)

" بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے لیے یکساں ہے خواہ آپ نہیں خبردار کریں یا نہ کریں، بہرحال وہ ایمان لانے والے نہیں، اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔" (حاشیہ: )

قلب کا مفہوم :

عربی زبان میں لفظ " قلب " کے معنی دل کے بھی ہیں اور ذہانت کے بھی، ان آیات میں جو لفظ قلب استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد دل بھی ہے اور ذہانت بھی، لہذا مذکورہ بالا آیات کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے کفار کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر مہر لگا دی ہے۔ اور وہ نہ تو بات کو سمجھ پائیں گے اور نہ ایمان لائیں گے۔

فہم و ادراک کا مرکز :

عربی زبان میں " قلب " سے فہم و ادراک کا مرکز بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اور یہ فہم و ادراک کے مفہوم میں استعمال کیئے جاتے ہیں۔ ان کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

٭ "Lunatic" : قمر یا چاند کا مارا ہوا:

لفظ Lunatic کا لغوی مطلب ہے چاند کا مارا ہوا یا چاند کی زد میں ایا ہوا۔ موجود دور میں لوگ خوب جانتے ہیں کہ کوئی پاگل یا ذہنی خلل میں مبتلا آدمی چاند کا ڈسا ہوا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود میڈیکل ڈاکٹر بھی یہی لفظ استعمال کرتا ہے۔ یہ زبان کے عمومی ارتقاء کی ایک مثال ہے۔ ویسے " لینیٹک " بمعنی " دیوانہ " کی اصطلاح اس باطل تصور کے تحت گھڑی گئی چاند میں ہونے والی تبدیلیوں کا شدید اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ شعراء چاندنی سے عشق و دیوانگی کی کیفیت پیدا ہونے کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔

٭ Disaster: ایک منحوس ستارہ:

لفظDisaster کا معنی و مطلب منحوس ستارہ ہے لیکن آج کل یہ لفظ اچانک نازل ہونے والی بدقسمی یا آفت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ بدقسمتی کا کسی منحوس ستارے سے کوئی تعلق نہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں۔

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا!
جو خود فراخئ افلاک میں ہے خواروزبوں

٭ Trivial: تین سڑکوں کا سنگم:

لفظ Trivial کا لغوی مطلب وہ مقام ہے جہاں تین سڑکیں ملتی ہوں۔ آج کل یہ لفظ کسی معمولی نوعیت کی یا بہت معمولی اہمیت کی حامل چیز کے لیئے بولا جاتا ہے۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ اگر کوئی چیز معمولی قدر و قیمت رکھتی ہو تو اسے تین سڑکوں کے سنگم سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

طلوع آفتاب (Surise) اور غروب آفتاب (Sunset):

سن رائز (Sunrise) کا لٖغوی مطلبہے سورج کا چڑھنا، آج جب لفظ Sunrise یا طلوع آفتاب کہا جاتا ہے تو لوگ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوتے کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ سورج کہیں چڑھ نہیں رہا ہوتا۔ اس کے باوجود ماہرین فلکیات بھی لفظ Sunrise ہی استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ " غروب آفتاب یا Sunset کے وقت سورج کہیں غروب نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اصطلاح یہی استعمال ہوتی ہے۔

محبت اور جذبات کا مرکز :

انگریزی زبان میں محبت اور جذبات کا مرکز دل ہی کو کہا جاتا ہے اور دل سے مراد وہ عضوِ بدن ہے جو خون کو پمپ کرتا ہے۔ یہی لفظ دل کے خیالات ، محبت اور جذبات کے منبع اور مرکز کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ آج ہمیں معلوم ہے کہ خیالات، محبت اور جذبات کا مرکز دماغ ہے، اس کے باوجود جب کوئی شخص جذبات کا اظہار کرتا ہے تو اکثر یہی کہتا ہے : " میں تم سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتا ہوں۔ تصور کیجیئے! ایک سائنسدان جب اپنی اہلیہ سے ان الفاظ میں اظہار محبت کرتا ہے تو کیا وہ یہ کہے گی کہ تمہیں سائنس کی اس بنیادی حقیقت کا علم بھی نہیں کہ جذبات کا مرکز دماغ ہے، دل نہیں؟ کیا وہ اسے یہ مشورہ دے گی کہ تمہیں کہنا چاہیئے کہ میں تم سے اپنے دماغ کی گہرائیوں سے محبت کرتا ہوں؟ لیکن وہ ایسا نہیں کہتی بلکہ خاوند کے دل کی گہرائیوں سے محبت کے دعوے کو تسلیم کرتی ہے۔ لفظ قلب ، مرکز خیالات اور ادراک کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔

کوئی عرب کبھی یہ سوال نہیں پوچھے گا کہ اللہ نے کافروں کے دلوں پر کیوں مہر لگائی ہے کیونکہ اسے بخوبی علم ہے کہ اس سیاق و سباق میں اس سے مراد انسان کا مرکز خیالات و جذبات ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 37


جنت میں مردوں کو حوریں ملیں گی تو عورتوں کے لیے کیا ؟



جنت میں مردوں کو حوریں ملیں گی تو عورتوں کے لیے کیا ؟

" قرآن کریم کے مطابق کوئی شخص جنت میں داخل ہوگا تو سے حور، یعنی خوبصورت دو شیزہ دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی عورت جنت میں جائے گی تو اسے کیا دیا جائے گا ؟"

لفظ حور قرآن کریم میں کم از کم چار مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے۔

كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ (٥٤)

" یوں ہی ہوگا اور اہم ان کا نکاح کردیں گے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے۔"

( سورۃ الدخان 44 آیت 54)


مَصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ (٢٠)

" اور ہم ان کا نکاح بڑی بڑی اور روشن آنکھوں والی حوروں سے کردیں گے۔"

( سورۃ الطور 52 آیت 20)

حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ (٧٢)

" خیموں میں ٹہرائی گئی حوریں "

( سورۃ الرحمن 55 آیت 72)

وَحُورٌ عِينٌ (٢٢)كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ (٢٣)

" اور ان کے لیے خوبصور آنکھوں والی حوریں ہوں گی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔ "

( سورۃ الواقعہ 56 آیات 22 تا 23)

حور کا مطلب :

قرآن کریم کے بہت سے مترجمین نے لفظ حور کا ترجمہ خصوصاً اردو تراجم میں خوبصورت دوشیزائیں یا لڑکیاں کیا ہے۔ اس صورت میں وہ صرف مردوں کے لیے ہوں گی۔ تب جنت میں جانے والی عورتوں کے لیے کیا ہوگا ؟

لفظ " حُور " فی الواقع اَحوَر ( مردوں کے لیے قابل اطلاق ) اور حَورَاء ( عورتوں کے لیے قابل اطلاق ) دونوں کا صیغہ جمع ہے اور یہ ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی آنکھیں حَوَر سے متصف ہوں، جو جنت میں جانے والے مردوں اور خواتین کی صالح ارواح کو بخشی جانے والی خصوصی صفت ہے اور یہ روحانی آنکھ کے سفید حصے کی انتہائی اجلی رنگت کو ظاہر کرتی ہے۔

دوسری کئی آیات میں قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ جنت میں تمہارے ازواج ، یونی جوڑے ہوں گے۔ اور تمہیں تمہارا جوڑا یا پاکیزہ ساتھی عطاء کیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (٢٥)

" اور ( اے پیغمبر! ) جو لوگ اس کتاب پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، انہیں خوشخبری دے دیں کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ جب بھی ان میں سے کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہم کو دنیا میں دیا جاتا تھا۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔"

( سورۃ البقرہ 2 آیت 25)

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلا ظَلِيلا (٥٧)

" اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیئے، ان کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور ان کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے۔ "

( سورۃ النساء 4 آیت 57)


لہذا لفظ ( حُور " کسی خاص جنس یا صنف کے لیئے مخصوص نہیں، علامہ محمد اسد نے لفظ حور کا ترجمہ خاوند یا بیوی (Spouse) کیا ہے جبکہ علامہ عبداللہ یوسف علی نے اسکا ترجمہ (Companion) کیا ہے۔ چنانچہ بعض علماء کے نزدیک جنت میں کسی مرد کو جو حور ملے گی وہ ایک بڑی بڑی چمکتی ہوئی آنکھوں والی خوبصورت دوشیزہ ہوگی جبکہ جنت میں داخل ہونے والی عورت کو جو ساتھی ملے گا وہ بھی بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ہوگا۔

عورتوں کے لیے خصوصی انعام :

بہت سے علماء کا خیال ہے کہ قرآن میں جو لفظ " حور " استعمال ہوا ہے اس سے مراد صرف خواتین ہیں کیونکہ اس کے بارے میں خطاب مردوں سے کیا گیا ہے۔ اس کا وہ جواب جو سب قسم کے لوگوں کے لیے لازماً قابل قبول ہو، حدیث مبارک میں دیا گیا ہے۔ جب نبئ کریم (ﷺ) سے ایسا ہی سوال کیا گیا کہ اگر مرد کو جنت میں ایک خوبصورت دوشیزہ یعنی حور دی جائے گی تو عورتوں کو کیا ملے گا؟ تو جواب میں ارشاد ہوا کہ عورتوں کو وہ چیز ملے گی جس کی ان کے دل نے کبھی خواہش نہ کی ہوگی نہ ان کے کانوں نے کبھی اسکا ذکر سنا ہوگا اور نہ ان کی آنکھوں نے کبھی اسے دیکھا ہوگا، گویا عورتوں کو جنت میں کوئی خاص شے عطاء کی جائے گی۔ (حاشیہ: یہ سوال جنت میں مَردوں کو حوریں ملیں گی تو عورتوں کو کیا ملے گا؟ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے حدیث پیش کی وہ اس سیاق و سباق سے ہمیں اصل مرجع سے نہیں مل سکے۔ صحیح بخاری میں حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

