• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کے بنیادی عقائد

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فتنہ قبر

تدفین کے بعد سے اس کے رب ،اس کے دین اور اس کے نبی کے متعلق سوال کیا جانا،پس اس بارے میں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ صحیح اور مضبوط بات کے ساتھ ثابت قدم رکھے گا،چنانچہ فوت ہونے والا جواب دے گا:
"میرا رب اللہ ہے،میرا دین اسلام اور محمد ﷺ میرے نبی ہیں۔"
اس کے برعکس ظالموں کو اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے گا،چنانچہ کافر کہے گا:
"افسوس ہائے افسوس ! میں کچھ نہیں جانتا۔"
اور منافق یا دین میں شک کرنے والا کہے گا:
"میں نہیں جانتا،میں نے لوگوں کو کچھ سُنا تو میں نے بھی کہہ دیا۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
قبر کا عذاب اور اس کی نعمتیں

ظالم ،منافق اور کافر کے لیے "عذاب قبر" مقرر ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِىَ إِلَىَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَىْءٌۭ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلظَّٰلِمُونَ فِى غَمَرَٰتِ ٱلْمَوْتِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ بَاسِطُوٓا۟ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوٓا۟ أَنفُسَكُمُ ۖ ٱلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ ٱلْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ غَيْرَ ٱلْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ ءَايَٰتِهِۦ تَسْتَكْبِرُونَ ﴿39﴾
ترجمہ: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرے۔ یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب اللہ نے نازل کی ہے اس طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں۔ اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم اللہ پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبرکرتے تھے (سورۃ الانعام،آیت 93)
اور آل فرعون کے متعلق ارشاد ربانی ہے:
ٱلنَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّۭا وَعَشِيًّۭا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا۟ ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿46﴾
ترجمہ: وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ (سورۃ غافر،آیت 46)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"اگر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ وہ تمہیں عذاب قبر میں سے سنا دے جو میں نے سنا ہے تو تم (اپنی میتوں کو )ہرگز دفن نہ کرو گے،پھر آپ نے فرمایا،عذاب جہنم سے اللہ کی پناہ مانگو،صحابہ نے کہا:ہم جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔آپ نے فرمایا :تم ظاہری اور پوشیدہ تمام آزمائشوں سے اللہ کی پناہ مانگو،صحابہ نے کہا:ہم ظاہری اور باطنی تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔آپ نے فرمایا:فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگو،صحابہ نے کہا:ہم فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔"(صحیح مسلم ،الجنۃ و نعیمھا،باب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار علیہ،واثبات عذاب القبر والتعوذ منہ،حدیث:2867)
جہاں تک قبر کی نعمتوں کا تعلق ہے تو یہ صرف سچے مومنوں کے لیے مخصوص ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ قَالُوا۟ رَبُّنَا ٱللَّهُ ثُمَّ ٱسْتَقَٰمُوا۟ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا۟ وَلَا تَحْزَنُوا۟ وَأَبْشِرُوا۟ بِٱلْجَنَّةِ ٱلَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿30﴾
ترجمہ: بے شک جنہوں نے کہا تھا کہ ہمارا رب الله ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور جنت میں خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا (سورۃ حم السجدۃ،آیت 30)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَوْلَآ إِذَا بَلَغَتِ ٱلْحُلْقُومَ ﴿83﴾وَأَنتُمْ حِينَئِذٍۢ تَنظُرُونَ ﴿84﴾وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴿85﴾فَلَوْلَآ إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ ﴿86﴾تَرْجِعُونَهَآ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿87﴾فَأَمَّآ إِن كَانَ مِنَ ٱلْمُقَرَّبِينَ ﴿88﴾فَرَوْحٌۭ وَرَيْحَانٌۭ وَجَنَّتُ نَعِيمٍۢ ﴿89﴾
ترجمہ: بھلا جب روح گلے میں آ پہنچتی ہے اور تم اس وقت کی (حالت کو) دیکھا کرتے ہو اور ہم اس (مرنے والے) سے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم کو نظر نہیں آتے پس اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو تو اگر سچے ہو تو روح کو پھیر کیوں نہیں لیتے؟ پھر اگر وہ (اللہ کے) مقربوں میں سے ہے تو (اس کے لئے) آرام اور خوشبودار پھول اور نعمت کے باغ ہیں (سورۃ الواقعۃ،آیت 83-89)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے مومن کے متعلق فرمایا ہے جب وہ اپنی قبر میں فرشتوں کے سوالات کا جواب دے چکے گا:
((فینادی مناد من السماء ان قد صدق عبدی فافرشوہ من الجنۃ والبسوہ منالجنۃ وافتحوا لہ بابا الی الجنۃ قال فیاتیہ من روحھا وطیبھا ویفتح لہ فیھا مد بصرہ))
"تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارے گا کہ سچ کہا میرے بندے نے،پس اس کے لیے جنت کا فرش بچھاؤ،اور اسے جنت کا لباس پہناؤ،اور اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو،چنانچہ اس کے پاس جنت کی ہوا اور خوشبو آنے لگے گی۔اور اس کی قبر جہاں تک نگاہ جائے گی وہاں تک کشادہ کر دی جائے گی۔(مسند احمد:4/287سنن ابی داود،السنۃ،باب المسالۃ فی القبر وعذاب القبر،حدیث:4753)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
یوم آخرت پر ایمان کے ثمرات

