• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کے خلاف ایک کھلی سازش۔۔۔۔۔۔فتنہ تکفیر!!

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
کافر حکمرانوں کی تکفیر نہ کرنا فتنہ کا باعث ہے ۔

[JUSTIFY]
فتنہ تکفیر

الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاءوالمرسلین
آج کل کے دور میں تکفیر کا فتنہ مسلمانوں کیلئے بہت نقصان کا باعث ثابت ہوا ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان حضرات کے پاس کون کون سے دلائل ہیں جن سے یہ اہل حق کو گمراہ کرنے کی جسارت کرتے ہیں ۔ جب بھی ایسا کوئی شخص آپ کو ملے گا تو جو فتنہ تکفیر کا شکار ہو چکا ہو وہ سب سے پہلے آپ سے الولا والبراءپر گفتگو کرے گا۔
(۱) الولاءو البراء:
ان حضرات کے ہاں امام کعبہ اور عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ کافر ہیں کیوں کہ وہ ایک ایسی حکومت کے تحت ہیں جو کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ دوستی رکھتی ہیں ۔ اور وہ دلیل قران کی اس آیت سے دیں گے
ومن یتولھم منکم فانہ منھم
کہ جو کوئی تم مسلمانوں میں سے ان (کافروں ) سے دوستی لگائے گا وہ انہی میں سے ہے۔ تو سعودی حکمران کافر ہیں لہذا انکی حکمرانی میں رھنے والے علماءبھی کافر ہیں ۔
محترم بھائیو یہ انتہائی گمراہ کن بات ہے ۔ قران مجید میں اللہ تبارک و تعالی نے واضح کافر ہونے کے لئے جو شرط رکھی ہے وہ سورة النحل کی آیت نمبر 106ہے۔ ترجمہ “جو کوئی ایمان لانے کے بعد کفر کرے، لیکن (وہ نہیں ) جس کواس پر مجبور کیا جائے اور اسکا دل (اسلام ) ایمان پر مطمئن ہو، اور اسکو کفر پر شرح صدر حاصل ہو تو اسکے لئے اللہ تبارک و تعالی کا غضب ہے اور اس کے لئے عذاب عظیم ہے ۔ “
محترم بھائیو اس آیت کی رو سے کافر وہ ہے جو کفر پر شرح صدر کے ساتھ قائم ہو اور یہ بندہ نہ تو کوئی عذر پیش کرے نہ ہی تاویل کرے نہ ہی مجبو کیا گیا ہو۔
مثال ایک شراب پینے والا آپکی اصلاح پر اعتراف جرم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کام غلط ہے تو ایسا شخص شرح صدر کے ساتھ شراب کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ بلکہ وہ شخص جو کہ شراب پئےاور شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہے کہ شراب پینا جائز ہے ان دونوں میں فرق ہے۔
لہذا کسی شخص کی بھی تکفیر کے لئے اس شخص کا شرح صدر کے ساتھ اس کفر پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جب تک ایسے شخص کا موقف خو د سے دریافت نہ کیا جائے گا اور توبہ کروا لینے کے باوجود وہ کفر پر قائم رہے اس سے پہلے ہم اسکے بارے میں کوئی بات نہیں کہ سکتے اور نہ ہی کسی قسم کا حکم جاری کر سکتے ہیں ۔
[/JUSTIFY]
ابو محمد عاصم المقدسی حفظہ اللہ فک اللہ علی اسرہ ایک پوچھے گئے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

میرے پہلے خط کا جواب دینے پر میں آپ کا شکرگزار ہوں۔

 میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں....اور خواہاں ہوں کہ آپ ان شاءاللہ اس پر عمل کریں گے....وہ یہ کہ بعض ایسے مضامین یابعض ایسی کتب لکھی جائیں جو امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے کی سعودی مملکت اورآج کی سعودی مملکت کی حالتوں کے درمیان شریعت کے نفاذ کے حوالے سے فرق واضح کریں اور ایسی حکومتوں کے متعلق نقطہ نظر واضح کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ہٹ کر نظام چلاتی ہیں ۔

اور میں یہ بھی امید کرتاہوں کہ آپ عبد العزیز بن سعودکے آباؤ و اجدادکے بارے میں اپنی رائے بیان کریں جنہوں نے امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک میں معاونت کی۔

اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرے اس سوال کا جواب دیں:
کیا شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ دونوںشیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آل الشیخ سے( اُن کے )سعودی حکومت سے شریعت نافذ نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف کرنے پراتفاق کرتے ہیں؟ اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟

میں ان سوالوں پرآپ کے صبر و تحمل کے لئے شکر گزار ہوں۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔


بسم اﷲ والحمد ﷲ والصلٰوة والسلام علٰی رسول اﷲ۔

برادرِ گرامی، السلام علیکم ورحمة اللہ،

مجھے آپ کا خط ملا ہے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے، جس میں آپ نے کہا ہے:

” میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں....اور خواہاں ہوں کہ آپ ان شاءاللہ اس پر عمل کریں گے....وہ یہ کہ بعض ایسے مضامین یابعض ایسی کتب لکھی جائیں جو امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے کی سعودی مملکت اورآج کی سعودی مملکت کی حالتوں کے درمیان شریعت کے نفاذ کے حوالے سے فرق واضح کریں اور ایسی حکومتوں کے متعلق نقطہ نظر واضح کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ہٹ کر نظام چلاتی ہیں ۔ اور میں یہ بھی امیدکرتا ہوں کہ آپ عبد العزیز بن سعودکے آباؤ و اجدادکے بارے میں اپنی رائے بیان کریں جنہوں نے امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک کی معاونت کی ۔“

اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو اس مشورے پر جزائے خیر عطا فرمائے ،اور مجھے امید ہے کہ میں اس پر عمل کر سکوں گا،اگرچہ جزوی طور پر....اپنے ان کاموں کی ضخامت اورکثرت کو مد نظر رکھتے ہوئے جنہیں ابھی مکمل کرنا باقی ہے، بہرحال، ہم نے اس مسئلے کا تذکرہ اپنی کتاب ’الکواشف الجلیة‘(واضح کرنے والی روشنیاں)میں کیا ہے جس میں ہم نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ ہم آلِ سعود یا ان کے علاوہ بھی کسی کو اس وقت تک کافرتصور نہیں کرتے جب تک وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جوناقضِ توحید ہویا پھر کفریات کے ضمرے میں شمار ہوتا ہو۔ بلکہ ہم نے توکتاب کی ابتداءمیں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے میں عبد العزیز بن سعودکا انہی خطوط پر تذکرہ کیا ہے۔

پس برادرِ گرامی، آلِ سعود کے لئے ہماری عداوت اور ان کی تکفیر کرنا اس طرح نہیں ہے جس طرح بہت سے جاہل جہالت، قومیت یا دنیاوی مفادات اورمیل ملاپ کو بنیاد بنا کر(عداوت یا تکفیر) کرتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ ان رافضین (اہلِ تشیع کا سب سے بڑا گروہ جو بنیادی طور پر ایران ،عراق اور کچھ خلیجی ممالک کے علاوہ لبنان اور پاکستان میں پایا جاتا ہے) اور ان جیسے لوگوں کے (عداوت یا تکفیر)کرنے کی مانند ہے جو اپنے بیانات میں آلِ سعود کے پہلے ارکان، جنہوں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی دعوت و تحریک کی‘ اور ان کی پیروی کرنے والوں کی معاونت کی ،اور بعد کے ارکان جنہوں نے انسانوں کے وضع کردہ قوانین نافذ کئے اوراپنی وفاداریاں اپنے انسانی خداؤں کے نذرکیں اور مشرکوں کو مسلمانوں پر ترجیح دی؛ دونوں نسلوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے ....نہ ہم ان جیسے ہیں اور نہ ہی ان جیسا ہونا ہمارے حق میں اچھاہے....اس کے برعکس، ہم اس موضوع کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور واضح طور پر ان امور کا ذکر کرتے ہیں جو کفر کی جانب لے جاتے ہیں تا کہ دورِ حاضر میں آلِ سعود کا کوئی بھی رکن جس پر یہ(امور) لاگو نہ ہو رہے ہوں وہ اس فتوے کے(اُس پر) اطلاق سے مستثنیٰ رہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آلِ سعود میں کوئی ایک بھی موحد مسلمان نہیں ہے اورمعاذ اللہ کہ ہم حد سے گذرے ہوئے یا جاہل لوگوں کی طرح تعمیم(کسی بات کا سب پرعمومی اطلاق)کریں،چاہے وہ(تعمیم) آلِ سعود کے حاضرارکان کے متعلق ہو یا جو گذر گئے ان کے متعلق یا کسی بھی اور کے متعلق۔

اور ’الکواشف الجلیة‘میں ہماری بحث واضح اور عیاں ہے کہ ہم آلِ سعود کے ان افراد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جنہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کے علاو ہ دیگر قوانین کو نافذ کیا،یاکسی بھی سطح پر....چاہے مقامی‘یاعلاقائی‘ یا عالمی....ان قوانین کا نفاذ کیا، یا کفار سے وفاداری نبھائی اورموحدین کے خلاف ان کی معاونت کی،یا حقیقی توحید اور اس کے پیروکاروں کے خلاف جنگ برپا کی،یا ان امورکے علاوہ کسی اور واضح اور کھلے کفریہ عمل کا ارتکاب کیا ؛اور جوکوئی بھی ایسے اعمال کا مرتکب نہیں اور جس کے پاس اصل اسلام ہے تو وہ ہمارا بھائی ہے اور اس کے حقوق و فرائض ویسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہیں،چاہے وہ آلِ سعود میں سے ہے یا ان کے علاوہ کوئی بھی اور ہے ،چونکہ بطورمسلمان ہمارے معیارات،نقطہ ہائے نظر،فہم اور احکامات کی بنیاد اسلام پر قائم ہے،جاہلیت پر نہیں۔

بے شک ایمان کا مضبوط ترین کڑااللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے محبت اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے نفرت، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے دوستی اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ہی دشمنی ہے۔ ہم اس شخص کو دوست رکھتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں جو مؤمن ہو چاہے نسب اور وطن کے اعتبار سے ہم سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، اور اس شخص سے نفرت،براءت اور دشمنی رکھتے ہیں جو مشرک یا کافر ہو چاہے نسب اوروطن کے اعتبار سے ہمار ا کتنا ہی قرابت دار کیوں نہ ہو۔

