• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کی تائید کرتی ہوئی قدیم انجیل برآمد

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
برناباس کی انجیل

حقیقت یہ ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے بارے میں حضرت عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کو نہیں ، خود حضرت عیسیٰ کے اپنے صحیح حالات اور آپ کی اصل تعلیمات کا جاننے کا بھی معتبر ذریعہ وہ چار انجیلیں نہیں ہیں جن کو مسیحی کلیسا نے معتبر و مسلم انا جیل(Canonical Gospels) قرار دے رکھا ہے ، بلکہ اس کا زیادہ قابل اعتماد ذریعہ وہ انجیل برنا باس ہے جسے کلیسا غیر قانونی اور مشکوک الصحت (Apocryphal) کہتا ہے ۔ عیسائیوں نے اسے چھپانے کا بڑا اہتمام کیا ہے ۔ صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ہے ۔ سولہویں صدی میں اس کے اطالوی ترجمے کا صرف ایک نسخہ پوپ سکسٹس (Sixtus) کے کتب خانے میں پایا جاتا تھا اور کسی کو اس کے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں وہ ایک شخص جان ٹولینڈ کے ہاتھ لگا۔ پھر مختلف ہاتھوں میں گشت کرتا ہوا 1738ء میں ویانا کی امپریل لائبریری میں پہنچ گیا۔ 1907ء میں اسی نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کے کلیرنڈن پریس سے شائع ہو گیا تھا مگر غالباً اس کی اشاعت کے بعد فوراً ہی عیسائی دنیا میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ یہ کتاب تو اس مذہب کی جڑ ہی کاٹے دے رہی ہے جسے حضرت عیسیٰ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کے مطبوعہ نسخے کسی خاص تدبیر سے غائب کر دیے گئے اور پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی۔ دوسرا ایک نسخہ اسی اطالوی ترجمہ سے اسپینی زبان میں منتقل کیا ہو اٹھارویں صدی میں پایا جاتا تھا، جس کا ذکر جارج سیل نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں کیا ہے ۔ مگر وہ بھی کہیں غائب کر دیا گیا اور آج اس کا بھی کہیں پتہ نشان نہیں ملتا۔ مجھے آکسفورڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمے کی ایک فوٹو اسٹیٹ کاپی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اسے لفظ بہ لفظ ہے ۔ میرا احساس یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے عیسائیوں نے محض تعصب اور ضد کی بنا پر اپنے آپ کو محروم کر رکھا ہے ۔
مسیحی لٹریچر میں انجیل کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے ، اسے یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ایک جعلی انجیل ہے جسے شاید کسی مسلمان نے تصنیف کر کے برنا باس کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے ، جو صرف اس بنا پر بول دیا گیا کہ اس میں جگہ جگہ بہ صراحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مے متعلق پیشین گوئیاں ملتی ہیں ۔ اول تو اس انجیل کو پڑھنے ہی سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کتا ب کسی مسلمان کی تصنیف کر دہ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے ، اگر یہ کسی مسلمان نے لکھی ہوتی تو مسلمانوں میں یہ کثرت سے پھیلی ہوئی ہوتی اور علمائے اسلام کی تصنیفات میں بہ کثرت اس کا ذکر پایا جاتا۔ مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ جارج سیل کے انگریزی مقدمہ قرآن سے پہلے مسلمانوں کو سرے سے اس کے وجود تک کا علم نہ تھا۔ گَبری، یعقوبی، مسعودی، البیرونی، ابن حذم اور دوسرے مصنفین، جو مسلمانوں میں مسیحی لٹریچر وسیع اطلاع رکھنے والے تھے ، ان میں سے کسی کے ہاں بھی مسیحی مذہب پر بحث کرتے ہوئے انجیل برناباس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔ دنیائے اسلام کے کتب خانوں میں جو کتابیں پائی جاتی تھیں ان کی بہترین فہرستیں ابن ندیم کی الفہرست اور حاجی خلیفہ کی کشف الظنون ہیں ، اور وہ بھی اس کے ذکر سے خالی ہیں ۔ انیسویں صدی سے پہلے کسی مسلمان عالم نے انجیل برناباس کا نام تک نہیں لیا ہے ۔ تیسری اور سب سے بڑی دلیل اس بات کے جھوٹ ہونے کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے بھی 75 سال پہلے پوپ گلاسیس اول (Gelasius) کے زمانے میں بد عقیدہ اور گمراہ کن (Heretical) کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعہ سے جن کا پڑھنا ممنوع کر دیا گیا تھا، ان میں انجیل برناباس (Evangelium Barnabe) بھی شامل تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسا مسلمان تھا جس نے یہ جعلی انجیل تیار کی تھی ؟ یہ بات تو خود عیسائی علماء نے تسلیم کی ہے کہ شام، اسپین، مصر وغیرہ ممالک کے ابتدائی مسیحی کلیسا میں ایک مدت تک برنا باس کی انجیل رائج رہی ہے اور چھٹی صدی میں اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔
10۔ قبل اس کے کہ اس انجیل سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارتیں نقل کی جائیں ، اس کا مختصر تعارف کر ا دینا ضروری ہے ، تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہو جائے اور یہ بھی سمجھ میں آ جائے کہ عیسائی حضرات اس سے اتنے ناراض کیوں ہیں ۔
بائیبل میں جو چار انجیلیں قانونی اور معتبر قرار دے کر شامل کی گئی ہیں ، ان میں سے کسی کا لکھنے والا بھی حضرت عیسیٰ کا صحابی نہ تھا۔ اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا ہے کہ اس نے آنحضرتؐ کے صحابیوں سے حاصل کردہ معلومات اپنی انجیل میں درج کی ہیں ۔ جن ذرائع سے ان لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں ان کا کوئی حوالہ انہوں نے نہیں دیا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ راوی نے آیا خود وہ واقعات دیکھے اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال اس کتاب میں درج کر رہا ہوں ۔ یہی نہیں بلکہ کتاب کے آخر میں وہ کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت حضرت مسیح نے مجھ سے فرمایا تھا کہ مرے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پھیل گئی ہیں ان کو صاف کرنا اور صحیح حالات دنیا کے سامنے لانا تیری ذمہ داری ہے ۔
یہ برنا باس کون تھا ؟ بائیبل کی کتاب اعمال میں بڑی کثرت سے اس نام کے ایک شخص کا ذکر آتا ہے جو قبرص کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مسیحیت کی تبلیغ اور پیروانِ مسیح کی مدد و اعانت کے سلسلے میں اس کی خدمات کی بڑی تعریف کی گئی ہے ۔ مگر کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کب دین مسیح میں داخل ہوا، اور ابتدائی بارہ حواریوں کی جو فہرست تین انجیلوں میں دی گئی ہے اس میں بھی کہیں اس کا نام درج نہیں ہے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس انجیل کا مصنف وہی برنا باس ہے یا کوئی اور۔ متی، اور مرقس نے حواریوں (Apostles) کی جو فہرست دی ہے ، برناباس کی دی ہوئی فہرست اس سے صرف دو ناموں میں مختلف ہے ۔ ایک توما، جس کے بجائے برناباس خود اپنا نام دے رہا ہے ، دوسرا شمعون قنانی، جس کی جگہ وہ یہوواہ بن یعقوب کا نام لیتا ہے ۔ لوقا کی انجیل میں یہ دوسرا نام بھی موجود ہے ۔ اس لیے یہ قیاس کرنا صحیح ہو گا کہ بعد میں کسی وقت صرف برناباس کو حواریوں سے خارج کرنے کے لیے توما کا نام داخل کیا گیا ہے تاکہ اس کی انجیل سے پیچھا چھڑایا جا سکے ، اور اس طرح کے تغیرات اپنی مذہبی کتابوں میں کر لینا ان حضرات کے ہاں کوئی ناجائز کام نہیں رہا ہے ۔
اس انجیل کو اگر شخص تعصب کے بغیر کھلی آنکھوں سے پڑھے اور نئے عہد نامے کی چاروں انجیلوں سے اس مقابلہ کرے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ان چاروں سے بدر جہا برتر ہے ۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اس طرح بیان ہوئے ہیں جیسے کوئی شخص فی الواقع وہاں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور ان واقعات میں خود شریک تھا۔ چاروں انجیلوں کی بے ربط داستانوں کے مقابلہ میں یہ تاریخی بیان زیادہ مربوط بھی ہے اور اس سے سلسلہ واقعات بھی زیادہ چھی طرح سمجھ میں آتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات اس میں چاروں انجیلوں کی بہ نسبت زیادہ واضح اور مفصل اور مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہیں ۔ توحید کی تعلیم، شریک کی ترید، صفات باری تعالیٰ، عبادات کی روح، اور اخلاق فاضلہ کے مضامین اس میں بڑے ہی پر زور اور مدلل اور مفصل ہیں ۔ جن آموز تمثیلات کے پیرایہ میں مسیح نے یہ مضامین بیان کیے ہیں ان کا عشر عشیر بھی چاروں انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ اس سے یہ بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کس حکیمانہ طریقے سے فرماتے تھے ۔ حضرت عیسیٰ کی زبان، طرز بیان اور طبیعت و مزاج سے کوئی شخص اگر کچھ بھی آشنا ہو تو وہ اس انجیل کو پڑھ کر یہ ماننے پر مجبور ہو گا کہ یہ کوئی جعلی داستاں نہیں ہے جو بعد میں کسی نے گھڑ لی ہو، بلکہ اس میں حضرت مسیح اناجیل اربعہ کی بہ نسبت اپنی اصلی شان میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں ، اور اس میں ان تضادات کا نام و نشان بھی نہیں ہے جو اناجیل اربعہ میں ان کے مختلف اقوال کے درمیان پایا جاتا ہے ۔
اس انجیل میں حضرت عیسیٰ کی زندگی اور آپ کی تفصیلات ٹھیک ٹھیک ایک نبی کی زندگی اور تعلیمات کے مطابق نظر آتی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ تمام پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ صاف کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے سوا معرفت حق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے ، اور جو انبیاءکو چھوڑتا ہے وہ دراصل خدا کو چھوڑتا ہے ۔ توحید، رسالت اور آخرت کے ٹھیک وہی عقائد پیش کرتے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے ۔ نماز، روزے اور زکوٰۃ کی تلقین کرتے ہیں ۔ ان کی نمازوں کا جو ذکر بکثرت مقامات پر برنا باس نے کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا اور تہجد کے اوقات تھے جن میں وہ نماز پڑھتے تھے ، اور ہمیشہ نماز سے پہلے وضو فرماتے تھے ۔ انبیاء میں سے وہ حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ کو نبی قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ان کو انبیاء کی فہرست سے خارج کر رکھا ہے ۔ حضرت اسماعیل کو وہ ذبیح قرار دیتے ہیں اور ایک یہودی عالم سے اقرار کراتے ہیں یہ کہ فی الواقع ذبیح حضرت اسماعیل ہی تھے اور بنی اسرائیل نے زبر دستی کھینچ تان کر کے حضرت اسحاق کو ذبیح بنا رکھا ہے ۔ آخرت اور قیامت اور جنت، و دوزخ کے متعلق ان کی تعلیمات قریب قریب وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ۔
