کافر حکمرانوں کی تکفیر نہ کرنا فتنہ کا باعث ہے ۔
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
میرے پہلے خط کا جواب دینے پر میں آپ کا شکرگزار ہوں۔
میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں....اور خواہاں ہوں کہ آپ ان شاءاللہ اس پر عمل کریں گے....وہ یہ کہ بعض ایسے مضامین یابعض ایسی کتب لکھی جائیں جو امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے کی سعودی مملکت اورآج کی سعودی مملکت کی حالتوں کے درمیان شریعت کے نفاذ کے حوالے سے فرق واضح کریں اور ایسی حکومتوں کے متعلق نقطہ نظر واضح کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ہٹ کر نظام چلاتی ہیں ۔
اور میں یہ بھی امید کرتاہوں کہ آپ عبد العزیز بن سعودکے آباؤ و اجدادکے بارے میں اپنی رائے بیان کریں جنہوں نے امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک میں معاونت کی۔
اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرے اس سوال کا جواب دیں:
کیا شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ دونوںشیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آل الشیخ سے( اُن کے )سعودی حکومت سے شریعت نافذ نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف کرنے پراتفاق کرتے ہیں؟ اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟
میں ان سوالوں پرآپ کے صبر و تحمل کے لئے شکر گزار ہوں۔
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
بسم اﷲ والحمد ﷲ والصلٰوة والسلام علٰی رسول اﷲ۔
برادرِ گرامی، السلام علیکم ورحمة اللہ،
مجھے آپ کا خط ملا ہے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے، جس میں آپ نے کہا ہے:
” میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں....اور خواہاں ہوں کہ آپ ان شاءاللہ اس پر عمل کریں گے....وہ یہ کہ بعض ایسے مضامین یابعض ایسی کتب لکھی جائیں جو امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے کی سعودی مملکت اورآج کی سعودی مملکت کی حالتوں کے درمیان شریعت کے نفاذ کے حوالے سے فرق واضح کریں اور ایسی حکومتوں کے متعلق نقطہ نظر واضح کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ہٹ کر نظام چلاتی ہیں ۔ اور میں یہ بھی امیدکرتا ہوں کہ آپ عبد العزیز بن سعودکے آباؤ و اجدادکے بارے میں اپنی رائے بیان کریں جنہوں نے امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک کی معاونت کی ۔“
اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو اس مشورے پر جزائے خیر عطا فرمائے ،اور مجھے امید ہے کہ میں اس پر عمل کر سکوں گا،اگرچہ جزوی طور پر....اپنے ان کاموں کی ضخامت اورکثرت کو مد نظر رکھتے ہوئے جنہیں ابھی مکمل کرنا باقی ہے، بہرحال، ہم نے اس مسئلے کا تذکرہ اپنی کتاب ’الکواشف الجلیة‘(واضح کرنے والی روشنیاں)میں کیا ہے جس میں ہم نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ ہم آلِ سعود یا ان کے علاوہ بھی کسی کو اس وقت تک کافرتصور نہیں کرتے جب تک وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جوناقضِ توحید ہویا پھر کفریات کے ضمرے میں شمار ہوتا ہو۔ بلکہ ہم نے توکتاب کی ابتداءمیں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے میں عبد العزیز بن سعودکا انہی خطوط پر تذکرہ کیا ہے۔
پس برادرِ گرامی، آلِ سعود کے لئے ہماری عداوت اور ان کی تکفیر کرنا اس طرح نہیں ہے جس طرح بہت سے جاہل جہالت، قومیت یا دنیاوی مفادات اورمیل ملاپ کو بنیاد بنا کر(عداوت یا تکفیر) کرتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ ان رافضین (اہلِ تشیع کا سب سے بڑا گروہ جو بنیادی طور پر ایران ،عراق اور کچھ خلیجی ممالک کے علاوہ لبنان اور پاکستان میں پایا جاتا ہے) اور ان جیسے لوگوں کے (عداوت یا تکفیر)کرنے کی مانند ہے جو اپنے بیانات میں آلِ سعود کے پہلے ارکان، جنہوں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک کی‘ اور ان کی پیروی کرنے والوں کی معاونت کی ،اور بعد کے ارکان جنہوں نے انسانوں کے وضع کردہ قوانین نافذ کئے اوراپنی وفاداریاں اپنے انسانی خداؤں کے نذرکیں اور مشرکوں کو مسلمانوں پر ترجیح دی؛ دونوں نسلوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے ....نہ ہم ان جیسے ہیں اور نہ ہی ان جیسا ہونا ہمارے حق میں اچھاہے....اس کے برعکس، ہم اس موضوع کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور واضح طور پر ان امور کا ذکر کرتے ہیں جو کفر کی جانب لے جاتے ہیں تا کہ دورِ حاضر میں آلِ سعود کا کوئی بھی رکن جس پر یہ(امور) لاگو نہ ہو رہے ہوں وہ اس فتوے کے(اُس پر) اطلاق سے مستثنیٰ رہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آلِ سعود میں کوئی ایک بھی موحد مسلمان نہیں ہے اورمعاذ اللہ کہ ہم حد سے گذرے ہوئے یا جاہل لوگوں کی طرح تعمیم(کسی بات کا سب پرعمومی اطلاق)کریں،چاہے وہ(تعمیم) آلِ سعود کے حاضرارکان کے متعلق ہو یا جو گذر گئے ان کے متعلق یا کسی بھی اور کے متعلق۔