*اس دن کے اجر و ثواب کی امید و طلب میں اطاعت وفرمانبرداری کی رغبت اور اس کی حرص۔
*اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے نافرنای سے بے زار ہونا۔
*آخرت کی نعمتوں اور ثواب کی امید پر مومنوں کے لیے دنیاوی نعمتوں سے محرومی پر تسلی۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دوبارہ زندہ ہونے کے منکروں کا نظریہ اور اس کا رد

کافروں نے موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کیا،ان کا خیال ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا ممکن ہے لیکن ان کا یہ گمان باطل ہے،شریعت حس اور عقل اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شرعی نصوص سے منکرین بعث کا رد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
زَعَمَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَن لَّن يُبْعَثُوا۟ ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّى لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌۭ ﴿7﴾
ترجمہ: جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے۔ کہہ دو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے جائیں گے اور یہ (بات) اللہ کو آسان ہے
(سورۃ التغابن،آیت 7)
تمام کتب سماویہ اس امر پر متفق ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حسی دلیل سے منکرین بعث کا رد

اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا میں مردوں کو دوبارہ زندگی بخش کر اپنے بندوں کو اس چیز کا مشاہدہ کرادیا ہے ،چنانچہ سورۃ بقرہ ہی میں اس کی پانچ مثالیں مذکور ہیں ،جو درج ذیل ہیں:
*قوم موسی نے جب ان سے کہا کہ اے موسی!ہم تیری رسالت کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ،پس اللہ تعالیٰ نے ان کو مار ڈالا،پھر ان کو دوبارہ زندگی بخشی۔اسی واقعہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَإِذْ قُلْتُمْ يَٰمُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى ٱللَّهَ جَهْرَةًۭ فَأَخَذَتْكُمُ ٱلصَّٰعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ﴿55﴾ثُمَّ بَعَثْنَٰكُم مِّنۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿56﴾
ترجمہ: اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تیرا یقین نہیں کریں گے جب تک کہ روبرو الله کو دیکھ نہ لیں تب تمہیں بجلی نے دیکھتے ہی دیکھتے آ لیا پھر ہم نے تمہیں تمہاری موت کے بعد زندہ کر اٹھایا تاکہ تم شکر کرو (سورۃ البقرہ۔آیت 55-56)

*بنی اسرائیل کا ایک شخص ناحق مارا گیا جس کی ذمہ داری بنی اسرائیل میں سے کسی نے قبول نہ کی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گائے ذبح کرنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو میت پر مارنے کا حکم دیا تاکہ وہ انہیں اپنے قتل کی خبر دے۔اس قصے کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًۭا فَٱدَّٰرَتُمْ فِيهَا ۖ وَٱللَّهُ مُخْرِجٌۭ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿72﴾فَقُلْنَا ٱضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْىِ ٱللَّهُ ٱلْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿73﴾
ترجمہ: اور جب تم ایک شخص قتل کر کے اس میں جھگڑنے لگے اور الله ظاہر کرنے والا تھا اس چیز کو جسے تم چھپاتے تھے پھر ہم نے کہا اس مردہ پر اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو اسی طرح الله مردوں کو زندہ کرے گا اور تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو (سورۃ البقرۃ،آیت 72-73)