اور آپ نے کہا ہے:(اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرے اس سوال کا جواب دیں:کیا شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ شیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آلِ الشیخ سے ان کے سعودی حکومت سے شریعت نافذ نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف کرنے پراتفاق کرتے ہیں؟ اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟)

میں کہتا ہوں:بلا شبہ اصولی طور پر وہ اتفاق کرتے ہیں؛نہ شیخ ابن باز اور نہ ہی شیخ ابن عثیمین احکام اللہ کے علاوہ کسی دیگر قوانین کے استعمال کو درگذر کے قابل سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کی اجازت دیتے ہیں اور،اوریہ بات بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ وہ شریعت کے عدم نفاذ کے مخالف ہیں ۔لیکن جب اس ضمن میں خصوصی طور پر سعودی نظام کی بات آتی ہے،تو پھرمجھ پر ان کی مخالفت کسی بات سے عیاں نہیں ہوتی۔بلکہ الٹا ہم انہیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس نظام کا دفاع کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور میں ان کے متعلق یہ بات خودساختہ طور پر نہیں کہہ رہا....ہر گز نہیں،کہ مجھے بھی ان کے ہمراہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے (اور میں جوابدہ ہوں گا) ،لیکن ان کی باتیں اور فتوے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں۔مثال کے طور پر ابن باز کا یہ بیان دیکھئے:

”اور یہ سعودی مملکت ایک مبارک مملکت ہے اور اس کے حکمران حق قائم کرنے،اور انصاف قائم کرنے ،اور مظلوم کی مدد کرنے، اور ظالم کا راستہ روکنے، اور امن و امان بحال رکھنے ، اور لوگوں کے اموال اور آبرو کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔“ یہ الفاظ شیخ کے ایک آڈیو کیسٹ بیان،مؤرخہ 29/4/1417ھ،بعنوان’حکمرانوں کے عوام پر حقوق‘(حقوق ولاة الامرعلی الامة) سے اخذ کئے گئے ہیں ۔

اور میں کہتا ہوں کہ مملکت کی اصل حقیقت کسی بھی عاقل اور صاحبِ فہم شخص سے مخفی نہیں ہے اور ہم اپنی کتاب’الکواشف الجلیة‘ میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ وہ کونسی باتیں ہیں جو اس مذکورہ بیان کومسترد کرتی ہیں اور اس کی تردید فراہم کرتی ہیں ،اور ہم ہر اس شخص کو اس کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جو اس مملکت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے یا جس نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس کی حقیقت سے صرفِ نظر کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

آپ شیخ کی ان تحریروں کا بھی جائزہ لیں جو انہوں نے نامور علماءکی کمیٹی کے ہمراہ ان چار مجاہد بھائیوں کے متعلق لکھیں جنہیں اس دعوے پر سزائے موت دی گئی تھی(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان پر رحم فرمائے) کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ آراءہیں جبکہ در حقیقت یہ سزائے موت ایک کافر کے قتل کے بدلے میں مسلمان کا قتل تھی،چہ جائیکہ وہ اس کا اقرار نہیں کرتے۔ وہ بھائی اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے خلاف محاذ آراءنہیں تھے بلکہ وہ امریکیوں اور ان کے چیلوں کے خلاف محاذ آراءتھے جو اصل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔آپ اس بیان کو پڑھیں اور اس میں ان (شیخ)کی مملکت کے لئے حمایت اور جہاد اور مجاہدین پر حملے کا عنصردیکھیں۔

انہی خطوط پران کے کلام کی ایک اور مثال نامور علماءکی کمیٹی،جس کے رکن شیخ ابن باز بھی تھے، کی جانب سے آنے والا ایک بیان ہے جس میں جہیمان رحمہ اللہ کی تحریروں سے عوام الناس کو متنبہ کیا گیا تھا،جو(تحریریں) جہیمان رحمہ اللہ کے پیروکار طلبائے علم قبل ازطباعت شیخ ابن باز سے (جائزے اور توثیق کے لئے ) پڑھوا بھی چکے تھے۔کوئی بھی منصف اور دیانتدار شخص ان تحریروں کا مطالعہ کر کے بذاتِ خود اس امر کی تصدیق کر سکتا ہے کہ درج ذیل بیان درست ہے یا نہیں؛یہاں یہ ذہن نشین رہے کہ میرا اس (بحث)سے جہیمان اور ان کے پیروکاروں(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان پر رحم فرمائے)کی تحریروں کی توثیق کرناہر گز مقصود نہیں کیونکہ میں ان سے اس بات پر عدم اتفاق کرتا ہوں کہ وہ حکومت اور اس کے مددگاروں کو کافر نہیں سمجھتے اور نہ ہی ایسا سمجھنے والوں سے اتفاق کرتے ہیں؛لیکن یہ وہ بات نہیں ہے جس کے متعلق نامور علماء(جہیمان رحمہ اللہ کی تحریروں سے) متنبہ کرتے ہیں،بلکہ وہ جس بات سے متنبہ کرتے ہیں اور جسے گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات قرار دیتے ہیں وہ جہیمان رحمہ اللہ کا ان کے امام حکمران کی بیعت کو رد کرنا اور اسے باطل قرار دینا ہے، جیسا کہ یہ بات ہر اس شخص کے علم میں ہے جس نے اس کی تحریریں پڑھی ہیں اور اس تجربے سے گذرچکا ہے۔

اس بیان میں ا نہوں نے کہا:”اور چونکہ یہ کمیٹی اس ظالم گروہ میں یہ تصور دیکھتی ہے، تو یہ اس کی تحریروں میں گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات پاتی ہے جن کو یہ(کمیٹی) شر،فتنے، گمراہی، بدامنی اور شورش ،اور ملک کو قوم کے مفادات میں ہیر پھیر کے بیج تصورکرتی ہے۔یہ تحریریں ایسے دعووں پر مشتمل ہیں جو بعض سادہ لوح افراد کو اپنی ظاہری صورت سے ورغلا دیتے ہیں جبکہ ان میں سخت خطرات پوشیدہ ہوتے ہیں، اور یہ کمیٹی اس بات کوعیاں کرتی ہے اور اس کی اعلانیہ مذمت کرتی ہے اور تمام مسلمانوں کوان تحریروں میں موجود گناہگارانہ شبہات اور باطل تاویلات اور گمراہ کن ہدایات سے متنبہ کرتی ہے ۔مزید برآں، کمیٹی اس موقع پر.... اور اس مناسبت پر کہ عزت مآب شاہ خالد بن عبد العزیز(اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور ہر خیر پر ان کی مدد و اعانت فرمائے)کی حکومت نے اس فتنے کا سد باب کیا....اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر بجا لاتی ہے کہ اس نے فتنے کی سرکوبی کے اسباب عطا فرمائے،اور اس کے حضور دعا گو ہے کہ اس ملک اور تمام مسلم ممالک کی ہر شر سے حفاظت فرمائے اور،ان کو حق پر متحد کرے اور ان کے حکمرانوں کی مدد فرمائے اور ان کو اسلام کے ذریعے قوت وعزت عطا فرمائے اور اسلام کوان کے ذریعے قوت و عزت عطا فرمائے اور ان (حکمرانوں)کو صالح اور معاون خدمتگار عطا فرمائے جو نیکی میں ان کی مدد کریں اور غلطی کی صورت میں ان کی رہنمائی کریں اور بھول چوک کی صورت میں ان کو یاد دہانی کروائیں،اور(ہم دعا گو ہیں کہ )حق قائم ہو جائے اور باطل مسخ ہو جائے اگرچہ کہ ایسا ہونا ظالم، کینہ پرور، مکار اور حاسد قسم کے مجرموں کو ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہو۔اور کمیٹی حکومت کی ان عظیم کوششوں کو بھی سراہتی ہے جو اس نے طاقت اور حکمت اور بصیرت کے استعمال سے اس فتنے کی سرکوبی کے لئے سرانجام دی ہیں اور ہر اس فرد کی شکر گزارہے جس نے اس مسئلے پر قابو پانے میں اپنے ہاتھ یا زبان یا قلم سے شرکت کی ؛اور اس میں سرِفہرست عزت مآب شاہ اور ان کے ولی عہد ،ان کے وفادارخدمتگار اور عسکری قوتوں کے مختلف درجات اور مراتب کے افراد ہیں،اور ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ان کے مقتولین کے لئے مغفرت اور رحمت اوربے پناہ ثواب اور ان کے زندوں کے لئے اجرِ عظیم اور حق پر ثابت قدمی اور ہدایت کے طلبگار ہیں،واللہ جسبنا و نعم الوکیل (اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارا کارساز اور بہترین چارہ گر ہے)و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ و سلم۔“

پس میں حکومت کی موافقت اور اتباع اور تائید اور مدح سرائی میں کی گئی ان مبالغہ آرائیوں کو کسی طرح بھی شیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطیف آل الشیخ کے سعودی نظام کے متعلق واضح اعتراضات اورکھلی تردیدوں پر مبنی نقطہ نظر سے باہم موافق نہیں دیکھتا،اور ان( شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ ) کا نقطہ نظر ان کے فتووں میں واضح طور پر نظر آتا ہے اور ہم نے ان میں سے بہت سا مواد (اپنی کتاب)الکواشف میں نقل کیا ہے....یہاں یہ وضاحت کرتا چلا جاؤں کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے وقت میں عبد العزیزکے کفریہ اعمال آج ان کی اولادوں سے سرزد ہونے والے کفریہ اعمال کی مانند واضح اور کھلے عام نہیں تھے (یعنی ان کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں،اس کے باوجود بھی شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ ان کم درجے کی کفریات پر بھی اتنے معترض تھے تو پھر آج کے دور میں جن کفریات کا ارتکاب کیا جا رہا ہے وہ کس قدرزیادہ اور حد سے بڑھ کر ہوں گی !)