اور ’الکواشف الجلیة‘میں ہماری بحث واضح اور عیاں ہے کہ ہم آلِ سعود کے ان افراد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جنہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کے علاو ہ دیگر قوانین کو نافذ کیا،یاکسی بھی سطح پر....چاہے مقامی‘یاعلاقائی‘ یا عالمی....ان قوانین کا نفاذ کیا، یا کفار سے وفاداری نبھائی اورموحدین کے خلاف ان کی معاونت کی،یا حقیقی توحید اور اس کے پیروکاروں کے خلاف جنگ برپا کی،یا ان امورکے علاوہ کسی اور واضح اور کھلے کفریہ عمل کا ارتکاب کیا ؛اور جوکوئی بھی ایسے اعمال کا مرتکب نہیں اور جس کے پاس اصل اسلام ہے تو وہ ہمارا بھائی ہے اور اس کے حقوق و فرائض ویسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہیں،چاہے وہ آلِ سعود میں سے ہے یا ان کے علاوہ کوئی بھی اور ہے ،چونکہ بطورمسلمان ہمارے معیارات،نقطہ ہائے نظر،فہم اور احکامات کی بنیاد اسلام پر قائم ہے،جاہلیت پر نہیں۔
بے شک ایمان کا مضبوط ترین کڑااللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے محبت اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے نفرت، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے دوستی اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ہی دشمنی ہے۔ ہم اس شخص کو دوست رکھتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں جو مؤمن ہو چاہے نسب اور وطن کے اعتبار سے ہم سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، اور اس شخص سے نفرت،براءت اور دشمنی رکھتے ہیں جو مشرک یا کافر ہو چاہے نسب اوروطن کے اعتبار سے ہمار ا کتنا ہی قرابت دار کیوں نہ ہو۔
اور آپ نے کہا ہے:(اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرے اس سوال کا جواب دیں:کیا شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ شیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آلِ الشیخ سے ان کے سعودی حکومت سے شریعت نافذ نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف کرنے پراتفاق کرتے ہیں؟ اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟)
میں کہتا ہوں:بلا شبہ اصولی طور پر وہ اتفاق کرتے ہیں؛نہ شیخ ابن باز اور نہ ہی شیخ ابن عثیمین احکام اللہ کے علاوہ کسی دیگر قوانین کے استعمال کو درگذر کے قابل سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کی اجازت دیتے ہیں اور،اوریہ بات بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ وہ شریعت کے عدم نفاذ کے مخالف ہیں ۔لیکن جب اس ضمن میں خصوصی طور پر سعودی نظام کی بات آتی ہے،تو پھرمجھ پر ان کی مخالفت کسی بات سے عیاں نہیں ہوتی۔بلکہ الٹا ہم انہیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس نظام کا دفاع کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور میں ان کے متعلق یہ بات خودساختہ طور پر نہیں کہہ رہا....ہر گز نہیں،کہ مجھے بھی ان کے ہمراہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے (اور میں جوابدہ ہوں گا) ،لیکن ان کی باتیں اور فتوے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں۔مثال کے طور پر ابن باز کا یہ بیان دیکھئے:
”اور یہ سعودی مملکت ایک مبارک مملکت ہے اور اس کے حکمران حق قائم کرنے،اور انصاف قائم کرنے ،اور مظلوم کی مدد کرنے، اور ظالم کا راستہ روکنے، اور امن و امان بحال رکھنے ، اور لوگوں کے اموال اور آبرو کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔“ یہ الفاظ شیخ کے ایک آڈیو کیسٹ بیان،مؤرخہ 29/4/1417ھ،بعنوان’حکمرانوں کے عوام پر حقوق‘(حقوق ولاة الامرعلی الامة) سے اخذ کئے گئے ہیں ۔
اور میں کہتا ہوں کہ مملکت کی اصل حقیقت کسی بھی عاقل اور صاحبِ فہم شخص سے مخفی نہیں ہے اور ہم اپنی کتاب’الکواشف الجلیة‘ میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ وہ کونسی باتیں ہیں جو اس مذکورہ بیان کومسترد کرتی ہیں اور اس کی تردید فراہم کرتی ہیں ،اور ہم ہر اس شخص کو اس کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جو اس مملکت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے یا جس نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس کی حقیقت سے صرفِ نظر کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
آپ شیخ کی ان تحریروں کا بھی جائزہ لیں جو انہوں نے نامور علماءکی کمیٹی کے ہمراہ ان چار مجاہد بھائیوں کے متعلق لکھیں جنہیں اس دعوے پر سزائے موت دی گئی تھی(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان پر رحم فرمائے) کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ آراءہیں جبکہ در حقیقت یہ سزائے موت ایک کافر کے قتل کے بدلے میں مسلمان کا قتل تھی،چہ جائیکہ وہ اس کا اقرار نہیں کرتے۔ وہ بھائی اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے خلاف محاذ آراءنہیں تھے بلکہ وہ امریکیوں اور ان کے چیلوں کے خلاف محاذ آراءتھے جو اصل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔آپ اس بیان کو پڑھیں اور اس میں ان (شیخ)کی مملکت کے لئے حمایت اور جہاد اور مجاہدین پر حملے کا عنصردیکھیں۔