*بنی اسرائیل کی کئی ہزار افراد پر مشتمل ایک قوم موت کے خوف سے اپنی بستیوں سے نکل بھاگی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ موت سے کسی کو فرار حاصل نہیں ہے ان سب کو موت کی نیند سلا دیا،پھر ان کو زندہ فرمایا۔اس واقعہ کا تذکرہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ خَرَجُوا۟ مِن دِيَٰرِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ ٱللَّهُ مُوتُوا۟ ثُمَّ أَحْيَٰهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلنَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿243﴾
ترجمہ: کیا تم نے ان لوگو ں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے حالانکہ وہ ہزاروں تھے پھر الله نےان کو فرمایا کہ مرجاؤ پھر انہیں زندہ کر دیا بے شک الله لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے (سورۃ البقرۃ،آیت243)
*ایک شخص کا گزر کسی ویران اور تباہ شدہ بستی سے ہوا،بستی کی حالت دیکھ کر اسے یہ حیرت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کو (روز قیامت) کس طرح زندہ فرمائے گا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی روح بھی قبض کر لی اور اسے سو سال تک مردہ رکھا ،پھر اس کو زندہ فرمایا۔قرآن کریم میں اس واقعہ کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
أَوْ كَٱلَّذِى مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍۢ وَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْىِۦ هَٰذِهِ ٱللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ ٱللَّهُ مِا۟ئَةَ عَامٍۢ ثُمَّ بَعَثَهُۥ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍۢ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِا۟ئَةَ عَامٍۢ فَٱنظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَٱنظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ ءَايَةًۭ لِّلنَّاسِ ۖ وَٱنظُرْ إِلَى ٱلْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًۭا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ﴿259﴾
ترجمہ: یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھاکہا اسے الله مرنے کے بعد کیوں کر زندہ کرے گا پھر الله نے اسے سو برس تک مار ڈالا پھر اسے اٹھایا کہا تو یہاں کتنی دیر رہا کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا فرمایا بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا ہے اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑدیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 259)

*حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت کا مشاہدہ کرانے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں چار پرندوں کو ذبح کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے (آپس میں ملا کر ) آس پاس کے پہاڑوں پر منتشر کر دینے اور پھر ان کو آواز دینے کا حکم دیا ،چنانچہ تمام ٹکڑے ایک دوسرے سے جڑ گئے اور دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آ گئے۔اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا تذکرہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِى ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةًۭ مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍۢ مِّنْهُنَّ جُزْءًۭا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًۭا ۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴿260﴾
ترجمہ: اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتاہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑے پھر انہیں اپنے ساتھ ہلا لے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان لے کہ بے شک الله زبردست حکمت والا ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 260)

یہ چند ایسی واضح اور روشن مثالیں ہیں جو مردوں کے دوبارہ زندہ کیے جانے پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔
ان واقعات سے پہلے ہم اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو عطا کردہ نبوت کی نشانیوں میں سے ایک زبردست نشانی کا تذکرہ کر چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کس طرح مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے نکال لیتے تھے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
عقلی دلائل سے منکرین بعث کا رد

بے شک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں،زمین اور جو کچھ ان میں ہے ،سب کو پہلی بار،بغیر کسی نمونے ،وجود اور سابقہ مثال کے پیدا کیا ہے۔
ظاہر ہے کہ جو ہستی مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہو ،وہ اسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز نہیں ہو سکتی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَهُوَ ٱلَّذِى يَبْدَؤُا۟ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ
ترجمہ: اور وہی ہے جو پہلی بار بناتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور وہ اس پر آسان ہے (سورۃ الروم،آیت 27)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَوْمَ نَطْوِى ٱلسَّمَآءَ كَطَىِّ ٱلسِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍۢ نُّعِيدُهُۥ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا فَٰعِلِينَ ﴿104﴾
ترجمہ: جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ہے جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے بے شک ہم پورا کرنے والے ہیں (سورۃ الانبیاء،آیت 104)
جن لوگوں نے بوسیدہ اور گلی سڑی ہڈیوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کیا تھا ان کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ يُحْيِيهَا ٱلَّذِىٓ أَنشَأَهَآ أَوَّلَ مَرَّةٍۢ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ﴿79﴾
ترجمہ: کہہ دوانہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ سب کچھ بنانا جانتا ہے (سورۃ یس،آیت 79)
زمین پیاسی،بنجر اور مردار ہوتی ہے اس میں کوئی ہرا بھرا درخت نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے تو اس پر کتنا شاداب اور طراوت بخش سبزہ لہلہا اُٹھتا ہے ۔تو وہ قادر مطلق جو بنجر زمین کو زندہ اور شاداب کرنے پر قادر ہے اور مردوں کو دوبارہ زندگی بخشنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنْ ءَايَٰتِهِۦ أَنَّكَ تَرَى ٱلْأَرْضَ خَٰشِعَةًۭ فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِىٓ أَحْيَاهَا لَمُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰٓ ۚ إِنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ ﴿39﴾
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تو زمین کو دبی ہوئی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو ابھرتی ہے اور پھولتی ہے بے شک جس نے اسےزندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرے گا بے شک وہی ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ حم السجدۃ،آیت 39)
اور ایک جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے:
وَنَزَّلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ مُّبَٰرَكًۭا فَأَنۢبَتْنَا بِهِۦ جَنَّٰتٍۢ وَحَبَّ ٱلْحَصِيدِ ﴿9﴾وَٱلنَّخْلَ بَاسِقَٰتٍۢ لَّهَا طَلْعٌۭ نَّضِيدٌۭ ﴿10﴾رِّزْقًۭا لِّلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِۦ بَلْدَةًۭ مَّيْتًۭا ۚ كَذَٰلِكَ ٱلْخُرُوجُ ﴿11﴾
ترجمہ: اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا پھر ہم پھر ہم نے اس کے ذریعے سے باغ اگائے اور اناج جن کے کھیت کاٹے جاتے ہیں او رلمبی لمبی کھجوریں جن کے خوشے تہہ بہ تہہ ہیں بندوں کے لیے روزی اورہم نے اس سے ایک مردہ بستی کو زندہ کیا دوبارہ نکلنا اس طرح ہے (سورۃ ق،آیت 9-11)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
منکرین برزخ کا عقیدہ اور اس کا رد