جہاں تک شیخ ابن عثیمین کا معاملہ ہے،تو میری نظر سے ان کی ایک تحریر گذری ہے جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں،اور اسے چھپاؤں گا نہیں....کہ اہلِ حق اپنے نقطہ نظر سے موافق اور اس سے مخالف ہر دو طرح کے دلائل کو ملحوظِ نظر رکھتے ہیں....اس میں وہ فرماتے ہیں:
”اور یہ سعودی مملکت، شریعت کے نفاذ کے لحاظ سے ہمارے علم میں موجود تمام مسلم ممالک میں افضل ترین ہے،اور یہ ایک آنکھوں دیکھا معاملہ ہے ۔اور ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سو فیصد درست ہے،بلا شبہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں اور ظلم اور اجارہ داری بھی ہے، لیکن اگر ظلم کا عدل کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہم ظلم کو نسبتاً کم پائیں گے۔ اور یہ بھی ظلم ہے کہ انسان کسی کی خرابیاں دیکھے اور اچھائیاں نظر انداز کر دے،اور ایسی صورت میں(کہ جہاں اچھائیاں برائیاں دونوں ہوں)انسان پر واجب ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول کے مطابق عدل وانصاف سے کام لے:”یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداءللّہ و لو علی انفسکم و الاقربین“(اے ایمان والو!عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودیٔ مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ،گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے )[النساء]اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول کے مطابق بھی:”یا ایھا الذین آمنوا کونوا قوامین للّہ شھداءبالقسط ولا یجرمنکم شنئان قوم علی الّا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی واتقوا اللّٰہ“(اے ایمان والو!تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ،راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ،کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کرے،عدل کیا کرو جو پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو)[المائدہ]“(کھلے دروازے میں سے ملاقات ”لقاءالباب المفتوح“سے ماخوذسوال نمبر956)

شیخ نے یہاں مملکت سے کچھ اختلاف کیا ہے اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے جسے ہم نظر انداز کرتے ہیں اور نہ ہی چھپاتے ہیں۔اس کے باوجود اختلاف کی ان دونوں صورتوں(شیخ ابن عثیمین اور شیخ محمد ابراہیم کے طرزِ اختلاف)میں بے پناہ فرق ہے کہ شیخ محمد ابراہیم مملکت کی اس کوشش پرکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو محتلف ناموں اور شکلوں کی آڑ میں جائز قرار دے کرنافذ کرے ، ہر گز خاموش نہ رہے اور تا دمِ مرگ اس کی تردید کرتے رہے ،جبکہ ان کے طرزِ عمل کا موازنہ اب ایک ایسے شخص سے ہو رہا ہے جو معاملے کی نوعیت کوتخفیف کر کے محض کچھ ظلم اور اجارہ داری اورخامیوںکی صورت میں پیش کررہا ہے،کہ ایسا لگنے لگے جیسے یہ محض وہ سختیاں ہیں جن کی موجودگی کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنے والے مسلمان حکمرانوں کے حوالے سے کیا تھا اور انصار کو ان پر صبر کرنے کا حکم دیا تھا(جبکہ شریعت کا نفاذ نہ کرنا اور اس کے بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرنا ایک سنگین جرم ہے اور محض ظلم،اجارہ داری اور عام خامیوں جیسا خفیف معاملہ نہیں)....پس شیخ (ابن عثیمین)بھی اپنی دیگر تحریروں اور فتاویٰ میں ان حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں!!اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے منع کرتے ہیں!!اور ہر اس شخص کی بھی تردید اور تذلیل کرتے ہیں جو اُن کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو یاان کی تکفیر کرے ۔

جہاں تک خط کے آخر میں آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ:(اور کیا وہ....شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین....علماءکا روپ دھارے ہوئے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں؟)

میں ایسا نہیں کہتا اور جو کوئی بھی عمومی طور پر ان کے علم اور سمجھ کو دیکھتا ہے....(قطع نظر حکمرانوں کے متعلق ان کے بیانات کے،اوران بیانات میں میں پائے جانے والی تبدیلیوں کے جومملکت اوراس کے حکمرانوں (کے مراتب کے حساب سے ان) کے درمیان تعلق میں پائی جانے والی تبدیلیوںسے مطابقت رکھتی ہیں،اور ان کے اپنے ملک کے حکام کی بیعت کے متعلق موقف اور ان سے مخالفت کرنے والوں کے متعلق موقف کے)....وہ جانتا ہے کہ یہ دونوں شیخ شریعت کے علماءہیں اوران کے اصول و قواعد درست سلفیت پر مبنی ہیں،اور (حکمرانوں سے متعلق) مذکورہ بالاعناوین کے علاوہ دیگر مضامین پر ایک دنیا نے ان سے استفادہ حاصل کیا ہے ، اوریہ میرے سمیت آج کے بہت سے علماءکے استاد رہے ہیں؛لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان مذکورہ موضوعات پر ان کی غلطیوں سے اتفاق کر لیں اور نہ ہی یہ کہ ہم ان غلطیوں پر خاموشی اختیار کر لیں اور ان کی تردید نہ کریں....بلکہ ہم ان کی ہر غلطی کا اس کی نوعیت حساسیت کے مطابق انکار کرتے ہیں(یعنی جتنی بڑی غلطی اتنا سخت انکار ) ....اوراس بات کی بنیاد پر اگر کوئی ہمیں ملامت کرے یا ہم پر ذاتی سطح پر حملہ کرے اور لوگوں کو ہماری تحریروں سے بد دل کرنے کی کوشش کرے ،یا اس (فعل)کو طواغیت* اور ان کے چیلوں کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرے تو بھی ہمیں اس سے کوئی نقصان یا پریشانی نہیں ،کہ ہمارے اور ان سب کے درمیان فیصلہ کرنے والاوہ ہے جو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید جانتا ہے اورجلد ہی سب اس کے حضور جمع ہوں گے اور سب تنازعات طے کئے جائیں گے۔

و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین۔

آپ کا بھائی ابو محمدعاصم المقدسی حفظہ اللہ
منبر التوحید والجہاد
* ہر وہ شخص شئے جس کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بجائے پرستش/ عبادت کی جائے ،اور اس میں وہ ظالم حکمران بھی شامل ہیں جو اسلام کے خلاف جنگ برپا کرتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے انسانی قوانین بھی شامل ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے متبادل وضع کئے جاتے ہیں۔



 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ اور معاصر کبار سلفی علماء کا اختلاف
سعودی سلفی علماء میں شیخ محمد بن ابراہیم نے 'تحکیم بغیر ما أنزل اللہ' کوتفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے اپنے رسالہ 'تحکیم القوانین' میں اس کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کرتی ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی۔ تحکیم کی وہ صورتیں جو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا سبب نبتی ہیں' شیخ محمد بن ابراہیم کے نزدیک چھ(٦) ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں:
''أن الحاکم بغیر ما أنزل اللہ کافر ما کفر اعتقاد ناقل عن الملة وما کفر عمل لا ینقل عن الملة. أما الأول : وھو کفر الاعتقاد فھ وأنواع؛ أحدھا: أن یجحد الحاکم بغیرما أنزل اللہ أحقیة حکم اللہ ورسولہ...الثانی: أن لا یجحد الحاکم بغیر ما أنزل اللہ کون حکم اللہ ورسولہ حقا لکن اعتقد أن حکم غیر الرسول أحسن من حکمہ وأتم وأشمل...الثالث: أن لا یعتقد کونہ أحسن من حکم اللہ ورسولہ لکن اعتقد أنہ مثلہ فھذا کالنوعین قبلہ فی کونہ کافرا الکفر الناقل عن الملة...الرابع: أن لا یعتقد کون حکم الحاکم بغیر ماأنزل اللہ مماثلا لحکم اللہ ورسولہ فضلا عن أن یعتقد کونہ أحسن منہ لکن اعتقد جواز الحکم بما یخالف حکم اللہ ورسولہ.''(رسالة تحکیم القوانین: ص ٢۔٣)
'' اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم کافر ہوتا ہے اور اس کا کفر بعض صورتوں میں اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور بعض صورتوں میں اسے خارج نہیں کرتا۔ پہلی صورت کو ہم اعتقادی کفر کا نام دیتے ہیں اور کی درج ذیل قسمیں بنتی ہیں:
پہلی قسم تو یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم، اللہ اور اس کے رسول کے حکم یعنی قانون کے حق ہونے کا ہی انکاری ہو...
دوسری صورت یہ ہے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم، اللہ اور اس کے رسول کے حکم یعنی قانون کو تو حق مانتا ہو لیکن اس کا اعتقاد یہ ہو ان کے علاوہ مثلا ً انگریز وغیرہ کا حکم یعنی قانون ان یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم یعنی قانون سے زیادہ بہتر، جامع اور مکمل ہے...
تیسری قسم یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم یہ اعتقاد تونہ رکھے کہ غیراللہ کا قانون ، اللہ اور اس کے رسول کے قانون سے بہتر ہے لیکن ان دونوں کو برابر حیثیت دے تو اس صورت میں اس حاکم کا کفر ایسا ہو گا جو اسے ملت اسلامیہ سے خارج کر دے گا...
چوتھی صورت یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والا حاکم نہ تو غیر اللہ کے قانون کو اللہ اور اس کے رسول کے قانون سے بہتر سمجھے اور نہ ہی اس کے برابر سمجھتا ہو لیکن اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کے مخالف قانون سے فیصلہ کرنا بھی جائز ہے ۔''
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلفی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان چار قسم کے اعتقادی کفر کے ساتھ غیر اللہ کے حکم مطابق فیصلہ کرنے والا حاکم یا جج دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن اس صورت میں بھی معین تکفیر اس وقت تک جائز نہ ہو گی جب تک کہ رسوخ فی العلم رکھنے والے علماء کی ایک جماعت شروط اور موانع کا لحاظ رکھتے ہوئے کسی معین حاکم یا جج کی تکفیر نہ کر دے۔ہاں! ان چار صورتوں کو اصولی انداز میں ہر کوئی بیان کر سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔شارح عقیدہ طحاویہ شیخ ابن أبی العز الحنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''وھنا أمر یجب أن یتفطن لہ وھو : أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ قد یکون کفراینقل عن الملة وقد یکون معصیة کبیرة أو صغیرة ویکون کفرا: امامجازیا واما کفرا أصغر علی القولین المذکورین.وذلک بحسب حال الحاکم: فانہ ا ن اعتقد أن الحکم بما أنزل اللہ غیر واجب ' وأنہ مخیر فیہ' أو استھان بہ مع تیقنہ أنہ حکم (اللہ) فھذا کفر أکبر.وان اعتقد وجوب الحکم بما أنزل اللہ وعلمہ فی ھذہ الواقعة وعدل عنہ مع اعترافہ بأنہ مستحق للعقوبة' فھذا عاص ویسمی کفرا مجازیا أو کفرا أصغر.ومن جھل حکم اللہ فیھا مع بذل جھدہ واستفراغ وسعہ فی معرفة الحکم وأخطأ فھذا مخطی لہ أجر علی اجتھادہ وخطؤہ مغفور.''(شرح عقیدة طحاویة : ص ٣٠٤۔٣٠٥)
''یہاں ایک اہم نکتے کو سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنا بعض اوقات ایک ایسا کفر ہوتا ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے اور بعض اوقات یہ گناہ کبیرة یا گناہ صغیرة ہوتا ہے اور ان دو صورتوں میں اس کو مجازی کفر یا کفر أصغر کہیں گے اور اس کا فیصلہ حکمران کے حالات کے مطابق ہو گا۔اگر کسی حکمران کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنا غیر واجب ہے یا اختیاری ہے یا اس نے کسی حکم شرعی کویقین کے ساتھ اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے اس کا مذاق اڑایاتو یہ تمام صورتیں کفر اکبر ہیں۔اور اگر کسی حکمران نے کسی واقعے میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کو تو واجب سمجھا لیکن اس نے اس شرعی حکم کے ساتھ اس مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جبکہ وہ اس بات کا معترف بھی ہو کہ وہ اپنے اس عمل کی بنا پر سزا کا مستحق ہے تو ایسا حکمران گناہ گار ہے اور اس کے کفر کو مجازی کفر یا کفر أصغر کہیں گے۔اسی طرح جو حکمران اپنی مقدور بھر کوشش اور طاقت صرف کرنے کے باوجود اللہ کا حکم معلوم نہ کر سکا اور اپنے اجتہاد میں خطا کی بنا پر اللہ کے حکم کے مطابق اس نے فیصلہ نہ کیا تو یہ حکمران مجتہد مخطی ہے اور اسے اپنے اجتہاد کا ثواب ملے گا اور اس کی خطا قابل معافی ہے۔''
شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' من حکم بغیر ما أنزل اللہ فلایخرج عن أربعة أنواع:١۔ من قال أنا أحکم بھذا لأنہ أفضل من الشریعة الاسلامیة فھو کافر کفرا أکبر۔٢۔ ومن قال : أنا أحکم بھذا لأنہ مثل الشریعة الاسلامیة فالحکم بھذا جائز وبالشریعة جائز؛ فھوکافر کفرا أکبر.٣۔ ومن قال : أنا أحکم بھذا والحکم بالشریعة الاسلامیة أفضل لکن الحکم بغیر ما أنزل اللہ جائز فھو کافر کفرا أکبر.٤۔ ومن قال أنا أحکم بھذا وھو یعتقد أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ لایجوز ویقول : الحکم بالشریعة الاسلامیة أفضل ولا یجوز الحکم بغیرھا ولکنہ متساھل أو یفعل ھذا لأمر صادر عن احکامہ فھو کافر کفرا أصغر لا یخرج عن الملة ویعتبر من أکبر الکبائر.''
'' جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ سے فیصلہ کیا تو وہ چار صورتوں میں سے ایک صورت میں لازما داخل ہو گا۔
١۔ جو شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ[مثلا ً انگریزی قوانین] سے اس لیے فیصلہ کرتا ہوں کہ اسے شر یعت اسلامیہ سے بہتر خیال کرتا ہو تو ایسا شخص کا فر ہے اور اس کا کفر، کفر اکبر ہے۔
٢۔ اور جو شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ مثلا ً انگریزی قوانین سے فیصلہ اس لیے فیصلہ کرتا ہوں کہ ان قوانین اور شریعت اسلامیہ کا درجہ برابر سمجھتا ہوں لہذا ان قوانین کے مطابق فیصلہ کو جائز سمجھتا ہوں تو ایسا شخص بھی کافر ہے اور اس کا کفر، کفر اکبر ہے۔
٣۔ جو کوئی یہ کہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ قوانین سے فیصلہ اس لیے کرتا ہوں کہ ان کے مطابق فیصلہ کرنا جائز ہے اگرچہ شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ افضل ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہے او ر اس کا کفر، کفر اکبر ہے۔
٤۔ اور جو شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ قوانین سے فیصلہ کرتاہوں لیکن میرا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ قوانین سے فیصلہ کرناجائز نہیں ہے اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہو کہ شریعت اسلامیہ سے فیصلہ کرنا ہی افضل ہے اور شریعت کے علاوہ قوانین سے فیصلہ کرنا جائزنہیں ہے لیکن وہ شخص متساہل ہو یا اپنے حکمرانوں کے مجبور کرنے کی وجہ سے ایسا کرتا ہوتو ایسا شخص بھی کافر ہے لیکن اس کا کفر، کفر اصغر ہے اور اس کفر کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہو گا اور نہ ہی ایسا کفر اکبر الکبائر میں سے ہے۔''
شیخ بن باز رحمہ اللہ کا کلام اس مسئلے میں بہت واضح ہے کہ جب تک کوئی شخص شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے کو حلال نہ سمجھتا ہو، اس وقت تک وہ کافر نہیں ہوتا۔یہی استحلال کی شرط ہے جو جمیع کبار سلفی علماء نے عائد کی ہے۔

