• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اشتہارات پر نام کے ساتھ اللہ یا محمد لکھنا لازم ہے کیا؟

شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
مجھے معلوم نہیں کہ اس معاملے پر پہلے بھی کوئی پوسٹ ہوئی ہے یا نہیں۔ اور مجھے متفرقات کے علاوہ کوئی مناسب جگہ بھی نہیں ملی اس پوسٹ کے لیے۔
انتخابی عمل کے دوران ہر شہر گاؤں محلے گلی وغیرہ میں امیدواروں کے پوسٹر اسٹیکرز اور بینرز وغیرہ آویزاں و چسپاں نظر آتے ہیں اس مرتبہ بھی یہ عمل دھرایا گیا ہے۔ مجھے اشتہاری مہم پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ہر امیدوار نے اپنے پوسٹر اسٹیکر یا بینرز میں کہیں نہ کہیں اللہ یا محمد کا لفظ لازمی لکھا ہے۔ شاذ ہی ہو کہ کوئی پوسٹر بینر یا اسٹیکر اس سے مبرا ہو۔ اب جب کہ انتخابی عمل بھی مکمل ہو چُکا ہے تو گلیوں میں ان پوسٹرز اسٹیکرز یا بینرز کے ٹکڑے ادھر ادھر بھٹکتے نظر آتے ہیں۔ یقین مانیے روزانہ باہر جاتے وقت نظریں گلی میں ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں کہ کہیں کوئی کاغذ ایسا نہ پڑا ہو جس پر اسماء مبارک موجود ہوں۔ اگر نظر آتا ہے تو اُٹھا کر فوری طور پر کسی مناسب اونچی جگہ رکھ لیتا ہوںیا سنبھال لیتا ہوں اور بعد میں اکٹھے کاغذوں کا صاف بہتے پانی میں بہا دیتا ہوں۔ ایسا میں ہی نہیں کرتا بہت سے اور لوگ بھی کرتے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کی تعداد کم ہے اور اشتہارات لگانے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ان اشتہارات پر اگر اسماء مبارکہ لکھنے اتنے ہی لازم ہیں تو بعد ازاں ان کو بے حرمتی کے لیے یوں نہ چھوڑا جائے۔ بہت سے کاغذ نالی میں گر کر گٹر میں بھی چلے جاتے ہوں گے۔ اس بارے میں کیا ملک گیر مہم نہیں چلائی جا سکتی؟ کیا ہم لوگ اتنے بے حس ہو چُکے ہیں کہ اسماء مبارکہ کی بے حُرمتی کو خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں؟ اس بارے میں اجتماعی طور پر لائحہ عمل کون بنائے گا؟ اس سارے معاملے کا حل کیا ہوگا؟ تمام ساتھیوں سے قابل عمل تجاویز کی توقع کے ساتھ یہ پوسٹ کر رہا ہوں۔
جزاک اللہ خیرا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
یہی حال عید میلاد پر بھی ہوتا ہے، اب تو ہر جھنڈے میں کلمہ شہادت بھی لکھا ہوتا ہے، اور میلاد ختم ہونے پر یہ جھنڈے سڑک یا گندی جگہوں پر پڑے نظر آتے ہیں، اور جو جھنڈے چھتوں پر لگے ہوتے ہیں وہ تو اپنے آپ ہی موسم کا ایسا شکار ہوتے ہے کہ پوچھئے مت. الله ہمیں ہدایت دے آمین
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ہم بھی جب پاکستان میں تھے تو ایسا ہی حال ہوتا تھا مگر جب الامارت آئے تو وہاں ایک نئی چیز دیکھی، گھر عرب کا ہو یا کسی پاکستانی کا کھانے کے وقت دسترخوان کا استعمال ھے مگر بہت ہی کم، زیادہ تر دسترخوان کی زینت عربی اخبارات ہی بنتے ہیں۔ اس پر ایک مرتبہ عرب نیشنل کو پوچھا کہ اخبار پورا اللہ کے نام سے بھرا ہوا ھے اور آپ اسے استعمال کے بعد بن میں ڈال دو گے کیا یہ بےادبی نہیں تو جواب ملا کہ بن صاف ہوتی ھے اور پھر ان اخبارات کے کاغذ کو دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ھے۔

انگلینڈ میں پاکستانیوں کے گھروں میں ٹیبل یا دسترخوان کا استعمال ھے اور اگر کبھی مسجد میں کھانے کا اہتمام ہو یا کوئی پارٹی وغیرہ تو اس پر کاغذ کے بڑے رول ملتے ہیں انہیں دسترخوان کے لئے استعمال میں لایا جاتا ھے۔

والسلام
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
ہم نے تو کہیں قرآن پاک کو پیروں کے درمیان رکھ کر پڑھتے ہوئے دیکھا ہے
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریاکا ہمارے جو اترنا دیکھے

