• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس پوسٹ کی علمی تحقیق درکا ہے.

ّUsman Haidar

مبتدی
شمولیت
دسمبر 30، 2019
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
28
امام بخاری، امام مسلم، امام ترمزی، امام نسائی اور امام ابوداؤد ان پانچوں اماموں کے استادِ گرامی
عظیم امام
حضرت سیدنا امام اسحاق بن ابراہیم بن راھویہ رضي الله عنه فرماتے ہیں
قال :امام إسحاق بن إبراهيم بن راهويه رضي الله عنه لا يصح عن النبي صلى الله عليه و آله وسلم في فضل معاوية بن أبي سفيان شئ:
فضیلتِ معاویہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی بھی صحیح چیز ثابت نہیں:
( الشوكاني في/ الفوائد المجموعه ٤٠٧ )
( سير أعلام النبلاء/ ١٣٢ )
( الموضوعات لا بن الجوزي/٤/٣٦٤ )
۔
۔
۔
اہل علم کے لیے اتنے بڑے امام اعظم ،
امام اسحاق بن ابراہیم راھویہ رضی اللہ عنہ کا ہی قول کافی ہے مگر اسکے باوجود آئمہ اہلسنت کے مزید دلائل دیے جائیں گے
۔
۔
۔
اہلسنت کے عظیم امام
امام بدد الدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ
اپنی مایہ ناز کتاب ""عمدة القاري شرح صحيح بخاري، ج السادس عشر، كتاب فضائل صحابه/ باب ٣٠ ص ٣١٣""
میں نواصب کو للکارتے ہوئے یوں فرماتے
ہیں
فإن قلت قد ورود في فضيلة أحاديث كثيرة قلت، فهم ولكن ليس فيها حديث يصبح من طريقة الإسناد نص عليه امام إسحاق بن راهويه رضي الله عنه و امام النسائى رضي الله عنه وغيرهما فلذلك قال باب ذكر معاوية و لم يقبل فضيلة ولا مستقلة:
اگر تم نے یہ کہا کہ امیر معاویہ کے فضائل میں کثیر احادیث موجود ہیں تو میں جواب میں کہوں گا: جی ہاں لیکن ان احادیث میں سے سند کے اعتبار سے کوئی احادیث بھی صحیح نہیں ہے (یعنی احادیث من گھڑت ہیں) اور یہی بات امام اسحاق بن راھویہ امام نسائی اور دوسرے محدثین نے بھی کہی ہے:
۔
۔
۔
امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب الاللی مصنوعہ فی الحادیث الموضوعہ، ج 1 ص 424
وقال امام السيوطي: امام بخاري باب ذكر معاوية: لم يقل ولا منقبة، لأنه لم يصح في فضائله حديث كما قاله امام إسحاق بن إبراهيم بن راهويه:
امام بخاری نے ذکر معاویہ کے نام سے باب قائم کیا ہے فضائل معاویہ کا باب قائم نہیں کیا، کیونکہ فضائل معاویہ میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے امام اسحاق بن راھویہ کا بھی یہ ہی قول ہے:
۔
۔
۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا فرماتے
ہیں
أنبأنا هبة الله بن احمد الجريرى أنبأنا محمد بن علي بن الفتح أنبأنا الدارقطني ، حدثنا أبو الحسين عبد الله بن إبراهيم بن جعفر بن نيار البزاز ، حدثنا أبو سعيد بن الحرفي، حدثنا حضرت عبدالله بن احمد بن حنبل ، قال سألت أبي فقلت : ما تقول في علي رضي الله عنه ما و معاوية ؟
فاطرق ثم قال: إيش أقول فيهما أن عليا رضي الله عنه ما كان كثير الا عداء ففتشاعداوه له عيبا فلم يجدوا ، فجاء وإلى رجل قد حاربه و قاتله فاطروه كيادا منهم
له:
عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل سے کہا: ابا جان آپ سیدنا علی اور امیر معاویہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اسکے بعد انہوں نے سر جھکا لیا، پھر اٹھا کر فرمایا:بیٹا سیدنا علی کے کثیر دشمن تھے انکے دشمنوں نے انکے عیب تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے پھر یہ لوگ اس شخص (معاویہ) کی طرف ہوگئے جس نے ان سے جنگیں کیں پھر انہوں نے سازش کے تحت اسکے فضائل بڑھانا شروع کر
دیے:

امام ابن حجر عسقلانی امام احمد بن حنبل کا یہ قول لکھنے کے بعد اسکی تشریح یوں کرتے ہیں