قال اللہ تبارک و تعالی: اعددت لعبادی الصالحین ما لا عین رات، ولا ازن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔

" اللہ تعالی فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کررکھا ہے جسے ان کی آنکھوں نے دیکھا نہ ان کے کانوں نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گذرا۔

(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث 4779)

حدیث کے الفاظ عِباَد میں مراد مرد اور عورت دونوں شامل ہیں البتہ اس سلسلے میں شیخ ناصر الدین الالبانی ( رحمۃ اللہ علیہ ) نے سلسلہ صحیحہ میں ایک حدیث نقل کی ہے۔ :

المراۃ لاخر ازواجھا"

( جنت میں عورت ( دنیا کے لحاظ سے ) آخر خاوند کے ساتھ ہوگی۔"

( الصحیحۃ، حدیث: 1281)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں شادی شدہ عورت جنت میں بھی اپنے خاوند ہی کے ساتھ ہوگی، البتہ جن کی شادی نہ ہوئی یا جن کے خاوند کافر رہے، ان کو جنت میں مردوں کے ساتھ بیاہ دیا جائے گا۔

( دیکھیئے: تفسیر روح المعانی: 14 / 207))
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سوال نمبر - 38


ابلیس: فرشتہ یا جن ؟


ابلیس: فرشتہ یا جن ؟

" قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آدم و ابلیس کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔

سورۃ بقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا إِلا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (٣٤)

" ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، سو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔"

( سورۃ البقرہ 2 آیت 34)

اس بات کا تذکرہ حسب ذیل آیات میں بھی کیا گیا ہے:

٭ سورۃ اعراف کی آیت: 11

٭ سورۃ حجر کی آیات: 28-31

٭ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت: 61

٭ سورۃ طہ کی آیت: 116

٭ سورۃ ص کی آیت: 71-74


لیکن 18 ویں سورۃ الکہف کی آیت 50 کہتی ہے :

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا إِلا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (٥٠)

" اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ، وہ جنوں میں سے تھا، پس اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔"

( سورۃ الکہف 18 آیت 50)

تغلیب کا کلیہ :

سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیت کے پہلے حصے سے ہمیں یہ تاثر ملتا ہے کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا، قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا۔ عربی گرامر میں ایک کلیہ تغلیب کے نام سے معروف ہے جس کے مطابق اگر اکثریت سے خطاب کیا جرہا ہو تو اقلیت بھی خود بخود اس میں شامل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر میں 100 طالب علموں پر مشتمل ایک ایسی کلاس سے خطاب کررہا ہوں جس میں لڑکوں کی تعداد 99 ہے اور لڑکی صرف ایک ہے ، اور میں عربی زبان میں یہ کہتا ہوں کہ سب لڑکے کھڑے ہوجائیں تو اس کا اطلاق لڑکی پر بھی ہوگا۔ مجھے الگ طور پراس سے مخاطب ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اسی طرح قرآن مجید کے مطابق جب اللہ تعالی نے فرشتوں سے خطاب کیا تو ابلیس بھی وہاں موجود تھا، تاہم اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کا ذکر الگ سے کیا جاتا، لہذا سورۃ بقرہ اور دیگر سورتوں کی عبارت کے مطابق ابلیس فرشتہ ہو یا نہ ہو لیکن 18 ویں سورۃ الکہف کی 50 ویں آیت کے مطابق ابلیس ایک جن تھا۔ قرآن کریم میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا، سو قرآن کریم میں اس حوالے سے کوئی تضاد نہیں۔

ارادہ و اختیار جنوں کو ملا ، فرشتوں کو نہیں :

اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ جنوں کو ارادہ و اختیار گیا دیا ہے اور وہ چاہیں و اطاعت سے انکار بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن فرشتوں کو ارادہ و اختیار نہیں دیا گیا۔ اور وہ ہمیشہ اللہ کی اطاعت بجا لاتے ہیں، لہذا اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی فرشتہ اللہ کی نافرمای بھی کرسکتا ہے۔

اس حقیقت سے اس بات کی مزید تائید ہوتی ہے کہ ابلیس ایک جن تھا، فرشتہ نہیں تھا۔
 
Last edited:
Top