حسی دلیل سے منکرین بعث کا رد
اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا میں مردوں کو دوبارہ زندگی بخش کر اپنے بندوں کو اس چیز کا مشاہدہ کرادیا ہے ،چنانچہ سورۃ بقرہ ہی میں اس کی پانچ مثالیں مذکور ہیں ،جو درج ذیل ہیں:
*قوم موسی نے جب ان سے کہا کہ اے موسی!ہم تیری رسالت کا ہرگز یقین نہ کریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ،پس اللہ تعالیٰ نے ان کو مار ڈالا،پھر ان کو دوبارہ زندگی بخشی۔اسی واقعہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَإِذْ قُلْتُمْ يَٰمُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى ٱللَّهَ جَهْرَةًۭ فَأَخَذَتْكُمُ ٱلصَّٰعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ﴿55﴾ثُمَّ بَعَثْنَٰكُم مِّنۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿56﴾
ترجمہ: اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تیرا یقین نہیں کریں گے جب تک کہ روبرو الله کو دیکھ نہ لیں تب تمہیں بجلی نے دیکھتے ہی دیکھتے آ لیا پھر ہم نے تمہیں تمہاری موت کے بعد زندہ کر اٹھایا تاکہ تم شکر کرو (سورۃ البقرہ۔آیت 55-56)
*بنی اسرائیل کا ایک شخص ناحق مارا گیا جس کی ذمہ داری بنی اسرائیل میں سے کسی نے قبول نہ کی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گائے ذبح کرنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو میت پر مارنے کا حکم دیا تاکہ وہ انہیں اپنے قتل کی خبر دے۔اس قصے کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًۭا فَٱدَّٰرَتُمْ فِيهَا ۖ وَٱللَّهُ مُخْرِجٌۭ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿72﴾فَقُلْنَا ٱضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْىِ ٱللَّهُ ٱلْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿73﴾
ترجمہ: اور جب تم ایک شخص قتل کر کے اس میں جھگڑنے لگے اور الله ظاہر کرنے والا تھا اس چیز کو جسے تم چھپاتے تھے پھر ہم نے کہا اس مردہ پر اس گائے کا ایک ٹکڑا مارو اسی طرح الله مردوں کو زندہ کرے گا اور تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو (سورۃ البقرۃ،آیت 72-73)
*بنی اسرائیل کی کئی ہزار افراد پر مشتمل ایک قوم موت کے خوف سے اپنی بستیوں سے نکل بھاگی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ موت سے کسی کو فرار حاصل نہیں ہے ان سب کو موت کی نیند سلا دیا،پھر ان کو زندہ فرمایا۔اس واقعہ کا تذکرہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ خَرَجُوا۟ مِن دِيَٰرِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ ٱلْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ ٱللَّهُ مُوتُوا۟ ثُمَّ أَحْيَٰهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلنَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿243﴾
ترجمہ: کیا تم نے ان لوگو ں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے حالانکہ وہ ہزاروں تھے پھر الله نےان کو فرمایا کہ مرجاؤ پھر انہیں زندہ کر دیا بے شک الله لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے (سورۃ البقرۃ،آیت243)
*ایک شخص کا گزر کسی ویران اور تباہ شدہ بستی سے ہوا،بستی کی حالت دیکھ کر اسے یہ حیرت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کو (روز قیامت) کس طرح زندہ فرمائے گا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی روح بھی قبض کر لی اور اسے سو سال تک مردہ رکھا ،پھر اس کو زندہ فرمایا۔قرآن کریم میں اس واقعہ کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
أَوْ كَٱلَّذِى مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍۢ وَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْىِۦ هَٰذِهِ ٱللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ ٱللَّهُ مِا۟ئَةَ عَامٍۢ ثُمَّ بَعَثَهُۥ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍۢ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِا۟ئَةَ عَامٍۢ فَٱنظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَٱنظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ ءَايَةًۭ لِّلنَّاسِ ۖ وَٱنظُرْ إِلَى ٱلْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًۭا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ﴿259﴾
ترجمہ: یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھاکہا اسے الله مرنے کے بعد کیوں کر زندہ کرے گا پھر الله نے اسے سو برس تک مار ڈالا پھر اسے اٹھایا کہا تو یہاں کتنی دیر رہا کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا فرمایا بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا ہے اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑدیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 259)
*حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت کا مشاہدہ کرانے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں چار پرندوں کو ذبح کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے (آپس میں ملا کر ) آس پاس کے پہاڑوں پر منتشر کر دینے اور پھر ان کو آواز دینے کا حکم دیا ،چنانچہ تمام ٹکڑے ایک دوسرے سے جڑ گئے اور دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آ گئے۔اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا تذکرہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِى ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةًۭ مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍۢ مِّنْهُنَّ جُزْءًۭا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًۭا ۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴿260﴾
ترجمہ: اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتاہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑے پھر انہیں اپنے ساتھ ہلا لے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان لے کہ بے شک الله زبردست حکمت والا ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 260)
یہ چند ایسی واضح اور روشن مثالیں ہیں جو مردوں کے دوبارہ زندہ کیے جانے پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔
ان واقعات سے پہلے ہم اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو عطا کردہ نبوت کی نشانیوں میں سے ایک زبردست نشانی کا تذکرہ کر چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کس طرح مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے نکال لیتے تھے۔