11۔ عیسائی جس وجہ سے انجیل برناباس کے مخلاف ہیں ، وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق جگہ جگہ صاف اور واضح بشارتیں ہیں ، کیونکہ وہ تو حضورؐ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے اس انجیل کو رد کر چکے تھے ۔ ان کی ناراضی کی اصل وجہ کو سمجھے کے لیے تھوڑی سی تفصیلی بحث درکار ہے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی پیرو آپ کو صرف نبی مانتے تھے ، موسوی شریعت کا اتباع کرتے تھے ، عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے بنی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے ، اور یہودیوں سے ان کا اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ یہ حضرت عیسیٰ کو مسیح تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ان کو مسیح ماننے سے انکار کرتے تھے ۔ بعد میں جب سینٹ پال اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں ، یونانیوں ، اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کر دی، اور اس غرض کے لیے ایک نیا دین بنا ڈالا جس کے عقائد اور اصول اور احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا تھا۔ اس شخص نے حضرت عیسیٰ کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کے زمانے میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروؤں کا دشمن بنا رہا۔ پھر جب اس جماعت میں داخل ہو کر اس نے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰ کے کسی قول کی سند نہیں پیش کی بلکہ اپنے کشف و الہام کو بنیاد بنایا۔ اس نئے دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی (Gentile) دنیا قبول کر لے ۔ اس نے اعلان کر دیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے ۔ اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی ساری قیود ختم کر دیں ۔ اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کر دیا جو غیر یہودی دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ اس نے مسیحؑ کی اُلوہیت اور ان کے ابن خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولاد آدمؑ کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا۔ مسیحؑ کے ابتدائی پیروؤں نے ان بدعات کی مزاحمت کی، مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا، اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہو گیا جس کے مقابلے میں ہو مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھیر سکے ۔ تاہم تیسری صدی عیسوی کے اختتام تک بکثرت لوگ ایسے موجود تھے جو مسیح کی اُلوہیت کے عقیدے سے انکار کرتے تھے ۔ مگر چوتھی صدی کے آغاز( 325ء) میں نیقیہ (Nicaea) کی کونسل نے پولوسی عقائد کو قطعی طور پر مسیحیت کا مسلم مذہب قرار دے دیا۔ پھر رومی سلطنت خود عیسائی ہو گئی اور قیصر تھیوڈو سِس کے زمانے میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا۔ اس کے بعد قدرتی بات تھی کہ وہ تمام کتابیں جو اس عقیدے کے خلاف ہوں ، مردود قرار دے دی جائیں اور صرف وہی کتابیں معتبر ٹھیرائی جائیں جو اس عقیدے سے مطابقت رکھتی ہوں ۔ 367 ء میں پہلی مرتبہ اتھانا سیوس(Athanasius) کے ایک خط کے ذریعہ معتبر و مسلم کتابوں کے ایک مجموعہ کا اعلان کیا گیا، پھر اس کی توثیق 382ء میں پوپ ڈیمیسس (Damasius) کے زیر صدارت ایک مجلس نے کی، اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ گلاسس (Gelasius) نے اس مجموعہ کو مسلم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں ایک فہرست مرتب کر دی جو غیر مسلم تھیں ۔ حالانکہ جن پولوسی عقائد کو بنیاد بنا کر مذہبی کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں ، خود ان میں بھی حضرت عیسیٰؑ کے اپنے کسی قول سے ان عقائد کا ثبوت نہیں ملتا۔
انجیل برناباس ان غیر مسلم کتابوں میں اس لیے شامل کی گئی کہ وہ مسیحیت کے اس سرداری عقیدے کے بالکل خلاف تھی۔ اس کا مصنف کتاب کے آغاز ہی میں اپنا مقصد تصنیف یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کی جائے جو شیطان کے دھوکے میں آ کر یسوع کو ابن اللہ قرار دیتے ہیں ، ختنہ کو غیر ضروری ٹھیراتے ہیں اور حرام کھانوں کو حلال کر دیتے ہیں ، جن میں سے ایک دھوکہ کھانے والا پولوس بھی ہے ‘‘۔ وہ بتاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰؑ دنیا میں موجود تھے اس زمانے میں ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے مشرک رومی سپاہیوں نے ان کو خدا اور بعض نے خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا، پھر یہ چھوت بنی اسرائیل کے عوام کو بھی لگ گئی۔ اس پر حضرت عیسیٰؑ سخت پریشان ہوۓ۔ انہوں نے بار بار نہایت شدت کے ساتھ اپنے متعلق اس غلط عقیدے کی تردید کی اور ان لوگوں پر لعنت بھیجی جو ان کے متعلق ایسی باتیں کہتے تھے ۔ پھر انہوں نے اپنے شا گردوں کو پورے یہودیہ میں اس عقیدے کی تردید کے لیے بھیجا اور ان کی دعا سے شاگردوں کے ہاتھوں بھی وہی معجزے صادر کرائے گئے جو خود حضرت عیسیٰؑ سے صادر ہوتے تھے ، تاکہ لوگ اس غلط خیال سے باز آ جائیں کہ جس شخص سے یہ معجزے صادر ہو رہے ہیں وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عیسیٰ کی مفصل تقریریں نقل کرتا ہے جن میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس غلط عقیدے کی تردید کی تھی، اور جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ آنجناب اس گمراہی کے پھیلنے پر کس قدر پریشان تھے ۔ مزید براں وہ اس پولوسی عقیدے کی بھی صاف صاف تردید کرتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان دی تھی۔ وہ اپنے چشم دید حالات یہ بیان کرتا ہے کہ جب یہوداہ اسکر یوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر حضرت عیسیٰؑ کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آنجنابؑ کو اٹھا لے گۓ، اور یہوداہ اسکریوتی کی شکل اور آواز بالکل وہی کر دی گئی جو حضرت عیسیٰؑ کی تھی۔ صلیب پر وہی چڑھایا گیا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰؑ۔ اس طرح یہ انجیل پولوسی مسیحیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور قرآن کے بیان کی پوری توثیق کرتی ہے ۔ حالانکہ نزول قرآن سے 115 سال پہلے اس کے ان بیانات ہی کی بنا پر مسیحی پادی اسے رد کر چکے تھے ۔
12۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انجیل برنا باس در حقیقت اناجیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے ، مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور سیرت اور اقوال کی صحیح ترجمانی کرتی ہے ، اور یہ عیسائیوں کی اپنی بد قسمتی ہے کہ اس انجیل کے ذریعہ سے اپنے عقائد کی تصحیح اور حضرت مسیحؑ کی اصل تعلیمات کو جاننے کا جو موقع ان کو ملا تھا اسے محض ضد کی بنا پر انہوں نے کھو دیا۔ اس کے بعد ہم پورے اطمینان کے ساتھ وہ بشارتیں نقل کر سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں برنا باس نے حضرت عیسیٰؑ سے روایت کی ہیں ۔ ان بشارتوں میں کہیں حضرت عیسیٰؑ حضورؐ کا نام لیتے ہیں ، کہیں ’’ رسول اللہ ‘‘ کہتے ہیں ، کہیں آپ کے لیے ’’ مسیح‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، کہیں ’’قابل تعریف‘‘(Admirable) کہتے ہیں ، اور کہیں صاف صاف ایسے فقرے ارشاد فرماتے ہیں جو بالکل لَٓااِلٰہٰ الَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّ سُوْلُ اللہ کے ہم معنی ہیں ۔ ہمارے لیے ان ساری بشارتوں کو نقل کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ اتنی زیادہ ہیں ، اور جگہ جگہ مختلف پیرایوں اور سیاق و سباق میں آئی ہیں کہ ان سے ایک اچھا خاصا رسالہ مرتب ہو سکتا ہے ۔ یہاں ہم محض بطور نمونہ ان میں سے چند کو نقل کرتے ہیں :
’’تمام انبیاء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا، جن کی تعداد ایک لاکھ 44 ہزار تھی، انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی۔ مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہو ئی باتوں ، کے اندھیرے پر روشنی ڈال دے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے ‘‘(باب 17)
’’ فریسیوں اور لاویوں نے کہا اگر تو نہ مسیح ہے ، نہ الیاس، نہ کوئی اور نبی، تو کیوں تو نئی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسیح سے بھی زیادہ بنا کر پیش کرتا ہے ؟ یسوع نے جواب دیا جو معجزے خدا میرے ہاتھ سے دکھا تا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے ، ورنہ در حقیقت میں اپنے آپ کو اس (مسیح) سے بڑا شمار کیے جانے کے قابل نہیں قرار دیتا جس کا تم ذکر کر رہے ہو۔ میں تو اس خدا کے رسول کے موزے کے بند یا اس کی جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں ہوں جس کو تم مسیح کہتے ہو، جو مجھ سے پہلے بنایا گیا تھا اور میرے بعد آئے گا اور صداقت کی باتیں آئے گا تاکہ اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو‘‘ (باب 42)۔
’’ بالیقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لیے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا کہیں اور نہیں پھیلیں جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے ۔ مگر خدا کا رسول جب آئے گا، خدا کو یا اس کو اپنے ہاتھ کی مہر دے دے گا، یہاں تک کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو جو اس کی تعلیم پائیں گی، جنات اور رحمت پہنچا دے گا۔ وہ بے خدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا اور بُت پرستی کا ایسا قلع قمع کرے گا کہ شیطان پریشان ہو جائے گا‘‘۔ اس کے آگے شاگردوں کے ساتھ ایک طویل مکالمہ میں حضرت عیسیٰ تصریح کرتے ہیں کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا (باب 43)۔