انہی خطوط پران کے کلام کی ایک اور مثال نامور علماءکی کمیٹی،جس کے رکن شیخ ابن باز بھی تھے، کی جانب سے آنے والا ایک بیان ہے جس میں جہیمان رحمہ اللہ کی تحریروں سے عوام الناس کو متنبہ کیا گیا تھا،جو(تحریریں) جہیمان رحمہ اللہ کے پیروکار طلبائے علم قبل ازطباعت شیخ ابن باز سے (جائزے اور توثیق کے لئے ) پڑھوا بھی چکے تھے۔کوئی بھی منصف اور دیانتدار شخص ان تحریروں کا مطالعہ کر کے بذاتِ خود اس امر کی تصدیق کر سکتا ہے کہ درج ذیل بیان درست ہے یا نہیں؛یہاں یہ ذہن نشین رہے کہ میرا اس (بحث)سے جہیمان اور ان کے پیروکاروں(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان پر رحم فرمائے)کی تحریروں کی توثیق کرناہر گز مقصود نہیں کیونکہ میں ان سے اس بات پر عدم اتفاق کرتا ہوں کہ وہ حکومت اور اس کے مددگاروں کو کافر نہیں سمجھتے اور نہ ہی ایسا سمجھنے والوں سے اتفاق کرتے ہیں؛لیکن یہ وہ بات نہیں ہے جس کے متعلق نامور علماء(جہیمان رحمہ اللہ کی تحریروں سے) متنبہ کرتے ہیں،بلکہ وہ جس بات سے متنبہ کرتے ہیں اور جسے گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات قرار دیتے ہیں وہ جہیمان رحمہ اللہ کا ان کے امام حکمران کی بیعت کو رد کرنا اور اسے باطل قرار دینا ہے، جیسا کہ یہ بات ہر اس شخص کے علم میں ہے جس نے اس کی تحریریں پڑھی ہیں اور اس تجربے سے گذرچکا ہے۔
اس بیان میں ا نہوں نے کہا:”اور چونکہ یہ کمیٹی اس ظالم گروہ میں یہ تصور دیکھتی ہے، تو یہ اس کی تحریروں میں گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات پاتی ہے جن کو یہ(کمیٹی) شر،فتنے، گمراہی، بدامنی اور شورش ،اور ملک کو قوم کے مفادات میں ہیر پھیر کے بیج تصورکرتی ہے۔یہ تحریریں ایسے دعووں پر مشتمل ہیں جو بعض سادہ لوح افراد کو اپنی ظاہری صورت سے ورغلا دیتے ہیں جبکہ ان میں سخت خطرات پوشیدہ ہوتے ہیں، اور یہ کمیٹی اس بات کوعیاں کرتی ہے اور اس کی اعلانیہ مذمت کرتی ہے اور تمام مسلمانوں کوان تحریروں میں موجود گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات سے متنبہ کرتی ہے ۔مزید برآں، کمیٹی اس موقع پر.... اور اس مناسبت پر کہ عزت مآب شاہ خالد بن عبد العزیز(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور ہر خیر پر ان کی مدد و اعانت فرمائے)کی حکومت نے اس فتنے کا سد باب کیا....اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر بجا لاتی ہے کہ اس نے فتنے کی سرکوبی کے اسباب عطا فرمائے،اور اس کے حضور دعا گو ہے کہ اس ملک اور تمام مسلم ممالک کی ہر شر سے حفاظت فرمائے اور،ان کو حق پر متحد کرے اور ان کے حکمرانوں کی مدد فرمائے اور ان کو اسلام کے ذریعے قوت وعزت عطا فرمائے اور اسلام کوان کے ذریعے قوت و عزت عطا فرمائے اور ان (حکمرانوں)کو صالح اور معاون خدمتگار عطا فرمائے جو نیکی میں ان کی مدد کریں اور غلطی کی صورت میں ان کی رہنمائی کریں اور بھول چوک کی صورت میں ان کو یاد دہانی کروائیں،اور(ہم دعا گو ہیں کہ )حق قائم ہو جائے اور باطل مسخ ہو جائے اگرچہ کہ ایسا ہونا ظالم، کینہ پرور، مکار اور حاسد قسم کے مجرموں کو ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہو۔اور کمیٹی حکومت کی ان عظیم کوششوں کو بھی سراہتی ہے جو اس نے طاقت اور حکمت اور بصیرت کے استعمال سے اس فتنے کی سرکوبی کے لئے سرانجام دی ہیں اور ہر اس فرد کی شکر گزارہے جس نے اس مسئلے پر قابو پانے میں اپنے ہاتھ یا زبان یا قلم سے شرکت کی ؛اور اس میں سرِفہرست عزت مآب شاہ اور ان کے ولی عہد ،ان کے وفادارخدمتگار اور عسکری قوتوں کے مختلف درجات اور مراتب کے افراد ہیں،اور ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ان کے مقتولین کے لئے مغفرت اور رحمت اوربے پناہ ثواب اور ان کے زندوں کے لئے اجرِ عظیم اور حق پر ثابت قدمی اور ہدایت کے طلبگار ہیں،واللہ جسبنا و نعم الوکیل (اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارا کارساز اور بہترین چارہ گر ہے)و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ و سلم۔“
پس میں حکومت کی موافقت اور اتباع اور تائید اور مدح سرائی میں کی گئی ان مبالغہ آرائیوں کو کسی طرح بھی شیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آل الشیخ کے سعودی نظام کے متعلق واضح اعتراضات اورکھلی تردیدوں پر مبنی نقطہ نظر سے باہم موافق نہیں دیکھتا،اور ان( شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ ) کا نقطہ نظر ان کے فتووں میں واضح طور پر نظر آتا ہے اور ہم نے ان میں سے بہت سا مواد (اپنی کتاب)الکواشف میں نقل کیا ہے....یہاں یہ وضاحت کرتا چلا جاؤں کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے وقت میں عبد العزیزکے کفریہ اعمال آج ان کی اولادوں سے سرزد ہونے والے کفریہ اعمال کی مانند واضح اور کھلے عام نہیں تھے (یعنی ان کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں،اس کے باوجود بھی شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ ان کم درجے کی کفریات پر بھی اتنے معترض تھے تو پھر آج کے دور میں جن کفریات کا ارتکاب کیا جا رہا ہے وہ کس قدرزیادہ اور حد سے بڑھ کر ہوں گی !)