قال امام الحافظ ابن حجر عسقلاني بعد هذا الكلام: فأشار بهذا إلى ما اختلقوه لمعاوية من الفضائل مما لا اصل له. وقد ورد في فضائل معاوية أحاديث كثيرة لكن ليس فيها ما يصح من طريق الإسناد، وبذلك جزم إسحق بن راهويه رضي الله عنه ما و النسائي و غير هما ، و الله اعلم.
اس سے امام احمد بن حنبل نے نے ان منگھڑت روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جو لوگوں نے فضائل معاویہ میں گھڑی تھیں، فضائل معاویہ میں بکثرت روایات وارد ہوئی ہیں لیکن ان میں کوئی روایت بھی ایسی نہیں جو صحیح ہو یہی امام اسحاق بن راھویہ، امام نسائی اور دوسرے علماء حدیث کا قول ہے۔
( ذکرہ ابن حجر االعسقلاني في فتح الباري، ١٠٤/٧ )
۔
۔
۔
جبکہ امام ابن جوزی اپنی کتاب الموضوعات، ج 2 ص 24 میں درج کرتے ہیں:
قال الحاكم سمعت أبا العباس محمد بن یعقوب بن یوسف یقول سمعت أبي یقول سمعت إسحق بن إبراھیم الحنظلي یقول ال یصح في فضل معاویة حدیث
امام حاکم نے بیان کیا ہے کہ میں نے ابو العباس محمد بن یعقوب بن یوسف سے سنا کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ انہوں نے امام الحدیث امام اسحاق بن اباہیم الحنظلی ( امام بخاری کے استاد) کو کہتے سنا کہ معاویہ کی فضیلت میں ایک صحیح روایت بھی نہیں ہے۔
۔
۔
۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد امام عبداللہ بن مبارک رضي الله عنه فرماتے ہیں
قال هاهنا قوم يسألون عن فضائل معاوية، وبحسب معاوية أن زيك كفانا :
یہ لوگ ہم سے معاویہ کے فضائل کے بارے میں پوچھتے ہیں جبکہ معاویہ کے لیے یہی کافی ہے کہ اسے نظر انداز کیا جائے ۔
(أنساب الإشراف جلد ١ ص ٥٦٤)
۔
۔
۔
امام بخاری، امام مسلم اور امام احمد بن حنبل کے استاد امام عبدالرزاق رحمتہ اللہ فرماتے ہیں
قال عبدالرزاق فذكر رجل معاوية: لا تقدر مجلسنا بذكر ولد ابو سفيان:
ہماری محفلوں کو ابو سفیان کے بیٹے (معاویہ) کے ذکر سے گندہ نہ کیا کرو (یعنی جھوٹے فضائل بیان نہ کیا کرو)
(میزان الا عتدال ، ج الثاني، ص 610)
(سیراعلام النبلاء، امام ذھبی ، ص 570)
۔
۔
۔
امام ملا علی قاری الحنفی رحمتہ اللہ علیہ
اپنی کتاب ""الا اخبار الموضوعات ص 100"" پر تحریر فرماتے ہیں ۔
ومن ذلك وضعه بعض جهله أهل السنة والجماعة في فضائل معاوية :
اُس زمانہ میں بعض جہل سنیوں نے فضائل معاویہ میں احادیث گھڑ لی تھیں:
۔
۔
۔
اہلسنت کی صحاح ستہ کی چھ کتب میں چوتھی کتاب
السنن نسائی کے مصنف امام نسائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
فسبئل بها عن معاوية ، وما جاء في فضائله،
فقال : لا يرضى راسأ برأس حتى يفضل : قال : فما زالوا يدفعون في حقيبة:
امام نسائی رضی اللہ عنہ سے فضائل معاویہ پر سوال کیا گیا تو امام نسائی نے کہا وہ دن قیامت کے خدا سے بچ گئے تو ہی بڑی بات ہے تم فضائل پوچھتے ہو:
("سیر أعلام النبلاء ،٣ / ص ١٣٢)
۔
۔
۔
امامِ اہلِ سنت امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ
نے تو ذور و ذبردستی کے باوجود اپنی کتاب میں امیر معاویہ کے فضائل کے سلسلے میں ایک حدیث بھی لکھنے سے انکار کردیا تھا امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 11 ص 409 میں لکھا ہے:
وقال أبوعبدالرحمن السلمي : دخلت على الحاكم رضي الله عنه ما وھو مختف من الكرامیة ال یستطیع یخرج منھم ، فقلت له : لو خرجت حدیثا في فضائل معاویة ألسترحت مما أنت فیه ، فقال: الیجئ من قبلي ال یجئ من
قبلي:
ابو عبدالرح ٰمن السلمی نے کہا کہ میں امام حاکم کے پاس اس وقت گیا جب وہ بنو امیہ کے مظالم سے چھپ رہے تھے اس وجہ سے وہ اپنے گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ معاویہ کی فضیلت میں کوئی حدیث گھڑ کر بیان کر دیں تو آپ بنو امیہ کے بادشاہوں کے ظلم و ستم کی صورتحال سے نکل آئینگے امام حاکم نے جواب دیا، کچھ بھی ہو جائے، میں ایسا ہر گز نہیں کرسکتا، میں ایسا ہر گز نہیں کرسکتا۔
۔
۔
۔
علمِ حدیث میں امیر المومنین مانے جانے والے
امام ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کی شرح کی
فتح الباری، ج 7 ص 104میں لکھا ہے:
عبر البخاري في ھذہ الترجمة بقوله ذكر ولم یقل فضیلة وال منقبة لكون الفضیلة ال تؤخذ من حدیث الباب قال لم یصح في فضائل معاویة شيء :
امام بخاری نے "ذکر معاویہ" کا نام سے باب قائم کیا ہے نہ کہ "فضائل معاویہ" یا ”مناقب معاویہ“ سے۔
کیونکہ معاویہ کے فضائل میں کوئی حدیث بھی صحیح سند سے ثابت نہیں:
۔
۔
۔
امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ
اپنی مایہ ناز کتاب ""کتاب الموضوعات ص 234"" میں لکھتے ہیں
لایصح عن النبی صلی الله عليه و آله وسلم في فضل معاوية بن أبى سفيان شئ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فضیلت معاویہ میں کوئی بھی صحیح چیز منقول نہیں:
۔
۔
۔
اہلِ سنت کے عظیم امام قاضی شوکانی اپنی کتاب فواید المجموعہ، ص 147 میں لکھتے ہیں:
امام ابن حبان کا قول ہے کہ معاویہ کی فضیلت میں تمام روایات موضوع یعنی شامیوں کی گھڑی ہوئی ہیں۔
(فواید المجموعہ، ص 147)
۔
۔
۔
محققِ اعظم امام ذھبی رحمة الله عليه اپنی مشہور کتاب
""سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 132""
امام ذھبی نے فضیلتِ معاویہ میں وارد تمام احادیث کو ص 126 سے 132 تک اکٹھا کیا اور آخر میں صفہ 132 پر فیصلہ دیا کہ فضیلتِ معاویہ میں موجود تمام احادیث منگھڑت ہیں
امام ذهبى لکھتے ہیں
ال یصح عن النبي صلى الله عليه و آله وسلم في فضل معاویة شيء:
معاویہ کی فضیلت میں رسول اللہ سے ایک بھی صحیح روایت موجود نہیں:

امام ذھبی کی کتاب سیر اعلام النبلاء کی کتاب کا لنک درج ذیل ہے
https://archive.org/stream/siar_noblaa/03#page/n126/mode/1up
۔
۔
۔
امام ابن قیم رحمة الله عليه اپنی کتاب
""المنار المنیف میں لکھتے ہیں کہ
لایصح عن النبی صلی الله عليه و آله وسلم في فضل معاوية بن أبى سفيان شئ:ومن ذلك وضعه بعض جهله أهل السنة والجماعة في فضائل معاوية :
فضائل معاویہ میں کچھ بھی صحیح نہیں، بعض جہل لوگوں نے فضائل معاویہ بن ابو سفیان میں احادیث گھڑ لیں تھیں:
۔
۔
۔
سحاح ستہ کی چھ کتب میں چوتھی کتاب السنن نسائی کے مصنف امام نسائی کے بارے میں لکھتے ہیں
امام ابن خلکان اپنی کتابوفیات العیان، ج 1 ص 77"" میں
""""امام ذھبی تذکرہ الحفاظ، 2/699 میں
""""امام مزی نے تهذيب الكمال ، 1/38 میں
لکھتے ہیں
قال الاما عبد الحي بن العماد الحنبلي في ترجمة النسائى ما : قال ابن خلكان في وفيات الاعيان: قال محمد بن إسحق الأصبهاني: سمعت مشايخنا بمصر يقولون: ان ابا عبد الرحمن النسائى فارق مصر آخر عمره و خرج إلى دمشق ، أسئلة عن معاوية وما روي من فضائلها
فقال : اما يرضى معاوية ان يخزج رأسا برأس حتى يفضل ، وفي رواية : ما اعرف له فضيلة الا : لا أشيع الله بطنه:

امام نسائی نے مصر کو اپنی آخری عمر میں چھوڑا تھا اور دمشق چلے گئے تھے، ان سے معاویہ کے فضائل میں پوچھا گیا امیر معاویہ کے ناصبی پیکروکاروں نے انہیں اپنے پیشوا معاویہ کے فضائل میں حدیث بیان کرنے کے انکار پر ان کے نازک اعضاء پر حملہ کر کے پھوڑ ڈالا اور اس طرح انہیں شہید کر ڈالا جبکہ وہ کہتے رہے کہ انہیں معاویہ کے متعلق صرف ایک ہی صحیح حدیث کا علم ہے جس میں رسول اللہ نے معاویہ کے پیٹ پر لعنت کی ہے۔
(امام نسائی نے شہید ہونا تو قبول کر لیا مگر فضائل معاویہ بیان نہ کیے یاد رہے کہ امام نسائی نے پیٹ نہ بھرنے والی جس روایت کا ذکر کیا اس روایت کو امام مسلم نے كتاب البر والصلة و الآداب میں نقل کیا، اسی روایت کو امام بہقی نے بھی نقل کیا)
۔
۔
۔
امام محمد طاہر الصدیقی الفتنی متوفی 986 ھ کے الفاظ
جو آج تک کی مشہور ترین شیعہ مخالف کتاب لکھنے والے امام ابن حجر مکی کے شاگرد ہیں وہ اپنی کتاب
تذکرة الموضوعات، ص 100 پر لکھتے ہیں:
ال یصح مرفوعا في فضل معاویة شئ
معاویہ کی فضیلت میں ایک بھی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں:
۔
۔
۔
اُس زمانہ میں جنابِ معاویہ کا سب سے بڑا ہمایتی جسے اس دور کے علماء نے ناصبی تک کہہ دیا
علامہ ابن تیمیہ بھی مانے بغیر نہ راہ سکے
وہ اپنی کتاب منہاج السنہ، ج 4 ص 400 میں اقرار کرتے ہیں :
وطائفة وضعوا لمعاویة فضائل ورووا أحادیث عن النبي صلى ہللا علیه وسلم في ذلك كلھا كذب :
لوگوں کی ایک جماعت نے معاویہ کے فضائل گھڑے اور اس سلسلے میں رسول اللہ سے احادیث منسوب کر دیں جو کہ سب کی سب جھوٹی ہیں۔
(آج کے ناصبی ابن تیمیہ کو بھی پیچھے چھوڑ گئے)
۔
۔
۔
امام شیخ اسماعیل متوفی 1162 ھ کتاب کشف الخفاء، ج 2 ص 420 میں لکھا ہے:
ال یصح عن النبي صلى الله عليه و آله وسلم في فضل معاویة شيء:
معاویہ کے فضائل میں ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں
۔
۔
۔
امام ابو الحسن الکنانی متوفی 963 ھ اپنی کتاب تنزیہ الشریعہ المرفوعہ، ج 2 ص 7میں لکھتے ہیں:
امام حاکم نے ابن جوزی کے طریق سے امام اسحاق بن راھویہ سے نقل کیا ہے کہ معاویہ کے فضائل میں رسول اللہ سے ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں۔
(تنزیہ الشریعہ المرفوعہ، ج 2 ص 7)
۔
۔
۔
امام عجلونی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
وقال امام العجلوني: وباب فضائل معاوية بن أبي سفيان ليس فيه حديث صحيح:
فمعاویہ بن ابی سفیان کے فضائل کے باب میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں ہے:
(العجلوني في كشف الخلفاء ومزيل الالباس ٥٦٥/٢)
۔
۔
۔
امام محمد فضل مالکی رحمتہ اللہ علیہ
اپنی کتاب " الفجر الساطع على الصحيح الجامع / ج ٢/ص ٩٣،٩٦ پر امام ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ سمیت دیگر آئمہ کے اقوال لکھنے کے بعد فیصلہ یوں دیتے
ہیں
وباب فضل معاوية ليس فيه حديث الصحيح:
فضائل معاویہ کے باب میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں:
۔
۔
۔
امام احمد بن اسماعیل الکورانی رحمتہ اللہ علیہ
اپنی کتاب " الكوثر الجاري إلى رياض شرح صحيح بخاري/ج٦/ص ٤٩٨ پر لکھتے ہیں
لم ينقل عن رسول الله صلى الله عليه و آله وسلم شيئا في مناقب معاوية:
نبی کریم سے مناقب معاویہ کوئی چیز بھی منقول نہیں:
۔
۔
۔
علامہ محمد طاہر پٹنی حنفی رحمتہ اللہ علیہ
اپنی کتاب " مجمع بحار الانوار / ج ٥/ ص ٢٢١ پر لکھتے ہیں
لا يصح مرفوعا في فضل معاوية شئ:
فضیلت معاویہ میں کوئی مرفوع چیز نہیں ہے:
۔
۔
۔
شیخ الحدیث علامہ زکریہ مدنی حنفی رحمتہ اللہ علیہ
اپنی کتاب "تشریحات بخاری / ج ٥/ص ٥١١ پر لکھتے
ہیں
امیر معاویہ کے مناقب میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں:
۔
۔
۔
برصغیر پاک و ہند کے محدث حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں
وقال الشيخ عبدالحق الدهلوي الحنفي: واعلم أن المحدثين قالو : لم يصح في فضائل معاوية حديث ، وكذا قال السيوطي:
جان لیجیے کہ محدثین اکرام نے فرمایا ہے کہ فضائل معاویہ میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں ہے اور امام سیوطی نے بھی ایسا ہی کہا ہے:
(في لمعات التنقيح شرح مشكاة المصابيح ٧٧٥/٩)
۔
۔
۔
ولی ابنِ ولی، شہزادہ اولیاء ، ولیِ کامل
حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ اللہ علیہ
اپنی مایہ ناز کتاب ""نام و نسب ص 114 سے ص 118 تک"" قوی دلائل دیتے ہیں کہ فضیلتِ معاویہ میں ایک بھی صحیح حدیث نہیں سب کی سب منگھڑت ہیں
قبلہ پیر صاحب کی کتاب کا لنک پیش خدمت ہے
کلک کریں کتاب سامنے آ جائے گی صفحات کھول کر پڑھ لیں ۔
https://www.scribd.com/document/348295878/Naam-O-Nasab-by-Peer-Naseer
۔
۔
۔
برصغیر پاک ہند کے مایہ ناز محدث
علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ علیہ کی مختصر رائے پیش خدمت ہے علامہ اپنی کتاب
"" سيرة النبى صلى الله عليه و آله وسلم ج ١ ص ٩٨ "" پر لکھتے ہیں
:حدیثوں کی تدوین بنو امیہ کے زمانہ میں ہوئی جہنوں نے پورے نوے برس تک سندھ، ایشیائے کوچک اور اندلس تک جامع مساجد میں آل فاطمہ رضی اللہ عنہ کی توہین کی اور جمعہ میں برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لعنت کروائی سینکڑوں ہزاروں احادیثیں امیر معاویہ کے فضائل میں بنوائیں عین اسی زمانہ میں محدثین نے منادی کروا دی کہ یہ سب احادیث من گھڑت ہیں:
۔
۔
۔
علامہ مجدالدین فیروز آبادی اپنی کتاب "سفر السعادة للفيروز آبادی/ص ١٤٣ پر لکھتے ہیں
وباب فضل معاوية ليس فيه حديث الصحيح:
فضائل معاویہ کے باب میں کوئی حدیث بھی صحیح نہیں:
۔
۔
۔
برصغیر پاک و ہند کے مشہور محدث
حضرت علامہ مولانا وحید الزمان اپنی کتاب
"" لغات الحدیث/ ص 400 "" پر لکھتے ہیں
معاویہ اور عمرو بن العاص دونوں نے خلیفہ راشد حضرت علی کے خلاف بغاوت کی اور یہ دونوں باغی، سرکش اور شریر تھے ان دونوں صاحبوں کے مناقب یا فضائل بیان کرنا ہر گز روا نہیں۔
۔
۔
۔
مجدد رواں صدی، امام العلم، شیخ الاسلام محمد طاہرالقادری صاحب کی گزشتہ دنوں آنے والی معروف
کتاب
""عظمت صحابیت اور خلافت کی حقیقت/ ص 183""
میں صدیوں پرانے آئمہ اہلسنت کے اقوال اور قوی دلائل سے ثابت کیا کہ فضائل امیر معاویہ میں کوئی ایک بھی حدیث صحیح نہیں بلکہ سب کی سب شامیوں کی گھڑی ہوئی منگھڑت احادیث ہیں:
نوٹ: یہ کتاب فلحال نیٹ پر دستیاب نہیں ہے ہاں البتہ اس کے دلائل والے صفحات میرے پاس موجود ہیں وہ کومینٹس میں دے دیے جائیں گے
۔
۔
۔
پاکستان کے مایہ ناز محدث اعظم
علامہ قاری ظہور احمد فیضی صاحب نے اس معاملہ میں مکمل کتاب لکھی اس کتاب کا نام ہے
"الموضوعات في الحديث المعاويه"
"فضیلت معاویہ میں منگھڑت حدیث"
اس کتاب کا مطالحہ ضرور کیجیے
۔
۔
۔
جناب معاویہ بن ابی سفیان کو فضیلت دینے والوں کو ناصبی (دشمن اہلبیت) کہا جاتا تھا جس طرح آج کل برصغیر پاک و ہند میں بعض لوگ فضائل معاویہ میں منسوب منگھڑت احادیث بیان کرتے ہیں

