• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس سیکشن کا نام گرامر کی رو سے غلط ہے

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مغرب کے بعد چاند نظر آتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ رمضان شروع ہو گیا، یا ختم ہو گیا!
یوم کا آغاز مغرب سے ہو جاتا ہے!
یوم مرکب ہے رات اور دن سے اور روزہ صرف دن کا ہوتا ہے رات کا نہیں لیکن کوئی تغافل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اس سے یہ نہ سمجھ لے کہ جب روزہ رات کو نہیں ہوتا تو رات کو رمضان بھی نہیں ہوتا ہوگا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یوم مرکب ہے رات اور دن سے اور روزہ صرف دن کا ہوتا ہے رات کا نہیں لیکن کوئی تغافل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اس سے یہ نہ سمجھ لے کہ جب روزہ رات کو نہیں ہوتا تو رات کو رمضان بھی نہیں ہوتا ہوگا
بہرام صاحب !اب آپ کو بھی چلتی بس میں سوار ہونے کا بڑا شوق ہے!
(وبصوم غد نويت )
اس کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟ اسی مرکب پر جسے آپ نے دن اور رات کا مرکب بتلایا ہے!
اور یاد رہے کہ اردو میں بھی جب ہم کہتے ہیں دن بدل گیا ہے، تو وہ یوم کے مترادف ہی استعمال ہوتا ہے!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس سیکشن کا نام قواعد گرامر کی رو سے درست نہیں ہے۔
یا تو اہل سنت و جماعت ہونا چاہیے
یا
اہل السنت و الجماعت ہو۔
نیچے والے دونوں غلط ہیں:
اہل سنت و الجماعت
اہل السنت و جماعت
ویسے جس انداز سےآپ نے دیکھا ہے، اس طرح تو پھر ’’ اہل السنت والجماعت ‘‘ بھی غلط ہے ، اور صحیح ’’ اہل السنۃ والجماعۃ ‘‘ ہے ۔
عام طورپر ’’ اہل سنت والجماعت ‘‘ ہی لکھا جاتا ہے ، اس کو آپ عربی اصطلاح میں ’’ اشہر ‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں ، عربی کتابوں میں ایسے موقعوں پر عموما لکھا ہوتا ہے :
الأصح کذا والأشہر کذا ۔
(کیونکہ معطوف اور معطوف الیہ کا اعراب ایک جیسا ہوتا ہے)۔
آپ کی بات بجا ، لیکن یہاں مسئلہ اعراب کا نہیں ، بلکہ تعریف و تنکیر کا ہے ۔ اعراب کا تعلق کلمے کے آخر سے ہوتا ہے ۔ جبکہ یہاں مسئلہ کلمہ کے شروع سے متعلق ہے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
یوم مرکب ہے رات اور دن سے اور روزہ صرف دن کا ہوتا ہے رات کا نہیں لیکن کوئی تغافل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اس سے یہ نہ سمجھ لے کہ جب روزہ رات کو نہیں ہوتا تو رات کو رمضان بھی نہیں ہوتا ہوگا
بہرام بھائی! ”آج“ اور ”کل“ وغیرہ بھی تو رات اور دن سے مرکب ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ”آج“ یکم رمضان ہے تو اس ”آج والے یوم“ میں پہلے رات آئے گی پھر اس کے بعد دن آئے گا۔ یکم رمضان کے ایک ہی یوم (رات + دن) کے اندر اندر ”آج اور کل“ تو نہیں ہوسکتا نا کہ یکم رمضان کی رات کو ”آج“ اور آنے والے دن کو ”کل“ کہا جائے۔ سوچنے والا آئی کون

پس نوشت: یہ جواب برادرم @ابن داود کےمراسلہ نمبر 12 کو پڑھنے سے پہلے لکھا گیا تھا۔
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اُسی طرح ، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

4/86

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اُسی طرح ، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا (86)
86-4 اور جب تمھیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے ، تو تم اس سے اچھی سلامتی کی دعا دو، یا جواب میں وہی کہہ دو ۔ بےشک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کا پورا حساب کرنے والا ہے۔