جہاں تک شیخ ابن عثیمین کا معاملہ ہے،تو میری نظر سے ان کی ایک تحریر گذری ہے جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں،اور اسے چھپاؤں گا نہیں....کہ اہلِ حق اپنے نقطہ نظر سے موافق اور اس سے مخالف ہر دو طرح کے دلائل کو ملحوظِ نظر رکھتے ہیں....اس میں وہ فرماتے ہیں:
”اور یہ سعودی مملکت، شریعت کے نفاذ کے لحاظ سے ہمارے علم میں موجود تمام مسلم ممالک میں افضل ترین ہے،اور یہ ایک آنکھوں دیکھا معاملہ ہے ۔اور ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سو فیصد درست ہے،بلا شبہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں اور ظلم اور اجارہ داری بھی ہے، لیکن اگر ظلم کا عدل کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہم ظلم کو نسبتاً کم پائیں گے۔ اور یہ بھی ظلم ہے کہ انسان کسی کی خرابیاں دیکھے اور اچھائیاں نظر انداز کر دے،اور ایسی صورت میں(کہ جہاں اچھائیاں برائیاں دونوں ہوں)انسان پر واجب ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول کے مطابق عدل وانصاف سے کام لے:”یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداءللّہ و لو علی انفسکم و الاقربین“(اے ایمان والو!عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودیٔ مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ،گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے )[النساء]اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول کے مطابق بھی:”یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین للّہ شھداءبالقسط ولا یجرمنکم شنئان قوم علی الّا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی واتقوا اللّٰہ“(اے ایمان والو!تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ،راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ،کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کرے،عدل کیا کرو جو پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو)[المائدہ]“(کھلے دروازے میں سے ملاقات ”لقاءالباب المفتوح“سے ماخوذسوال نمبر956)
شیخ نے یہاں مملکت سے کچھ اختلاف کیا ہے اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے جسے ہم نظر انداز کرتے ہیں اور نہ ہی چھپاتے ہیں۔اس کے باوجود اختلاف کی ان دونوں صورتوں(شیخ ابن عثیمین اور شیخ محمد ابراہیم کے طرزِ اختلاف)میں بے پناہ فرق ہے کہ شیخ محمد ابراہیم مملکت کی اس کوشش پرکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو محتلف ناموں اور شکلوں کی آڑ میں جائز قرار دے کرنافذ کرے ، ہر گز خاموش نہ رہے اور تا دمِ مرگ اس کی تردید کرتے رہے ،جبکہ ان کے طرزِ عمل کا موازنہ اب ایک ایسے شخص سے ہو رہا ہے جو معاملے کی نوعیت کوتخفیف کر کے محض کچھ ظلم اور اجارہ داری اورخامیوںکی صورت میں پیش کررہا ہے،کہ ایسا لگنے لگے جیسے یہ محض وہ سختیاں ہیں جن کی موجودگی کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے مسلمان حکمرانوں کے حوالے سے کیا تھا اور انصار کو ان پر صبر کرنے کا حکم دیا تھا(جبکہ شریعت کا نفاذ نہ کرنا اور اس کے بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرنا ایک سنگین جرم ہے اور محض ظلم،اجارہ داری اور عام خامیوں جیسا خفیف معاملہ نہیں)....پس شیخ (ابن عثیمین)بھی اپنی دیگر تحریروں اور فتاویٰ میں ان حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں!!اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے منع کرتے ہیں!!اور ہر اس شخص کی بھی تردید اور تذلیل کرتے ہیں جو اُن کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو یاان کی تکفیر کرے ۔
جہاں تک خط کے آخر میں آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ:(اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟)
میں ایسا نہیں کہتا اور جو کوئی بھی عمومی طور پر ان کے علم اور سمجھ کو دیکھتا ہے....(قطع نظر حکمرانوں کے متعلق ان کے بیانات کے،اوران بیانات میں میں پائے جانے والی تبدیلیوں کے جومملکت اوراس کے حکمرانوں (کے مراتب کے حساب سے ان) کے درمیان تعلق میں پائی جانے والی تبدیلیوںسے مطابقت رکھتی ہیں،اور ان کے اپنے ملک کے حکام کی بیعت کے متعلق موقف اور ان سے مخالفت کرنے والوں کے متعلق موقف کے)....وہ جانتا ہے کہ یہ دونوں شیخ شریعت کے علماءہیں اوران کے اصول و قواعد درست سلفیت پر مبنی ہیں،اور (حکمرانوں سے متعلق) مذکورہ بالاعناوین کے علاوہ دیگر مضامین پر ایک دنیا نے ان سے استفادہ حاصل کیا ہے ، اوریہ میرے سمیت آج کے بہت سے علماءکے استاد رہے ہیں؛لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان مذکورہ موضوعات پر ان کی غلطیوں سے اتفاق کر لیں اور نہ ہی یہ کہ ہم ان غلطیوں پر خاموشی اختیار کر لیں اور ان کی تردید نہ کریں....بلکہ ہم ان کی ہر غلطی کا اس کی نوعیت حساسیت کے مطابق انکار کرتے ہیں(یعنی جتنی بڑی غلطی اتنا سخت انکار ) ....اوراس بات کی بنیاد پر اگر کوئی ہمیں ملامت کرے یا ہم پر ذاتی سطح پر حملہ کرے اور لوگوں کو ہماری تحریروں سے بد دل کرنے کی کوشش کرے ،یا اس (فعل)کو طواغیت* اور ان کے چیلوں کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرے تو بھی ہمیں اس سے کوئی نقصان یا پریشانی نہیں ،کہ ہمارے اور ان سب کے درمیان فیصلہ کرنے والاوہ ہے جو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید جانتا ہے اورجلد ہی سب اس کے حضور جمع ہوں گے اور سب تنازعات طے کئے جائیں گے۔
و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین۔
آپ کا بھائی ابو محمدعاصم المقدسی حفظہ اللہ
منبر التوحید والجہاد
* ہر وہ شخص شئے جس کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بجائے پرستش/ عبادت کی جائے ،اور اس میں وہ ظالم حکمران بھی شامل ہیں جو اسلام کے خلاف جنگ برپا کرتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے انسانی قوانین بھی شامل ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے متبادل وضع کئے جاتے ہیں۔