 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
عابد بھائی وعلیکم سلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور میں نے بہت سے گھروں میں قرآن پاک رنگین مخملی غلافوں میں دیکھا ہے جن پر مٹی جمی ہوتی ہے کہ مدت سے کھولا ہی نہیں گیا۔
خیر اصل معاملے سے بات ہٹتی جا رہی ہے سوال یہ ہے کہ اسمائے مبارکہ کو اشتہاروں پر چھاپنے سے کیسے روکا جائے۔ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
یہ کام علماء حضرات کو کرنا چاہئے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت و احترام کو اجاگر کریں مساجد میں دوران تقریراور دیگر موقعوں پر
میں خاص کر دو کام کرتا ہوں
مدرسے میں بچوں کو قرآن پاک کے احترام اور اسلامی کتابوں کے پرانے اوراق کی تعظیم اور ان کو حفاظت سے رکھنے کی تاکید اور اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں ایسا ہی ہے کہیں کہیں کچھ بد احتیاطی اسکول کے فارغین یا الٹرا ماڈرن حضرات کر جاتے ہیں اگر ان کو ایسا کرتے ہوئے کوئی عالم یا دیندار مسلمان دیکھ لیتا ہے تو فوراً آگاہ کیا جاتا ہے اور توجہ دلائی جاتی ہے اس کی مالداری سے مرعوب نہیں ہوتے
دوسرا کام یہ ہونا چاہئے بچوں کو گھر پر دینی تعلیم نہیں دلوانی چاہئے اور نہ ہی کسی عالم کو گھروں پر جاکر پڑھانا چاہئے۔میرا تجربہ ہے کہ بگاڑ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ایک تو بچوں کے دلوں سے عالم کا وقار اور احترام ختم ہوجاتا ہے اور پھر استاذ پر بھی کچھ مرعوبیت سوار ہوتی ہے اس لیے وہ بچوں کو روک ٹوک کرتے ہوئے ڈرتے ہیں یا محتاط رہتے ہیں۔اور بھی کئی باتیں ہیں جو صرف گھروں پر جا کر پڑھانے سے پیدا ہوتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
یقین مانیے روزانہ باہر جاتے وقت نظریں گلی میں ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں کہ کہیں کوئی کاغذ ایسا نہ پڑا ہو جس پر اسماء مبارک موجود ہوں۔ اگر نظر آتا ہے تو اُٹھا کر فوری طور پر کسی مناسب اونچی جگہ رکھ لیتا ہوں یا سنبھال لیتا ہوں اور بعد میں اکٹھے کاغذوں کا صاف بہتے پانی میں بہا دیتا ہوں۔

سائل: اسلام علیکم
قرآنی اور مقدس اوراق بے ادبی نہ ہو اس وجہ سے جو لوگ دریا اور سمندر میں ڈال دیتے ہیں ، ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
کیا ایسا ہی کرنا چاہیئے ؟
ایک رپورٹ کے مطابق وہ اوراق دریا اور سمندر سے نکل کر گندی نالیوں اور گٹر میں چلے جاتے ہیں جہان انسان و جانور کا فضلہ ان کی شدید بے حرمتی کا باعث بنتا ہے اور پھر ایسے وقت میں کؤی انسان ان اوراق کو ہاتھ تک لگانا پسند نہیں کرتا۔ ( یہ ساری رپورٹ وڈیو کی صورت میں میڈیا دکھا جکا یے )
اب پوچھنا یہ یے کہ کیا اس طرح کی بے حرمتی کو مدِ نظر رکتھے ہوءے قرآنی یا مقدس اوراق کو جلایا جا سکتا ہے ؟ اور اس کی راکھ کو کچرے یا پانی میں ڈالا جا سکتا یے‌؟
اگر جواب نہیں میں ہے تو یہ بتایا جائے کہ اُن اوراق کا کیا کیا جائے ؟