لہذا

امام ذھبی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب
"" سير أعلام النبلاء/ج ٣/ ص ١٣٨ ""
میں لکھتے ہیں
و خلف معاوية خلق كثير يحبونه و يتعالون فيه ويفضلونه اما قد ملكهم بالكرم والحلم والعطاء ، و اما قد ولدوا في الشام علي حبه ، وتري اولادهم علي ذالك وفيهم جماعة يسيرة من الصحابة ، وعدو كثير من التابعين والفضلا وحاريوا معه اهل عراق و نشو وا علي النصب
ونعوذ بالله من الهوى :
معاویہ کے پیچھے کثیر مخلوق ایسی رہی جو اس سے محبت کرتی تھی اس کے بارے میں غلو کرتی تھی اور اسے فضیلت دیتی تھی، یا تو اس لیے کہ انہوں (معاویہ) نے ان پر بے جا مال لٹایا اور نرمی سے بادشائی کی اور یا پھر اس لیے کہ وہ شام میں ان کی محبت پر پیدا ہوئے اور تربیت پائی، ان میں قلیل صحابہ تابعین و فضلا کی کثیر تعداد تھی جہنوں نے ان کے ساتھ مل کر اہل عراق (لشکر علی) سے جنگ کی تھی ان سب کی نشو نما ناصبیت (اہلبیت کی دشمنی) پر ہوئی
میں (ذھبی) خواہش نفس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتا ہوں :

امیر المومنین في حديث
امام ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب
فتح الباري، ج١٧ ،٦٢٦ لکھتے ہیں
وإنما هو وصف النواصب إتباع معاوية صفين:
نواصب ان لوگوں کا وصف ہے جہنوں نے جنگ صفین میں معاویہ کی پیروری کی:

امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ""البداية والنهاية، الجزء، السبع عشر ، ص ٣٧٠"" پر یوں لکھتے ہیں
وكلهم قد كان ناصبياً إلا الإمام عمر التقيا معاوية ثم ابنه يزيد وابن إبنه معاوى السديد:
معاويہ اور ان کا بیٹا یزید یہ سب کے سب ناصبی (دشمن اہلبیت) تھے سوائے عمر بن عبدالعزیز کے، اسکے بعد یزید کا بیٹا معاویہ بھی سچا انسان تھا:
(یاد رہے کہ یزید کے بیٹے کا نام بھی معاویہ تھا)
۔
۔
۔
اہم علمی بات :

فضائل معاویہ بیان کرنے والے اکثر لوگ عوام کو اس طرح گمراہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو فلاں فلاں کتاب میں جناب معاویہ کے مطلق احادیث موجود ہیں جس سے سادہ لو عوام وہ احادیث دیکھ کر گمراہ ہو جاتی ہیں اور سمجھ لیتی ہے کہ فضائل معاویہ میں تو بہت سی احادیث ہیں حالانکہ
حدیث کی اصل چیز اسکی " سند " ہوتی ہے
احادیث کی کتب میں موجود فضائل معاویہ میں احادیث کی کل سندیں ضعیف ہیں یہنی کے احادیث بیان کرنے والے لوگ جھوٹے تھے اور بنو امیہ کے بادشاہوں کو خوش کرنے کے لیے خود سے فضائلِ معاویہ میں احادیث گھڑ دیتے تھے جیسے کے امام حاکم کو بھی فضائل معاویہ حدیث گھڑنے کے لیے کہا گیا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا

یہی وجہ ہے صدیوں پہلے آئمہ نے منادی کرا دی کہ یہ تمام روایات سب کی سب جھوٹ پر مبنی ہیں

جب ان کے پاس اور کوئی دلیل نہیں ہوتی تو پھر یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں دیکھو برصغیر کا فلاں فلاں متاخر عالم کہہ رہا ہے کہ فضائل معاویہ میں احادیث موجود ہے
میں کہتا ہوں کہ برصغیر کے فلاں فلاں متاخر علماء کو چھوڑ کر صدیوں پہلے گزر جانے والے بڑے بڑے اماموں کی بات کو مانا جائے کیوں کہ برصغیر کے متاخر علماء کی انکے سامنے کیا علمی حثیت ہے۔
جتنے بھی دلائل مندرجہ بالا لکھے گئے ہیں اگر کوئی اصل کتاب سے انکا حوالہ لینا چاہتا ہے تو کومینٹس میں حوالہ جات مانگنے پر دیے جائیں گے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
شیخ ابو یحیی نورپوری حفظ اللہ نے اس کا مدلل جواب دیا ہے

آئمہ دین اور فضائل معاویہؓ



فضائل معاویہؓ غیر ثابت ؟

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے مناقب و فضائل

تحریر:حافظ شیر محمد

نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے کہ ((اول جیش من أمتي یغزون البحر قد أو جبوا)) میری امت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان (مجاہدین ) کے لئے (جنت) واجب ہے ۔ (صحیح البخاری: ۲۹۲۴)

یہ جہاد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کی خلافت) کے زمانے میں ہوا تھا۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ۶۲۸۲، ۶۲۸۳)

اور اس جہاد میں سیدنا معاویہؓ شامل تھے ۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ۲۷۹۹، ۲۸۰۰)


آپ فتحِ مکہ سے کچھ پہلے یا فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ۔واللہ اعلم

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا : میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے ہیں لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ ﷺ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا :((اذھب فادع لي معاویۃ)) وکان یکتب الوحي۔ إلخجاؤاور معاویہ کو بُلا لاؤ، وہ (معاویہؓ) وحی لکھتے تھے۔إلخ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۲۴۳/۲ و سندہ حسن)

معلوم ہوا کہ سیدنا معاویہؓ کاتبِ وحی تھے۔

حافظ ابن عساکر لکھتے ہیں:

“خال المؤمنین و کاتب وحي رب العالمین، أسلم یوم الفتح“مومنوں کے ماموں اور رب العالمین کی وحی لکھنے والے ، آپ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے ۔ (تاریخ دمشق ۳۸/۶۲)

جلیل القدر تابعی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھا، پھر ابن عباس(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا :
“أصاب إنہ فقیہ” انہوں نے صحیح کیا ہے ، وہ فقیہ ہیں۔ (صحیح بخاری: ۳۷۶۵)


اس روایت کے مقابلے میں طحاوی حنفی نے “مالک بن یحییٰ الھمداني (وثقہ ابن حبان وحدہ) : ثنا عبدالوھاب بن عطاء قال: أنا عمران بن حدیر” کی سند سے ایک منکر روایت بیان کی ہے ۔ (دیکھئے شرح معانی الآثار ۲۸۹/۱)

یہ روایت صحیح بخاری کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور طحاوی کا یہ کہنا کہ ابن عباسؓ نے “انھوں نے صحیح کیا ہے” بطورِ تقیہ کہا تھا، غلط ہے ۔

صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے لئے فرما یا : ((اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً واھد بہ)) اے اللہ ! اسے ہادی مہدی بنا دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔(سنن الترمذی: ۳۸۴۲ وقال : “ھٰذا حدیث حسن غریب” التاریخ الکبیر للبخاری: ۲۴۰/۵ ، طبقات ابن سعد ۴۸۷/۷ ، الآحادو المثانی لابن ابی عاصم ۳۵۸/۲ ح ۱۱۲۹، مسند احمد ۲۱۶/۴ ح ۱۷۸۹۵، وھو حدیث صحیح)

یہ روایت مروان بن محمد وغیرہ نے سعید بن عبدالعزیز سے بیان کر رکھی ہے اور مروان کی سعید سے روایت صحیح مسلم میں ہے ۔ (دیکھئے ۱۰۴۳/۱۰۸ و ترقیم دارالسلام : ۲۴۰۳)

لہٰذا ثابت ہوا کہ سعید بن عبدالعزیز نے یہ روایت اختلاط سے پہلے بیان کی ہے ۔ نیز دیکھئے الصحیحۃ (۱۹۶۹)

اُم علقمہ (مرجانہ) سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) مدینہ تشریف لائے تو (سیدہ) عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے رسول اللہ ﷺ کی چادر اور بال مانگا۔ پھر انہوں نے چادر اوڑھ لی اور بال پانی میں ڈبو کر وہ پانی پیا اور اپنے جسم پر بھی ڈالا۔ (تاریخ دمشق ۱۰۶/۶۲ و سندہ حسن، مرجانہ و ثقھا العجلی وابن حبان)

مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک وفد کے ساتھ معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کے پاس گئے تو انہوں (معاویہؓ) نے ان (مسورؓ) کی ضرورت پوری کی پھر تخلیے میں بلا کر کہا : تمہارا حکمرانوں پر طعن کرنا کیا ہوا؟ مسورؓ نے کہا : یہ چھوڑیں اور سلوک کریں جو ہم پہلے بھیج چکے ہیں۔ معاویہؓ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! تمہیں اپنے بارے میں بتانا پڑے گا اور تم مجھ پر جو تنقید کرتے ہو۔ مسورؓ نے کہا : میں نے ان کی تمام قابلِ عیب باتیں (غلطیاں) انہیں بتا دیں۔ معاویہؓ نے کہا : کوئی بھی گناہ سے بری نہیں ہے ۔ اے مسور ! کیا تمہیں پتا ہے کہ میں نے عوام کی اصلاح کی کتنی کوشش کی ہے ، ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ملے گا۔ یا تم گناہ ہی گنتے رہتے ہو اور نیکیاں چھوڑ دیتے ہو؟ مسورؓ نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! ہم تو انہی گناہوں کا ذکر کرتے ہیں جو ہم دیکھتےہیں۔ معاویہؓ نےکہا : ہم اپنے ہر گناہ کو اللہ کے سامنے تسلیم کرتے ہیں۔ اے مسور ! کیا تمہارے ایسے گناہ ہیں جن کے بارے میں تمہیں یہ خوف ہے کہ اگر بخشے نہ گئے تو تم ہلاک ہوجاؤ گے ؟ مسور نےکہا: جی ہاں ! ۔ معاویہؓ نے کہا : کس بات نے تمہیں اپنے بارے میں بخشش کا مستحق بنا دیا ہے اور میرے بارے میں تم یہ امید نہیں رکھتے ؟ اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ اصلاح کی کوشش کر رہا ہوں لیکن اللہ کی قسم ! دو باتوں میں صرف ایک ہی بات کو اختیار کرتا ہوں ۔ اللہ اور غیر اللہ کے درمیان صرف اللہ کو ہی چنتا ہوں ۔ میں اس دین پر ہوں جس میں اللہ عمل قبول فرماتا ہے ، وہ نیکیوں اور گناہوں کا بدلہ دیتا ہے سوائے اس کے کہ وہ جسے معاف کر دے۔ میں ہر نیکی کے بدلے یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ مجھے کئی گنا اجر عطا فرمائے گا ۔ میں ان عظیم امور کا سامنا کر رہا ہوں جنہیں میں اور تم دونوں گن نہیں سکتے۔ میں نے اقامتِ صلوٰۃ کا نظام ،جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کے نازل کردہ احکامات کا نظام قائم کر رکھا ہے اور ایسے بھی کام ہیں اگر میں انہیں تمہیں بتادوں تو تم انہیں شمار نہیں کر سکتے ، اس بارے میں فکر کرو۔مسورؓ فرماتے ہیں کہ میں جا ن گیا کہ معاویہ ؓمجھ پر اس گفتگو میں غالب ہوگئے۔ عروہ بن الزبیرفرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی نہیں سنا گیا کہ مسور (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی کبھی مذمت کی ہو۔ وہ تو ان کے لئے دعائے مغفرت ہی کیا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد ج ۱ص ۲۰۸، ۲۰۹ ت ۴۹ و سندہ صحیح)