ابو محمد عاصم المقدسی حفظہ اللہ فک اللہ علی اسرہ ایک پوچھے گئے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں[JUSTIFY]فتنہ تکفیر
الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاءوالمرسلین
آج کل کے دور میں تکفیر کا فتنہ مسلمانوں کیلئے بہت نقصان کا باعث ثابت ہوا ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان حضرات کے پاس کون کون سے دلائل ہیں جن سے یہ اہل حق کو گمراہ کرنے کی جسارت کرتے ہیں ۔ جب بھی ایسا کوئی شخص آپ کو ملے گا تو جو فتنہ تکفیر کا شکار ہو چکا ہو وہ سب سے پہلے آپ سے الولا والبراءپر گفتگو کرے گا۔
(۱) الولاءو البراء:
ان حضرات کے ہاں امام کعبہ اور عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ کافر ہیں کیوں کہ وہ ایک ایسی حکومت کے تحت ہیں جو کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ دوستی رکھتی ہیں ۔ اور وہ دلیل قران کی اس آیت سے دیں گے
ومن یتولھم منکم فانہ منھم
کہ جو کوئی تم مسلمانوں میں سے ان (کافروں ) سے دوستی لگائے گا وہ انہی میں سے ہے۔ تو سعودی حکمران کافر ہیں لہذا انکی حکمرانی میں رھنے والے علماءبھی کافر ہیں ۔
محترم بھائیو یہ انتہائی گمراہ کن بات ہے ۔ قران مجید میں اللہ تبارک و تعالی نے واضح کافر ہونے کے لئے جو شرط رکھی ہے وہ سورة النحل کی آیت نمبر 106ہے۔ ترجمہ “جو کوئی ایمان لانے کے بعد کفر کرے، لیکن (وہ نہیں ) جس کواس پر مجبور کیا جائے اور اسکا دل (اسلام ) ایمان پر مطمئن ہو، اور اسکو کفر پر شرح صدر حاصل ہو تو اسکے لئے اللہ تبارک و تعالی کا غضب ہے اور اس کے لئے عذاب عظیم ہے ۔ “
محترم بھائیو اس آیت کی رو سے کافر وہ ہے جو کفر پر شرح صدر کے ساتھ قائم ہو اور یہ بندہ نہ تو کوئی عذر پیش کرے نہ ہی تاویل کرے نہ ہی مجبو کیا گیا ہو۔
مثال ایک شراب پینے والا آپکی اصلاح پر اعتراف جرم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کام غلط ہے تو ایسا شخص شرح صدر کے ساتھ شراب کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ بلکہ وہ شخص جو کہ شراب پئےاور شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہے کہ شراب پینا جائز ہے ان دونوں میں فرق ہے۔
لہذا کسی شخص کی بھی تکفیر کے لئے اس شخص کا شرح صدر کے ساتھ اس کفر پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جب تک ایسے شخص کا موقف خو د سے دریافت نہ کیا جائے گا اور توبہ کروا لینے کے باوجود وہ کفر پر قائم رہے اس سے پہلے ہم اسکے بارے میں کوئی بات نہیں کہ سکتے اور نہ ہی کسی قسم کا حکم جاری کر سکتے ہیں ۔
[/JUSTIFY]
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
میرے پہلے خط کا جواب دینے پر میں آپ کا شکرگزار ہوں۔
میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں....اور خواہاں ہوں کہ آپ ان شاءاللہ اس پر عمل کریں گے....وہ یہ کہ بعض ایسے مضامین یابعض ایسی کتب لکھی جائیں جو امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے کی سعودی مملکت اورآج کی سعودی مملکت کی حالتوں کے درمیان شریعت کے نفاذ کے حوالے سے فرق واضح کریں اور ایسی حکومتوں کے متعلق نقطہ نظر واضح کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ہٹ کر نظام چلاتی ہیں ۔
اور میں یہ بھی امید کرتاہوں کہ آپ عبد العزیز بن سعودکے آباؤ و اجدادکے بارے میں اپنی رائے بیان کریں جنہوں نے امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک میں معاونت کی۔
اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرے اس سوال کا جواب دیں:
کیا شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ دونوںشیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آل الشیخ سے( اُن کے )سعودی حکومت سے شریعت نافذ نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف کرنے پراتفاق کرتے ہیں؟ اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟
میں ان سوالوں پرآپ کے صبر و تحمل کے لئے شکر گزار ہوں۔
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
بسم اﷲ والحمد ﷲ والصلٰوة والسلام علٰی رسول اﷲ۔
برادرِ گرامی، السلام علیکم ورحمة اللہ،
مجھے آپ کا خط ملا ہے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے، جس میں آپ نے کہا ہے:
” میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں....اور خواہاں ہوں کہ آپ ان شاءاللہ اس پر عمل کریں گے....وہ یہ کہ بعض ایسے مضامین یابعض ایسی کتب لکھی جائیں جو امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے کی سعودی مملکت اورآج کی سعودی مملکت کی حالتوں کے درمیان شریعت کے نفاذ کے حوالے سے فرق واضح کریں اور ایسی حکومتوں کے متعلق نقطہ نظر واضح کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ہٹ کر نظام چلاتی ہیں ۔ اور میں یہ بھی امیدکرتا ہوں کہ آپ عبد العزیز بن سعودکے آباؤ و اجدادکے بارے میں اپنی رائے بیان کریں جنہوں نے امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک کی معاونت کی ۔“
اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو اس مشورے پر جزائے خیر عطا فرمائے ،اور مجھے امید ہے کہ میں اس پر عمل کر سکوں گا،اگرچہ جزوی طور پر....اپنے ان کاموں کی ضخامت اورکثرت کو مد نظر رکھتے ہوئے جنہیں ابھی مکمل کرنا باقی ہے، بہرحال، ہم نے اس مسئلے کا تذکرہ اپنی کتاب ’الکواشف الجلیة‘(واضح کرنے والی روشنیاں)میں کیا ہے جس میں ہم نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ ہم آلِ سعود یا ان کے علاوہ بھی کسی کو اس وقت تک کافرتصور نہیں کرتے جب تک وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جوناقضِ توحید ہویا پھر کفریات کے ضمرے میں شمار ہوتا ہو۔ بلکہ ہم نے توکتاب کی ابتداءمیں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے میں عبد العزیز بن سعودکا انہی خطوط پر تذکرہ کیا ہے۔