اس کی تفسیر میں حافظ عبد السلام بھٹوی فرماتے ہیں :
اور ایک مصداق وہ ہے جو آیت کے صریح الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ جب کوئی شخص تمھیں سلام کہے تو اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو۔ تحیۃ۔ حیاۃ میں سے باب تفعیل کا مصدر ہے۔ زندگی کی یا سلامتی کی دعا دینا مراد سلام ہے۔
بہتر جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ ’’ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ‘‘ کے جواب میں ’’ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘ کا اضافہ اور ’’ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘ کے جواب میں ’’ وَ بَرَکَاتُہٗ ‘‘ کا اضافہ کردیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص یہ سارے الفاظ بول دے تو انھی کے ساتھ جواب دیا جائے۔ ’’ ومغفرتہ یا ورضوانہ ‘‘ وغیرہ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہر لفظ کے اضافے کے ساتھ دس نیکیاں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ [ أحمد : ٤؍٤٣٩، ٤٤٠، ١٩٩٧٠ ]
گویا کوئی شخص جتنا سلام کہے اتنا جواب دینا فرض ہے، زائد مستحب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

عن عمران بن حصين ، قال:‏‏‏‏ " جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ، فرد عليه السلام ، ثم جلس ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ عشر ، ثم جاء آخر ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ورحمة الله ، فرد عليه ، فجلس ، فقال:‏‏‏‏ عشرون ، ثم جاء آخر ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، فرد عليه ، فجلس ، فقال:‏‏‏‏ ثلاثون ".

جناب عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے ”السلام علیکم“ کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ“ کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اس کو بیس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ“ کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اسے تیس نیکیاں ملیں“۔
(سنن ابو داود ،حدیث نمبر: 5195 ) باب كيف السلام ، باب: سلام کس طرح کیا جائے؟
قال الشيخ الألباني: صحيح
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الاستئذان ۳ (۲۶۸۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۹، ۴۴۰)، سنن الدارمی/الاستئذان ۱۲ (۲۶۸۲)
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اس سیکشن کا نام قواعد گرامر کی رو سے درست نہیں ہے۔
یا تو اہل سنت و جماعت ہونا چاہیے
یا
اہل السنت و الجماعت ہو۔
نیچے والے دونوں غلط ہیں:
اہل سنت و الجماعت
اہل السنت و جماعت
(کیونکہ معطوف اور معطوف الیہ کا اعراب ایک جیسا ہوتا ہے)۔
اسے ٹھیک کر دیں
عربی کے قاعدے اردو میں نہیں چلتے؛یہ عنوان بالکل درست ہے؛تبدیل کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں؛آپ اردو املا سے نابلد محسوس ہوتے ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا (86)
86-4 اور جب تمھیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے ، تو تم اس سے اچھی سلامتی کی دعا دو، یا جواب میں وہی کہہ دو ۔ بےشک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کا پورا حساب کرنے والا ہے۔

اس کی تفسیر میں حافظ عبد السلام بھٹوی فرماتے ہیں :
اور ایک مصداق وہ ہے جو آیت کے صریح الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ جب کوئی شخص تمھیں سلام کہے تو اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو۔ تحیۃ۔ حیاۃ میں سے باب تفعیل کا مصدر ہے۔ زندگی کی یا سلامتی کی دعا دینا مراد سلام ہے۔
بہتر جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ ’’ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ‘‘ کے جواب میں ’’ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘ کا اضافہ اور ’’ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘ کے جواب میں ’’ وَ بَرَکَاتُہٗ ‘‘ کا اضافہ کردیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص یہ سارے الفاظ بول دے تو انھی کے ساتھ جواب دیا جائے۔ ’’ ومغفرتہ یا ورضوانہ ‘‘ وغیرہ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہر لفظ کے اضافے کے ساتھ دس نیکیاں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ [ أحمد : ٤؍٤٣٩، ٤٤٠، ١٩٩٧٠ ]
گویا کوئی شخص جتنا سلام کہے اتنا جواب دینا فرض ہے، زائد مستحب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

عن عمران بن حصين ، قال:‏‏‏‏ " جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ، فرد عليه السلام ، ثم جلس ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ عشر ، ثم جاء آخر ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ورحمة الله ، فرد عليه ، فجلس ، فقال:‏‏‏‏ عشرون ، ثم جاء آخر ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، فرد عليه ، فجلس ، فقال:‏‏‏‏ ثلاثون ".