امام جعفر الصادق نے “قاسم بن محمد قال قال معاویۃ بن أبي سفیان” کی سند سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں آیا ہے کہ قاسم بن محمد (بن ابی بکر ) نے فرمایا : “فتعجب الناس من صدق معاویۃ“ پس لوگوں کو معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی سچائی پر بڑا تعجب ہوا ۔ (تاریخ دمشق ۱۱۵/۶۲ و سندہ حسن)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ امیر معاویہؓ لوگوں کے نزدیک سچے تھے۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا : “ما رأیت رجلاً کان أخلق یعني للملک من معاویۃ” میں نے معاویہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد) کوئی نہیں دیکھا۔ (تاریخ دمشق ۱۲۱/۶۲ و سندہ صحیح، مصنف عبدالرزاق ۴۵۳/۱۱ ح ۲۰۹۸۵)

عرباض بن ساریہ السلمیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((اللھم علّم معاویۃ الکتاب و الحساب ، وقہ العذاب))اےمیرے اللہ ! معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اسے عذاب سے بچا۔(مسند احمد ۱۲۷/۴ ح ۱۷۱۵۲، و سندہ حسن ، صحیح ابن خزیمہ : ۱۹۳۸)

(حارث بن زیاد و یونس بن سیف صدوقان لا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن و الجرح فیہما مردود )

امیر معاویہؓ ساٹھ ہجری (۶۰؁ھ) میں فوت ہوئے ۔صحابۂ کرام ؓ کے درمیان اجتہادی وجوہ سے جو جنگیں ہوئیں ان میں سکوت کرنا چاہئے۔

امام اہل سنت احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:

جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کو برا کہتا ہے تو اس کے اسلام پر تہمت لگاؤ۔ (مناقب احمد لابن الجوزی ص ۱۶۰ و سندہ صحیح، تاریخ دمشق ۱۴۴/۶۲)

امام معافی بن عمران الموصلیؒ (متوفی ۱۸۵؁ھ) سے امیر معاویہؓ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے ساتھ کسی کو بھی برابر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ معاویہؓ آپﷺ کے صحابی، ام المؤمنین ام حبیبہؓ کے بھائی، آپ ﷺ کے کاتب اور اللہ کی وحی (لکھنے) کے امین ہیں۔ (تاریخ بغداد ۲۰۹/۱ و سندہ صحیح، الحدیث: ۱۹ ص ۵۷، تاریخ دمشق: ۱۴۳/۶۲)

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا :“من تنقص أحداً من أصحاب رسول اللہ ﷺ فلا ینطوی إلا علیٰ بلیۃ، ولہ خبیئۃ سوء إذا قصد إلیٰ خیر الناس وھم أصحاب رسول اللہ ﷺ” جو شخص رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک کی تنقیص کرے تو وہ اپنے اندر مصیبت چھپائے ہوئے ہے ۔ اس کے دل میں برائی ہے جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر حملہ کرتا ہے حالانکہ وہ (انبیاء کرام علیہ السلام کے بعد ) لوگوں میں سب سے بہترین تھے۔ (السنۃ للخلال ۴۷۷/۲ ح ۷۵۸ وقال المحقق: إسنادہ صحیح)

ابراہیم بن میسرہ الطائفیؒ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے جس نے معاویہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو گالیاں دی تھیں، انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے۔ (تاریخ دمشق ۱۴۵/۶۲ و سندہ صحیح)

نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث : ۲۶ ص ۲۸،۲۷

مسند بقی بن مخلد میں امیر معاویہؓ کی بیان کردہ ایک سو تریسٹھ (۱۶۳) حدیثیں موجود ہیں۔ دیکھئے سیر اعلام النبلاء (۱۶۲/۳)
امیر معاویہ سے جریر بن عبداللہ البجلی ، السائب بن یزید الکندی ، عبداللہ بن عباس، معاویہ بن حدیج اور ابوسعید الخدری وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعینابو الشعثاء جابر بن زید، حسن بصری، سعید بن المسیب ، سعید المقبری، عطاء بن ابی رباح، محمد بن سیرین، محمد بن علی بن ابی طالب المعروف بابن الحنفیہ، ہمام بن منبہ اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف وغیرہ تابعین رحمہم اللہ نے روایت بیان کی ہے ۔ (دیکھئے تہذیب الکمال ۲۰۲،۲۰۱/۱۸)
اہل السنۃ و الجماعۃ کے نزدیک تمام صحابہ عادل (روایت میں سچے) ہیں۔ (اختصار علوم الحدیث لابن کثیر ۴۹۸/۲)

ان کے درمیان جو اجتہادی اختلافات اور جنگیں ہوئی ہیں ، ان میں وہ معذور و ماجور ہیں اور ہمیں اس بارے میں مکمل سکوت کرنا چاہئے۔

اے اللہ ! ہمار ے دلوں کو تمام صحابہ کی محبت سے بھر دے اور ان کی توہین و تنقیص سے بچا۔ آمین ۔ رضي اللہ عنھم أجمعین
 
Top