’’ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کا رسول وہ رونق ہے جس سے خدا کی پیدا کی ہوئی قریب قریب تمام چیزوں کو خوشی نصیب ہو گی کیونکہ وہ فہم اور نصیحت، حکمت اور طاقت، خشیت اور محبت، حزم اور درع کی روح سے آراستہ ہے ۔ وہ فیاضی اور رحمت، عدل اور تقویٰ، شرافت اور صبر کی روح سے مزین ہے جو اس نے خدا سے ان تمام چیزوں کی بہ نسبت تین گُنی پائی ہے جنہیں خدا نے اپنی مخلوق میں سے یہ روح بخشی ہے ۔ کیسا مارک وقت ہو گا جب وہ دنیا میں آئے گا۔ یقین جانو، میں نے اس کو دیکھا ہے اور اس کی تعظیم کی ہے جس طرح ہر نبی نے اس کو دیکھا تو میری روح سکینت سے بھر گئی یہ کہتے ہوئے کہ اے محمدؐ، خدا تمہارے ساتھ ہو، اور وہ مجھے تمہاری جوتی کے تسمے باندھنے کے قابل بنا دے ، کیونکہ یہ مرتبہ بھی پالوں تو میں ایک بڑا نبی اور خدا کی ایک مقدس ہستی ہو جاؤں گا‘‘۔ (باب 44)۔
’’ (میرے جانے سے ) تمہارا دل پریشان نہ ہو، نہ تم خوف کرو، کیونکہ میں نے تم کو پیدا نہیں کیا ہے ، بلکہ خدا ہمارا خالق، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہاری حفاظت کرے گا۔ رہا میں ، تو اس وقت میں دنیا میں اس رسول خدا کے لیے راستہ تیار کرنے آیا ہوں جو دنیا کے لیے نجات لے کر آئے گا ……… اندر یاس نے کہا، استاد ہمیں اس کی نشانی بتا دے تاکہ ہم اسے پہچان لیں ۔ یسوع نے جواب دیا، وہ تمہارے زمانے میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ سال بعد آئے گا جبکہ میری انجیل ایسی مسخ ہو چکی ہو گی مشکل سے کوئی 30 آدمی مومن باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت اللہ دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنے رسول کو بھیجے گا جس کے سرپر سفید بادل کا سایہ ہو گا جس سے وہ خدا کا بر گزیدہ جانا جائے گا اور اس کے ذریعہ سے خدا کی معرفت دنیا کو حاصل ہو گی۔ وہ بے خدا لوگوں کے خلاف بڑی طاقت کے ساتھ آئے گا اور زمین پر بت پرستی کو مٹا دے گا۔ اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ہمارا خدا پہچانا جائے گا اور اس کی تقدیس ہو گی اور میری صداقت دنیا کو معلوم ہو گی اور وہ ان لوگوں سے انتقام لے گا جو مجھے انسان سے بڑھ کر کچھ قرار دیں گے ……… وہ ایک ایسی صداقت کے ساتھ آئے گا جو تمام انبیاء کی لائی ہوئی صداقت سے زیادہ واضح ہو گی ‘‘(باب 72)۔
’’خدا کا عہد یروشلم میں ، معبد سلیمان کے اندر کیا گیا تھا نہ کہ کہیں اور۔ مگر میری بات کا یقین کرو کہ ایک وقت آئے گا جب خدا اپنی رحمت ایک اور شہر میں نازل فرمائے گا، پھر ہر جگہ اس کی صحیح عبادت ہو سکے گی، اور اللہ اپنی رحمت سے ہر جگہ سچی نماز کو قبول فرمائے گا ……… میں در اصل اسرائیل کے گھرانے کی طرف نجات کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مگر میرے بعد مسیح آئے گا، خدا کا بھیجا ہو، تمام دنیا کی طرف، جس کے لیے خدا نے یہ ساری دنیا بنائی ہے ۔ اس وقت ساری دنیا میں اللہ کی عبادت ہو گی، اور اس کی رحمت نازل ہو گی ‘‘(باب 83)۔
’’یسوع نے سردار کاہن سے کہا، زندہ خدا کی قسم جس کے حضور میری جان حاضر ہے ، میں ہو مسیح نہیں ہوں جس کی آمد کا تمام دنیا کی قومیں انتظار کر رہی ہیں ، جس کا وعدہ خدا نے ہمارے باپ ابراہیمؑ سے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی‘‘(پیدائش، 18:22)۔ مگر جب خدا مجھے دنیا سے لے جائے گا تو شیطان پھر یہ بغاوت بر پا کرے گا کہ نا پرہیز گار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں ۔ اس کی وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کر دیا جائے گا یہاں تک کہ بمشکل 30 صاحب ایمان باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھیجے گا جس کے لیے اس نے دنیا کی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں ، جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ برباد کر دے گا، جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پر حاصل کر لیا ہے ۔ وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کے لیے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے ، اور مبارک ہے وہ جو اس کی باتوں کو مانے ‘‘ (باب 96)۔
سردار کاہن نے پوچھا کہ وہ مسیح کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کو ظاہر کریں گی ؟ یسوع نے جواب دیا اس مسیح کا نام’’ قابل تعریف‘‘ ہے ، کیونکہ خدا نے جب اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا یہ نام خود رکھا تھا اور وہاں اسے ایک ملکوتی شان میں رکھا میں رکھا گیا تھا۔ خدا نے کہا’’ اے محمدؐ، انتظار کر، کیونکہ تیری ہی خاطر میں جنت، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا اور اس کو تجھے تحفہ کے طور پر دوں گا، یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی۔ جب میں تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو میں تجھ کو اپنے پیغامبر نجات کی حیثیت سے بھیجوں گا۔ تیری بات سچی ہو گی یہاں تک کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر تیرا دین نہیں ٹلے گا۔ سو اس کا مبارک نام محمدؐ ہے ‘‘۔(باب، 9)۔
برنا باس لکھتا ہے ایک موقع پر شاگردوں کے سانے حضرت عیسیٰ نے بتایا کہ میرے ہی شاگردوں میں سے ایک (جو بعد میں یہوواہ اسکر یوتی نکلا) مجھے 30 سکوں کے عوض دشمنوں کے ہاتھ بیچ دے گا، پھر فرمایا:
’’اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ جو مجھے بیچے گا وہی میرے نام سے مارا جائے گا، کیونکہ خدا مجھے زمین سے اوپر اٹھا لے گا اور اس غدار کی صورت ایسی بدل دے گا کہ ہو شخص یہ سمجھے گا کہ وہ میں ہی ہوں ۔ تاہم جب وہ ایک بڑی موت مرے گا تو ایک مدت تک میری ہی تذلیل ہوتی رہے گی۔ مگر جب محمدؐ، خدا کا مقدس رسول آئے گا تو میری وہ بدنامی دور کر دی جائے گی۔ اور خدا یہ اس لیے کرے گا کہ میں نے اس مسیح کی صداقت کا اقرار کیا ہے ۔ وہ مجھے اس کا یہ انعام دے گا کہ لوگ یہ جان لیں گے کہ میں زندہ ہوں اور اس ذلت کی موت سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے ’’(باب 113)۔
’’(شاگردوں سے حضرت عیسیٰ نے کہا)؛ بے شک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر موسیٰ کی کتاب سے صداقت مسخ نہ کر دی گئی ہوتی تو خدا ہمارے باپ داؤد کو ایک دوسری کتاب نہ دیتا۔ اور اگر داؤد کی کتاب میں تحریف نہ کی گئی ہوتی تو خدا مجھے انجیل نہ دیتا، کیونکہ خداوند ہمارا خدا بدلنے والا نہیں ہے اور اس نے سب انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے ۔ لہٰذا جب اللہ کا رسول آئے گا تو وہ اس لیے آئے گا کہ ان ساری چیزوں کو صاف کر دے جن سے بے خدا لوگوں نے میری کتاب کو آلودہ کر دیا ہے ‘‘ (باب 124)۔
ان صاف اور مفصل پیشین گوئیوں میں صرف تین چیزیں ایسی ہیں جو بادی النظر میں نگاہ کو کھٹکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ان میں ، اور انجیل برناباس کی متعدد دوسری عبارتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مسیح ہونے کا انکار کیا ہے ۔ دوسری یہ کہ صرف ان ہی عبارتوں میں نہیں بلکہ اس انجیل کے بہت سے مقامات پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اصل عربی نام ’’محمدؐ‘‘ لکھا گیا ہے ، حالانکہ یہ انبیاء کی پیشین گوئیوں کا یہ عام طریقہ نہیں ہے کہ بعد کی آنے والی کسی ہستی کا اصل نام لیا جاۓ۔ تیسری یہ کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مسیح کہا گیا ہے ۔
پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ صرف انجیل برناباس ہی میں نہیں بلکہ لُوقا کی انجیل میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ آپ کو مسیح کہیں ۔ لُوقا کے الفاظ یہ ہیں :’’ اس نے ان سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو ؟ پطرس نے جواب میں کہا خدا کا مسیح۔ اس نے ان کو تاکید کر کے حکم دیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا ‘‘ (20:9۔21)۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل جس مسیح کے منتظر تھے اس کے متعلق ان کا خیال یہ تھا کہ وہ تلوار کے زور سے دشمنان حق کو مغلوب کرے گا، اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ مسیح میں نہیں ہوں بلکہ وہ میرے بعد آنے والا ہے ۔
دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ برناباس کاجو اطالوی ترجمہ اس وقت دنیا میں موجود ہے اس کے اندر تو حضورؐ کا نام بے شک محمدؐ لکھا ہوا ہے ، مگر یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ کتاب کن کن زبانوں سے ترجمہ ہوتی ہوئی اطالوی زبان میں پہنچی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اصل انجیل برناباس سریانی زبان میں ہو گی، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی زبان تھی۔ اگر وہ اصل کتاب دستیاب ہوتی تو دیکھا جا سکتا تھا کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم گرامی کیا لکھا گیا تھا۔ اب جو کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اصل میں تو حضرت عیسیٰ نے لفظ مُنْحَمنَّا استعمال کیا ہو گا، جیسا کہ ہم ابن اسحاق کے دیے ہوئے انجیل یوحنا کے حوالہ سے بتا چکے ہیں ۔ پھر مختلف مترجموں نے اپنی اپنی زبانوں میں اس کے ترجمے کر دیے ہوں گے ۔ اس کے بعد غالباً کسی مترجم نے یہ دیکھ کر کہ پیشین گوئی میں آنے والے کا جو نام بتایا گیا ہے وہ بالکل لفظ ’’محمدؐ‘‘ کا ہم معنی ہے ، آپ کا یہی اسم گرامی لکھ دیا ہو گا۔ اس لیے صرف اس نام کی تصریح یہ شبہ پیدا کر دینے کے لیے ہر گز کافی نہیں ہے کہ پوری انجیل برناباس کسی مسلمان نے جعلی تصنیف کر دی ہے ۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
برناباس کی انجیل