بدنیت اور منحرف لوگوں کا ایک گروہ گمراہی کا شکار ہوا۔ان لوگوں نے اپنے اوہام باطلہ کی رو سے قبر کے عذاب اور اس کی راحتوں کا انکار کیا۔اور کہا کہ یہ ایک خلاف واقعہ اور ناممکن بات ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر قبر کھول کر مُردے کی حالت دیکھی جائے تو وہ اسی حالت میں پایا جاتا ہے جس میں دفن کیا گیا تھا اور قبر میں کوئی بھی تبدیلی کشادگی یا تنگی دیکھنے میں نہیں آتی۔ایسا گمان شریعت،حس اور عقل کی رو سے باطل ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شریعت کی رو سے اس کا رد

یوم آخرت پر ایمان کے باب میں "عذاب قبر اور اس کی نعمتیں" کے زیر عنوان عذاب قبر اور اس کی نعمتوں پر دلالت کردہ شرعی دلائل و نصوص گزر چکے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"نبی ﷺ مدینہ منورہ کے کسی باغ سے نکلے تو آپ نے دو مُردوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا "پھر پوری ھدیث سنا کر بتایا کہ "ان میں سے ایک پیشاب سے احتیاط اور طہارت نہیں رکھتا تھا"۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ دوسرا شخص چضل کور تھا۔(صحیح بخاری،الوضوء،باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ،حدیث:216،218)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حسی اعتبار سے اس کا رد

سونے والا شخص کبھی خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ بہت وسیع ،پر فضا اور کوش گوار مقام پر ہے اور وہاں طرح طرح کی نعمتیں اور راحتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے (تو وہ اپنے اندر فرحت و شادمانی محسوس کرتا ہے۔)اور اگر وہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ ایک وحشت ناک اور تنگ و تاریک جگہ پر ہے اور اس سے تکلیف محسوس کر رہا ہے (تو وہ غمگین اور رنجیدہ ہو جاتا ہے)کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواب دیکھنے والا شخص اپنے خواب سے چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے،حالانکہ وہ اپنے گھر کے کمرے میں اپنے ہی بستر پر لیٹا ہوتا ہے اور (ان رنج یا راحت کے مقامات پر نہ پہنچنے کے باوجود بھی راحت اور تکالیف کی کیفیات سے گزرتا ہے )جبکہ نیند تو موت کی چھوٹی بہن ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام "وفاۃ" رکھا ہے،ارشاد ہوتا ہے:
ٱللَّهُ يَتَوَفَّى ٱلْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَٱلَّتِى لَمْ تَمُتْ فِى مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ ٱلَّتِى قَضَىٰ عَلَيْهَا ٱلْمَوْتَ وَيُرْسِلُ ٱلْأُخْرَىٰٓ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّى ۚ
ترجمہ: اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے (سورۃ الزمر،آیت 42)
 
Top