البتہ کبار سعودی علماء میں سے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر کے حوالے سے ایک ایسے موقف کا اظہار کیاہے جو بعض حضرات کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم 'رسالہ تحکیم القوانین ' میں توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر کی چھ قسمیں بیان کرتے ہیں۔ جن میں چار کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں جو کہ سلفی علماء میں اتفاقی ہیں جبکہ شیخ محمد بن ابراہیم نے توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر کی پانچویں اور چھٹی قسم بیان کی ہے وہ قابل بحث اور خصوصی توجہ کے لائق ہی ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے اس بیان کے ظاہر کے مطابق اگر کوئی حکمران یا قاضی یا جرگہ مجرد وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کر تا ہو، چاہے وہ اپنے اس عمل کو حرام یا ناجائز ہی کیوں نہ سمجھتا ہوں تو وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں :
''الخامس: ...فھذہ المحاکم فی کثیر من أمصار السلام مھیأة مکملة مفتوحة الأبواب والناس ا لیھا أسراب اثر أسراب یحکم احکامھا بینھم بما یخالف حکم السنة والکتاب من أحکام ذلک القانون وتلزمھم بہ وتقرھم علیہ وتحتمہ علیھم. فأی کفر فوق ھذا الکفر وأی مناقضة للشھادة بأن محمدا رسول اللہ بعد ھذہ المناقضة...السادس: ما یحکم بہ کثیر من رؤوساء العشائر' والقبائل من البوادی ونحوھم من حکایات آبائھم وأجدادھم وعاداتھم.''(رسالة تحکیم القوانین : ص٣)
''پانچویں قسم میں ... ایسی بہت سی عدالتیں آج بلاد اسلامیہ میں موجود ہیں جن کے دروازے ہر خاص وعام کے لیے کھلے ہیں اور لوگ جوق در جوق ان عدالتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان عدالتوں کے حکمران لوگوں کے مابین اس وضعی قانون سے فیصلے کرتے ہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہے اور نہ صرف فیصلے کرتے ہیں بلکہ ان قوانین کو عوام الناس پر لاگو بھی کرتے ہیں اورلوگوں کو ان پر برقرار رکھتے ہیں اور انہی قوانین کو ان کے لیے حتمی قرار دیتے ہیں۔ پس اس کفر سے بڑھ کر اور کون سا کفر ہو گا اور محمد رسول اللہ کی اس سے زیادہ مخالفت کیا ہو گی؟...چھٹی قسم میں علاقائی قبائل اور جرگوں کے سردار شامل ہیں جوقرآن وسنت کے بالمقابل اپنے آباء و اجداد کی رسومات اور حکایات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔''
معاصر کبار سعودی علماء شیخ محمد بن ابراہیم کے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے اور سلفی علماء کی طرف سے ان کے اس قول کے کئی ایک جوابات دیے گئے ہیں یا توجیہات پیش کی گئی ہیں۔(١٠):

پہلی توجیہ
بعض سلفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے جو آخری دو قسمیں بیان کی ہیں اور ان کی بنیاد پر کفر اکبر کا فتوی لگایا ہے تو ان کی یہ رائے درست نہیں ہے۔ شیخ بن بازرحمہ اللہ سے جب شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے اس نقطہ نظر کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے جواب میں کہا :
''سوال: ھناک فتوی للشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ یستدل بھا أصحاب التکفیر ھؤلاء علی أن الشیخ لا یفرق بین من حکم بغیر شرع اللہ عزوجل مستحلا ومن لیس کذلک کما ھو التفریق المعروف عند العلمائ. فقال الشیخ ابن باز : ھذا الأمر مستقر عند العلماء کما قدمت أن من استحل ذلک فقد کفر أمامن لم یستحل ذلک کأن یحکم بالرشوة ونحوھا فھذا کفر دون کفر...فقال السائل: ھم یستدلون بفتوی شیخ ابن ابراہیم؟ الشیخ بن باز: محمد بن ابراہیم لیس بمعصوم فھو عالم من العلماء یخطی ویصیب ولیس بنبی ورسول.'' (مجلة الفرقان: العدد : ٢٨' ص ١٢'کویت)
'' سوال: شیخ محمد بن ابراہیم کا ایک فتوی کہ جس سے اہل تکفیر استدلال کرتے ہیں، یہ ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم غیراللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ اسے جائز سمجھتے ہونے کرنے اور ناجائز سمجھتے ہوئے کرنے میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے جیسا کہ علماء میں یہ فرق معروف و مشہور ہے ۔ شیخ بن باز نے جواب دیا: یہ فرق علماء کے ہاں بالکل واضح ہے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ جس نے غیر اللہ کی شریعت کے مطابق کوئی فیصلہ اسے حلال اور جائز سمجھتے ہوئے کیا تو یہ کفر اکبر ہے اور جس نے اس حلال یا جائز نہ سمجھتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا مثلا ً رشوت وغیرہ لے کر تو یہ کفر دون کفر یعنی کفر اصغر ہے... سائل نے کہا: یہ لوگ شیخ محمد بن ابراہیم کے فتوی سے استدلال کرتے ہیں؟ شیخ بن باز نے جواب دیا: محمد بن ابراہیم معصوم نہ تھے ۔ وہ علماء میں سے ایک عالم دین تھے جو صحیح رائے بھی پیش کرتے تھے اور خطا بھی کرتے تھے اور وہ کوئی نبی یا رسول نہ تھے۔''
بعض لوگ شیخ بن باز رحمہ اللہ کے اس فتوی کے بارے یہ اعتراض نقل کرتے ہیں کہ یہ فتوی ان کی کیسٹ سے نقل شدہ ہے اور زبانی فتوی ہے جس میں احتیاط کا پہلو کم ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک انتہائی بودا اعتراض ہے کیونکہ شیخ بن باز رحمہ اللہ تونابینا تھے، ان کے تمام فتاوی ہی زبانی کلامی نقل ہوئے ہیں بلکہ فتاوی بن باز کے نام سے جو فتاوی سعودی عرب میں شیخ کی زندگی میں ہی شائع ہوتے رہے ہیں وہ ان کے ایک ٹی وی پروگرام'نور علی الدرب' اور دیگر مجالس علمیہ سے نقل کیے جاتے رہے ہیں، کیا شیخ کے جمیع زبانی و قولی فتاوی کو اس بنیاد پر مشکوک قرار دے دینا چاہیے؟(١١)