حقیقت یہ ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے بارے میں حضرت عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کو نہیں ، خود حضرت عیسیٰ کے اپنے صحیح حالات اور آپ کی اصل تعلیمات کا جاننے کا بھی معتبر ذریعہ وہ چار انجیلیں نہیں ہیں جن کو مسیحی کلیسا نے معتبر و مسلم انا جیل(Canonical Gospels) قرار دے رکھا ہے ، بلکہ اس کا زیادہ قابل اعتماد ذریعہ وہ انجیل برنا باس ہے جسے کلیسا غیر قانونی اور مشکوک الصحت (Apocryphal) کہتا ہے ۔ عیسائیوں نے اسے چھپانے کا بڑا اہتمام کیا ہے ۔ صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ہے ۔ سولہویں صدی میں اس کے اطالوی ترجمے کا صرف ایک نسخہ پوپ سکسٹس (Sixtus) کے کتب خانے میں پایا جاتا تھا اور کسی کو اس کے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں وہ ایک شخص جان ٹولینڈ کے ہاتھ لگا۔ پھر مختلف ہاتھوں میں گشت کرتا ہوا 1738ء میں ویانا کی امپریل لائبریری میں پہنچ گیا۔ 1907ء میں اسی نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کے کلیرنڈن پریس سے شائع ہو گیا تھا مگر غالباً اس کی اشاعت کے بعد فوراً ہی عیسائی دنیا میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ یہ کتاب تو اس مذہب کی جڑ ہی کاٹے دے رہی ہے جسے حضرت عیسیٰ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کے مطبوعہ نسخے کسی خاص تدبیر سے غائب کر دیے گئے اور پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی۔ دوسرا ایک نسخہ اسی اطالوی ترجمہ سے اسپینی زبان میں منتقل کیا ہو اٹھارویں صدی میں پایا جاتا تھا، جس کا ذکر جارج سیل نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں کیا ہے ۔ مگر وہ بھی کہیں غائب کر دیا گیا اور آج اس کا بھی کہیں پتہ نشان نہیں ملتا۔ مجھے آکسفورڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمے کی ایک فوٹو اسٹیٹ کاپی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اسے لفظ بہ لفظ ہے ۔ میرا احساس یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے عیسائیوں نے محض تعصب اور ضد کی بنا پر اپنے آپ کو محروم کر رکھا ہے ۔
مسیحی لٹریچر میں انجیل کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے ، اسے یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ایک جعلی انجیل ہے جسے شاید کسی مسلمان نے تصنیف کر کے برنا باس کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے ، جو صرف اس بنا پر بول دیا گیا کہ اس میں جگہ جگہ بہ صراحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مے متعلق پیشین گوئیاں ملتی ہیں ۔ اول تو اس انجیل کو پڑھنے ہی سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کتا ب کسی مسلمان کی تصنیف کر دہ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے ، اگر یہ کسی مسلمان نے لکھی ہوتی تو مسلمانوں میں یہ کثرت سے پھیلی ہوئی ہوتی اور علمائے اسلام کی تصنیفات میں بہ کثرت اس کا ذکر پایا جاتا۔ مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ جارج سیل کے انگریزی مقدمہ قرآن سے پہلے مسلمانوں کو سرے سے اس کے وجود تک کا علم نہ تھا۔ گَبری، یعقوبی، مسعودی، البیرونی، ابن حذم اور دوسرے مصنفین، جو مسلمانوں میں مسیحی لٹریچر وسیع اطلاع رکھنے والے تھے ، ان میں سے کسی کے ہاں بھی مسیحی مذہب پر بحث کرتے ہوئے انجیل برناباس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔ دنیائے اسلام کے کتب خانوں میں جو کتابیں پائی جاتی تھیں ان کی بہترین فہرستیں ابن ندیم کی الفہرست اور حاجی خلیفہ کی کشف الظنون ہیں ، اور وہ بھی اس کے ذکر سے خالی ہیں ۔ انیسویں صدی سے پہلے کسی مسلمان عالم نے انجیل برناباس کا نام تک نہیں لیا ہے ۔ تیسری اور سب سے بڑی دلیل اس بات کے جھوٹ ہونے کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے بھی 75 سال پہلے پوپ گلاسیس اول (Gelasius) کے زمانے میں بد عقیدہ اور گمراہ کن (Heretical) کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعہ سے جن کا پڑھنا ممنوع کر دیا گیا تھا، ان میں انجیل برناباس (Evangelium Barnabe) بھی شامل تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسا مسلمان تھا جس نے یہ جعلی انجیل تیار کی تھی ؟ یہ بات تو خود عیسائی علماء نے تسلیم کی ہے کہ شام، اسپین، مصر وغیرہ ممالک کے ابتدائی مسیحی کلیسا میں ایک مدت تک برنا باس کی انجیل رائج رہی ہے اور چھٹی صدی میں اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔
10۔ قبل اس کے کہ اس انجیل سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارتیں نقل کی جائیں ، اس کا مختصر تعارف کر ا دینا ضروری ہے ، تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہو جائے اور یہ بھی سمجھ میں آ جائے کہ عیسائی حضرات اس سے اتنے ناراض کیوں ہیں ۔
بائیبل میں جو چار انجیلیں قانونی اور معتبر قرار دے کر شامل کی گئی ہیں ، ان میں سے کسی کا لکھنے والا بھی حضرت عیسیٰ کا صحابی نہ تھا۔ اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا ہے کہ اس نے آنحضرتؐ کے صحابیوں سے حاصل کردہ معلومات اپنی انجیل میں درج کی ہیں ۔ جن ذرائع سے ان لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں ان کا کوئی حوالہ انہوں نے نہیں دیا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ راوی نے آیا خود وہ واقعات دیکھے اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال اس کتاب میں درج کر رہا ہوں ۔ یہی نہیں بلکہ کتاب کے آخر میں وہ کہتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت حضرت مسیح نے مجھ سے فرمایا تھا کہ مرے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پھیل گئی ہیں ان کو صاف کرنا اور صحیح حالات دنیا کے سامنے لانا تیری ذمہ داری ہے ۔
یہ برنا باس کون تھا ؟ بائیبل کی کتاب اعمال میں بڑی کثرت سے اس نام کے ایک شخص کا ذکر آتا ہے جو قبرص کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مسیحیت کی تبلیغ اور پیروانِ مسیح کی مدد و اعانت کے سلسلے میں اس کی خدمات کی بڑی تعریف کی گئی ہے ۔ مگر کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کب دین مسیح میں داخل ہوا، اور ابتدائی بارہ حواریوں کی جو فہرست تین انجیلوں میں دی گئی ہے اس میں بھی کہیں اس کا نام درج نہیں ہے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس انجیل کا مصنف وہی برنا باس ہے یا کوئی اور۔ متی، اور مرقس نے حواریوں (Apostles) کی جو فہرست دی ہے ، برناباس کی دی ہوئی فہرست اس سے صرف دو ناموں میں مختلف ہے ۔ ایک توما، جس کے بجائے برناباس خود اپنا نام دے رہا ہے ، دوسرا شمعون قنانی، جس کی جگہ وہ یہوواہ بن یعقوب کا نام لیتا ہے ۔ لوقا کی انجیل میں یہ دوسرا نام بھی موجود ہے ۔ اس لیے یہ قیاس کرنا صحیح ہو گا کہ بعد میں کسی وقت صرف برناباس کو حواریوں سے خارج کرنے کے لیے توما کا نام داخل کیا گیا ہے تاکہ اس کی انجیل سے پیچھا چھڑایا جا سکے ، اور اس طرح کے تغیرات اپنی مذہبی کتابوں میں کر لینا ان حضرات کے ہاں کوئی ناجائز کام نہیں رہا ہے ۔
اس انجیل کو اگر شخص تعصب کے بغیر کھلی آنکھوں سے پڑھے اور نئے عہد نامے کی چاروں انجیلوں سے اس مقابلہ کرے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ان چاروں سے بدر جہا برتر ہے ۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اس طرح بیان ہوئے ہیں جیسے کوئی شخص فی الواقع وہاں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور ان واقعات میں خود شریک تھا۔ چاروں انجیلوں کی بے ربط داستانوں کے مقابلہ میں یہ تاریخی بیان زیادہ مربوط بھی ہے اور اس سے سلسلہ واقعات بھی زیادہ چھی طرح سمجھ میں آتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات اس میں چاروں انجیلوں کی بہ نسبت زیادہ واضح اور مفصل اور مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہیں ۔ توحید کی تعلیم، شریک کی ترید، صفات باری تعالیٰ، عبادات کی روح، اور اخلاق فاضلہ کے مضامین اس میں بڑے ہی پر زور اور مدلل اور مفصل ہیں ۔ جن آموز تمثیلات کے پیرایہ میں مسیح نے یہ مضامین بیان کیے ہیں ان کا عشر عشیر بھی چاروں انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ اس سے یہ بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کس حکیمانہ طریقے سے فرماتے تھے ۔ حضرت عیسیٰ کی زبان، طرز بیان اور طبیعت و مزاج سے کوئی شخص اگر کچھ بھی آشنا ہو تو وہ اس انجیل کو پڑھ کر یہ ماننے پر مجبور ہو گا کہ یہ کوئی جعلی داستاں نہیں ہے جو بعد میں کسی نے گھڑ لی ہو، بلکہ اس میں حضرت مسیح اناجیل اربعہ کی بہ نسبت اپنی اصلی شان میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں ، اور اس میں ان تضادات کا نام و نشان بھی نہیں ہے جو اناجیل اربعہ میں ان کے مختلف اقوال کے درمیان پایا جاتا ہے ۔
اس انجیل میں حضرت عیسیٰ کی زندگی اور آپ کی تفصیلات ٹھیک ٹھیک ایک نبی کی زندگی اور تعلیمات کے مطابق نظر آتی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ تمام پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ صاف کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے سوا معرفت حق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے ، اور جو انبیاءکو چھوڑتا ہے وہ دراصل خدا کو چھوڑتا ہے ۔ توحید، رسالت اور آخرت کے ٹھیک وہی عقائد پیش کرتے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے ۔ نماز، روزے اور زکوٰۃ کی تلقین کرتے ہیں ۔ ان کی نمازوں کا جو ذکر بکثرت مقامات پر برنا باس نے کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا اور تہجد کے اوقات تھے جن میں وہ نماز پڑھتے تھے ، اور ہمیشہ نماز سے پہلے وضو فرماتے تھے ۔ انبیاء میں سے وہ حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ کو نبی قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ان کو انبیاء کی فہرست سے خارج کر رکھا ہے ۔ حضرت اسماعیل کو وہ ذبیح قرار دیتے ہیں اور ایک یہودی عالم سے اقرار کراتے ہیں یہ کہ فی الواقع ذبیح حضرت اسماعیل ہی تھے اور بنی اسرائیل نے زبر دستی کھینچ تان کر کے حضرت اسحاق کو ذبیح بنا رکھا ہے ۔ آخرت اور قیامت اور جنت، و دوزخ کے متعلق ان کی تعلیمات قریب قریب وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ۔