پس برادرِ گرامی، آلِ سعود کے لئے ہماری عداوت اور ان کی تکفیر کرنا اس طرح نہیں ہے جس طرح بہت سے جاہل جہالت، قومیت یا دنیاوی مفادات اورمیل ملاپ کو بنیاد بنا کر(عداوت یا تکفیر) کرتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ ان رافضین (اہلِ تشیع کا سب سے بڑا گروہ جو بنیادی طور پر ایران ،عراق اور کچھ خلیجی ممالک کے علاوہ لبنان اور پاکستان میں پایا جاتا ہے) اور ان جیسے لوگوں کے (عداوت یا تکفیر)کرنے کی مانند ہے جو اپنے بیانات میں آلِ سعود کے پہلے ارکان، جنہوں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک کی‘ اور ان کی پیروی کرنے والوں کی معاونت کی ،اور بعد کے ارکان جنہوں نے انسانوں کے وضع کردہ قوانین نافذ کئے اوراپنی وفاداریاں اپنے انسانی خداؤں کے نذرکیں اور مشرکوں کو مسلمانوں پر ترجیح دی؛ دونوں نسلوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے ....نہ ہم ان جیسے ہیں اور نہ ہی ان جیسا ہونا ہمارے حق میں اچھاہے....اس کے برعکس، ہم اس موضوع کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور واضح طور پر ان امور کا ذکر کرتے ہیں جو کفر کی جانب لے جاتے ہیں تا کہ دورِ حاضر میں آلِ سعود کا کوئی بھی رکن جس پر یہ(امور) لاگو نہ ہو رہے ہوں وہ اس فتوے کے(اُس پر) اطلاق سے مستثنیٰ رہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آلِ سعود میں کوئی ایک بھی موحد مسلمان نہیں ہے اورمعاذ اللہ کہ ہم حد سے گذرے ہوئے یا جاہل لوگوں کی طرح تعمیم(کسی بات کا سب پرعمومی اطلاق)کریں،چاہے وہ(تعمیم) آلِ سعود کے حاضرارکان کے متعلق ہو یا جو گذر گئے ان کے متعلق یا کسی بھی اور کے متعلق۔
اور ’الکواشف الجلیة‘میں ہماری بحث واضح اور عیاں ہے کہ ہم آلِ سعود کے ان افراد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جنہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کے علاو ہ دیگر قوانین کو نافذ کیا،یاکسی بھی سطح پر....چاہے مقامی‘یاعلاقائی‘ یا عالمی....ان قوانین کا نفاذ کیا، یا کفار سے وفاداری نبھائی اورموحدین کے خلاف ان کی معاونت کی،یا حقیقی توحید اور اس کے پیروکاروں کے خلاف جنگ برپا کی،یا ان امورکے علاوہ کسی اور واضح اور کھلے کفریہ عمل کا ارتکاب کیا ؛اور جوکوئی بھی ایسے اعمال کا مرتکب نہیں اور جس کے پاس اصل اسلام ہے تو وہ ہمارا بھائی ہے اور اس کے حقوق و فرائض ویسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہیں،چاہے وہ آلِ سعود میں سے ہے یا ان کے علاوہ کوئی بھی اور ہے ،چونکہ بطورمسلمان ہمارے معیارات،نقطہ ہائے نظر،فہم اور احکامات کی بنیاد اسلام پر قائم ہے،جاہلیت پر نہیں۔
بے شک ایمان کا مضبوط ترین کڑااللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے محبت اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے نفرت، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے دوستی اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ہی دشمنی ہے۔ ہم اس شخص کو دوست رکھتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں جو مؤمن ہو چاہے نسب اور وطن کے اعتبار سے ہم سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، اور اس شخص سے نفرت،براءت اور دشمنی رکھتے ہیں جو مشرک یا کافر ہو چاہے نسب اوروطن کے اعتبار سے ہمار ا کتنا ہی قرابت دار کیوں نہ ہو۔
اور آپ نے کہا ہے:(اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرے اس سوال کا جواب دیں:کیا شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ شیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آلِ الشیخ سے ان کے سعودی حکومت سے شریعت نافذ نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف کرنے پراتفاق کرتے ہیں؟ اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟)
میں کہتا ہوں:بلا شبہ اصولی طور پر وہ اتفاق کرتے ہیں؛نہ شیخ ابن باز اور نہ ہی شیخ ابن عثیمین احکام اللہ کے علاوہ کسی دیگر قوانین کے استعمال کو درگذر کے قابل سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کی اجازت دیتے ہیں اور،اوریہ بات بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ وہ شریعت کے عدم نفاذ کے مخالف ہیں ۔لیکن جب اس ضمن میں خصوصی طور پر سعودی نظام کی بات آتی ہے،تو پھرمجھ پر ان کی مخالفت کسی بات سے عیاں نہیں ہوتی۔بلکہ الٹا ہم انہیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس نظام کا دفاع کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور میں ان کے متعلق یہ بات خودساختہ طور پر نہیں کہہ رہا....ہر گز نہیں،کہ مجھے بھی ان کے ہمراہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے (اور میں جوابدہ ہوں گا) ،لیکن ان کی باتیں اور فتوے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں۔مثال کے طور پر ابن باز کا یہ بیان دیکھئے:
”اور یہ سعودی مملکت ایک مبارک مملکت ہے اور اس کے حکمران حق قائم کرنے،اور انصاف قائم کرنے ،اور مظلوم کی مدد کرنے، اور ظالم کا راستہ روکنے، اور امن و امان بحال رکھنے ، اور لوگوں کے اموال اور آبرو کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔“ یہ الفاظ شیخ کے ایک آڈیو کیسٹ بیان،مؤرخہ 29/4/1417ھ،بعنوان’حکمرانوں کے عوام پر حقوق‘(حقوق ولاة الامرعلی الامة) سے اخذ کئے گئے ہیں ۔
اور میں کہتا ہوں کہ مملکت کی اصل حقیقت کسی بھی عاقل اور صاحبِ فہم شخص سے مخفی نہیں ہے اور ہم اپنی کتاب’الکواشف الجلیة‘ میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ وہ کونسی باتیں ہیں جو اس مذکورہ بیان کومسترد کرتی ہیں اور اس کی تردید فراہم کرتی ہیں ،اور ہم ہر اس شخص کو اس کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جو اس مملکت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے یا جس نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس کی حقیقت سے صرفِ نظر کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