دوسری توجیہ
بعض سلفی علماء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے اپنے اس فتوی سے رجوع کر لیا تھااور ان کا آخری فتوی یہ ہے:
''وکذلک تحقیق معنی محمد رسول اللہ : من تحکیم شریعتہ' والتقید بھا' ونبذ ما خالفھا من القوانین والأوضاع وسائر الأشیاء التی ما أنزل اللہ بھا من سلطان ' والتی من حکم بھا أو حاکم الیھا؛ معتقدا صحة ذلک وجوازہ؛ فھو کافر الکفر الناقل عن الملة' فن فعل ذلک بدون اعتقاد ذلک وجوازہ ؛ فھو الکفر العملی الذی لا ینقل عن الملة.''(مجموع الفتاوی:جلد١، ص٨٠)
'' اسی طرح محمد رسول اللہ کے معنی کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے کیے جائیں اور اس کی پابندی کی جائے اور شریعت اسلامیہ کے جتنے بھی وضعی قوانین ہیں کہ جن کے بارے اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں کی، ان کو پھینک دیا جائے۔ پس جس نے ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کیے یا ان کے مطابق فیصلے کروائے اور اپنے اس فعل کے صحیح اور جائز ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو تو وہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اور جو شخص ان قوانین وضعیہ کے مطابق فیصلے کرے یا کروائے لیکن ان کے صحیح یا جائز ہونے کا عقیدہ نہ رکھتا ہو تو اس کا کفر عملی کفر ہے جو دین اسلام سے خارج نہیں کرتا۔''
پاکستان میں' اصلی اہل سنت' کی سلفی ویب سائیٹ اسی قول کو پیش کر رہی ہے۔

تیسری توجیہ
بعض سلفی علماء نے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کی بیان کردہ آخری دوقسموں کو بھی پہلی چار اقسام کا بیان قرار دیا ہے۔ شیخ عبد الرحمن بن معلا اللویحق کا کہنا یہ ہے کہ پہلی چار قسموں میں شیخ نے 'أن یجحد'یا 'أن یعتقد'کے الفاظ سے فاعل کو مخاطب کیا ہے جبکہ آخری دو قسموں میں شیخ نے فاعل کی بجائے فعل کو موضوع بحث بنایا ہے لہذا آخری دو قسمیں اپنے فاعل کے اعتبار سے پہلی چار قسموں میں شامل ہوں گی۔(الغلو فی الدین : ص٢٩١)۔ دوسرے الفاظ میں شیخ کی پہلی چار قسموں میں غیر معین اشخاص کی تکفیر کی گئی ہے جبکہ آخری دو قسموں میں کفر کو بیان کیا ہے لہذا پہلی چار قسمیں تکفیر سے متعلق ہیں اور آخری دو 'بیان کفر' ہیں۔

چوتھی توجیہ
بعض سلفی علماء شیخ محمد بن ابراہیم کی بیان کردہ آخری دو اقسام کی بنیاد پر تکفیر کے قائل ہیں(کتاب التوحید للشیخ الفوزان: ص ٦٦۔٦٧)ان سلفی علماء کے نزدیک اگر کوئی حکمران یا جج کسی ایسے قانون کے مطابق فیصلہ کرے جو کلی طور پر غیر اللہ کا قانون ہو اور اس میں اسلام نام کی کوئی چیز تک نہ ہو تو ایسے قانون کے مطابق فیصلہ اللہ کے کفر کے مترادف ہو گا اور اگر کوئی قانون ایسا ہو جو انگریزی اور اسلامی قوانین کا ملغوبہ ہو، جیسا کہ اکثر مسلمان ممالک کا معاملہ ہے ، تو ایسے قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا اگرچہ کناہ کبیرہ تو ہے لیکن دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث نہیں ہے جب تک کہ فیصلہ کرنے والااپنے اس عمل کو ناجائز اور حرام سمجھتا رہے۔ شیخ صالح الفوزان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''سوال: ما حکم تنحیة الشریعة السلامیة واستبدالھا بقوانین وضعیة کالقانون الفرنسی البریطانی وغیرھا مع جعلہ قانونا ینص فیہ علی أن قضایا النکاح والمیراث بالشریعة الاسلامیة؟ الجواب: من نحی الشریعة الاسلامیة نھائیا وأحل مکانھا القانون فھذا دلیل علی أنہ یری جواز ھذا الشیء لأنہ ما نحاھا وأحل محلھا القانون لا لأنہ یری أنھا أحسن من الشریعة ولو کان یری أن الشریعة أحسن منھا لما أزاح الشریعة وأحل محلھا القانون فھذا کفر باللہ عز وجل.أما من نص علی أن قضایا النکاح والمیراث فقط تکون علی حسب الشریعة ھذا یؤمن ببعض الکتاب ویکفر ببعض یعنی یحکم الشریعة فی بعض ویمنعھا فی بعض والدین لا یتجزأ تحکیم الشریعة لا یتجزأ فلا بد من تطبیق الشریعة تطبیقا کاملا ولا یطبق بعضھا ویترک بعضھا.''( أسئلة وأجوبة فی مسائل الایمان والکفر: ص ٩)
'' شریعت اسلامیہ کو معزول کرنے اور اس کی جگہ وضعی مثلا ً فرانسیسی یا برطانوی قوانین وغیرہ کو لانے کا کیا شرعی حکم ہے جبکہ ان کے ساتھ ایک یہ قانون بھی موجود ہو کہ نکاح اور وراثت وغیرہ کے معاملات شریعت اسلامیہ کے مطابق طے پائیں گے؟جواب: جس نے شریعت اسلامیہ کو کلی طور پر معزول کر دیا اور اس کی جگہ وضعی قانون کو نافذ کر دیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس شیء کو جائز سمجھتا ہے کیونکہ اس نے شریعت کو معزول کر دیا ہے اور اس کی جگہ وضعی قانون کو نافذ کر دیا ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اس وضعی قانون کو شریعت سے بہتر سمجھتا ہے اور اگر وہ شریعت کو اس وضعی قانون سے بہتر سمجھتا تو شریعت اسلامیہ کو زائل نہ کرتا اور اس کی جگہ وضعی قانون نافذ نہ کرتا پس حاکم کا یہ فعل اللہ کے انکار کے مترادف ہے اور جہاں تک اس کا معاملہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہمارے قانون میں صرف نکاح اور وراثت کے معاملات شریعت کے مطابق طے ہوں گے تو وہ کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتا ہے اور بعض کا انکار کرتا ہے یعنی بعض میں شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور بعض میں شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کررہا ہے ۔ اور دین کے حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے ۔ اسی طرح شریعت کے مطابق فیصلوں میں بھی یہ تقسیم درست نہیں ہے لہذا یہ ایک لازمی امر ہے کہ مکمل فیصلے شریعت کے مطابق کیے جائیں اور ایسا معاملہ نہ ہو کہ بعض فیصلے تو شریعت کے مطابق ہوں اور بعض میں شریعت کو چھوڑدیا جائے۔''
بعض لوگوں کو شیخ صالح الفوازن کے بارے یہ غلط فہمی ہوئی کہ شاید وہ بھی وضعی قوانین کے متعلق فیصلہ کرنے والوں کی مطلق تکفیر کے قائل ہیں حالانکہ یہ درست نہیں۔ ان کا تفصیلی موقف یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے ۔ خالد العنبری کی کتاب پر 'اللجنة الدائمة' کی طرف سے جو فتوی آیا تھا اس میں شیخ صالح الفوزان کے جو تاثرات تھے ان میں شیخ نے اسی تفصیل کو ' لأنہ یزیح تحکیم الشریعة السلامیة وینحیھا نھائیا' کے الفاظ سے اجمالاً بیان کیا ہے ۔

پانچویں توجیہ
بعض سلفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ قضیہ معینہ اورتشریع عام میں فرق کرتے ہوئے معاصر مسلمان ممالک کے قوانین کے مطابق مجرد فیصلہ کرنے کی وجہ سے کسی حاکم یا جج کو ملت اسلامیہ سے خارج قرار دیتے ہیں تو ان کا یہ قول عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے لہذا ناقابل قبول ہے۔
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے اس قول کے جہادی اوربعض انقلابی سلفی شارحین کا کہنا یہ ہے کہ شیخ کے قول کے مطابق معاصر حکمران یا جج حضرات جس آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اسے ایک مصدر اور منبع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جج حضرات اپنے فیصلوں میں باربار اس آئین یا قانون کی طرف رجوع کرتے ہیں لہذا قرون أولی میں کسی قاضی کا کسی خاص واقعے میں شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا اور موجودہ دور میں کسی جج کا کسی واقعے میں بار بار کسی غیر شرعی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس قانون کے مطابق فیصلے میں استمرار کا پایا جانا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔

ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں صورتیں گناہ کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں ۔ پہلی صورت گناہ میں ہلکے درجے کی ہے جبکہ دوسری صورت کا گناہ بہت بڑھ کر ہے لیکن یہ کفر اکبر نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی گناہ پر اصرار کرتا ہے تو وہ گناہ کفر نہیں بن جاتا جیسا کہ ایک شرابی زندگی بھر شراب پیتا رہے اور ایک سود خور عمر بھرسود کھاتا رہے تو اس کے اس فعل کی برائی، قباحت اور شناعت تو بڑھ جائے گی لیکن اس کا یہ فعل گناہ کبیرہ ہی رہے گا نہ کہ کفر اکبر بن جائے گا۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول کی صحبت میں رہنے والے ایک صحابی عبد اللہ الحمار شراب نوشی پر دوام اختیار کرنے والوں میں سے تھے اور اللہ کے رسول نے ان پر کئی دفعہ حد جاری فرمائی یہاں تک ایک دفعہ تنگ آکر بعض صحابہ نے اس پر لعن طعن کی کہ اتنی بار حد نافذ کرنے کے بعد بھی اس عادت کو نہیں چھوڑتے ہو تو اللہ کے رسول نے اس پر لعن طعن کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے۔ (صحیح بخاری ' کتاب الحدود ' باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر)
پس نص سے ثابت ہوا کہ کسی برائی یا کبیرہ گناہ پر دوام اسے کفر اکبر نہیں بناتالہذا اگر قضیہ معینہ میں ایک چیز کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا بھی یہی کہنا ہے تو تشریع عام میں اس گناہ کبیرہ پر استمرار کی صورت میں وہ کفر اکبر کیسے بن جائے گی؟۔