جناب عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے ”السلام علیکم“ کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ“ کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اس کو بیس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ“ کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اسے تیس نیکیاں ملیں“۔
(سنن ابو داود ،حدیث نمبر: 5195 ) باب كيف السلام ، باب: سلام کس طرح کیا جائے؟
قال الشيخ الألباني: صحيح
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الاستئذان ۳ (۲۶۸۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۹، ۴۴۰)، سنن الدارمی/الاستئذان ۱۲ (۲۶۸۲)
ibne dawood bhai jab bhi ate hai salam karte hai ,, maine dekha koi jawab nahi de raha hai ()uspe maine jawab diya aur quran ki ayat likhi...bas yahi maqsad hai
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
بات گھوم گئ وہ نیت والا ہتھوڑا صحیح چل رہا تھا.
اہل سنت و جماعت کے متعلق دیکھنا پڑے گا کہ اردو کے فصحا کی زبانوں پر کیا رائج ہے
نیت پر اچھی گفتگو چل رہی تھی وہ جاری رہے تو مفید ہے
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا (86)
86-4 اور جب تمھیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے ، تو تم اس سے اچھی سلامتی کی دعا دو، یا جواب میں وہی کہہ دو ۔ بےشک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کا پورا حساب کرنے والا ہے۔

اس کی تفسیر میں حافظ عبد السلام بھٹوی فرماتے ہیں :
اور ایک مصداق وہ ہے جو آیت کے صریح الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ جب کوئی شخص تمھیں سلام کہے تو اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو۔ تحیۃ۔ حیاۃ میں سے باب تفعیل کا مصدر ہے۔ زندگی کی یا سلامتی کی دعا دینا مراد سلام ہے۔
بہتر جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ ’’ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ ‘‘ کے جواب میں ’’ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘ کا اضافہ اور ’’ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘ کے جواب میں ’’ وَ بَرَکَاتُہٗ ‘‘ کا اضافہ کردیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص یہ سارے الفاظ بول دے تو انھی کے ساتھ جواب دیا جائے۔ ’’ ومغفرتہ یا ورضوانہ ‘‘ وغیرہ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہر لفظ کے اضافے کے ساتھ دس نیکیاں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ [ أحمد : ٤؍٤٣٩، ٤٤٠، ١٩٩٧٠ ]
گویا کوئی شخص جتنا سلام کہے اتنا جواب دینا فرض ہے، زائد مستحب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

عن عمران بن حصين ، قال:‏‏‏‏ " جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ، فرد عليه السلام ، ثم جلس ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ عشر ، ثم جاء آخر ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ورحمة الله ، فرد عليه ، فجلس ، فقال:‏‏‏‏ عشرون ، ثم جاء آخر ، فقال:‏‏‏‏ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، فرد عليه ، فجلس ، فقال:‏‏‏‏ ثلاثون ".

جناب عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے ”السلام علیکم“ کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا، اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ“ کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اس کو بیس نیکیاں ملیں“ پھر ایک اور شخص آیا اس نے ”السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ“ کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ”اسے تیس نیکیاں ملیں“۔
(سنن ابو داود ،حدیث نمبر: 5195 ) باب كيف السلام ، باب: سلام کس طرح کیا جائے؟
قال الشيخ الألباني: صحيح
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الاستئذان ۳ (۲۶۸۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۹، ۴۴۰)، سنن الدارمی/الاستئذان ۱۲ (۲۶۸۲)
ابن داود بھائ جب آتے ہے سلام کرتے ہے لیکن کوئ جواب نہیں دیتا ہے تو میں نے جواب دیا اور قرآن کی ایت لکھی۔۔اب اردو میں لکھا
 
Top