آپ شیخ کی ان تحریروں کا بھی جائزہ لیں جو انہوں نے نامور علماءکی کمیٹی کے ہمراہ ان چار مجاہد بھائیوں کے متعلق لکھیں جنہیں اس دعوے پر سزائے موت دی گئی تھی(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان پر رحم فرمائے) کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ آراءہیں جبکہ در حقیقت یہ سزائے موت ایک کافر کے قتل کے بدلے میں مسلمان کا قتل تھی،چہ جائیکہ وہ اس کا اقرار نہیں کرتے۔ وہ بھائی اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے خلاف محاذ آراءنہیں تھے بلکہ وہ امریکیوں اور ان کے چیلوں کے خلاف محاذ آراءتھے جو اصل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔آپ اس بیان کو پڑھیں اور اس میں ان (شیخ)کی مملکت کے لئے حمایت اور جہاد اور مجاہدین پر حملے کا عنصردیکھیں۔
انہی خطوط پران کے کلام کی ایک اور مثال نامور علماءکی کمیٹی،جس کے رکن شیخ ابن باز بھی تھے، کی جانب سے آنے والا ایک بیان ہے جس میں جہیمان رحمہ اللہ کی تحریروں سے عوام الناس کو متنبہ کیا گیا تھا،جو(تحریریں) جہیمان رحمہ اللہ کے پیروکار طلبائے علم قبل ازطباعت شیخ ابن باز سے (جائزے اور توثیق کے لئے ) پڑھوا بھی چکے تھے۔کوئی بھی منصف اور دیانتدار شخص ان تحریروں کا مطالعہ کر کے بذاتِ خود اس امر کی تصدیق کر سکتا ہے کہ درج ذیل بیان درست ہے یا نہیں؛یہاں یہ ذہن نشین رہے کہ میرا اس (بحث)سے جہیمان اور ان کے پیروکاروں(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان پر رحم فرمائے)کی تحریروں کی توثیق کرناہر گز مقصود نہیں کیونکہ میں ان سے اس بات پر عدم اتفاق کرتا ہوں کہ وہ حکومت اور اس کے مددگاروں کو کافر نہیں سمجھتے اور نہ ہی ایسا سمجھنے والوں سے اتفاق کرتے ہیں؛لیکن یہ وہ بات نہیں ہے جس کے متعلق نامور علماء(جہیمان رحمہ اللہ کی تحریروں سے) متنبہ کرتے ہیں،بلکہ وہ جس بات سے متنبہ کرتے ہیں اور جسے گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات قرار دیتے ہیں وہ جہیمان رحمہ اللہ کا ان کے امام حکمران کی بیعت کو رد کرنا اور اسے باطل قرار دینا ہے، جیسا کہ یہ بات ہر اس شخص کے علم میں ہے جس نے اس کی تحریریں پڑھی ہیں اور اس تجربے سے گذرچکا ہے۔
اس بیان میں ا نہوں نے کہا:”اور چونکہ یہ کمیٹی اس ظالم گروہ میں یہ تصور دیکھتی ہے، تو یہ اس کی تحریروں میں گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات پاتی ہے جن کو یہ(کمیٹی) شر،فتنے، گمراہی، بدامنی اور شورش ،اور ملک کو قوم کے مفادات میں ہیر پھیر کے بیج تصورکرتی ہے۔یہ تحریریں ایسے دعووں پر مشتمل ہیں جو بعض سادہ لوح افراد کو اپنی ظاہری صورت سے ورغلا دیتے ہیں جبکہ ان میں سخت خطرات پوشیدہ ہوتے ہیں، اور یہ کمیٹی اس بات کوعیاں کرتی ہے اور اس کی اعلانیہ مذمت کرتی ہے اور تمام مسلمانوں کوان تحریروں میں موجود گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات سے متنبہ کرتی ہے ۔مزید برآں، کمیٹی اس موقع پر.... اور اس مناسبت پر کہ عزت مآب شاہ خالد بن عبد العزیز(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور ہر خیر پر ان کی مدد و اعانت فرمائے)کی حکومت نے اس فتنے کا سد باب کیا....اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر بجا لاتی ہے کہ اس نے فتنے کی سرکوبی کے اسباب عطا فرمائے،اور اس کے حضور دعا گو ہے کہ اس ملک اور تمام مسلم ممالک کی ہر شر سے حفاظت فرمائے اور،ان کو حق پر متحد کرے اور ان کے حکمرانوں کی مدد فرمائے اور ان کو اسلام کے ذریعے قوت وعزت عطا فرمائے اور اسلام کوان کے ذریعے قوت و عزت عطا فرمائے اور ان (حکمرانوں)کو صالح اور معاون خدمتگار عطا فرمائے جو نیکی میں ان کی مدد کریں اور غلطی کی صورت میں ان کی رہنمائی کریں اور بھول چوک کی صورت میں ان کو یاد دہانی کروائیں،اور(ہم دعا گو ہیں کہ )حق قائم ہو جائے اور باطل مسخ ہو جائے اگرچہ کہ ایسا ہونا ظالم، کینہ پرور، مکار اور حاسد قسم کے مجرموں کو ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہو۔اور کمیٹی حکومت کی ان عظیم کوششوں کو بھی سراہتی ہے جو اس نے طاقت اور حکمت اور بصیرت کے استعمال سے اس فتنے کی سرکوبی کے لئے سرانجام دی ہیں اور ہر اس فرد کی شکر گزارہے جس نے اس مسئلے پر قابو پانے میں اپنے ہاتھ یا زبان یا قلم سے شرکت کی ؛اور اس میں سرِفہرست عزت مآب شاہ اور ان کے ولی عہد ،ان کے وفادارخدمتگار اور عسکری قوتوں کے مختلف درجات اور مراتب کے افراد ہیں،اور ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ان کے مقتولین کے لئے مغفرت اور رحمت اوربے پناہ ثواب اور ان کے زندوں کے لئے اجرِ عظیم اور حق پر ثابت قدمی اور ہدایت کے طلبگار ہیں،واللہ جسبنا و نعم الوکیل (اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارا کارساز اور بہترین چارہ گر ہے)و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ و سلم۔“
پس میں حکومت کی موافقت اور اتباع اور تائید اور مدح سرائی میں کی گئی ان مبالغہ آرائیوں کو کسی طرح بھی شیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آل الشیخ کے سعودی نظام کے متعلق واضح اعتراضات اورکھلی تردیدوں پر مبنی نقطہ نظر سے باہم موافق نہیں دیکھتا،اور ان( شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ ) کا نقطہ نظر ان کے فتووں میں واضح طور پر نظر آتا ہے اور ہم نے ان میں سے بہت سا مواد (اپنی کتاب)الکواشف میں نقل کیا ہے....یہاں یہ وضاحت کرتا چلا جاؤں کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے وقت میں عبد العزیزکے کفریہ اعمال آج ان کی اولادوں سے سرزد ہونے والے کفریہ اعمال کی مانند واضح اور کھلے عام نہیں تھے (یعنی ان کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں،اس کے باوجود بھی شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ ان کم درجے کی کفریات پر بھی اتنے معترض تھے تو پھر آج کے دور میں جن کفریات کا ارتکاب کیا جا رہا ہے وہ کس قدرزیادہ اور حد سے بڑھ کر ہوں گی !)