اگر کوئی شخص مذکورہ بالا توجیہات پر مطمئن نہ تو پھرایسے شخص کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عقلی ومنطقی اعتبار سے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا قول، ان کی جلالت علمی کے باوصف، اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ اس قول میں یہ بات موجود ہے کہ تحکیم بغیر ما أنزل اللہ میں اعتقادی کفر کی چھ اقسام ہیں اور اعتقادی کفر کے بیان میں پانچویں اور چھٹی قسم ایسی بیان کی ہے جو عمل سے متعلق ہے اور عملی کفر ہے۔انسان کا عمل ہر صورت میں اس کے عقیدے پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی ہر صورت میں عمل کی عقیدے پر دلالت قطعی ہوتی ہے مثلا ً ایک شخص ساری عمر حرام سودکھاتا رہا ہے۔ اب کیا اس کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سود کھانے کو جائز یا اچھا سمجھتا ہے جیسا کہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے قول میں یہ بات موجود ہے کہ حکمران یا جج ساری عمر غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرتا رہاہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ غیر اللہ کے قانون کو کتاب وسنت سے بہتر سمجھتا ہے۔ کسی عمل پر دوام اور استمرارکسی کے عقیدے کے لیے دلیل کیسے بنتا ہے ، یہ بات قابل فہم نہیں ہے۔ زنا کا ارتکاب ایک دفعہ ہو یا کوئی شخص زنا کا عادی مجرم ہو، دونوں صورتوں میں زنا کی حد ایک ہی ہو گی یعنی زنا کے عادی مجرم کے لیے کوئی علیحدہ سے سخت حد نازل نہیں ہوئی ہے، اگرچہ عادی مجرم کا گناہ ایک دفعہ کے مرتکب کے گناہ سے بہت بڑھ کرہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ اور سلفی علماء کی رائے
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے فتوی کے بارے ان مذکورہ بالا پانچ آراء میں سے دوسری رائے راجح ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا رسالہ تحکیم ١٣٨٠ھ میں پہلی دفعہ شائع ہوا جبکہ شیخ کا دوسرا فتوی محرم ١٣٨٥ھ کا ہے پس ثابت ہوا کہ یہی شیخ کاآخری قو ل ہے اور یہی جمیع اہل سنت کا بھی موقف ہے کہ مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ خارج عن الملة نہیں ہے الا یہ کہ اس کے ساتھ استحلال قلبی یا جحود بھی ہو۔

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''وخلاصة الکلام : لا بد من معرفة أن الکفر کالفسق والظلم ینقسم الی قسمین : کفر وفسق وظلم یخرج من الملة وکل ذلک یعود الی الاستحلال القلبی وآخر لا یخرج من الملة یعود الی الاستحلال العملی.'' (التحذیر من فتنة التکفیر : ص ٩' ١٠)
''ہماری اس طویل بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ جان لینا چاہیے کہ کفر بھی ظلم اور فسق کی مانند دو طرح کا ہے ۔ ایک کفر' ظلم اور فسق و فجور تو وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے اور یہ وہ کفر ' ظلم یا فسق ہے جس میں کوئی کفر' ظلم یا فسق کا ارتکاب اسے دل سے حلال سمجھتے ہوئے کرے اور دوسرا کفر' ظلم یا فسق وہ ہے جو ملتاسلامیہ سے خارج نہیں کرتا اور یہ وہ ہے جس کا مرتکب عملاً اس کفر' ظلم یا فسق کو حلال سمجھ رہا ہو نہ کہ قلبی طور پر۔ ''
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''فقد اطلعت علی الجواب المفید الذی تفضل بہ صاحب الفضیلة الشیخ محمد ناصر الدین الألبانی وفقہ اللہ المنشور فی صحیفة المسلمون الذی أجاب بہ فضیلتہ من سألہ عن '' تکفیر من حکم بغیر ما أنزل اللہ من غیر تفصیل'' ... وقد أوضح أن الکفر کفران : أکبر وأصغر کما أن الظلم ظلمان وھکذا الفسق فسقان : أکبر وأصغر. فمن استحل الحکم بغیر ما أنزل اللہ أو الزنی أو الربا أو غیرھما من المحرمات المجمع علی تحریمھا فقد کفر کفرا أکبر وظلم ظلما أکبر وفسق فسقا أکبر : ومن فعلھا بدون استحلال کان کفرہ کفرا أصغر وظلمہ ظلما أصغر.''(التحذیر من فتنة التکفیر : ص ١٣ ' ١٤)
''میں تکفیر کے مسئلے میں اس جواب سے مطلع ہوا جسے فضیلة الشیخ جناب علامہ البانی نے نقل کیا ہے اور وہ 'المسلمون' نامی اخبار میں نشر ہوا ہے ۔ اپنے اس فتوی میں آنجناب نے' بغیر کسی تفصیل کے اس شخص کی تکفیر کہ جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کیا ہو' کے بارے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ... شیخ ألبانی نے یہ واضح کیا ہے کہ کفر دو قسم کا ہے : ایک کفر اکبر اور دوسرا کفر اصغر جیسا کہ ظلم اور فسق و فجور بھی دو قسم کا ہے۔ ایک ظلم اکبر اور دوسرا ظلم اصغر ' اسی طرح ایک فسق اکبر اوردوسرا فسق اصغر۔ جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے بغیر فیصلہ کرنے کو جائز اور حلال سمجھا یا زنا یا سود یاان کے علاوہ مجمع علیہ حرام شدہ امور میں سے کسی امر کو حلال سمجھا تو اس کا کفر تو کفر اکبر ہے یا اس کا ظلم تو ظلم اکبر اور اس کا فسق تو فسق اکبر ہے۔ اور جس نے اللہ کی نازل کردہ شریعت کو حلال جانے بغیر اس کے خلاف فیصلہ دیا تو اس کا کفر تو کفر اصغر ہے اور اس کا ظلم بھی ظلم اصغر ہے۔''
بعض لوگوں کو شیخ بن باز رحمہ اللہ کے ایک فتوی سے یہ غلط فہمی لاحق ہوئی کہ وہ وضعی قوانین کے مطابق فیصلوں کو مطلق طور پر کفر سمجھتے تھے حالانکہ شیخ کا یہ فتوی ان کے مذکورہ بالا فتاوی ہی کا ایک بیان ہے۔ شیخ بن باز رحمہ اللہ نے ایک جگہ فرمایا ہے:
'' وکل دولة لا تحکم بشرع اللہ ولا تنصاع لحکم اللہ ولا ترضاہ فھی دولة جاھلیة کافرة ظالمة فاسقة بنص ھذة الآیات المحکمات.''(المفصل فی شرح آیت الولاء والبراء : ص ٢٨٨)
'' ہر ریاست جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم پرراضی نہ ہو تو وہ مذکورہ بالا محکم آیات کی روشنی میں جاہلی ' کافر ' ظالم اور فاسق ریاست ہے ۔''
اس فتوی میں 'ترضاہ' کے الفاظ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ شیخ بن باز رحمہ اللہ اس مسلمان ریاست کی تکفیر کرتے ہیں جو غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز اور حلال سمجھتی ہو اور یہی بات جمہور سلفی علماء بھی کہتے ہیں۔شیخ بن باز رحمہ اللہ کے جلیل القدر تلامذہ نے بھی ان کی طرف اسی موقف کی نسبت کی ہے جسے ہم ان کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں ۔

شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''فقد ذھب بعض أھل العلم الی أن مجرد تحکیم قانون أو نظام عام مخالف لشرع اللہ تعالی کفر مخرج من الملة ولو لم یصحبہ اعتقاد أن ھذا القانون أفضل من شرع اللہ أو مثلہ أویجوز الحکم بہ ...وقد رجح شیخای الشیخ عبد العزیز بن باز والشیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ القول الأول وھو أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ لا یکون کفرا مخرجا من الملة مطلقا حتی یصحبہ اعتقاد جواز الحکم بہ أو أنہ أفضل من حکم اللہ أو مثلہ أو أی مکفر آخر.'' (تسھیل العقیدة السلامیة : ص ٢٤٢۔٢٤٣)
'' بعض اہل علم کا دوسراقول یہ ہے کہ مجرد کسی خلاف شرع وضعی قانون یا نظام عام سے فیصلہ کرنا ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے اگرچہ اس شخص کا یہ اعتقاد نہ بھی ہو کہ وضعی قانون اللہ کی شریعت سے افضل یا اس کے برابر ہے یا اس سے فیصلہ کرنا جائز ہے ... ہمارے شیخین ' شیخ بن باز اور شیخ بن عثیمین رحمہما اللہ نے اس مسئلے میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مطلق طور پر اللہ کی نازل کردہشریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرنا ایسا کفر نہیں ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہو یہاں تک کہ وہ فیصلہ کرنے والا اس کے مطابق فیصلے کو جائز سمجھتا ہو یا شریعت سے افضل یا اسے بہتر سمجھتا ہو یا اس قسم کا کوئی کفریہ سبب پایا جاتا ہو۔''
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''والذی فھم من کلام الشیخین : أن الکفر لمن استحل ذلک وأما من حکم بہ علی أنہ معصیة مخالفة : فھذا لیس بکافر لأنہ لم یستحلہ لکن قد یکون خوفا أو عجزا أو ما أشبہ ذلک.''(التحذیر من فتنة التکفیر : ص ١٦)
''شیخین یعنی شیخ بن باز اور علامہ ألبانی کے کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے حاکم کا کفر،حقیقی اس صورت میں ہو گا جبکہ وہ اپنے اس فعل کو جائز سمجھتا ہو اور جو حاکم غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے اور اس کو معصیت یا دین کی مخالفت سمجھے تو وہ حقیقی کافر نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنے اس فعل کو حلال نہیں سمجھا۔ بعض اوقات کوئی حاکم خوف یا عجز یا اس قسم کی وجوہات کی وجہ سے بھی شریعت کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے،(لہذا اس صورت میں بھی اس پر کفر کا فتوی نہیں لگا یا جائے گا)۔''
ایک اور مقام پر ایک سوال کے جواب میں شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' سؤال : اذا ألزم الحاکم الناس بشریعة مخالفة للکتاب والسنة مع اعترافہ بأن الحق ما فی الکتاب و السنة لکنہ یری ا لزام الناس بھذا الشریعة شھوة أو لاعتبارات أخری ' ھل یکون بفعلہ ھذا کافر أم لا بد أن ینظر فی اعتقادہ فی ھذہ المسألة ؟ فأجاب: أما فی ما یتعلق بالحکم بغیر ما أنزل اللہ فھو کما فی کتابہ العزیز ینقسم الی ثلاثہ أقسام : کفر وظلم وفسق علی حسب الأسباب التی بنی علیھا ھذا الحکم' فھذا الرجل یحکم بغیر ما أنزل اللہ تبعا لھواہ مع علمہ بأن الحق فیما قضی اللہ بہ' فھذا لا یکفر لکنہ بین فاسق وظالم.وأما ذا کان یشرع حکما عاما تمشی علیہ الأمة یری أن ذلک من المصلحة وقد لبس علیہ فیہ فلا یکفر أیضا' لأن کثیر من الحکام عندھم جھل بعلم الشریعة ویتصل بمن لا یعرف الحکم الشرعی وھم یرونہ عالما کبیرا فیحصل بذلک مخالفة واذا کان یعلم الشرع ولکنہ حکم بھذا أو شرع ھذا وجعلہ دستورا یمشی الناس علیہ نعتقد أنہ ظالم فی ذلک وللحق الذی جاء فی الکتاب والسنة أننا لا نستطیع أن نکفر ھذا وانما نکفر من یری أن الحکم بغیر ما أنزل اللہ أولی أن یکون الناس علیہ أو مثل حکم اللہ عزوجل فان ھذا کافر لأنہ یکذب بقولہ تعالی ألیس اللہ بأحکم الحاکمین وقولہ تعالی أفحکم الجاھلیة یبغون ومن أحسن من اللہ حکما لقوم یوقنون.''(تحکیم قوانین کے متعلق اقوال سلف: ص ٣١۔٣٢)
'' سوال: اگر کوئی حاکم کتاب و سنت کے مخالف کسی قانون کو نافذ کر دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ حق وہی ہے جو کتاب وسنت میں ہے اور اس مخالف ِ کتاب و سنت قانون کو اپنی خواہش نفس یا کئی اور وجوہات کی بنا پر نافذ کرتا ہے تو کیا اپنے اس فعل سے وہ کافر ہو جائے گا یا یہ لازم ہے کہ اس مسئلے میں اس پر کفر کا فتوی لگانے کے لیے اس کا عقیدہ دیکھا جائے ؟ جواب: ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کی تین قسمیں یعنی کفر' ظلم اور فسق و فجور قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور ان قسموں کا اطلاق اس حکم کے اسباب کے اعتبار سے بدلتا رہے گا۔ پس اگر کسی شخص نے اپنی خواہش نفس کے تحت ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کیا جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کا فیصلہ حق ہے تو ایسے شخص کی تکفیر نہ ہو گی اور یہ ظالم اور فاسق کے مابین کسی رتبے پر ہو گا۔ اور اگر کوئی حکمران ما أنزل اللہ کے غیر کو تشریع عام یعنی عمومی قانون کے طور پر نافذ کرتا ہے تا کہ امت مسلمہ اس پر عمل کرے اور ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ اسے اس میں کوئی مصلحت دکھائی دیتی ہیحالانکہ اصل حقیقت اس سے پوشیدہ ہوتی ہے تو ایسے حکمران کی بھی تکفیر نہ ہو گی کیونکہ اکثر حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شرعی احکام سے ناواقف ہوتے ہیںاور انہیں ایسے جہلاء کا قرب حاصل ہوتا ہے جنہیں وہ بہت بڑا عالم سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ پس اس طرح وہ شریعت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی حکمران شریعت کو جانتا ہو لیکن اس نے کسی وضعیقانون کے مطابق فیصلہ کر دیا یا اسے بطور قانون اور دستور نافذ کر دیا تاکہ لوگ اس پر عمل کریں تو ایسے حکمران کے بارے بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ وہ اس مسئلے میں ظالم ہے اور حق بات کہ جس کے ساتھ کتاب و سنت وارد ہوئے ہیں' یہ ہے کہ اس حکمران کی بھی ہم تکفیر نہیں کر سکتے ہیں ۔ ہم تو صرف اسی حکمران کی تکفیر کریں گے جو ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق اس عقیدے کے ساتھ فیصلہ کرے کہ لوگوں کاما أنزل اللہ کے غیر پر چلنا اللہ کے حکم پر چلنے سے بہتر ہے یا وہ اللہ کے حکم کے برابر ہے ۔ ایسا حکمران بلاشبہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی کے قول' کیا اللہ تعالی سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے ' اور ' کیا وہ جاہلیت کے فیصلہ سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے ' ایسی قوم کے لیے جو کہ یقین رکھتے ہیں' کا انکار کر تا ہے۔''
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے پڑپوتے شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ رحمہما اللہ فرماتے ہیں:
'' وانما یحرم اذا کان المستند الی الشریعة باطلة تخالف الکتاب والسنة کأحکام الیونان والفرنج والتتر وقوانینھم التی مصدرھا آراؤھم وأھواؤھم وکذلک البادیة وعاداتھم الجاریة. فمن استحل الحکم بھذا فی الدماء أو غیرھا فھو کافر قال تعالی : ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ھم الکفرون. وھذہ الآیة ذکر فیھا بعض المفسرین : أن الکفر المراد ھنا: کفر دون الکفر الأکبر لأنھم فھموا أنھا تتناول من حکم بغیر ما أنزل اللہ وھو غیر مستحل لذک لکنھم لا ینازعون فی عمومھا للمستحل وأن کفرہ مخرج عن الملة.''(منھاج التأسیس والتقدیس فی کشف شبھات داؤد بن جرجیس: ص٧٠' دار الھدایة)
'' اگر کتاب و سنت کے مخالف باطل احکامات مثلا ً یونانی' انگریزی اور تاتاری قوانین کہ جن کا منبع و سر چشمہ اہل باطل کی خواہشات اور آراء ہوتی ہیں' کو شرعی مرجع بنا لیا جائے تو یہ صرف ایک حرام کام ہے۔ اسی طرح کا معاملہ قبائلی جرگوںاور ان کے رسوم و رواج کے مطابق فیصلوںکا بھی ہےیعنی وہ بھی ایک حرام فعل ہے۔ پس جس نے ان باطل قوانین کے مطابق قتل و غارت اور دیگر مسائل میں فیصلہ کرنے کو حلال سمجھا تو ایسا شخص کافر ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: جو شخص اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ۔ بعض مفسرین نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں کفر سے مراد کفر اکبر سے چھوٹا کفر یعنی کفر اصغر ہے کیونکہ ان مفسرین کے فہم کے مطابق اس آیت میں ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے سے مراد اس فیصلہ کو حلال نہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے لیکن اہل علم کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ جو حکمران اس فیصلہ کو حلال سمجھتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔''
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' فالحکم بغیر ما أنزل اللہ من أعمال أھل الکفر وقد یکون کفر ینقل عن الملة وذلک ا ذا اعتقد حلہ وجوازہ وقد یکون کبیرة من کبائر الذنوب ومن أعمال الکفر قد استحق من فعلہ العذاب الشدید...فھو ظلم أکبر عند استحلالہ وعظیمة کبیرة عند فعلہ غیر مستحل لہ.''(تفسیر سعدی : المائدة : ٤٥)
''ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرناکفریہ فعل ہے اور بعض صورتوں میں یہ دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے جب کوئی شخص اپنے اس فعل کو حلال اور جائز سمجھتا ہو۔ اور بعض اوقات یہ فعل ایک کبیرہ گناہ اور کفریہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل شدید عذاب کا مستحق ہے...پس اگر اس شخص نے اپنے اس فعل کو حلال سمجھا تو یہ کفر اکبر ہے اور اگر اس فعل کو حلال نہ سمجھا تو اس وقت یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔''
شیخ عبد المحسن العباد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'' ھل استبدال الشریعة الاسلامیة بالقوانین الوضعیة کفر فی ذاتہ؟ أم یحتاج الی الاستحلال القلبی والاعتقاد بجواز ذلک؟ وھل ھناک فرق فی الحکم مرة بغیرما أنزل اللہ وجعل القوانین تشریعا عاما مع اعتقاد عدم جواز ذلک؟ الجواب : یبدو أنہ لا فرق بین الحکم فی مسألة أو عشرة أو مئة أو أقل أو أکثر فما دام الانسان یعتبر نفسہ أنہ مخطیء وأنہ فعل أمرا منکرا وأنہ فعل معصیة وأنہ خائف من الذنب فھذا کفر دونکفر وأما مع الاستحلال ولو کان فی مسألة واحدة وھو یستحل فیھا الحکم بغیر ما أنزل اللہ ویعتبرذلک حلالا فنہ یکون کفرا أکبر.'' (شرح سنن أبی داؤد للشیخ عبد المحسن العباد :جلد10،ص 332' المکتبة الشاملة' الاصدار الثالث)
'' سوال: کیا شریعت اسلامیہ کی جگہ وضعی قوانین کا نفاذ بنفسہ کفر ہے؟ یا اس کے کفر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دلی طور پر اس فعل کو حلال سمجھتا اور اس کے جواز کا عقیدہ رکھتا ہو؟ کیا ایک مرتبہ ما أنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے اور وضعی قوانین کو مستقل و عمومی قانون بنا لینے میں کوئی فرق ہے جبکہ قانون ساز اس قانون سازی کے جائز نہ ہونے کا بھی عقیدہ رکھتا ہو؟جواب : یہ بات ظاہر ہے کہ کسی ایک مقدمہ یا دس یا سو یا اس سے زائد یا کم میں فیصلہ کرنے سےشرعی حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک انسان یہ سمجھتا ہو کہ وہ خطار کار ہے اور اس نے ایک برا اور نافرمانی کا کام کیا ہے اور اسے اپنے گناہ کا خوف بھی لاحق ہوتو یہ کفر اصغر ہے اور اگر وہ اپنے اس فعل کو حلال سمجھتا ہو' چاہے ایک مقدمہ میں ہی کیوں نہ ہو اور وہ اس مقدمہ میں ماأنزل اللہ کے غیر کے مطابق فیصلہ کو حلال سمجھتا ہو تو یہ کفر اکبر ہو گا۔''

شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''أن یضع تشریعا أو قانونا مخالفا لما جاء فی کتاب اللہ و سنة رسولہ و یحکم بہ معتقدا جواز الحکم بھذا القانون أو معتقدا أن ھذا القانون خیر من حکم اللہ أومثلہ فھذا شرک مخرج من الملة.''(تسھیل العقیدة الاسلامیة: ص ٢٤٢)
'' یہ کہ حکمران کوئی ایسی قانون سازی کرے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کے مخالف ہو اور وہ اس قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کو عقیدے کے اعتبار سے جائز سمجھتا ہو یا اس قانون کو اپنے عقیدے میں اللہ کے حکم سے بہتر خیال کرتا ہو یا اس کے برابر سمجھتا ہو تو یہ ایسا شرک ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے۔''
پس معاصر سلفی علماء کے نزدیک غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے حکمرانوں کا کفر دو قسم کا ہے: کفر حقیقی اور کفر عملی' اگر تو حکمران غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے اس کو حلال' شریعت اسلامیہ سے بہتر' اس کے برابر اور جائز سمجھتے ہوئے کر رہے ہیں تو یہ کفر اعتقادی ہے ورنہ کفر عملی۔اس تقسیم کے قائل عبد اللہ بن عباس'امام احمد بن حنبل'امام محمد بن نصر مروزی' امام ابن جریر طبری' امام ابن بطہ' امام ابن عبد البر' امام سمعانی' امام ابن جوزی' امام ابن العربی' امام قرطبی' امام ابن تیمیہ' امام ابن قیم' امام ابن کثیر' امام شاطبی' امام ابن أبی العز الحنفی'امام ابن حجر عسقلانی' شیخ عبد للطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ'شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی' علامہ صدیق حسن خان'علامہ محمد أمین شنقیطی رحمہم اللہ أجمعین اور شیخ عبد المحسن العباد بھی ہیں۔(١٢)

سعودی سلفی علماء میں شیخ سلمان بن فہد العودة اور شیخ سفر الحوالی حفظہما اللہ کے بارے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اہل تکفیر میں سے ہیں اور سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان دونوں شیوخ کی قدیم تحریروں میں تکفیر اور خروج کے مسئلہ میں تشدد پایا جاتا ہے لیکن سعودی حکومت کی طرف سے جب ان حضرات پر سختی ہوئی اور انہیں جیل میں قید کیا گیا ہے اور پھر بعض علماء کی کوششوں سے ایک معاہدے کے نتیجے میں یہ حضرات کئی سال بعد جیل سے باہر آئے تو انہوں نے اپنے منہج میں واضح تبدیلی کی ہے۔یہاں تک کہ جہادی عالم دین شیخ ابو معاویہ شامی نے 'الشیخ سلمان العودة یرد الشیخ سلمان العودة'کے نام سے مضمون لکھا جس میں شیخ سلمان العودہ کے سابقہ بیانات کی روشنی میں' کہ جن سے وہ رجوع کر چکے تھے' ان کے موجودہ موقف کا رد کیاکہ جسے انہوں نے نئے منہج کے طور پر اختیار کیا تھا۔ریاض میں ہونے والے خود کش حملوں کی بھی دونوں شیخین نے مخالفت کی ۔ علاوہ ازیں شیخ سفر الحوالی نے صحیفہ عکاظ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں عراق میں جہاد کی غرض سے جانے والے سعودی نوجوانوں کو روکا اور انہیں یہ مشورہ دیا کہ اس بارے اہل عراق کا معاملہ انہی پر چھوڑ دیا جائے اور سعودی نوجوانوں کے وہاں جانے سے مفاسد پیدا ہوں گے۔ علاوہ ازیں شیخین نے افغانستان میں جہاد کی غرض سے جانے والے سعودی نوجوانوں کی کثیر تعداد کو بھی وہاںجانے سے روکا اور سعودی عرب میں ہی امریکہ کے خلاف ایک اصلاحی تحریک کی بنیاد رکھی اور ایسے افکار اور اعمال سے نوجوانوں کو منع کیا جن سے ان کی نظر میں مفاسد پیدا ہو سکتے تھے۔ تفصیل کے لیے درج ذیل ویب سائیٹ پر دیے گئے مضامین کا مطالعہ کریں۔(١٣)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
 میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں....اور خواہاں ہوں کہ آپ ان شاءاللہ اس پر عمل کریں گے....وہ یہ کہ بعض ایسے مضامین یابعض ایسی کتب لکھی جائیں جو امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے زمانے کی سعودی مملکت اورآج کی سعودی مملکت کی حالتوں کے درمیان شریعت کے نفاذ کے حوالے سے فرق واضح کریں اور ایسی حکومتوں کے متعلق نقطہ نظر واضح کریں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے ہٹ کر نظام چلاتی ہیں ۔
حصہ دوم
مسئلہ تکفیر

کتاب وسنت کی روشنی میں

مسئلہ تکفیر کی اصولی بنیادیں
سلفی علماء مسئلہ تکفیر میں کچھ بنیادوں کو اس شدت اور صراحت سے نکھارتے ہیں کہ اس کے بعد کسی تفصیل یا وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ ان اصولی بنیادوں کو اس لیے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تکفیر کے مسئلہ میں اصولی اختلافات ہی کی وجہ سے خوارج اور معتزلہ گمراہ ہوئے ہیں۔جب تک کوئی شخص ان اصولوں کا تھامے رہے گا تو وہ سلف صالحین کے منہج پر قائم رہے گا لیکن جیسے ہی اس نے کسی اصول کو ترک کیا تو وہ خوارج اور معتزلہ کے منہج پر گامزن ہو جائے گا۔ ہم یہاں یہ بھی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ متقدمین سلف صالحین میں اصولوں کے بیان میں اجمال ہے جبکہ متاخرین نے اس اجمال کو تفصیلی شکل دے دی ہے۔ ہماری ناقص رائے کے مطابق جو اجمال متقدمین کے ہاں پایا جاتا ہے اسی کو برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ اجمال کی تفصیل میں اہل علم کا اختلاف ممکن ہے ۔ مثلاً امام ابن قیم رحمہ اللہ نے نواقض اسلام کو انتہائی اجمال کے ساتھ تین صورتوں میں مقید کر دیاہے جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے جبکہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے ان اصولوں کی تفصیل بیان کر کے ان کو پھیلا دیا ہے جس سے بعض لوگوں کوان کی تحریروں کے فہم میں غلطی لگی ہے ۔ یہی معاملہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا بھی ہے کہ انہوں نے 'تحکیم بغیر ما أنزل اللہ'کو اصولی طور پر چھ حصوں میں تقسیم کر دیا تھا جس سے بعض اصحاب کوکئی ایک غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور انہیں بالآخر اپنے قول سے رجوع کرنا پڑا۔سلف صالحین نے اس مسئلے کو اجمال کے ساتھ دوقسموں میں تقسیم کیا ہے: یعنی کسی شخص نے یہ فعل حلال سمجھتے ہوئے کیا یا نہیں کیا ہے؟

اسی طرح سلف صالحین نے توحید کی اجمال کے ساتھ تین قسمیں بیان کی تھیں ۔ اب بعض معاصر سلفی علماء نے جب ان کی تفصیل کرنی چاہی اور توحید حاکمیت کے نام سے ایک اور قسم متعارف کروائی تو اختلافات کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے جب نواقض اسلام کی تفصیل کی توبعض کبار حنفی علماء نے مسئلہ تکفیر میں ان سے شدید اختلاف کیا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کے بقول متقدمین سلف صالحین عقیدہ کی بنیادوں کو متاخرین سے بہت بہتر سمجھتے ہیں ۔ لہذاہماری رائے بھی یہی ہے کہ توحید اور تکفیر کے اصولی اور بنیادی مسائل میں متقدمین سلف کی اجمالی تقسیم، متاخرین کی تفصیلات کی نسبت راجح اور اقرب الی الصواب ہے۔اس بحث میں ہم متقدمین میں امام ابن قیم رحمہ اللہ کی اصولی تقسیم اور مباحث کو شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے نواقض اسلام کی تفصیل پر قابل ترجیح سمجھتے ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی نواقض اسلام کی بجائے امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب 'تارک الصلاة وحکمھا' کو بطور عقیدہ پڑھانااور ذہنوں میں راسخ کرنا چاہیے ۔ نواقض اسلام کے بیان میں امام ابن قیم رحمہ اللہ یا سلف صالحین کے اس اجمالی منہج کو معاصر سلفی علماء نے بھی قبول کیا ہے اور برقرار رکھا ہے جیسا کہ علامہ عبد اللہ بن عبد العزیز الجبرین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب'تسھیل العقیدة السلامیة'میں نواقض اسلام کو اجمال کے ساتھ تین قسموں میں بند کیا ہے۔ اعتقادی کفر' اعتقادی شرک اور اعتقادی نفاق۔ اب انہوں نے آگے چل کر اس اجمال کی تفصیل بیان کی ہے۔

اجمال کی تفصیل میں نواقض اسلام کی چار سو قسمیں بھی بیان کی جا سکتی ہیں ' اس میں ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ہمارا کہنے کا اصل مقصود یہ ہے کہ جس طرح أئمہ اربعہ وغیرہ نے قرآن وسنت کے اجمالات کی تشریحات کی ہیں اور بعد کے آنے والے زمانوں میں قرآن وسنت کے ان اجمالات کے ساتھ ساتھ أئمہ کی تشریحات کو مقدس نصوص کا درجہ دے دیا گیا بعینہ یہی کام ہمارے زمانے میں عقیدے کے مسئلے میں بھی ہوا۔ قرآن وسنت میں بعض عقائد اجمالی طور پر بیان ہوئے ہیں لہذا اصولا ً ان عقائد کو اجمالا ٍ ہی بیان کرناچاہیے جیسا کہ سلف صالحین کا منہج بھی یہی ہے۔ ہاں! ان اجمالی نصوص کی تشریحات بھی کی جا سکتی ہیں لیکن ان تشریحات کو جب مقدس کتابوں کی مانند سمجھا جانے لگے جیسا کہ امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی کتاب'نواقض اسلام' سے اختلاف کو ہمارے بعض سلفی بھائی قرآن وسنت سے اختلاف کی مترادف قرار دیتے ہیں' تو ایسی صورت میں متاخرین کی اس تقسیم کی بجائے سلف کی تقسیم کی طرف لوٹ جانا ازبس ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top