11۔ عیسائی جس وجہ سے انجیل برناباس کے مخلاف ہیں ، وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق جگہ جگہ صاف اور واضح بشارتیں ہیں ، کیونکہ وہ تو حضورؐ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے اس انجیل کو رد کر چکے تھے ۔ ان کی ناراضی کی اصل وجہ کو سمجھے کے لیے تھوڑی سی تفصیلی بحث درکار ہے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی پیرو آپ کو صرف نبی مانتے تھے ، موسوی شریعت کا اتباع کرتے تھے ، عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے بنی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے ، اور یہودیوں سے ان کا اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ یہ حضرت عیسیٰ کو مسیح تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ان کو مسیح ماننے سے انکار کرتے تھے ۔ بعد میں جب سینٹ پال اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں ، یونانیوں ، اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کر دی، اور اس غرض کے لیے ایک نیا دین بنا ڈالا جس کے عقائد اور اصول اور احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا تھا۔ اس شخص نے حضرت عیسیٰ کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کے زمانے میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروؤں کا دشمن بنا رہا۔ پھر جب اس جماعت میں داخل ہو کر اس نے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰ کے کسی قول کی سند نہیں پیش کی بلکہ اپنے کشف و الہام کو بنیاد بنایا۔ اس نئے دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی (Gentile) دنیا قبول کر لے ۔ اس نے اعلان کر دیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے ۔ اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی ساری قیود ختم کر دیں ۔ اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کر دیا جو غیر یہودی دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ اس نے مسیحؑ کی اُلوہیت اور ان کے ابن خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولاد آدمؑ کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا۔ مسیحؑ کے ابتدائی پیروؤں نے ان بدعات کی مزاحمت کی، مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا، اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہو گیا جس کے مقابلے میں ہو مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھیر سکے ۔ تاہم تیسری صدی عیسوی کے اختتام تک بکثرت لوگ ایسے موجود تھے جو مسیح کی اُلوہیت کے عقیدے سے انکار کرتے تھے ۔ مگر چوتھی صدی کے آغاز( 325ء) میں نیقیہ (Nicaea) کی کونسل نے پولوسی عقائد کو قطعی طور پر مسیحیت کا مسلم مذہب قرار دے دیا۔ پھر رومی سلطنت خود عیسائی ہو گئی اور قیصر تھیوڈو سِس کے زمانے میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا۔ اس کے بعد قدرتی بات تھی کہ وہ تمام کتابیں جو اس عقیدے کے خلاف ہوں ، مردود قرار دے دی جائیں اور صرف وہی کتابیں معتبر ٹھیرائی جائیں جو اس عقیدے سے مطابقت رکھتی ہوں ۔ 367 ء میں پہلی مرتبہ اتھانا سیوس(Athanasius) کے ایک خط کے ذریعہ معتبر و مسلم کتابوں کے ایک مجموعہ کا اعلان کیا گیا، پھر اس کی توثیق 382ء میں پوپ ڈیمیسس (Damasius) کے زیر صدارت ایک مجلس نے کی، اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ گلاسس (Gelasius) نے اس مجموعہ کو مسلم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں ایک فہرست مرتب کر دی جو غیر مسلم تھیں ۔ حالانکہ جن پولوسی عقائد کو بنیاد بنا کر مذہبی کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں ، خود ان میں بھی حضرت عیسیٰؑ کے اپنے کسی قول سے ان عقائد کا ثبوت نہیں ملتا۔
انجیل برناباس ان غیر مسلم کتابوں میں اس لیے شامل کی گئی کہ وہ مسیحیت کے اس سرداری عقیدے کے بالکل خلاف تھی۔ اس کا مصنف کتاب کے آغاز ہی میں اپنا مقصد تصنیف یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کی جائے جو شیطان کے دھوکے میں آ کر یسوع کو ابن اللہ قرار دیتے ہیں ، ختنہ کو غیر ضروری ٹھیراتے ہیں اور حرام کھانوں کو حلال کر دیتے ہیں ، جن میں سے ایک دھوکہ کھانے والا پولوس بھی ہے ‘‘۔ وہ بتاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰؑ دنیا میں موجود تھے اس زمانے میں ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے مشرک رومی سپاہیوں نے ان کو خدا اور بعض نے خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا، پھر یہ چھوت بنی اسرائیل کے عوام کو بھی لگ گئی۔ اس پر حضرت عیسیٰؑ سخت پریشان ہوۓ۔ انہوں نے بار بار نہایت شدت کے ساتھ اپنے متعلق اس غلط عقیدے کی تردید کی اور ان لوگوں پر لعنت بھیجی جو ان کے متعلق ایسی باتیں کہتے تھے ۔ پھر انہوں نے اپنے شا گردوں کو پورے یہودیہ میں اس عقیدے کی تردید کے لیے بھیجا اور ان کی دعا سے شاگردوں کے ہاتھوں بھی وہی معجزے صادر کرائے گئے جو خود حضرت عیسیٰؑ سے صادر ہوتے تھے ، تاکہ لوگ اس غلط خیال سے باز آ جائیں کہ جس شخص سے یہ معجزے صادر ہو رہے ہیں وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عیسیٰ کی مفصل تقریریں نقل کرتا ہے جن میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس غلط عقیدے کی تردید کی تھی، اور جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ آنجناب اس گمراہی کے پھیلنے پر کس قدر پریشان تھے ۔ مزید براں وہ اس پولوسی عقیدے کی بھی صاف صاف تردید کرتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان دی تھی۔ وہ اپنے چشم دید حالات یہ بیان کرتا ہے کہ جب یہوداہ اسکر یوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر حضرت عیسیٰؑ کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آنجنابؑ کو اٹھا لے گۓ، اور یہوداہ اسکریوتی کی شکل اور آواز بالکل وہی کر دی گئی جو حضرت عیسیٰؑ کی تھی۔ صلیب پر وہی چڑھایا گیا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰؑ۔ اس طرح یہ انجیل پولوسی مسیحیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور قرآن کے بیان کی پوری توثیق کرتی ہے ۔ حالانکہ نزول قرآن سے 115 سال پہلے اس کے ان بیانات ہی کی بنا پر مسیحی پادی اسے رد کر چکے تھے ۔
12۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انجیل برنا باس در حقیقت اناجیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے ، مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور سیرت اور اقوال کی صحیح ترجمانی کرتی ہے ، اور یہ عیسائیوں کی اپنی بد قسمتی ہے کہ اس انجیل کے ذریعہ سے اپنے عقائد کی تصحیح اور حضرت مسیحؑ کی اصل تعلیمات کو جاننے کا جو موقع ان کو ملا تھا اسے محض ضد کی بنا پر انہوں نے کھو دیا۔ اس کے بعد ہم پورے اطمینان کے ساتھ وہ بشارتیں نقل کر سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں برنا باس نے حضرت عیسیٰؑ سے روایت کی ہیں ۔ ان بشارتوں میں کہیں حضرت عیسیٰؑ حضورؐ کا نام لیتے ہیں ، کہیں ’’ رسول اللہ ‘‘ کہتے ہیں ، کہیں آپ کے لیے ’’ مسیح‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، کہیں ’’قابل تعریف‘‘(Admirable) کہتے ہیں ، اور کہیں صاف صاف ایسے فقرے ارشاد فرماتے ہیں جو بالکل لَٓااِلٰہٰ الَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّ سُوْلُ اللہ کے ہم معنی ہیں ۔ ہمارے لیے ان ساری بشارتوں کو نقل کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ اتنی زیادہ ہیں ، اور جگہ جگہ مختلف پیرایوں اور سیاق و سباق میں آئی ہیں کہ ان سے ایک اچھا خاصا رسالہ مرتب ہو سکتا ہے ۔ یہاں ہم محض بطور نمونہ ان میں سے چند کو نقل کرتے ہیں :
’’تمام انبیاء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا، جن کی تعداد ایک لاکھ 44 ہزار تھی، انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی۔ مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہو ئی باتوں ، کے اندھیرے پر روشنی ڈال دے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے ‘‘(باب 17)
’’ فریسیوں اور لاویوں نے کہا اگر تو نہ مسیح ہے ، نہ الیاس، نہ کوئی اور نبی، تو کیوں تو نئی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسیح سے بھی زیادہ بنا کر پیش کرتا ہے ؟ یسوع نے جواب دیا جو معجزے خدا میرے ہاتھ سے دکھا تا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے ، ورنہ در حقیقت میں اپنے آپ کو اس (مسیح) سے بڑا شمار کیے جانے کے قابل نہیں قرار دیتا جس کا تم ذکر کر رہے ہو۔ میں تو اس خدا کے رسول کے موزے کے بند یا اس کی جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں ہوں جس کو تم مسیح کہتے ہو، جو مجھ سے پہلے بنایا گیا تھا اور میرے بعد آئے گا اور صداقت کی باتیں آئے گا تاکہ اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو‘‘ (باب 42)۔
’’ بالیقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لیے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا کہیں اور نہیں پھیلیں جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے ۔ مگر خدا کا رسول جب آئے گا، خدا کو یا اس کو اپنے ہاتھ کی مہر دے دے گا، یہاں تک کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو جو اس کی تعلیم پائیں گی، جنات اور رحمت پہنچا دے گا۔ وہ بے خدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا اور بُت پرستی کا ایسا قلع قمع کرے گا کہ شیطان پریشان ہو جائے گا‘‘۔ اس کے آگے شاگردوں کے ساتھ ایک طویل مکالمہ میں حضرت عیسیٰ تصریح کرتے ہیں کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا (باب 43)۔