جہاں تک شیخ ابن عثیمین کا معاملہ ہے،تو میری نظر سے ان کی ایک تحریر گذری ہے جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں،اور اسے چھپاؤں گا نہیں....کہ اہلِ حق اپنے نقطہ نظر سے موافق اور اس سے مخالف ہر دو طرح کے دلائل کو ملحوظِ نظر رکھتے ہیں....اس میں وہ فرماتے ہیں:
”اور یہ سعودی مملکت، شریعت کے نفاذ کے لحاظ سے ہمارے علم میں موجود تمام مسلم ممالک میں افضل ترین ہے،اور یہ ایک آنکھوں دیکھا معاملہ ہے ۔اور ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سو فیصد درست ہے،بلا شبہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں اور ظلم اور اجارہ داری بھی ہے، لیکن اگر ظلم کا عدل کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہم ظلم کو نسبتاً کم پائیں گے۔ اور یہ بھی ظلم ہے کہ انسان کسی کی خرابیاں دیکھے اور اچھائیاں نظر انداز کر دے،اور ایسی صورت میں(کہ جہاں اچھائیاں برائیاں دونوں ہوں)انسان پر واجب ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول کے مطابق عدل وانصاف سے کام لے:”یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداءللّہ و لو علی انفسکم و الاقربین“(اے ایمان والو!عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودیٔ مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ،گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے )[النساء]اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول کے مطابق بھی:”یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین للّہ شھداءبالقسط ولا یجرمنکم شنئان قوم علی الّا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی واتقوا اللّٰہ“(اے ایمان والو!تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ،راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ،کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کرے،عدل کیا کرو جو پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو)[المائدہ]“(کھلے دروازے میں سے ملاقات ”لقاءالباب المفتوح“سے ماخوذسوال نمبر956)
شیخ نے یہاں مملکت سے کچھ اختلاف کیا ہے اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے جسے ہم نظر انداز کرتے ہیں اور نہ ہی چھپاتے ہیں۔اس کے باوجود اختلاف کی ان دونوں صورتوں(شیخ ابن عثیمین اور شیخ محمد ابراہیم کے طرزِ اختلاف)میں بے پناہ فرق ہے کہ شیخ محمد ابراہیم مملکت کی اس کوشش پرکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو محتلف ناموں اور شکلوں کی آڑ میں جائز قرار دے کرنافذ کرے ، ہر گز خاموش نہ رہے اور تا دمِ مرگ اس کی تردید کرتے رہے ،جبکہ ان کے طرزِ عمل کا موازنہ اب ایک ایسے شخص سے ہو رہا ہے جو معاملے کی نوعیت کوتخفیف کر کے محض کچھ ظلم اور اجارہ داری اورخامیوںکی صورت میں پیش کررہا ہے،کہ ایسا لگنے لگے جیسے یہ محض وہ سختیاں ہیں جن کی موجودگی کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے مسلمان حکمرانوں کے حوالے سے کیا تھا اور انصار کو ان پر صبر کرنے کا حکم دیا تھا(جبکہ شریعت کا نفاذ نہ کرنا اور اس کے بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرنا ایک سنگین جرم ہے اور محض ظلم،اجارہ داری اور عام خامیوں جیسا خفیف معاملہ نہیں)....پس شیخ (ابن عثیمین)بھی اپنی دیگر تحریروں اور فتاویٰ میں ان حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں!!اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے منع کرتے ہیں!!اور ہر اس شخص کی بھی تردید اور تذلیل کرتے ہیں جو اُن کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو یاان کی تکفیر کرے ۔
جہاں تک خط کے آخر میں آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ:(اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟)
میں ایسا نہیں کہتا اور جو کوئی بھی عمومی طور پر ان کے علم اور سمجھ کو دیکھتا ہے....(قطع نظر حکمرانوں کے متعلق ان کے بیانات کے،اوران بیانات میں میں پائے جانے والی تبدیلیوں کے جومملکت اوراس کے حکمرانوں (کے مراتب کے حساب سے ان) کے درمیان تعلق میں پائی جانے والی تبدیلیوںسے مطابقت رکھتی ہیں،اور ان کے اپنے ملک کے حکام کی بیعت کے متعلق موقف اور ان سے مخالفت کرنے والوں کے متعلق موقف کے)....وہ جانتا ہے کہ یہ دونوں شیخ شریعت کے علماءہیں اوران کے اصول و قواعد درست سلفیت پر مبنی ہیں،اور (حکمرانوں سے متعلق) مذکورہ بالاعناوین کے علاوہ دیگر مضامین پر ایک دنیا نے ان سے استفادہ حاصل کیا ہے ، اوریہ میرے سمیت آج کے بہت سے علماءکے استاد رہے ہیں؛لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان مذکورہ موضوعات پر ان کی غلطیوں سے اتفاق کر لیں اور نہ ہی یہ کہ ہم ان غلطیوں پر خاموشی اختیار کر لیں اور ان کی تردید نہ کریں....بلکہ ہم ان کی ہر غلطی کا اس کی نوعیت حساسیت کے مطابق انکار کرتے ہیں(یعنی جتنی بڑی غلطی اتنا سخت انکار ) ....اوراس بات کی بنیاد پر اگر کوئی ہمیں ملامت کرے یا ہم پر ذاتی سطح پر حملہ کرے اور لوگوں کو ہماری تحریروں سے بد دل کرنے کی کوشش کرے ،یا اس (فعل)کو طواغیت* اور ان کے چیلوں کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرے تو بھی ہمیں اس سے کوئی نقصان یا پریشانی نہیں ،کہ ہمارے اور ان سب کے درمیان فیصلہ کرنے والاوہ ہے جو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید جانتا ہے اورجلد ہی سب اس کے حضور جمع ہوں گے اور سب تنازعات طے کئے جائیں گے۔
و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین۔
آپ کا بھائی ابو محمدعاصم المقدسی حفظہ اللہ
منبر التوحید والجہاد
* ہر وہ شخص شئے جس کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بجائے پرستش/ عبادت کی جائے ،اور اس میں وہ ظالم حکمران بھی شامل ہیں جو اسلام کے خلاف جنگ برپا کرتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے انسانی قوانین بھی شامل ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے متبادل وضع کئے جاتے ہیں۔