شیخ رفیق طاہر:آپکے سوال کا جواب ہاں میں ہے , تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بھی قرآن اوراق کو جلایا تھا , جلانے سے قرآنی الفاظ مٹ جاتے ہیں اور وہ کالعدم ہو جاتے ہیں لہذا انکی راکھ کو کسی بھی جگہ پھینکا جا سکتا ہے , اور انہیں بے حرمتی سے محفوظ رکھنے کے لیے اور کوئی مؤثر طریقہ کار بھی نہیں ہے , دریا میں بہانے یا دفنا دینے سے بھی یہ بے حرمتی سے نہیں بچ سکتے
سائل: جزاک اللہ خیر شیخ و اُستادِ محترم
اس کا حوالہ دی دیں کہ تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بھی قرآن اوراق کو جلایا تھا ؟
کیونکہ دیوبندی و بریلوی ایسا کرنے کے سخت خلاف ہیں ۔۔۔۔
شیخ کفایت اللہ:
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ، قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ، وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ العِرَاقِ، فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلاَفُهُمْ فِي القِرَاءَةِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الأُمَّةَ، قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الكِتَابِ اخْتِلاَفَ اليَهُودِ وَالنَّصَارَى، فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ: «أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي المَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ» ، فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ، فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ العَاصِ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي المَصَاحِفِ "، وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ القُرَشِيِّينَ الثَّلاَثَةِ: «إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ» فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي المَصَاحِفِ، رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ، وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ القُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ، أَنْ يُحْرَقَ
[صحيح البخاري 6/ 183 رقم 4987 ]
صحابی رسول انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حزیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ اہل شام و عراق کو ملا کر فتح آرمینۃ و آذربائیجان میں جنگ کر رہے تھے قرآت میں اہل عراق و شام کے اختلاف نے حضرت خزیفہ کو بے چین کردیا چنانچہ حضرت حزیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے امیرالمومنین! اس امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب میں اختلاف کرنے لگیں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو کہلا بھیجا کہ تم وہ صحیفے میرے پاس بھیج دو ہم اس کے چند صحیفوں میں نقل کرا کر پھر تمہیں واپس کردیں گے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ صحیفے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیئے عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن عاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا تو ان لوگوں نے اس کو مصاحف میں نقل کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں قریشیوں سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کہیں (قرآت) قرآن میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو اس لئے کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ جب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کرلیا گیا تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ صحیفے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھجوا دیئے اور نقل شدہ مصاحف میں سے ایک ایک تمام علاقوں میں بھیج دیئے اور حکم دے دیا کہ اس کے سوائے جو قرآن صحیفہ یا مصاحف میں ہے جلا دیا جائے ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
کیونکہ دیوبندی و بریلوی ایسا کرنے کے سخت خلاف ہیں
یہ دیوبندیوں پر اتہام ہے
سنئے دیوبندی کیا کرتے ہیں دیوبندی اگرکسی کاغذ پر لفظ محمد (ﷺ) یا رحمٰن وغیرہ شخصی نام کے ساتھ ہو یا بغیر کسی نام سے جڑاہوا ہو کسی اخبار میں لکھا ہوا ہو یا رسالہ کے ورق پر اس کو احترام سے رکھتے ہیں اور کسی جگہ اکٹھا کر لیتے ہیں اور پھر ان کو یا جلا کر اس طور پر کہ اس کی راکھ بھی نہ اڑے پانی کا چھینٹا دے کر اس راکھ کو جمع کرلیتے ہیں کہیں محفوظ جگہ پر دفن کر دیتے ہیں جہاں کسی کے پیر نہ پڑتے ہوں کچھ دنوں کے بعد راکھ مٹی بن جاتی ہے
یا پھر اس راکھ کو دریا میں بہا دیتے ہیں
یا پھر ان اوراق کو کسی کنویں میں ڈال دیتے ہیں جس کا پانی سوکھ گیا ہو اور وہاں گندگی وغیرہ نہ ڈالی جاتی ہو جنگل وغیرہ میں اس طرح کے کنویں ہوا کرتے تھے اب نہیں ملتے تو اب یہ کیا جاتا ہے ان اوراق کو کسی گہرے گڈھے میں بصد احترام دفن کردیا جاتا ہے کچھ دنوں بعد ان کی بھی مٹی بن جاتی ہے۔لیکن جلاکر دفنادینا زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم

یہ دیوبندیوں پر اتہام ہے
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
سائل کے سوال کا حصہ ہے اس لیے جوں کا توں ارسال کردیا۔ وضاحت کرنے کا شکریہ۔ جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
جن علاقوں میں نہری نظام موثر ہے وہاں عموما مدارس دینیہ بوسیدہ اوراق پانی کے مٹکوں میں ڈال کر اس اس میں بھاری پتھر وغیرہ رکھ کر بیچ نہر میں رکھ دیتے ہیں، اس طرح اوراق گل جاتے ہیں۔
جہاں یہ سہولت نہیں یا نہر یا سمندر میں بے ادبی کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں اوراق کو جلاکر اس کی راکھ دفن کردیتے ہیں۔
آج کل بوسیدہ اوراق کی Recycling ہوتی ہے یعنی انہی اوراق کومشین کے ذریعے پگھلا کر دوبارہ اوراق کا کاغذ بنادیا جاتا ہے یا اسے قرآن و احادیث یا دینی کتب کا گتہ بنادیا جاتا ہے۔ یہ تو ظاہر ایسی کوشش بڑے پروگرام کا حصہ ہے،
لیکن گھروں میں جو ردی کاغذ ہوتا ہے اس کی بھی Recycling ہوتی ہے لیکن اس سے ہر قسم کا Paper Or Carton بنایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا قرآنی اوراق یا دینی صفحات کو ایسے ردی میں دیا جانا مناسب ہوگا۔ اور اس سے جو پیپر وغیرہ بنایا جاتا ہے اور اسے مختلف چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے، کیا اس کا استعمال جائز ہوگا۔
 
Top