’’ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کا رسول وہ رونق ہے جس سے خدا کی پیدا کی ہوئی قریب قریب تمام چیزوں کو خوشی نصیب ہو گی کیونکہ وہ فہم اور نصیحت، حکمت اور طاقت، خشیت اور محبت، حزم اور درع کی روح سے آراستہ ہے ۔ وہ فیاضی اور رحمت، عدل اور تقویٰ، شرافت اور صبر کی روح سے مزین ہے جو اس نے خدا سے ان تمام چیزوں کی بہ نسبت تین گُنی پائی ہے جنہیں خدا نے اپنی مخلوق میں سے یہ روح بخشی ہے ۔ کیسا مارک وقت ہو گا جب وہ دنیا میں آئے گا۔ یقین جانو، میں نے اس کو دیکھا ہے اور اس کی تعظیم کی ہے جس طرح ہر نبی نے اس کو دیکھا تو میری روح سکینت سے بھر گئی یہ کہتے ہوئے کہ اے محمدؐ، خدا تمہارے ساتھ ہو، اور وہ مجھے تمہاری جوتی کے تسمے باندھنے کے قابل بنا دے ، کیونکہ یہ مرتبہ بھی پالوں تو میں ایک بڑا نبی اور خدا کی ایک مقدس ہستی ہو جاؤں گا‘‘۔ (باب 44)۔
’’ (میرے جانے سے ) تمہارا دل پریشان نہ ہو، نہ تم خوف کرو، کیونکہ میں نے تم کو پیدا نہیں کیا ہے ، بلکہ خدا ہمارا خالق، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہاری حفاظت کرے گا۔ رہا میں ، تو اس وقت میں دنیا میں اس رسول خدا کے لیے راستہ تیار کرنے آیا ہوں جو دنیا کے لیے نجات لے کر آئے گا ……… اندر یاس نے کہا، استاد ہمیں اس کی نشانی بتا دے تاکہ ہم اسے پہچان لیں ۔ یسوع نے جواب دیا، وہ تمہارے زمانے میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ سال بعد آئے گا جبکہ میری انجیل ایسی مسخ ہو چکی ہو گی مشکل سے کوئی 30 آدمی مومن باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت اللہ دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنے رسول کو بھیجے گا جس کے سرپر سفید بادل کا سایہ ہو گا جس سے وہ خدا کا بر گزیدہ جانا جائے گا اور اس کے ذریعہ سے خدا کی معرفت دنیا کو حاصل ہو گی۔ وہ بے خدا لوگوں کے خلاف بڑی طاقت کے ساتھ آئے گا اور زمین پر بت پرستی کو مٹا دے گا۔ اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ہمارا خدا پہچانا جائے گا اور اس کی تقدیس ہو گی اور میری صداقت دنیا کو معلوم ہو گی اور وہ ان لوگوں سے انتقام لے گا جو مجھے انسان سے بڑھ کر کچھ قرار دیں گے ……… وہ ایک ایسی صداقت کے ساتھ آئے گا جو تمام انبیاء کی لائی ہوئی صداقت سے زیادہ واضح ہو گی ‘‘(باب 72)۔
’’خدا کا عہد یروشلم میں ، معبد سلیمان کے اندر کیا گیا تھا نہ کہ کہیں اور۔ مگر میری بات کا یقین کرو کہ ایک وقت آئے گا جب خدا اپنی رحمت ایک اور شہر میں نازل فرمائے گا، پھر ہر جگہ اس کی صحیح عبادت ہو سکے گی، اور اللہ اپنی رحمت سے ہر جگہ سچی نماز کو قبول فرمائے گا ……… میں در اصل اسرائیل کے گھرانے کی طرف نجات کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مگر میرے بعد مسیح آئے گا، خدا کا بھیجا ہو، تمام دنیا کی طرف، جس کے لیے خدا نے یہ ساری دنیا بنائی ہے ۔ اس وقت ساری دنیا میں اللہ کی عبادت ہو گی، اور اس کی رحمت نازل ہو گی ‘‘(باب 83)۔
’’یسوع نے سردار کاہن سے کہا، زندہ خدا کی قسم جس کے حضور میری جان حاضر ہے ، میں ہو مسیح نہیں ہوں جس کی آمد کا تمام دنیا کی قومیں انتظار کر رہی ہیں ، جس کا وعدہ خدا نے ہمارے باپ ابراہیمؑ سے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی‘‘(پیدائش، 18:22)۔ مگر جب خدا مجھے دنیا سے لے جائے گا تو شیطان پھر یہ بغاوت بر پا کرے گا کہ نا پرہیز گار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں ۔ اس کی وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کر دیا جائے گا یہاں تک کہ بمشکل 30 صاحب ایمان باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھیجے گا جس کے لیے اس نے دنیا کی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں ، جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ برباد کر دے گا، جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پر حاصل کر لیا ہے ۔ وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کے لیے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے ، اور مبارک ہے وہ جو اس کی باتوں کو مانے ‘‘ (باب 96)۔
سردار کاہن نے پوچھا کہ وہ مسیح کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کو ظاہر کریں گی ؟ یسوع نے جواب دیا اس مسیح کا نام’’ قابل تعریف‘‘ ہے ، کیونکہ خدا نے جب اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا یہ نام خود رکھا تھا اور وہاں اسے ایک ملکوتی شان میں رکھا میں رکھا گیا تھا۔ خدا نے کہا’’ اے محمدؐ، انتظار کر، کیونکہ تیری ہی خاطر میں جنت، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا اور اس کو تجھے تحفہ کے طور پر دوں گا، یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی۔ جب میں تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو میں تجھ کو اپنے پیغامبر نجات کی حیثیت سے بھیجوں گا۔ تیری بات سچی ہو گی یہاں تک کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر تیرا دین نہیں ٹلے گا۔ سو اس کا مبارک نام محمدؐ ہے ‘‘۔(باب، 9)۔
برنا باس لکھتا ہے ایک موقع پر شاگردوں کے سانے حضرت عیسیٰ نے بتایا کہ میرے ہی شاگردوں میں سے ایک (جو بعد میں یہوواہ اسکر یوتی نکلا) مجھے 30 سکوں کے عوض دشمنوں کے ہاتھ بیچ دے گا، پھر فرمایا:
’’اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ جو مجھے بیچے گا وہی میرے نام سے مارا جائے گا، کیونکہ خدا مجھے زمین سے اوپر اٹھا لے گا اور اس غدار کی صورت ایسی بدل دے گا کہ ہو شخص یہ سمجھے گا کہ وہ میں ہی ہوں ۔ تاہم جب وہ ایک بڑی موت مرے گا تو ایک مدت تک میری ہی تذلیل ہوتی رہے گی۔ مگر جب محمدؐ، خدا کا مقدس رسول آئے گا تو میری وہ بدنامی دور کر دی جائے گی۔ اور خدا یہ اس لیے کرے گا کہ میں نے اس مسیح کی صداقت کا اقرار کیا ہے ۔ وہ مجھے اس کا یہ انعام دے گا کہ لوگ یہ جان لیں گے کہ میں زندہ ہوں اور اس ذلت کی موت سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے ’’(باب 113)۔
’’(شاگردوں سے حضرت عیسیٰ نے کہا)؛ بے شک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر موسیٰ کی کتاب سے صداقت مسخ نہ کر دی گئی ہوتی تو خدا ہمارے باپ داؤد کو ایک دوسری کتاب نہ دیتا۔ اور اگر داؤد کی کتاب میں تحریف نہ کی گئی ہوتی تو خدا مجھے انجیل نہ دیتا، کیونکہ خداوند ہمارا خدا بدلنے والا نہیں ہے اور اس نے سب انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے ۔ لہٰذا جب اللہ کا رسول آئے گا تو وہ اس لیے آئے گا کہ ان ساری چیزوں کو صاف کر دے جن سے بے خدا لوگوں نے میری کتاب کو آلودہ کر دیا ہے ‘‘ (باب 124)۔
ان صاف اور مفصل پیشین گوئیوں میں صرف تین چیزیں ایسی ہیں جو بادی النظر میں نگاہ کو کھٹکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ان میں ، اور انجیل برناباس کی متعدد دوسری عبارتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مسیح ہونے کا انکار کیا ہے ۔ دوسری یہ کہ صرف ان ہی عبارتوں میں نہیں بلکہ اس انجیل کے بہت سے مقامات پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اصل عربی نام ’’محمدؐ‘‘ لکھا گیا ہے ، حالانکہ یہ انبیاء کی پیشین گوئیوں کا یہ عام طریقہ نہیں ہے کہ بعد کی آنے والی کسی ہستی کا اصل نام لیا جاۓ۔ تیسری یہ کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مسیح کہا گیا ہے ۔
پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ صرف انجیل برناباس ہی میں نہیں بلکہ لُوقا کی انجیل میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ آپ کو مسیح کہیں ۔ لُوقا کے الفاظ یہ ہیں :’’ اس نے ان سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو ؟ پطرس نے جواب میں کہا خدا کا مسیح۔ اس نے ان کو تاکید کر کے حکم دیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا ‘‘ (20:9۔21)۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل جس مسیح کے منتظر تھے اس کے متعلق ان کا خیال یہ تھا کہ وہ تلوار کے زور سے دشمنان حق کو مغلوب کرے گا، اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ مسیح میں نہیں ہوں بلکہ وہ میرے بعد آنے والا ہے ۔
دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ برناباس کاجو اطالوی ترجمہ اس وقت دنیا میں موجود ہے اس کے اندر تو حضورؐ کا نام بے شک محمدؐ لکھا ہوا ہے ، مگر یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ کتاب کن کن زبانوں سے ترجمہ ہوتی ہوئی اطالوی زبان میں پہنچی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اصل انجیل برناباس سریانی زبان میں ہو گی، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی زبان تھی۔ اگر وہ اصل کتاب دستیاب ہوتی تو دیکھا جا سکتا تھا کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم گرامی کیا لکھا گیا تھا۔ اب جو کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اصل میں تو حضرت عیسیٰ نے لفظ مُنْحَمنَّا استعمال کیا ہو گا، جیسا کہ ہم ابن اسحاق کے دیے ہوئے انجیل یوحنا کے حوالہ سے بتا چکے ہیں ۔ پھر مختلف مترجموں نے اپنی اپنی زبانوں میں اس کے ترجمے کر دیے ہوں گے ۔ اس کے بعد غالباً کسی مترجم نے یہ دیکھ کر کہ پیشین گوئی میں آنے والے کا جو نام بتایا گیا ہے وہ بالکل لفظ ’’محمدؐ‘‘ کا ہم معنی ہے ، آپ کا یہی اسم گرامی لکھ دیا ہو گا۔ اس لیے صرف اس نام کی تصریح یہ شبہ پیدا کر دینے کے لیے ہر گز کافی نہیں ہے کہ پوری انجیل برناباس کسی مسلمان نے جعلی تصنیف کر دی ہے ۔

یہ انجیل ہرگز نہیں ھے بلکہ یہ بارنا بس کی بائبل ھے۔
انجیل تو اللہ نے نازل کی ھے۔

وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٦﴾ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤٧-٥﴾


انجیل اللہ کا کلام ھے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
انجیل اللہ کا کلام ھے۔
’ہے‘ نہیں
بلکہ ’تھا‘۔

کیونکہ اس میں اہل کتاب تحریف کر چکے ہیں۔
اب ہمیں معلوم نہیں کہ اس کا کون سا حصہ صحیح ہے اور کون سا تحریف شدہ؟ اسی لئے نہ اس کی کسی آیت کی تصدیق کی جا سکتی ہے یا کسی آیت کی تکذیب!
لہٰذا ساری انجیل نا قابل اعتبار ہے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
’ہے‘ نہیں
بلکہ ’تھا‘۔

کیونکہ اس میں اہل کتاب تحریف کر چکے ہیں۔
اب ہمیں معلوم نہیں کہ اس کا کون سا حصہ صحیح ہے اور کون سا تحریف شدہ؟ اسی لئے نہ اس کی کسی آیت کی تصدیق کی جا سکتی ہے نہ کسی آیت کی تکذیب!
لہٰذا ساری انجیل نا قابل اعتبار ہے۔

پھر اس آیت کا کیا مطلب ھے؟

وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤٧-٥﴾
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
پھر اس آیت کا کیا مطلب ھے؟

وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤٧-٥﴾
اس آیت کریمہ کے سیاق وسباق پر اگر غور کیا جائے تو اس آیت کریمہ کے دو معنی بنتے ہیں جو مفسرین کرام نے بیان کیے ہیں۔
پہلے میں سیاق وسباق ذکر کر دیتا ہوں پھر دو معنی بھی بیان کر دیتا ہوں۔
سیاق وسباق
﴿ وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِ‌هِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْ‌يَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ‌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ٤٦ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ٤٧
گویا پچھلی آیت میں سیدنا موسیٰ﷤ کے بعد پے درپے آنے والے انبیاء کرام﷩ اور پھر سیدنا عیسیٰ﷤ کے آنے کا تذکرہ ہے اور بتایا ہے کہ وہ تورات کی تصدیق کرتے تھے۔ پھر فرمایا کہ ہم نے عیسیٰ﷤ پر انجیل نازل کی وہ بھی تورات کے احکام کی تصدیق کرتی تھی۔ اس کے بعد آیت پر 47 ہے۔

سیاق وسباق کی روشنی میں دونوں مفہوم
پہلا مفہوم: اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ﷤ پر انجیل اتاری تھی اور (اسی وقت) حکم دیا تھا کہ اہل انجیل، انجیل کے احکامات پر عمل کریں۔ یعنی آیت کریمہ کا سیاق یہ ہوگا: وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ‌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ٤٦ وَ ( قُلْنَا) لْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ یعنی جب ہم نے عیسیٰ﷤ پر انجیل اتاری تھی تو ہم نے اہل انجیل کو کہا تھا کہ وہ انجیل پر عمل کریں۔ (تفصیل کیلئے تفسیر جلالین اور تفسیر الکبیر دیکھئے)
اس معنیٰ کی تائید لفظ ﴿ وَلْيَحْكُمْ ﴾ میں موجود دوسری متواتر قراءت ﴿ وَلِيَحْكُمَ ﴾ (جو امام حمزہ کی قراءت ہے) سے بھی ہوتی ہے۔ جس کے مطابق مفہوم یہ بنے گا کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ﷤ پر انجیل اس لئے اتاری تھی تاکہ اہل انجیل، انجیل کے احکامات پر عمل کریں۔
اس پہلے معنیٰ کے مطابق گویا یہ نزول قرآن سے پہلے کی بات ہے۔ نزول قرآن کے بعد انہیں انجیل کے احکام پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا جا رہا۔

دوسرا مفہوم:
عیسائیوں کو الزامی جواب ہے کہ نزول قرآن کے بعد بھی اگر تم (اہل انجیل) کو قرآن کے بجائے انجیل ہی ماننے پر اصرار ہے حالانکہ اس میں تحریف بھی ہو چکی ہے تو پھر انجیل سے صرف اپنے مطلب کے احکامات پر عمل نہ کرو بلکہ پوری انجیل کے احکامات مانو جس میں نبی کریمﷺ کے آنے کی بشارت، قرآن کریم کے نازل ہونے کی بشارت اور ان پر ایمان لانے کا حکم بھی موجود ہے۔ (واضح رہے کہ تحریف کے بعد بھی انجیل میں ایسی بشارتیں موجود تھیں۔)

گویا واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کیلئے کوئی اجازت نہیں کہ وہ قرآن نازل ہونے کے بعد انجیل کے احکامات عمل کریں۔ اسی لئے اس سے اگلی آیت کریمہ میں فرمایا:
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ ٤٨
پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو۔

مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے وہ تورات وانجیل کو اصلاً اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتابیں سمجھتے ہیں، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ ﷤ پر تورات اور سیدنا عیسیٰ﷤ پر انجیل اتاری تھی لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ان میں بنی اسرائیل نے اپنے دنیاوی مقاصد کے تحت تحریف کر دی ہے، لہٰذا اب تورات وانجیل کے احکامات پر عمل نہیں ہو سکتا۔

واللہ تعالیٰ اعلم!

اللہ تعالیٰ ہماری سمجھ کھول دیں!
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
سیاق وسباق کی روشنی میں دونوں مفہوم
پہلا مفہوم: اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ﷤ پر انجیل اتاری تھی اور (اسی وقت) حکم دیا تھا کہ اہل انجیل، انجیل کے احکامات پر عمل کریں۔ یعنی آیت کریمہ کا سیاق یہ ہوگا: وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ‌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ٤٦ وَ ( قُلْنَا) لْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ یعنی جب ہم نے عیسیٰ﷤ پر انجیل اتاری تھی تو ہم نے اہل انجیل کو کہا تھا کہ وہ انجیل پر عمل کریں۔ (تفصیل کیلئے تفسیر جلالین اور تفسیر الکبیر دیکھئے)
اس معنیٰ کی تائید لفظ ﴿ وَلْيَحْكُمْ ﴾ میں موجود دوسری متواتر قراءت ﴿ وَلِيَحْكُمَ ﴾ (جو امام حمزہ کی قراءت ہے) سے بھی ہوتی ہے۔ جس کے مطابق مفہوم یہ بنے گا کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ﷤ پر انجیل اس لئے اتاری تھی تاکہ اہل انجیل، انجیل کے احکامات پر عمل کریں۔
اس پہلے معنیٰ کے مطابق گویا یہ نزول قرآن سے پہلے کی بات ہے۔ نزول قرآن کے بعد انہیں انجیل کے احکام پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا جا رہا۔

دوسرا مفہوم: عیسائیوں کو الزامی جواب ہے کہ نزول قرآن کے بعد بھی اگر تم (اہل انجیل) کو قرآن کے بجائے انجیل ہی ماننے پر اصرار ہے حالانکہ اس میں تحریف بھی ہو چکی ہے تو پھر انجیل سے صرف اپنے مطلب کے احکامات پر عمل نہ کرو بلکہ پوری انجیل کے احکامات مانو جس میں نبی کریمﷺ کے آنے کی بشارت، قرآن کریم کے نازل ہونے کی بشارت اور ان پر ایمان لانے کا حکم بھی موجود ہے۔ (واضح رہے کہ تحریف کے بعد بھی انجیل میں ایسی بشارتیں موجود تھیں۔)

گویا واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کیلئے کوئی اجازت نہیں کہ وہ قرآن نازل ہونے کے بعد انجیل کے احکامات عمل کریں۔


مندرجہ بالا دونوں مفہوم، آیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔
آیت، نبی کریم پر نازل ہو رہی ھے، اس وقت ، اللہ کی نازل کی ہوئی انجیل موجود بھی ھے اور اس میں ہدایت اور نور بھی ھے آیتPresent continuous میں ھے، آپ مفہوم غلط لے رہے ہیں۔

وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٦﴾ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤٧-٥﴾


اور ہم ان نبیوں کے پیچھے ان کے نشانِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو لائے تصدیق کرتا ہوا توریت کی جو اس سے پہلے تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تصدیق فرماتی ہے توریت کی کہ اس سے پہلی تھی اور ہدایت اور نصیحت پرہیزگاروں کو، (46) اور چاہئے کہ انجیل والے حکم کریں اس پر جو اللہ نے اس میں اتارا اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کریں تو وہی لوگ فاسق ہیں،

And We sent, following in their footsteps, Jesus son of Mary, confirming the Torah before him and We gave to him the Gospel, wherein is guidance and light, and confirming the Torah before it, as a guidance and an admonition unto the godfearing. (46) So let the People of the Gospel judge according to what God has sent down therein. Whosoever judges not according to what God has sent down -- they are the ungodly.


اللہ کے کلام کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مندرجہ بالا دونوں مفہوم، آیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔
آیت، نبی کریم پر نازل ہو رہی ھے، اس وقت ، اللہ کی نازل کی ہوئی انجیل موجود بھی ھے اور اس میں ہدایت اور نور بھی ھے آیتPresent continuous میں ھے، آپ مفہوم غلط لے رہے ہیں۔

وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٦﴾ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤٧-٥﴾


اور ہم ان نبیوں کے پیچھے ان کے نشانِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو لائے تصدیق کرتا ہوا توریت کی جو اس سے پہلے تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تصدیق فرماتی ہے توریت کی کہ اس سے پہلی تھی اور ہدایت اور نصیحت پرہیزگاروں کو، (46) اور چاہئے کہ انجیل والے حکم کریں اس پر جو اللہ نے اس میں اتارا اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کریں تو وہی لوگ فاسق ہیں،

And We sent, following in their footsteps, Jesus son of Mary, confirming the Torah before him and We gave to him the Gospel, wherein is guidance and light, and confirming the Torah before it, as a guidance and an admonition unto the godfearing. (46) So let the People of the Gospel judge according to what God has sent down therein. Whosoever judges not according to what God has sent down -- they are the ungodly.
افسوس کہ آپ اللہ کی وحی احادیث مبارکہ کو تو تسلیم نہیں کرتے، لیکن تورات وانجیل جن میں قرآن کریم کے مطابق یہودیوں اور عیسائیوں نے تحریف کر دی ہے، آج تک بالکل صحیح سمجھتے ہیں۔

تو بھئی پھر اپنے مسائل کا حل یہودیوں عیسائیوں کی طرح تورات وانجیل سے کرو۔ کیوں اسلام، محمدﷺ اور قرآن کا نام لیتے ہو؟!!

اللہ کے کلام کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔
الله تعالیٰ اپنے کلام کو خود بھی مٹا سکتے ہیں۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ‌ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ١٠٦ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
جس آیت کو ہم منسوخ کردیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (106)

﴿ وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ‌ ۚ بَلْ أَكْثَرُ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ١٠١ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے اسے وه خوب جانتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ تو تو بہتان باز ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں (101)

﴿ يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ٣٩ ﴾ ۔۔۔ سورة الرعد
اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے، لوح محفوظ اسی کے پاس ہے (39)

اور اپنے جس کلام کی حفاظت کی ذمہ داری نہ لیں، اس میں اللہ کے بد بخت بندے بھی تحریف کر سکتے ہیں۔ جیسے یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ نے اللہ کی کتابوں تورات وانجیل میں تحریف کر دی۔
البتہ قرآن کریم اللہ کی ایسی کتاب ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود تو اس میں کئی احکامات میں تدریج رکھی ہے اور نسخ سے کام لیا ہے، لیکن کوئی دوسرا بدبخت شخص اس میں تحریف نہیں کر سکتا۔

تورات وانجیل میں یہودیوں، عیسائیوں نے تحریف کر دی، اس کے دلائل یہ ہیں، فرمانِ باری ہے:
﴿ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُ‌وا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ٧٩ ﴾ ۔۔۔ سورة البقرة
ان لوگوں کے لئے “ویل” ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ویل (ہلاکت) اور افسوس ہے (79)

﴿ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِ‌يقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ٧٨ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
یقیناً ان میں ایسا گروه بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حاﻻنکہ دراصل وه کتاب میں سے نہیں، اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وه اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حاﻻنکہ در اصل وه اللہ تعالی کی طرف سے نہیں، وه تو دانستہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں (78)

﴿ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّ‌فُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ‌ مُسْمَعٍ وَرَ‌اعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْ‌نَا لَكَانَ خَيْرً‌ا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَـٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِ‌هِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ٤٦ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے اور ہماری رعایت کر! (لیکن اس کے کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی اور آپ سنئےاور ہمیں دیکھیئے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے انہیں لعنت کی ہے۔ پس یہ بہت ہی کم ایمان ﻻتے ہیں، (46)

﴿ فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّ‌فُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُ‌وا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ١٣ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة
پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرمادی اور ان کے دل سخت کردیئے کہ وه کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے، ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی ہی رہے گی ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں پس توانہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا ره، بےشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (13)

﴿ يَا أَيُّهَا الرَّ‌سُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِ‌عُونَ فِي الْكُفْرِ‌ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِ‌ينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّ‌فُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُ‌وا ۚ وَمَن يُرِ‌دِ اللَّـهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِ‌دِ اللَّـهُ أَن يُطَهِّرَ‌ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ٤١ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدة
اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کُڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواه وه ان (منافقوں) میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے دل باایمان نہیں اور یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں اور ان لوگوں کے جاسوس ہیں جو اب تک آپ کے پاس نہیں آئے، وه کلمات کے اصلی موقعہ کو چھوڑ کر انہیں متغیر کردیا کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر تم یہی حکم دیئے جاؤ تو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ دیئے جاؤ تو الگ تھلگ رہنا اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لئے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اراده ان کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں، ان کے لئے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے بڑی سخت سزا ہے (41)
 
Top